قرآن اور علمِ جدید (یونی کوڈ فارمیٹ)
تصوراتِ کفر کے فروغ کا واحد سبب
استدلال کی قوت
ان فلسفیانہ تصورات کی ترقی اور فروغ کا سبب صرف ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ خواہ وہ صحیح ہیں یا غلط لیکن ان کے موجد اپنے استدلال کی قوت سے دنیا بھر میں چوٹی کے حکماء اور فضلاء کی اکثریت یا کم از کم ان کی ایک مؤثر تعداد کو اپنا معتقد بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ یہی لوگ ہوتے ہیں جو علمی اور عقلی بنا پر نئے فلسفیانہ تصورات کی نکتہ چینی کرتے ہیں اور ان کے فروغ اور ترقی کے راستہ میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں ۔ جب یہ لوگ ان تصورات کے قائل ہو جائیں تو یہ تصورات رفتہ رفتہ دنیا کی ذہنی فضا پر چھا جاتے ہیں اور لوگوں کی عملی زندگی پر قابض ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ یہ لوگ اپنے یقین کی وجہ سے اپنی فائق علمی استعداد کو ان کی ماہرانہ نشرو اشاعت پر وقف کر دیتے ہیں۔
اعتقاد کا اثر
پھر یہ تصورات علوم کا جزو بن جاتے ہیں۔ اور یونیورسٹیوں میں ان کی درس و تدریس شروع ہو جاتی ہے اور علمی اور ادبی مجلسوں میں اور لیکچروں اور تقریروں اور علمی رسالوں اور اخباروں میں تائیدی تبصرہ اور تنقید اور بحث و تمحیص کا موضوع بن جاتے ہیں۔ ان کی تائید میں ہزاروں کتابیں لکھی جاتی ہیں اور اس طرح سے لاکھوں تعلیم یافتہ اور ذہین انسان ذہنی طور پر ان کے زیر اثر آ جاتے ہیں اور اپنے حلقہ نفوذ میں اس اثر کو پھیلاتے اور قائم رکھتے ہیں۔ رفتہ رفتہ دنیا کا سارا لٹریچر ان اثرات سے بھر جاتا ہے اور دنیا بھر کے تمام ملکوں کے ذرائع نشرو اشاعت مثلاً پریس‘ پلیٹ فارم‘ سنیما‘ ریڈیو‘ مدرسہ‘ گھر‘ بازار‘ سوسائٹی ہر قسم کی انجمنیں اور جماعتیں اور خود ریاست دانستہ اور نادانستہ طور پر ان کی تبلیغ کے لیے وقف ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ آخر کار دنیا کی ذہنی فضا ان اثرات سے اس طرح معمور ہو جاتی ہے جیسے آسمان پر چاروں طرف سیاہ بادل چھائے ہوئے ہیں اور ہم جہاںجائیں ان کے سایہ میں رہیں۔
فضا کا اثر
جب ان تصورات کا اثر ایک خاص حد تک فروغ پا چکتا ہے تو پھر اس کی مزید ترقی ایک اور عمل کے ذریعہ سے خود بخود ہوتی رہتی ہے جس طرح سے گاڑی کو حرکت دینے کے لیے انجن کے ڈرائیور کو پہلے بھاپ کی زبردست قوت سے کام لینا پڑتا ہے لیکن جب گاڑی اپنی پوری رفتار حاصل کر لیتی ہے تو پھر خواہ وہ بھاپ کو بند کر دے‘ گاڑی خود بخود دور تک نکل جاتی ہے۔ جہاں ابتداء میں ان تصورات کے نفوذ کا سبب یہ ہوتا ہے کہ ان کے مآخذ کا تحقیقی مطالعہ ان کے زبردست استدلال کی وجہ سے یقین پیدا کرتا ہے۔ پھر ان کا یقین ان کے مآخذکی طرف رجوع کرنے کے بغیر خود بخود فضا اور ماحول کے اثر سے پیدا ہونے لگ جاتا ہے۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے مغرب کے فلسفیانہ تصورات کا اثر بالآخر دنیا بھر میں پھیلا ہے۔ اب ان کا اثر یہاں تک بڑھ گیا ہے کہ تعلیم یافتہ عوام اس کو دنیا کی ذہنی فضا سے براہِ راست قبول کرتے ہیں۔
اعتقاد کی چھوت
بالکل اسی طرح سے جیسے کوئی شخص آگ کے پاس بیٹھنے سے گرمی محسوس کرتا ہے یا ہوا سے موسم کے اثر کو یا چھوت سے بیماری کے جراثیم قبول کرتا ہے۔ ان کو یہ تصورات ایک ایسی حقیقت کے طور پر نظر آتے ہیں جو سورج کی طرح خودبخود آشکار ہے۔ جس کے خلاف کچھ کہنا یا جس کا بدل یا نقیض پیش کرنا ممکن نہیں۔
بھولپن
اکثر ان کو معلوم نہیں ہوتا کہ ان تصورات پر ان کے اعتقاد کی اصل وجہ کیا ہے۔ آیاان کے پیچھے کوئی فلسفے ہیں جو اپنی حمایت میں زبردست علمی اور عقلی دلائل رکھتے ہیں جو کتابوں میں لکھے ہوئے ہیں یا جنہیں بعض اعلیٰ ذہانت اور قابلیت کے لوگ معقول اورمدلل طریق سے مدوّن کر کے دنیا میں پھیلا رہے ہیں یا یہ خود بخود دنیا کے مسلّمات بن گئے ہیں؟
فخر
جب ان لوگوںکی واقفیت کچھ ترقی کر جاتی ہے تو ایک مرحلہ ایسا بھی آتا ہے جب وہ پہلی دفعہ ان دلائل سے واقف ہوتے ہیں جو ان کے موجد یا مبلغ ان کے حق میں دیا کرتے ہیں۔ پھر یہ لوگ ان دلائل کو علم سمجھنے لگتے ہیں اور ان سے واقف ہونے اور ان کی حمایت اور اعانت کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں اور ان کی مخالفت کرنے والوں کو دورِ حاضر کی تحقیقات اور تحریکات سے ناواقف اور جاہل سمجھتے ہیں۔ مثلاً جب یہ لوگ دیکھتے ہیں کہ یورپ کی قوموں نے قومیت کے نظریہ کی وجہ سے مادی طور پر بے حد ترقی کی ہے اور دوسری قوموں کو غلام بنالیا ہے تو یہ لوگ اس نظریہ کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہیں اور ا س سے متأثر ہوجاتے ہیں۔
اعتقاد کا تقدم اور دلیل کا تأخر
پھر رفتہ رفتہ اپنے یقین کو فلسفیانہ دلائل کا سہارا دے لیتے ہیں۔ جب دیکھتے ہیں کہ سوشلزم روٹی اور دوسری بنیادی معاشی ضروریات کے مسئلہ کا کامیاب حل پیدا کر رہا ہے تو سوشلزم کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ مارکس کے فلسفہ سے واقفیت پیدا کر کے اپنے یقین کو معقول اور مدلل قرار دے لیتے ہیں ۔ جب دیکھتے ہیں کہ مغربی تہذیب ایک حد تک آزادانہ جنسی تعلقات کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور ان کے مواقع بہم پہنچاتی ہے تو وہ ان پابندیوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنے لگتے ہیں جو مشرق میں جنسی تعلقات پر عائد ہیں اور پھر رفتہ رفتہ جب وہ فرائڈ کے نظریہ سے واقف ہوتے ہیں تو یہ نظریہ ان کے جدید اعتقاد کا علمی سہارا بن جاتا ہے ۔ گویا ان لوگوں کی صورت میں ان تصورات کا اثر قبول کرنا اور ان پر ایمان لانا پہلے وقوع میں آتا ہے اور ان کے دلائل سے واقف ہونا بعد میں ظہور پذیر ہوتا ہے۔ پہلے مذہبِ کفر اپنی ظاہری سج دھج اور شان و شوکت کی وجہ سے ان کو متأثر کر کے ان کے دلوں میں ایک سرور کی کیفیت پیدا کر دیتاہے بعد میں اس سرور کی رہنمائی سے یہ لوگ مذہبِ کفر کی علمی واقفیت پیدا کر لیتے ہیں اور یہ علمی واقفیت ان کو ایک شراب کا کام دیتی ہے جس سے اُن کو مزید سرور حاصل ہوتا رہتا ہے۔
عوام کی تقلید
باقی رہے غیر تعلیم یافتہ یا کم تعلیم یافتہ عوام‘ سو ان کا اپنا کوئی عقیدہ نہیں ہوتا۔ وہ اپنی قوم کے ان افراد کے پیچھے چلتے ہیں جو اپنی ذہانت اور قابلیت کی وجہ سے ان کی رہنمائی کے مقام پر فائز ہو جاتے ہیں۔ یہی ذہین اور تعلیم یافتہ لوگ عوام کے عقائد کے محافظ اور نگہبان ہوتے ہیں۔ جب ان لوگوں کے عقائد بدلتے ہیں تو عوام بھی جدھر یہ جائیں اُدھر ہی کا رُخ کر لیتے ہیں۔
حفاظتی فوج کی شکست
ان کی مثال ایک ملک کی حفاظتی فوج کی طرح ہے کسی حملہ آور طاقت کے لیے ضروری نہیں ہوتا کہ جس ملک پر وہ سیاسی غلبہ حاصل کرنا چاہتی ہے اس ملک کے ہر فرد کے ساتھ مقابلہ کر کے اسے شکست دے بلکہ وہ صرف فوج کے ساتھ مقابلہ کرتی ہے۔ جب فوج کو شکست ہو جاتی ہے تو ملک بھر میں ہر فرد بشر پر حملہ آوروں کی سیاسی حکومت قائم ہو جاتی ہے۔ ذہنی حکومت یا ذہنی غلبہ حاصل کرنے کے لیے بھی کسی قوم کے ذہین ترین اور قابل ترین افراد کو ذہنی شکست میں مبتلا کر دینا کافی ہے اس کے بعد غیر تعلیم یافتہ عوام خود بخود اس شکست کو قبول کر لیتے ہیں اور ان کو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ ان پر کوئی ذہنی انقلاب وارد ہوا ہے۔
ناقص استدلال کا نتیجہ
اگر نئے تصورات کو پیش کرنے والے اشخاص کا استدلال ایسا کمزور یا ناقص ہو کہ وہ دنیا بھر میں چوٹی کے حکماء کی اکثریت کو متأثر اور معتقد نہ کر سکے تو ان تصورات پر مخالفانہ تنقید اس قسم کی ہوتی ہے کہ وہ فروغ نہیں پا سکتے اور وجود میں آتے ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ اگر بعض کمتر درجہ کی قابلیت کے لوگ انہیں معقول سمجھ کر تسلیم بھی کر لیں تو ان حکماء کی مخالفانہ رائے کی وجہ سے آخر کار وہ ان سے متنفر ہو جاتے ہیں۔ گویا چوٹی کے حکماء کی پسندیدگی یا ناپسندیدگی فقط ایک چیز ہے جو نئے فلسفیانہ تصورات کی کامیابی یا ناکامی کا موجب ہوتی ہے۔ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی ذات سے ان تصورات کا اثر اور اعتقاد آغاز کرتا ہے اور پھر سماج کے ان طبقات تک سرایت کر جاتا ہے جو علمی اور ذہنی لحاظ سے اس کے پست ترین طبقات ہوتے ہیں۔
انقلابات کا مبتداء
معتقدات اور تصورات ہمیشہ اوپر سے نیچے کی طرف یعنی خواص سے عوام کی طرف اور اہل علم سے اہل جہل کی طرف آتے ہیں اور کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ وہ نیچے سے اوپر یعنی عوام سے خواص کی طرف آئیں۔
جوابی انقلاب
ہر انقلابی تحریک اگرچہ عوام کی تحریک ہوتی ہے لیکن وہ ہمیشہ اوپر سے آ کر عوام کو متأثر کرتی ہے اس لیے کسی انقلاب کا جوابی انقلاب اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کا آغاز سماج کے اس طبقہ سے نہ ہو جو اہل علم و فضل ہے اور ذہنی اعتبار سے دوسروں پر فوقیت رکھتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اسلام کے حق میں ایک عالمگیر ذہنی انقلاب پیدا کریں تو ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ذہین ترین اشخاص کو اپنے استدلال سے متأثرکریں۔
بہتر استدلال
ظاہر ہے کہ نئے فلسفیانہ تصورات کے فروغ کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ کلیتاً صحیح ہوں اور ان کا اندرونی استدلال بھی کلیتاً صحیح ہو بلکہ فقط یہ ضروری ہے کہ ان تصورات کے حق میں جو استدلال پیش کیا گیا ہو وہ علمی اور عقلی اعتبار سے اس قسم کا ہو کہ اس زمانہ کے علماء کے پاس اس کا کوئی یقین افروز جواب موجود نہ ہو ۔ یہ کافی ہے کہ ان تصورات کی صحت اور درستی اور ان کے استدلال کی معقولیت اور برجستگی صرف اس حد تک ہو کہ اس زمانہ کے حکماء کا معیارِ علم ان کو قبول کرسکتا ہو اور ان کی جگہ لینے کے لیے ان سے بہتر اور معقول تر تصورات ابھی دریافت نہ ہوئے ہوں۔
ماحول کی تائید
مثلاً چوٹی کے حکماء کا طبقہ زیر بحث مغربی تصورات کو اس لیے قبول نہیں کرتا کہ وہ کلیتاً درست ہیں بلکہ اس لیے قبول کرتا ہے کہ ان میں درستی اور معقولیت کا عنصر اس قدر ہے کہ نوعِ بشر کی علمی ترقی کے اس دور میں اور اس زمانہ کے علمی مزاج کی موجودہ کیفیت کے ہوتے ہوئے ان کی نامعقولیت اور نادرستی ان کی سمجھ میں نہیں آ سکتی اور ان کی نظروں سے کلیتاً اوجھل رہتی ہے۔ ان تصورات کے موجد مختلف ہیں اور ان کی نوعیت الگ الگ ہے۔ لیکن ان سب میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ انسان کی اعلیٰ ترین سرگرمیوں ‘ بالخصوص مذہب اور اخلاق کا استخفاف ہے یورپ کی فضا انیسویں صدی کے آغاز سے مذہبی اور اخلاقی اقدار کی حقارت سے معمور چلی آتی ہے اور اس کا سبب عیسائیت کے خلاف یورپ کا زبردست ردِّعمل ہے۔ یہ فضا اس قسم کے الحاد پرور تصورات کے فروغ کے لیے ایک موافق علمی مزاج مہیا کرتی رہی ہے۔ اور یہی سبب ہے کہ یورپی حکماء ان تصورات کی خامیوں سے آشنا نہیں ہو سکے اور انہیں سو فیصد ی معقول اور مدلل سمجھ کر قبول کرتے چلے آرہے ہیں۔
سیاسی غلبہ
مشرق میں ان مغربی تصورات کے فروغ کے اسباب اور بھی ہیں مثلاً یہ کہ مغربی قوموں نے اپنی فوجی طاقت سے بہت سے ایشیائی ممالک کو فتح کر لیا یا ان میں اپنا سیاسی اثر و نفوذ پیدا کر لیا ہے اور نتیجہ یہ ہے کہ ان ممالک کا نظام تعلیم مغربی طرزِ فکر کے مطابق ہونے کی وجہ سے ان تصورات کی نشر و اشاعت کا ذریعہ بن رہا ہے۔
علمی تفوق
پھریہ ایشیائی قومیں یورپ کے سیاسی اور علمی تفوق کی وجہ سے ایک احساسِ کہتری میں مبتلا ہو گئی ہیں۔ لہٰذا ہر قسم کے تصورات کو قبول کرنے کے لیے نفسیاتی طور پر مستعد ہو گئی ہیں لہٰذا خواہ ان تصورات میں بذاتِ خود کوئی معقولیت ہو یا نہ ہو ہم اپنی کمزوری اور کوتاہی کے احساس کی وجہ سے ان کی طرف معقولیت منسوب کرتے ہیں اور انہیں قبولیت سے نوازتے ہیں۔
لیکن اگر ہم غور سے دیکھیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ ان تصورات کے فروغ کے یہ اسباب ضمنی ہیں اصلی نہیں۔
اصلی سبب
اصلی سبب ان کا علمی معیار ہی ہے۔ یہ اسباب بذاتِ خود ان کے فروغ میں فعال اور مؤثر نہیں بلکہ اپنا فعل یا اثر اسی اصلی یا بنیادی سبب سے حاصل کرتے ہیں۔ اس کے بغیر ان کی قوت اور تأثیر معرضِ وجود میں نہ آتی۔ کیونکہ اگر یہ تصورات علمی اور عقلی لحاظ سے ناقص سمجھے جاتے تو خود یورپ ہی کے لوگ ان کو نظر انداز کر دیتے اور مشرق میں ان کے فروغ کی نوبت ہی نہ آتی۔ اگر آج بھی یہ ثابت ہو جائے کہ یہ تصورات غلط یا ناقص ہیں تو مغرب کی علمی اور سیاسی فوقیت کے باوجود دنیا پر ان کا ذہنی تسلط ختم ہو جاتا ہے۔
تسکین خواہشات
اس میں شک نہیں کہ ان میں بعض تصورات انسان کی ادنیٰ جبلتی خواہشات کی آسودگی کے پیامبر ہیں۔ مثلاً فرائڈ کا نظریہ جنسیت کی خواہش کے راستہ کی رکاوٹوں کو دور کرتا ہے۔ اشتراکیت کا نظریہ بنیادی اقتصادی ضروریات کی تکمیل کی راہیں کھولتا ہے اور قومیت کا نظریہ حب تفوق و استیلاء کو مطمئن کرتاہے۔
علمی جاذبیت
لیکن ظاہر ہے کہ اگر ان تصورات کے اندر کوئی علمی جاذبیت نہ ہوتی تو اس حقیقت کے باوجود ناممکن تھا کہ ان کو کوئی عالمگیر اثر و نفوذ حاصل ہو سکتا۔
مادی ترقی
پھر بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مذہبِ قومیت کی ترقی کا بڑا سبب یہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے یورپ کی قوموں کے لیے ہر قسم کی مادی ترقی ممکن ہوئی ہے لیکن دراصل اقوامِ یورپ کی مادی ترقی مذہب ِ قومیت کے فروغ کا نتیجہ ہے نہ کہ اس کا بنیادی سبب‘ مذہبِ قومیت کے فروغ کا بنیادی سبب وہی ہے جس نے یورپ کی قوموں کو اس کی طرف مائل کیا ہے اور وہ مکیاولی کا فلسفہ ہے۔
روٹی کا نعرہ
اسی طرح سے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سوشلزم روٹی اور دوسری ابتدائی ضروریاتِ زندگی کا ضامن ہے لیکن سوشلزم صدیوں سے دنیا میں موجود ہے اور ہمیشہ ان ضروریات کی ضمانت دیتا رہا ہے۔ پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ جب تک کارل مارکس نے اسے ایک فلسفہ کی شکل نہیں دی تھی‘ سوشلزم کو کوئی فروغ حاصل نہ وہ سکا تھا۔ آپ کہیں گے کہ اس ضمانت میں سوشلزم کی کامیابی نے جان ڈال دی ہے لیکن سوشلزم کی اس کامیابی کا سبب کیا ہے جس نے اس ضمانت کو بامعنی اور وزن دار بنا دیا ہے؟
حکماء کی ہمنوائی
یقینا اس کا سبب یہی ہے کہ مارکس کے فلسفہ نے چوٹی کے حکماء کو قائل اور ہمنوا بنا دیا ہے۔ سوشلزم کے مخالف آج تک مارکس کے فلسفہ کا معقول اور مسکت جواب نہیں لکھ سکے۔ لینن جو روس کے انقلاب کابانی ہے ‘ خود ایک فلسفی تھا۔ اگر مارکسی فلسفہ اُسے قائل نہ کر سکتا تو روسی انقلاب وجود میں نہ آتا۔ سوشلزم کے مخالف مدت تک اس غلط فہمی میں مبتلا رہے ہیں کہ سوشلزم کا جواب یہ ہے کہ عوام کی اقتصادی ضروریات کا اہتمام کر دیا جائے۔
مارشل پلین کی ناکامی
لیکن مارشل ایڈپلین کے نتائج نے اب اس غلط فہمی کو رفع کر دیا ہے۔ اخبار ’’ٹائمز‘‘ (لندن) لکھتا ہے:
’’سیاسی نقطۂ نگاہ سے مارشل ایڈپلین کے نتائج ایسے تسلی بخش نہیں… یہ حقیقت حوصلہ شکن ہے کہ ۵۱ء کے اس موسم گرما میں فرانس کے عام انتخابات اور اٹلی میں انتظامی افسران کے انتخابات نے ظاہر کر دیا ہے کہ اشتراکیوں کی طرف عوام کے میلان میں کوئی کمی نہیں ہوئی … اقتصادی خوشحالی کی تدابیر سے اشتراکیت کا مقابلہ کرنا جو مارشل ایڈپلین کا خاص مقصد تھا کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا… اشتراکیت کے مذہب اور اس کی جاذبیت کا کامیاب مقابلہ کرنے کے لیے جس سے اس وقت ہر ایک مذہب پرست گروہ عاجز ہے اس گہری حقیقت پر غور کرنا چاہیے کہ آخر کار ایک سچا مذہب ہی ہے جو جھوٹے مذہب کے ساتھ مقابلہ کر کے اسے فنا کر سکتا ہے‘‘۔
غرضیکہ ہم جس نقطۂ نظر سے دیکھیں ہمیں نظر آئے گا کہ یورپ کے ان فلسفیانہ تصورات کے فروغ کا اصلی اور بنیادی سبب یہ ہے کہ ان کا استدلال اعلیٰ ترین ذہانت اور قابلیت کے غیر جانبدار حکماء کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔
بے بسی کا عالم!
