قرآن اور علمِ جدید (یونی کوڈ فارمیٹ)
قرآنی نظریۂ ارتقاء
ارتقائے انواع کا باعث
قرآن کے نزدیک ارتقائے انواع کا باعث اللہ تعالیٰ کا یہ مقصد تھا کہ جسمِ انسانی کی تکمیل کر کے انسان کو خود شعور بنا دیا جائے:
{فَاِذَا سَوَّیْـتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَــہٗ سٰجِدِیْنَ} (الحجر:۲۹)
’’جب میں اسے مکمل کر لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کے سامنے سجدہ میں گر پڑنا۔‘‘
{یٰٓـــاَیُّہَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْمِ (۶) الَّذِیْ خَلَقَکَ فَسَوّٰکَ فَعَدَلَکَ( ۷) فِیْ اَیِّ صُوْرَۃٍ مَّا شَآئَ رَکَّبَکَ (۸)} (الانفطار)
’’اے انسان تجھے مہربان خدا سے کس چیز نے ورغلایا۔ جس نے تجھے پیدا کیا‘ پھر مکمل کیا اور اعتدال پر لایا اور جس صورت میں چاہا تجھے بنایا‘‘۔
لہٰذا یہ مقصد حیوان کے جسم کے اندر کافرما ہوتا ہے۔ یہی مقصد ہے جو حیوان کو زندہ رکھتا ہے اور اسے بلندسے بلندتر حالتوں میں سے گزارتا ہے۔ یہ مفروضہ حیاتیات کے تمام حقائق کی جن میں ارتقائے انواع بھی شامل ہے‘ نہایت ہی تسلی بخش تشریح کرتا ہے۔ اس کی روشنی میں وہ تمام حقائق اچھی طرح سے سمجھ میں آجاتے ہیں جو ڈارون اور اس کے شاگردوں کے نزدیک الجھے ہوئے ہیں اور جن کے نہ سمجھنے کی وجہ سے ڈارون کا نظریۂ ارتقاء غلطیوں اور خامیوں سے بھرا ہوا ہے۔
تجرباتی تائید
اور یہ بات ہمارے لیے باعث اطمینان ہے کہ ایک جرمن ماہر حیاتیات ڈریش(Driesch)نے معمل کے اندر تجربات کر کے اس مفروضہ کو صحیح ثابت کیا ہے اور اسے ایک علمی حقیقت (Scientific Fact)کے درجہ تک پہنچایا ہے۔ اس کے تجربات کا نتیجہ یہ ہے کہ جسم حیوانی کے اندر ایک ایسا مقصد یا مدعا کارفرما ہوتا ہے جواس کی شکل و صورت کو معین کرتا ہے۔
زندگی کی اصل
مدت تک ماہرین حیاتیات یہ سمجھتے رہے ہیں کہ زندگی مادہ کی پیداوار ہے۔ جب مادہ ایک خاص کیمیاوی ترکیب حاصل کر لیتا ہے اور طبعیات کے خاص قوانین کے ماتحت کام کرنے لگتا ہے تو اس میں زندگی کا وصف پیدا ہوجاتا ہے۔ اس نظریہ کے مطابق زندہ حیوان کو ایک مشین کی طرح سمجھا جاتا تھا۔ لیکن یہ نظریہ اب متروک ہو چکا ہے۔ پروفیسر ہالڈین(Haldane)کہتا ہے۔ اب حیاتیات کے سنجیدہ محققین میں سے کوئی نہیں مانتا کہ زندگی مادہ کی کسی خاص کیمیاوی ترکیب کا نام ہے۔
تجربات کے نتائج
ڈریش کے تجربات اس نتیجہ پر مجبور کرتے ہیں کہ ماحول کی خارجی کیفیات سے متأثر ہونے کی وجہ سے جو حرکات ایک زندہ حیوان سے سرزد ہوتی ہیں وہ ایک مشین کی حرکات سے یکسر مختلف ہیں۔ مشین ایک بیرونی طاقت سے حرکت میں لائی جاتی ہے اور خود چند اجزاء کے مجموعہ کے سوائے کچھ نہیں ہوتی۔ حیوان جسم کی ایک خاص شکل و صورت کو حاصل کرنے اور قائم رکھنے کے لیے ایک اندرونی میلان کا اظہار کرتا ہے۔ یہ ایک مجموعہ اشیاء کی طرح نہیں بلکہ ایک ناقابل تقسیم کُل یا وحدت کی طرح عمل کرتا ہے جس کے اندر ایک رجحانِ طبیعت ایسا ہے جو اس کُل یا وحدت کی ضروریات کی خبر رکھتا ہے۔ اگر ہم ایک کیکڑے کی ٹانگ کاٹ دیں تو اس کی جگہ دوسری ٹانگ پیدا ہو جاتی ہے کوئی کل اپنے ٹوٹے ہوئے پرزہ کو خود بخود مہیا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
مشین اور جسم حیوانی کا فرق
ڈریش نے ایک جنین کو اس کی نشوونما کے شروع میں دو حصوں میں کاٹا تو اسے معلوم ہوا کہ اس کا ایک حصہ بھی نشوونما پاکر مکمل حیوان بن جاتا ہے۔ خواہ جنین کو کہیں سے کاٹا جائے اور خواہ اس کا ایک حصہ اس کے کُل کے ساتھ کوئی سی نسبت رکھتا ہو۔ تجربہ کے نتائج میں کوئی فرق نہیں آتا۔ اس کا مطلب صاف طور پر یہ ہے کہ وہ خلیات (Cells)جو ایک مکمل جنین میں نشوونما پا کر سربننے والے ہوں نامکمل جنین میں ٹانگ بن سکتے ہیں۔ اور دراصل جنین کا کوئی حصہ بڑھتے ہوئے حیوان کی ضرورت کے مطابق کسی عضو کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔ ڈریش لکھتا ہے:
’’یہ عجیب کُل ہے جس کا ہر حصہ ایک ہی جیسا ہے‘‘۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک حصہ کُل کی خاصیات کیونکر پیدا کر لیتا ہے جنین کے اعضائی نشوونما میں بھی یہی اصول کام کرتا ہے۔ اگرایک نیوٹ(newt)کی دم کاٹ دی جائے تو اس کی جگہ دوسری دم پیدا ہو جاتی ہے اور اگر دم ابتداء ہی میں کاٹ دی جائے اور ایک تازہ کٹی ہوئی ٹانگ کے بقیہ کے ساتھ جوڑ دی جائے تو دُم ‘دُم کی شکل میں نہیں بلکہ ایک ٹانگ کی شکل میں نشوونما پائے گی۔ کائنات کے مادی اجزاء کا ذکر کر کے ہم اس قسم کے حقائق کی کوئی تشریح نہیں کر سکتے۔ اس لیے ڈریش نے جنین کی نشوونما کی تشریح کرنے کے لیے اس مفروضہ کو بے کار سمجھ کر ترک کر دیا کہ زندگی طبعیات یا کیمیا کے خاص خاص قوانین کے عمل کا نتیجہ ہے۔ ضروری تھا کہ عملِ حیات کی تشریح کے لیے کائنات کا ایک اور روحانی غیر مادی جزو تصور کیا جائے۔
مخفی تجویز
چنانچہ ڈریش نے طبعیاتی کیمیاوی نظریہ کے عوض میں اینٹی لیچی(Entelechy) کا ایک نظریہ پیش کیا۔ اینٹی لیچی گویا ایک سوچی سمجھی ہوئی تجویز ہے جو کسی نہ کسی طرح حیوان کے اندر پوشیدہ ہوتی ہے ۔ ڈریش کا نتیجہ یہ تھا کہ زندگی کوئی ایسی چیز ہے جو مقصد اور مدعا رکھتی ہے اور جب کسی جاندار میں ظاہر ہوتی ہے تو جاندار کی شکل اور صورت کو اپنے مقصد اور مدعا کے مطابق معین کرتی ہے چونکہ زندگی حیوان کے اندر ایک تجویز یا پلین کو ظاہر کرنا چاہتی ہے لہٰذا وہ اس پلین کو نگاہ میں رکھتی ہے۔
مدعا طلبی
اور اس کے مطابق اس کے جسم کو ڈھالتی اور بناتی ہے اور خود اپنے ارادہ کو بھی اس پلین کے اقتضا کے مطابق بدلتی ہے۔ حیوان کی خاطرزندگی کے دوسرے اہتمامات مثلاً اُس کے اندر بقائے فرد اور نسل کے لیے جبلتوں کا پیدا کرنا اور اس کے جسم کو بیماریوں کے خلاف ردِّعمل کرنے کے لیے مستعد بنانا یہ بھی اس پلین ہی کے عناصر ہیں کیونکہ حیوان کی شکل و صورت کے مزید ارتقاء کے لیے اس کا زندہ رہنا ضروری ہے۔
برگسان کی تائید
پھر برگسان نے اپنی کتاب ’’ارتقائے تخلیقی‘‘(Creative Evolution) میں ڈریش کے نتائج کی تائید کرتے ہوئے نہایت معقول دلائل دیئے ہیں اور ارتقاء کے ان تمام نظریات کو غلط قرار دیا ہے جو زندگی کی تخلیقی اور مدعائی فعلیت(Purposive Activity) کی بجائے کشمکش حیات کی ضرورت اور بقائے اصلح کے تصور پر مبنی ہیں۔
لامارک کی توجیہہ
ڈارون نے تو حیوان کے جسمانی تغیرات کے سبب کے متعلق سکوت برتا ہے۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلہ میں اسے لامارک(Lamarck)کے خیالات سے اختلاف نہیں۔ لامارک اس تغیر کی وجہ یہ بتاتا ہے کہ ضروری ہے کہ ایک زندہ حیوان کی جسمانی بناوٹ ماحول کی کیفیات کے ساتھ مطابقت پیدا کرے جب یہ مطابقت پیدا ہوتی ہے تو حیوان کے جسم کے اندر ایک تبدیلی پیدا ہوتی ہے‘ جو اگلی نسلیں وراثتاً حاصل کرتی ہیں اور چونکہ یہ نسلیں خود بھی مجبور ہوتی ہیں کہ ماحول کے ساتھ جسمانی مطابقت پیدا کریں اس لیے موروثی تبدیلی میں اور اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ حیوان کی ایک نئی نوع وجود میں آتی ہے۔
برگسان کا جواب
برگسان بجاطو رپر کہتا ہے کہ ا وّل تو یہ نظریہ ان حقائق کے خلاف ہے جو اب اچھی طرح ثابت ہو چکے ہیں کہ حیوان کے جسم میں ایک نمایاں تبدیلی آہستہ آہستہ جمع ہونے والی چھوٹی چھوٹی تبدیلیوں کی وجہ سے ہی وجود میں نہیں آتی بلکہ فوری طور پر بھی ظاہر ہوجاتی ہے۔ یہ اس وقت تک ناممکن ہے جب تک حیوان کے اندر کوئی شعوری یا غیر شعوری میلان یا مقصد ایسا موجود نہ ہو جو اسے ترقی دے کر ایک بہتر اور اعلیٰ تر بناوٹ کی طرف آگے لے جانا چاہے ۔ دوئم حالات کے ساتھ جسمانی بناوٹ کو مطابق کرنے کی ضرورت ارتقاء کے رک جانے کی وجہ تو بن سکتی ہے لیکن اس کے جاری رہنے کی وجہ نہیں بن سکتی۔ جونہی کہ ایک جاندار وجود کی جسمانی ساخت ماحول کے ساتھ اتنی مطابقت پیدا کر لے کہ وہ اس کی وجہ سے اپنی زندگی کو برقرار رکھنے کے قابل ہو جائے تو اس کے مزید بدلنے یا ترقی کرنے کی ضرورت ختم ہوجاتی ہے۔ اگر مطابقتِ ماحول فی الواقع قیامِ حیات کے لیے عمل میں آتی ہے تو بقائے حیات کا انتظام ہو جانے کے بعد حیوان کو زیادہ منظم اور ترقی یافتہ اجسام کی طرف ارتقاء نہیں کرنا چاہے۔ برگسان لکھتا ہے کہ:
’’ایک چھوٹا سا جانور زندگی کے حالات کے ساتھ اتنی ہی مطابقت رکھتا ہے جتنا کہ ہمارا جسم۔ کیونکہ وہ زندگی کو قائم رکھنے پر قادر ہے تو پھر زندگی ایک ایسے مرحلہ پر پہنچنے کے بعد فنا کے مزید خطرات کیوں مول لیتی ہے اور مزید ترقی کے راستہ پر کیوں گامزن رہتی ہے۔ زندہ حیوانات کے بعض اجسام جوہم آج دیکھتے ہیں۔ دور دراز کے زمانوں سے جوں کے توں چلے آتے ہیں اور ادوار کے گزرنے سے اُن میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی تو پھر زندگی کو آج سے پہلے کسی خاص جسم پر پہنچنے کے بعد رک جانا چاہیے تھا لیکن جہاں جہاں ممکن تھا وہ کیوں رک نہیں گئی۔ اگر زندگی کے اندر کوئی ایسی قوت نہیں تھی جو اسے ابھار کر شدید خطرات کے باوجود زیادہ سے زیادہ تنظیم اور ترقی کی منزل کی طرف آگے لے جانا چاہتی تھی تو پھر یہ آگے کس طرح سے بڑھتی رہی‘‘۔
نیگلی کی تائید
نیگلی(Nageli)نے اس خیال کی تائید کی ہے اور اسے بڑے زور سے پیش کیا ہے۔ اس کے نزدیک ارتقاء کا باعث ایسی چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں نہیں جو جاندار کے ہر عضو کو علیحدہ علیحدہ متأثر کرتی ہیں ۔ اور ایک مدت دراز میں جمع ہوتی ہیں بلکہ ارتقاء ایک معین راستہ پر چلتا ہے جو جاندار کی نشوونما کے اندرونی قوانین پر موقوف ہے ’’انفع‘‘ یا’’اصلح‘‘ کی تخلیق سے ارتقاء کا کوئی تعلق نہیں۔ ارتقاء صرف وہی تبدیلیاں پیدا کرتا ہے جو اسے اپنے قوانین کی رو سے پیدا کرنی ہوتی ہیں خواہ وہ تبدیلیاں بے ہودہ اور ضرر رساں ہوں۔ ایک نئی نوع کا ظہور سست روتغیرات کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ زندگی کی ایک فوری چھلانگ کا نتیجہ ہوتا ہے جس سے جاندار کا جسمانی توازن یکسر بدل جاتا ہے اور ایک بالکل ہی نیا جاندار جس کے اعضاء ایک دوسرے کے ساتھ پوری مناسبت رکھتے ہیں‘ وجود میں آتا ہے۔ جاندار کا ہر عضو یا ہر وصف دوسرے اعضاء اور دوسرے اوصاف سے تعلق رکھتا ہے اور اعضاء اور اوصاف کی باہمی مناسبت اور ہم آہنگی کی وجہ سے وہ ایک وحدت کی صورت میں ہوتا ہے۔ اگر اس کے اعضاء اور اوصاف علیحدہ علیحدہ تغیر پذیر ہوں تو یہ وحدت شکستہ ہو جاتی ہے۔ لہٰذا جب جانور کی نوع کا تغیر ہوتا ہے تو ایک وحدت سے ایک دوسری نئی وحدت فی الفور وجود میں آ جاتی ہے۔
ڈی وری کی تائید
ڈی وری(De Vries) نے اس خیال کو اپنی تحقیقات سے اور تقویت دی ہے وہ کہتا ہے کہ ارتقاء چھوٹی چھوٹی تبدیلیوں سے کبھی نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ فوری تبدیلیوں سے ہوتا ہے۔ وہ مانتا ہے کہ چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں بھی ہوتی ہیں لیکن ان کا دائرہ اس قدر محدود ہے کہ وہ نوع کی مجموعی شکل و صورت کو عبور نہیں کر سکتیں۔ یہاں ڈی وری ان اعداد و شمار سے کام لیتا ہے جو انفرادی تغیرات کی تحقیقات کے سلسلہ میں کوئٹلیٹ (Quetlet) اور بیٹسن(Bateson)نے فراہم کیے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک نوع سے دوسری نوع کا ظہور ہمیشہ ایک فوری تبدیلی سے ہوتا ہے اور بہت سی چھوٹی چھوتی تبدیلیوں سے نہیں ہوتا اور پھر اس فوری تبدیلی کے بعد حیوان کو جو توازن حاصل ہوجاتا ہے‘ وہ نسبتاًایسا مستقل ہوتا ہے کہ خواہ چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں واقع ہوتی رہیں۔ وہ اس کے حلقہ کے اندر رہتی ہیں اور اسے بگاڑنہیں سکتیں۔ پھر ڈی وری خود اپنے سالہا سال کے تجربات کی بنا پر بہت سے ایسے حقائق بیان کرتا ہے جو ارتقاء کے سبب کے طور پر فوری تبدیلیوں کے تصور کی مؤثر حمایت کرتے ہیں ۔ لیکن ڈارون کے نظریۂ انتخاب (Selection)کی راہ میں ناقابل عبور مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ فوری تبدیلیوں کے سبب کی تشریح میں اس کے سوائے کچھ نہیں کہا جا سکتا ‘ کہ خود حیوان کے جسم کے اندر بلکہ اس قوتِ حیات کے اندر جو حیوان کو وجود میں لاتی اور زندہ رکھتی ہے ایک ایسا محرک موجود ہے جو جسمانی ارتقاء کی ایک خاص منزل کی طرف بڑھنے کے لیے اس کو اکساتا ہے۔
