قرآن اور علمِ جدید (یونی کوڈ فارمیٹ)
ڈارون (نظریۂ ارتقاء)
الحاد کی جڑ
ڈارون کا نظریۂ ارتقاء مغرب کے تمام کافرانہ فلسفیانہ نظریات سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ انیسویں صدی کی مادیت کا سب سے پہلا ثمر ہے جس نے بعد کے بہت سے فلسفیانہ نظریات کو متأثر کیا ہے ۔ انیسویں صدی میں سائنس دانوں کے اس عقیدہ کی وجہ سے کائنات میں فقط مادہ ہی ایک حقیقی چیز ہے۔ علمی حلقوں میں مذہب اور روحانیت کے خلاف ایک زبردست جذبہ کارفرما ہو گیا تھا۔ اور لہٰذا علماء کا دستور بن گیا تھا کہ حقائق کی روحانی توجیہہ کو غیر علمی اور مذہبی تعصب اور تنگ نظری کا نتیجہ قرار دیتے تھے۔
ڈارون کا نظریہ اسی ذہنی رجحان سے پیدا ہوا اور اس نے وجود میں آنے کے بعد اس رجحان کو اور بھی طاقتور کر دیا۔ کیونکہ اس نے ایک دفعہ پھر ثابت کر دیا کہ حقائقِ عالم کی تشریح کے لیے خدا اور روح کی ضرورت کہیں پیش نہیں آتی اور مادی قوانین کا بے ساختہ عمل ان سب کی تشریح کے لیے کافی ہے۔
نظریۂ ڈارون کے نتائج
سچ بات تو یہ ہے کہ مغرب کے فلسفیوں میں لامذہبیت اور دہریت کا جس قدر مواد اس وقت موجود ہے وہ ڈارون ہی کے نظریہ کی پیداوار ہے۔ یہ کلیہ بالخصوص کارل مارکس ‘ میکڈوگل‘ فرائڈ‘ ایڈلر اور مکیاولی کے نظریات پر حاوی ہے۔ گو مغربی فلسفوں میںبعض وقت ڈارون کے نظریہ کی براہِ راست خوشہ چینی کا کوئی نشان موجود نہ۔لیکن جس طرح سے یہ ایک حقیقت ہے کہ مغربی حکماء کے فکر نے بالعموم ایک ایسی راہ اختیار کی ہے جو مذہب اور روحانیت سے بالکل برعکس سمت میں جاتی ہے اسی طرح سے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس کا بڑا سبب ڈارون ہی کی انگشت نمائی ہے اگر یہ فلسفے ڈارون کے نظریہ سے براہِ راست متاثر نہیں تو اس سے بالواسطہ طور پر گہری طرح سے متأثر ہیں۔ ان سب کی بنیاد اس عقیدہ پر ہے کہ انسان ایک ترقی یافتہ حیوان ہے اور گو یہ عقیدہ براہِ راست حیاتیات سے تعلق رکھتا ہے ۔ لیکن اس کے نتائج حیاتیات کے دائرہ سے نکل کر انسانی نفسیات کے دائرہ میں پہنچ جاتے ہیں۔
ڈاکٹر رڈلف آٹو لکھتا ہے:
نیچریوں کے دو گروہ
’’یہ ڈارونزم ہی کا اثر ہے کہ انسان اور حیوان کے شعور کی مماثلت کو ایک امربدیہی سمجھ لیا گیا ہے اور انسان کی ذہنی اور جسمانی ساخت کو حیوان کی ذہنی اورجسمانی ساخت کی ترقی یافتہ صورت قرار دیا گیا ہے۔ یہ قرار دیتے ہوئے دوطریقے اختیار کیے جاتے ہیں جو ہر حالت میں ایک دوسرے کو کالعدم کر دیتے‘ہیں۔
پہلا گروہ: مادیین کا ایک گروہ تو وہ ہے جو حیوان کو انسان کی سطح پر لاتا ہے۔ یہ لوگ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ حیوان انسان سے مماثلت رکھتا ہے۔ انسانی شخصیت کی بلند ترین اور اعلیٰ ترین خصوصیات ذہنی قویٰ‘ عقل‘ غور و فکر‘ تصور‘ ترکیب‘ تخیل‘ قوتِ امتیاز و فیصلہ نکتہ سنجی‘ تجربہ سے سیکھنے کی قوت اور قوتِ ارادی کے علاوہ اخلاقی‘ سماجی اور سیاسی صلاحیتیں‘ حسن و جمال کے احساسات ‘ بلکہ مذہبی جذبات کو بھی ہاتھیوں ‘ بندروں اور کتوں حتیٰ کہ چیونٹیوں اور مکھیوں میں ثابت کر کرکے ان کی تعریف و تحسین کے پل باندھتے ہیں اور یہ نیچری پرانی طرز کی تشریحات کو ‘جو جبلت کی بنا پر کی جاتی ہیں‘ ناپسند کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اعلیٰ‘ ادنیٰ کے اندر پہلے ہی موجود ہے۔
