قرآن اور علمِ جدید (یونی کوڈ فارمیٹ)

تعارف

 

اس دَورمیں اسلام سوسائٹی کی زندگی کو بنانے اور ڈھالنے والی ایک قوت کی حیثیت سے بے اثر ہو کر رہ گیا ہے اور اسلام کی گاڑی ایک مقام پر آ کر ٹھہر گئی ہے گویا آگے جانے کے لیے نہ کوئی راستہ ہے اور نہ منزل!

 

مسلمان مفکرین نے اس صورتِ حال کے اسباب کی تشریح کئی طرح سے کی ہے اور اس کے لیے کئی علاج تجویز کیے ہیں۔ سب سے بڑا سبب یہ بتایا گیا ہے کہ مسلمان اسلام پر عمل نہیں کرتا اور سب سے بڑا علاج یہ تجویز کیا گیا ہے کہ وہ اسلام پر عمل کرے۔ لیکن دراصل نہ اس کا سبب بے عملی ہے اور نہ اس کا علاج عمل ہے۔ بے عملی اسلام کے انحطاط کی علامت ہے اس کا سبب نہیں ۔ اسلام کا انحطاط درحقیقت ہمارے یقین و اعتقاد کا انحطاط ہے اور بے عملی اس کا نتیجہ ہے اگر ہم اسلام کے انحطاط کا اصلی سبب معلوم کرکے اس کا ازالہ کر دیں تو اسلام کے مطابق عمل لازماً خود بخود پیدا ہو گا۔

 

میرے نزدیک اسلام کے انحطاط کی وجہ مغرب کے وہ غلط فلسفیانہ تصورات ہیں جن کا اثر فضا میں چاروں طرف پھیل گیا ہے اور جن سے ہمارے تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ طبقات مساوی طو رپر متأثر ہوئے ہیں۔ ان تصورات نے زیادہ تر بالواسطہ اور غیر شعوری طور پراپنا اثر پیدا کر کے اسلام کی محبت ہم سے چھین لی ہے جیسے کہ ایک مخفی اور مزمن مرض کے جراثیم اندر ہی اندر ایک اچھے بھلے آدمی کی صحت اور طاقت سلب کر لیں اور اسے ناگہاں معلوم ہو کہ وہ موت کے دروازے پر کھڑا ہے!

 

سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اسلام ایک صحیح نظریۂ حیات ہے اوراس میں وہ کشش اور جاذبیت موجود ہے جو حق و صداقت کا خاصہ ہے تو مغرب کے غلط فلسفیانہ تصورات نے اس کشش اور جاذبیت پر مخالفانہ اثر کیوں ڈالا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک طرف تو ہم اسلام کی غلط تعبیر کر کے اسے ایک غلط نظریۂ حیات بناتے رہے ہیں اور اس کی کشش اور جاذبیت کو اپنے ہاتھوں سے ختم کرتے رہے ہیں اور دوسری طرف سے مغرب کے غلط فلسفیانہ تصورات کے اندر بھی ایک پہلو حق و صداقت کا ہے جو ہمیں کشش کرتا رہا ہے اور جسے ہم اسلام کے اندر یعنی اسلام کی اس غلط تعبیر کے اندر جسے ہم اسلام سمجھتے رہے ہیں‘ نہیںپاتے رہے اور لہٰذا ان تصورات کے مقابلہ میں اسلام سے نفرت کرتے رہے ہیں۔

 

پھر یہاں یہ سوال کیا جائے گا کہ ہم نے اسلام کی غلط تعبیر کیوں کی ہے؟ آخر وہی قرآن ہم میں موجود ہے جو صحابہؓ کے پاس تھا۔ پھر آج ہم اس کا مطلب غلط کیوں سمجھتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام کی غلط تعبیر دو طرح سے ہوتی ہے:

 

اوّل : یہ کہ ہم بعض غلط باتوں کو (حالانکہ تمام غلط باتیں درحقیقت اسلام سے غیر ہیں اور اسلام ان سے بیزار ہے) صداقتیں سمجھ کر اسلام کے اندر داخل کرتے جائیں۔

 

اس طریق سے اسلام کی جو غلط تعبیر آج تک ہوتی رہی ہے ہم ساتھ ساتھ اس کا ازالہ کرتے رہے ہیں۔ لہٰذا مجموعی طور پر اس قسم کی غلط تعبیر ہمارے انحطاط کا موجب نہیں ہوئی۔

 

دوم :  یہ کہ ہم بعض علمی صداقتوں کو(حالانکہ تمام علمی صداقتیں درحقیقت اسلام کا جزو ہیں اور اسلام ان کو اپناتا ہے) غلط باتیں سمجھ کر اسلام سے جدا کرتے جائیں۔

 

ہم مدت سے فلسفہ اور سائنس کی ان صداقتوں کے ساتھ جو دورِ حاضر میں منکشف ہوئی ہیں یہی برتاؤ کررہے ہیں اور اس دوسرے طریق سے اسلام کی جو غلط تعبیر ہوئی ہے ہم آج تک اس کا ازالہ نہیں کر سکے‘ بلکہ یہ تعبیرہر روز اور زیادہ غلط ہوتی جا رہی ہے۔اس کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ ہمارے علمائے دین حالات کی مجبوریوں کی وجہ سے علوم جدیدہ سے نابلد رہے ہیں اور دوسری یہ ہے کہ لن تضلوا ما تمسکتم بھما اور حسبنا کتاب اللّٰہ اور  ما انا علیہ واصحابی۔ ایسی روایات کا مطلب وہ یہ سمجھتے رہے ہیں کہ اسلام ایک جامد‘ محدود اور متحجر نظریۂ حیات ہے اور کتاب کے رموز و اسرار بجز ان کے او ر کوئی نہیں جن پر علماء متقدمین حاوی ہو چکے تھے لہٰذا ان کے لیے ناممکن ہو گیا کہ ایسی علمی صداقتوں کو اپنا سکیں جو نزولِ قرآن کے زمانہ کے بعد دریافت ہوئی تھیں یا جن کے دریافت کرنے والے غیر مسلم تھے جو اگرچہ ظاہری اور لفظی اعتبار سے قرآن کے اندر موجود نہیں تھیں تاہم روحِ قرآن سے مطابقت رکھتی تھیں اور معناً قرآن کے اندر موجود تھیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہم اسلام کا مطلب غلط سمجھنے لگ گئے۔ ظاہر ہے کہ جب کوئی شخص صداقت کے ایک حصہ کا انکار کرتا ہے تو وہ معاً اس کے دوسرے حصہ کو صداقت کے پایہ سے گرا دیتا ہے اور غلط کر دیتا ہے۔ بے شک صحابہؓ کے زمانہ میں بھی یہی قرآن موجود تھا۔ لیکن صحابہؓ ان علمی صداقتوں سے انکار نہیں کرتے تھے جو آج دریافت ہوئی ہیں اور نہ ہی ان کو اسلام سے منہا کرتے تھے کیونکہ یہ صداقتیں لفظاً ان کے سامنے موجود ہی نہیں تھیں اور معناً وہ نہ صرف ان علمی صداقتوں پر بلکہ اُن تمام علمی صداقتوں پر ایمان رکھتے تھے جو قیامت تک دریافت ہو سکتی ہیں کیونکہ یہ تمام صداقتیں معناً قرآن کے اندر موجود ہیں۔ جب کوئی علمی صداقت لفظاً ہمارے سامنے آ جائے تو چونکہ وہ معناً  قرآن کے اندر موجود ہوتی ہے اس لیے اس کے انکار سے قرآن کے مفہوم اور مطلب کو بگاڑ دینا لازم آتا ہے۔ صحابہ کرامؓ‘کو یہ صورت حال پیش نہیں آئی تھی لہٰذا صحابہ کرامؓ اسلام کی غلط تعبیر نہیں کرتے تھے۔

