قرآن اور علمِ جدید (یونی کوڈ فارمیٹ)

سبب ِ ارتقاء

 

ڈارون کے نظریہ میں محض ارتقاء کا تصور جس قدر روحِ قرآن کے مطابق ہے اور صحیح ہے اسی قدر سببِ ارتقاء کا تصور  روحِ قرآن کے خلاف ہے اور غلط ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ بعض لوگ پہلے حصہ کے حق میں ناقابل تردید دلائل کی وجہ سے فریب کھا کر دوسرے حصے کو بھی صحیح سمجھ لیتے ہیں۔

 

ایک غلط فہمی

وہ غلطی سے پہلے حصہ کی کامیابی کو دوسرے حصہ کی کامیابی سمجھتے ہیں۔ مغرب کے فلسفہ کا لادینی اور الحادی رنگ اسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ لہٰذا ڈارون کے نظریہ کے اس دوسرے حصہ کو پہلے حصہ سے الگ ظاہر کرنا اور اُس کی تنقیض اور تردید کرنا بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ کیونکہ یہ تردید درحقیقت اُن غلط‘ کفر پر ور فلسفیوں کی تردید ہو گی‘ جو نادانستہ اس پر قائم ہو کر دنیا میں نشرواشاعت اور قبولیت حاصل کر چکے ہیں۔

 

ارتقاء کے اسباب: جنگ‘ قحط اور موت

ڈارون کے نزدیک جانداروں کے اندر غیر محدودطو رپر بڑھنے‘ ترقی کرنے اور شکل و صورت میں تغیر پیدا کرنے کا ایک قدرتی رجحان موجود ہے لیکن انواعِ حیوانات کا ارتقاء قدرت کے کسی تعمیری عمل کا نتیجہ نہیں بلکہ تخریبی عمل کا نتیجہ ہے کیونکہ وہ حیوانات کی ’’باہمی قدرتی جنگ اور قحط اور اموات‘‘ کے بغیر ممکن نہ ہوتا۔ اس کا خیال ہے کہ جانداروں کی تعداد توالد کے ذریعہ سے بڑھتی رہتی ہے لیکن خوراک اور قیامِ حیات کی دوسری ضروریات محدود ہیں۔ ان کی مقدار ہمیشہ ایک ہی رہتی ہے یا کم از کم وہ اس نسبت سے ترقی نہیں کرتیں جس نسبت سے حیوانات کو ان کی احتیاج ہوتی ہے۔ لہٰذا ہر جاندار اپنی زندگی کو قائم رکھنے کے لیے دوسرے جانداروں کے ساتھ ایک کشمکش میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ وہ جاندار جو اپنے جسم کی اتفاقی تبدیلیوں کی وجہ سے دوسرے جانداروںکی نسبت زیادہ قوی اور اس کشمکش حیات کے لیے زیادہ مستعد ہوتا ہے‘ اپنے آپ کو زندہ رکھنے میں کامیاب ہوتا ہے اور اس کی نسل بڑھتی رہتی ہے۔ دوسرے جاندار فنا ہو جاتے ہیں۔ پھر ہر جاندار دشمنوں سے گھرا ہوتا ہے اور غیر موافق حالات اور خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے مجبور ہوتا ہے۔ لہٰذا جو جاندار اپنے دشمنوں سے بہتر جسمانی طاقتوں کا مالک ہوتا ہے وہ زندہ رہتا ہے اور اپنی بہتر اور برتر جسمانی طاقتیں اپنی اولاد کو وراثت میں دیتا ہے۔ اس طرح حالات کی مجبوری سے ارتقاء شروع ہو جاتا ہے اور بلند تر حیوانات کو پیدا کرتا رہتا ہے۔ ڈارون کے نزدیک گویا زندگی کے حالات ایک چھلنی کی طرح ہیں جس میں سے مختلف جسمانی امتیازات کے حیوانات کو زندہ رہنے کے لیے گزرنا پڑتا ہے۔ جو حیوانات اس چھلنی میں سے گزر نہیں سکتے وہ معدوم ہو جاتے ہیں اور ان کی نسل مٹ جاتی ہے اور جو گزر جاتے ہیں وہ باقی رہتے ہیں اور ان کی نسل ترقی کرتی  ہے۔ نئے نئے جسمانی تغیرات پیدا ہو کر اپنے آپ کو اس چھلنی کے لیے پیش کرتے رہتے ہیں۔ جو تغیرات اس سے گزر جاتے ہیں وہ قائم رہتے ہیں اور توالد کے ذریعہ سے ان کا اعادہ ہوتا رہتا ہے اور جو نہیں گزر سکتے وہ فنا ہو جاتے ہیں ۔ اس کو وہ انتخابِ قدرت (Natural Selection)کہتا ہے:

 

ڈارون کا ایک حوالہ

ڈارون اپنی کتاب ’’مبادی انواع‘‘(Origin of Species) کے آخر میں لکھتا ہے :

 

’’دریا کے ایک گھنے جنگل کا تصور کیجیے جو مختلف قسم کے درختوں اور پودوں سے ڈھکا ہوا ہے‘ جہاں پرندے جھاڑیوں پر چہچہا رہے ہیں اور مختلف قسم کے کیڑے مکوڑے چھلانگیں مار رہے ہیں یا نمدار زمین پر رینگ رہے ہیں اور پھر غور کیجیے کہ مختلف اجسام حیوانی جن میں سے ہر ایک اپنی تعمیر میں مکمل ہے اور ایک نہایت ہی پیچ دار طریق سے دوسروں پر اپنا دار و مدار رکھتا ہے ایسے قوانین کا نتیجہ ہیں جو اپنے گرد و پیش اپنا عمل کر رہے ہیں۔ یہ قوانین وسیع معنوں میں حسب ذیل ہیں: نشوونما اور توالد‘ وراثت جس کا مفہوم قریباً توالد میں شامل ہے ۔حالاتِ زندگی کا بالواسطہ اور بلااسطہ عمل‘ استعمال اور عدم استعمال کی وجہ سے تغیر اعضاء‘ تعداد کا اضافہ اس حد تک کہ کشمکش حیات اور انتخابِ قدرت کا عمل شروع ہو جائے اور اس کے نتیجہ کے طور پر بعض نئے نئے اوصاف اور نئی نئی اشکال کے حیوانات وجود میں آئیں اور بعض جو ترقی نہ کر سکیں مٹ جائیں۔ گویاوہ اعلیٰ ترین موجودات جن کا ہم تصور کر سکتے ہیں یعنی حیوانات کی بلند ترین اقسام قدرتی جنگ ‘ قحط اور موت کے براہِ راست نتیجہ کے طور پر ظہور میں آتی ہیں‘‘۔

 

نظریۂ ڈارون کی خامیاں

سبب ارتقاء کے متعلق ڈارون کی تشریح کئی وجوہات سے ناقص ہے۔ مثلاً:

 

(۱)  ہر جاندار ایک وحدت کی حیثیت سے اور نیز اپنے اجزاء کے لحاظ سے حیرت انگیز طور پر اپنے مقاصد کے لیے یعنی خودزندہ رہنے اور اپنی نسل کو برقرار رکھنے کے لیے موزوں ہے۔

 

 

ایک معجزہ

ہر جاندار کا وجود مقاصدِ حیات کے ساتھ پوری پوری مطابقت کا ایک معجزہ ہے۔ ڈارون ہمیں یہ بتانے سے قاصر ہے کہ محض اتفاقات یا قدرت کی تخریبی کارروائیوں سے اجاندار کی یہ حیرت انگیز موزونیت اور مطابقت کیونکر پیدا ہوجاتی ہے۔

 

(۲)  ڈارون ہمیں یہ نہیں بتاتا کہ جسم حیوانی میں تغیرات کیوں نمودار ہوتے ہیں حالانکہ ارتقائے انواع کی اصل یہی تغیرات ہیں۔

 

