قرآن اور علمِ جدید (یونی کوڈ فارمیٹ)
حیات بعد الممات اور لاشعور
صفحہ۳۳۳ پر آٹھویں شق کے ماتحت جن حقائق کا ذکر کیا گیا ہے وہ کچھ اور وضاحت چاہتے ہیں۔
لاشعور کی بعض اہم خصوصیتیں
فرائڈ نے اپنے تجربات کے دوران میں یہ معلوم کیا کہ جب معمول ہپناٹک (Hypnotic)نیند کے عالم میں ہوتا ہے تو عامل کے سوالات کے جواب میں اپنی زندگی کے ایسے واقعات کا حوالہ دیتا ہے جو اسے جاگتے ہوئے بالکل یاد نہیں ہوتے اور عامل چاہے تو اپنے سوالات سے اس کی زندگی کی تمام سرگزشت ‘جس میں چھوٹے سے چھوٹے واقعات پوری تفصیل کے ساتھ شامل ہوں‘ آسانی سے تیار کر سکتا ہے۔لہٰذا فرائڈ ہمیں بتاتا ہے کہ لاشعور کا خاصہ ہے کہ وہ انسانی زندگی کے تمام چھوٹے بڑے واقعات من و عن ضبط رکھتا ہے ۔ اس کا مزید ثبوت اسے اس بات سے بھی حاصل ہوا کہ ہمارے خواب جن علامات کو کام میں لاتے ہیں ‘ ان کے تار و پود میں بعض ایسے واقعات بھی آتے ہیں جو دور دراز کے عہد ماضی میں رونما ہوئے ہوں اور جن کو ہم بیداری میں اس طرح سے فراموش کر چکے ہوں کہ کوشش سے بھی یاد نہ کر سکتے ہوں ۔ اس نے یہ بھی معلوم کیا کہ خواہ یہ واقعات ایک دوسرے کے نقیض ہوں وہ ایک دوسرے کو کالعدم نہیں کرتے بلکہ ہر واقعہ لاشعور کے اندر اپنی جداگانہ حیثیت سے موجود رہتا ہے اور وقت کے گزرنے سے کسی واقعہ کے اندر ذرہ بھر تغیر پیدا نہیں ہوتا۔ نیز لاشعور کی دنیا وقت اور فاصلہ کے قوانین کے عمل سے باہر ہے اور یہاں فلسفیوں کی یہ بات غلط ثابت ہو جاتی ہے کہ ہمارا ہر ذہنی عمل وقت اور فاصلہ کے قوانین کا پابند ہے۔
فرائڈ کا تعجب
فرائڈ لاشعور کی ان خاصیات پر بے حد تعجب کا اظہار کرتا ہے اسے بجا طور پر یقین ہے کہ لاشعور کی یہ خاصیات فطرتِ انسانی کے بہت سے قیمتی رموز و اسرار کی حامل ہیں اور لہٰذا وہ حکماء کو دعوت دیتا ہے کہ ان کو اپنے غور و فکر کا موضوع بنائیں اور ان کے رموز و اسرار سے پردہ اٹھائیں۔
قرآن کی روشنی
فرائڈ کو معلوم نہیں کہ قرآن نے آج سے بہت پہلے نہ صرف یہ کہہ دیا تھا کہ ہر عمل جو انسان سے سرزد ہوتا ہے نفس انسانی میں تاقیامت جوں کا توں محفوظ رہتا ہے بلکہ اُس نے یہ بھی بتا دیا تھا کہ انسانی اعمال کی حفاظت کے اس قدرتی اہتمام کے اندر کون سے مقاصد اور کون سی حکمتیں اور علتیں پوشیدہ ہیں۔ اگر فرائڈ فلسفیوں کو دعوتِ فکر دینے کی بجائے قرآن کی طرف رجوع کرسکتا تو اپنے ذوق دریافت کی تسکین کا پوراسامان وہاں پاتا اور فرائڈ کو معلوم نہیں کہ نبوت کی راہنمائی کے بغیر فقط ذہن کی کاوشوں سے لاشعور کے ان اوصاف کے رموز و اسرار پر حاوی ہونا فلسفیوں کے بس کی بات نہیں۔ البتہ نبوت کی روشنی ان کی ذہنی کاوشوں کو بہت دور تک صحیح راستہ پر لے جا سکتی ہے۔
قرآن سے مطابقت
قرآن انسان کے نامۂ اعمال کے متعلق تین باتیں بیان کرتا ہے:
اوّل: یہ کہ وہ انسان سے الگ نہیں ہوتا بلکہ اُسی کا ایک جزو ہوتا ہے:
{وَکُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰہُ طٰٓئِرَہٗ فِیْ عُنُقِہٖ ط} (بنی اسراء یل :۱۳)
’’ہر انسان کے اعمال ہم نے اس کی گردن میں لٹکا دیے ہیں‘‘۔
گویا انسان کا نامۂ اعمال اُس سے باہر کی کوئی قوت نہیں لکھتی بلکہ اُس کی اپنی فطرت کی قوتیں ہی اسے لکھتی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ تمام انسانی قوتوں کے عمل پر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو مامور کر رکھا ہے۔
دوم : یہ کہ اس نامۂ اعمال کے اندر ہر چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے عمل کا اندراج ہو جاتا ہے۔ قیامت کے دن انسان جب اپنا نامۂ اعمال پڑھے گا توپکاراٹھے گا:
{مَالِ ہٰذَا الْکِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَۃً وَّلَا کَبِیْرَۃً اِلَّآ اَحْصٰہَاج} (الکہف:۴۹)
’’اس نوشتۂ عمل کو کیا ہے کہ میرا کوئی چھوٹا یابڑا عمل ایسا نہیں جو اس سے رہ گیاہو۔‘‘
فرائڈ کے تجربات سے ان دونوں حقائق کی تائید ہوتی ہے۔
سوم : یہ کہ یہ نامۂ اعمال موت کے بعد انسان کے ساتھ جاتا ہے اور انسان اس کے مطابق اچھے اعمال کی جزا اور برے اعمال کی سزا پاتا ہے۔
جب تک اس تیسری بات کو نہ مانا جائے فرائڈ کے نتائج مہمل رہتے ہیں اوردراصل فرائڈ کے دونوں نتائج خود اس تیسرے نتیجہ کی طرف واضح راہنمائی کررہے ہیں۔
موت لاشعور پر وارد نہیں ہوتی
فاصلہ اور وقت کے قوانین صرف اس دنیا کے اندر رائج ہیں اور اگر موت کے بعد کوئی اور دنیا ہے تو وہ ان قوانین کے دائرہ عمل سے باہر ہے۔ موجودہ زندگی میں ہمارا ہر شعوری فعل وقت اور فاصلہ کے قوانین کے مطابق سرزد ہوتا ہے ۔ لیکن اگر فرائڈ کے نتائج کے مطابق ہماری کوئی ذہنی زندگی ایسی ہے جو ان قوانین کی پابندی سے آزاد ہے تو اس کا مطلب صاف طور پر یہ ہے کہ ہماری یہ زندگی موت کے بعد بھی جاری رہے گی یعنی ہم موت کے بعد بھی زندہ رہیں گے۔ ہماری موت خود فاصلہ اور وقت کے قوانین کے عمل کا نتیجہ ہے۔ چونکہ ہمارا لاشعور ان قوانین کے عمل سے وراء ہے ظاہر ہے کہ موت اس پر وارد نہیں ہوتی بلکہ فقط جسدِعنصری پر وارد ہوتی ہے۔ لاشعور جو اصل انسان ہے موت سے فنا نہیں ہوتا۔ اور خود لاشعور کا اعمال کو محفوظ رکھنا یہ ثابت کرتا ہے کہ لاشعور جسم کا نتیجہ نہیں۔ تین سال کے بعد جسم کا ہر ذرہ بدل جاتا ہے۔ لیکن لاشعور کے دفتر اعمال میں نوے برس کے بعد بھی کوئی تغیر کوئی دھندلا پن کوئی مغالطہ یا شبہ پیدا نہیں ہوتا۔اگر یہ دفتر اعمال جسم سے متعلق ہے تو کہاں رہتا ہے جسم کے کس حصہ میں رہتا ہے اور جب جسم کے ذرات تین سال کے بعد غائب ہو جاتے ہیں تو یہ غائب کیوں نہیں ہوتا۔ اگر یہ مانا جائے کہ لاشعور جسم سے پیدا نہیں ہوتاتوپھرلامحالہ ماننا پڑتا ہے کہ جسم لاشعور سے پیدا ہوتا ہے اور موت جسم کے لیے ہے لاشعور کے لیے نہیں۔
مکافاتِ اعمال