 

انحطاطِ اسلام کے اس سبب کی نوعیت ہی سے ظاہر ہے کہ اس کا ازالہ کرنے اور اسلام کو دوبارہ عروج کی طرف مائل کرنے کا طریق صرف ایک ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ہم بشدتِ تمام روح قرآن سے وابستہ رہتے ہوئے مغرب کے غلط فلسفیانہ تصورات کی تردید کریں۔ اگر ہماری تردید علمی اور عقلی لحاظ سے فی الواقع درست اور کامیاب ہو گی تو رفتہ رفتہ ان تصورات کا اثر بالکل زائل ہو جائے گا لیکن اس کا ایک اور فائدہ بھی ہو گا جو اس فائدہ سے بدرجہا زیادہ قیمتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس قسم کی تردید مہیا کرنے کی کوشش کے دوران میں ہم محسوس کریں گے کہ گو قرآن کے اندر مجملاً ان تمام فلسفوں کی تردید موجود ہے جو قیامت تک پیدا ہوتے رہیں گے لیکن ہم محض قرآن کی عبارتوں کو نقل کر کے اغیار کو قائل نہیں کر سکتے بلکہ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ہر غلط فلسفہ کے بارہ میں قرآن کے موقف کو جدید معیاری ‘ علمی اور عقلی استدلال کا جامہ پہنائیں اور دشمن کے آلات ہی سے دشمن کا مقابلہ کریں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہم قرآن کے مطالب اور معانی کی گہرائیوں میں غوطہ لگائیں اور پورے غور و فکر کے بعد اس کے تمام عقلی نتائج اور حاصلات اور علمی مضمرات اور متضمنات کا استخراج اور استنباط کریں۔ پھر ہم محسوس کریں گے کہ اس غرض کے لیے ضروری ہے کہ ہم طبیعیات‘ حیاتیات‘ نفسیات اور فلسفہ کے ان تمام قدیم و جدید حقائق کو بھی مضمرات قرآن میں شمار کریں جو روحِ قرآن کی تائید کرتے ہیں یا اس سے مطابقت رکھتے ہیں یا اس کی مخالفت نہیں کرتے اور خود بھی علمی مسلّمات کا درجہ رکھتے ہیں۔ بفحوائے :

 

((کَلِمَۃُ الْحِکْمَۃِ ضَالَّـۃُ الْمُؤْمِن فَھُوَ اَحَقُّ بِھَا اَیْنَ وَجَدھَا))

 

’’حکمت کی بات مؤمن کی گمشدہ چیز ہے جہاں مل جائے وہ اس کا زیادہ حق‘دارہے‘‘۔

 

اس تحقیق و تدقیق کا نتیجہ یہ ہو گا کہ قرآن کی تعلیم خود بخود نظامِ حِکمت کی صورت میں نمودار ہو گی اور صرف وہی نظامِ حکمت ہو گاجو دنیا بھر کے تمام نظام ہائے حکمت میں سے درست اورصحیح ہو گا ۔ یہ نظامِ حکمت بالقوہ قرآن کے اندر موجود ہے اور آج جہاں ایک طرف سے فلسفۂ مغرب کا چیلنج ہمیں مجبور کر رہا ہے کہ ہم قرآن کے مطالب اور معانی کو ایک عقلی سلسلہ میں مربوط اور منظم کر کے اُسے بالفعل بنائیں وہاں دوسری طرف سے علم کے ان چاروں شعبوں میں جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے‘ حقائق کا انکشاف اسے ممکن بنا رہا ہے۔ لہٰذا اس کا وجود میں آنا ضروری ہے۔ جب یہ نظامِ حکمت وجود میں آئے گا تو ہم قرآن کی ساری تعلیم کو لازماً ایک حکمیاتی نقطۂ نظر سے دیکھنے اور سمجھنے لگیں گے۔ قرآن کا مفہوم ہمارے نزدیک روشن اور معین ہو جائے گا اور قرآن کے بارے میں ہماری تعبیرات کا اختلاف جو اس وقت نہایت شدید ہے اور جس کی لپیٹ میں اس وقت تعلیم قرآن کی بنیادی اور اصولی باتیں بھی آ گئی ہیں ختم ہو جائے گا۔

 

جب کسی نظریۂ حیات کی صحیح تعبیر کھو جائے تو پھر اس کی تعبیر ایک نہیں رہتی بلکہ بہت سی تعبیرات کی صورت اختیار کر جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حق ایک ہے لیکن غیر حق کی شکلیں بے شمار ہیں۔ اسلام کے ساتھ اس وقت یہی ماجرا درپیش ہے کہ اس کی صحیح تعبیر کھو دینے کے بعد ہم اس کی گوناگوں تعبیرات کر رہے ہیں اور یہ کہنا مشکل ہو گیا ہے کہ اسلام کی صحیح تعبیر کون سی ہے اور کیوں؟

 

قرآن کی تعبیرات کے بارے میں ہمارا اختلاف ‘جو درحقیقت ہمارے بڑے بڑے فضلاء اور علماء سے شروع ہوتا ہے ‘ ہماری قومی ترقی کے راستہ میں ایک سنگ گراں کا حکم رکھتا ہے۔ اسی اختلاف کی وجہ سے ہم من حیث القوم واضح طو رپر نہیں جانتے کہ آج زندگی کے مختلف شعبوں میں اسلام ہم سے کس قسم کے عمل کا مطالبہ کرتا ہے۔ مثلاً ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس زمانہ میں اسلام کا سیاسی یا اقتصادی یا تعلیمی یا قانونی یا تبلیغی نظام کیسا ہونا چاہیے۔ دراصل جب ہمیں یہی معلوم نہ ہو کہ اسلام کیا ہے تو ہم کیونکر طے کر سکتے ہیں کہ اسلام کیا چاہتا ہے۔