مغربی تصورات کے پیدا کیے ہوئے فتنۂ ارتداد کے خلاف ہمارا ردِّعمل اگرچہ کئی طرح کا ہے۔ لیکن اب تک اس کاحل مکمل بے بسی کے سوا ئے اور کچھ نہیں۔ اس میں وہ غیرت دینی کا مظاہرہ اور وہ جوش وخروش بالکل نہیں جو مذاہب کے پیدا کیے ہوئے فتنۂ ارتداد کے خلاف ہمارے ردِّعمل کا ایک جزو تھا۔
لاعلمی
ہم میں سے بعض تو ایسے ہیں جنہیں اس فتنہ کا علم ہی نہیں وہ خود محلہ کی مسجد میں نماز پڑھتے ہیں اور نمازی اور دین دار مسلمانوں سے ان کا میل جول ہے۔ باقی مسلمانوں کو جو اس فتنہ کی نذرہو چکے ہیں وہ فقط بے دین مسلمان کہتے ہیں اور ان سے ناراض ہوتے ہیں کہ وہ نماز نہیں پڑھتے‘ روزہ نہیں رکھتے اور دوسرے احکام دین پر عمل نہیں کرتے ۔ چونکہ ’’یہ مغرب زدہ‘‘ مسلمان اسلامی عقائد سے برگشتہ ہونے کے باوجود دائرہ اسلام کے اندر ہی رہتے ہیں اس لیے متدیّن مسلمانوں کو ان کے اسلام پر دھوکہ ہوتا ہے اور وہ نہیں جانتے کہ جب اسلام پر ان لوگوں کا اعتقاد ہی باقی نہیں رہا تو ان کے لیے نماز پڑھنا اور دوسرے احکامِ دین پر عمل کرنا کس طرح ممکن ہے؟
بے اعتنائی
پھر ہم میں سے بعض ایسے ہیں جنہیں اس فتنہ کے وجود کا علم تو ہے لیکن وہ اسے بے معنی اور ناقابل اعتناء سمجھتے ہیں وہ ایک احمقانہ خود اعتمادی کا شکار ہیں اور مغرب کے گمراہ کن فلسفیانہ تصورات کی معقول اور مدلل تردید مہیا کرنے کی بجائے ان کے مقابلہ میں اسلام کی عمدگی اور معقولیت کے زبانی بلاثبوت دعوؤں سے اپنے آپ کو مطمئن کر تے رہتے ہیں۔ پھر بعض ایسے ہیں جو اس فتنہ کو بالکل بے معنی اور ناقابلِ اعتناء تو نہیں سمجھتے لیکن یہ نہیں جانتے کہ اس کا اثر کس قدر وسیع اور گہرا ہے اور دن بدن کس قدر سرعت کے ساتھ اس کی وسعت اور گہرائی میںاضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ اگر اس کے خلاف اسلام کی فوری اور مؤثر مدافعت کاانتظام نہ کیا گیا تو ملت کا وجود کس قدر خطرہ میں ہے۔
سہل گیری
پھر بعض ایسے ہیں جو اس فتنہ کے پیدا کیے ہوئے خطرہ کااحساس تو کرتے ہیں لیکن‘اس کے مقابلہ کے لیے اپنے آپ کو بے بس پاتے ہیں۔ وہ دبک کر ایک کونے میں بیٹھتے ہیں۔
خوش اعتقادی
اور اسلام کے مستقبل پر اپنے یقین کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ عنقریب کوئی معجزہ عمل میں آئے گا جو ملت کو اس خطرہ سے بچا لے گا۔ ان کو معلوم نہیں جب کسی قوم کی زندگی میں کوئی معجزہ رونما ہوتا ہے تو وہ قوم خود ہی اس کا ذریعہ بنتی ہے اور خدا کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ قوم خود اپنی حالت کو نہ بدلے:
{ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْم حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ} (الرعد:۱۱)
’’خدا کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت نہ بدلیں‘‘۔
ناکام تردید
پھر بعض ایسے بھی ہیں جنہوںنے ان تصورات کی تردید کی طرف توجہ کی ہے لیکن ان کی تردید کئی پہلوؤں سے ناتمام ہونے کے باعث مخالف یا غیر جانبدار لوگوں پر کوئی اثر پیدا نہیں کر سکی کیونکہ انہوں نے ان تصورات کے اصلی ماخذ کے حقائق اور طرزِاستدلال کو نگاہ میں نہیں رکھا یا ان کا روئے سخن اپنوں کی طرف رہا ہے۔ بالخصوص ایسے اپنوں کی طرف جو پہلے ہی ایک غافلانہ خود اعتمادی کا شکار ہیں اور انہوں نے ان بیگانوں کو خطاب نہیں کیا جو ان تصورات کے معتقد ہیں اور جن کی تبلیغ ان تصورات کے زہر کو پھیلانے کا موجب ہو رہی ہے۔ لہٰذا انہوں نے علمی تحقیق اور عقلی استدلال کی نسبت اپنے اعتقادات پر انحصار کیا ہے یا انہوں نے جن تصورات کی تردید کی ہے ان کی جگہ نئے صحیح تصورات پیش نہیں کیے۔ مثلاً مارکس کے نظریۂ تاریخ کی تردید کرنے کے بعد یہ نہیں بتایا کہ اسلامی نظریۂ تاریخ کیا ہے؟ یا اگر انہوں نے ان کی جگہ صحیح اسلامی تصورات پیش کیے ہیں تو یہ نہیں بتایا کہ علمی تحقیق اور عقلی استدلال کی رو سے وہ کیوں صحیح ہیں اور ان سے جو سوالات پیدا ہوتے ہیں ان کا جواب کیا ہے؟ مثلاً اگر مارکس کے فلسفۂ تاریخ کے مقابلہ میں اسلامی فلسفۂ تاریخ پیش کیا ہے تو اسے علمی لحاظ سے درست ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی اور فقط دعویٰ بلادلیل پر اکتفا کیا ہے یا انہوں نے ایک مکمل اور عقلی طور پر منظم نظریۂ کائنات کی تردید کرتے ہوئے خود جو نظریۂ کائنات پیش کیا ہے اسے عقلی اور منطقی طو رپر منظم اور مکمل نہیں کیا۔ تصورات باطلہ کی ایسی تردید دنیا کے حکماء پر جو اثر پیدا کر سکتی تھی وہ ظاہر ہے۔
غیروں کا طعنہ
یہی سبب ہے کہ ان تصورات کے حامیوں اور مبلغوں نے بلکہ غیر جانبدار لوگوں نے بھی آج تک یہ تسلیم نہیں کیا کہ ان تصورات کا جواب دینا تو درکنار مسلمانوں میں سے کسی نے اسلام سے ان کے تعارض اور تضاد کا ذکر تک بھی کیا ہو۔ چنانچہ ’’موڈرن اسلام ان انڈیا‘‘ کا امریکن مصنف پروفیسر سمتھ لکھتاہے:
’’جہاں دس یا بیس سال پہلے بازاروں کے موڑوں پر مذہبی مناظرے ہوا کرتے تھے اور تعلیم یافتہ مسلمان افکارِ جدید کے متعلق کتابیں پڑھ پڑھ کر اپنا سر کھپاتے تھے آج مسلمان نوجوان ان علمی مشکلات سے بے خبر اور بے پرواہ ہے جو زندگی کے صحیح راستہ کی حیثیت سے مذہب کے سامنے آتی ہیں۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح سے آزاد خیال مسلمانوں نے ان اعتراضات کا قریباً قریباً مکمل جواب دیا جو عیسائیوں نے اسلام پر وارد کیے تھے۔ آج ترقی پسند مسلمان اس جواب کو کافی سمجھتا ہے اور کوئی مسلمان ایسا پیدا نہیں ہوتا جو جواب دینا تو درکنار ان اعتراضات کا فقط ذکر ہی کرے جو اس زمانہ میں فلسفی‘ مؤرخ‘ ماہر نفسیات اور ماہر اجتماعیات نے اسلام پر اور سارے مذاہب پر وارد کر رکھے ہیں جس طرح انیسویںصدی کے کٹر مسلمان جو عیسائیوں اور آزاد خیال مغربیوں کے اعتراضات کا جواب دینے سے انکار کرتے تھے اور سرسید احمد اور امیر علی کو ان کے جواب دینے کی وجہ سے برا سمجھتے تھے‘ قدامت پسندی کا سہارا تھے۔ اسی طرح سے وہ مسلمان جو ان جدید اعتراضات کا جواب دینے سے قطع نظر کرتے ہیں۔ قدامت پسند جماعتوں کا سہارا ہیں‘‘۔
غلط تردید
یہی نہیں بلکہ اسلامی نقطۂ نظر سے بھی ان کی تردید اکثر اوقات ناقص اور غلط ہو گئی ہے۔ چونکہ مغرب کے باطل تصورات میں حق کا امتزاج بھی ہے اور وہ اسلامی اور غیر اسلامی تصورات کے ایک مرکب کی صورت میں ہیں۔ لہٰذا کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ انہوں نے اسلامی اور غیر اسلامی تصورات میں فرق نہیں کیا۔ بعض وقت غیر اسلامی تصورات کو اسلامی سمجھ کر اُن کی حمایت کر گئے ہیں اور بعض وقت اسلامی تصورات کو غیر اسلامی سمجھ کر ان کی مخالفت پر اتر آئے ہیں۔
انہوں نے نادانستہ طور پر کبھی تو باطل تصورات کی مخالفت‘ بعض دوسرے باطل تصورات کی مدد سے کی ہے اور کبھی صحیح تصورات کی حمایت کے لیے بعض دوسرے صحیح تصورات کی مخالفت کر ڈالی ہے۔ نتیجہ یہ ہوا ہے کہ نہ صرف ان کی تردید غلط ‘ناقص اور بے اثر رہی ہے بلکہ اس کی وجہ سے اسلام کا نقطۂ نظر بھی غلط طور پر پیش ہو گیا ہے۔
انسدادِ اِرتداد کا طریق
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہمیں ان تصورات کے پیدا کیے ہوئے فتنۂ ارتداد کی روک تھام کے لیے کیا کرنا چاہیے؟
سبب کا ازالہ
ظاہر ہے کہ یہ فتنۂ ارتداد اس وقت تک رُک نہیں سکتا جب تک کہ ہم اس کے اصلی اور بنیادی سبب کا ازالہ نہ کریں یعنی ان تصورات کی ذہنی جاذبیت کو ختم نہ کریں اور ان کی ذہنی جاذبیت اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک کہ ہم طاقتور علمی دلائل اور عقلی براہین کے ساتھ چوٹی کے حکماء کے نزدیک ان کی فرضی معقولیت کا پردہ چاک نہ کریں۔
صرف ایک راستہ
اگر ہم ایسا کریں گے تو ان تصورات کا اثر زائل ہو جائے گا اوران کی قوت ختم ہو جائے گی اور ان کی بجائے دوسرے ان کے مخالف تصورات جو ان سے زیادہ معقول اور مدلل ہوں گے اور جو لازماً صحیح اور اسلامی تصورات ہوں گے ‘ فروغ پانے لگ جائیں گے اور اگر ہم ایسا نہ کریں گے یا نہ کر سکیں گے تو پھر خواہ ہم ان غلط تصورات کی تردید کے لیے لاکھوں دلائل دیتے رہیں یا ان کا اثر زائل کرنے کے لیے لاکھوں اور حیلے کرتے رہیں ان سے کچھ فائدہ نہیں ہو گا۔ ان کا نتیجہ زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ وہ مسلمان جو پہلے ہی ان تصورات سے متنفر ہیں اور ایک سادہ دلانہ خود اعتمادی کا شکار ہیں اور خوش ہو جائیں گے لیکن جہاں تک فتنۂ ارتداد کی روک تھام کا تعلق ہے یہ طریق عمل بالکل بے سود اور بے کار ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ایک درخت کو اس کی جڑ ہی سے اکھیڑ سکتے ہیں۔ اس کی شاخوں یا پتوں کو بار بار نوچ ڈالنے سے فائدہ نہیں جب تک اس کی جڑ قائم رہے گی‘ اس کی شاخیں پھوٹتی رہیں گی اور ان میں پتے نکلتے رہیں گے۔ ایک قلعہ گیر فوج کے حملوں سے نجات اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ ہم قلعہ کے اندر گھس کر اس کو شکست نہ دیں اور اس کی پناہ گاہ میں ہی اسے ملیامیٹ نہ کریں۔
مغرب کے باطل تصورات کی جڑیا ان کا محفوظ قلعہ یا ان کے اثر کا منبع ان کا علمی اور عقلی معیار ہے اگر ہم فقط اپنے سامنے نہیں بلکہ دنیا کے سامنے اس معیار کو اسلامی تصورات کے علمی اور عقلی معیار کے مقابلہ میں پست اور گھٹیا ثابت کر دیں تو ہم ان پر غالب آ سکتے ہیں ورنہ نہیں۔
کفر کے ناپاک اور زہریلے مواد ایک منبع سے پھوٹ پھوٹ کر بہہ رہے ہیں اور ہمارے گھر کو آلودہ کر رہے ہیں اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا گھر ان سے آلودہ نہ ہو تو اس کا طریق یہ ہرگز نہیں کہ ہم اپنی توجہ کو فقط اپنے گھر تک ہی محدود رکھیں اور اسے بار بار صاف کرتے رہیں بلکہ اس کا طریق یہ ہے کہ ہم ان مواد کے منبع کو روک دیں۔
دلیل کی اہمیت
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ دلائل اور براہین بے کار ہیں کیونکہ ان سے یقین پیدا نہیں ہوتا لیکن دراصل یہ خیال غلط ہے اگر انسان دلیل سے گمراہ ہو سکتا ہے تو دلیل سے ہدایت بھی پا سکتا ہے اور یہاں‘ صورت حال یہی ہے ۔ لوگ حکمتِ مغرب کے دلائل ہی سے گمراہ ہوئے ہیں لہٰذا وہ دلائل ہی سے ہدایت پائیں گے۔
دلائل کاماخذ
سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ طاقتور علمی دلائل اور عقلی براہین جن کے بغیر ہم اس دور کے خطرناک باطل فلسفہ کو شکست نہیں دے سکتے کہاں سے آئیں گے؟
اگروہ قرآن کے باہر سے لیے جائیں گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کا علم ملت کو کفر کے پیدا کیے ہوئے نئے نئے فتنوں سے نہیں بچا سکتا اور قرآن ہمارے لیے کافی نہیں۔ حالانکہ خدا فرماتا ہے:
{فَبِاَیِّ حَدِیْث بَعْدَہٗ یُؤْمِنُوْنَ} (المرسلٰت:۵۰)
’’اس کتاب کے بعدکس بات پر ایمان لانا چاہتے ہیں‘‘۔
اور حضورﷺ نے فرمایا ہے:
((لَنْ تَضِلُّوْا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِھِمَا ))
’’جب تک تم اس کتاب اور سنت کو تھامے رکھو گے گمراہ نہیں ہو گے‘‘۔
اور صحابہؓ نے تسلیم کیا تھا:
حَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ
’’ہمیں اللہ کی کتاب کافی ہے‘‘
اور پھر اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ خود باطل نہ ہوں گے۔ہم قرآن سے باہر کے کسی علم کو کسی دلیل یا برہان کو خالی از خلل نہیں مان سکتے۔
اور اگر وہ دلائل اور براہین قرآن سے لیے جائیں گے تو آشکار ہے کہ قرآن میں عصر حاضر کے ان فلسفیانہ تصورات کی تردید بظاہر بالکل موجود نہیں۔
قرآن کافی ہے
اصل بات یہ ہے کہ قرآن ہمیں ان تمام غلط فلسفیانہ تصورات کودلیل اور علم کی روشنی سے غلط ثابت کرنے کے لیے کفایت کرتا ہے جو شیطان کی مکاری سے قیامت تک پیدا ہوتے رہے گے۔ قرآن کے اندر قیامت تک کے ہر کفر کا منہ توڑ جواب موجود ہے اور اگر ہم قرآن کی روح سے آشنا ہوں اور قرآن کی صحیح بصیرت اور قرآن فہمی کا صحیح ذوق رکھتے ہوں تو ہم ہمیشہ اس قابل ہو سکتے ہیں کہ اس کو بوقت ضرورت قرآن سے اخذ کر سکیں۔
حقائق قرآنیہ کی قسمیں
لیکن قرآن کے حقائق تین قسم کے ہیں:
اوّل : وہ حقائق جن کا ذکرلفظاً قرآن کے اندر موجود ہے۔ مثلاً:
{رب السموت والارض} ’’اللہ کائنات کا پرورش کنندہ ہے‘‘۔
{اللہ خالق کل شیء} ’’اللہ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے‘‘۔
دوئم : وہ تمام حقائق جو اوّل الذکر حقائق سے یا منطقی استدلال سے اخذ کیے جائیں گے مثلاً اللہ خالق کل شیء سے ہم کسی خاص چیز کے مخلوق ہونے کو حقیقت قرآنیہ قرار دیں بدون اس کے کہ اُس کے مخلوق ہونے کا ذکر قرآن میں لفظاً موجود ہو۔
سوئم : وہ علمی حقائق (یعنی صحیح اور سچے علمی حقائق) جو انسان نے اپنی ذہنی کاوش اور جستجو سے دریافت کیے ہوں اور اوّل الذکر یا ثانی الذکر حقائق کے مضمرات میں سے ہوں یا ان کی تائید کرتے یا ان سے مطابقت رکھتے ہوں مثلاً یہ علمی حقیقت کہ کائنات کی موجودہ صورت ایک تدریجی ارتقاء سے وجود میں آئی ہے اور کائنات کا ارتقاء جاری ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ حقیقت علیحدہ اور مستقل ذہنی جستجو اور علمی تحقیقات کے نتیجہ کے طور پر دریافت ہوئی ہے اور رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اور رَبُّ الْعَالَمِیْنَ کے قرآنی ارشادات کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے اور ان کے مضمرات میں سے ہے۔
صداقت کا معیار
خواہ دوسرے لوگ اس تیسری قسم کے حقائق قرآنیہ کو اپنی علمی تحقیقات کی بنا پر صحیح جانیں لیکن ہم مسلمانوں کے نزدیک ان کی صداقت کی فیصلہ کن دلیل یہ ہو گی کہ وہ قسم اوّل یا دوم کے قرآنی حقائق کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں ان حقائق کا ذخیرہ علم کی ترقی کے ساتھ ساتھ آج تک بڑھتا رہا ہے اور اس زمانہ میں اس کی وسعت ایک خاص اہمیت اختیار کر گئی ہے۔
ایک افسوس ناک غلطی
افسوس کہ ہم آج تک حقائق قرآنیہ کی صرف دوپہلی قسموں کو تسلیم کرتے رہے ہیں اور قرآن کے سارے علم کو ان ہی کے اندر محدود سمجھتے رہے ہیں اور تیسری قسم کو ہمیشہ نظر انداز کرتے رہے ہیں۔ اس زمانہ میں ایک خطرناک فتنۂ ارتداد کا ظہور اور فروغ غلط نظریات کی کشش اور کامیابی اور کفر کے بازار کی رونق اور خوبی کا سبب ہماری یہی غفلت اور کوتاہی ہے۔ ہماری اس غفلت اور کوتاہی کا ایک اور حد درجہ خطرناک نتیجہ یہ ہوا ہے کہ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے اور ہم عہد رسالتؐ سے دور ہوتے جا رہے ہیں‘ قرآن کی تعبیر اور تشریح اور دین کے تقاضوں اور مطالبوں کے متعلق ہمارے اختلافات بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور ہمارے خیالات زیادہ منتشر ہوتے جا رہے ہیں ۔ حتیٰ کہ آج ہم پہلے کی نسبت کسی قطعیت کے ساتھ یہ بتانے میں بہت دقت محسوس کر رہے ہیں کہ اسلام کیا ہے اور کیا چاہتا ہے؟
ممکن اعتراضات
بعض مسلمان کہیں گے کہ :
(۱) یہ تیسری قسم کے حقائق قرآن کے اندر موجود نہیں بلکہ وہ زیادہ تر ان لوگوں کی علمی تحقیق کا نتیجہ ہیں جو قرآن پر ایمان نہیں رکھتے۔ نہ ہی آج تک صحابہ‘ ائمہ ‘ فقہاء‘ علماء اور حکماء ایسے اکابر اُمت کو ان کا علم تھا۔ پھر ان کو حقائق قرآنیہ کیوں قرار دیا جائے۔ اس کے علاوہ
(۲) علمی تحقیق کے نتائج بدلتے رہتے ہیں اگر کل کو علمی تحقیق ان حقائق کی مخالفت کرنے لگ جائے تو کیا پھر بھی یہ حقائق قرآنیہ ہی سمجھے جائیں گے اور اگر نہ سمجھے جائیں گے تو کیوں؟ اور
