قرآن اور علمِ جدید (یونی کوڈ فارمیٹ)
کارل مارکس نظریۂ سوشلزم
مارکس کے نظریہ میں جو حقائق روحِ قرآنی کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں وہ حسب ذیل ہیں:
انسان کے ارتقاء کی نوعیت
اوّل : انسان کے وجود میں آنے کے بعد بھی ارتقاء جاری ہے اور انسانی سماج ایک خاص منزلِ مقصود کی طرف ترقی کر رہا ہے۔
نوٹ : کارل مارکس کے نزدیک انسانی مرحلہ میں ارتقاء کی منزل مقصود سوشلزم کی عالمگیر کامیابی اور توسیع ہے لیکن قرآن کے نقطۂ نظر سے انسانی مرحلہ میں ارتقاء کی منزلِ مقصود انسانی سماج کی وہ حالت ہے جب تمام نظریات مٹ جائیں گے اور صرف اسلام باقی رہ جائے گا۔ چنانچہ قرآن کا ارشاد ہے:
{ہُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَـہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖلا وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ (۹) } (الصف)
’’اللہ وہ ذات پاک ہے جس نے اپنے رسولؐ ‘کو ہدایت اور دینِ حق دے کر بھیجا تاکہ وہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے اور خواہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوارہو۔‘‘
درحقیقت انسان کے ارتقاء کا تصور کوئی منفرد تصور نہیں بلکہ ارتقاء کے عمومی تصور کا ایک جزو ہے۔ اور ہم دیکھ چکے ہیں کہ اگر ارتقاء کے عمومی تصور کو اغلاط سے پاک کر لیا جائے تو وہ روحِ قرآن کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ جب ہم مانتے ہیں کہ خدا کی تخلیق ایک ارتقائی عمل کی صورت اختیار کرتی ہے اور ارتقاء انسان سے پہلے ہوتا رہا ہے تو انسان کے وجود میں آنے کے بعد بھی اس ارتقاء کا جاری رہناضروری ہے۔ خدا کی ربوبیت کائنات اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کائنات کمال کو نہیں پہنچ جاتی۔ کائنات کا کمال نوعِ بشر کا کمال ہے۔ لہٰذا جب تک انسان اپنے کمال کو نہیں پہنچتا وہ برابر ایک حالت سے دوسری بلند تر حالت میں قدم رکھتے ہوئے آگے بڑھتا رہے گا۔ عالمِ انسانی میں تازہ بتازہ واقعات اور دم بدم کی تبدیلیوں کا رونما ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان کی تخلیق اور تربیت ابھی جاری ہے اور جب تک کائنات مکمل نہیں ہوتی‘ جاری رہے گی۔
اسلام کادوسرا عہد عروج
ہم میں سے بعض کا خیال ہے کہ رسول اللہﷺ اور صحابہؓ کے زمانہ میں مسلمانوں کو جو دینی اور دنیاوی شان وشوکت حاصل ہوئی تھی وہ پھر کبھی عود نہیں کر سکتی۔ اور اس کے ثبوت میں حضورﷺ کا یہ فرمان پیش کیا جاتا ہے:
خَیْرُ الْقُرُوْنِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ
’’میرازمانہ بہترین ہے پھر ان کا زمانہ جو ان کے بعد آئیں گے اور پھر اُن کا جو ان کے بعد آئیں گے۔‘‘
لیکن اس حدیث کا ٹھیک ٹھیک مطلب سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم حضورﷺ کی وہ حدیثیں بھی نگاہ میں رکھیں جن میں آپؐ نے اسلام کی شان وشوکت کے دو زمانوں کا صاف طور پر ذکر فرمایا ہے۔ ایک زمانہ اسلام کی ابتداء میں آنے والا تھا اور وہ گزر چکا ہے اور ایک زمانہ آخر میں آنے والا ہے اور ہم اس کے منتظر ہیں اور حضورﷺ نے ایک حدیث میں فرمایا ہے کہ اسلام کا عہدِ عروج جو آخر میں آنے والا ہے اسلام کے پہلے عروج سے بھی زیادہ شاندار ہو گا۔
ایک بشارت
چنانچہ حضورﷺ نے نہایت زور دار الفاظ میں اس عہد کی بشارت دی ہے اور ہمیں اس پر خوش ہونے کا حکم دیا ہے ۔ حدیث کے الفاظ حسب ذیل ہیں:
ابشروا ابشروا ان مثل امتی کمثل الغیث لا یدری اولہ ‘ خیر ام اخرہ او کحدیقۃ اطعم منھا فوج عاما ثم اطعم منھا فوج عاما۔ لعل اخرھا فوجا احسنھا حنا۔ واعرضھا عرضا واعمقھا عمقا
’’خوش ہو جاؤ خوش ہو جاؤ میری اُمت کی مثال ایک بارش کی طرح ہے کہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کی ابتداء زیادہ اچھی ہے یا انتہا۔ یا ایک باغ کی طرح ہے جس سے ایک فوج ایک سال خوراک حاصل کرتی رہے اور پھر دوسری فوج دوسرے سال خوراک حاصل کرتی رہے۔ ممکن ہے کہ جو آخر میں آنے والی فوج ہے وہ زیادہ شان و شوکت رکھتی ہو اور زیادہ طاقتور اور زیادہ تعداد والی ہو‘‘۔
حدیث کا مطلب
اب اگر اس حدیث کے مضمون کو ذہن میں رکھ کر ہم پہلی حدیث کا مطلب سمجھنے کی کوشش کریں تو یہ بالکل عیاں ہو جاتا ہے کہ پہلی حدیث اسلام کے عروج اوّل کے متعلق ہے‘ جس کے بعد انحطاط کا ایک دور اس طرح سے آئے گا کہ جوں جوں لوگ حضورﷺ کے زمانہ سے دور ہوتے جائیں گے اسلام سے بھی دور ہوتے جائیں گے۔ لیکن جب اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا زمانہ آئے گا تو مسلمان پھر انحطاط سے عروج کی طرف مائل ہوں گے ۔ کائنات کی ارتقائی قوتوں کے عمل سے اسلام کی ترقی کے اس زمانہ کا ورود لازمی ہے اور کسی کے روکے سے نہیں رک سکتا۔
قرآن کی پیشگوئیاں
قرآن کی بعض اور آیات میں بھی اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کا ذکر موجود ہے۔ مثلاً:
{وَّاٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِہِمْط وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (۳)} (الجمعۃ)
’’اور تم میں سے بعض اور بھی ہیں جو ابھی تک تم سے نہیں ملے اور اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔‘‘
{سَنُرِیْھِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْ اَنْفُسِھِمْ حَتّٰی یَتَـبَیَّن لَھُمْ اَنَّـہُ الْحَقُّ}
(حٰـم السجدۃ:۵۳)
’’عنقریب ہم ان کو کائنات میں اور اُن کے اپنے شعور میں ایسی نشانیاں دکھائیں گے جن سے انہیں معلوم ہو جائے گا کہ قرآن سچ ہے۔‘‘
اس آیت میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کر دیا گیا ہے کہ اسلام کا دوسرا عہد عروج جس میں کفار قرآن کی صداقت پر ایمان لے آئیں گے علم کی ترقیوں سے ممکن ہو گا۔ اس آیت کی مفصل تشریح کتاب کے پہلے حصہ میں کی گئی ہے۔ پھر یہ ارشاد ہے:
{لَتَرْکَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ (۱۹) فَمَا لَہُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ (۲۰)} (الانشقاق)
’’یقینا تم ایک مقام سے دوسرے مقام تک بلند ہوتے جاؤ گے پھر آج کیوں ایمان نہیں لاتے۔‘‘
یعنی کائنات کے تدریجی ارتقائی عمل سے جو چیز تم کل مجبوراً اور باکراہ قبول کرنے والے ہو یعنی اسلام وہ آج ہماری دعوت پر بخوشی کیوں قبول نہیں کر لیتے۔
قوموں کی امامت
اگر کائنات کے ارتقائی عمل سے اُمت محمدیہؐ دنیا میں پھیل جانے والی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آج بھی وہ اپنے نظریۂ حیات کی وجہ سے اقوامِ عالم کی راہنمائی کی صلاحیت رکھتی ہے۔ قرآن میں مسلمانوں کے اس مقام کا ذکر اس طرح سے کیا گیا ہے:
{کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط} (آل عمران:۱۱۰)
