قرآن اور علمِ جدید (یونی کوڈ فارمیٹ)
خطرناک فتنہ ٔ اِرتداد
قرآن اور علم جدید
حصّہ اوّل
چیلنج
(یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِھِمْ ) الصف:۸
وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں۔
خطرناک فتنہ ٔ اِرتداد
نارِ فرنگ
تصوراتِ کفر کے فروغ کا واحد سبب
بے بسی کا عالم
انسدادِ ارتداد کا طریق
خطرناک فتنۂ اِرتداد
کُفر کا زور دار حملہ اور ہماری غفلت
کُفر مغرب کے جدید فلسفیانہ تصورات کے آلات سے مسلح ہو کر اسلام پر حملہ آورہو چکا ہے اور اس نے ملّت کی صفوں کو درہم برہم کر دیا ہے۔ دنیا بھر میں ہمارے لاکھوں تعلیم یافتہ بھائی ہم سے چھینے جا چکے ہیں اور دن رات چھینے جا رہے ہیں۔ اس صورت حال نے ہماری قومی زندگی کے لیے ایک شدید خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ ہم اس خطرہ کی شدت کا احساس نہیں کرتے اور نہ ہی اس کی روک تھام کے لیے کوئی مؤثر کارروائی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نہایت وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اس نوعیت اور اس پیمانہ کا فتنۂ ارتداد اسلام کی ساری تاریخ میں کبھی رونما نہیں ہوا لیکن اس کے باوجود شاید مسلمان کبھی کسی قومی خطرہ سے اس قدر بے پروا نہیں ہوئے جس قدر اس سے بے پروا ہیں۔
مذاہب کا کفر اور ہماری مستعدی
ایک زمانہ وہ تھا جب ہندوستان میں آریہ دھرم اور عیسائیت ایسے مذاہب نے اسلام کو للکارا تھا۔ اس وقت عیسائی مشنریوں اور دیانندی ہندوؤں کی کوششوں سے ہندوستان بھر میں صرف چند پڑھے لکھے مسلمان عیسائی یا آریہ بنے تھے۔ لیکن ہم نے شورِ محشر بپا کر دیا تھا۔ تھوڑے ہی عرصہ میں ایسے علماء کی ایک بہت بڑی تعداد سامنے آ گئی تھی‘ جنہوں نے کتابوں‘ رسالوں‘ اخباروں‘ وعظوں‘ جلسوں اور مناظروں کے ذریعہ سے مخالفین اسلام کی پے در پے مؤثر تردید کی تھی۔ ان علماء نے آریہ دھرم اور عیسائیت کے ماخذ کا بغور مطالعہ کیا اور مطالعہ کے بعد ان پر سنگین اعتراضات وارد کیے اور جو اعتراضات ان کی طرف سے اسلام پر وارد ہوئے تھے ان کا مسکت جواب مہیا کیا یہاں تک کہ غیروں کو بھی اعتراف کرنا پڑا کہ مذاہب کی اس جنگ میں اسلام کا پلڑا بھاری رہا ہے۔ ان کوششوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ اِرتداد کا فتنہ رک گیا۔
کفر کا نیا لباس
اب کفر ایک اور لباس میں اسلام کے مقابلہ پر آیا ہے ۔ اس دفعہ اس کا لباس مذہب کا لباس نہیں بلکہ فلسفہ کا لباس ہے اس لباس میں وہ اسلام کو ہی نہیں بلکہ سارے مذاہب کو ملیامیٹ کر دینا چاہتا ہے۔ اس کا یہ خطرناک منصوبہ یہاں تک کامیاب ہے کہ عیسائیت اور آریہ دھرم ایسے وہ مذاہب جو کسی زمانہ میں اسلام کے مقابلہ میں بڑی قوت سے ڈٹے ہوئے تھے۔ اپنے اس نئے حریف کی تاب نہ لا کر دم توڑ چکے ہیں اور اب اگر اس کے مقابلہ پر کوئی مذہب میدان میں باقی رہ گیا ہے تو وہ فقط اسلام ہے۔ لیکن اسلام کو بھی اس نے ایسا نقصانِ عظیم پہنچایا ہے کہ ویدک دھرم او ر عیسائیت کے پرستاراس کا تصور بھی نہ کر سکتے تھے کیونکہ اس نے ان مذاہب کی طرح صرف چند مسلمانوں کو نہیں بلکہ لاکھوں مسلمانوں کو مرتد بنایا ہے اور ابھی اس کی فاتحانہ یلغار بڑھ رہی ہے۔
تباہی کے نئے طریقے
اسلام کے خلاف اسلام کے اس نئے دشمن یعنی فلسفۂ باطل کی جارحانہ کارروائیاں اس کے پہلے دشمن یعنی مذہب باطل کی جارحانہ کارروائیوں سے بالکل مختلف ہیں!