(۳) اگر آج تک مسلمان ان کے بغیر قرآن کی تشریح اور تفسیر ٹھیک طرح سے کرتے رہے ہیں‘ تو آج ان کے بغیر قرآن کی صحیح تفسیر یا تعبیر کیوں نہیں کر سکتے اور دین کے مطالبوں اور تقاضوں کو ٹھیک طرح سے کیوں نہیں سمجھ سکتے؟
علم کی ماہیت
ان سوالات کے جواب دینے سے پہلے میں علم کی ماہیت کے متعلق کچھ گزارشات کروں گا۔
سارا علم خواہ وہ کسی ذریعہ سے ہم تک پہنچے حقیقت کائنات (جس میں حقیقت انسان بھی شامل ہے) کا علم ہے۔
اور کائنات کیا ہے؟ فقط ایک سلسلۂ قوانین ہے اور اس کے سوائے اور کچھ نہیں۔
کائنات کے طبقات
کائنات کے تین طبقے ہیں۔ مادہ‘ حیوان اور انسان۔ پہلے مادہ وجود میں آیا۔ جب مادہ مکمل ہوا تو حیوان کا ظہور ہوا اور جب جسم حیوانی مکمل ہوا تو وہ انسان تھا۔ لہٰذا یہ تینوں طبقے انسان میں بھی موجود ہیں۔ انسان مادہ بھی ہے‘ حیوان بھی ہے اور انسان بھی ہے۔ خدا کے بنائے ہوئے قوانین ان تینوں میں موجود ہیں اور اپنا اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔ مادہ‘ مادی قوانین کا پابند ہے۔ حیوان مادی قوانین کے علاوہ حیوانی یا حیاتیاتی قوانین کا بھی پابند ہے اور انسان مادی اور حیاتیاتی قوانین کے علاوہ انسانی یا نفسیاتی قوانین کا بھی پابند ہے۔
علم کے طبقات
کائنات کے تین طبقوں کے مقابلہ میں علم کے بھی صرف تین ہی طبقے ہیں۔ مادی طبقہ کے قوانین کو علم طبعیات کہتے ہیں۔ حیوانی طبقہ کے قوانین کو علم حیاتیات کہتے ہیں اور انسانی طبقہ کے قوانین کو علم نفسیات کہتے ہیں۔ باقی تمام علوم ان بنیادی علوم کی شاخیں ہیں۔چونکہ علم کی پہلی دو قسمیں نفس انسانی سے باہر کی کائنات سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس لیے قرآن کی اصطلاح میں ان دونوں کے لیے ایک نام تجویز کیا گیا ہے ‘ علم آفاق اور چونکہ علم کی تیسری قسم نفس انسانی سے تعلق رکھتی ہے اسے قرآن کی اصطلاح میں علم انفس کہا گیا ہے۔
تخلیق کے معنی
ساری تخلیق درحقیقت قوانین ہی کی تخلیق ہے۔ نئے نئے قوانین کے ظہور میں آنے کو تخلیق کہتے ہیں اور ارتقاء بھی اسی کا نام ہے۔ ہر قانونِ قدرت فقط خدا کے قول ’’کُن‘‘ (ہوجا) سے پیدا ہوا ہے۔
{اِنَّمَا اَمْرُہٗ اِذَا اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّـقُوْلَ لَـہٗ کُنْ فَـیَکُوْنُ} (یٰسٓ:۸۲)
’’خدا جب کسی بات کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کن کہتا ہے وہ ہو جاتی ہے۔‘‘
قول
ایک قانونِ قدرت کے وجود میں آنے سے پہلے خدا کی قدرت ِمطلقہ اور بدیع آفرینی کے سوائے اور کوئی سبب نہیں ہوتا۔ حال ہی میں بعض حکماء نے اس نقطۂ نظر کی بنا پر ارتقاء کا ایک نیا تصور قائم کیا ہے جسے ارتقائے ابداعی کہا جاتا ہے اس لیے قرآن میں قانونِ قدرت کو قول کہا گیا ہے اور چونکہ ہر قانونِ قدرت خدا کا ایک طریقِ کار سنت بھی ہے اس لیے قرآن میں اُسے سنت کہا گیا ہے۔
آیت
اور چونکہ وہ خدا کی صفات کا ایک ظہور ہے اسے ایک آیت (نشانی) بھی کہا گیا ہے۔ نہ تو اس کائنات میں قوانین کے بغیر کوئی چیز موجود ہے اور نہ ہی قوانین کے عمل کے بغیر یہاں کچھ ہوتا ہے۔
قوانین قدرت کی خاصیات
قوانین کائنات غیر مبدل ہیں ‘وہ ہر جگہ ہر شخص اور ہر قوم کے لیے یکساں طور پر کام کرتے ہیں کسی کی مخالفت یا موافقت نہیں کرتے۔ بلکہ فقط اپنا کام کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں قرآن کے ارشادات حسب ذیل ہیں:
(۱) {فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا} (فاطر:۴۳)
’’تم اللہ کے قانون میں کوئی تبدیلی نہیں پاؤ گے‘‘۔
(۲) {وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَحْوِیْلًا} (فاطر:۴۳)
’’تم خدا کے قانون میں کوئی تغیر نہیں دیکھو گے‘‘۔
(۳) {مَا یُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ} (قٓ:۲۹)
’’میں اپنی بات کونہیں بدلا کرتا‘‘۔
(۴) {مَا تَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُت} (الملک:۳)
’’تو اللہ کی مخلوق میں کہیں کوئی ناہموارگی نہ پائے گا‘‘۔
ماتحت قوانین
ایک قانون کا عمل اور بہت سے قوانین کے عمل پر موقوف ہوتا ہے مثلاً مینہ کا برسنا ایک قانون ہے لیکن اس قانون کے عمل کے لیے بہت سے قوانینِ قدرت اسباب کے طور پر کام کر تے ہیں مثلاً یہ کہ:
(۱) پانی حرارت سے بخارات میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
(۲) پانی کے بخارات کا وزن مخصوص ہوا سے کم ہوتا ہے۔
(۳) ہوا سے کم وزن رکھنے والی گیسیں فضا میں اوپر اٹھتی ہیں۔
(۴) سورج کی شعاعیں جس واسطہ سے گزرتی ہیں اسے گرم نہیں کرتیں لہٰذا ہوا زمین سے حرارت لے کر گرم ہو تی ہے۔
(۵) زمین سے اوپر ایک کشش ثقل موجود ہے جس سے فضا کی نچلی سطحوں کا دباؤ بڑھ جاتا ہے۔
(۶) ہوا اپنے دباؤ کی نسبت سے حرارت کو جذب کر سکتی ہے۔ لہٰذا فضا کے اوپر کے طبقے سرد ہوتے ہیں۔
(۷) بخارات آبی کو جب سردی لگے تو جم کر پانی کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔
(۸) مائعات جب زمین پر گرتے ہیں تو کشش ثقل کے عمل سے گول ہو کر قطرات بن جاتے ہیں۔
(۹) ہوائیں سرد علاقوں سے گرم علاقوں کی طرف چلتی ہیں۔
(۱۰) زمین پانی کی نسبت سورج کی گرمی زیادہ جذب کر سکتی ہے۔
(۱۱) لہٰذا گرما کے موسم میں ہوا سمندرسے خشکی کی طرف چلتی ہے۔ وعلیٰ ہذا القیاس
بالاتر قوانین
اسی طرح سے یہ ایک قانونِ قدرت ہے کہ لکڑی جلتی ہے لیکن لکڑی کا جلنا ایک کیمیاوی عمل ہے جس میں طبعیات کے بہت سے قوانین کام کرتے ہیں۔ اسی طرح سے یہ قوانین قدرت ہیں کہ سورج زمین کو حرارت اور روشنی بہم پہنچاتا ہے‘ زمین غلّہ اُگاتی ہے‘ مچھلیاں پانی میں اور مویشی زمین پر زندہ رہتے ہیں‘ رات اور دن ایک دوسر ے کے پیچھے آتے ہیں‘ خدا کے ذکر سے انسان کو اطمینانِ قلب حاصل ہوتا ہے لیکن ان سب قوانین کے اندر اور بہت سے قوانین ہیں جن کے عمل سے ان کا عمل ممکن ہوتا ہے اور یہ سارے قوانین اس سے بھی اوپر کے ایک قانون کے اسباب ہیں اور وہ یہ ہے کہ قدرت انسان کی جسمانی اور روحانی پرورش کرتی ہے کیونکہ مینہ کابرسنا‘ سورج کا حرارت اور روشنی بہم پہنچانا‘ زمین کا غلہ اگانا‘ مچھلیوں کا پانی میں اور مویشیوں کا زمین پر زندہ رہنا‘ لکڑی کا جلنا‘ رات اور دن کا ایک دوسرے کے پیچھے آنا اور خدا کے ذکر سے اطمینانِ قلب حاصل ہونا‘ انسان کی جسمانی اور روحانی تربیت کے اسباب ہیں۔
قانونِ قوانین
گویا قدرت کا یہ ایک کلیہ ہے کہ ایک بڑے قانون کے اندر اور بہت سے قوانین پوشیدہ ہوتے ہیں اور پھر بڑے قوانین ایک اس سے بھی بڑے قانون کے ماتحت کام کرتے ہیں اور اس کے عمل کے اسباب کی حیثیت اختیار کرتے ہیں یہاں تک کہ سب قوانین بالاخر ایک سب سے بڑے قانون کے ماتحت آجاتے ہیں۔ جو سبب ِ اسباب یا قانونِ قوانین یا اصل یا حقیقت ِکائنات کی حیثیت رکھتا ہے۔ انسان وجدانی طور پر سمجھتا ہے کہ اس قسم کاقانون موجود ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہر بڑے فلسفی نے تسلیم کیا ہے کہ کائنات کی رنگا رنگی کا مبداء ایک ہی ہے اور اس کی کثرت کی بنیاد ایک ہی وحدت پر ہے۔ یہ بڑا قانون درحقیقت اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ بعض لوگ اسے خدا کہتے ہیں۔
بعض قدرت‘ بعض شعورِ کائنات او ر بعض خودی ٔ کائنات‘ بعض ہستی ٔ مطلق‘ بعض ذات واجب الوجود‘ وعلیٰ ہذا القیاس۔
لیکن خواہ ہم اس بڑے قانون کا کوئی نام رکھ لیں۔ نام پر کچھ موقوف نہیں۔ ہمارے تصور عالم کا دار و مدار اس بات پر ہوتا ہے کہ ہم اس قانون کی ماہیت اور فطرت کیا قرار دیتے ہیں؟ یہی بڑا قانون ہے جس کی فطرت یا ماہیت کے سمجھنے میں لوگوں نے غلطیاں کی ہیں۔ یہی غلطیاں ہیں جو مذاہب اور فلسفوں اور نظریوں کے اختلافات کاسبب بنی ہوئی ہیں۔ اگر ہم اس بڑے قانون کو صحیح طو رپر جان لیں تو تمام چھوٹے قوانین ‘جو اس کی جزئیات اور تفصیلات ہیں‘صحیح طو ر جان سکتے ہیں ورنہ نہیں۔ چھوٹے قوانین کو صحیح طور پر جاننا‘ خدا کا جاننا‘ خدا کے اوصاف اور افعال اور سنن کا جاننا ہے۔بڑے قانون کی فطرت اور ماہیت سے ناواقفیت ہمارے استدلال اور تمام علم کو غلط کر دیتی ہے۔
تمام قوانینِ قدرت اللہ تعالیٰ کے افعال ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات میں مخفی تھے ان کے ظہور میں آنے سے اللہ تعالیٰ کی صفات کا نمود اور ظہور ہو رہا ہے۔
{ھُوَ الظَّاھِرُ وَالْبَاطِنُ} (الحدید:۳) ’’وہی اللہ ظاہر بھی ہے اور باطن بھی‘‘
باہمی ربط
قوانینِ کائنات کے باہمی ربط اور ضبط کا یہ پہلو نہایت اہم ہے کہ یہ قوانین ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح سے جڑے ہوئے ہیں کہ ایک قانون کے حرکت میں آنے سے اور بہت سے قوانین حرکت میں آتے ہیں ۔ قوانینِ قدرت کے باہمی ربط کا یہی پہلو ہے جسے ہم حقائق کا منطقی یاعقلی تعلق یا سلسلۂ اسباب قرار دیتے ہیں اور جسے ہم استدلال کے ذریعے سے نمایاں کرتے ہیں۔ اس زنجیرِ حقائق یا سلسلۂ اسباب کی ابتدا بھی خدا ہے اور انتہا بھی خدا ہے۔
{ھُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ} (الحدید:۳) ’’وہی اوّل بھی ہے اور آخر بھی‘‘
مبداء اور منتہیٰ
وجہ یہ ہے کہ ان قوانین کا مصدر اور مبداء اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور ان کے عمل سے کائنات کے اندر اللہ تعالیٰ کی صفات کا ظہور اپنے کمال کو پہنچے گا اور یہی اس کائنات کی انتہا ہو گی۔
{وَاِنَّ اِلٰی رَبِّکَ الْمُنْتَھٰی} (النجم:۴۴)
’’کائنات کی انتہا اللہ تعالیٰ کی ذات ہے‘‘
وحدتِ کائنات
قوانین کائنات کے اندر یہ ربط جو انہیں ایک سلسلہ یا زنجیر کی شکل دیتا ہے اس لیے ہے کہ خدا کی ساری تخلیق ایک ہی مدعا کے ماتحت ایک مسلسل فعل ہے جس کی صرف ایک ابتداء اور ایک انتہا ہے۔ ضروری ہے کہ اس فعل کا ہر مرحلہ اگلے مرحلہ کے ساتھ اس طرح سے ملا ہوا ہے کہ گویا اگلا مرحلہ پہلے مرحلہ سے پیدا ہوتا ہے۔
ابدی قوانین عالم کی یہی زنجیر ہے جسے قرآن مجید میں لوحِ محفوظ کا نام دیا گیا ہے:
{بَلْ ھُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌ. فِیْ لَوْح مَّحْفُوْظ} (البروج:۱۲‘۲۲)
’’بلکہ یہ وہی قرآن ہے جو لوحِ محفوظ میں ہے۔‘‘
لوحِ محفوظ
انسانوں کو جو علم حاصل ہوتا ہے وہ اسی لوحِ محفوظ سے تقسیم کیا جاتا ہے۔ جب اس لوحِ محفوظ کی جھلک کسی سائنس دان پر پڑتی ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے سائنس کا ایک نیا انکشاف کیا ہے ۔ جب کسی درویش اور عابد پر پڑتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ اسے خدا کی معرفت حاصل ہوئی ہے۔ جب کسی نبی پر پڑتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ خدا نے اس پر وحی نازل کی ہے اور وہ لوگوں کی ہدایت کے لیے مامور ہوا ہے۔
قرآن مجید
قرآن مجید اسی لوحِ محفوظ کا ایک مجمل نقشہ ہے اور تمام کائنات کا علم مجمل طور پر اس کے اندر موجود ہے کسی قانونِ فطرت کا عمل کبھی ساقط نہیں ہوتا۔
مسلسل عمل
یہاں تک کہ جب ہمیں نظر آتا ہے کہ کسی خاص واقعہ میں کسی ایسے قانون کا عمل جو ہمیں معلوم تھا‘ باطل ہو گیا ہے تو وہ ابطالِ قانون کے ماتحت عمل میں آتا ہے جس کا ہمیں علم نہیں ہوتا۔ خرقِ عادات کے واقعات بھی کسی نامعلوم عادت یا نامعلوم قانونِ قدرت کے عمل سے ظہور پاتے ہیں۔
حقیقت کا مفہوم
اسی طرح دعا کے اثرات بھی قوانینِ قدرت کے ماتحت رونما ہوتے ہیں۔ دعا کا اثر بھی ایک قانون ہے۔ ہر حقیقت ایک قانونِ قدرت ہے یا ایک قانونِ قدرت کا جزوی اور وقتی عمل یا نتیجہ ہے۔
علم کا فائدہ
ہر قانونِ قدرت کا علم انسان سے ایک خاص قسم کا عمل چاہتا ہے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ انسان اس قانون کے عمل کے نقصان سے بچ جائے اور اس کے فائدہ سے مستفید ہو۔ مثلاً ہم جانتے ہیں کہ آگ جلاتی ہے تو ہم اس میں اپنا ہاتھ نہیں ڈالتے بلکہ اس کی حرارت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
تجربہ کی تائید
علم کی ساری تحقیق اس مفروضہ پر مبنی ہے کہ یہ کائنات غیر مبدل قوانین کا ایک سلسلہ ہے اور یہ مفروضہ اس قدر کامیاب ثابت ہوا ہے کہ آج تک کوئی حقیقت اس کے خلاف دریافت نہیں ہوئی بلکہ آج تک کے تمام علمی حقائق اس کی تصدیق کرتے چلے آئے ہیں۔ یہاں تک کہ اب حکماء اسے ایک بداہت سمجھتے ہیں اور اپنی تحقیقات کا آغاز اسی سے کرتے ہیں۔
خدا کا احسان
درحقیقت انسان پر خدا کا یہ بڑا احسان ہے کہ وہ جو کچھ کرتا ہے‘ غیر مبدل اور ناقابل تغیر قوانین کے ماتحت کرتا ہے ورنہ انسان کے لیے کسی مقصد کی جستجو ممکن نہ ہوتی۔ اس دنیا کے لیے اور نہ آخرت کے لیے اور انسان کی زندگی بے حد پریشان ہوتی۔ نیکوکاروں کو جزا کی امید رکھنے اور بدوں کو سزا کا خوف کھانے کی کوئی وجہ نہ ہوتی۔ لیکن خدا کہتا ہے کہ ہر عمل کی سزا اور جزا اس کے اندر رکھ دی گئی ہے ۔ ایک قانون بنا دیا گیا ہے کہ انعام کس عمل کے لیے اور سزا کس عمل کا نتیجہ ہو گی؟
{ فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ() وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ} (الزلزال:۷‘۸)
’’جو شخص ذرہ بھر نیکی کرے گا اس کا انعام پائے گا اور جو شخص ذرہ بھر بدی کرے گا اس کی سزا بھگتے گا۔‘‘
اور اس قانون میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہو تی جس سے بندوں پر ظلم کا امکان پیدا ہو کہ کبھی کوئی شخص نیکی کرے تو اسے سزا مل جائے اور کبھی کوئی برائی کرے تو اسے انعام دے دیاجائے۔
{مَا یُـبَدَّلُّ الْـقَوْلُ لَدَیَّ وَمَا اَنَا بِظَلاَّم لِّلْعَبِیْد} (قٓ:۲۹)
’’میں اپنی بات کو نہیں بدلتا اور بندوں پر ظلم نہیں کرتا‘‘۔
حکمت کا تقاضا
چونکہ خدا علیم اور حکیم ہے اس کی تمام صفات علم اور حکمت کے ماتحت ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ اس کے علم اور اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا کوئی کام بے اصول اور بے قاعدہ نہ ہو۔ اور وہ اپنے اصولوں اور قاعدوں کو بدلتا نہ رہے۔ خدا تو خدا ہے ۔ ایک معمولی علم و حکمت کا انسان بھی اصول اور قواعد کے مطابق کام کرتا ہے اور پھر وہ ان اصول اور قواعد پر قائم رہتا ہے۔
آزادی کا تقاضا
قوانین کی پابندی خدا کی آزادانہ مدعا طلبی کے منافی نہیں کیونکہ وہ سب قوانین کا خالق ہے اور ان کو اپنے مقصد اور مدعا کے ماتحت پیدا کرتا ہے بلکہ قوانین اور اصول کی موجودگی کسی آزادانہ طور پر معین کیے ہوئے مقصد یا مدعا کی موجودگی کی علامت ہے۔ جہاں قوانین یا اصول موجود نہ ہوں وہاں کوئی مقصد یا مدعا موجود نہیں ہو سکتا۔ اور جہاں کوئی مقصد اور مدعا موجود ہو وہاں اس کے حصول کے قواعد کا ہونا لازمی ہے۔ چونکہ کائنات کا کاروبار بے مقصد نہیں۔ لہٰذا وہ لازمی طور پر غیر مبدل قوانین کے ماتحت چلتاہے:
{رَبَّـنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ}
’’اے خدا تو نے کائنات بے مقصد پیدا نہیں کی (لہٰذا ہم اس مقصد کے قوانین کی زد میں ہیں) ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔‘‘
جو شخص کہتا ہے کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے اور جو چاہتا ہے کرتا ہے وہ صحیح کہتا ہے لیکن جو شخص کہتا ہے کہ خدا اپنی غیر محدود قدرت اور اپنی آزادانہ خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کبھی کبھی اپنے بنائے ہوئے قواعد و ضوابط کو نظر انداز بھی کر دیتا ہے یا کوئی کام ایسا بھی کرتا ہے جو اس کے طے شدہ قواعد کے ماتحت نہ ہو وہ خدا پر اتہام لگاتا ہے۔