قرآن کہتا ہے کہ انسان کا کوئی اچھا عمل ایسا نہیں جس کا انعام وہ نہ پائے اور کوئی برا عمل ایسا نہیں جس کی سزا وہ نہ بھگتے اور جزا اور سزا میں کسی شخص کے ساتھ معمولی سے معمولی بے انصافی بھی روا نہ رکھی جائے گی۔
{فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ (۷) وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ(۸)} (الزلزال)
’’جو شخص ذرہ بھر نیکی کرے گا اس کی جزا پائے گا اور جو شخص ذرہ بھر برائی کرے گا اس کی سزا بھگتے گا۔‘‘
{وَوُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ(۲۵)} (آل عمران)
’’اور ہر جان جوکچھ کمائے گی اس کا پورا بدلہ پائے گی اور ان کے ساتھ کوئی بے انصافی نہ کی جائے گی۔‘‘
{وَلَا یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا(۷۱)} (بنی اسراء یل)
’’اور اُن سے ذرہ بھر ظلم نہ کیاجائے گا۔‘‘
{لَا یَلِتْکُمْ مِّنْ اَعْمَالِکُمْ شَیْئًا} (الحجرات:۱۴)
’’ خدا تمہارے اعمال میں سے ذرہ بھر کم نہیں کرے گا۔‘‘
قانونِ جزا کی حکمت
بعض مخالفینِ مذہب کو غلط فہمی ہے کہ جزا اور سزا سے خدا فقط اپنی خوشنودی یا ناراضگی کا اظہار کرتا ہے جسے چاہتا ہے انتقام کے لیے دوزخ میں ڈال دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے خوش ہو کر جنت میں داخل کر دیتا ہے۔ لیکن حقیقت حال یہ نہیں جزائے عمل باہر سے نہیں آتی بلکہ انسان کی فطرت کے قوانین سے خود بخود پیدا ہوتی ہے۔ یہ قوانین خدا نے بنائے ہیں لیکن ان کا مقصد انتقام نہیں بلکہ انسان کی تربیت اور ترقی ہے۔ قانونِ جزاکا منبع خواہ جزا کا تعلق اس دنیا سے ہو یا اگلی دنیا سے اللہ تعالیٰ کی صفت محبت و رحمت ہے جو اس کی جملہ صفات کا مرکز ہے اور اس قانون کی غرض یہ ہے کہ انسان کی خود شعوری اپنے کمال پر پہنچے۔
صرف ایک خواہش
ہم جانتے ہیں کہ خود شعوری صرف ایک خواہش رکھتی ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ محبوبِ حقیقی کا قرب اور اس کی رضامندی حاصل کرے لہٰذا اس کی تمام مسرتوں اور راحتوں کا دار و مدار صرف اسی ایک خواہش کی تکمیل پر ہوتا ہے اور اس کے تمام غموں اور دکھوں کا باعث یہ ہوتا ہے کہ اُس کی یہ خواہش تکمیل نہ پا سکے یا اُس کی تکمیل میں بعض رکاوٹیںحائل ہو جائیں۔ لہٰذا خود شعوری کی جنت خدا کا قرب ہے اور اس کا دوزخ خدا سے دوری۔ اس کو جنت میں اس سے بڑی کوئی نعمت نہیں دی جا سکتی کہ اسے یقین دلا دیاجائے کہ اسے خدا کی رضامندی حاصل ہو گئی ہے کیونکہ اس کے علاوہ کچھ اور وہ چاہتی ہی نہیں۔
جنت اور دوزخ کی اصل
قرآن کا ارشاد ہے کہ اہل جنت کو خدا کی رضامندی کا یقین دلا یا جائے گا اور ان کے نزدیک اس سے بڑی نعمت اور کوئی نہ ہو گی۔
{ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکْبَرُ} (آل عمران:۱۵)
’’اہل جنت کے لیے اللہ تعالیٰ کی رضامندی سب سے بڑی نعمت ہو گی۔‘‘
{لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ(۴۱) } (النحل) ’’کاش کہ یہ لوگ جانیں۔‘‘
ہر انسان جو جنت میں داخل ہو گا اسے کہا جائے گا:
{یٰٓــاَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ (۲۷) ارْجِعِیْ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً (۲۸) فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ (۲۹) وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ (۳۰) } (الفجر)
’’اے مطمئن جان اپنے رب کی طرف لوٹ جا وہ تجھ سے راضی ہے اور تو اس سے راضی ہے میرے بندوں میں شامل ہو اور میری جنت میں داخل ہو جا۔‘‘
اسی طرح سے خود شعوری کو دوزخ میں اس سے بڑا کوئی عذاب نہیں دیا جا سکتا کہ اسے یقین ہو کہ اس نے خدا کی ناراضگی مول لے لی ہے کیونکہ اس کے لیے کوئی دکھ کوئی مصیبت اور کوئی محرومی اس سے بڑھ کر نہیں۔
ان تصریحات کا مطلب یہ ہے کہ جنت اور دوزخ کی ابتدا دنیا ہی میں ہو جاتی ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ جو شخص یہاں اندھا ہوگا وہ اگلی دنیا میں بھی اندھا ہو گا۔
{وَمَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی وَاَضَلُّ سَبِیْلًا(۷۲)}
’’جو شخص یہاں اندھا ہو گا وہ آخرت میں بھی اندھا اور راہ گم کردہ ہو گا۔‘‘
عمل کی ماہیت
انسان کا ہر عمل خود شعوری کاعمل ہوتا ہے جسم کا عمل نہیں ہوتا خود شعوری جسم کو اپنے عمل کے ذریعہ یا وسیلہ کے طو رپر کام میں لاتی ہے۔ لہٰذا ہر عمل بالآخر ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے اور یہ ذہنی کیفیت یا خود شعوری کو محبوب حقیقی کے قریب لاتی ہے یا اُس سے دور ہٹاتی ہے۔ لہٰذا وہ بالقوہ یا راحت کی حامل ہوتی ہے یا رنج کی یا جنت ہوتی ہے یا دوزخ۔
ارتقاء کا ذریعہ
زندگی کی ساری تاریخ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ زندگی ہمیشہ رکاوٹوں کے خلاف جدوجہد کرنے اور ان پر فتح پانے سے ارتقاء کرتی ہے۔ گناہ کی زندگی دراصل وہ زندگی ہے جو رکاوٹوں سے گِھر جاتی ہے اُن کے ساتھ کشمکش میں گرفتار ہو جاتی ہے اور اپنی منزلِ مقصود کی طرف ارتقاء نہیں کر سکتی۔ چونکہ انسان کی خود شعوری زود یا بدیر اپنی فطرت کے اصلی تقاضوں کی طرف عود کرنے پر مجبور ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اس کی رکاوٹیں عارضی ثابت ہوں اور جب اسے موقع ملے وہ اپنی منزل مقصود کی طرف آگے بڑھنے لگ جائے۔ لیکن بعض وقت ایسا ہوتا ہے کہ خود شعوری کو یہ موقعہ اس دنیا میں نصیب نہیں ہوتا۔ اس صورت میں اس کی جدوجہد اگلی دنیامیں جاری رہتی ہے اسی جدوجہد کا نام دوزخ ہے جو خود شعوری اس دنیا میں اپنی رکاوٹوں پر فتح نہ پا سکے وہ مجبور ہوتی ہے کہ اگلی دنیا میں اُن پر فتح پائے۔
موت کے بعد کی جدوجہد