دوسرا گروہ: ان کا دوسرا گروہ وہ ہے جو انسان کو حیوان کی سطح پر لاتا ہے۔ یہ لوگ اصرار کرتے ہیں کہ انسان حیوان سے مماثلت رکھتا ہے وہ عقل کی تشریح حس و ادراک سے کرتے ہیں اور قوتِ ارادی کو خواہش سے اور اخلاقی اور اجمالی اقدار کو سابقہ عضویاتی کیفیتوں اور خالص حیوانی نفسیاتی اعمال سے اخذ کرتے ہیں۔ حاصل یہ کہ وہ ادنیٰ کو اعلیٰ کے اندر موجود پاتے ہیں۔
ایک غلط نتیجہ:غرض یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ ’’نفس اور روح کا ماخذ اور ارتقاء تسلی بخش طور پر معلوم ہو گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی اس بات کا ایک اور ثبوت مہیا ہو گیا ہے کہ اس کا انحصار مادہ پر ہی ہے کیونکہ جو اصول جسم انسانی کے تمام دوسرے اعضاء کی صورت (مثلاً ہڈیوں کے ڈھانچہ ‘دورانِ خون کے نظام اور رودئہ مستقیم کی صورت میں) درست ہے کہ وہ نہایت ہی ادنیٰ حالت سے ترقی کر کے اعلیٰ حالت تک پہنچے ہیں اور ان کے ارتقاء کے تمام مراحل ثابت کیے جا سکتے ہیں۔ وہی اصول نظامِ عصبی کی صورت میں بالعموم اور دماغ کی صورت میں بالخصوص درست ہے گویا دماغ بھی حجم اور ساخت کی پیچیدگی میں ترقی کرتا جاتا ہے اور جوں جوں اس کی ترقی ہوتی جاتی ہے‘ ذہنی قویٰ کامل تر ہوتے جاتے ہیں حتیٰ کہ یہاں بھی یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ کہ نفس یا روح‘ مادہ ہی کی ایک صورت اور اسی کی نشووارتقاء کا ایک نتیجہ ہے‘‘۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک ڈارون کے نظریہ کی غلطیوں کو آشکار نہ کیا جائے اور اس کے درست اور صحیح عناصر کو ان کی مناسب جگہ پر نہ رکھا جائے مغرب کے فلسفیانہ نظریات کی عمارت منہدم نہیں ہو سکتی۔ ڈارون کے نظریہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے:
نظریۂ ڈارون کے دو حصے
اوّل : حقیقت ِ ارتقاء‘ یعنی یہ کہ ارتقاء فی الواقع ہوا ہے اور زندگی کی اعلیٰ حالتیں ادنیٰ حالتوں سے متواتر ہوتی رہتی ہیں۔
دوم : سبب ِارتقاء ‘ کہ ارتقاء کا سبب قدرت کی بے مقصد کارروائیاں ہیں جنہیں ڈارون کشمکشِ حیات اور قدرتی انتخاب اور بقائے اصلح کا نام دیتا ہے۔
دونوں کا فرق
نظریہ کے یہ دونوں حصے ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم نہیں۔ اگر پہلا درست ہو تو ضروری نہیں کہ دوسرا حصہ بھی درست ہو اگر ہم ایک فعل یا عمل کے وقوع کا علم رکھتے ہوں تو ضروری نہیں کہ ہم اس کے وقوع کا سبب یا طریقہ بھی جانتے ہوں مثلاً اگر کوئی شخص جانتا ہو کہ وہ ریڈیو پر لندن سے خبریں سن رہا ہے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ آوا ز اس کے پاس کیونکر پہنچ رہی ہے۔ یا اگر کوئی شخص جانتا ہو کہ ٹرین جس میں وہ بیٹھا ہے حرکت کر رہی ہے تو ضروری نہیں کہ اسے معلوم ہو کہ ریل کا انجن کس طرح سے چلتا ہے؟
اسی طرح سے اگر نظریہ کا دوسرا حصہ غلط ہو تو ضروری نہیں کہ پہلا حصہ بھی غلط ہو اگر بعض لوگوں کو سبب ِارتقاء کا صحیح علم نہ ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ارتقاء ہوا ہی نہیں اگر کوئی شخص ریڈیائی نقلِ صوت کے اصولوں کو نہ جانتا ہو تو اسے یہ کہنے کا حق نہیں کہ لندن سے ریڈیو پر خبریں سننا ممکن ہی نہیں۔
لیکن بدقسمتی سے ڈارون کے نظریہ کے ان دونوں حصوںکو بعض لوگوں نے ایک دوسرے کے ساتھ خلط ملط کر دیا ہے بعض لوگ ایسے ہیں جو حصہ اوّل کی صحت کو تسلیم کرنے کے بعد فوراً ہی دوسرے حصہ کی صحت کے بھی قائل ہو جاتے ہیں اور بعض لوگ ایسے ہیں جو دوسرے حصہ کی خامیوں سے آگاہ ہونے کے بعد فوراً پہلے حصہ کو بھی ناقابل قبول قرار دے دیتے ہیں۔