{مَا یُـبَدَّلُّ الْـقَوْلُ لَدَیَّ وَمَا اَنَا بِظَلاَّم لِّلْعَبِیْد} (قٓ:۲۹)
’’میں اپنی بات کو بدلا نہیں کرتا اور لوگوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہوں‘‘۔
ضرورتِ علم
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کائنات کی حقیقت خواہ کچھ ہو ہمیں اس کے ساتھ یا اس کے علم کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ ہم اس مسئلہ پر سر کھپانے کی بجائے اسے کیوں نظر انداز نہ کر دیں؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر ہم ایسا کر سکیں تو بے شک ہمیں ایسا ہی کرنا چاہیے لیکن ہم ایسا نہیں کر سکتے۔
فطرت کا تقاضا
جب سے انسان اپنے آپ سے آگاہ ہوا ہے یعنی جب سے اس نے حیوانیت محض کے درجہ سے انسانیت کے درجہ میں قدم رکھا ہے۔ وہ اپنی فطرت سے مجبور ہے کہ حقیقتِ کائنات کا کوئی نہ کوئی حل پیدا کرے اور قدرت کا یہ جبر صرف ان چند انسانوں پر نہیں جو عالم یا دانا یا حکیم یا سائنس دان کہلاتے ہیں بلکہ ہر فردِ بشر پر ہے اور یہ جبر اس جبر سے زیادہ قوی اور زیادہ شدید ہے جس کی وجہ سے انسان اپنے لیے خوراک مہیا کرتا ہے کیونکہ ہم خوراک کی ضرورت کو کچھ عرصہ کے لیے ملتوی کر سکتے ہیں ‘لیکن تصورِ عالم کی ضرورت کو ایک لمحہ کے لیے بھی ملتوی نہیں کر سکتے۔
ناقابلِ التوا ضرورت
اگر ہم صحیح تصور عالم کو نہ پا سکیں تو ہم کائنات کا کوئی اور غلط تصور ہی قائم کر لیتے ہیں اور اسی کو صحیح سمجھتے ہیں۔جیسے کہ وہ شخص جو اچھی خوراک نہ پا سکے بھوک سے مجبور ہو کر ایک گھٹیا خوراک ہی سے اپنا پیٹ بھرتا اور اسی میں لذت محسوس کرتا ہے کوئی فردِ بشر ایسا ممکن نہیں جو کائنات کا کوئی نہ کوئی تصور صحیح یا غلط‘ اچھا یا برا نہ رکھتا ہو۔ ہر شخص کا تصور کائنات اس کے علم کے مطابق صحیح یا غلط ہوتا ہے اور ہر شخص کائنات کے اس تصور کو اختیار کرتاہے۔
ذاتی احساس
جسے ذاتی طور پر درست تسلیم کرتا ہے اور جس کی صحت اور عمدگی کا ذاتی احساس رکھتا ہے جب تک ہم کسی تصور عالم کی صحت پر خود یقین پیدا نہ کریں‘ ہم کسی دوسرے کے تصورِ کائنات کو اختیار نہیں کر سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کے تصورات عالم مختلف ہوتے ہیں۔ جوں جوں انسان کا علم ترقی کرتا گیا ہے۔ اس کا تصور عالم بھی صحیح تصور کے قریب آتا گیا ہے۔ ایک زمانہ وہ تھا جب حقیقت کائنات کے متعلق انسان کا علم اس قدر پست‘ محدود اور ناقص تھا کہ وہ تصورِ عالم کی فوری اور شدید ضرورت کو پورا کرنے کے لیے توہمات اور فرضی اصنامی روایات کو اختراع کرنے پر مجبور ہوا تھا۔ پھر جوں جوں اس کا علم ترقی کرتا گیا‘ کائنات کے متعلق اس کا تصور بہتر ہوتا گیا۔ تاہم ابھی تک انسانوں کی اکثریت کائنات کے صحیح تصور سے بہت دور ہے۔ پھر ہر شخص نہ صرف اس بات پر مجبور ہے کہ کائنات کا ایک تصور قائم کرے بلکہ اس بات پر بھی مجبور ہے کہ یہ یقین رکھے کہ وہ تصور سلسلہ قوانین عالم کے ساتھ پوری پوری مطابقت رکھتا ہے۔ خواہ وہ دوسروں کے لیے اس مطابقت کو ثابت کر سکے یا نہ کر سکے۔ ایک ماہر فلسفی جب حقیقت کائنات پر غور و فکر کر کے ایک تصور عالم قائم کرتا ہے اور سلسلہ قوانین عالم کو اس کے مطابق ثابت کرتاہے تو وہ تمام انسانی افراد کی ایک شدید ضرورت کی چیز مہیا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح سے جیسے کہ ایک کسان دوسرے لوگوں کے لیے غلہ پیدا کرتا ہے یاایک جولاہا کپڑا بنتا ہے۔
عوام کی ضرورت
اگر بعض لوگ کسی خاص کسان سے غلہ یا کسی خاص جولاہے سے کپڑا نہ خریدیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ غلے یا کپڑے کے بغیر گزارا کر سکتے ہیں۔
انسان کی شدید ترین ضرورت
افسوس ہے کہ بعض لوگوں نے روٹی کو اور بعض نے جنسیت کو انسان کی شدید ترین ضرورت سمجھا ہے لیکن اگر انسان کی فطرتی ضروریات کی شدت یا قوت کو ماپنے کا کوئی آلہ وضع ہو سکے تو یہ ثابت ہو جائے گا کہ انسان کی قوی ترین اور شدید ترین ضرورت اس کی کوئی بدنی یا حیاتیاتی ضرورت نہیں بلکہ وہ نفسیاتی ضرورت ہے جو حقیقتِ کائنات کے تصور سے مطمئن ہوتی ہے۔ انسان اس ضرورت کی خاطر اپنی ساری بدنی اور حیاتیاتی ضروریات کو قربان کر دیتا ہے۔ یہاں تک کہ موت سے ہم آغوش ہو جاتاہے لیکن اسے کوئی آنچ نہیں آنے دیتا۔ یہی وہ ضرورت ہے جو اگر ایک لمحہ کے لیے بھی رک جائے تو انسان جنون‘ ہسٹیریا‘ پریشانی اور اس جیسے دوسرے ذہنی عوارض کا شکار ہو جاتا ہے۔
علمی اہمیت
اور پھر حقیقت کائنات کا تصور ایک نظری یا ذہنی اہمیت ہی نہیں رکھتا بلکہ ایک نہایت ہی بلند درجہ کی عملی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ انسان نہ صرف اس بات پر مجبور ہے کہ حقیقت کائنات کا کوئی نہ کوئی تصور قائم کرے بلکہ اس بات پر بھی مجبور ہے کہ اپنی ساری عملی زندگی کو اس تصور کے ماتحت کر دے اور اس کے مطابق بنائے۔ لہٰذا اس کے تصور کی نوعیت اس کی عملی زندگی کے راستہ کو معین کرتی ہے۔ صحیح تصورِ کائنات اس کی عملی زندگی کوصحیح بناتا ہے اور کائنات کا غلط تصور اس کی عملی زندگی کو غلط راستہ پر ڈال دیتا ہے ۔ دوسرے الفاظ میں صحیح تصور کائنات کے ماتحت انسان سے ایسے اعمال سرزد ہوتے ہیں کہ وہ مصیبت اور پریشانی سے بچ جاتاہے لیکن غلط تصور کائنات کے ماتحت اس سے جوافعال صادر ہوتے ہیں وہ اسے بڑی بڑی مصیبتوں اور پریشانیوں میں مبتلا کر دیتے ہیں۔
لیکن اس بات کے باوجود کہ صحیح تصورِ کائنات کے بغیر انسان کا چارہ نہیں اوراس بات کے باوجود کہ انسان پوری کوشش کرتا ہے کہ اپنے ذہنی قویٰ کی مدد سے کائنات کا صحیح تصور دریافت کرے۔ انسان کی بے بسی اور بے چارگی کا یہ عالَم ہے کہ وہ اسے فقط اپنے ذہنی قویٰ کی مدد سے کبھی دریافت نہیں کر سکتا۔
ذہنی قویٰ
انسان کے ذہنی قویٰ تین ہیں۔ حواس‘ عقل اور وجدان۔ یہ جاننا نہایت ضروری ہے کہ یہ تینوں قویٰ انسان کی جستجوئے علم میں کیا حصہ لیتے ہیں۔ حواس اور عقل دونوں بالآخر وجدان کے خدمت گزار ہیں۔ وجدان انسان کی وہ ذہنی استعداد ہے جس سے وہ حقائق کا براہِ راست احساس کرتا ہے یا ان کے متعلق کوئی یقین یا اعتقاد قائم کرتا ہے۔ طلبِ علم کا سب سے بڑا ذریعہ انسان کی یہی استعداد ہے۔
حواس
حواس کی مدد سے ہم حقائق قدرت کے بعض پہلوؤں کا مشاہدہ کرتے ہیں اور پھر مشاہدہ کی بنا پر مکمل حقائق کا وجدان کرتے ہیں۔ وجدان مشاہدہ کی مدد سے حقائق کا اندازہ یا اعتقاد یا یقین قائم کرتا ہے اگر ہمارا وجدان حواس کی فعلیت کے نتائج کے اندر اپنے ڈھب کی کوئی تبدیلی پیدا نہ کرے تو ہم محض حواس کی مدد سے بیرونی دنیا کا کوئی علم حاصل نہ کرسکیں۔ حواس کی فعلیت کے نتائج جب ہماری معلومات کے زمرہ میں داخل ہوتے ہیں تو وہ ہمارے وجدان سے رنگے ہوئے ہوتے ہیں اور یہی سبب ہے کہ وہ معلومات شمار ہوتے ہیں۔
وجدان
ہمارے مشاہدات ہمیشہ ہمارے وجدان کے سانچہ میں ڈھل کر حقائق کی صورت اختیار کرتے ہیں۔ سونگھنے‘چکھنے‘ دیکھنے‘ سننے اور چھونے سے ہمیں جو کچھ معلوم ہوتا ہے ‘ اس کے معلوم ہونے کا بڑا سبب ہمارا وجدان ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض وقت تو ہماری بینائی کام کر رہی ہوتی ہے۔ لیکن ہم وہی چیز دیکھتے ہیں جسے ہم دیکھناچاہتے ہیں اور وہ چیز نہیں دیکھتے جسے ہم دیکھنا نہیں چاہتے یہاں ہماری خواہش ہمارے وجدان کے عمل کو متأثر کردیتی ہے اور پھر ہماری بینائی پورا کام نہیں کرتی۔
عقل
عقل سے ہم وجدانی طو رپر معلوم کیے ہوئے حقائق کے باہمی تعلقات کو سمجھتے ہیں اور ان تعلقات کے علم کی بناء پر نئے حقائق کا وجدان کرتے ہیں۔ اس طرح عقل وجدان کو نئے حقائق معلوم کرنے کے لیے اکساتی ہے۔
کائنات کا جزوی علم
ہر شخص گرد و پیش کی کائنات کو دیکھ کر اپنے ذہنی قویٰ کی مدد سے بعض قوانینِ قدرت کا علم حاصل کر لیتا ہے اور پھر اس علم کی تحریک سے اس کی بناء پر اور اس کی روشنی میں قانونِ قوانین اور سببِ اسباب کی ماہیت اور فطرت کے متعلق ایک وجدانی رائے یا اندازہ قائم کرتا ہے یعنی اس علم کی بنا پر کائنات کا ایک مجموعی وجدانی تصور قائم کرتا ہے۔
کائنات کا مجموعی وجدانی تصور
اور پھر خواہ اس کا یہ تصورِ عالم صحیح ہو یا غلط ‘مضحک ہو یا معقول‘ اچھا ہو یا برا۔ وہ یقین رکھتاہے کہ تمام قوانین قدرت جو اس کو معلوم ہیں اور معلوم نہیں یا جو کسی شخص کو اب تک معلوم ہیں یا آئندہ معلوم ہو سکتے ہیں۔ اس تصور کی جزئیات اور تفصیلات ہیں یعنی وہ یقین رکھتا ہے کہ قوانینِ کائنات کا مکمل سلسلہ اپنے حلقوں کی ترتیب کے سمیت اس تصور کے اندر موجود ہے اور اس کے ساتھ پوری مطابقت رکھتا ہے گو وہ دوسروں کو اس کی مطابقت کا قائل بنا سکے یا نہ بنا سکے۔
تنظیمِ حقائق کا تقاضا
یہ یقین جو ہر شخص کے دل میں ہر وقت موجود رہتا ہے نہایت ہی اہم ہے کیونکہ مذہب اور فلسفہ کے سارے اختلافات اور تعلیمِ نبوت سے بغاوت اور انکارکا اصلی باعث یہی یقین ہے لیکن یہ یقین حقائقِ عالم کی ترتیب اور تنظیم کے تقاضا کا نتیجہ ہے اور ایک فطرتی چیز ہے اور ہم کسی شخص کو اس کے لیے مطعون نہیں کر سکتے۔ یہ یقین خدا نے انسان کو اس لیے دیا ہے تاکہ وہ صحیح تصور عالم کے یقین کا ایک جزو بنے اور اس کی مدد سے انسان قوانینِ عالَم کی صحیح ترتیب معلوم کر سکے۔
ذہنی علم کے تین پہلو
گویا حقیقتِ کائنات کے متعلق ہر شخص کا علم اس کی ذہنی فعلیت کے تین پہلوؤں کا نتیجہ ہوتا ہے:
اوّل: مشاہدات کی بناء پر قوانینِ قدرت کا علم حاصل کرنا۔
دوم: اس علم کی بنا پر قانونِ قوانین یا حقیقت کائنات کا وجدانی تصور قائم کرنا۔
سوم : قوانینِ کائنات کے پورے سلسلہ کو اس کے حلقوں کی ترتیب کے ساتھ اس تصور کے مطابق سمجھنا۔
فلسفہ ناگزیر ہے
جو شخص پہلے کام کو دوسرے لوگوں کے لیے مہارت اور قابلیت سے انجام دیتا ہے اسے سائنس دان کہتے ہیںاور جو شخص دوسرے اور تیسرے کام کو دوسر ے لوگوں کے لیے مہارت اور قابلیت سے انجام دیتا ہے اسے حکیم یا فلسفی کہتے ہیں ۔ گویا ہر شخص سائنس دان بھی ہے اور فلسفی بھی ہے۔ لیکن ہم صرف اچھے سائنس دان کو سائنس دان کہتے ہیں اور اچھے فلسفی کو فلسفی کہتے ہیں۔ فلسفی حقائقِ عالم کی ترتیب کو ‘جو اس کے وجدانی تصورِ عالم کے جزو کے طور پر اس کے یقین کے اندر پوشیدہ ہوتی ہے ‘ نمایاں کر کے ثابت کر دیتا ہے کہ وہ اس کے تصورِ عالم سے مطابقت رکھتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا بیان یقین پیدا کرتا ہے لیکن عام آدمی اگرچہ یقین رکھتا ہے کہ حقائقِ عالم کا سلسلہ اس کے تصور کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے اور اسی کے تصورِ عالم کا ایک حصہ ہے لیکن وہ دوسروں کے لیے اس یقین کی صحت کو نمایاں نہیں کر سکتا۔ تاہم وہ ہر وقت اس کو نمایاں کرنے کی کوشش میں رہتا ہے اور اپنے یقین کی وجہ سے سمجھتا ہے کہ وہ اس کوشش میں کامیاب بھی ہو سکتا ہے اور جب کوئی دوسرا شخص جو اس سے بہتر فلسفی ہو اس کو نمایاں کر دیتا ہے تو وہ خوش ہوتا ہے اور اس کے استدلال کو اپنا لیتا ہے۔ ایسی صورت میں اس کا تصورِ عالَم ایک نظامِ حکمت کی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ اور چونکہ وہ ترتیب اور نظمِ حقائق کے تقاضا کو جو انسان کی فطرت میں ہے‘ پورا کرتا ہے۔ اس لیے دوسروں کے دل میں اس کے تصورِ عالم کا یقین پیدا کرتا ہے اور اس کے اپنے دل میں بھی اس کے اعتقا د کو پختہ کرتا ہے اس سے ضمناً یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگرہم صحیح تصور عالم کو جو قرآن نے پیش کیا ہے ایک نظامِ حکمت کی شکل میں لا سکیں تو لوگ جلد اس کے معتقد ہو جائیں گے۔
اگر کوئی شخص کہے کہ وہ فلسفی نہیں تو اس کا مطلب یہ لینا چاہیے کہ وہ اچھا فلسفی نہیں اور اپنے تصورِ عالَم کے اندرونی حقائق کی نظم اور ترتیب معقول طور پر بیان نہیں کر سکتا۔ ورنہ جس طرح حیوان ہونے کی حیثیت سے انسان جبلتوں کا محتاج ہے۔ اسی طرح سے ایک انسان ہونے کی حیثیت سے وہ ایک مدلل اور منظم تصورِ عالم کا محتاج ہے۔ اور اسے مدلل اور منظم سمجھنے پر مجبور ہے۔ تاہم اکثر لوگ اپنے وجدانی تصورِ عالم کو خود نہیں بناتے بلکہ اپنے والدین سے‘ استادوں سے‘ پیشواؤں سے اور ان فلسفیوں سے جن کے وہ معتقدہو جاتے ہیں‘ یا انبیاء برحق سے مستعار لیتے ہیں۔ نیشنلزم‘ کمیونزم‘ امریکنزم اور عیسائیت وغیرہ سب تصوراتِ عالم ہیں۔ ان سب میں سے صرف کمیونزم ایک نظامِ حکمت کی شکل میں ہے۔
زنجیر قوانینِ عالم کی جستجو
سائنس اور فلسفہ دونوں کی کوشش یہ ہے کہ حقائقِ عالم کی مکمل زنجیر کی دریافت کر کے لوگوں کے سامنے پیش کردیں تاکہ لوگوں کی ایک دیرینہ ذہنی ضرورت ‘جو ان کی تمام ضروریات میں سے قوی ترین اور اہم ترین ہے‘ پوری ہو جائے۔ لیکن اس کوشش میں دونوں ناکام رہتے ہیں سائنس نیچے سے آغاز کر کے قانونِ قوانین اور مسبب الاسباب کی طرف جانا چاہتی ہے اور فلسفہ مسبب الاسباب اور قانونِ قوانین سے آغاز کر کے نیچے کی طرف آتا ہے۔
سائنس کی ماہیت
سائنس اپنی تحقیق کو قدرت کے ان قوانین سے شروع کرتی ہے جو آشکار اور پیش پا افتادہ ہیں اور جن کا عمل ہر روز ہمارے تجربہ اور مشاہدہ میں آتا ہے۔ پھر یہ اپنے تجربات اور مشاہدات کو اور وسعت دے کر زنجیر حقائق عالم کی ایک ایک کڑی کو دریافت کرتے ہوئے آگے بڑھتی جاتی ہے اور توقع رکھتی ہے کہ ایک دن وہ اس زنجیر کی ہر ایک کڑی کو اپنے مشاہدات سے معلوم کر لے گی اور پھر اسے علت العلل اور قانونِ قوانین کی حقیقت بھی معلوم ہو جائے گی اور وہ دنیا کے سامنے نہ صرف کائنات کا ایک صحیح تصور پیش کر سکے گی بلکہ اس تصور کے اندر جو حقائقِ فطرت کی نظم اور ترتیب پوشیدہ ہے وہ بھی بتا سکے گی۔ جو حقائقِ فطرت سائنس دانوں کو معلوم ہو جاتے ہیں وہ قدرتی طور پر انہیں قلم کے ذریعہ سے ضبط کر لیتے ہیں۔ بعد کے آنے والے سائنس دان اس دفتر کا مطالعہ کرتے ہیں اور معلوم شدہ قوانین کی مدد سے غیر معلوم قوانین کی ٹوہ لگاتے ہیں اور اس سلسلہ میں مزید تجربات اور مشاہدات کرتے ہیں اور ان سے مزید نتائج اخذ کرتے ہیں۔ سائنس کا علم کبھی درست ہوتا ہے اور کبھی غلط۔ لیکن اگر وہ غلط ہو تو بعد کے آنے والے سائنس دان‘ اس کی غلطی کا ازالہ کر دیتے ہیں اور اس طرح سے سائنس دانوں کی کوشش کا مجموعی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قوانینِ قدرت کا علم قلم کے ذریعہ سے ضبط ہو کر اور آپ اپنی درستی کرتے ہوئے آگے بڑھتا چلاجاتا ہے۔ لیکن اپنی پہلی بڑی بڑی امیدوں کے باوجود سائنس دان کچھ عرصہ سے اس بات پر متفق ہو گئے ہیں کہ وہ قیامت تک بھی قوانینِ کائنات کی زنجیر کی ساری کڑیوں کو دریافت نہیں کر سکتے۔ گویا سائنس انسان کو حقیقت ِ کائنات کی جزوی اور محدود واقفیت یعنی صرف بعض قوانینِ عالم کی واقفیت بہم پہنچا سکتی ہے لیکن حقیقتِ عالم کا پورا تصور بہم نہیں پہنچا سکتی۔
فلسفہ کی ماہیت