 

لیکن اب بھی جبکہ وہ نبی (ﷺ) جن پر قرآن نازل ہوا تھا ہم میں نہیں ہیں اور دوبارہ ہم میں نہیں آ سکتے۔بدلتے ہوئے حالات کے اندر خدا اور رسولؐ کے منشا اور قرآن کے مطلب اور مدعا کو معلوم کرنے اور فہم قرآن کے بارہ میں اپنے اختلافات کو مٹانے کا ایک ذریعہ قدرت نے ہمارے لیے موجود رکھا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم قرآن کو ایک حکمیاتی انداز سے سمجھنے لگیں اور علم کی ترقیات کی بدولت ایسا ضرور ہو کر رہے گا اور یہ بھی ضروری ہے کہ قرآن شریف کا حکمیاتی علم قرآن کا صحیح علم ہو اور خدا اور رسولؐ کے منشاکے مطابق ہو۔ چونکہ حقیقت انسان و کائنات کا علم جو قرآن کا موضوع ہے ایک اور راستہ سے یعنی ذہنی جستجو کے راستہ سے بھی ہم تک پہنچ رہا ہے اور برابر ترقی کر رہا ہے۔ لہٰذا ہم ہر روز اپنے ذہنی ارتقاء کی اس منزل کے قریب آ رہے ہیں جب ہم قرآن کو ایک حکمیاتی انداز سے سمجھنے لگیں گے اور پھر ہم قرآن کے اس حکمیاتی مفہوم پر متفق ہونے کے لیے بھی مجبور ہوں گے‘ یہی مطلب ہے قرآن کے اس ارشاد کا:

 

{سَنُرِیْھِمْ اٰیٰتِنَا وَفِی الآفَاقِ وَفِیْ اَنْفُسِھِمْ حَتّٰی یَتَـبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّـہُ الْحَقُّ}

(حٰمٓ السجدۃ:۵۳)

 

ظاہر ہے کہ جب قرآن کے مطالب اورمعانی ایک مربوط اور منظم عقلی یا حکمیاتی نظریۂ حیات کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہوں تو پھر ان کے بارہ میں کسی اختلاف کی گنجائش باقی نہیں رہتی کیونکہ اس قسم کا نظریۂ حیات ایک ایسی زنجیر کی طرح ہوتا ہے کہ اگر اس کی ایک کڑی بھی اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو وہ ٹوٹ کر رہ جاتی ہے۔ اس قسم کے نظریۂ حیات کا یہ تصور تمام دوسرے تصورات سے ایک عقلی اور علمی سہارا لیتا ہے اور خود تمام دوسرے تصورات کو اس قسم کا ایک عقلی اور علمی سہارا مہیا کرتا ہے۔ لہٰذا اگر اس کا کوئی ایک تصور بھی مسخ کیا جائے یا غلط سمجھا جائے تو تمام دوسرے تصورات مل کر اس ظلم کی غمازی کرتے ہیں۔ ایک منظم نظریۂ حیات کے تصورات کے اندرونی عقلی ربط اور نظم کی وجہ سے کسی شخص کے لیے ممکن ہی نہیں ہوتا کہ اس کے کسی ایک تصور کو بھی مسخ کرے یا غلط طور پر سمجھے یا سمجھائے اور ظاہر ہے کہ اگر قرآن فی الواقع خداکی کتاب ہے تو اس کے مطالب اور معانی میں ایک عقلی ربط کا ہونا ضروری ہے ۔ اور وہ صرف اس وقت پیدا ہو سکتا ہے جب ہم ان کے فہم کے بارہ میں کوئی غلطی نہ کر رہے ہوں۔

 

{لَـوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا} (النساء:۸۲)

 

میرے خیال میں قرآن کا یہی عقلی یا حکمیاتی علم ہے جو اب اسلام کے لیے تمام قسم کی ترقیوں کا دروازہ کھول سکتا ہے۔ جب تک قرآن کا یہ حکمیاتی علم آشکار نہیں ہو گا ہم حکمتِ مغرب کے چیلنج کا جواب نہیں دے سکیں گے اور ایک قوم کی حیثیت سے روز بروز کمزور ہوتے چلے جائیں گے لیکن جب وہ آشکار ہو گا تو وہ نہ صرف حکمت مغرب کا جواب ہو گا جو اپنے طاقتور استدلال سے غیروں کو اسلام کی طرف مائل کرے گا بلکہ وہ ایک ایسا چراغ ہوگا جس سے ہمارا اپناگھر بھی روشن ہو گا اور اس کی روشنی میں ہم قرآن کو زیادہ وضاحت اور خوبی اور صحت اور صفائی سے سمجھنے لگیں گے۔ ہمارا یقین پھر تازہ ہو گا اور ہمارے دیرینہ شکوک و شبہات اور تفرقات و اختلافات مٹ جائیں گے اور ہمارے قومی جسم کے اندر زندگی کی ایک نئی لہر دوڑ جائے گی‘ ہم دین کی بنیادی حکمتوں سے آشنا ہوں گے‘ ہماری اجتہاد کی قوتیں جو مدت سے سوئی پڑی ہیں پھر بیدار ہو جائیں گی اور ہم ٹھیک طرح سے سمجھنے لگیں گے کہ آج ہم اپنی عملی زندگی کے ہر شعبہ میں اسلام کے تقاضوں کو کیونکر پورا کر سکتے ہیں؟ لہٰذا فلسفۂ مغرب کے چیلنج میں خدا کی بے پایاں رحمت پوشید ہے۔ اسلام کی گاڑی رُک تو گئی ہے لیکن اس لیے رکی ہے کہ تازہ اسٹیم بھر کر عالمگیر غلبہ اور ظہور کے شاندار سفر پر زیادہ طاقت اور سرعت سے روانہ ہو!