آئیمر کی تائید
آئیمر(Eimer)نے ڈارون کے نظریہ کی شدید مخالفت کی ہے وہ کہتا ہے کہ جاندار کے وجود کی ترقی یافتہ تنظیم اور تعمیر کا باعث ایسے قوانین ہیں جو اس کے جسم کے اندر کام کرتے ہیں۔ یہ قوانین فقط حیوانات کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ زندگی کی ساری وسعت پر حاوی ہیں۔ جاندار ماحول کے اثرات اور محرکات کا فاعلانہ جواب دیتے ہوئے ایک خاص سمت میں نشوونما کرتا ہے ‘ جو نفع بخشی سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ اس نے تتریوں(Butter space flies)کے پروں کے رنگ اور نشانات کو ایک مثال کے طو رپر پیش کیا ہے۔ اور یہ وہ چیزیں ہیں جو ڈارون کے نظریہ ’’نقل‘‘ میں بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ پتوں یا سوکھی ٹہنیوں کو یا ان انواع حیوانات کے ساتھ نہایت ہی قریبی مشابہت کو‘ جو دشمنوں سے اچھی طرح محفوظ کر دی گئی ہیں‘قدرتی انتخاب کا ایک ثبوت سمجھا گیا تھا۔ لیکن آئیمر بتاتا ہے کہ نشانات‘ خطوط اور داغ یا کسی خاص نمونہ کا ظاہر ہونا یا پتوں کے ساتھ مشابہ ہونا‘ یہ تمام چیزیں درحقیقت نشوونما کے مخصوص قوانین کے تابع ہیں اور ان کی متابعت ہی میں رفتہ رفتہ نمودار ہوتی ہیں۔ یہ چیزیں اپنے قوانین ہی کے ماتحت نشوونما پاتی ہیں اور ایک اندرونی جبر سے بدلتی اور ترقی کرتی ہیں۔ فائدہ یا نفع بخشی کے ساتھ ان کا کوئی واسطہ نہیں۔ ڈارون کی مخالفت میں پیش کیے ہوئے ان نظریات میں جو چیز مشترک ہے اور نہایت ہی روشن اور نمایاں ہو کر نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ ارتقاء کا سارا راز قدرت کا وہ مقصد ہے جو حیوان کے جسم کے اندر اس کے ارتقائی رجحانات کے طور پر مخفی کیا گیا ہے۔ اس مقصد کی وجہ سے جان دار بے عمل ہو کر اپنے ارتقاء کے لیے ایک طویل مدت کے اندر اتفاقی غیر متناہی خفیف تغیرات کے اجتماع کا اور پھر قدرت کے جابرانہ اور سفاکانہ انتخابی عمل کا انتظار نہیں کرتا (جیسا کہ ڈآرون کہتا ہے) بلکہ خود بخود اپنے اندر سے اپنی ممکنات کو باہر لا کر ارتقاء کی سیڑھیاں چڑھتا جاتا ہے۔ یہ تصور روحِ قرآن کے عین مطابق ہے۔
لامارک کے نظریہ میں صداقت کا عنصر
لامارک(Lamarck)نے کہا تھا کہ ارتقاء کا سبب حیوان کی جدوجہد ہے جس سے وہ اپنے ماحول کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ وہ زندہ رہے اس جدوجہد سے اس کی قوتیں ایک خاص سمت میں نشوونما پاتی ہیں۔ اس کے جسم کے اندر نئی خاصیات(Characters)اور نئے تغیرات(Variations)پیدا ہوتے ہیں اور ترقی کر کے ایک بلند سطح پر قدم رکھتا ہے۔ آئیمر نے اس خیال کی تائید کی ہے۔
اس تصور کا ایک پہلو روحِ قرآن کے مطابق ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جدوجہد کو حیوان اور انسان دونوں کی ترقی کا ایک ذریعہ بنایا ہے۔ وہ پہلے زندگی کی قوتوں کو حیوان کی جدوجہد میں ظاہر کرتا ہے اور پھر اس جدوجہد کے ذریعے سے اس کی مزید قوتوں کو ظہور میں لاتا ہے۔
لامارک کی ادھوری تشریح
تاہم اگر حیوان کی جدوجہد اس کی ممکنات کے مطابق نہ ہو یا اگر حیوان کی ممکنات ارتقاء ختم ہو چکی ہوں یعنی حیوان ایک ایسی جسمانی ساخت کو حاصل کر چکا ہو کہ اس کی مزید ترقی قدرت کے مقاصد کے مطابق نہ ہو سکتی ہو تو پھر حیوان کی جدوجہد سے اس کے جسم میں کوئی تغیر واقع نہیں ہوتا۔ یہی سبب ہے کہ جدوجہد بعض صورتوں میں ارتقاء پیدا کرتی ہے اور بعض صورتوں میں اس سے کوئی ارتقائی نتیجہ پیدا نہیں ہوتا۔ ارتقاء کا اصلی سبب زندگی کے مقاصد اور ممکنات ہیں۔ لامارک کی تشریح صحیح ہے لیکن ناکافی ہے کیونکہ ارتقاء کی ساری حقیقت پر اس کی نظر نہیں۔
گراموفون کے ریکارڈ کی مثال