فلسفہ کی ناکامی کا سبب یہ ہے کہ فلسفہ ہمیشہ کائنات کے ایک وجدانی تصور سے آغاز کرتا ہے اور اس کا وجدانی تصورِ کائنات ہمیشہ غلط ہوتا ہے کیونکہ وہ مشاہدات اور تجربات یعنی وسیع معنوں میں سائنس کے بہم پہنچائے ہوئے علم کی بنا پر جو لازماً حد درجہ محدود ہوتا ہے قائم کیا جاتا ہے۔ لہٰذا فلسفی کا سارا استدلال غلط ہوجاتا ہے۔ صحیح استدلال صرف صحیح وجدان کے اندر بالقوہ موجود ہوتا ہے اور غلط وجدان کے اندر موجود نہیں ہوتا۔ فلسفی سمجھتا ہے کہ وہ ایک نہایت ہی گنجان استدلال کے ساتھ سلسلۂ قوانینِ عالم کے معلوم حلقوں سے نامعلوم حلقوں کی طرف بڑھ رہا ہے لیکن وہ دراصل اپنے غلط وجدان ہی کو سلسلۂ قوانینِ عالم کی شکل دے رہا ہوتا ہے ۔ کیونکہ اس کا وجدانی تصورِ عالم اس کے استدلال سے پہلے موجود ہوتا ہے اور وہی اس کے استدلال کی راہنمائی کرتا ہے۔ اسے اپنے سانچے میں ڈھالتا ہے اور اپنا رنگ اس پر چڑھاتا ہے اگر اس کا نقطۂ آغاز یعنی اس کا تصورِ حقیقتِ عالم یا تصورِ قانونِ قوانین اور علت العلل درست ہو تو لازماًاس کا استدلال بھی صحیح ہو گا لیکن چونکہ اس کی بنیاد غلط ہوتی ہے ۔ وہ اس پر جو تعمیر کھڑی کرتا ہے خواہ اس کے ردّے بڑی صفائی اور احتیاط سے رکھے جائیں اور خواہ وہ ثریا تک بلند چلی جائے سب کی سب غلط ہو جاتی ہے۔
فلسفہ کی یقین افروزی
لیکن چونکہ ایک فلسفہ انسان کی دونوں فطرتی ذہنی ضروریات کو پورا کرتا ہے یعنی وہ ایک تصورِ کائنات بھی بہم پہنچاتا ہے اور پھر سلسلۂ قوانینِ عالم اس کے مطابق ثابت بھی کرتا ہے لہٰذا وہ یقین پیدا کرتا ہے اور اکثر لوگ جو اس تک دسترس پاتے ہیں اس سے گمراہ ہو جاتے ہیں اور اس بات کو نظر انداز کر جاتے ہیں کہ فلسفی کی عقل آزادانہ استدلال نہیں کرتی بلکہ ہمیشہ اس کے وجدان کے ماتحت رہتی ہے اور اس کا وجدان ہمیشہ غلط ہوتا ہے۔
عقل کی مجبوری
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے ۔ عقل وجدان کو اکساتی ہے کہ وہ حقائق کا علم یا احساس حاصل کرے یا ان کے متعلق کوئی یقین یا اعتقاد قائم کرے۔ لیکن خود علم حاصل نہیں کر سکتی بلکہ وجدان کے ماتحت اس کی خدمت گزار بن کر رہتی ہے۔
وجدان اور عقل کا باہمی تعلق
وجدان ایک حقیقت کو ایک وحدت کے طور پر دیکھتا ہے۔ عقل اس کا تجزیہ کرتی ہے اور اس کے اندرونی عناصر اور اجزاء کی تنظیم اور ترتیب کو دیکھتی اور دکھاتی ہے۔ ان اندرونی عناصر میں سے ہر عنصر خود ایک وحدت ہوتا ہے جس کا علم یا احساس وجدان کے ذریعے ہوتا ہے۔ گویا عقل وحدتوں کا تجزیہ کرتی ہے اور اس طرح نئی وحدتوں کا احساس کرنے میں وجدان کی مدد کرتی ہے یہی وہ طریقہ ہے جس سے عقل وجدان کو حقائق تک پہنچنے کے لیے اکساتی ہے ۔ وجدان صحیح بھی ہوتا ہے اور غلط بھی ہوتا ہے لیکن وجدان اگر غلط ہو تو اپنی تصحیح خود کرتا ہے۔ عقل اس کے احساس میں دخل نہیں دے سکتی اور نہ اس کو صحیح کر سکتی ہے البتہ وہ نئی وحدتوں کے عناصر کو سامنے لاتی ہے۔ وجدان ان عناصر کو دیکھ کر نئی وحدتوں کا احساس کرتا ہے اور اس طرح سے اپنے آپ کو صحیح کرنے کا موقع پاتا ہے۔
نظامِ حکمت کی بنیاد
ہر نظامِ حکمت کی بنیاد کائنات کے ایک وجدانی تصور پر قائم ہوتی ہے جو ایک وحدت کی حیثیت میں ہوتا ہے فلسفی اس کو درست ثابت کرنے کے لیے اس مسلّمہ سے کام لیتا ہے کہ نظامِ عالم حقائق کی ایک زنجیر ہے جس میں ہر حلقہ دوسرے حلقہ کے ساتھ وابستہ ہے اور یہ نظامِ قوانین صحیح تصورِ کائنات کے اندر موجود ہوتا ہے لہٰذا وہ سمجھتا ہے کہ اگر اس نے اپنے تصورِ کائنات کو ایک مسلسل زنجیر کی طرح پیش کر دیا تو یہ چیز اس کے تصور کی صحت کی دلیل ہو گی۔ وہ معلوم اور ناقابل انکار حقائق کو تو جوں کا توں اپنے نظام میں مناسب مقامات پر رکھ لیتا ہے اور حقائق کے عقلی تعلق کی بنا پر حقائقِ عالم کے سلسلہ کو مکمل کرنے کے لیے نامعلوم حقائق کے خالی خانوںکااندراج کرتا ہے۔ یہ اندراجات اس کے تصورِ عالم کا رنگ اختیار کرتے ہیں۔ لہٰذا اگر اس کا تصورِ عالم غلط ہو تو یہ اندراجات بھی غلط ہوتے ہیں اور اگر صحیح ہو تو صحیح ہوتے ہیں۔ سائنس اور فلسفہ دونوں انسان کو معلوم حقائق سے نامعلوم حقائق کی طرف لے جاتے ہیں اور لہٰذا یقین پیداکرتے ہیں۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ سائنس صرف مشاہدات کی بنا پر معلوم حقائق سے نامعلوم حقائق کی طرف جاتی ہے (یا کم از کم سمجھتی ہے کہ وہ ایسا کر رہی ہے) خواہ قوانینِ عالم کی زنجیر مکمل یا نہ ہو اور فلسفہ استدلال کی بنا پر معلوم حقائق سے نامعلوم حقائق کی طرف جاتا ہے اور قوانینِ عالم کی زنجیر کو ہر حالت میں مکمل کرتا ہے خواہ وہ صحیح طو ر پرکرے یا غلط طور پر۔
سائنس کی تائید
ظاہرہے کہ اگر فلسفی کا وجدانی تصور کائنات صحیح ہو گا تو معلوم حقائق کی فراوانی اس کی راہ میں آسانیاں پیدا کرے گی یعنی سائنس کی معلومات جس قدر ترقی کرتی جائیں گی فلسفی کے سلسلہ حقائق کے خالی خانے کم ہوتے جائیں گے اور نیز ان کے اندراجات آسان ہوتے جائیں گے کیونکہ ان کے آگے پیچھے بھرے ہوئے خانے قریب ہی موجود ہوں گے اور ان سے استدلال کر کے نامعلوم حقائق کا معلوم کرنا آسان ہوتا جائے گا۔
سائنس کی مخالفت
اس کے برعکس اگر اس کا وجدانی تصورِ کائنات غلط ہو گا تو جوں جوں سائنس کا علم ترقی کرے گااس کی راہ میں دشواریاں پیدا ہوتی جائیں گی کیونکہ سلسلۂ قوانین عالم کائنات کے غلط تصور کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔ یہی سبب ہے کہ ہر تصورِ کائنات ایک منظم فلسفہ کی صورت اختیار نہیں کر سکتا۔ صحیح اور مکمل نظامِ حکمت کی صورت اختیار کرنا صرف صحیح تصورِ کائنات کا خاصہ ہے۔
ایک مشکل
آپ غور کیجیے کہ ایک طرف سے تو صحیح تصورِ کائنات ایک ایسی شدید اور مجبور کرنے والی ضرورت ہے کہ انسان کے لیے اس کی تکمیل ناگزیر ہے۔ نظری اعتبار سے بھی تاکہ اسے نفسیاتی اور ذہنی اطمینان اور سکون حاصل ہو اور عملی اعتبار سے بھی تاکہ اس کی زندگی خطرات اور مصائب سے محفوظ رہے اور دوسری طرف انسان کے ذہنی قویٰ تنہا اس قابل نہیں کہ اس کی انتہائی کوششوں سے بھی اسے کائنات کے صحیح تصور کی طرف راہنمائی کر سکیں۔ نوعِ بشر کی اس مشکل کا حل کیا ہے؟
آسمانی امداد
قدرت کبھی ایسا نہیں کرتی کہ انسان کو اپنی طرف سے ایک شدید ضرورت لاحق کر دے اور پھر اس کی تکمیل کا انتظام نہ کرے جس طرح سے قدرت نے انسان کی ایک شدید بدنی ضرورت یعنی غذا بہم پہنچانے کے لیے اس کے جسم کے اندر اور باہر بعض ایسے انتظامات کیے ہیں جن سے وہ اس ضرورت کی تکمیل کر سکتا ہے۔ مثلاً اس نے انسان کے جسم کے اندر بعض بدنی قوتیں اور صلاحیتیں رکھی ہیں اور اس کے جسم کے باہر ہوا‘ پانی‘ روشنی‘ بیج اور قابلِ زراعت زمین کے تحائف عطا کیے ہیں جن کی مدد سے انسان اپنی غذا پیدا کر سکتا ہے اسی طرح سے قدرت نے انسان کی ایک شدید نفسیاتی یا ذہنی ضرورت کی چیز یعنی کائنات کا صحیح تصور بہم پہنچانے کے لیے اس کے ذہن کے اندر اور باہر ایسے انتظامات کیے ہیں جن سے وہ اپنی اس ضرورت کی تکمیل کر سکتا ہے۔
نبوت
اندرونی انتظام تو یہ ہے کہ اسے بعض ذہنی قوتیں اور صلاحیتیں دی گئی ہیں وہ ان قوتوں اور صلاحیتوں سے سوچتا ہے اور کائنات کے معمہ کو حل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور بیرونی انتظام یہ ہے کہ اس نے انبیاء بھیجے ہیں جو خدا سے وحی پا کر اسے حقیقت کائنات کا صحیح تصور ایک قدرتی تحفہ کے طور پر عطا کرتے ہیں۔
قدرت کا اہتمام
جب کسی مقام پر درجۂ حرارت بڑھ جاتا ہے اور ہوا کا دباؤ کم ہو جاتا ہے تو وہاں قدرتی اسباب کے ماتحت خود بخو د مینہ برسانے والی ہوائیں پہنچ جاتی ہیں جن کی وجہ سے بارش ہوتی ہے درجہ حرارت کم ہو جاتا ہے اور زمین سیراب ہوجاتی ہے۔ بالکل اسی طرح سے جب کوئی قوم اپنے غلط تصورِ کائنات کی وجہ سے اپنی زندگی حد درجہ غلط طور پر بسر کرتی ہے اور اس کے نقصانات سے گھر جاتی ہے تو خدا کی رحمت سے ان میں ایک ایسے شخص کا ظہور ہوتا ہے جس کا وجدان صحیح تصورِ عالم سے یکایک چمک اٹھتا ہے اور خدا اس سے ہم کلام ہوتا ہے اور اسے لوگوں کو ہدایت کا حکم دیتا ہے وہ لوگوں کو اپنے تصور کائنات کی طرف دعوت دیتا ہے اور لوگ اس کے تصور کو اطمینان بخش اور دلکش پا کر اس پر یقین کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہو لیتے ہیں اور غلط طرزِ زندگی کے نقصانات سے بچ جاتے ہیں۔
تعلیم نبوت کے دو حصے
تعلیم نبوت کے دو حصے ہوتے ہیں ایک تو کائنات کے صحیح تصور اور کائنات کے ابدی قوانین پر مشتمل ہوتا ہے جسے نظریہ کہنا چاہیے اور دوسرا سماج کے حالات کے مطابق اس نظریہ کے عملی اطلاق پر حاوی ہوتا ہے ۔ پہلا حصہ تعلیم نبوت کی روح ہے اور دوسرا اس کا قالب۔ پہلا حصہ اس کی بنیاد یا اصل ہے اور دوسرا اس کی فرع یا نتیجہ۔ گویا تعلیم نبوت کی بنیاد اور اصلیت کا موضوع وہی ہے جو انسان کی ذہنی جستجو کا مدار و محور ہے۔ یعنی وہی قانونِ قوانین کے ماتحت غیر مبدل قوانینِ قدرت جو فلسفہ اور سائنس ضبط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نبوت کی اس بنیادی تعلیم کو ہی قرآن نے اُمّ الکتٰب (کتاب کی اصل بنیاد) اور اٰیات محکمٰت (پختہ نشانیاں) کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے۔
تعلیمِ نبوت کے امتیازات
فلسفہ کی طرح نبوت بہانہ نہیں کرتی کہ وہ معلوم سے غیر معلوم کی طرف انسان کو لے جاتی ہے بلکہ وہ آشکارا طور پر حقیقتِ کائنات کے ایک تصور سے آغاز کرتی ہے جو درحقیقت صحیح ہوتا ہے۔ اور پھر کسی استدلال کے بغیر اس کے وہ موٹے موٹے نتائج بیان کرتی ہے یعنی سلسلۂ قوانینِ عالم کے ان ضروری حلقوں کو سامنے لاتی ہے جو انسان کی عملی زندگی کے مختلف پہلوؤں سے تعلق رکھتے ہیں۔ انبیاء کی تعلیم کا اصلی یا بنیادی حصہ سوسائٹی کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ ترقی کرتا رہا ہے جب سوسائٹی اس حد تک ترقی کر جاتی ہے کہ اس کی زندگی فطرتِ انسانی کے تمام ضروری پہلوؤں پر حاوی ہونے لگتی ہے تو اس وقت نبوت کی تعلیم بھی فطرتِ انسانی کے تمام ضروری پہلوؤں پر حاوی ہونے لگتی ہے۔ آخر نبوت کی تعلیم فطرتِ انسانی کے ان تمام پہلوؤں پر پھیل جاتی ہے۔ اس کے بعد انبیاء کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے کیونکہ دنیا میں ایسی قوم وجود میں آ جاتی ہے جس کی زندگی کے تمام ضروری شعبے کائنات کے صحیح تصور کی بنیادوں پر تعمیر پا چکے ہوتے ہیں اور جو اپنے اس امتیاز کی وجہ سے قیامت تک نوعِ بشر کی ہدایت اور ترقی کی ضامن ہو سکتی ہے۔ آخری نبی محمدﷺ ہیں۔ آخری ہدایت قرآن ہے اور آخری قوم مسلمان ہے۔
حضورﷺ کی تعلیم
حضورﷺ کی تعلیم تمام انبیاء کی تعلیم میں سے پہلی اور آخری تعلیم ہے جو خدا کے تصور کو انسان کی زندگی کے تمام ضروری شعبوں پر پھیلاتی ہے اور دوسرے مذاہب پر اسلام کی فوقیت کا دار و مدار اسی امتیاز پر ہے۔ پہلے انبیاء نے اپنے اپنے زمانہ میں سماج کی حالت کے پیشِ نظر سیاسی اور جماعتی زندگی اور جہاد کو نظر انداز کیا تھا لیکن حضورﷺ کی تعلیم فطرتِ انسانی کے ان شعبوں پر پھیل گئی ہے۔
استدلال کی عدم موجودگی
تعلیم نبوت کا ایک امتیاز یہ ہے کہ اس میں استدلال بالکل نہیں ہوتا کیونکہ نبی براہِ راست خدا سے ایک حقیقت کی اطلاع پا کر لوگوں کو اس سے آگاہ کرتا ہے۔ منطقی استدلال وحی یا نبوت کی طرزِ تعلیم کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔ نبوت موٹے موٹے حقائق کو بیان کرتی ہے اور ان کی باریک تفصیلات اور جزئیات میں جانے کے بغیر اور ان کی عقلی ترتیب یا ان کے منطقی تعلق کو سمجھانے کے بغیر یہ توقع رکھتی ہے کہ لوگ اپنی فطرت کی وجدانی شہادت اور نبی کے اعتماد پر انہیں قبول کریں گے۔ وہ قدرت کے سب سے بڑے قانون کے ماتحت بعض بڑے بڑے قوانین کی اطلاع دیتی ہے لیکن یہ نہیں بتاتی کہ ان قوانین کے اندر اور کون کون سے قوانین کام کرتے ہیں یا اُن بڑے بڑے قوانین کا عمل اور کن کن قوانین کے حرکت میں آنے سے ممکن ہے۔ مثلاً وہ کہتی ہے :
(۱) { یُنَزِّلُ الْغَیْثَ} (لقمٰن:۳۴) ’’اللہ مینہ برساتا ہے‘‘
لیکن ان قوانین کا ذکر نہیں کرتی جو مینہ برسانے کا سبب بنتے ہیں اور جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔ یا وہ کہتی ہے :
{لَا الشَّمْسُ یَنْبَغِیْ لَـھَا اَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلَا الَّـیْلُ سَابِقُ النَّھَارِ}(یٰسٓ:۴۰)
’’نہ سورج کے لیے ضروری ہے کہ چاند کو پائے اور نہ رات دن کے آگے آتی ہے ‘‘
لیکن اس تفصیل میں نہیں جاتی کہ سورج اور چاند کی حرکت جسے ہم دیکھتے ہیں‘ کیااصلیت رکھتی ہے اور کس طرح سے ممکن ہوتی ہے۔ دن کے بعد رات اور رات کے بعد دن کا آنا کس طرح ممکن ہوتا ہے۔ یا وہ کہتی ہے :
{وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَۃٍ مِّنْ طِیْنٍ (۱۲) ثُمَّ جَعَلْنٰـہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّـکِیْنٍ(۱۳) ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُغْضَۃً فَخَلَقْنَا الْمُغْضَۃَ عِظَامًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا(۱۴)} (المؤمنون)
’’ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا پھر اسے ایک نطفہ کی صورت میں ٹھہرا دیا پھر نطفہ کو ایک جونک بنا دیا ۔ اور جونک کو گوشت کا لوتھڑا۔ اور لوتھڑے کو ہڈیاں اور ہڈیوں پر گوشت چڑھا دیا‘‘۔
لیکن وہ یہ نہیں بتاتی کہ مٹی سے انسان کی تخلیق کن کن مراحل سے گزری ہے یا ماں کے پیٹ میں جنین کے ارتقاء کی پوری تفصیلات کیا ہیں؟ یا وہ کہتی ہے :
{رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ} (الکہف:۱۴)
’’خدا کائنات کا پرورش کنندہ ہے‘‘۔
لیکن وہ یہ نہیں بتاتی کہ کائنات کی ربوبیت کن کن مراحل سے گزری ہے اور کن کن قوانینِ قدرت کے عمل سے ممکن ہوئی ہے؟ یا وہ کہتی ہے :
{اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ} (الاعراف:۱۷۹)
’’وہ (کفار) چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ وہ ان سے بھی گمراہ تر ہیں‘‘۔
لیکن وہ حیوان اور انسان کی فطرت کے باریک امتیازات پر بحث نہیں کرتی جس سے معلوم ہو کہ انسان کس طرح سے بعض وقت حیوانات کی سطح پر آ جاتا ہے یا ان سے بھی زیادہ تر گمراہ ہو جاتا ہے؟
{قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا(۹) وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا(۱۰)} (الشمس)
’’بے شک جس نے اپنی جان کو پاک کر لیا وہ کامیاب ہو گیا اور جس نے اسے ناپاک کر دیا وہ ناکام ہو گیا۔‘‘
لیکن بالتفصیل نہیں بتاتی کہ خدا کی اطاعت سے سے جان کا پاک اور کامیاب ہونا اور پھراس کی نافرمانی سے ناکام اور ناپاک ہونا کون سے اسباب اور قوانین کی رُو سے عمل میں آتا ہے۔ یا وہ کہتی ہے:
{وَكُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰۗىِٕرَهٗ فِيْ عُنُقِهٖ ۭ وَنُخْرِجُ لَهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ كِتٰبًا يَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا اِقْرَاْ كِتٰبَكَ ۭ كَفٰى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيْبًا }
(بنی اسراء یل۱۳،۱۴ )
’’ہم نے ہر انسان کی نحوست اور سعادت کی فال اس کی گردن میں لٹکا دی ہے اور قیامت کے دن ہم ایک کھلی تحریر اس کے سامنے لائیں گے اپنا اعمال نامہ خودپڑھ لے آج (اس تحریر کی موجودگی میں) تم اپنا حساب خود کرنے کے لیے کافی ہو۔‘‘
لیکن انسان کو یہ نہیں بتاتی کہ اس کا اعمال نامہ کہاں ہے۔ اس میں اعمال کیونکر درج ہوتے ہیں اور بعد از مرگ کیونکر محفوظ رہتے ہیں؟