تغیرات کہاں سے آتے ہیں؟

اگرچہ وہ گزرتے ہوئے کبھی تو ان کو لامارک کے تتبع میں استعمال اور عدمِ استعمال اور حالاتِ زندگی کے بالواسطہ اور بلاواسطہ اثرات کی طرف منسوب کرتا ہے اور کبھی محض اتفاقات کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔لیکن یہ عجیب بات ہے کہ اُس کے نزدیک ارتقاء کا بڑا سبب یہ تغیرات نہیں بلکہ قدرتی انتخاب ہے۔ ڈارون کے ماننے والے اس سبب کو کافی سمجھتے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ جب تک ان تغیرات کا سبب معین نہ کیا جائے طریق یا سببِ ارتقاء کے متعلق ہماری واقفیت ناتمام رہے گی۔ ڈارون خود تسلیم کرتا ہے کہ جب تک تغیرات موجود نہ ہوں قدرتی انتخاب کوئی نئی خاصیت یا بہتر اور اعلیٰ تر جسمانی تنظیم یا تشکیل پیدا نہیں کر سکتا۔ چنانچہ وہ لکھتا ہے:

 

’’اگر اتفاقی تغیرات نہ ہوں تو قدرتی انتخاب کچھ نہیں کر سکتا‘‘۔

 

اس کے باوجود ڈارون ارتقاء کے سبب کی حیثیت سے اُن کو کوئی اہمیت نہیں دیتا اور ان کی کوئی تشریح نہیں کرتا۔

 

(۳ )  ڈارون کے نزدیک یہ تغیرات نہایت خفیف ہوتے ہیں لیکن مدت تک جمع ہونے کے بعد یا جاندار کی کشمکش زندگی کے لیے مفید ہوجاتے ہیں یا نہیں ہوتے اگر مفید ہوں تو قدرتی انتخاب ان کو چنتا اور قائم رکھتا ہے۔

 

نافع تغیرات کی کہانی

یعنی جن حیوانات میں وہ پیدا ہوتے ہیں وہ زندہ رہتے ہیں اور اُن کی نسل ترقی کرتی ہے۔ لیکن ڈارون ہمیں یہ نہیں بتاتا کہ جب وہ نفع بخش نہیں ہوتے تو وہ کیوں قائم رہتے اور جمع ہوتے ہیں۔ کیوں مفید حد تک جمع ہونے سے پہلے ہی کشمکش حیات ان کو مٹا نہیں دیتی۔ ڈارون ہمیں بتاتا ہے کہ قدرتی انتخاب اور کشمکشِ حیات سے جانداروں کے انفع اور اصلح اوصاف باقی رہتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتا کہ یہ انفع اور اصلح اوصاف آتے کہاں سے ہیں۔

 

ڈارون کے ماننے والوں میں سے جرمن ماہر حیاتیات وائزمین (Wiesmann)  نے قدرتی انتخاب کو ارتقاء کا ایک کافی سبب ثابت کرنے اور مخصوص تغیرات کے متعلق ڈارون کے خیال کو زیادہ واضح اور زیادہ معقول صورت میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

 

وہ کہتا ہے کہ ایک جاندار وجود کے تمام بدنی خواص(Characters) اس ابتدائی مادئہ حیات(Germ-plasm)کی کیفیت پر منحصر ہوتے ہیں جس سے بعد میں اس کا وجود تعمیر پاتا ہے۔ یہ مادئہ حیات والدین کے جسم میں مقیم ہوتا ہے اور اپنی نشوونما کے دوران میں مختلف قسم کے اثرات کے ماتحت تغیر پاتا ہے۔ اور اس تغیر کی وجہ سے اولاد میں مخصوص تغیرات رونما ہوتے ہیں ۔فرد کا ہر چھوٹے سے چھوٹا جسمانی وصف مثلاً بال‘ جلد کے دھبے‘ گڑھے اور دوسرے نشانات کے لیے ابتدائی مادئہ حیات کے اندر معینات (Determinants)ہوتے ہیں۔ ہر معینہ زندہ مادہ کا ایک خورد بینی ذرہ ہوتا ہے لیکن وائز مین ہمیں یہ نہیں بتاتا کہ مادئہ حیات کو متغیر کرنے والے اثرات کیا ہیں اور کہاں سے آتے ہیں اور ان کے اثر سے ایسے معینات کیوں پیدا نہیں ہوتے جو تغیرات کو ارتقائی منازل کی طرف آگے لے جانے کی بجائے انحطاط کی طرف واپس لے جائیں۔

 