اور اس کی وجہ یہ ہے کہ خواہش جمال خود شعوری کی فطرت کی ایک مستقل خاصیت ہے جو جسم کی موت کے بعد بھی اُس سے الگ نہیں ہو سکتی۔ اگر وہ ا س خواہش کو یہاں پورا نہ کر سکے تو وہ لازماً موت کے بعد اُس کی تکمیل کرنے اور اس کی تکمیل کے لیے اپنی رکاوٹوں کے خلاف جدوجہد جاری رکھنے پر مجبور ہوتی ہے ۔ خود شعودی اس جدوجہد کو ملتوی کر سکتی ہے لیکن اس سے بچ نہیں سکتی۔ تاہم اگر وہ اسے ملتوی کرے تو اس کا نقصان اسے بھگتنا پڑتا ہے جو بعض وقت نہایت ہی شدید ہوتا ہے کیونکہ جس طرح سے خودشعوری کی ہر کامیابی اُس کی اگلی کامیابی کو آسان کرتی ہے اُس کی ہر ناکامی اگلی ناکامی کے لیے راستہ تیار کرتی ہے۔
غفلت کا نتیجہ
اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر لغزش کے بعد خود شعوری کی جدوجہد اور مشکل ہو جاتی ہے۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے جب بدی کا ارتکاب کرنے کے لیے اس کا ضمیر اسے ملامت نہیں کرتا۔ ملامت کی اصل نیکی کی خواہش اور رغبت ہے لیکن رفتہ رفتہ یہ خواہش یا رغبت اس کے دل سے مٹ جاتی ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا ہے جب کوئی شخص گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ داغ لگ جاتا ہے اگر وہ توبہ کرے تو یہ داغ مٹ جاتا ہے اگر توبہ نہ کرے تو یہ داغ اور وسیع ہو جاتا ہے اور اگر وہ متواتر گناہ کرتا رہے اور توبہ نہ کرے تواُس کاسارا دل سیاہ ہو جاتا ہے۔ متواتر گناہ کرنے والا شخص محسوس کرتا ہے کہ نیکی کی زندگی کی طرف لوٹنا اس کے لیے دن بدن مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ آخر کار نیکی اور اس کے درمیان ایک ایسی رکاوٹ حائل ہو جاتی ہے جسے عبور کرنا اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ یہی سبب ہے کہ قرآن نصیحت کرتا ہے کہ گناہ کے بعد جلد واپس آؤ ورنہ واپس آ ہی نہ سکوگے۔
{اِنَّمَا التَّوْبَۃُ عَلَی اللّٰہِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْئَ بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ} (النساء:۱۷)
’’اس میں شک نہیں کہ توبہ صرف ان لوگوں کے لیے ممکن ہے جو (بغاوت نہیں بلکہ) غلطی سے گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں اور پھر اس سے جلد واپس لوٹ آتے ہیں۔‘‘
{وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْا اَنْفُسَہُمْ … وَلَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ (۱۳۵)} (آل عمران)
’’خدا کے بندے جب کسی بے حیائی کا ارتکاب کربیٹھتے ہیں یا اپنی جان کے ساتھ ظلم کرتے ہیں … تو اپنے فعل پر دیدہ ودانستہ اصرار نہیں کرتے۔‘‘
آخری کامیابی یقینی ہے
تاہم انسان کی خود شعوری اپنی رکاوٹوں سے مستقل طور پر نہیں دبتی۔ ابتدائے آفرینش سے آج تک ارتقاء کی ساری تاریخ بتا رہی ہے کہ خود شعوری رکاوٹوں کے ساتھ اپنی جنگ کی آخری لڑائی کبھی نہیں ہارتی اس کی کشمکش مشکل ہو جاتی ہے لیکن ناکام نہیں رہتی۔ اگر یہ صورت نہ ہوتی تو کائنات کا ارتقاء ‘جس مقام پر اس وقت تک پہنچ چکا ہے‘ کبھی نہ پہنچ سکتا۔یہ انسان کی انتہائی بدقسمتی ہے کہ اس دنیا میں اپنی رکاوٹوں کے خلاف اس کی جدوجہد کامیاب نہ ہو بلکہ دن بدن اور مشکل ہوتی جائے۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگلی دنیا میں اُن پر فتح پانے کے لیے اسے بہت زیادہ دکھ اور رنج اٹھانا پڑے گا لیکن آخری فتح حاصل کرنا یعنی دوزخ سے نکل کر جنت میں پہنچنا اُس کے لیے یقینی ہے اور دوزخ کا عذاب خود اس فتح کا ضامن ہے۔
موت کے بعد کا ارتقاء
موت کے بعد چونکہ ایک گناہ گار انسان کی خود شعوری برابر ارتقاء کرتی رہتی ہے‘ اس لیے پہلے وہ دوزخ کے بالائی مقامات کی طرف ابھرتی ہے ۔ یہاں تک کہ جنت کے نچلے مقامات پر پہنچ جاتی ہے اور پھر جنت کے بالائی مقامات کی طرف ترقی کرتی ہے ۔ جنت اور دوزخ کے مدارج ایک ہی راستہ کی مختلف منزلیں ہیں۔ موت کے بعد اس راستہ پر خود شعوری کا سفر جس منزل سے شروع ہوتا ہے وہ اسی حد تک بلندیا پست ہوتی ہے جس حد تک کہ خود شعوری اپنی ارضی زندگی کے اختتام کے وقت محبوب حقیقی کا قرب یا بُعد حاصل کر چکی ہوتی ہے۔ تاہم اس راستہ کی ہر منزل پر خود شعوری کا مقام عارضی ہوتا ہے اور بالآخر وہ ہر مقام سے آگے گزر جاتی ہے کیونکہ اسے اپنے کمال کی منزل پر پہنچنا ہوتا ہے۔
اہل جنت کی تمنا
جنت میں پہنچ کر بھی خود شعوری کا جذبۂ حسن اسے بے قرار رکھتا ہے اور وہ ہر آن چاہتی ہے کہ حسن حقیقی کی ایک جھلک اور دیکھ لے اور اس کے نور سے اپنے آپ کو اور منور کر لے۔ چنانچہ قرآن میں ہے کہ اہل جنت کے دل اگرچہ نور محبت سے روشن ہوں گے۔
{یَسْعٰی نُوْرُھُمْ بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَبِاَیْمَانِھِمْ} (الحدید:۱۲)
’’ان کا نور ان کے سامنے اور ان کے دائیں طرف چمک رہا ہو گا۔‘‘
تاہم ان کی دعا ہو گی کہ اے خدا ہمارا نور اورمکمل کر دے۔
{رَبَّنَا اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا} (التحریم:۸) ’’اے خدا ہمارا نور مکمل کر دے‘‘۔
خو ف اور غم سے نجات کا باعث
جنت اس لیے جنت نہیں ہو گی کہ اس میں اہل جنت کو جو کچھ وہ چاہتے ہیں فی الفور اور ہمیشہ کے لیے میسر آ جائے گا بلکہ وہ اس لیے جنت ہو گی کہ جو کچھ وہ چاہتے ہیں انہیں خود بخود بغیر تکلیف کے حاصل ہوتا رہے گا ۔ ان کی تنہا خواہش یعنی خواہش حسن کے راستہ میں گناہ کی کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی لہٰذا وہ غم اور خوف دونوں سے آزاد ہوں گے۔
{وَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ} (البقرۃ:۲۶۲)
’’ان کو کوئی خوف دامن گیر نہیں ہو گا اور وہ غم نہیں کریں گے۔‘‘
انسان کو غم اس وقت لاحق ہوتا ہے جب اسے یہ احساس پید ا ہو کہ جو کچھ وہ چاہتا تھا اسے نہیںمل سکا اور خوف اس وقت لاحق ہوتا ہے جب وہ سمجھے کہ جو کچھ وہ چاہتا ہے شاید اُسے حاصل نہ ہو سکے۔ اہل جنت ان دونوں قسم کی ذہنی کیفیتوں سے محفوظ ہوں گے اور یہ کیفیتیں صرف اہل دوزخ کا حصہ ہوں گی۔