 

میرا یہی عقیدہ ہے جو اس کتاب کو لکھنے کا محرک ہوا ہے۔

 

اس کتاب کی دو حیثیتیں ہیں:

ایک حیثیت سے تو یہ کتاب مغرب کے رائج الوقت ملحدانہ فلسفوں کی تردید ہے۔ قارئین دیکھیں گے کہ ڈارون کے فلسفہ کے سوائے (جو انسانی نفسیات سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ نوعِ بشر کے جسمانی ارتقاء کا نظریہ ہے)ان تمام فلسفوں میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ وہ نصب العینوں یا آدرشوں کی محبت کو جو انسان کا ایک فطرتی وصف ہے اور انسان کے مذہبی‘ روحانی‘ علمی‘ اخلاقی اور سیاسی نظریات اور معتقدات کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ فطرتِ انسانی کا ایک مستقل اور پیدائشی تقاضا اور انسانی اعمال کی اصل نہیں سمجھتے بلکہ اسے انسا ن کی بعض یا تمام حیوانی جبلتوں کا ضمنی یا اتفاقی نتیجہ قرار دیتے ہیں اور ڈارون کے حیاتیاتی نظریہ کی بناپر ہم نفسیاتِ انسانی کا جو تصور قائم کرنے پر مجبور ہیں اس کا بھی ایک ضروری حصہ یہ ہے کہ نصب العینوں کی محبت نہ تو فطرتِ انسانی کا ایک مستقل اور پیدائشی تقاضاہے اور نہ ہی اس کے اعمال کی جڑ ہے بلکہ کشمکشِ حیات کی ضروریات کا ایک اتفاقی نتیجہ ہے۔

 

اگر ہم اس خیال کو صحیح مان لیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ توحید کا عقیدہ یا خدا کا نصب العین جو تمام پرستارانِ مذہب کا نصب العین ہوا کرتا ہے انسان کی فطرت میں نہیں لیکن یہ بات سراسر قرآن کی تعلیم کے خلاف ہے۔ قرآن کی رُو سے ہم یہ ماننے پر مجبور ہیں کہ نصب العینوں کی محبت کا جذبہ انسان کی فطرت کا ایک مستقل اور پیدائشی تقاضا ہے اور اس کے تمام اعمال کا سرچشمہ ہے ورنہ قرآن کا یہ دعویٰ غلط ہو جاتا ہے کہ انسان فطرتاً خدا کی عبادت کے لیے مستعد بنایا گیا ہے۔ پھر تو خدا کے نصب العین کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی کیونکہ پھر یہ ماننا پڑتا ہے کہ یہ نصب العین بھی انسان کی حیوانی جبلی خواہشات کا ایک اتفاقی اور غیر فطرتی نتیجہ ہے۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے اور قرآن کی صداقت کی ایک بیّن دلیل ہے کہ حقائق پر غور و فکر کرنے سے یہ بات پایۂ ثبوت کوپہنچ جاتی ہے کہ قرآن کا یہ مؤقف کلیۃًصحیح ہے اور جس قدر یہ فلسفے اس مؤقف سے ہٹے ہوئے ہیں اسی قدر وہ علمی اور عقلی لحاظ سے ناقص اور ناتمام ہیں اور ان کا استدلال غلط اور غیر منطقی ہے۔

 

اگرچہ یہ فلسفے نتائج کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں لیکن نصب العینوں کے ماخذ کے متعلق بنیادی اشتراک کی وجہ سے ان سب کی آخری تردید کے لیے صرف یہ ثابت کرنا کفایت کرتا ہے اور لہٰذا یہاں اسی حقیقت کو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ نصب العینوں کی محبت انسان کی فطرت کا ایک مستقل تقاضا ہے اور انسان کے تمام اعمال کا سرچشمہ ہے!

 

دوسری حیثیت سے اس کتاب کا مضمون اسلام کا نظامِ حکمت ہے اور اس نظامِ‘حکمت کا مرکزی تصور پھر یہی نقطہ ہے کہ نصب العینوں کی محبت انسان کی فطرت کا ایک مستقل تقاضا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ہم نصب العینوں کی محبت کے ماخذ کے متعلق اس قسم کا دعویٰ کریں تو نصب العینوں کی ماہیئت کے متعلق بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً:

 

(۱) نصب العین کا باعث کیا ہے؟

 

(۲) حقیقتِ کائنات سے نصب العین کا کیا تعلق ہے؟

 

(۳) نصب العین کا جذبہ ارتقاء کے کون سے مقاصد کو پورا کرتا ہے؟

 

(۴) جبلتوں کے ساتھ نصب العین کا کیا تعلق ہے؟

 

(۵) کیا انسان کے اعمال کا محرک نصب العین ہے یا کوئی ایک جبلت یا چند یا تمام جبلتوں کا مجموعہ۔ جواب کی صحت کی دلیل کیا ہے؟

 

(۶) اقتصادی ضروریات اور حالات کے ساتھ نصب العین کا کیا تعلق ہے؟

 

(۷) لاشعور کے ساتھ نصب العین کا کیا تعلق ہے؟

 

(۸) نصب العین کیوں بدلتا ہے؟

 

(۹) نصب العین کس سمت میں بدلتا ہے؟

 

(۱۰) کیا تمام نصب العین مقاصد ارتقاء کو مساوی طور پر پورا کرتے ہیں یا نہیں؟ دوسرے الفاظ میں کیا تمام نصب العین صحیح ہیں یا بعض صحیح ہیں اور بعض غلط      ؟

 

(۱۱) اگر نصب العین صحیح نہیں‘ تو صحیح نصب العین کون سا ہے اور کیوں؟

 

(۱۲) صحیح نصب العین کی علامات اور خصوصیات کیا ہوتی ہیں؟

 

(۱۳) غلط نصب العین کی علامات اور خصوصیات کیا ہوتی ہیں؟

 

(۱۴)  انسان ایک غلط نصب العین کیوں اختیار کرتا ہے؟

 

(۱۵) ارتقاء کے نقطۂ نظر سے صحیح نصب العین کے فوائد اور غلط نصب العین کے نقصانات کیا ہیں؟

 

(۱۶)  مذہب‘ نبوت ‘ اخلاق‘ سیاست‘ قانون‘ علم‘ ہنر‘ عقل‘ فلسفہ اور سائنس کا نصب العین کے جذبہ سے کیا تعلق ہے؟ وعلی ہٰذا القیاس

 

اگر ہم ان سوالات میں سے کسی ایک سوال کے جواب سے پہلوتہی کریں یا اس کا معقول جواب نہ دے سکیں یا نہ دیں تو نصب العینوں کے ماخذ کے متعلق ہمارا یہ دعویٰ بے جوڑ اور ناقص اور بے دلیل رہ جاتا ہے اور باطل فلسفوںکی تردید جو اس دعویٰ کا مقصد ہے غیر مکمل‘ بے اثر اور ناکام رہ جاتی ہے۔ اس صورت میں ہمارا مخالف یہ سمجھتا ہے کہ ہمارا دعویٰ جو سوالات پیدا کرتا ہے ہم ان کا جواب دینے سے عاجز ہیں۔ لہٰذا ہمارا دعویٰ سرے سے غلط ہے۔ پھر وہ اپنے غلط مفروضہ کی بنا پر ان سوالات کا جواب دیتا ہے اور اپنے غلط فلسفہ کو ایک صداقت کے طور پر پیش کرنے کی جرأت کرتا ہے۔ لیکن اگر ہم اسلام کی طرف سے ان تمام سوالات کا ایک ایسا معقول جواب مہیا کریں جو معیاری عقلی استدلال سے مزین ہو اور تمام مسلّمہ علمی حقائق سے مناسبت اور مطابقت رکھتا ہو بلکہ ان کے اندر مزید معقولیت اور برجستگی پیدا کرتا ہو تو ہم معاً اسلام کو ایک مکمل نظامِ حکمت یا فلسفۂ کائنات کی صورت میں لے آتے ہیں۔ کیونکہ پھر انسان اور کائنات کے متعلق کوئی اہم سوال ایسا باقی نہیں رہتا جس کا جواب ہمارے جواب میں نہ آ جائے۔