(۴)  ڈارون اپنے اس دعویٰ کا کوئی ثبوت مہیا نہیں کرتا کہ حیوانات کی تعداد میں حد سے زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے جس سے ان کو مناسب مقدار میں خوراک میسر نہیں آتی۔

 

ایک وہم

ڈارون نے یہ خیال مالتھس(Malthus) سے مستعار لے کر حیوانات کی دنیا پر چسپاں کیا ہے۔ لیکن جس طرح سے نوعِ انسانی کی صورت میں مالتھس کا خیال غلط ثابت ہوا ہے اسی طرح سے انواعِ حیوانات کی صورت میں ڈارون کا خیال غلط ہے۔ قدرت کے خرچ اور آمد میں ایک توازن موجود ہے‘ جو طلب و عطا کی مقدار کو برابر رکھتا ہے۔

 

ایک فروگزاشت

(۵)  کشمکش حیات کی صورت میں موقعہ(Situation)کے فوائد جسمانی تغیرات سے کہیں زیادہ مؤثر‘ زیادہ فیصلہ کن اور زیادہ طاقتور ثابت ہوتے ہیں اور ان فوائد کا قدرتی انتخاب سے کوئی تعلق نہیں۔

 

فوری تبدیلیوں سے اغماض

(۶)  فوری تبدیلیاں یا تقلیبات(Mutations) تدریجی تبدیلیوں سے زیادہ نئی نسلوں کے وجود میں آنے کا باعث ہوتی ہیں۔ ڈارون ہمیں یہ نہیں بتاتا کہ ان فوری تبدیلیوں کا باعث کیا ہے۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ قدرتی انتخاب ان کا باعث نہیں ہو سکتا اور پھر یہ فوری تبدیلیاں حیوان کو ارتقائی منازل پر آگے کیوں لے جاتی ہیں۔

 

ارتقاء کی رکاوٹ

(۷ )  یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ بعض جان دار کروڑہا سال سے کسی بدنی تغیر کے بغیر ہم تک پہنچے ہیں۔ ڈارون ہمیں یہ نہیں بتاتا کہ بعض حیوانات میں تغیرات کیوں ہوتے ہیں اور بعض دوسروں میں تغیرات کیوں نہیں ہوتے۔

 

ترقی سے جہد للبقا کی بے تعلقی

(۸ )  حالاتِ زندگی کی موافقت جو کشمکشِ حیات کے نتیجہ کے طو رپر پیدا ہوتی ہے۔ جسم نامی کی تکمیل اور ترقی سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ ضروری نہیں کہ اس کا نتیجہ ہر حالت میں حیوان کی جسمانی تکمیل اور ترقی ہو۔ کیونکہ جوحیوانی اجسام عضویاتی اور صوریاتی لحاظ سے کامل تر اور بلندتر ہوتے ہیں‘ ضروری نہیں کہ وہ ہمیشہ خارجی حالات کے ساتھ ادنیٰ حیوانات کی نسبت زیادہ موافقت رکھتے ہوں۔ لہٰذا ارتقاء کی کوئی میکانکی تشریح ممکن نہیں۔ ادنیٰ اجسام سے بلندتر اور کامل تر اجسام اسی صورت میں پیدا ہو سکتے ہیں جب جسم حیوانی کے اندر خود ترقی کرنے اور بلندتر درجہ پر قدم رکھنے کا رجحان موجود ہو یہ رجحان حیوان کو مجبور کرتا ہے کہ جہاں تک خارجی حالات اجازت دیتے ہوں‘ وہ اپنے آپ کو مکمل کرتا رہے۔

 

امن میں تغیرات کی فراوانی

(۹)  جب زندگی کی کشمکش شدید ہو تو وہ نئے تغیرات کے لیے سازگار نہیں ہوتی۔ جب حالاتِ زندگی سہل ہوں تو نئے تغیرات پیدا ہوتے ہیں اور قائم رہتے ہیں ورنہ مٹ جاتے ہیں ۔ زندگی کی کشمکش نئے تغیرات کے لیے مضرہے مفید نہیں۔ اس کشمکش کا حاصل اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہ اس سے حیوانات کی نسل حد سے زیادہ ترقی نہیں کرتی۔

————-

 

قرآن اور علمِ جدید (یونی کوڈ فارمیٹ)