اس دنیا کا دوزخ
اس دنیا میں خود شعوری کا دوزخ یعنی وہ عمل جو اسے محبوب حقیقی سے دور ہٹاتا ہے تکلیف دہ نہیں ہوتا بلکہ خوشگوار ہوتا ہے۔ کیونکہ اس دنیا میں خود شعوری شاذ ہی اپنے محبوب سے جدا ہونے کا احساس کرتی ہے۔ عینِ فراق کی حالت میں بھی وہ جھوٹے اور نقلی خداؤں یعنی غلط اور ناقص نصب العینوں سے اپنے آپ کو تسلی دے لیتی ہے کیونکہ اپنے ہر غلط نصب العین کو وہ محبوب حقیقی سمجھتی ہے جب تک اس کی غلط محبت کامیاب ہوتی چلی جائے وہ سمجھتی ہے کہ وہ خود محبوب حقیقی کے قرب کی سعادت حاصل کر رہی ہے۔
لہٰذا اس دنیا میں اس کا دوزخ ایک جنت کی صورت اختیار کرتا ہے۔ یہی ہے شیطان کا تزئینِ اعمال جس کا ذکر قرآن میں بار بار آتا ہے:
{وَزَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطَانُ اَعْمَالَھُمْ} (النمل:۲۴)
’’اور شیطان نے اُن کو اُن کے برے اعمال خوبصورت بنا کر دکھائے ہیں۔‘‘
لیکن جب محبوبِ حقیقی کے ان مصنوعی جانشینوں یعنی غلط آدرشوں کے نقائص عیاں ہو جاتے ہیں اور وہ بے وفا ثابت ہو جاتے ہیں جیسا کہ زود یا بدیر لازماً انہیں ہونا ہوتا ہے تو خود شعوری اس حیاتِ ارضی میں دوزخ کا مشاہدہ کرتی ہے کیونکہ پھر اسے محبوب کے شدید فراق کا احساس ہوتا ہے اور یہ احساس غم‘ خوف‘ حزن‘ ذہنی پریشانی‘ ہسٹریا اور جنون کی صورت اختیار کرتا ہے۔ تاہم احساسِ فراق کی یہ تکلیف خواہ کیسی ہی شدید ہو دنیا میں اپنی پوری اور اصلی شدت میں نمودار نہیں ہوتی ۔ کیونکہ اس کے پس منظر میںشعوری یا غیر شعوری اُمید کی ایک جھلک ہمیشہ موجود رہتی ہے یعنی ایک اور آدرش بچھڑے ہوئے محبوب کی جگہ لینے کے لیے قریب ہی موجود ہوتا ہے اور وہ فی الفور آ کر خود شعوری کو اُسکی تکلیف سے نجات دیتا ہے۔
اگلی دنیا کا دوزخ
خود شعوری اپنے دوزخ کی پوری شدت کا سامنا اس وقت کرتی ہے جب بدبختی سے محبوب کے اس فراق کے دوران میں اس کی ارضی زندگی ختم ہو جائے اور وہ اس کیفیت کو لے کر اگلی دنیا میں پہنچ جائے۔ اس وقت خود شعوری پر حزن‘ خوف‘ رنج اور پریشانی کی بدترین کیفیت طاری ہوتی ہے کیونکہ اس وقت اس کے لیے فریب کھانا ممکن نہیں ہوتا لہٰذا تمام غلط نصب العین‘ محبوب حقیقی کے تمام نقلی جانشین یکسر غائب ہو جاتے ہیں اور تمام جھوٹی تسلیاں یک قلم موقوف ہو جاتی ہیں۔ اس حالت کو قرآن حکیم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
{وَرَاَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِہِمُ الْاَسْبَابُ (۱۶۶)} (البقرۃ)
’’انہوں نے عذاب کو سامنے دیکھ لیا اور تمام حلائق اُن سے کٹ گئے۔‘‘
{وَضَلَّ عَنْھُمْ مَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ(۵۳)} (الاعراف)
’’اور جھوٹ جو انہوں نے گھڑ لیا تھا اُن سے غائب ہو گیا۔‘‘
اس وقت خود شعوری کو اپنی زندگی میں پہلی دفعہ اپنی انتہائی محرومی یعنی محبوب سے اپنی مکمل اور لاعلاج دوری کا احساس ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ ایک ایسے ذہنی عذاب میں مبتلا ہو جاتی ہے جس کی کوئی حد نہیں رہتی۔ اس دنیا میں ہماری بدترین پریشانیوں‘ بدبختیوں اور مصیبتوں کو اس شدید ذہنی عذاب کی کیفیت سے دور کی نسبت بھی نہیں۔
دوزخ کی آگ کا باعث
اگر اس کیفیت کو کچھ نسبت ہے تو اس سے گویا ایک انسان کو جلتی ہوئی آگ میں جھونک دیا گیا ہو۔ لہٰذا خود شعوری سچ مچ یہ محسوس کرتی ہے کہ اسے جلتی ہوئی آگ میں جھونک دیا گیا ہے جس سے گریز کے تمام راستے مسدود ہیں کیونکہ اگلی دنیا میں اس کی ذہنی کیفیت بالکل اسی طرح سے ایک خارجی حقیقت کی صورت اختیار کرتی ہے جس طرح سے اس دنیا میں خارجی حقیقت ایک ذہنی کیفیت کی صورت اختیار کرتی ہے۔
اس دنیا کی جنت
جس طرح سے ہمارا دوزخ اگلی دنیا میں جا کر بہت زیادہ رنج دہ بن جاتا ہے اسی طرح سے ہماری جنت اگلی دنیا میں جا کر بہت زیادہ خوشگواراور دلنواز ہو جاتی ہے ۔ وہ خود شعوری جو اس دنیا میں ارتقائے محبت کے کمال پر پہنچ گئی ہو‘ ایک قسم کے سرور اور اطمینانِ قلب سے بہرہ ور ہو جاتی ہے اور لہٰذا اسی دنیا میں جنت کی راحتوں اور مسرتوں سے لطف اندوز ہونے لگتی ہے۔ لیکن اس کا لطف شاذ ہی اپنے اصلی کمال کی حالت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ محبت کے راستہ میں قدم قدم پر مشکلیں‘ رکاوٹیں اور مزاحمتیں پیدا ہوتی رہتی ہیں جو اسے پریشان کرتی رہتی ہیں۔اس دنیا میں کتنے ہی نصب العین اور کتنے ہی تصورات ایسے ہوتے ہیں جو اس کی توجہ کو تقسیم کرنے اور اس کی محبت کو چھیننے کے درپے رہتے ہیں۔
اور پھر اس کی جبلتی خواہشات کا حیاتیاتی جبر اس کی خود شعوری کی آزادی کو سلب کرنے اور دبانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ لہٰذا مؤمن کو ہر وقت خطرہ لگا رہتا ہے کہ اس کا بنابنایا کام بگڑ نہ جائے۔ وہ ہر وقت متفکر رہتا ہے اور کوشش کرتا رہتا ہے کہ اس کی پاک محبت ‘ناپاک محبتوں سے ملوث نہ ہو جائے اور وہ ہمیشہ خالص اور مخلص اور یک بین و یک اندیش رہے وہ چاہتا ہے کہ محبت کے راستہ کی تمام مشکلوں پر عبور پائے اور تمام آزمائشوں میں پورا اترے تاکہ اُس کی محبت میں کوئی ضعف یا نقص پیدا نہ ہونے پائے۔ لہٰذا اس دنیا میں اس کی جنت ایک قید خانہ سے کم نہیں ہوتی۔
اگلی دنیا کی جنت
لیکن جب اس کی خود شعوری اگلی دنیا میں پہنچ جاتی ہے تو محبت کے راستہ کی تمام مشکلیں اور رکاوٹیں یکسر ختم ہو جاتی ہیں۔ اس وقت اس کی مسرت ایک ایسے کمال کو پہنچتی ہے جس کا تصور کرنا اس دنیا میں کسی شخص کے لیے ممکن نہیں۔ قرآن کا ارشاد ہے:
{فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ} (السجدۃ:۱۷)