 

اس کتاب میں ان تمام سوالات کا معقول اور مدلل جواب دیا گیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس کتاب کا مضمون ایک نظامِ حکمت کی شکل میں ہے اور وہ اسلام کا نظامِ حکمت ہے۔

 

جب تک قرآن کا نظریۂ حیات ایک مکمل نظامِ حکمت کی صورت میں نہ آئے وہ غلط فلسفوں کے جواب میں خاموش رہنے اور اپنوں اور بیگانوں کے انکار اور اِبا کی صورت میں اس خاموشی کے نقصانات برداشت کرنے پر مجبور ہے۔ لیکن جب وہ ایک مکمل نظامِ حکمت کی صورت میں آ جائے تو پھر وہ رائج الوقت غلط فلسفوں کا ہی نہیں بلکہ ان تمام غلط فلسفوں کا منہ توڑ جواب بن جاتا ہے جو آئندہ قیامت تک وجود میں آ سکتے ہیں۔ باطل فلسفے اگر ہزاروں کی تعداد میں بھی ہوں تو سچا فلسفہ ٔ‘ کائنات جب کبھی وجود میں آئے گا ان سب کا ایک ہی کافی اور شافی جواب ہو گا۔

 

ان تصریحات کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم چاہیں کہ اسلام کی طرف سے اس دَور کے تمام غلط فلسفوں کا جواب ایک ہی فقرہ میں دیں یا اسلام کے نظامِ حکمت کو ایک ہی فقرہ میں بیان کریں تو دونوں اغراض کے لیے ایک ہی فقرہ کفایت کرے گا اور وہ حسب ذیل ہو گا:

 

’’نصب العینوں کی محبت کا جذبہ جو انسان کے تمام اعمال کا سرچشمہ ہے اور فقط ایک کامل نصب العین سے کامل طور پر مطمئن ہو سکتا ہے انسان کی فطرت کا ایک مستقل اور پیدائشی تقاضا ہے‘‘۔

 

ایک سچی بات کی علامت یہ ہے کہ جب ہم اس پر غور کریں تو وہ ایک سادہ اور پیش پا افتادہ حقیقت نظر آتی ہے اور اگر وہ پہلی دفعہ توجہ میں آئی ہو تو حیرت ہوتی ہے کہ پہلے اس کی طرف توجہ کیوں نہیں ہوئی تھی؟ اوپر کا فقرہ ایک ایسی ہی سادہ اور پیش پا افتادہ حقیقت پر مشتمل ہے لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت جو بلاشبہ فطرتِ انسانی کی صحیح اور مکمل واقفیت کے لیے ایک کلید کا حکم رکھتی ہے آج تک ماہرینِ نفسیات کی نظروں سے اوجھل رہی ہے۔

 

مجھے یقین ہے کہ زود یا بدیر دنیا کے علمی حلقوں میں اس حقیقت کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کیا جائے گا اور جب یہ نوبت آئے گی تو نہ صرف سارے علم کا رخ بدل جائے گا بلکہ دنیا بھر میں اسلام کے حق میں ایک زبردست ذہنی انقلاب کا آغاز ہو گا اور مِلل کفر کی تدریجی ہلاکت اور اسلام کی تدریجی ترقی کا ایک نیا دور شروع ہو گا اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ایک دفعہ اس حقیقت کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر اس کے علمی اور عقلی نتائج کو تسلیم کرنے کے بغیر کوئی چارئہ کار نہیں رہتا اور اس کے علمی اور عقلی نتائج ایسے ہیں کہ ان کا مجموعہ عین تعلیم قرآن ہے اگر ہم چاہیں تو اپنے جذبۂ تبلیغ و اشاعت کو بروئے کار لا کر اس دَور کو بہت قریب لا سکتے ہیں۔

 

یہاں اس بات کی وضاحت کردینا ضروری ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں ایک حصہ انسان کی فطرت کے ابدی اور کلی قوانین پر مشتمل ہے اور دوسرا حصہ ان قوانین کے مطابق انسان کی عملی زندگی کی تشکیل پر حاوی ہے۔ پہلا حصہ غیر مبّدل ہے اگرچہ ہردَور میں اس کا کامل اظہار نہ ضروری تھا اور نہ ممکن۔دوسرا حصہ معاشرہ کے حالات کے مطابق ہمیشہ بدلتا رہا ہے۔ پہلا حصہ اعتقادات سے تعلق رکھتا ہے اور دوسرا حصہ اعمال سے۔ پہلا حصہ دوسرے حصہ کی بنیاد ہے پہلا حصہ دین کی اصل یا اساس ہے اور دوسرا حصہ اس کی فرع یا اس کا نتیجہ ہے۔ یہی سبب ہے کہ پہلے غیر مبدل حصہ کو قرآن دین یا دین قیم کہتا ہے: {فَاَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًاط فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَاط لَا تَـبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَـیِّمُ ق}(الروم:۳۰) اور اسی کو وہ  اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ (پختہ نشانات) اور اُمُّ الْکِتَاب (کتاب کی اصل یا اساس) کہتا ہے۔ {ہُوَ الَّذِیْ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ}(آل عمران:۷)۔اسلام کے اسی حصہ کی بنیادی حیثیت کی وجہ سے ہم یہ کہتے ہیں کہ تمام انبیاء کی تعلیم خواہ وہ کسی زمانہ میں او رکسی خطہ ٔ‘ ارض میں پیدا ہوئے ہوں ایک وحدت ہے۔ تاہم اسلام کے اس حصہ کے تمام ضروری عناصر جن میں سیاسی اور جماعتی زندگی بھی داخل ہے‘ زمانہ کے تقاضوں کے باعث سب سے پہلے حضور (ﷺ) کی تعلیم میں نمودار ہوئے ہیں اور اسی لیے حضور خاتم النبیینؐ ہیں۔ اسلام کے اس حصہ کی اہمیت یہ ہے کہ جو شخص اس حصہ پر یقین نہ کر سکے وہ دوسرے حصہ کو نظر انداز کرنے پر مجبور ہوتا ہے اور جوشخص اس حصہ کو ٹھیک طرح سے نہ سمجھ سکے وہ دوسرے حصہ کو بھی ٹھیک طرح سے نہیں سمجھ سکتا اور نہ اس پر ٹھیک طرح سے عمل کر سکتا ہے۔ گویا نہ صرف پورے اسلام کی صحیح تشریح اور تفہیم بلکہ اس کی تعمیل اس حصہ کی صحیح تشریح اور تفہیم پر منحصر ہے۔ چونکہ اسلام کے اس حصہ پر ہمارا یقین مضمحل ہو گیا ہے لہٰذا ہم عمل سے محروم ہیں اور پیہم انحطاط اور زوال کی راہ پر جا رہے ہیں۔ جب ہم اس حصہ پر یقین کرنے لگیں گے تو ہم میں پھر عمل کی قوت پیدا ہو گی اور ہم ترقی اور عروج کی طرف مائل ہوں گے۔ اسلام کا یہی حصہ ہے جو ایک نظامِ حکمت یا سائنس کی شکل اختیار کرسکتا ہے اور اختیار کر رہا ہے اور یہی وہ حصہ ہے جس کی معقولیت فلسفہ اور سائنس کے انکشافات کی وجہ سے روز بروز زیادہ آشکار ہو رہی ہے اور متواتر آشکار ہوتی رہے گی۔ لہٰذا قارئین نوٹ فرما لیں کہ اوپر کے صفحات میں جہاں جہاں مَیں نے اسلام کے نظامِ حکمت کا ذکر کیا ہے وہاں اسلام سے میری مراد اسلام کا یہی حصہ ہے۔

