قرآن اور علمِ جدید (یونی کوڈ فارمیٹ)

پیش لفظ

دورِ حاضر میں مسلمانوں کے سیاسی اور تہذیبی زوال کے اسباب معلوم کرنے کے لیے جن مفکرین نے کوشش کی اُن میں سے ایک طبقہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اسلامی دنیا کی زوال پذیری کی بنیادی وجہ مسلمانوں کا علمی انحطاط ہے۔ اس مکتب ِفکر کے مطابق موجودہ دور میں سیاسی اور تہذیبی غلبے کے لیے علمی قیادت ایک ناگزیر شرط ہے۔ برکوچک پاکستان و بھارت میں سرسیّد کی علی گڑھ کی تحریک اس احساس کی پیداوار تھی۔ لیکن مغربی علوم کی بالادستی کی وجہ سے یہ تحریک مسلمانوں کو علمی قیادت کا مقام دلانے کی بجائے احساسِ کمتری پیدا کرنے کا ذریعہ بن کر رہ گئی۔ اکبر الٰہ آبادی نے اس تحریک کے منفی اثرات کے خلاف اپنی مخصوص طنزیہ شاعری سے ایک  پُرزور آواز اٹھائی۔ جس سے مسلمانوں میں دورِ حاضر کے فتنہ ہائے علم و فن کا احساس تو پیدا ہوا۔ لیکن ان سے بچنے کی کوئی راہِ عمل پیدا نہ ہو سکی۔ علّامہ اقبال چونکہ دینی علوم اور علومِ جدیدہ میں یکساں دسترس رکھتے تھے۔ اس لیے وہ ’’دامِ افرنگ‘‘ سے بچتے ہوئی حکمت افرنگ کا دانہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے جو درحقیقت مسلمانوں ہی کی گمشدہ میراث تھی۔ انہوں نے ’’حرم میں بغاوتِ خرد‘‘ کو فرو کرنے کے لیے ایک مثبت راہِ عمل کی نشاندہی کی اور قوم نے انہیں حکیم الامت کا خطاب دیا۔ یہ علّامہ اقبال ہی تھے جنہوں نے سائنسی اور مذہبی افکار میں اپنی کامیاب تالیفی کوششوں سے حکمتِ افرنگ کی آگ کو گلزارِ ابراہیم بنا لیا۔

 

طلسم عصر حاضر را شکستم ربودم دانہ و دامش گسستم
خدا داند کہ مانند براہیم بہ زار اوچہ بے پروا نشستم

 

علامہ اقبال کو پختہ یقین تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سائنس اور مذہب کے مابین ایسی ہم آہنگیوں کا انکشاف ہوتا جائے گا۔ جس سے اسلام کی حقانیت دنیا پر منکشف ہوتی جائے گی۔ یعنی جوں جوں علم میں ہمارا قدم آگے بڑھے گا زیادہ سے زیادہ بہتر نظریات سامنے آتے جائیں گے جو قرآنی حقائق کی تائید و تصدیق کریں گے۔

 

علامہ اقبال کی اس فکری روایت کو‘ جس کا ورثہ انہوں نے اپنی شہرئہ آفاق کتاب ’’خطبات‘‘ کی شکل میں چھوڑا‘ اگر کسی دوسرے مسلمان مفکر نے آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے تو وہ ڈاکٹر محمد رفیع الدین مرحوم ہیں۔ عبدالماجد دریاآبادی نے ایک بار اپنے رسالہ ’’صدقِ جدید‘‘ میں لکھا تھا کہ برکوچک پاکستان و بھارت میں علامہ اقبال کے بعد اگر کوئی دوسرا شخص مسلمان فلسفی کہلانے کا مستحق ہے تو وہ صرف ڈاکٹر محمد رفیع الدین مرحوم ہی ہیں۔ خود ڈاکٹر محمد رفیع الدین مرحوم راقم سے فرمایا کرتے تھے کہ اب تو آپ علامہ اقبال کو روتے ہیں۔ لیکن میرے بعدشاید آپ کو دوسرا رفیع الدین بھی میسر نہ آ سکے۔ اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل آپ نے اپنی تصنیفات کے بارے میں فکر مندی کا اظہار کرتے ہوئے راقم کو وصیت کی تھی کہ ان کے بعد ان کی تصنیفات کو زندہ رکھا جائے۔