’’کوئی جان نہیں جان سکتی کہ کون سی آنکھوں کی ٹھنڈک اس کے لیے مہیا کی گئی ہے۔‘‘
اور حضورﷺ نے فرمایا ہے کہ جنت کی راحتیں انسان کے تصور سے بالا تر ہیں:
(لا عین رات ولا اذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر)
’’ان کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی بشر کے دل میں اس کا تصور ہی آیا ہے۔‘‘
مسرت کی جھلک
موت کے قریب ایک سچا عاشق اس انتہائی مسرت کی ایک جھلک پاتا ہے جو اگلی دنیا میں اس کی منتظر ہوتی ہے اور لہٰذا وہ خوشی سے بھر جاتاہے اور اس کے چہرہ پر اطمینان اور راحت کی ایک کیفیت نمودار ہوتی ہے اور بعض اوقات اس پر ایک ہلکا سا تبسم کھیلنے لگتا ہے۔ موت کے وقت چہرہ کی کیفیت اس بات کی یقینی علامت ہوتی ہے کہ مرنے والا اپنی مراد کو پہنچ گیا ہے۔ اس کے بعد اس کی مسرت بغیر کسی جدوجہد کے خود بخود ہمیشہ بڑھتی رہتی ہے۔ یہی مسرت جنت ہے جسے یہ حاصل ہوجائے اسے سب کچھ حاصل ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد پھر بھی اگر کوئی تمنا اس کے دل میں باقی رہ جاتی ہے تو یہ کہ اُس کی محبت میں اور ترقی ہو اور وہ محبوب کے حسن سے اور لذت اندوز ہو اور اس کی یہ تمنا پوری ہوتی رہتی ہے ۔ محبوب کے حسن کی ہر تازہ جھلک اس کی خود شعوری کی ثروت ‘محبت اور طلب جمال کی قوت میں ایک اور اضافہ کرتی ہے۔ اور لہٰذا اسے اس قابل بناتی ہے کہ وہ اس کے حسن کی ایک اور جھلک دیکھ سکے۔ ہر قدم جو وہ آگے کو اٹھاتا ہے اسے اگلا قدم اٹھانے کی قوت اوراستعداد بہم پہنچاتا ہے اور اس طرح سے اس کا ارتقاء متواتر جاری رہتا ہے۔
دنیا میں کافر کی دوزخ کے خوشگوار اور جنت نما ہونے اور مؤمن کی جنت کے قید خانہ سے مشابہ ہونے کا ذکر حضورﷺ نے ان الفاظ میں کیا ہے:
((اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّۃُ الْکَافِرِ))
’’دنیا مؤمن کا قید خانہ ہے اور کافر کی جنت۔‘‘
حور و غلمان کا باعث
جنت میں خود شعوری کو جوانتہائی مسرت حاصل ہوتی ہے اس کا باعث خود شعوری کا یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ انتہائی حسن و جمال رکھنے والی ایک شخصیت کی محبت میں پوری طرح سے کامیاب ہوئی ہے۔ اوپر بتایا گیا ہے کہ کیوں اس دنیا میں ہم نہ اس مسرت کا تصور کر سکتے ہیں اور نہ اسے بیان کر سکتے ہیں۔ جنت کی یہ مسرت کچھ کچھ اس مسرت سے مشابہت رکھتی ہے جو ایک نوجوان مرد یا ایک نوجوان عورت کے دل میں جنس مخالف کے نوجوان خوبصورت محبوب کی ایسی الفت اور محبت سے پیدا ہوتی ہے جو ابھی جنسی خواہش سے ملوث نہ ہوئی ہو اور اس مشابہت کی وجہ یہ ہے کہ جبلت جنس خود شعوری کے جذبۂ حسن سے تراشی گئی ہے اور جنسی محبت کا آغاز ایک ایسی محبت سے ہوتا ہے جو روحانی نوعیت کی ہوتی ہے (اُوپر اس موضوع پر ضروری حد تک بحث کی جا چکی ہے ) لہٰذا ہم یہ باور کرنے میں بالکل حق بجانب ہیں کہ خود شعوری اپنی حالت جنت میں فی الواقع یہ دیکھے گی کہ وہ جنس مخالف کے افراد کے دل نواز حسن و جمال اور ان کی سرور انگیز ہم نشینی سے بہرہ ور ہو رہی ہے ۔اگرچہ بالکل ظاہر ہے کہ یہ جنتی محبوب‘ ارضی محبوبوں سے بدرجہازیادہ خوبصورت ہوں گے اور ان کی محبت اور ہم نشینی ان سے بدرجہا زیادہ مسرت بخش ہو گی۔
اہل دنیا کی تشکیل
خود شعوری کے اس نظارہ اور تجربہ کی وجہ یہ ہیکہ خود شعوری اگلی دنیا میں اپنی ذہنی کیفیتوں کو ایک خارجی شکل دے گی اور ایسا کرتے ہوئے ان اشیاء کو کام میں لائے گی جو اس دنیا میں اس کے تجربہ میں آ چکی ہوں گی اور جو اُس کی ذہنی کیفیتوں کے خارجی تجسم اور تشکیل کے لیے موزوں ترین ہوں گی۔ قرآن اس حقیقت کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کرتا ہے۔
{قَالُوْا ھٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَاُتُوْا بِہٖ مُتَشَابِھًا} (البقرۃ:۲۵)
’’اہل جنت کہیں گے کہ یہ تو وہی نعمتیں ہیں جو ہمیں دنیا میں بھی دی گئی تھیں اور درحقیقت وہ نعمتیں دنیا کی نعمتوں سے ملتی جلتی ہوں گی۔‘‘
برکلے(Berkeley)‘ ہیگل(Hegel)‘ کروچے(Corce) اور جنٹلے(Gentiley) ایسے فلسفی اور ایڈنگٹن (Edington)ایسے سائنس دان بالکل صحیح کہتے ہیں کہ اگر دنیا میں کسی چیز کی موجودگی کا ہمیں یقین ہو سکتا ہے تو وہ ہماری ذہنی کیفیتیں ہیں۔ پس جس طرح سے اس دنیا میں ہماری ذہنی کیفیتوں کے سوائے نہ کوئی چیز حقیقی ہے اور نہ کوئی چیز موجود ہے اُسی طرح سے اگلی دنیا میں بھی ہماری ذہنی کیفیتوں کے سوائے کوئی چیز فی الحقیقت موجود نہیں ہو گی۔ اگرچہ ہم خارج میں تمام چیزوں کو دیکھیں گے جس طرح اس زندگی میں خارجی دنیا ہماری ذہنی کیفیتوں کی تصویر ہے‘ اسی طرح سے اگلی زندگی میں بھی خارجی دنیا ہماری اپنی ذہنی کیفیتوں کی تصویر ہو گی۔
عالمِ خواب کی مثال
دوسرے الفاظ میں اگلی دنیا میں ہمارا ذہن خارج میں فی الواقع ایسی اشیاء کو پائے گا جو ہماری ذہنی کیفیتوں کی ترجمانی یا تشکیل کرنے کے لیے موزوں اور مناسب ہوں گی۔ ہمارے روز مرہ کے خواب اس عمل کی ایک مثال بہم پہنچاتے ہیں ۔ ہمارے خوابوں میںجو چیز فی الواقع موجود ہوتی ہے وہ ہماری ذہنی کیفیت ہوتی ہے لیکن اس ذہنی کیفیت کے مطابق ہم خارج میں ایک دنیا پیدا کرتے ہیں جس میں ہم دیکھتے ‘ سنتے‘ چھوتے‘ سونگھتے‘ حرکت کرتے‘ سوچتے‘ جانتے اور محسوس کرتے ہیں حالانکہ ہمارا جسم بے حرکت پڑا ہوتا ہے اور ہمارے تمام ظاہری قویٰ کا عمل موقوف ہوتا ہے۔
اصلی چیزیں
جب موت کے بعد ہمارے ظاہری قویٰ ہم سے الگ ہو جائیں گے تو کیا یہ باور کرنا عجیب ہے کہ ہم پھر بھی ایک زندہ انسان کی طرح دیکھیں‘ سنیں‘ چھوئیں‘ سونگھیں‘ حرکت کریں‘ سوچیں‘ جانیں اور محسوس کریں۔ اگلی دنیا میں دوزخ کی آگ اور ضریع اور زقوم اور حمیم اور جنت کی حوریں اور غلمان اور نہریں اور باغات یہ تمام چیزیں ہماری ذہنی کیفیتوں کی خارجی تشکیل کریں گی۔ کیونکہ وہ اُن کی خارجی تشکیل کے لیے موزوں ترین ہوں گی اور یہ چیزیں اس مادی دنیا کی چیزوں سے کسی طرح کم ٹھوس یا کم اصلی نہیں ہوں گی۔ کیونکہ یہ مادی دنیا کی چیزیں بھی ہمارے ذہن سے الگ کوئی وجود نہیں رکھتیں۔ اگلی دنیا میں خارج کی اشیاء ہر لحاظ سے ایسی ہی سچ مچ کی اشیاء ہوں گی جیسی کہ ہم اس دنیا میں دیکھتے ہیں۔