 

اسلام کا نظامِ حکمت جس کا خاکہ اس کتاب میں دیا گیا ہے فطرتِ انسانی کا فلسفہ ہے اور چونکہ انسان کی اصل انسان کا شعور یا خود شعوری ہے جسے اقبال نے اور مختصر کر کے خودی کہا تھا۔ لہٰذا ہم اسے فلسفۂ شعور‘ فلسفہ خود شعوری یا فلسفۂ خودی کہہ سکتے ہیں پھر چونکہ انسان کی خودی کے تمام خواص اور اوصاف اس کی اس مرکزی خاصیت سے پیدا ہوتے ہیں کہ وہ ایک نصب العین سے محبت کرتی ہے اور اسی سے اپنا نظریۂ حیات اخذ کرتی ہے۔ لہٰذا ہم اسے نصب العینوں کا فلسفہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ وہی فلسفۂ خودی ہے جس کا آغاز اقبال نے کیا تھا۔ لیکن اس کتاب میں یہ فلسفہ نصب العینوں کے فلسفہ کی صورت میں اپنی تنظیم اور تکمیل کو پہنچا ہے۔ چونکہ خودی کی مختصر اصطلاح جو اقبال نے استعمال کی تھی بعض لوگوں کے لیے غلط فہمیوں کا باعث ہوئی ہے لہٰذا میں اس کتاب میں خودی کی بجائے خود شعوری کی اصطلاح ‘جو اوّل الذکر اصطلاح کی نسبت زیادہ بیّن اور زیادہ مفصل ہے ‘کام میں لایا ہوںلیکن جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں خودی اور خود شعوری مترادف الفاظ ہیں اور ان سے مراد وہ شعور ہے جو اپنے آپ سے واقف ہو۔

 

یہ بات نہایت اہم ہے کہ ہم فیصلہ کریں کہ اسلام کی مختلف تعبیرات اور تشریحات میں سے جو اس وقت پیش کی جا رہی ہیں اور جن کی بنا پر اس وقت اسلام کے اندر بہت سی دینی تحریکیں وجود میں آچکی ہیں کون سی تعبیر یا تشریح صحیح ہے۔ یہ کہنا کافی نہیں کہ صحابہؓ نے اس بات کا فیصلہ اپنے اس اعلان سے کر دیا تھا حَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ (ہمیں خدا کی کتاب کافی ہے) لہٰذا جو بات قرآن کے مطابق ہے وہ صحیح ہے یا حضورﷺ نے اس بات کا فیصلہ اپنے اس ارشاد سے کر دیا تھا مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ (برسرحق گروہ وہ ہو گا جو میرے اور میرے ساتھیوں کے راستہ پر ہو گا)کیونکہ ہر شارح دین یہی کہتا ہے کہ صرف اسی کی تشریح قرآن مجید اور طریق رسولؐ و صحابہؓ کے مطابق ہے۔

 

ہر شارح دین نقل کو اپنی عقل سے سمجھتا ہے اور اپنی عقل کا رنگ اس پر چڑھاتا ہے۔ اگرچہ وہ خود زبانی طور پر اس بات سے انکار کرتا رہے اور فی الواقع جانتا بھی نہ ہو کہ وہ نقل پر اپنی عقل کا رنگ چڑھا رہا ہے اور ایسا کرنا درحقیقت ہر شارحِ دین کے لیے ایک قدرتی بات ہے اور اس سے گریز قطعاً ممکن نہیں۔ اسلام کی تمام تشریحات نقل کی عقلی تشریحات ہیں۔ پس جب عقل لامحالہ نقل کے راستہ میں آتی ہے اور نقل لازماً عقل کی ترجمانی چاہتی ہے تو پھر دیکھنا پڑے گا کہ نقل اور عقل کا کون سا امتزاج اور نقل پر عقل کا کون سا رنگ یعنی اسلام کی کونسی تشریح خطا سے مبرّا ہو سکتی ہے اس بات کا فیصلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسلام کی صحیح اور سچی تشریح کو پرکھنے کے لیے کوئی اصول وضع کریں اور اس کی کوئی خصوصیات معین کریں۔ اس کے بعد ہم آسانی سے کہہ سکیں گے کہ اسلام کی جو تشریح ان اصولوں کے مطابق ہے یا ان خصوصیات سے بہرہ ور ہے وہی صحیح ہے اور باقی سب غلط ہیں۔

 

خوش قسمتی سے قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ قرآن کی صحیح اور سچی تشریح کی علامات اور خصوصیات کیا ہوتی ہیں اور اسے کیونکر پرکھا جا سکتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ اگر وہ خدا کی طرف سے نہ ہوتا تو اس میں کثرت سے اختلاف ہوتا:

 

{لَـوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا}(النساء:۸۲)

 

’’اگر قرآن غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو وہ یقینا اس کے اندر بیانات کا اختلاف پاتے‘‘۔

 