جب گراموفون کا ایک ریکارڈ بج رہا ہو تو آواز اس جھلی کے ارتعاش سے پیدا ہوتی ہے جو آواز کی ڈبیہ(Sound-Box)میں ہوتی ہے اور جسے سوئی کی حرکت مرتعش کرتی ہے لیکن خود سوئی کی حرکت کا سبب یہ ہے کہ وہ ریکارڈ کی لکیر کے دندانوں پر چلتے ہوئے بار بار اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے۔ اور لکیر میں ایک خاص شخص کی آواز ایک گانے کی صورت میں بالقوہ موجود ہوتی ہے۔ اب فرض کیجیے کہ مریخ کے ایک سائنس دان کی استعداد رؤیت اس قدر محدود ہے کہ وہ آواز کی ڈبیہ اور سوئی کو دیکھ سکتا ہے لیکن ریکارڈ اس کی لکیر اور اس کے دندانوں کو ‘جن پر سوئی حرکت کرتی ہے ‘دیکھنے سے قاصر ہے۔وہ کہے گا کہ آواز کا اصلی اور بنیادی سبب سوئی کی حرکت ہے۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہے گا کہ سوئی کی حرکت سے گانے کی آواز اُسی صورت میں پیدا ہو سکتی ہے جب حرکت ایک خاص تجویز کے مطابق ہو رہی ہو اور اگر سوئی کی حرکت اس تجویز سے ذرا ہٹ جائے تو گانا فوراً ختم ہو جائے گا۔ اگرچہ وہ یقین سے کہہ سکے گا کہ گانے کی آواز سوئی کی حرکت سے پیدا ہو رہی ہے لیکن وہ یہ بتانے سے قاصر رہے گا کہ وہ اس حرکت سے کیوں پیدا ہوتی ہے‘ اس کی تشریح درست ہو گی لیکن ادھوری اور ناکافی ہو گی۔ بالکل اسی طرح سے ارتقائے انواع کے متعلق اس سائنس دان کی تشریح درست ہونے کے باوجود نامکمل اور ناکافی ہو گی‘ جو یہ کہتا ہے کہ جاندار کی کشمکش حیات اس کے جسم میں تبدیلیاں پیدا کرتی رہتی ہے۔ اور وہ جمع ہوتی رہی ہیں ۔ یہاں تک کہ ایک نئی نوع وجود میں آ جاتی ہے وہ یہ نہیں بتا سکتا کہ جاندار کی جدوجہد سے کیوں بعض حالات میں تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں اور بعض حالات میں پیدا نہیں ہوتیں۔
ارتقاء کا اصلی سبب
اصل بات یہ ہے کہ جس طرح سے سوئی کی حرکت جب اس خاص تجویز کے مطابق ہو جو ریکارڈ میں ثبت ہے تواس گانے کی آواز پیدا ہوتی ہے ورنہ نہیں ہوتی۔ اسی طرح سے جاندار کی جدوجہد بھی جب ان تجاویز اور مقاصد کے مطابق ہو جو اس کی فطرت میں مضمر کیے گئے ہیں تو ان سے اس کے جسم میں تغیر پیدا ہوتا ہے ‘جس طرح سے گانے کی آواز کا بنیادی سبب ریکارڈ کی ان مخفی صلاحیتوں میں پایا جاتا ہے جن کے اظہار کے لیے ریکارڈ سوئی میں اہتزازپیدا کرتا ہے اسی طرح سے ارتقائے انواع کے عمل کا اصلی اور بنیادی سبب حیوان کے ان مخفی ارتقائی مقاصد کے اندر موجود ہے جو قدرت نے اس کے جسم میںرکھے ہیں۔
ارتقاء کی مقصدیت کے نتائج
لیکن اگر ارتقاء کا سبب فی الواقع یہ ہے کہ حیوان کے اندر کوئی ایسا مقصد کام کر رہا ہے جو اس سے بھی اوپر ہے اور جس نے اسے اپنا آلۂ کار بنا رکھا ہے تو پھر لازماً اس تصور کے نتائج حسب ذیل ہوں گے:
(۱) یہ مقصد اپنے آپ کو ٹھیک طرح جانتا ہے اور اپنی اغراض کے لیے حیوان کی شکل و صورت کو بدلنے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔
(۲) چونکہ سب سے پہلا جاندار جو کیچڑ میں پیدا ہوا تھا۔ شروع سے ہی ارتقاء کے عمل میں تھا اور ارتقاء کی آئندہ غرضوں اور امیدوں کے عین مطابق تھا۔ اس لیے یہی مقصد تھا جس نے اس جاندار کو پیدا کیا تھا۔
(۳) چونکہ اس جاندار کے وجود میں آنے سے پہلے مادی کائنات اپنے تمام ارتقائی مدارج طے کر کے ایک ایسی شکل میں موجود تھی جس کے بغیر یہ جاندار وجود میں نہیں آ سکتا تھا لہٰذا مادی کائنات کا ارتقاء اس جاندار کی تخلیق ہی کی ایک تیاری تھی اور اس ارتقاء کا باعث بھی یہی مقصد تھا۔
(۴) پھر چونکہ مادہ کی اوّلین صورت بھی شروع ہی سے ارتقاء کے عمل میں تھی اور بعد کے مادی ارتقاء کے لیے موزوں تھی اس لیے یہی مقصد تھا جس نے مادہ کو نیست سے ہست کیا تھا۔
(۵) لہٰذا یہ مقصد کوئی مادی چیز نہیں اور محض ایک مقصد ہی نہیں بلکہ ایک خود شناس شعور یا نفس(Mind)ہے بلکہ ایک خلاق و قدیر شخصیت(Personality)ہے جو کائنات کی اصل حقیقت ہے۔
جدید فلسفہ اور طبعیات
اب یہ دیکھئے کہ فلسفہ اور طبعیات کے دائرہ میں اس صدی کے انکشافات اس نتیجہ کے بارہ میں کیا کہتے ہیں:
حقیقت کائنات مادہ ہے یا شعور