گزشتہ تجربات کی زبان
نیند کی حالت میں جب ہماری خود شعوری عالمِ خواب کی تعمیر کرتی ہے تو اُن واقعات کو ‘جو آئندہ اسے پیش آنے والے ہوتے ہیں‘ حاضر میں متشکل کرتی ہے اور اس غرض کے لیے اپنی گزشتہ زندگی کے واقعات اور تجربات کو علامات کے طور پر کام میں لاتی ہے۔ کیونکہ ان واقعات اور تجربات کے علاوہ وہ کسی اور زبان کو نہیں جانتی جس میں اپنے آئندہ کے تجربات کو ‘جو ابھی اسے درپیش نہیں آئے‘ بیان کر سکے اور یہ زبان ایسی ہے کہ اس میں خاص خاص واقعات اور تجربات خاص خاص معانی اور مطالب رکھتے ہیں اور اس زبان کی یہی وہ خصوصیت ہے جو تاویل رویا یا تعبیر خواب کے علم کو ممکن بناتی ہے۔اسی طرح سے موت کے بعد جب خود شعوری اپنی گزشتہ زندگی کے تجربات میں سے گزرنے کے لیے ان کو متشکل کرتی ہے تو چونکہ وہ اپنی اصلی حالت پر آ چکے ہوتے ہیں اور بدلے ہوئے دکھائی دیتے ہیں‘ لہٰذا اگر وہ رنج کے حامل ہوں تو خود شعوری ان کی خارجی تشکیل ایسے واقعات اورتجربات سے کرتی ہے جو حیاتِ دنیا میں اُس کے لیے رنج و اندوہ سے متعلق رہے ہوں۔ اور اگر وہ راحت کے حامل ہوں تو خود شعوری ان کی خارجی تشکیل ایسے واقعات اور تجربات سے کرتی ہے‘ جو حیاتِ دنیا میں اس کے نزدیک راحت اور مسرت سے متعلق رہے ہوں اور اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ اپنی گزشتہ زندگی کے واقعات اور تجربات کے علاوہ کسی اور ایسے مواد یا سامان (Material) کو نہیں جانتی جس کے ذریعہ سے وہ ان کی خارجی تشکیل کر سکے۔
حقیقت کی عین مطابقت
یہی سبب ہے کہ قرآن نے جنت کی نعمتوں اور دوزخ کی سزاؤں کی تشریح کرتے ہوئے ان چیزوں کا ذکر کیا ہے جن سے ہم آشنا ہیں اور قرآن کا یہ ذکر استعارات اور تشبیہات کے طور پر نہیں بلکہ اس لیے ہے کہ جنت اور دوزخ میں فی الواقع یہی چیزیں قرآن کی تشریح کے عین مطابق موجود ہوں گی۔ فرق صرف یہ ہو گا کہ دوزخ کی چیزیں اس دنیا کی ویسی ہی چیزوں سے زیادہ مہیب اور خوفناک ہوں گی اور جنت کی چیزیں اس دنیا کی ویسی ہی چیزوں سے زیادہ مسرت انگیز اور راحت افروز ہوں گی اور یہی سبب ہے کہ قرآن کا ارشاد ہے کہ اہل جنت کو وہ نعمتیں دی جائیں گی جو دنیا کی نعمتوں سے ملتی جلتی ہوں گی۔ اس فرمان میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اہل دوزخ کو سزائیں بھی ایسی دی جائیں گی جو اس دنیا کی مصیبتوں سے مشابہ ہوں گی۔
ادھوری مثال
تاہم خواب کی دنیا یا اس کی تشکیل ہماری آئندہ کی زندگی کے ساتھ پوری پوری مطابقت نہیں رکھتی اور اس کی حیثیت اس سے زیادہ نہیں کہ وہ آئندہ کی زندگی کی کیفیت کو سمجھنے کے لیے ایک مثال کا کام دے سکے۔
دوزخ اور جنت کی معماری
چونکہ اگلی دنیا میں ہر فرد کی ذہنی کیفیتیں مختلف ہوں گی۔ لہٰذا ان کیفیتوں کے بالمقابل ہر فرد کے لیے خارج کی اشیاء بھی اپنی مقدار اور نوعیت کے لحاظ سے مختلف ہوں گی۔ ہر خود شعوری ایک الگ دنیا میں ہوگی جسے وہ اپنی ذہنی کیفیتوں سے خود تعمیر کرے گی۔ ہر خود شعوری ایک مختلف دوزخ یا مختلف جنت میں داخل ہو گی جو اس دنیا کی زندگی میں وہ اپنے لیے تیار کرتی رہی تھی۔ ہر خود شعوری کے دوزخ کا درجۂ حرارت مختلف ہو گا اور ہر خود شعوری کے غلمانوں اور حوروں کے حسن و جمال اور محبت اور الفت کی کیفیت الگ ہو گی اور یہ کیفیت خود شعوری کے مقامِ محبت پر موقوف ہو گی اور اس کی محبت کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ بدلتی جائے گی۔ ہم اپنی ذہنی کیفیتوں کے مطابق نہ صرف دوزخ کی آگ اور جنت کے غلمان اور حوریں خارج میں پائیں گے بلکہ وہ تمام قسم کی اچھی اور بری چیزیں بھی اپنے سامنے دیکھیں گے جو ہماری ذہنی کیفیتوں کی موزوں ترجمانی کر سکیں گی یا اُن کی مناسب علامتوں کی صورت اختیار کر سکیں گی۔
دوزخ اور جنت کا ارتقاء
چونکہ دوزخ اور جنت صرف خود شعوری کی ذہنی کیفیتوں سے پیدا ہوں گے لہٰذا جوں جوں خود شعوری کی محبت کا ارتقاء ہوتا جائے گا اور اس کی ذہنی کیفیتیں اپنے تکلیف دہ عناصر کو کھوتی جائیں گی‘ اس کے لیے دوزخ کا عذاب کم ہوتا جائے گا اور جنت کی مسرتیں بڑھتی جائیں گی۔
فوٹوگراف کی پلیٹ کی مثال
آئندہ کی زندگی میں ہماری ذہنی کیفیتیں جن سے ہمارا دوزخ یا ہماری جنت تیار ہو گی‘ ہماری اس زندگی کی ذہنی کیفیتوں کی صحیح اور اصلی اشکال ہوں گی۔ اس دنیا کی زندگی میں ہماری ہر ذہنی کیفیت فوٹو گراف کی ’’منفی‘‘ پلیٹ کی طرح ہوتی ہے جس میں اصلی تصویر کے رنگ الٹ جاتے ہیں اور سیاہی کی جگہ سفیدی اور سفیدی کی جگہ سیاہی دکھائی دیتی ہے لیکن جب ایک ذہنی کیفیت اگلی دنیا میں پہنچ جاتی ہے تو پھر اس کی صورت فوٹو گراف کی ’’مثبت‘‘ یا ’’تربیت یافتہ‘‘(Developed)پلیٹ کی طرح ہوتی ہے جس میں تصویر کا ہرحصہ اپنے اصلی رنگ پر آ جاتا ہے۔ہم گویا اس وقت ایک خواب میں ہیں اور اگلی دنیا میں اس خواب سے بیدار ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت میں مومن کو جو لذت راحت یا مسرت نصیب ہوتی ہے اس کے سوائے ہماری زندگی کا کوئی ذہنی احساس یا تجربہ صحیح‘ اصلی اور دائمی نہیں۔یہ مسرت جنت کی نعمت ہے اور جس شخص کو اس دنیا میں نصیب ہو جائے اور وہ خوش قسمتی سے اسے مرتے دم تک قائم رکھ سکے وہ دوزخ کی آگ کو چھونے کے بغیر جنت میں جاتا ہے۔
سنیما کی رِیل کی مثال