بیانات کے اختلافات ہمیشہ عقلی اختلافات ہوتے ہیں کیونکہ عقل ہی اُن کو معلوم کرتی ہے لہٰذا ظاہر ہے کہ اس آیت میں اختلافات سے مراد عقلی تضاد ہے۔

 

قرآن حکیم نے اس دلیل کو پیش کرتے ہوئے درحقیقت اس اصول کی تعلیم دی ہے کہ تمام صداقتوں میں ایک منطقی یا عقلی مناسبت یا ہم آہنگی ہوتی ہے وہ عقلی طور پر ایک دوسرے کی تائید کرتی ہیں اور اس باہمی تائید کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ تمام جھوٹی باتوں کی عقلی تردید کرتی ہیں۔اس کے برعکس کذبات عقلی طور پر تمام صداقتوں کی اور ایک دوسرے کی تکذیب کرتے ہیں۔ اگر ہم کسی ایک صداقت سے دوسری صداقتوں کا سہارا چھین لیں تو وہ صداقت ‘صداقت نہیں رہتی اور یہی اصول دنیا بھر کی تمام صداقتوں پر حاوی ہے خواہ وہ ظاہری اور لفظی طو رپر قرآن کے اندر ہوں یا باہر اور خواہ وہ کسی نبی پر منکشف ہوئی ہوں یا {الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ  عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ} (العلق:۴‘۵) کے ماتحت کسی عام انسان پر ظاہر ہوئی ہوں۔ اگر بعض صداقتیں ایسی ہوں جو لفظاً قرآن کے اندر موجود نہ ہوں اور ہم قرآن کی اندرونی صداقتوں کو ان سے الگ کر کے دیکھیں یا سمجھیں تو ہم لازماً قرآن کے ایک حصہ کی تشریح اس طرح سے کریں گے کہ وہ درحقیقت قرآن ہی کے دوسرے حصوں کے ساتھ متناقض ہو جائے گا اور پھر قرآن کی یہ تشریح غیر قرآنی اور خدا اور رسولؐ کے منشا کے خلاف اور من عند غیر اللّٰہ شمار ہو گی۔

 

لیکن اگر ہم قرآن کی کوئی ایسی تشریح کر لیں جس سے قرآن کی اندرونی صداقتوں اور اُن صداقتوں کے مابین جو بظاہر قرآن سے باہر ہیں (یہ فرض کرتے ہوئے کہ اُن صداقتوں کی ایک کافی تعداد دریافت ہو چکی ہے) کوئی تضاد باقی نہ رہے بلکہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ پوری طرح سے ہمنوا اور ہم آہنگ ہو جائیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم احکامِ دین کی علتوں اور حکمتوں کے پورے سلسلہ سے آگاہ ہوگئے ہیں اور ہم نے حقیقت انسان و کائنات کے تمام اہم ترین مسائل کا حل پیدا کر لیا ہے ایسی صورت میںہماری تشریح انسان اور کائنات کے ایک مکمل فلسفہ کی صورت میں نمودار ہو گی ۔ احکامِ دین کی حکمتیں اور علتیں ارتقاء کی انسانی سطح پر قدرت کے لازوال قوانین اور نفسیاتِ انسانی کے ابدی حقائق کے سوائے اور کچھ نہیں اور وہ ایک سلسلہ کی صورت میں ہیں۔ ہر حکمت کے اندر ایک اور حکمت اور ہر علت کے پیچھے ایک اور علت موجود ہوتی ہے اور حکمتوں اور علتوں کا یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر ختم ہوتا ہے جو علت العلل اور حقیقت الحقائق ہے۔ {وَاَنَّ اِلٰی رَبِّکَ الْمُنْتَھٰی} (القمر:۴۲)

 

اس تجزیہ سے معلوم ہوا کہ بالآخر قرآن کی صحیح اور سچی تشریح وہی ہو گی۔

 

(۱) جو کسی علمی صداقت کے ساتھ متصادم نہ ہو۔بلکہ ہر زمانہ میں تمام علمی صداقتوں کے ساتھ پوری طرح سے ہمنوا اور ہم آہنگ رہے اور جوں جوں نئی علمی صداقتیں منکشف ہوں وہ اس کے اندر سماتی چلی جائیں۔

 

(۲) جس کے تمام تصورات ایک دوسرے کے ساتھ عقلی ربط و ضبط رکھتے ہوں اور ایک دوسرے کی عقلی تائید اور توثیق کرتے ہوں۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے  جب اس کے تمام تصورات قرآن کے مرکزی اور بنیادی تصور یعنی عقیدئہ توحید کے ساتھ عقلی طو رپر متعلق ہوں۔

 

(۳) جو تمام باطل فلسفوں کی مؤثر تردید کرتی ہو۔

 

(۴) جو کائنات کا ایک مکمل فلسفہ ہو اور حقیقت انسان و کائنات کے اہم مسائل کے بارہ میں علمی راہنمائی کرتی اور صداقت اور سچائی کا راستہ بتاتی ہو۔

 

(۵) جو علمی تصورات کی خامیوں کو آشکار کر کے انہیں پاکیزہ اور شُستہ بناتی ہو۔

 

(۶) جو ہمیں احکامِ دین کی حکمتوں اور علتوں کے پورے سلسلہ سے آگاہ کرتی ہو اور ان حکمتوں اور علتوں کا ایک ایسا تصور دیتی ہو جس میں اندرونی طور پر کوئی تضاد نہ‘ہو۔

 

میرا خیال ہے کہ ترقی یافتہ فلسفہ ٔ خودی یا نصب العینوں کا فلسفہ قرآن کی ایک ایسی تشریح ہے جو ان تمام خصوصیات کی حامل ہے اور لہٰذا قرآن کی یہ تشریح صحیح ہے اور زود یا بدیر مسلمان اس پر متفق ہوں گے ۔ اس زمانہ میں اسلام کی اہم ترین ضروریات میں ایک یہ ہے کہ ہم اجتہاد سے کام لے کر ایک ایسی نئی فقہ کی تدوین کریں جس سے اس زمانہ کے حالات میں ہمارے تمام الجھے ہوئے مسائل کا حل پیدا ہو لیکن اجتہاد اور تدوین فقہ کے لیے ضروری ہے کہ ہم پہلے اسلام کی صحیح تعبیر اور احکامِ دین کی حکمتوں اور علتوں سے پوری طرح واقف ہوں۔ چونکہ نصب العینوں کا فلسفہ ہماری اس ضرورت کو پورا کرتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ یہی فلسفہ آئندہ ہمارے تمام اجتہادات اور ہماری تمام فقہی تحقیقات کی بنیاد ہو گا۔

 