تفصیلات حقائق کی اہمیت
ظاہر ہے کہ اگر نبوت اس قسم کے حقائق کی تفصیلات اور جزئیات بیان کر دیتی تو وہ لوگوں کے افہام کے اور قریب ہو جاتے اور لوگ نبوت کی دعوت پر جلد تر ایمان لے آتے کیونکہ اس کی وجہ سے معلوم اور نامعلوم حقائق کی باہمی ترتیب اور تعلق کے بارے میں ان کا فطرتی تقاضا مطمئن ہو جاتا ہے۔ نبوت ان تفصیلات کی طرف سے اس لیے خاموش نہیں کہ خد اکے نزدیک انسان کو اس کی ضرورت نہیں بلکہ اس لیے خاموش ہے کہ ان کا بہم پہنچانا نبوت کے منصب اور مقام سے تعلق نہیں رکھتا اور اس کے فرائض میں داخل نہیں۔
انکار کا سبب
ان تفصیلات کی ضرورت کو ثابت کرنے کے لیے تو یہی بات کافی ہے کہ تعلیم نبوت سے لوگوں کا انحراف جس قدر ماضی میں ہوا ہے یا اس وقت موجود ہے اس کا سبب فقط یہ ہے کہ نبوت جن حقائق کی تعلیم دیتی ہے ان کو لوگوں کے معلوم حقائق کے ساتھ مطابق کر کے نہیں دکھاتی۔ یہی صورت ہے جسے ایک منکر ان الفاظ میں ظاہر کرتا ہے: ’’میں قائل نہیں ہوا‘‘۔ ’’ایسا کس طرح ہو سکتا ہے‘‘۔ منکر کے اعتراض کی بنیاد یہ ہے کہ حقائق کے عقلی تعلق کا تقاضا جو خدا نے اس کی فطرت میں رکھا ہے تشنہ رہ جاتا ہے اور وہ اس تشنگی کو بجھانے کی خواہش رکھتا ہے ۔ جب یہ تشنگی دور ہو جاتی ہے تو اس کے دل میں ایک عقیدہ کی صداقت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ پھر یہ احساس اذعان اور تسلیم کی راہ کی تمام رکاوٹوں کو دور کر دیتا ہے۔
یقین کی خامیاں
کہا جاتا ہے کہ بعض لوگ صداقت کا اعتراف کرنے کے بعد محض ہٹ دھرمی سے اسے نہیں مانتے۔ لیکن ہٹ دھرمی کیا ہے؟ ایک ایسے خیال کے ساتھ چمٹے رہنے پر اصرار جسے انسان صحیح طور پر یا غلط طور پر صداقت سمجھتا ہے۔ ہٹ دھرم کی ہٹ دھرمی فقط اس بات کی دلیل ہے کہ ابھی وہ دوسری صداقت کے کامل یقین سے بہرہ ور نہیں ہوا۔ اسی طرح سے اگر ہم تسلیم کے راستہ کی دوسری مشکلات کا تجزیہ کریں تو ثابت ہو جائے گا کہ درحقیقت ان سب کی اصل وہی یقین کی خامی یا قلت ہے جو معلوم اور نامعلوم حقائق کے باہمی تعلق کو نہ سمجھنے سے پیدا ہوتی ہے۔
انکار کی صورت
دعوت انبیاء سے انکار کرنے والوں کے ساتھ جو ماجرا پیش آتا ہے‘ وہ یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے غلط تصورِ کائنات کے مطابق حقائق کا ایک عقلی تعلق اپنے ذہن میں قائم کر چکے ہوتے ہیں جو غلط ہونے کے باوجود ان کی نگاہ میں صحیح ہوتا ہے اور جب نبوت یہ کہتی ہے کہ حقائق کا جو عقلی تعلق تم اپنے ذہن میں قائم کر چکے ہو وہ غلط ہے اور صحیح تصورِ کائنات کے مطابق نہیں تو وہ نبوت کے تصور کائنات کے مطابق حقائق کا نیا عقلی تعلق قائم کرنے سے قاصر رہ جاتے ہیں ۔ لہٰذا وہ نبوت کے تصورِ کائنات پر ایمان نہیں لاتے اور جو لوگ دعوتِ نبوت پر ایمان لاتے ہیں وہ اپنے دل میں حقائق کا ایک نیا عقلی تعلق قائم کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ دوسروں کو یہ تعلق سمجھا سکیں یا نہ سمجھا سکیں لیکن وہ خود اس کی صحت اور برجستگی کے متعلق مطمئن ہوتے ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ وہ اس کے خلاف کوئی اعتراض سننا نہیں چاہتے۔ ہر اعتراض کو غلط سمجھتے ہیں۔ اس کا جواب دیتے ہیں اور اپنے جواب کو صحیح سمجھتے ہیں۔
مکمل تفصیلات ضروری نہیں
معلوم اور نامعلوم حقائق کے درمیان عقلی رابطہ قائم کرنے کی اہمیت کے سلسلہ میں یہ کہنا ضروری ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ منکرین کو قائل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم نبوت کے تعلیم کیے ہوئے حقائق کی پوری اندرونی تفصیلات اور جزئیات بہم پہنچائیں بلکہ اس کا مطلب فقط یہ ہے کہ منکرین نبوت جن حقائق کو معلوم حقائق کا درجہ دیتے ہیں اور انہیں غلط تصورِ کائنات کے مطابق سمجھتے ہیں یا اس کی تفصیلات اور جزئیات سمجھتے ہیں ۔ ہم ایمان کے راستہ سے ان کی رکاوٹ کو ہٹا دیں اور ان کی رکاوٹ کو ہٹانے کا طریقہ یہ ہے کہ جس حد تک کہ وہ حقائق غلط ہیں۔
معلومات کی رکاوٹ
ان کو دوسرے معلوم حقائق کے منافی ثابت کر کے غلط ثابت کر دیا جائے اور جس حد تک وہ صحیح ہیں ان کو نبوت کے تعلیم کیے ہوئے حقائق کی تفصیلات اور جزئیات ثابت کر دیا جائے ۔ یعنی انہیں غلط تصوراتِ کائنات سے الگ کر کے نبوت کے تعلیم کیے ہوئے صحیح تصورِ کائنات کے ساتھ ملحق کر دیا جائے۔
اور اس کا ازالہ
ظاہر ہے کہ ہماری یہ کوشش نبوت کی تعلیم کو ایک نظامِ حکمت کی صورت میں لے آئے گی اور یہ نظامِ حکمت صحیح ہو گا کیونکہ وہ نبوت کے عطا کیے ہوئے صحیح تصورِ کائنات پر مبنی ہو گا اور جوں جوں علم کے ہر طبقہ میں معلوم حقائق کا ذخیرہ ترقی کرے گا معلوم صداقتوں کی تعداد بڑھے گی وہ عقلی لحاظ سے ایک دوسر ے کے قریب آتی جائیں گی اور ان کی وجہ سے بعض صداقتیں بعض اور صداقتوں سے متعلق ہو کر زیادہ روشن اور واضح ہوتی جائیں گی اور نبوت کا یہ نظامِ حکمت زیادہ معقول‘ منظم ‘ مفصل اور مدلل ہوتا جائے گا۔
نبوت اور فلسفہ
بعض مسلمانوں کا خیال ہے کہ تعلیم نبوت کا فلسفہ سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن یہ خیال قطعاً غلط ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ نبوت کو ان فلسفوں سے کوئی تعلق نہیں جو کائنات کے غلط وجدانی تصور پر مبنی ہیں اور جن کا استدلال غلط ہے اور دنیا کے تمام فلسفے اسی قسم کے ہیں۔ ورنہ تعلیم نبوت خود ایک فلسفہ ہے کیونکہ اس کی بنیاد کائنات کے ایک تصور پر ہے۔ اس کے اندر ایک استدلال بالقوہ موجود ہے جو حقائق قرآنیہ کی تفصیلات اور جزئیات کے علم کی ترقی سے آشکار ہو رہا ہے۔ حقائق کا یہی عقلی تعلق یا استدلال ہے جو صحیح ہے کیونکہ یہی ہے جو کائنات کے صحیح تصور پر مبنی ہے ان مسلمانوں کی رائے کے بالکل برعکس قرآن کا اپنا دعویٰ یہ ہے کہ وہ ایک حکمت کی کتاب ہے۔
{وَالْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ{(۲)} (یٰسٓ) ’’قرآن کی قسم جو حکمت کی کتاب ہے‘‘۔
اور قرآن کی متعدد آیات میں حکمت کی ضرورت اور اہمیت واضح کی گئی ہے۔
صحیح فلسفہ کی بنیاد قرآن ہے
قرآن کا نازل کرنے والا خود حکیم ہے اور حکمت کو پسند کرتا ہے۔ یعنی صحیح حکمت کو جو نبوت کے تصورِ کائنات یعنی صحیح تصورِ کائنات کے مطابق ہو اور اس کے ماتحت پیدا ہوئی ہو۔
یہ کہنا کہ قرآن کو فلسفہ سے کیا تعلق ہے۔ درحقیقت یہ کہنا کہ قرآن کا تصورِ کائنات سلسلۂ قوانینِ عالم سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ سلسلۂ قوانین عالم فقط قرآنی تصورِکائنات سے مطابقت رکھتا ہے اور کسی دوسرے تصور کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔ اس مطابقت کی عدم موجودگی کے معنی یہ ہوں گے کہ قرآن کا تصور کائنات نعوذ باللہ غلط ہے۔
ذہنی جستجو کا مقام
حاصل یہ ہے کہ حقائق قرآنیہ کی جزئیات اور تفصیلات کا علم انسان کے لیے ضروری ہے۔ اگر اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اس کا بہم پہنچانا وظیفۂ نبوت قرار نہیں دیا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی حکمت نے اُسے نبوت کی تکمیل سے پہلے ہی انسان کے ذہنی قویٰ کے سپرد کر دیا ہے اور اسے انجام دینے کے لیے انسان کے دل کے اندر ذوقِ دریافت اور طلبِ علم کی ایک زبردست خواہش پیدا کر دی ہے چنانچہ اس ذوق یا طلب سے مجبور ہو کر انسان کے ذہنی قویٰ صدیوں سے ان حقائق کی جزئیات اور تفصیلات دریافت کرنے میں مصروف ہیں اور اس میں ان کو آج تک بہتیری کامیابیاں بھی ہو چکی ہیں۔ ذہنی کاوش اور جستجو سے دریافت ہونے والی ہر علمی صداقت خواہ وہ علم کے تینوں طبقات میں سے کسی طبقہ کے ساتھ تعلق رکھتی ہو اور خواہ اس کا دریافت کرنے والا مسلمان ہو یا کافر‘ جس حد تک کہ وہ فی الواقع ایک علمی صداقت ہے حقائقِ قرآنیہ کی تشریح اورتفسیرہے۔
طبعیات کی تشریح
مثلاً اوپر جو آیات شق اوّل کے ماتحت درج کی گئی ہیں ان کی تشریح اور تفسیر علمِ طبعیات کے دائرہ میں آتی ہے۔ آج ہم ماہرین طبعیات کی تحقیقات کی بنا پر پہلے سے بہتر اس بات کو جانتے ہیں کہ مینہ کیونکر برستا ہے اور رات اور دن کیوں ایک دوسرے کے پیچھے آتے ہیں اور سورج اور چاند کی ظاہری حرکت کی اصلیت کیا ہے اور وہ کس طرح سے ممکن ہوتی ہے۔
حیاتیات کی تشریح
اور شق دوم کے ماتحت جو آیات درج کی گئی ہیں ان کے متضمن حقائق کی جزئیات اور تفصیلات زیادہ تر ماہرینِ حیاتیات کی تحقیق کا موضوع ہیں اور ان کی تحقیقات کی وجہ سے آج ہم پہلے سے زیادہ ان جزئیات اور تفصیلات سے واقف ہیں اور اس بات کا زیادہ صحیح اور زیادہ واضح تصور رکھتے ہیں کہ مٹی سے انسان کی پیدائش کیونکر ہوئی ہے اور کن کن مراحل سے گزر ی ہے اور پھر ماں کے رحم میں انسانی جنین کی نشوونما کے اسباب اور مدارج کیا ہیں۔ کائنات کی ربوبیت جس کے لیے حکماء ارتقاء کی اصطلاح کام میں لاتے ہیں قدرت کے کون کون سے قوانین کے عمل سے ممکن ہوئی ہے اور کن کن مراحل سے گزری ہے۔
نفسیات کی تشریح
اور شق سوئم کے ماتحت درج کی ہوئی آیات جن حقائق پر مشتمل ہیں ان کی تفصیلات ماہرینِ نفسیات کی تحقیق کے دائرہ میں آتی ہیں۔ چنانچہ ماہرین کی تحقیقات کی وجہ سے آج ہم پہلے سے بہتر اس بات کو جانتے ہیں کہ انسان اور حیوان کی فطرت کے امتیازات کیا ہیں اور گمراہ انسان کس طرح سے حیوانات کی سطح پر آتا جاتا ہے بلکہ اس سطح سے بھی نیچے گر جاتا ہے۔ انسان کے اعمال کس طرح سے ناقابلِ تغیر ہیں اور کس طرح سے انسان کا اعمال نامہ اس کی گردن میں لٹک رہا ہے اور ہر روز ایک ایسی سیاہی سے لکھا جاتا ہے جو کبھی مٹ نہیں سکتی اور قیامت کے دن کیونکر ممکن ہو گا کہ انسان اپنے اعمال کا حساب خود کرے؟ وعلیٰ ہٰذا القیاس۔ اس اجمال کی تفصیل آئندہ صفحات میں آئے گی۔
علم کی وحدت
اس بحث کا حاصل یہ ہے کہ سارا علم ایک ہی ہے اور وہ قوانینِ کائنات کا علم ہے جو ایک سلسلہ کی صورت میں ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہیں۔ لیکن علم اپنی وحدت کے باوجود دو مختلف راستوں سے انسان تک پہنچتا ہے۔ ایک راستہ نبوت ہے اور دوسرا ذہنی جستجو۔ نبوت سب سے پہلے کائنات کا ایک مجموعی وجدانی تصور پیش کرتی ہے جو علت العلل اور قانون قوانین کی حیثیت رکھتا ہے۔ پھر اس تصور کے ماتحت وہ قوانینِ قدرت بیان کرتی ہے جن کا علم انسان کی عملی زندگی کے لیے حد درجہ ضروری ہے۔ جب نبوت اپنے کمال کو پہنچتی ہے تو اس کے بتائے ہوئے قوانینِ فطرت انسان کی عملی زندگی کے ہر ضروری شعبہ پر حاوی ہو جاتے ہیں۔
دو راستے اور ایک منزل
لیکن نبوت کامل ہونے کے بعد بھی سلسلۂ قوانینِ عالم کا ربط بیان نہیں کرتی۔ یعنی وہ اپنے تعلیم کیے ہوئے قوانینِ فطرت کی جزئیات اور تفصیلات کو چھوڑ دیتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قدرت نے ان تفصیلات اور جزئیات کا دریافت کرنا انسان کی ذہنی جستجو کے سپرد کرر کھا ہے۔ انسان کا ذہن حقائقِ عالم کی مکمل زنجیر کو دریافت کرنا چاہتا ہے۔ لیکن چونکہ ہر بار کائنات کے غلط وجدانی تصور سے آغاز کرتا ہے‘ لہٰذا وہ حقائق کا صحیح عقلی ربط معلوم نہیں کر سکتا۔ نبوت انسان کے ذہن کی اس کمی کو پورا کرتی ہے کیونکہ وہ اسے کائنات کا صحیح وجدانی تصور عطا کرتی ہے۔ گویا اگر ذہنی جستجو نبوت کے عطا کیے ہوئے علم کو مفصل اور مشرح بناتی ہے تو نبوت ذہنی قویٰ کی جستجو کو صحیح راہ پر ڈالتی ہے اور ان کے وجدان کی کوتاہیوں کی تلافی کرتی ہے۔ لہٰذا علم کے یہ دونوں راستے ایک دوسرے کے موئد اور موافق ہیں ایک دوسرے کے مخالف نہیں اور دونوں کی منزل ایک ہی ہے یعنی حقیقتِ کائنات کے چہرے کی نقاب کشائی‘ نبوت کے عطا کیے ہوئے علم سے ہم ذہنی علم کی غلطیاں معلوم کرتے ہیں اور ذہنی علم کی مدد سے ہم نبوت کے حقائق کی جزئیات اور تفصیلات سے واقف ہوتے ہیں۔ یہی وہ جزئیات اور تفصیلات ہیں جو اس وقت غلط فلسفیانہ تصورات میں ملی ہوئی موجود ہیں اور جن کو اگر ہم ان تصورات سے علیحدہ کر کے قرآنی حقائق کے ساتھ جوڑیں تو اُن تصورات کا حکیمانہ ابطال کر سکتے ہیں۔
ترقی ٔ علم کا نتیجہ
جوں جوں ذہنی علم اپنے تینوں شعبوں میں ترقی کرتا جا رہا ہے ۔ تعلیم نبوت کے مطالب زیادہ صاف اور زیادہ واضح ہوتے جا رہے ہیں اور حقائقِ قرآنیہ زیادہ مفصل اور مشرح ہوتے جا رہے ہیں۔ چونکہ انسان کے ذوقِ دریافت کی بے تابی اور جستجوئے علم کی شدید خواہش کی وجہ سے علم ہمیشہ ترقی کرتا رہے گا لہٰذا ظاہر ہے کہ ایک ایسا وقت ضرور آئے گا جب قرآن کے مطالب اپنی تفصیلات اور جزئیات کی فراوانی کی وجہ سے ایک نظامِ حکمت کی صورت اختیار کریں گے اور وہ معلوم حقائق کے ساتھ ایک عقلی ترتیب میں آ کر اس قدر واضح اور روشن ہو جائیں گے کہ کوئی شخص قرآن کی صداقت سے انکارنہ کر سکے گا۔
قرآن کی ایک اہم پیش گوئی
قرآن حکیم نے نہایت واضح الفاظ میں اس واقعہ کی پیش گوئی کی ہے:
{سَنُرِیْھِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْ اَنْفُسِھِمْ حَتّٰی یَتَـبَیَنَّ لَھُمْ اَنَّـہُ الْحَقُّ}
(حٰمٓ السجدۃ:۵۳ )
’’عنقریب ہم ان کو اطرافِ عالم میں اور ان کی جانوں میں اپنی نشانیاں دکھائیں گے ۔ یہاں تک کہ ان پر آشکار ہو جائے گا کہ قرآن برحق ہے ‘‘ یعنی ہم آفاق اور انفس کے بارہ میں انسان کو ایسے علمی حقائق سے آگاہ کریں گے جن سے قرآن کی سچائی ثابت ہو جائے گی
ظاہر ہے کہ اس مرحلہ پر مسلمانوں میں قرآن کی تعبیرا ت کا اختلاف ختم ہو جائے گا اور مسلمان اسلام کے مفہوم اور منشاء پر متفق ہو کر متحد ہو جائیں گے۔ یہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں قوموں کے نظریات کا اختلاف ختم ہو جائے گا اور نوعِ انسانی ایک ہی نظریۂ کائنات پر متفق ہونے کی وجہ سے متحد ہو جائے گی اور دنیا میں پہلی دفعہ کامل امن اور سکون کا دور دورہ ہوگا۔
یہاں یہ بات غور کرنے کے قابل ہے کہ انفس و آفاق میں نمودار ہونے والی آیات بظاہر قرآن سے باہر ہوں گی لیکن اس کے باوجود وہ قرآن کی تشریح اس طرح سے کریں گی کہ قرآن کی صداقت پر شبہ ناممکن ہو جائے گا اس آیت کی روشنی میں اگر ہم قرآن کے اس ارشاد کا مطالعہ کریں:
{اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ} (القیامۃ:۱۹) ’’قرآن کی تشریح کرنا ہمارے ذمہ ہے‘‘۔
تو صاف ظاہر ہے کہ قرآن کی تشریح قرآن کے ماہر حکماء اور فضلاء کی ذہنی جستجو کا نتیجہ ہوگی لیکن قرآن کی تشریح ہونے کی وجہ سے وہ معنوی لحاظ سے قرآن ہی کا ایک جزوہوگی۔
دنیا کی مسلّمہ علمی صداقتیں جو قرآن کے حقائق کے ساتھ مطابقت رکھنے کی وجہ سے سچ مچ کی صداقتیں ہیں حقائقِ قرآنیہ ہی شمار ہوں گی گو وہ لفظاً قرآن کے اندر موجود نہ ہوں کیونکہ وہ حقائقِ قرآنیہ کی تفصیلات اور جزئیات ہیں اور معناً قرآن کے اندر موجود ہیں۔
جب ہم ایک حقیقت کوایک کل یا وحدت کے طور پر قرآن کے اندر موجود سمجھتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم ا س کے اندرونی عناصر اور اجزاء کو قرآن کے اندر موجود نہ سمجھیں۔ جس دلیل سے ہم حقائقِ قرآنیہ کے فوری منطقی نتائج کو حقائقِ قرآنیہ قرار دیتے ہیں اسی دلیل سے ہم ان حقائق کے عناصر اور اجزاء کو بھی حقائقِ قرآنیہ قرار دینے پر مجبور ہیں۔ ایک حقیقت کے نتائج اور اس کے اجزاء دونوں اس کے اندر موجود ہوتے ہیں۔ ہم قرآنی حقائق کی تشریح یا تفسیر صرف قرآنی حقائق سے کر سکتے ہیں ‘ غیر قرآنی حقائق سے نہیں کر سکتے!