زندگی میں ہماری تمام توجہ آئندہ کی شعوری سرگرمیوں کی طرف رہتی ہے لہٰذا ہم اپنے گزشتہ اعمال کو جو ہمارے لاشعوری نامۂ اعمال میں جوں کے توںدرج ہو جاتے ہیں ‘ بھول جاتے ہیں یا ان کو فقط اس حد تک یاد رکھتے ہیں جس حد تک کہ ان کے تجربات ہماری فوری شعوری سرگرمیوں کے لیے راہ نمائی کا کام دیتے ہوں اور جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے‘ ہماری فراموشی بڑھتی جاتی ہے لیکن موت کے بعد چونکہ ہماری شعوری سرگرمیاں ختم ہو جاتی ہیں‘ لہٰذا ہماری خود شعوری کے تمام گزشتہ افعال ‘جولاشعور میں لپٹے ہوئے محفوظ ہوتے ہیں ‘ذہنی کیفیتوں کے ایک سلسلہ کے طور پر اُس کے سامنے اس طرح سے کھل جاتے ہیں ‘جیسے کہ سنیما کی لپٹی ہوئی رِیل کھل جاتی ہے:
{وَنُخْرِجُ لَـہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ کِتَابًا یَلْقٰـہُ مَنْشُوْرًا(۱۳)}(بنی اسراء یل)
’’اور قیامت کے دن ہم ایک ایسی تحریر اس کے سامنے لائیں گے جسے وہ اپنے سامنے بالکل کھلا ہواپائے گا‘‘۔
اور خود شعوری مجبور ہوتی ہے کہ نہ صرف اس رِیل کے ہر فوٹوگراف میں پھر اپنے آپ کا مشاہدہ کر لے بلکہ ہر فوٹو گراف اس کے جس ڈراماکو محفوظ کرتا ہے اسے پھرکھیلے۔ یعنی اپنے ہر عمل کو پھر دہرائے اور ایک ایک کر کے ہر ذہنی کیفیت میں سے پھر گزرے۔
اصلی حالت
لیکن اس دفعہ یہ ذہنی کیفیتیں اپنی اصلی حالت پر ہوتی ہیں اور وہ فرضی تسلیاں یا ناگزیر پریشانیاں ‘جو دنیا میں ان کے ساتھ وابستہ ہوتی تھیں ‘اب ان کے ساتھ موجود نہیں ہوتیں۔
اگر وہ مسرت کی حامل ہوں تو ان کی مسرت ان تمام غموں سے ‘جو حیاتِ دنیا میں خودشعوری کی کشمکش اور جدوجہد سے پیدا ہو کر اسے بگاڑ رہے ہوتے تھے ‘مبرا ہوتی ہے اور اگر وہ غم کی حامل ہوں تو اُن کا غم اُن تمام جھوٹی مسرتوں سے ‘جو خود شعوری کی غلط بینیوں اور غلط فہمیوں سے پیدا ہو کر اُس کی اصلیت کو چھپا رہی ہوتی تھیں‘ عاری ہوتا ہے۔خود شعوری اپنی ان گزشتہ ذہنی کیفیتوں میں سے کیوں گزرتی ہے۔ اس لیے نہیں کہ انصاف کرنے والی کوئی ایسی عدالت ‘جو خود شعوری سے غیر ہے ‘اسے اس کے اعمال کی جزا یا سزا دینا چاہتی ہے بلکہ اس لیے کہ خود شعوری کو ارتقاء کرنا ہوتا ہے اور اپنی منزلِ مقصود کی طرف آگے بڑھنا ہوتا ہے اور یہ منزل مقصود حسنِ حقیقی کی محبت کا وہ کمال ہے جسے اس کی فطرت ہر حالت میں پانا چاہتی ہے۔
موت کے بعد ارتقاء کی شرط
لیکن خود شعوری اپنی منزل مقصود کی طرف آگے نہیں بڑھ سکتی جب تک کہ وہ ان کمزوریوں اور کوتاہیوں سے ‘جو دنیا کی زندگی میں اپنی غلطیوں کی وجہ سے اس میں پیدا ہو گئی تھیں‘ نجات نہ پائے۔ہم دیکھ چکے ہیں کہ اس دنیا میں خود شعوری کا ہرعمل یا اسے محبوب کے قریب لاتا ہے یا اُس سے دور ہٹاتا ہے۔ لہٰذاخود شعوری کا پاؤں جس جس مقام سے اس دنیا میں پھسلا تھا‘ جب تک پھر وہیں نہ آجائے وہ اپنا پاؤں آگے نہیں رکھ سکتی۔ لہٰذا خود شعوری اپنی ہر لغزش کے دوزخ میں سے گزرتی ہے اور ہر غلطی کی تلخیاں سہہ کر اُس سے نجات حاصل کرتی ہے۔
دنیاوی زندگی سے مثال
اس دنیا میں بھی جب ہم کسی غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں اور اُس سے نقصان اٹھا کر پشیمان ہوتے ہیں اور آئندہ کے لیے اس سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو ہم اپنے فعل کے ایک ایک جزو کو اپنے ذہن میں پھر دہراتے اور خوب غور کرتے ہیں کہ ہم کیا کرنا چاہتے تھے اور ہم نے کیا کر دیا۔ کس طرح سے کیا اور کیوں کیا اور آئندہ اس قسم کی صورت حال میں غلطیوں کے تکرار سے بچنے کی صورت کیا ہے۔ تاہم ہماری اس دنیا کی پشیمانیاں اور پریشانیاں اگلی دنیا کی پشیمانیوں اور پریشانیوں کے مقابل میں پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتیں۔
اعمالِ صالح کی مدد
غلطیوں کی وجہ سے اپنے کھوئے ہوئے مقامات کو حاصل کرنے کی اس جدوجہد میں خود شعوری کو اپنے اچھے اعمال جو اسے محبوب کے قریب لانے کا موجب ہوئے تھے‘ آسانیاں بہم پہنچاتے ہیں۔وہ اس کی لغزشوں کی تلافی کی کوشش میں اس کی مدد کرتے ہیں لہٰذا موت کے بعد اپنے دوزخ یا اپنی جنت کے جس مقام سے خود شعوری فی الواقع اپنے ارتقاء کا آغاز کرتی ہے وہ بالآخر اس بات پر موقوف ہوتا ہے کہ دنیا کی زندگی میں خود شعوری اپنے محبوب کی طرف جس قدر آگے بڑھی تھی اور جس قدر پیچھے ہٹی تھی ان دونوں فاصلوں کا فرق کیا ہے۔ یہی خود شعوری کا حساب ہے۔ اس حساب کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض افراد اپنے ارتقاء کا آغاز دوزخ سے کرتے ہیں اور بعض جنت سے بعض بدقسمت ہوتے ہیں اور بعض خوش قسمت اور دونوں حالتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
اعمال کے اثرات
حیات بعد الممات کی اس تشریح میں یہ بات زیر غور نہیں آئی کہ گو ہر فرد انسانی اپنی اس دنیا کی زندگی کو ختم کر دیتا ہے ۔ لیکن اس کے اعمال کے نتائج دوسرے انسانوں کے اعمال کو قیامت تک متأثر کرتے رہتے ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہ ایک جھیل کے پرسکون پانی میں ایک پتھر پھینک دیا جائے تو اس سے جو لہریں پیدا ہوتی ہیں وہ پتھر کے تہہ تک پہنچ جانے کے بعد بھی جھیل کی سطح پر برابر چلتی رہتی ہیں اور خواہ جھیل میلوں میں پھیلی ہوئی ہو صرف جھیل کے کناروں پر ہی جا کر ختم ہوتی ہیں۔ ہر فرد انسانی اپنا ایک الگ وجود رکھتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ ایک بڑے وجود کا جزولاینفک ہے اور وہ وجود ساری نوعِ بشر ہے۔ ہر فرد کا عمل ایک ایسی قوت ہے جو اس کے اپنے سمیت ساری نوعِ بشر کو بدلتی ہے لہٰذا فرد کی موت کے بعد اس کے اعمال ختم نہیں ہوتے‘ بلکہ جاری رہتے ہیں اور نوعِ بشر کے ارتقاء پر اچھا یا برا اثر پیدا کرتے رہتے ہیں۔ اور ان کا بعد کا دفتر دسرے افراد کے لاشعور میں ضبط ہوتا رہتا ہے۔ اچھا عمل وہ ہے جو فرد کی اپنی خود شعوری اور تمام نوعِ بشر کی خود شعوری کے ارتقاء میں مدد کرتا ہے اور برا عمل وہ ہے جو اس ارتقاء پر برا اثر ڈالتا ہے ۔ لہٰذا ضروری ہے کہ فرد کے اعمال کے بعد الموت اثرات بھی اس کے دوزخ اور اس کی جنت کی تعمیر میں حصہ لیں۔ لیکن ساری نوعِ بشر کے ارتقاء کی مؤید یا مخالف قوت کے طور پر سے کسی فردِ انسانی کے اعمال کی حیثیت کا جائزہ صرف اس وقت لیا جا سکتا ہے۔