بظاہر ہمیں کائنات میں صرف دو مختلف چیزیںنظر آتی ہیں۔ ایک مادہ اور دوسرے شعور کیونکہ تمام چیزیں یا بے جان ہیں یا جاندار۔ تمام بے جان چیزیں مادی ہیں اور تمام جاندار چیزوں کا وصف شعور ہے۔ مادہ اور شعور کے ظاہری اختلاف کے باوجود فلسفیوں اور سائنس دانوں نے اس لاشعوری وجدانی یقین کی وجہ سے کہ کائنات کی آخری حقیقت ایک ہی ہونی چاہیے‘ ہمیشہ اس بات کی کوشش کی ہے کہ مادہ اور شعور دونوں کو ایک ہی چیز ثابت کیا جائے۔ اس لیے یا تو وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ شعور اصل میں مادہ ہی کی ایک ترقی یافتہ صورت ہے یا یہ کہ مادہ درحقیت شعور ہی کی صفات کا ایک مظہر ہے۔ انیسویں صدی میں جب ڈارون نے اپنا نظریۂ ارتقاء ایجاد کیا تھا۔ سائنس دان اوّل الذکر نقطۂ نظر پیش کیا کرتے تھے اگرچہ فلسفیوں میں سے اکثر لوگ ہمیشہ مؤخر الذکر نظریہ کے حامی رہے ہیں۔
انیسویں صدی کے سائنس دان
انیسویں صدی کے سائنس دان یہ سمجھتے تھے کہ مادہ ایک غیر فانی حقیقت ہے اس لیے کسی چیز کی کوئی اصلیت نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس کے خواص و اوصاف مادہ کی طرح نہ ہوں یعنی جب تک کہ اسے مادہ کی طرح دیکھا یا چھوا نہ جا سکے یا وہ اس قابل نہ ہو کہ مادہ کی طرح اس پر معمل میں تجربات کیے جا سکیں۔ چنانچہ یہ قدرتی بات تھی کہ وہ شعور کو ذی حیات مادہ کی ایک خاصیت قرار دیتے تھے۔ یہ لوگ اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے کہ شعور کی مانند کوئی چیز تخلیقِ کائنات کا سبب ہو سکتی ہے یا مظاہر قدرت کے ساتھ اس کا کوئی سروکار یا علاقہ ہو سکتا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ شعور مادہ ہی کی ایک خاص حالت کا وصف ہے جو اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب مادہ اتفاقاً ایک خاص کیمیاوی ترکیب پا لیتا ہے یا طبعیات کے قوانین کے تحت میں آ جاتا ہے۔
بائل کا خیال
قدیم سائنس دانوں میں سے بائل(Boyle (۶۹۱ء۔۱۶۱۷ء کہتا ہے کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ:
’’جب متحرک مادہ کو اپنی حالت پر چھوڑ دیا جائے تویہ کیونکر ممکن ہے کہ اس سے انسانوں اور حیوانوں کے مکمل اجسام ایسی حیرت انگیز موجودات یا اس سے بھی زیادہ محیرّ العقول وہ اجزائے مادہ جو زندہ حیوانات کے بیج کی حیثیت رکھتے ہیں خود بخود وجود میں آجائیں‘‘۔
چنانچہ اس مشکل کو حل کرنے کے لیے وہ قدرت کے اندر ایک تعمیر کنندہ روح یا قوتِ شعور کا ہونا ضروری قرار دیتا تھا۔
کیلون کی تائید
اس طرح انیسویں صدی کے ایک سائنس دان لارڈ کیلون (Kelvin (۱۹۰۷۔۱۸۲۴ء کی ذہانت نے بھی اسے یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور کیا کہ قدرت شعور کے اوصاف سے بے بہرہ نہیں اور یہ کہ کائنات کے اندر ایک تخلیقی اور رہنما قوت بھی کارفرما ہے ۔ لیکن فلسفہ جو سائنس کی طرح حقیقت کی کسی جزوی یا محدود واقفیت پر کبھی قانع نہیں ہوا اور جو تلاشِ صداقت میں عقل اور وجدان دونوں سے پورا کام لیتا رہا ہے او ر بہت حد تک ان پابندیوں سے بھی آزاد ہے جو تحقیقِ علم کے بارہ میں سائنس نے اپنے اوپر عائد کر رکھی ہیں یعنی تجربہ اور مشاہدہ کے بغیر کسی چیز کو باور نہ کرنا ہمیشہ اس بات پر اصرار کرتا رہا ہے کہ عقدئہ کائنات کا معقول اور مکمل حل جس کے لیے انسان فطرتی طور پر بے تاب ہے اس وقت تک ممکن نہیںجب تک کہ نظامِ عالم میں شعور کو ایک مرکزی حیثیت نہ دی جائے۔ قرونِ وسطیٰ کے یورپی فلسفہ کا مقصد تو دین عیسائیت کی عقلی توجیہہ کے سوائے اور کچھ نہیں تھا۔ لیکن شعور جیسا کہ وہ خدا اور کائنات کے اندر موجود ہے نہ صرف قرونِ وسطیٰ کے فلسفہ کا بلکہ عصر جدید کے ان بڑے بڑے فلسفیانہ نظریات کا بھی واحد موضوع ہے جو ڈیکارٹ‘ لیبنز‘ شوپن آئر‘ نیٹشے‘ کانت‘ سپینوزا‘ ہیگل‘ فشٹے‘ کروچے اور برگسان ایسے مقتدر فلسفیوں نے پیش کیے ہیں اور جن میں وہ خدا ‘ روحِ کائنات‘ حقیقت مطلقہ‘ تصور مطلق‘ قوتِ شعور‘ ارادئہ کائنات ‘ شعور ابدی‘ افرادِ حیات‘ خود شعوری‘ قوتِ حیات وغیرہ اصطلاحات سے تعبیر کیا گیا ہے۔