 

’’قرآن اور علمِ جدید‘‘ ڈاکٹر صاحب مرحوم کی ایک معرکۃ الآراء تصنیف ہے جو درحقیقت علامہ اقبال کی کتاب ’’خطبات‘‘ ہی کے سلسلے کی ایک دوسری کامیاب کاوش ہے۔ اس کتاب کے پہلے تین ایڈیشن ادارہ ثقافتِ اسلامیہ لاہور نے شائع کیے۔ تیسرا ایڈیشن ۱۹۵۹ء میں شائع ہوا اور کافی عرصے سے یہ کتاب مارکیٹ میں دستیاب نہیں تھی۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم نے اپنی تصنیفات کے علاوہ ایک ادارہ آل پاکستان اسلامک ایجوکیشن کانگرس بھی اپنے ورثے میں چھوڑا تھا جس کی طرف سے اس کتاب کو شائع کرنے کے لیے ادارہ ثقافتِ اسلامیہ لاہور سے کتاب مذکورہ کے حقوق اشاعت منتقل کرنے کی درخواست کی گئی۔ جناب پروفیسر سعید شیخ ڈائریکٹر ادارہ ثقافت اسلامیہ کے ہم بے حد شکر گزار ہیں کہ انہوں نے بکمال مہربانی ہماری اس درخواست کو منظور فرمایا اور کتاب کی اشاعت کے حقوق ادارہ ہٰذا کو منتقل کر دیے۔

 

حقوقِ اشاعت کی منتقلی کے بعد بھی کتاب کی اشاعت کا معاملہ جن وجوہ کی بنا پر معرضِ التواء میں پڑا رہا۔ وہ ایک دلخراش داستان ہے۔ ہماری یہ خواہش تھی کہ کتاب کی کتابت وطباعت نہایت اعلیٰ معیار کی ہو۔ چنانچہ کتابت کے لیے عبدالمجید پروین رقم کے ایک خوش رقم شاگرد سے معاملہ طے کیاگیا۔ لیکن پورے چار سال تک کاتب موصوف نے اس کتاب کا مسودہ اپنے پاس رکھنے کے باوجود اس کام کو ہاتھ نہ لگایا اور ہمیشہ وعدوں پر ٹالتے رہے اور آخر میں کتابت شدہ مواد کے ساٹھ صفحات ہمارے حوالے کر کے کاروباری معاہدہ سے منحرف ہو گئے۔ چنانچہ ان سے مسودہ واپس لینے کے بعد یہ کام ایک اور کاتب کے سپرد کیا گیا مگر اس دوران پہلا کتابت شدہ مواد بھی گم ہو گیا۔ جس کی از سرِ نو کتابت کروانی پڑی۔

 

آخر کار کتابت و طباعت کا سارا کام جناب حبیب اللہ قریشی صاحب فنانشل ڈائریکٹر آل پاکستان اسلامک ایجوکیشن کانگرس نے براہِ راست اپنی نگرانی میں لیا اور خدا خدا کر کے بہ دقت تمام یہ کام پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ ہم جناب حبیب اللہ قریشی کے بے حد شکر گزار ہیں کہ انہوں نے اس کام کو دلی لگن اور بڑی محنت سے نمٹایا اور ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم و مغفور سے اپنی دیرینہ رفاقت‘ قلبی تعلق اور دوستی کا حق ادا کر دیا۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے۔

 

ہمارے لیے یہ بات موجب اطمینان ہے کہ اس کتاب کے طباعتی ’’احیاء‘‘ سے ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم کی روح آسودہ ہو گی اور ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ڈاکٹرصاحب مرحوم کی وصیت پوری کرنے کے سلسلے میں ایک ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو گئے۔

 

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری اس کوشش کو قبول فرمائے۔

 

مظفر حسین

اکیڈمک اینڈ ایڈمنسٹریٹو ڈائریکٹر

آل پاکستان اسلامک ایجوکیشن کانگرس ‘لاہور

قرآن اور علمِ جدید (یونی کوڈ فارمیٹ)