خاموش مقابلہ
مذہب باطل براہِ راست اور بلاواسطہ اسلام کے مقابلہ پر آتا تھا۔ باطل فلسفہ براہِ راست اور بلاواسطہ اسلام کے مقابلہ پر نہیں آتا علم اور عقل کے نام سے اس کا مقابلہ کرتا ہے ۔ وہ جب اسلام کی تردید کرتا ہے تو اسلام کا نام نہیں لیتا بلکہ اسلام سے اس طرح قطع نظر کرتا ہے کہ گویا اسے معلوم ہی نہیں کہ اسلام بھی اس کے حریف کی حیثیت سے دنیا میں کہیں موجود ہے اور وہ اسے مٹانے کے لیے میدان میں نکلا ہے بلکہ وہ علمی تحقیق اور عقلی ستدلال کے بل بوتے پر انسان اور کائنات کی ایک ایسی تشریح کرتا ہے جس میں خدا اور رسالت اور دین کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ کیونکہ اسلام بھی انسان اور کائنات ہی کا ایک نظریہ ہے۔ وہ عقیدہ اور سند کو قابل اعتنا نہیں سمجھتا بلکہ وہ ان کو علم اور عقل کے معیار پر پرکھتا ہے اور صرف قدرت اور اس کے ناقابل تغیر و تردید قوانین کے نام پر لامذہبیت اور دہریت کی طرف دعوت دیتا ہے۔
غیرت دینی کا زوال
باطل مذہب جب اسلام کی مخالفت کرتا تھا تو ہماری غیرت دینی جوش میں آتی تھی‘ ہمارا جائز غصہ بھڑکتا تھا اور ہمارے دل میں اس کی مخالفت اور اس کے مقابلہ میں اسلام کی مدافعت اور محافظت کا جذبہ ابھرتا تھا۔ ہمیں ذرّہ بھر شبہ نہیں ہوتا تھا کہ اس کا ماننا اسلام کا انکار ہے اور اس کا اثبات اسلام کی نفی ہے۔ لیکن باطل فلسفہ جب اسلام کی مخالفت کرتا ہے تو ہماری غیرت دینی کا جوش کم ہوتا ہے‘ ہمارا جائز غصہ ٹھنڈا پڑتا ہے اور ہمارے دل میں اس کی جوابی مخالفت اور اس کے مقابلہ میں اسلام کی مدافعت اور حمایت کا جذبہ کمزور ہوتا ہے جب ہم اس کے فریب میں پھنستے ہیں تو بے علمی اور جہالت قبول کرتے ہیں لیکن اسے علم کا نام دیتے ہیں اور بے عقلی اور نادانی اختیار کرتے ہیں لیکن اسے عقل اور زِیرکی سمجھتے ہیں۔ ہم اس کی باتوں کومانتے ہیں لیکن ہمارے دل میں یہ بات نہیں کھٹکتی کہ ان کے اثبات سے اسلام کی نفی ہوتی ہے اور اُن کو صحیح ماننے سے اسلام کو غلط قرار دینا لازم آتا ہے۔ ہم اسے دشمن نہیں بلکہ دوست سمجھتے ہیں اور اس سے تعاون کرتے ہیں۔ حالانکہ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہماری بربادی کی جن کوششوں میں وہ مصروف ہے وہ ہمارے ہی ہاتھوں سے زیادہ مؤثر اور زیادہ کامیاب ہو جاتی ہیں۔
آشکار مخالفت
باطل مذہب کے اثر سے جب کوئی مسلمان اسلام کو ترک کرتا تھا تو وہ مجبور ہوتا تھا کہ کسی گرجا یا مندر میں جا کر شدھی یا بپتسمہ کی ایک خاص رسمی کارروائی میں سے گزرے۔ اس کے بعد وہ مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہو جاتا تھا اور ان سے ہر قسم کے سماجی‘ اقتصادی اور سیاسی تعلقات منقطع کر لیتا تھا۔ اس کی عبادت کی رسمیں اور بود و باش کے طریقے بدل جاتے تھے اور وہ شادی اور بیاہ اور دوستی اور رشتہ داری اور میل و ملاقات کے لیے ایک دوسری قوم سے راہ و ربط پیدا کرتا تھا۔ اس تغیر سے اس کا کفر الم نشرح ہو جاتا تھا۔ اسلام سے اس کی دشمنی اور نفرت آشکار ہو جاتی تھی اور مسلمان اس کی طرف سے ہوشیار اور بیدار ہو جاتے تھے۔