قرآن کی تشریح کی حیثیت سے نصب العینوں کے فلسفہ کی یہ خصوصیت نہایت اہم ہے کہ وہ انسانی فرد اور جماعت کا ایک ارتقائی تصور پیش کرتا ہے اور ایک ایسے نظریۂ تاریخ کی صورت میں ہے جو شپنگلیر‘ ٹائن بی‘ کارل مارکس اور ہیگل کے نظریات تاریخ سے زیادہ مقبول اور واضح ہے اس نظریہ کی رُو سے حرکت ارتقاء کا آخری نتیجہ روئے زمین پر اسلا م کا مکمل غلبہ اور ظہور ہے۔

 

ہم بالعموم اس حقیقت کو نظر انداز کر جاتے ہیں کہ اسلام کے نزدیک انسان ایک جامد اور ناترقی پذیر ہستی نہیں بلکہ وہ ایک خاص روحانی اور اخلاقی منزلِ کمال کی طرف جس کی تعیین اور تفہیم اس کی فطرت کے بہترین میلانات اور رجحانات کے اندر بالوضاحت موجود ہے‘ پیہم ترقی کر رہا ہے اور جب ہم اس بات پر غور کرتے ہیں کہ جس ذات پاک نے قرآن نازل کیا ہے۔ یہ حقیقت بفحوائے آیۂ پاک {لَتَرْکَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَق}(الانشقاق:۱۹)(بلاشبہ تم ایک سطح سے دوسری سطح پر قدم رکھتے ہوئے ترقی کرتے جاؤگے) اس کے مدّنظر تھی تو ہم مجبور ہوتے ہیں کہ حضورﷺ کی تعلیم کی توجیہہ اور تعبیر اور احکامِ قرآنی کی تشریح اور تفسیر اس طرح سے کریں کہ اس حقیقت کے ساتھ متصادم نہ ہو۔ اس تصادم کو رفع کرنے لیے ہمیں یہ اصول مدنظر رکھنا چاہیے کہ احکامِ دین کی جو تعبیر نوعِ بشر کو اس کی منزل کمال کی طرف ترقی کرنے کا موقع دیتی ہے وہ خود قرآن کی رو سے قرآن کے منشا کے عین مطابق ہے اور صحیح ہے اور دوسری تمام تعبیرات غیر قرآنی اور غلط ہیں۔

 

یہ زمانہ نصب العینوں کا زمانہ ہے کیونکہ اس زمانہ میں انسان کے نصب العینوں نے یہاں تک ترقی حاصل کر لی ہے کہ وہ اس کی جبلی اور حیوانی خواہشات سے صاف طورپر الگ نظرآ رہے ہیں اور علمی اور عقلی نظریات یعنی فلسفوں کی صورت میں نمودار ہو گئے ہیں۔ ہر قوم اپنی سیاسی زندگی کو جو بالآخرا س کی ساری زندگی کا محور ہوتی ہے ایک فلسفہ کی بنیادوں پر استوار کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ سوشلزم ایک فلسفہ ہے اور ہٹلر نے اس کے مقابلہ میں جرمنوں کے لیے جو نیشنل سوشلزم کا نظریہ ایجاد کیا تھا اسے اپنی کتاب میں ایک فلسفہ کی شکل دینے کی کوشش کی تھی۔ مسولینی نے بھی فاشزم کی بنیاد اطالوی فلسفی کروچے کے فلسفہ پر رکھی تھی اور بھارت کے لوگ دنیا کوبتاتے ہیں کہ ان کی ریاست گاندھی کے فلسفہ پر مبنی ہے اسی طرح سے امریکن اور دوسری جمہوریت پرست قومیں اب جمہوریت کو ایک طرزِ حکومت کے طور پر نہیں بلکہ انسان اور کائنات کے ایک فلسفہ کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ لیکن جس قدر نصب العین بلند اور واضح ہوتے جا رہے ہیں اور عقل اور علم کا لباس پہنتے جا رہے ہیں اسی قدر نصب العینوں کی باہمی جنگ بھی زیادہ شدید اور زیادہ تباہ کن ہوتی جا رہی ہے۔ یہاں تک کہ اس جنگ کی وجہ سے اب یہ سمجھا جا رہا ہے کہ کرئہ ارض پر انسان کی بقا خطرہ میں پڑ گئی ہے۔

 

تاہم اس وقت نوع بشر وجدانی طور پر محسوس کررہی ہے کہ رائج الوقت نصب العینوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو بے نقص ہو اور عقلی نقطۂ نظر سے کامل طور پر درست او ر تسلی بخش ہو نیز اسے یہ بھی محسوس ہو رہا ہے کہ اخلاقی اور روحانی زندگی کی سچی خواہش ہی موجودہ خطرناک صورتِ حال کا علاج ہے۔ گویا نوعِ بشر ایک ایسے فلسفۂ حیات کی منتظر ہے جو ایک فلسفہ کی حیثیت سے کامل طور پر معقول اور مدلل ہونے کے باوجود ایک مذہب بھی ہو اور ایک ایسے مذہب کی متلاشی ہے جو سچی اخلاقیت اور روحانیت کا علمبردار ہونے کے باوجود ایک معیاری عقلیت کا فلسفہ بھی ہو صرف اسی قسم کا ایک فلسفیانہ مذہب یا مذہبیانہ فلسفہ ہی اپنی روحانیت اور عقلیت کی دوگونہ کشش سے تمام مذاہب اور تمام فلسفوں پر غالب آ کر نوعِ بشر کو متحد کر سکتا ہے اور نصب العینوں کی جنگ کو ختم کر سکتا ہے۔ حال ہی میں لندن کے اخبار ’’ٹائمز‘‘ نے یورپ میں فلسفۂ اشتراکیت کی بڑھتی ہوئی ہر دلعزیزی کے خلاف مارشل پلین کی ناکامی کا ذکر کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ایک جھوٹے مذہب کی روک تھام بالآخر ایک سچا مذہب ہی کر سکتا ہے۔ لیکن آج دنیا اس بات کو نظر انداز نہیں کر سکتی کہ ایک سچے مذہب کا معیار ایک سچی عقلیت ہی ہے۔

 

مجھے یقین ہے کہ اگر دنیا کا کوئی فلسفہ نوعِ بشر کی اس ضرورت کو پورا کر سکتا ہے تو وہ اُمّ الکتاب یا اساسیاتِ اسلام ہی کافلسفہ ہو سکتا ہے۔ لہٰذا وہ نصب العینوں کے فلسفہ کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ اگر ہم اس فلسفہ کو اسلام کی تبلیغ اور اشاعت کے لیے کام میں لائیں تو یقینا ہم پائیں گے کہ نوعِ بشر اسے قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔

 

محمد رفیع الدین

 

 

قرآن اور علمِ جدید (یونی کوڈ فارمیٹ)