’’اور تم دنیا کی بہترین قوم ہو جو لوگوں کی راہنمائی کے لیے پیدا کیے گئے ہو تم اچھے کاموں کی ہدایت کرتے ہو اور برے کاموں سے روکتے ہو ایسی حالت میں کہ تم خدا پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
حضورخاتم النبیینﷺ کا ظہور تہذیب و تمدن کے عین وسط میں اس لیے ہوا تاکہ آپؐ کے ظہور سے ایک ایسی قوم وجود میں آئے جو تہذیب و تمدن کی ترقی کے لیے مہمیز کا کام دے اور جس کی قیادت میں تہذیب کی ترقی اپنے کمال پر پہنچے۔ گویااُمت محمدیہؐ کا مقام لوگوں کے مقابل میں وہی ہے جو محمدﷺ کا مقام آپؐ کی اُمت کے مقابل میں ہے۔ آپؐ اُمت کی راہنمائی کے لیے اللہ کی طرف سے مامور تھے اور اب اُمت لوگوں کی راہنمائی کے لیے خدا کی طرف سے مامور ہے۔
قرآن نے اس حقیقت کا ذکر اس طرح سے کیا ہے:
{وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰـکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّـتَـکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًاط} (البقرۃ:۱۴۳)
’’اور اسی طرح سے ہم نے تمہیں انسانی تہذیب و تمدن کے عین وسط میں ظہور پانے والی ایک قوم بنایا تاکہ تم لوگوں کے سامنے خدا کی الوہیت کی گواہی دو جس طرح سے تمہارا پیغمبرؐ ‘تمہارے سامنے خدا کی الوہیت کی گواہی دیتا ہے۔‘‘
ارتقاء کی منزل
دنیا میں اُمت محمدیہؐ کا وجود خود انسانی سماج کے ارتقاء کی ایک قوت ہے کیونکہ وہ ایک ایسے نظریہ کی حامل ہے جوانسان کی فطرت کے ساتھ پوری پوری مطابقت رکھتا ہے اور یہ نظریہ اسلام ہے جو خدا کے آدرش کے ارد گرد پیدا ہونے والا ایک مکمل نظام تصورات ہے۔ قومیں نظریات سے بنتی ہیں اور نظریات لاشعوری جذبۂ حسن کی توجیہات ہیں جو شعور‘ لاشعور کے اطمینان کے لیے اس کے سامنے پیش کرتا ہے ۔ جس قدر کوئی نظریہ خدا کے تصور سے ہٹا ہوا ہو گا اسی قدر وہ اوصاف حسن و کمال سے عاری ہو گا اور اسی قدر وہ ناقص اور انسان کے لاشعور کے لیے ناتسلی بخش ہو گا اور اسی قدر ناپائیدار ہو گا۔ اگرچہ لاشعور اور شعور دونوں کچھ عرصہ کے لیے اس کا تتبع کریں گے۔ لیکن بالآخر دونوں اسے ناتسلی بخش پائیں گے اور اسے ترک کرنے اور اس کی جگہ کسی اور نظریہ کو اختیار کرنے پر مجبور ہوں گے۔ اس عمل سے نوعِ انسانی اپنے لاشعوری جذبۂ حسن کے دباؤ کی وجہ سے مجبور ہو رہی ہے کہ بالآخر صحیح تصور حسن تک پہنچ جائے۔
اسلام کی راہنمائی
اور اُمت محمدیہؐ جو توحید کو اپنا نصب العین قرار دیتی ہے محض اپنے وجود ہی سے نوعِ بشر کو اس منزل کی طرف راہنمائی کر رہی ہے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو دنیا کی اہم ترین اور کامیاب ترین اصلاحی اور ترقی پسند تحریکوں میں سے ہر ایک تحریک کسی نہ کسی رنگ میں اسلام کی خوشہ چینی کا نتیجہ تھی اور توحید کے کسی نہ کسی پہلو پر مبنی تھی۔ فرانس کا انقلاب‘ یورپ کی تحریک احیاء(Renaissance)جرمنی کی تحریک اصلاح (Reformation) روس کی سوشلزم اور ہندوستان میں گورونانک اور دیانند کی مذہبی تحریکیں اورگاندھی کی سیاسی تحریک اس کی مثالیں ہیں۔
اقتصادی مساوات
دوم : انسانی معاشرہ کی ترقی یافتہ حالت میں اقتصادی مساوات کا دور دور ہوتاہے۔
نوٹ : کارل مارکس کے نزدیک یہ اقتصادی مساوات بزور شمشیر اور غیر فطرتی مصنوعی طریقوں سے نافذ کی جاتی ہے اور اسلام کے نزدیک یہ مساوات فرد کی روحانی تعلیم و تربیت اور اس کے دل میں دوسرے انسانوں کے لیے ہمدردی اور اخوت کے جذبات کی نشوونما سے خود بخود وجود میں آتی ہے۔