ہوشیار دشمن
لیکن باطل فلسفہ کے اثر سے جب کوئی مسلمان اسلام کو ترک کرتا ہے تو وہ مجبور نہیں ہوتا کہ بپتسمہ یا شدھی کی طرح کی کسی رسمی کارروائی میں سے گزرے یا مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہو جائے یا ان سے اپنے سماجی‘ اقتصادی اور سیاسی تعلقات منقطع کرے یا اپنی بود و باش کے طریقوں کو بدل دے یا شادی اور بیاہ اور دوستی اور رشتہ داری اور میل ملاقات کے لیے کسی اور قوم سے راہ و ربط پیدا کرے کیونکہ اسلام کے اس نئے ہوشیار دشمن نے اپنے پرستاروں کو اجازت دے رکھی ہے کہ تم مذہب سے بیزار ہو کر اور خدا او ررسولؐ کے دشمن بن کر رہو تو کوئی حرج نہیں کہ تم پھر اسلام ہی کے دائرہ کے اندر رہو۔ چنانچہ اس دشمن دین و ایمان سے رشتہ جوڑنے والے آج نصف سے بھی زیادہ مسلمان ایسے ہیں جو یا تو خدا کے منکر ہیں یا وحی کے یا رسالت کے یا حیات بعد الممات کے یا جزا اور سزا کے اور یا ان سب کے۔
کفر کی صورتیں
ان مسلمانوں میں سے بعض ایسے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ اسلا م اس زمانہ میں ناقابل عمل ہے اور بعض کا خیال ہے کہ سارا مذہب ہی ایک ڈھکوسلہ ہے جو یا تو اقتصادی حالات کا نتیجہ ہوتا ہے یا دبی ہوئی جنسی خواہشات کا ردِّعمل۔ پھر ان میں سے کوئی اسلام کے معاشی نظام کو فرسودہ او ر بے کار سمجھتا ہے‘ کوئی اسلامی ریاست کی تجویز کو مضحک قرار دیتا ہے ‘کوئی جنسی تعلقات پر اسلام کی عائد کی ہوئی پابندیوں کو ایک فطری حیاتیاتی عمل کی ناجائز‘ مضر صحت اور خارج از وقت رکاوٹ سمجھ کر ان کا استخفاف کرتا ہے۔ کوئی اسلام کی عبادت کے طریقوں کو بے معنی سمجھتا ہے ‘ کوئی زکوٰۃ کو موقوف کرنا چاہتا ہے کوئی حج کو‘ کوئی قربانی کو‘ کوئی نماز کو اور کوئی روزہ کو۔ ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو اسلام ہی کے نام پر اسلام کے اساسیات کا انکار کرتے ہیں اور اس کے بنیادی اصولوں کا مضحکہ اڑاتے ہیں۔ وہ اپنے غیر اسلامی تصورات ہی کو اسلام کا نام دیتے ہیں اور اکثر انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ وہ اسلام سے الگ ہو چکے ہیں بلکہ ایک ایسی راہ اختیار کر چکے ہیں جو اسلام سے بالکل برعکس سمت میں جاتی ہے۔
ان ساری باتوں کے باوجود یہ لوگ مسلمانوں کی جماعت میں مسلمان بن کر رہتے ہیں ان سے شادی‘ بیاہ‘ دوستی اور رشتہ داری‘ میل و ملاقات اور کھانے پینے کے تعلقات قائم رکھتے ہیں‘ بلکہ ان کے جنازے پڑھتے ہیں۔ ان کی عبادتوں میں شریک ہوتے ہیں اور ان کے سیاسی‘ قومی اور جماعتی عزائم کے ساتھ زبانی طور پر کلیۃً لیکن دل ہی دل میں اپنی مخصوص شرائط کے ماتحت ہمدردی رکھتے ہیں۔