درخت سے قرآن کی تشبیہہ
یوں سمجھ لیجیے کہ قرآن ایک پورے یا درخت کی طرح ہے پھر ہر علمی صداقت جو انسان کی ذہنی کاوش سے اس پر منکشف ہوتی ہے خواہ وہ دنیا کے کسی مقام پر او رکسی شخص کی وجہ سے آشکار ہو ایک نیا پھول یا نیا پتہ ہے جو اس درخت کی شاخوں پر رونما ہوتاہے اور اس کی رونق اور زینت میں اضافہ کرتا ہے ۔ ہم درخت کے پتوں یا پھولوں کو درخت سے الگ نہیں سمجھ سکتے۔ نئے پتے اور نئے پھول جو پودے کے اگنے سے رونما ہوتے ہیں درحقیقت نئے نہیں ہوتے بلکہ پودے کے اندر اس وقت سے موجود ہوتے ہیں‘ جب وہ ابھی بیج کی حالت میں تھا۔ جس طرح ایک پودا جب اگتا‘ بڑھتا اور پھولتا ہے تو بدلتا نہیں بلکہ اپنے آپ کو یعنی اپنی مخفی شان و شوکت کو باہر لاتا ہے۔ اس طرح سے علم کی ترقیوں سے قرآن بدلتا نہیں بلکہ اس کی مخفی شان و شوکت آشکار ہوتی ہے۔ قرآن کا علم جس قدر نشوونما پائے گا قرآن اسی قدر جوں کا توں رہے گا۔ میری ان معروضات سے صفحہ ۸۲ پر درج کیے ہوئے اعتراضات میں سے پہلے اعتراض کا جواب پیدا ہوتا ہے۔
ذہنی علم کی اہمیت کے متعلق قرآن کے ارشادات
انسان کی ذہنی کاوش سے آشکار ہونے والی اور قلم یا فنِ تحریر کی وساطت سے جمع ہونے والی یہی صداقتیں ‘ یا حقائقِ قرآنیہ کی یہی تفصیلات اور جزئیات ہیں جن کے علم کو خداوند تعالیٰ نے قرآن میں ایک نعمت کے طور پر یاد کیا ہے:
{اَلَّـذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ(۴) عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ(۵)} (العلق)
’’وہ جس نے آدمی کو قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا ۔ اس نے انسان کو وہ باتیں سکھائیں جن کووہ نہیں جانتا تھا۔‘‘
اس علم کی اہمیت قرآن کی اس آیت سے بھی ظاہر ہوتی ہے:
{وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُوْنَ(۱)} (القلم)
’’ہمیں قلم کی قسم ہے اور اس چیز کی جو لوگ تحریر میں لاتے ہیں‘‘۔
اس علم کو خداوند تعالیٰ نے خَیْر کَثِیْر بھی کہا ہے اور حکمت یا دانائی سے بھی تعبیر کیا ہے:
{وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا} (البقرۃ:۲۶۹)
’’جو شخص حکمت سکھا دیا گیا اسے بہت بڑی بھلائی دے دی گئی۔‘‘
ان صداقتوں کے اصلی وارث یا مالک مؤمن ہی ہیں کیونکہ یہ مؤمن ہی کے قرآن کی تفسیر اور اسی کے تصورِ کائنات کی تشریح کا حکم رکھتی ہیں۔ لہٰذا حضورﷺ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ ان کو جہاں پاؤ یعنی مسلمانوں کے ہاں یا غیر مسلموں کے ہاں انہیں سمیٹ لو اور کام میں لاؤ:
(اَلْکَلِمَۃُ الْحِکْمَۃُ ضَالَّـۃُ الْمُؤْمِنِ فَحَیْثُ وَجَدَھَا فَھُوَ اَحَقُّ بِھَا) (ترمذی)
’’دانائی کی بات مؤمن کی گمشدہ چیز ہے پس جہاں اسے مل جائے۔ اس کا زیادہ حق دار وہی ہے‘‘۔
پھر یہ بھی بتا دیا کہ اس حکمت کو تبلیغ دین کے دوران ابطالِ باطل اور احقاقِ حق کے لیے کام میں لایا جا سکتا ہے اور کام میں لانا چاہیے:
{اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ} (النحل:۱۲۵)
’’اللہ کے راستہ کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلاؤ اور ان سے بحث کرو تو معقول طریقے سے ۔‘‘
صداقتوں کی ضرورت
یہی صداقتیں ہیں حقائقِ قرآنیہ کی یہی تفصیلات اور جزئیات ہیں جن کا علم ہمیں اس قابل بناتا ہے کہ ہم باطل فلسفوں کے تصورات کا دندان شکن جواب قرآن سے مہیا کریں لیکن یہ صداقتیں علم کے ذخیرہ میں باطل کے ساتھ ملوث ہو کر پڑی ہیں اور باطل فلسفوں کی زینت اور رونق اور فروغ اور ترقی کا سبب بنی ہوئی ہیں انسان کی فطرت باطل کی طرف نہیں جھکتی بلکہ حق کی طرف جھکتی ہے۔
باطل کا سامانِ تزئین
اگر باطل فلسفہ فقط باطل ہی پر مشتمل ہوتا تو اسے کوئی قبولیت اور کوئی ترقی حاصل نہ ہوتی لیکن باطل فلسفہ حق کے ساتھ مل کر قوت حاصل کرتا ہے اور اپنی گھناؤنی صورت کو چھپانے کے لیے حق کو ساتھ لے کر سامنے آتا ہے۔ لوگ حق کی طرف جھکتے ہیں اور نہیں جانتے کہ اس کے پسِ پشت باطل موجود ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ نادانی سے باطل کو بھی حق سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں اگر ہم باطل فلسفوں میں سے صداقتوں کو الگ کر دیں اور حقائق قرآنیہ کے ساتھ جن سے وہ جدا کی گئی ہیں اور جن کے ساتھ دوش بدوش موجود ہونا ان کا اصلی مقام ہے پھر جوڑ دیں تو باطل فلسفے بے کار اور بے اثر ہو کر رہ جائیں اور اسی نسبت سے قرآن کی تعلیم دلکش اور مؤثر ہو جائے۔ قارئین اس تجزیہ سے یہ نتیجہ نکالیں گے کہ اگر علم ترقی نہ کرتا تو باطل فلسفوں کو فروغ حاصل نہ ہوتا کیونکہ ان کو رونق یا زینت کے ساتھ جلوہ افروز ہونے کے لیے صداقتیں میسر نہ آتیں اور یہ نتیجہ بالکل صحیح ہے۔
ہماری غفلت
لیکن علمی صداقتوں کے بل بوتے پر باطل کی جلوہ فروشی ہماری غفلت کا نتیجہ ہے۔ یہ صداقتیں درحقیقت تعلیم نبوت کی رونق اور زینت کے لیے ظہور میں آئی تھیں تاکہ نبوت کی تعلیم زیادہ قوی‘ زیادہ معجز اور یقین افروز ہو کر دنیا کے کناروں تک پھیل جائے لیکن ہم نے اپنی جہالت سے ان صداقتوں کا مقاطعہ کر دیا ہے اور انہیں باطل کو بخش دیا ہے تاکہ وہ زیادہ قوت کے ساتھ ہمارے خلاف صف آراء ہو جائے۔ چنانچہ وہ اپنی اس قوت کی وجہ سے ہمیں شکست پہ شکست دے رہا ہے اب اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس پر پھر غالب آئیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم اس عمل کو الٹا دیں۔ تمام علمی صداقتوں کو ایک ایک کر کے باطل سے چھین لیں اور اپنے کام میں لائیں۔
نورِ قرآن کی کرنیں
یہ صداقتیں درحقیقت نورِ قرآن کی بکھری ہوئی اور ظلمتِ کفر میں کھوئی ہوئی کرنیں ہیں۔ ان ہی کی مدد سے ہم مغرب کے جدید فلسفیانہ تصورات کی تردید کر سکتے ہیں ۔ ورنہ ان کی تردید قرآن کے ظاہری الفاظ میں یا قرآن کی گزشتہ تفسیروں میں یا عہدِ ماضی کے مسلمان فلسفیوں کے فلسفوں میں موجود نہیں۔ ان کی تردید فقط قرآن کے ان مطالب اور معانی کے اندر مخفی ہے جن پر یہ صداقتیں مشتمل ہیں۔
قدیم حکمائے اسلام
شاہ ولی اللہ ؒ اور امام غزالی ؒ ایسے جلیل القدر حکمائے اسلام نے اپنے زمانہ میں بڑا کام کیا تھا لیکن ہم اپنی کم مائیگی کی وجہ سے عہدِ حاضر کے فلسفہ کی تردید کے لیے بھی ان بزرگوں کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھتے ہیں۔ ہم نے ابھی تک نہیں سمجھا کہ یہ فلسفہ جو اس زمانہ میں اسلام کے مقابلہ پر خم ٹھونک کر آیا ہے وہ نہیں جس کی تردید ان بزرگوں نے لکھی تھی۔ ہمارے آباء و اجداد نے اپنے زمانہ کے کفر کا جواب لکھ کر اپنا فرض ادا کیا تھا عہدِ جدید کے فلسفہ کی تردید لکھنا ہمارا فرض ہے اور اسے ہم ہی انجام دے سکتے ہیں۔
ہم بجا طور پر ڈرتے ہیں کہ ہم علمِ جدید کے طول و عرض میں کسی غلط فلسفیانہ تصور کو ایک قرآنی تصور یا ایک صداقت سمجھ کر اپنا نہ لیں۔ لہٰذا ہم شک سے بچنے کا طریقہ اور سلامتی کا راستہ یہی سمجھتے ہیں کہ اُسے ہاتھ نہ لگایا جائے۔
علمی صداقتوں کا ترک کرنا خطرناک ہے
لیکن ہم اس بات کو نظر انداز کر جاتے ہیں کہ کسی صحیح تصور کو یا کسی صداقت کو غلط سمجھ کر ردّ کر دینا ہمارے لیے اتنا ہی خطرناک ہے جتنا کہ کسی غلط تصور کو صداقت سمجھ کر اپنانا۔ کیونکہ جب ہم کسی صحیح تصور کو غلط سمجھ کر چھوڑتے ہیں تو ہم حق کو حق کی حمایت سے محروم کر دیتے ہیں اور اس طرح سے حق کو باطل بنا دیتے ہیں۔ نہ صرف اس حق کو جو بظاہر قرآن کے باہر ہے بلکہ اس حق کو بھی جسے ہم قرآن کے اندر اپنے پاس محفوظ سمجھتے ہیں اس مشکل کا حل یہ نہیں کہ ہم صحیح اور غلط تصورات میں امتیاز کرنے کی کوشش ترک کر دیں اور باطل تصورات کے ساتھ صحیح تصورات کو بھی چھوڑ دیں‘ بلکہ یہ ہے کہ ہم اس امتیاز کے لیے زیادہ کوشش اور زیادہ احتیاط کو بروئے کار لائیں۔ اس کوشش اور احتیاط کے نتیجہ کے طور پر ہمیں کہیں ایسے تصورات اپنانے پڑیں گے جن سے ہم اس وقت آشنا نہیں اور جنہیں ہم غیر اسلامی سمجھ کر ردّ کرتے چلے آئے ہیں اور کئی ایسے تصورات کو ردّ کرنا پڑے گا جنہیں ہم اس وقت غلطی سے اسلام کا جزو سمجھ رہے ہیں اگر ہم قرآن کی روح کو اپنا راہنما بنائیں گے تو ان دونوں صورتوں میں غلطی سے محفوظ رہیں گے۔ ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ علمِ جدید کی کوئی ایسی حقیقت جو عہدِ حاضر کے حکماء کے نزدیک علمی مسلّمات میں شمار ہوتی ہے اور جو فی الواقع روحِ قرآن کے مطابق ہے تحقیقات سے غلط ثابت ہونہیں سکتی اور اس کے برعکس اسی قسم کی کوئی حقیقت جو آشکار طور پر روحِ اسلام کے منافی ہے آخر کار تحقیقات سے صحیح ثابت نہیں ہو گی۔
ایک صداقت کا ترک بھی حق کا ابطال ہے
اگر ہم سچ مچ کی علمی صداقتوں میں سے ایک صداقت کو بھی نظر انداز کر یں گے خواہ اسے پرکھنے کی زحمت سے چھوٹنے کے لیے نظر انداز کریں یا اپنے زعم میں شک سے بچنے اور سلامتی کا راستہ اختیار کرنے کے لیے نظر انداز کریں تو ہم حق کو کمزور اور باطل کو طاقتور کریں گے کیونکہ ایک صداقت دوسری صداقت کو سہارا دیتی ہے۔ جب ہم ایک صداقت کو دوسری صداقت سے جس کا وہ ایک جزو ہے الگ کر دیں گے تو باطل اس کی جگہ لے لے گا اور صداقت کو ملوث کر دے گا۔ ہمارے ذہن میں اس صداقت کا مفہوم صحیح نہیں رہے گا۔ یعنی وہ صداقت‘ صداقت نہیں رہے گی بلکہ ایک غلط تصور کی صورت اختیار کرے گی۔ ایسی صورت میں ہم یہ کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے شک کا راستہ چھوڑ کر سلامتی کا راستہ اختیار کیا ہے۔
باطل کی تائید
اس کا دوسرا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ جزوی صداقت جو سچ مچ کی صداقت ہے اور جسے ہم نے شک کی بنا پر الگ کر دیا ہے باطل تصورات کی زینت اور رونق کا سامان بنے گی اور فطرتِ انسانی کے لیے ایک جاذبیت رکھنے کی وجہ سے باطل کو دلکش بنائے گی۔ ہاں اگر وہ صداقت سرے سے وجود ہی میں نہیں نہ آئی ہوتی یعنی نوعِ بشر پر منکشف نہ ہوئی ہوتی (جیسا کہ کئی علمی صداقتیں جو اس زمانہ میں انسان پر منکشف ہوئی ہیں پہلے زمانہ میںمثلاً صحابہؓ کے زمانہ میں اس کی نظروں سے اوجھل تھیں) تو پھر بات کچھ اور ہوتی۔ ایک حقیقتِ قرآنیہ کی علمی تفصیلات اور جزئیات سے ناواقف ہونا اور بات ہے اور ان سے واقف ہونے کے بعد ان کو دیدہ دانستہ رد کر دینا اور بات ہے۔
اور قرآن نافہمی کا سامان ہے
جب تک اور جس حد تک ہم ان جزئیات اور تفصیلات سے شعوری طو رپر ناواقف ہوں ہم ان کو غیر شعوری طور پر اور مخفی طور پر تسلیم کر رہے ہوتے ہیں۔ لہٰذا ہمارے ذہن میں حقیقتِ قرآنیہ کا تصور یا مفہوم نہیں بگڑتا۔ لیکن جب ہم واقف ہونے کے بعد ان سے انکار کرتے ہیں تو اس حقیقت کے تصور یا مفہوم کو بگاڑ دیتے ہیں اور اس سے ہمارا اسلام کا تصور بگڑ جاتا ہے۔ میری ان معروضات سے صفحہ ۸۲ پر درج کیے ہوئے اعتراضات میں سے تیسرے اعتراض کا جواب پیدا ہوتا ہے۔
دوسر ے جب تک یہ صداقت منکشف نہیں ہوئی تھی کفر بھی اسے اپنی تقویت کے لیے کام میں نہ لا سکتا تھا اور اسلام بھی اس کفر کی تردید کی ضرورت سے دو چار نہیں تھا۔ لہٰذا جب کوئی علمی حقیقت حکماء کے مسلّمات کے طور پر ہمارے سامنے لائی جائے تو ہم پر فی الفور ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے اور ہم اس سے چشم پوشی نہیں کر سکتے بلکہ مجبور ہوتے ہیں کہ اسے دلائل و براہین کی بنا پر ردّ یا قبول کریں۔ لیکن ہم آج تک مغرب کی دریافت کی ہوئی علمی صداقتوں کی طرف سے فقط آنکھیں بند کر کے بیٹھے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ایک طرف سے ہمارا قرآن کا مفہوم بگڑتاجا رہا ہے اور دوسری طرف سے ان صداقتوں کے بل بوتہ پر کفر ہمیں آنکھیں دکھا رہا ہے اور ہم پر چیرہ دست ہو رہا ہے۔ قرآن کا بگڑا ہوا مفہوم جو اس وقت ہم اپنے ذہن میں لیے ہوئے ہیں‘ ہمیں مغرب کے کافرانہ‘ فلسفیانہ تصورا ت کی تردید کے لیے کام نہیں دے سکتا تھا۔
ہمارا قصور
یہ قرآن کا قصور نہیں کہ اس بات کے باوجود کہ ہمار ے ہاتھوں میں قرآن ہے کفر ہم پر چیرہ دست ہو رہا ہے بلکہ یہ ہمارا قصور ہے کہ ہم قرآن کو ٹھیک طرح سے نہیں سمجھ رہے۔ اس کے حقائق کو اپنے باطل سے ملوث کر رہے ہیں بلکہ انہیںاپنے دشمنوں کو سونپ رہے ہیں۔
آلۂ حرب و ضرب
ہر علمی صداقت ایک خوفناک آلۂ حرب و ضرب ہے جو یادشمن ہمارے خلاف اپنے کام میں لائے گا اور یا ہم دشمن کے خلاف کام میں لائیں گے۔ ہمارے لیے پہلی صورت کا نتیجہ ہلاکت ہے اور دوسری صورت کا نتیجہ زندگی‘ اب غور سے دیکھئے کہ زندگی کے کتنے سہارے ہیں جنہیں ہم جان بوجھ کر چھوڑتے جا رہے ہیں اور موت کے کتنے امکانات ہیں جنہیں ہم جان بوجھ کر دعوت دے رہے ہیں کسی ایک علمی صداقت کا نظر انداز کرنا بھی ایک گناہ عظیم ہے جس کی سزا سے ہم یہ کہہ کر چھوٹ نہیں سکتے کہ قرآن میں لفظاً اس کا ذکر نہیں تھا۔
ارشادِ نبویؐ
رسول اللہﷺ نے حکم دے کر ہم پر حجت کا اتمام کر دیا کہ حکمت تمہاری گمشدہ چیز ہے جہاں ملے اسے اپنا لو۔ وہ دولت مند کس قدر احمق ہے جو پہلے اپنی دولت کو اپنے ہاتھوں سے لٹاتا رہے اور پھر دوسروں کا غلام اور محتاج بن کر بیٹھ جاتا ہے۔ ہماری حالت ایسی ہی ہے۔
زیاں کاری
ہم نے دوسروں کو اجازت دے رکھی ہے کہ ہماری حکمت کی دولت لوٹ لیں اور ہمیں اپنے غلاموں اور محتاجوں میں شمار کریں۔ ہم دوسروں کے خلاف لڑنے کے لیے نکلے تھے تاکہ ان پر فتح پائیں لیکن ہم نے اپنے جدید اور نفیس آلاتِ حرب کو جو خد انے خاص ہمارے لیے نازل کیے تھے دوسروں کے حوالے کر دیا ہے اور خود ان کے مفتوح ہوگئے ہیں۔
اس سلسلہ میں یہ نکتہ نہایت ہی اہم ہے کہ ہمیں ان صداقتوں کو اپنانے کی ضرورت فقط اس لیے نہیں کہ وہ ہمیں غلط فلسفیانہ تصورات کے ردّو ابطال کے لیے کام دیں گی بلکہ بنیادی طور پر ہمیں ان کی ضرورت اس لیے ہے کہ ہم ان کی مدد سے قرآن کے مطالب کو زیادہ اچھی طرح اور زیادہ صحیح طریق سے سمجھ سکیں گے اور پھر اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ قرآن کی تشریح اور تعبیر کے متعلق ہمارے اختلافات کم ہوتے جائیں گے اور ہم زیادہ آسانی کے ساتھ ایک قوم یا جماعت کی حیثیت سے اپنی ساری عملی زندگی کو قرآن کی بنیادوں پر استوار کرسکیں گے اور بالآخر غیر مسلموں کو زیادہ کامیابی کے ساتھ اسلام کی طرف دعوت دے سکیں گے۔
ابطالِ باطل کا ذریعہ
یہ بات کہ ہم ان صداقتوں کی مدد سے غلط فلسفیانہ تصورات کا ردّ و ابطال بھی کر سکیں گے ان کے اس بنیادی فائدہ کا ایک پہلو ہے اگر یہ صداقتیں قرآن کی تفہیم اور تشریح کے لیے کارآمد نہ ہوں تو پھر وہ حق و صداقت کی طرف سے کسی باطل فلسفہ کا ردّ و ابطال بھی نہ کر سکتیں اور اگر وہ فی الواقع ردّو ابطال کر سکتی ہیں تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ فی الواقع ابدی صداقتیں ہیں اور انہیں ہمیشہ کے لیے حقائقِ قرآنیہ کی تفصیلات اور جزئیات اور تصورات ِ قرآنیہ ہی شمار ہونا چاہیے۔ کوئی صداقت یا تو صداقت ہی نہیں یا پھر وہ ابدی صداقت ہے جسے ہم کبھی چھوڑ نہیں سکتے اور جو ہمیں کبھی چھوڑ نہیں سکتی خواہ ہم اس سے لاکھ بھاگتے پھریں ۔ ہم ان صداقتوں کے ساتھ یہ برتاؤ نہیں کر سکتے کہ آج کفر کو خاموش کرنے کے لیے ان سے کام لیں اور کل کو انہیں چھوڑدیں یا انہیں فقط کفر کے مقابلہ کے لیے اپنی صداقتیں جتا کر سامنے کریں اور کفر کی نظروں سے اوجھل ہو کر ان کو بھی کفر ہی سمجھیں‘ ان کو قرآن سے دور رکھیں‘ اور اُن سے نفرت کریں۔ یہ ایک بری قسم کی فریب کاری اور بددیانتی ہو گی اور اس پر وہی مثل صادق آئے گی کہ ہاتھ کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ۔ ہمیں چاہیے کہ یا تو ہم کافرانہ تصورات کے جواب میں مکمل خاموشی سے کام لیں اور اس خاموشی کے خطرناک نتائج کو بھگتیں۔ جو ظاہر ہے کہ ہم کبھی نہیں کر سکتے اور یا پھر ان کا جواب دیں تو ایسی صداقتوں سے کام لیں جنہیں ہم سچ مچ کی صداقتیں خیال کرتے ہوں۔ محض تردید بے سود ہے کسی باطل خیال کی نفی اس کے مقابل کے صحیح خیال کے اثبات کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔ اگر ہم سلسلۂ قوانینِ عالم کی ایک کڑی کو غلط سمجھیں تو ہمیں اس کی جگہ دوسری کڑی رکھنا پڑے گی۔
علم دین
فقط لاالٰہ کہنے سے کسی کے پلے کچھ نہیں پڑتا جب تک کہ اس کے بعد الا اللہ نہ کہا جائے اگر ہم نے اس صورت کو اختیار کیا جو ہمیں لازماً اختیار کرنا پڑے گی تو کوئی عالمِ دین اس وقت تک عالمِ دین نہیں کہلا سکے گا جب تک کہ وہ ان صداقتوں پر حاوی نہ ہو۔ کیونکہ ان کے علم کے بغیر خود قرآن کا علم ادھورا اور خام رہے گا۔
فلسفۂ مغرب کا پیدا کیا ہوافتنۂ ارتداد اگرچہ اسلام کے لیے ایک ایسا شدید خطرہ ہے جس کی نظیر اسلام کی ساری تاریخ میں کہیں موجود نہیں۔ لیکن اس کے اندر اسلام کی ایک ایسی قوت اور شوکت کا سامان بھی مخفی ہے جس کی نظیر شاید اسلام کی نشاۃِ اولیٰ کے سوائے اسلام کی ساری تاریخ میں کہیں نہ مل سکے گی۔
اسلام کی آئندہ شوکت کا باعث
کیونکہ اگر فلسفۂ مغرب کی اندرونی صداقتوں کو اس کے خلاف اور اسلام کے حق میں استعمال کر کے اس کی جاذبیت کو ختم کر دیں تو ہم دنیا کو اسلام کی صداقت کا ایک ایسا بیّن ثبوت پہنچائیں گے جسے دنیانظر انداز نہیں کر سکے گی۔ جب تک ایک نظریۂ عالم صحیح نہ ہو‘ ممکن نہیں کہ دم بدم آشکار ہونے والی نئی نئی علمی صداقتیں اس نظریہ کی تائید اور اس کے مقابل کے نظریات کی تغلیط کرتی چلی جائیں۔ علم کی ترقیاں ہر نظریۂ حیات کی تائید نہیں کر سکتیں۔ مثلاً وہ امریکنزم یا نازی ازم یا نیشنلزم کے نظریات کی تائید نہیں کر سکتیں بلکہ ان کی مخالفت کرتی چلی جائیں گی۔
اسلام کی صداقت کا ثبوت