حیثیت اعمال کا آخری جائزہ
جب ان اعمال کے اثرات اور نتائج ختم ہو جائیں یعنی جب یہ مادی دنیا فنا ہو جائے۔ لہٰذا جب یہ دنیا ختم ہو گی تو اس وقت ہر فرد کے اعمال کا ایک اور حساب منعقد کیا جائے گا اور اس حساب کا نتیجہ جنت اور دوزخ میں ہر فرد انسانی کے مقام کو آخری طور پر معین کرے گا۔
نوع کے اعمال کا حساب
ساری کائنات ایک فرد واحد سے مشابہت رکھتی ہے جس طرح سے ایک فرد انسانی کی موت کے بعد اس کی خود شعوری کا حساب ہوتا ہے جس میں اُس کی ساری زندگی کے اعمال کو زیر غور لایا جاتا ہے اُسی طرح کائنات کی موت یا قیامت کے بعد کائنات یعنی نوعِ بشر کی خود شعوری کا حساب ہو گا جس میں اُس کی ساری زندگی کے اعمال کو یعنی ماضی اور مستقبل کے تمام افراد انسانی کے اعمال کو زیرغور لایا جائے گا۔
خود شعوریٔ عالم بنیادی طور پر نوعِ بشر کے مجموعی ارتقاء سے دلچسپی رکھتی ہے۔ افراد کے ارتقاء کے ساتھ اس کی دلچسپی اس لیے ہے کہ وہ ایک بڑی وحدت کے اجزاء ہیں جو نوعِ بشر ہے کہ وہ ایک دوسر ے کے ارتقاء میں مدد کرتے ہیں اور ان کے ارتقاء سے اس بڑی وحدت کا ارتقاء ہوتا ہے۔
فرد اور نوع کی مماثلت
نوعِ بشر کا ارتقاء ایک فرد انسانی کی نشوونما سے مشابہت رکھتا ہے نوع بشر نسل بہ نسل اسی طرح سے ارتقاء کرتی ہے جس طرح ایک فرد انسانی سال بہ سال نشوونما پاتا ہے ۔ نوعِ انسانی کی ہر نسل کے لاتعداد افراد ایک فرد انسانی کے جسم کے لاتعداد خلیات سے مشابہت رکھتے ہیں۔ ایک زندہ جسم انسانی کی خلیات پیدا ہوتی ہیں‘ زندہ رہتی ہیں‘ نشوونما پاتی ہیں‘ کام کرتی ہیں‘ اپنی نسل پیدا کرتی ہیں اور ان کی وجہ سے جسم قائم رہتا اور تربیت پاتا ہے۔ یہ خلیات کمزور ہو کر مرتی رہتی ہیں اور دوسری زیادہ صحت مند اور زیادہ طاقتور خلیات پیدا ہو کر ان کی جگہ لیتی رہتی ہیں۔ اور اپنی باری سے وہی فرائض انجام دیتی ہیں جو اُن کی پیشرو خلیات انجام دیتی تھیں اور اس طرح سے سال بہ سال جسم کی نشوونما جاری رہتی ہے۔ یہی حال اس جسدِ واحد کا ہے جسے ہم نوعِ بشر کہتے ہیں‘ نوعِ بشر کی ہر نسل میں لاتعداد افراد پیدا ہوتے ہیں‘ زندہ رہتے ہیں‘ نشوونما پاتے ہیں‘ کام کرتے ہیں اور اپنی نسل پیدا کرتے ہیں اور ان کی وجہ سے نوعِ بشر قائم رہتی اور تربیت پاتی ہے۔ افراد کمزور ہو کر مر جاتے ہیں اور دوسرے زیادہ صحت مند اور زیادہ طاقتور افراد ان کی جگہ لے لیتے ہیں۔ اور اپنی باری سے وہی فرائض انجام دیتے ہیں جو ان کے پیشرو افراد انجام دیتے تھے اور اس طرح نسل بہ نسل نوعِ بشر کی ترقی جاری رہتی ہے۔
فرد کے مراحلِ زندگی
ایک فرد انسانی کی زندگی کے مراحل یہ ہیں ۔پیدائش‘ بچپن‘ جوانی‘ ادھیڑ پن‘ بڑھاپا‘ موت اور موت کے بعد کی زندگی۔ فرد کا مادی جسم پیدا ہوتا ہے‘ نشوونما پاتا ہے‘ مضمحل ہوتا ہے اور مر جاتا ہے لیکن اس کی خود شعوری متواتر ارتقاء کرتی رہتی ہے اور اس کے ارتقاء کا عمل مادی جسم کی فنا کے بعد بھی جاری رہتا ہے جسم کی فنا کے بعد خود شعوری کی کل ترقی کا حساب ہوتا ہے۔ اس کے بعد خود شعوری کی ترقی جاری رہتی ہے جس سے اس کا دوزخ رفتہ رفتہ جنت کی صورت اختیار کرتا ہے اور اس کی جنت کامل سے کامل تر ہوتی جاتی ہے۔
کائنات کے مراحلِ زندگی
کائنات کی زندگی کے مراحل کو بھی ہم بجا طور پر ان ہی ناموں سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ کائنات کی زندگی میں بھی ایک پیدائش ہے‘ ایک بچپن‘ ایک جوانی‘ ایک ادھیڑ پن‘ ایک بڑھاپا‘ ایک موت اور پھر موت کے بعد کی زندگی۔ کائنات کا مادی جسم پیدا ہوتا ہے ‘ نشوونما پاتا ہے‘ مضمحل ہوتا ہے اور مر جاتا ہے لیکن کائنات یعنی نوعِ بشر کی خود شعوری پیہم ارتقاء کرتی رہتی ہے اور اس کے ارتقاء کا عمل کائنات کے مادی جسم کی فنا کے بعد بھی جاری رہتا ہے ۔ چونکہ مادی کائنات کی فنا کے بعد ہر فرد کے اعمال آخری طور پر ختم ہو جائیں گے۔ لہٰذا نوع کی خود شعوری کی کل ترقی کا حساب ہو گا جس کی وجہ سے نوعِ بشر کے مجموعی ارتقاء میں ہر فرد انسانی کا کل حصہ فی الفور دوزخ یا جنت میں اس کے مقام پر اثر انداز ہو گا۔ اس آخری حساب کے بعد نوعِ بشر کی ترقی بدستور جاری رہے گی جس سے اس کا دوزخ رفتہ رفتہ جنت کی صورت اختیار کرے گا اور اس کی جنت کامل سے کامل تر ہوتی جائے گی۔ یہاں تک کہ خالق کائنات اپنے نصب العین کو پوری طرح سے حاصل کر لے گا اور پھر ایک اور کائنات کی تخلیق کی طرف توجہ کرے گا۔
جنت خلد
اس دنیا میں ہم خالق کائنات کی خود شعوری میں تصورات کے طور پر زندہ ہیں اور ارتقاء کر رہے ہیں اور اگلی دنیا میں بھی ہماری حیثیت یہی ہو گی۔ جب ہم اپنے ارتقاء کے کمال پر پہنچیں گے تو ہم خالق کے ایک ایسے آدرش کی حیثیت سے ‘جو حاصل ہو چکا ہو ‘ ہمیشہ زندہ رہیں گے اور یہ کامیابی ہمارے لیے اور ہمارے خالق کے لیے ایک انتہا درجہ کی ابدی مسرت کا باعث ہو گی۔وہ ہم سے رضامند ہو گا اور ہم اس سے رضامند ہوں گے اور یہ وہ جنت ہو گی جسے کبھی زوال نہ آئے گا۔
کائنات کا آغاز و انجام
کائنات کی موت یا قیامت کے سلسلہ میں یہاں اس بات کا ذکر کرنا بے محل نہ ہو گا کہ طبعیات کے ایک قانون کی رو سے جسے کارناٹ(Carnot)کا اصول یا حرارتی حرکیات(Thermodynamics)کا دوسرا قانون کہا جاتا ہے اب یہ مانا گیا ہے کہ کائنات ایک آغاز اور ایک انجام رکھتی ہے یعنی ماضی میں ایک خاص وقت پر ظہور میںآئی تھی اور مستقبل میں ایک خاص وقت پر ختم ہو جائے گی۔