امریکہ کے لوگ چند سالوں سے بے تاب جستجو کر رہے ہیں کہ اشتراکیت کا ایک علمی جواب مہیا کیا جائے۔ لیکن ان کی کوشش ابھی تک کامیاب نہیں ہوئی۔ امریکنزم میں صلاحیت نہیں کہ اشتراکیت کا کامیاب اور معقول ردّ اور توڑ کر سکے۔ اشتراکیت کا علمی جواب اگر صحیح ہو گا تو جہاں وہ اشتراکیت کی تردید کرے گا وہاں امریکنزم کو بھی ردّ کر دے گا۔ اشتراکیت کا علمی جواب فقط مسلمانوں کے پاس ہے‘ دنیا کی اور کسی قوم کے پاس نہیں‘ خواہ وہ اشتراکیت سے کیسی ہی ناراض کیوں نہ ہو۔ یہ صرف قرآن یا نبوتِ کاملہ کی تعلیم کا امتیاز ہے کہ قیامت تک جو علمی صداقتیں دریافت ہوتی رہیں گی وہ اس کی تائید اور توثیق کرتی رہیں گی۔
علمی نظریۂ کائنات فقط اسلام ہے
دنیا میں فقط ایک نظریۂ حیات ہے جو علمی معیار پر پورا اتر سکتا ہے اور اتر رہا ہے اور وہ اسلام ہے۔ قرآن کے خلاف باطل تصورات کی رزم آرائی درحقیقت ایک عارضی ہنگامہ ہے جس کے دامن میں خدا کی بے پایاں رحمت پوشیدہ ہے۔ یقینی بات ہے کہ اسلام کی نشاۃِ جدیدہ کے ہر اول دستے اسی کے گرد و غبار سے نمودار ہوں گے۔ مغرب کے فلسفہ نے اسلام کو چیلنج دے کر اسے ایک نئی قوت کے ساتھ میدان میں اترنے کے لیے موقع فراہم کر دیا ہے۔ جیسا کہ ٹائن بی کہتا ہے کہ ’’ہر نئی تہذیب ایک چیلنج کا نتیجہ ہوتی ہے‘‘۔ اسلام کی نئی زندگی حکمتِ مغرب کے چیلنج کا نتیجہ ہو گی۔ اس چیلنج کے جواب میں اب اسلام ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے ۔ اس کے جمود کا زمانہ ختم ہو گیا ہے اور اس کے حق میں ایک ایسا ذہنی انقلاب رونما ہونے والا ہے جو اسے آخر کار زمین کے کناروں تک پھیلا دے گا۔
اسلام کا شاندار مستقبل
اسلام کے اس شاندار مستقبل کی پیشینگوئیاں قرآن اور حدیث میں موجود ہیں:
{سَنُرِیْھِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْ اَنْفُسُھِمْ حَتّٰی یَـتَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّـہُ الْحَقُّ}
(حٰمٓ السجدۃ:۵۳ )
’’عنقریب ہم انہیں انفس اور آفاق میں اپنی نشانیاں دکھائیں گے (یعنی ایسے علمی حقائق ان پر منکشف کریں گے ) جن سے ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ قرآن برحق ہے‘‘۔
{ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ}
(الصف:۹)
’’اللہ وہ پاک ذات ہے جس نے اپنے رسول کو سچے دین اور ہدایت کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کردے‘‘۔
حدیث میں ہے:
البشروا ۔ البشروا انما مثل امتی مثل الغیث لا یدری اٰخرہ خیر ام اولہ او کحدیقہ اطعم منھا فوج عاما ثم اطعم منھا فوج عاما لعل اٰخدھا فوجا ان یکون اعرضھا عرضا واعمقھا عمقا واحسنھا حسناً
’’خوش ہو جاؤ۔ خوش ہو جاؤ۔ بے شک میری امت کی مثال بارش کی طرح ہے کہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کی ابتدا بہتر ہے یا انتہا۔ یا اس باغ کی طرح ہے جس میں سے پہلے ایک فوج ایک سال تک خوراک حاصل کرتی رہی اور پھر ایک اور فوج ایک سال تک خوراک حاصل کرتی رہی۔ ممکن ہے کہ دوسری فوج وسعت میں پھیلاؤ اور عمدگی میں پہلی فوج سے بڑھ کر ہو‘‘۔
صفحہ ۸۲ پر درج کیے ہوئے اعتراضات میں سے دوسرا اعتراض یہ ہے کہ سائنس کے نتائج بدلتے رہتے ہیں لہٰذا ہم انہیں قرآنی تصورات یا صداقتیں کیونکر سمجھ لیں۔ اس سلسلہ میں میری دو گزارشات ہیں:
سائنس کے نتائج بدلنے کی حقیقت
اوّل : سائنس کے نتائج بدل کر ابدی صداقتوں کی طرف آتے ہیں۔ ان کا بدلنا خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ان میں سے ہر ایک نتیجہ کسی نہ کسی وقت ایک غیر مبدل حقیقت کی صور ت میں آ جائے گا سائنس کا کوئی نتیجہ آگے پیچھے اور دائیں بائیں اور ہر سمت میں نہیں بدلتا۔ بلکہ ہر نتیجہ ایک خاص سمت میں بدلتا ہے جو اُس کی منزلِ مقصود کی سمت ہے۔ سائنس کے بدلتے ہوئے نتیجہ کی منزلِ مقصود ایک ابدی اور غیر مبدل صداقت ہے جس پر وہ آخر کار ضرور پہنچ جاتا ہے۔
صحیح نتیجہ کی دو شرطیں
یہی سبب ہے کہ ہر زمانہ میں سائنس کے نتائج کا ایک عنصر ایسا بھی ہوتا ہے جو کبھی نہیں بدلتا بلکہ مشاہدہ اور تجربہ اور تحقیق سے اور مستحکم ہوتا جاتا ہے اور اس عنصر کی مقدار ہمیشہ بڑھتی رہتی ہے۔
دوم : ہم سائنس دانوں کے کسی نتیجہ کو فقط اس بنا پر ایک صداقت قرار نہیں دے سکتے کہ وہ کسی خاص وقت پر سائنس دانوں کے مسلّمات میں داخل ہے بلکہ ایک صداقت کا درجہ حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ نتیجہ ایک دوسری شرط بھی پوری کرے اوروہ شرط یہ ہے کہ وہ روحِ قرآن کے ساتھ مطابقت رکھتا ہو۔ جب سائنس کا کوئی نتیجہ روحِ قرآن کے ساتھ مطابق ہو جائے تو ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ کر ایک صداقت کی صورت میں آ گیا ہے اور وہ غلط ہوئے بغیر اور نہیں بدلے گا۔
ایک مثال
مثلاً سائنس دان مدت تک مانتے رہے ہیں کہ مادہ غیر فانی اور ازلی ہے۔ یہ تصور چونکہ روحِ قرآن کے خلاف تھا۔ لہٰذا کبھی اس قابل نہ تھا کہ اسے ایک صداقت سمجھا جاتا۔ آج سائنس دان اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ مادہ فانی ہے اور ماضی میں ایک خاص وقت پر وجود میں آیا تھا۔ یہ تصور روحِ قرآن کے مطابق ہے اور قرآن کی رو سے ایک ابدی صداقت ہے۔ اگرچہ اس بات کا کوئی امکان نہیں لیکن اگر کل سائنس دانوں کا خیال پھر بدل جائے تو ہم ان کی موجودہ تحقیق کو صحیح سمجھیں گے۔
ایک اور اعتراض کا جواب
اس نقطۂ نظر پر ایک اعتراض یہ کیا جا سکتا ہے کہ عوام سائنس اور فلسفہ نہیں سمجھ سکتے اور قرآن عوام کے لیے بھی ہے۔ اگر سائنس اور فلسفہ کی بعض صداقتوں کو قرآن کے علم کا جزو قرار دے دیا جائے تو ان کے لیے قرآن کے مطالب اور بھی مشکل ہو جائیں گے۔ اس کے جواب میں میری گزارش یہ ہے کہ ہم قرآن کے علم میں نہ کچھ داخل کر سکتے ہیں اور نہ کچھ اس سے نکال سکتے ہیں۔ ہر صداقت خود بخود علمِ قرآن کا جزو ہے اور قرآن کے حقائق اور مطالب کی وضاحت کرتی ہے۔ لہٰذا قرآن کی تبلیغ اور تفہیم کے لیے علمی صداقتوں کا جاننا ضروری ہو جاتا ہے۔ اگر قرآن کا علم مشکل ہو تو وہ ہمیں پھر بھی حاصل کرنا پڑے گا۔ اگر ہم قرآن کا علم حاصل کریں گے تو اپنے فرائض سے سبکدوش ہوں گے ورنہ نہیں۔ اسی لیے تو حضورﷺ نے فرمایاتھا:
((طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ))
’’علم سیکھنا ہر مسلمان کا فرض ہے‘‘۔
گویا اگر بعض لوگ جان بوجھ کر عوام کی سطح پر رہنا چاہیں تو بعض دوسرے لوگ ان کی طرف سے تحصیلِ علم کا فرض ادا نہیں کر سکتے۔
قرآن جہالت کا حامی نہیں
اگر عوام کو قرآن کے غوامض اور اسرار تک رسائی نہیں تو خدا کب چاہتا ہے کہ قرآن کے ماننے والے عوام کی سطح پر رہیں وہ قرآن میں تدبر اور تعقل کا حکم دیتا ہے اور اس تدبر اور تعقل کی حد مقرر نہیں کرتا۔
ماضی میں عوام قرآن کے قلیل ترین علم پر کفایت کرتے رہے ہیں۔ لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے۔ غلط نظریات کی عوامی تعلیم سب سے طاقتور ہتھیار ہے جو اس وقت کفر ہمارے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ جدلی مادیات کا اشتراکی فلسفہ کوئی آسان سا فلسفہ نہیں تاہم روس کا ہر تعلیم یافتہ نوجوان اس کا ماہر بنا دیاجاتا ہے۔ اگر یہ حقیقت ہے کہ ہم اسرار و رموزِ قرآن کی واقفیت کے بغیر اس زمانہ میں نہ قرآن کو ٹھیک طرح سے سمجھ سکتے ہیں اور نہ ٹھیک طرح سے اس کی مدافعت کر سکتے ہیں نہ خود مسلمان رہ سکتے ہیںاور نہ دوسروں کو مسلمان بنا سکتے ہیں تو کیا سبب ہے کہ ہم فقط آسان پسندی کی وجہ سے اس واقفیت کو حاصل نہ کریں ہمیں چاہیے کہ ہم قرآن کی عام تعلیم کے ذریعہ سے جہاں تک ممکن ہو عوام کو خواص کی سطح پر لائیں۔ بے شک قرآن کا فرمان ہے:
{وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ} (القمر:۷)
’’بے شک ہم نے قرآن کو پڑھنے کے لیے آسان کر دیا ہے کیا کوئی ہے جو اس سے نصیحت لے۔‘‘
لیکن قرآن اس لیے آسان نہیں کہ اس کے مطالب پر غور و فکر کرنے کی ضرورت نہیں اور وہ غور و فکر کے بغیر سمجھے جا سکتے ہیں بلکہ وہ اس لیے آسان ہے کہ اس کی تعلیم پہلے ہی انسان کی فطرت میں موجود ہے۔ سچا فلسفہ آسان ہوتا ہے کیونکہ انسان کے ضمیر میں اس کے لیے کشش رکھی گئی ہے اور وہ دل میں فوراً اتر جاتا ہے۔ غلط فلسفہ کو منوانے کے لیے بڑا تکلّف کرنا پڑتا ہے اور وہ پھر بھی آسان نہیں ہوتا قرآن اس لیے آسان ہے کہ وہ کوئی نئی بات انسان کے دل میں نہیں ڈالتا بلکہ وہ ایک ایسی بات کو یاد دلاتا ہے جو پہلے ہی انسان کے دل میں ہے:
{بَلْ ھُوَ اٰیٰتٌ بَـیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ} (العنکبوت:۴۹)
’’بلکہ یہ قرآن ایسی آیات پر مشتمل ہے جو جاننے والوں کے دل میں پہلے ہی موجود ہیں‘‘۔
قرآن حکمت کی کتاب ہے جو ایک ایسی ذات پاک نے نازل کی ہے جو علیم و حکیم ہے:
{اِنَّکَ لَتُلَقَّی الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ عَلِیْمٍ} (النمل:۶)
’’بے شک تو قرآن سکھایا جارہا ہے ایک ایسی ذات سے جو حکیم و علیم ہے‘‘۔
کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایسی کتاب کے فہم کے لیے ہمیں علم و حکمت کی ضرورت نہیں؟
کامیاب تردید کے لوازمات
ان گذارشات سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ ہم میں سے جو لوگ مغرب کے غلط فلسفیانہ تصورات کی تردید کی طرف توجہ کریں ان کے لیے ضروری ہو گا کہ :
اوّل : وہ روحِ قرآن کے ساتھ پوری پوری واقفیت پیدا کریں۔ یہ واقفیت قرآن اور حدیث اور سیرتِ رسولؐ و صحابہؓ اور ائمہ و صوفیاء کے براہِ راست مطالعہ اور کثرتِ استغفار و عبادت اور رسولؐ کی ذات سے محبت و عقیدت کا نتیجہ ہوتی ہے اس واقفیت کے بغیر قرآنی اور غیر قرآنی یعنی صحیح اور غلط تصورات میں تمیز کرنا مشکل ہو گا۔
دوم : وہ مغرب کے غلط تصورات کے اصل ماخذ اور ان کے متبعین کے طرزِ خیال و عمل سے پوری پوری واقفیت پیدا کریں۔اس غرض کے لیے سب سے پہلے ان ماخذ کا ہمدردانہ مطالبہ ضروری ہو گا۔ اگر ہم ایک بڑے فلسفی کی کتابوں کا مطالعہ تعّصب اور مخالفت کے جذبات کے ساتھ کریں تو ہمیں اس کی بات پوری طرح سے سمجھ میں نہیں آ سکتی۔ اگر ہم اس کے خیال کا صحیح جائزہ لینا چاہیں اور ا س کو ٹھیک طرح سمجھنا چاہیں تو ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہوئے پہلے اس کے ساتھ متفق ہونے کی کوشش کریں۔ جہاں کہیں ہم کوشش کے باوجود اس سے متفق نہ ہو سکیں گے ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ اس نے یہاں اصل بات سمجھنے میں غلطی کی اور اپنے استدلال میں ٹھوکر کھائی ہے۔
سوم: وہ علم کے تمام شعبوں سے یعنی مادی حیاتیاتی اور نفسیاتی علوم اور فلسفہ سے جو ان علوم کو جمع کر کے ایک مکمل نظریۂ کائنات کو ترتیب دیتا ہے۔اس حد تک واقف ہوں کہ ان کی ساری وسعت میں جہاں کہیں کوئی صحیح اسلامی تصور موجود ہو اسے پہچان کر لے سکیں اور استخراج اور استنباط سے مزید صحیح اسلامی تصورات کو اخذ کر سکیں اور ان کو اپنے مقصد کے مطابق نئی ترتیب دے سکیں اگر وہ علوم سے اس حد تک آشنا نہیں ہوں گے تو بہت سا کارآمد علمی مواد جو ان کی تردید کے علمی معیار کو بلند کرکے اس جاذبیت اور معقولیت میں اضافہ کر سکتا ہے ان کی نظروں سے اوجھل رہے گا اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکیں گے۔
چہارم: وہ اپنی تردید لکھتے ہوئے اپنی قوم کے معتقد‘ نیم معتقد یا غیر معتقد افراد کو نہیں بلکہ دائرہ اسلام سے باہر چوٹی کے حکماء اور فضلاء کو ذہن میں رکھیں کیونکہ یہی لوگ ہیں جن کے قائل ہونے سے دنیا کی ذہنی فضا سے باطل تصورات کا اثر زائل کیا جا سکتا ہے اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو خواہ ہم کتنی ہی کوشش کریں ہم نادانستہ طور پر اپنے استدلال میں اپنے اعتقادات کا سہارا لینے لگ جائیں گے اور یہ دیکھنے سے قاصر رہ جائیں گے کہ ہمارے مخالفین کو ہمارے استدلال میں کیا کیا خامیاں نظر آسکتی ہیں اور ہم ان خامیوں کو دور نہیں کر سکیں گے۔ اور اگر ہمارا استدلال ناقص رہے گا تو ہماری تردید نہ صرف مخالفین پر بے اثر رہے گی بلکہ ان مسلمانوں کو بھی قائل نہ کر سکے گی جو اعتقادی لحاظ سے کنارہ پر پہنچ چکے ہیں یا دوسری طرف جا چکے ہیں اور جن کو بچانا یا واپس لانا دراصل ہماری تردید کامقصد ہے۔
پنجم : وہ علمی دنیا کے مسلّمہ حقائق سے آغاز کر کے ان قرآنی حقائق کی طرف آئیں جن کی صحت لوگوں کے نزدیک مسلّم نہیں۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو ہم دنیا کے حکماء اور فضلاء کو اپنے ساتھ متفق نہیں کر سکیں گے۔
ششم : وہ جب کسی غلط تصور کی تردید کریں تو اس کی جگہ دوسرا تصور مہیا کریں اور پھر جو سوالات اس نئے تصور کے پیش کرنے سے پیدا ہوتے ہوں ان کا ایسا مدلل اور معقول جواب مہیاکریں کہ ہمارے اس تصور کا علمی معیار‘ ردّ کیے ہوئے تصور سے بہتر اور بالاتر ہو جائے اگر ہم ایسا نہ کریں گے تو پھر کسی غلط تصور کی جو تردید ہم پیش کریں گے‘ وہ بے اثر رہے گی اور کسی کو قائل نہ کر سکے گی۔ جیسا کہ اوپر گذارش کیا گیا ہے کسی غلط عقیدہ کی محض نفی مخالفین کو قائل نہیں کر سکتی جب تک کہ اس کے مقابل کے صحیح تصور کا اثبات نہ کیا جائے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم کسی غلط فلسفیانہ تصور کی مدلل اور معقول تردید اس وقت تک نہیں کر سکتے جب تک کہ اپنا ایک مکمل نظامِ حکمت مہیا نہ کریں۔ بالخصوص جب چند غلط اور مخالف تصورات ایک مکمل فلسفہ کائنات کے اجزاء کے طور پر پیش کیے گئے ہوں تو ہم ان میں سے کسی ایک تصور کی تردید بھی الگ اور جزوی طو رپر نہیں کر سکتے بلکہ اس کی تردید کے لیے ہمیں ایک مکمل فلسفہ کائنات پیش کرنا پڑے گا۔ مثلاً ہم کارل مارکس کے فلسفۂ تاریخ یعنی تاریخی مادیات کا جواب اس وقت تک نہیں دے سکتے جب تک کہ ہم اس کے مقابل میں ایک اور نظریۂ تاریخ یعنی صحیح اسلامی نظریۂ تاریخ پیش نہ کریں جو اس سے زیادہ معقول اور مدلل ہو۔
ہفتم : وہ ایک فلسفہ یا ایک فلسفیانہ خیال کی تردید کے لیے جن تصورات کو صحیح سمجھ کر کام میں لائیں کسی دوسرے فلسفہ یا دوسرے فلسفیانہ خیال کی تردید کرتے ہوئے اسے غلط قرار نہ دیں بلکہ اپنے پہلے موقف پر قائم رہیں۔ اس کا مطلب صاف طو رپر یہ ہے کہ مختلف فلسفوں کی تردید جو ہم کریں گے اسی صورت میں صحیح اور کامیاب ہو گی۔ جب ان سب کی تردید کے لیے ہم ایک ہی سلسلۂ تصورات یا ایک ہی نظامِ حکمت کام میں لائیں گے اور یہ نظامِ حکمت اسلام کا نظامِ حکمت ہو گا۔
ہشتم : مغرب کے غلط فلسفے جیسا کہ پہلے گذارش کیا گیا ہے کلیتاً باطل نہیں بلکہ حق و باطل کے امتزاج سے بنے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ان میں کشش ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ وہ نہ توان کے صحیح تصورات کو ردّ کریں اور نہ ہی ان کے غلط تصورات کو قبول کریں۔ ورنہ ان کی تردید خود اپنے آپ کو باطل کر دے گی۔
نہم : ہر غلط فلسفہ کے اندر وہ جن تصورات کو صحیح سمجھیں انہیں دوسرے فلسفوں کی تردید کرتے ہوئے غلط قرار نہ دیں اور جن تصورات کو غلط سمجھیں انہیں دوسرے فلسفوں کی تردید کرتے ہوئے صحیح قرار نہ دیں ورنہ وہ اپنی تردید خود کریں گے۔
اصل بات یہ ہے کہ ایک فلسفیانہ تصور کی تردید کے لیے تردید کا لفظ اس طرح سے استعمال نہیں ہوتا جس طرح سے ایک محض مذہبی تصور کی تردید کے لیے ہم یہ لفظ استعمال کرنے کے عادی ہیں ایک مذہبی خیال کی تردید کے لیے یہ کافی ہے کہ ہم اس کے نقائص پوری طرح سے بیان کر دیں۔ لیکن ایک فلسفیانہ تصور کی تردید کرتے ہوئے اگرچہ ہم اس کے نقائص بیان کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں ۔ لیکن اس سے بھی زیادہ ہمیں اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ ہم اس تصور کی جگہ ایک دوسرا تصور جسے ہم صحیح سمجھتے ہوں رکھ کر یہ بتائیں کہ کس طرح سے یہ دوسرا تصور کائنات کے تمام حقائق کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتا ہے اور ان کی زیادہ تسلی بخش تشریح کرتا ہے ۔ اگر اس تصور کے ساتھ حقائقِ کائنات کی مناسبت ثابت ہو جائے تو پھر یہ تصور خود بخود صحیح تسلیم ہو جاتا ہے اور اس کے مقابل کا تصور خود بخود غلط ثابت ہوتا ہے کیونکہ کائنات کی اسکیم میں اس کی جگہ باقی نہیں رہتی اور اس کے بغیر تمام حقائق کی تسلی بخش تشریح ہو جاتی ہے۔ گویا ایک فلسفیانہ تصور کی تردید کرتے ہوئے اپنے نقطۂ نظر کااثبات کرنا دوسرے کے نقطۂ نظر کی نفی کرنے سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ ایک خاص تصور کے اثبات سے اس کے مقابل کے تصور کی نفی خود بخود لازم آتی ہے اور یہ اثبات بھی ایسا نہیں ہوتا جیسا کہ مثلاً ریاضیات کے ایک مسئلہ کا ہوتا ہے بلکہ وہ سلسلۂ حقائق کائنات کی ایک ایسی تشریح اور تنظیم کی صورت اختیار کرتا ہے جس میں وہ تصور بھی جسے ہم درست ثابت کرنا چاہیں اپنی جگہ پر آ جاتا ہے فلسفہ نے مذہب کی تردید کے لیے یہی طریقہ اختیار کر رکھا ہے۔ لہٰذا مذہب کو بھی فلسفہ کی تردید کے لیے یہی طریقہ اختیار کرنا ضروری ہے۔
مثلاً اگر خدا کی ہستی کا مفروضہ جو مذہب کی بنیاد ہے مادہ کی حقیقت کے مفروضہ کے مقابلہ میں کائنات کے تمام حقائق کی تشریح کو زیادہ آسان اور قابل فہم بناتا ہے تو یہ مفروضہ درست ہو گا اور مادہ کی حقیقت کا مفروضہ غلط ہو گا خواہ ہم خدا کی ہستی کو اس طرح سے ثابت نہ کرسکیں جیسے کہ مثلاًہم اقلیدس کے ایک دعویٰ کو ثابت کرتے ہیں ایک مفروضہ کی صحت کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے مقابل کے مفروضات کی نسبت زیادہ حقائق کی تشریح کرتا ہو اور اس کی یہ تشریح دوسرے مفروضات کی تشریح کی نسبت زیادہ معقول اور زیادہ دل نشین ہو۔ اُمید ہے کہ آئندہ صفحات کا مطالعہ کرتے ہوئے قارئین اس نقطہ کو ذہن میں رکھیں گے۔