برکلے کی تائید
سائنس کی مادیات پر جس فلسفی نے سب سے پہلے شدید اعتراضات کیے وہ انگلستان کا بشپ جارج برکلے(George Berkeley)تھا جس نے کہا کہ مادی دنیا اپنی کوئی جدا ہستی نہیں رکھتی کیونکہ اسے ہم فقط حواس کے ذریعے سے جانتے ہیں اور یہ جاننا شعور کے بغیر ممکن نہیں۔چونکہ ہمارے شعور سے باہر مادہ کی کائنات کا اپنا کوئی وجود نہیں ہو سکتا اس لیے جو چیز حقیقتاً موجود ہے وہ شعور ہے نہ کہ مادہ۔ حوا س کے ذریعہ سے ہمیں جس چیز کا علم حاصل ہوتا ہے وہ مادہ نہیں بلکہ اس کا رنگ‘ صورت‘ شکل‘ آواز‘ نرمی اور سختی وغیرہ مختلف اوصاف ہیں اور ان اوصاف کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ شعور ان کا احساس کرے اور شعور کے بغیر ان میں سے کوئی چیز بھی موجود نہ ہو سکے گی۔ پس مادہ کی حقیقت فقط شعور ہے ۔
برکلے اپنے نظریہ کی روشنی میں ایک غیر فانی ابدی شعور کی ہستی کو ثابت کرنے کے لیے یوں دلیل قائم کرتا ہے:
’’آسمان کے تمام ستارے اور زمین کی تمام چیزیں مختصر یہ کہ وہ تمام اشیاء جن سے یہ عظیم الشان دنیا بنی ہے شعور کے بغیر کوئی وجود نہیں رکھتیں… اگرمیں ان کا احساس نہ کروں یا وہ میرے یا کسی اور مخلوق ہستی کے شعور کے اندر موجود نہ ہوں تو پھر یا تو ان کا کوئی وجود ہی نہیں یا اُن کا وجود کسی ابدی شعور کے علم میں ہے‘‘۔
کروچے اور جنٹیلے کی تائید
برکلے کی اس تصوریت کو حال ہی میں ایک جدید فلسفہ سے جسے نوتصوریت کہا جاتا ہے اور جس کے بڑے شارحین اٹلی کے دوفلسفی کروچے(Croce)اور جنٹیلے (Gentile)ہیں‘ بہت مضبوط سہارا مل گیا ہے۔یہ دونوں فلسفی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ کائنات روح یا شعور کے سوا اور کچھ نہیں۔ ان کا فلسفہ نہ صرف زمانہ کے لحاظ سے جاید ترین ہے بلکہ بہت سے حکماء کا خیال ہے کہ اس دور کے فلسفوں میںسے ایک نہایت ہی اچھوتا اور یقین افروز فلسفہ ہے اور یہ فلسفہ اس مفروضہ پر مبنی ہے کہ ہمارے شعور کا احساس ہی ایک ایسی چیز ہے جس کی حقیقت کے بارہ میں ہمیں کوئی یقین ہو سکتا ہے۔ اس مفروضہ سے قدم بقدم استدلال کرتے ہوئے یہ فلسفی اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اگر کائنات کی حقیقت کوئی ایسی چیز ہے جسے ہم جان سکتے ہیں تو وہ لامحالہ ہمارے اپنے شعوری تجربہ یا احساس کے ساتھ مماثلت رکھتی ہے اور چونکہ خود شعوری (Self-Consciousness)واضح ترین اور بلند ترین احساس ہے۔ اس لیے کائنات کی حقیقت لازماً ایک اعلیٰ قسم کی خود شعوری ہے۔
انیسویں صدی کی فرسودہ سائنس
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ انیسویں صدی کے سائنس دانوں کے لیے اس قسم کے خیالات قبول کرنا ناممکن تھا کیونکہ ایسا کرنے سے ان کے مادی قوانین کی بنیاد ہی اکھڑ جاتی تھی۔ جب برکلے نے نیوٹن(Newtin)کے طبعیاتی قوانین پر سب سے پہلے اعتراض اٹھایا تو سائنس دانوں نے ایک نفرت آمیز طعن و تشنیع کے ساتھ اس کا استقبال کیا۔ کسے خبر تھی کہ اس بحث میں آیا مادہ حقیقی ہے یا شعور۔ فلسفی جلد ہی سائنس دانوں پر غالب آ جائیں گے اور وہ بھی سائنس دانوں کی اپنی ہی تحقیقات اور اپنے ہی انکشافات کی بدولت۔
سائنس اپنے بت کو خود توڑتی ہے
فلسفی تو مدت سے کائنات کی ایک ایسی تشریح پر مصر تھے جو حقیقت شعور پر مبنی تھی۔ اگر ان کا نقطۂ نظر ایک عام قبولیت حاصل نہ کر سکا تھا تو اس کی وجہ فقط سائنس ہی کی رکاوٹ تھی۔ لیکن اب بیسویں صدی کے سائنس کے اکتشافات نے جن میں نظریۂ اضافیت‘ نظریۂ کوانٹم اور علمِ حیات کے بعض حقائق شامل ہیں‘ یہ رکاوٹ دور کر دی ہے اور مادیات کا بت جسے سائنس نے تراشا تھا۔ سائنس ہی کے ہاتھوں چور چور ہو گیا ہے۔ طبعیاتِ جدید کی تحقیق نے مادہ کو جو کسی وقت ایک ٹھوس‘ سادہ اور روشن حقیقت کا درجہ رکھتا تھا اور اس کے ساتھ ہی قوت‘ حرکت‘ فاصلہ‘ وقت اور ایتھر کو محض لا شی ٔ میں بدل دیا ہے۔ ڈاکٹر جوڈ (Joad)کے الفاظ میں:
’’جدید مادہ ایک ایسی بے حقیقت چیز ہے جو ہاتھ نہیں آ سکتی۔ یہ فاصلہ اور وقت کے مرکب کا ایک ابھار‘ برقی رو کا ایک جال یا امکان کی ایک لہر ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے فنا کے اندر کھو جاتی ہے۔ اکثر اوقات اسے مادہ کی بجائے دیکھنے والے کے شعور کا ہی ایک پھیلائو سمجھا جاتا ہے‘‘۔
نظریۂ اضافیت کے نتائج
پروفیسر روژے(Roughier)نظریۂ اضافیت سے پیدا ہونے والے نتائج سے بحث کرتے ہوئے اپنی کتاب فلسفہ اور طبعیاتِ جدید میں لکھتا ہے:
’’اس طرح مادہ الیکٹرانوں میں تبدیل ہو جاتا ہے ‘ جو خود لطیف لہروں کی صورت اختیار کرتے ہوئے فنا ہو جاتے ہیں۔ گویا مادہ کا مستقل نقصان اور قوت کا ناقابلِ تلافی انتشار عمل میں آتا ہے۔ دوام مادہ کے اس ہمہ گیر اصول کی بجائے جسے سائنس دانوں نے سائنس کی بنیاد قرار دیا تھا اور جو اسے قابل فہم بناتاتھا یعنی نہ تو کوئی چیز وجود میں آتی ہے اور نہ فنا ہوتی ہے۔ اب ہمیں یہ متضاد اصول وضع کرنا چاہیے کہ کوئی چیز وجود میں نہیں آتی‘ ہر چیز فنا ہو جاتی ہے۔ دنیا ایک آخری بربادی کی طرف بڑھی چلی جا رہی ہے اور ایتھر جس کے بارہ میں ناحق یہ دعویٰ کیا جاتا تھا کہ وہ کائنات کا سہارا ہے‘ کائنات کی آخری قبر ثابت ہوتی ہے‘‘۔
ہیری شمٹ کا تبصرہ
ڈاکٹر ہیری شمٹ(Harry-Schmidt)نے اپنی کتاب ’’اضافیت اور کائنات‘‘ میں یہ بتاتے ہوئے کہ نظامِ عالم میں اضافیت کے داخل ہونے کے بعد کائنات کی کیفیت کیا ہو جاتی ہے۔ بڑے مایوسانہ انداز میں لکھا ہے:
’’فاصلہ اور وقت بے حقیقت ہو کر رہ گئے ہیں۔ خود حرکت بے معنی ہو گئی ہے۔ اجسام کی شکل و صورت ہمارے نقطۂ نظر پر موقوف ہوگئی ہے اور کائنات کی ایتھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت کر دی گئی ہے۔ افسوس تم نے خوبصورت دنیا کو ایک شدید ضرب کے ساتھ برباد کر دیا۔ اب یہ ٹوٹ پھوٹ چکی ہے اور اس کے ٹکڑے منتشر کر دیے گئے ہیں۔ اب ہم ان ٹکڑوں کو فنا کے سپرد کرتے ہیں اور بڑے درد کے ساتھ اُس حسن کا ماتم کرتے ہیں‘ جو مٹ گیا ہے‘‘۔
شعور حقیقتِ کائنات ہے
لیکن اگر مادہ حقیقی اور پائیدار نہیں تو پھر مادہ کی عدم موجودگی میں ہم مخلوقات کی اس بوقلمونی اور رنگا رنگی کی وجہ کیا بتا سکتے ہیں جس میں جابجا حسنِ کار‘ ہنر ‘ مدعا‘ تناسب‘ ہم آہنگی اور بے خطا ریاضیاتی ذہن کے اوصاف کارفرما نظر آتے ہیں۔ یقینا یہ سب شعور ہی کے اوصاف ہیں لہٰذا شعور ہی کائنات کی وہ آخری حقیقت ہے جس سے دنیا جگمگا رہی ہے۔
ماہرین طبعیات کی تلاشِ حقیقت
ظاہر ہے کہ مادہ کے فانی ثابت ہونے کے بعد اس نظریہ کے لیے کائنات کی بنیاد روح یا شعور ہے‘ نہ صرف راستہ صاف ہو گیا ہے بلکہ اب اس نظریہ کے تسلیم کرنے کے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں۔آج روح یا شعور کو کائنات کی حقیقت قرار دینا عقلی طور پر اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ انیسویں صدی میں یہ ماننا ضروری تھا کہ کائنات فقط مادہ سے بنی ہے۔ فلسفہ تو اپنی ساری تاریخ میں سائنس کی تائید کے بغیر بلکہ سائنس کی مخالفت کے باوجود کائنات کی روحانی توجیہہ پر اصرار کرتا رہا ہے اور فلسفہ کا یہ نظریہ قدیم سائنس کے مادیاتی نظریہ سے کسی طرح سے کم معقول یا قابل قبول نہیں تھا۔ لیکن اب سائنس بھی اس کی تائید میں وزن دار شہادت پیش کر رہی ہے ۔ چونکہ مادہ بے حقیقت اور فانی ثابت ہوا ہے لہٰذا طبعیات کے ماہرین محسوس کرنے لگے ہیں کہ اب وہ مادہ کی دنیا کے اندر محدود رہ کر طبعیات کے مسائل کو حل نہیں کر سکتے اور مجبور ہیں کہ مادہ کی دنیا سے آگے نکل کر سچائی کی جستجو کریں۔ کیونکہ اب مادہ کی حقیقت مادہ سے پرے کی دنیا میں ہی معلوم کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ انگلستان اور یورپ کے بہت سے ماہرین طبعیات مثلاً ایڈنگٹن(Eddington)‘ جینز(Jeans)‘وائٹ ہیڈ(Whitehead)‘ آئن سٹائن (Einstein)‘ شروڈنگر(Schrodinger)اور پلینک(Planck)مادی دنیا کی حقیقت روحانی نقطۂ نظر سے پیش کر رہے ہیں۔ اب وہ ماہرین طبیعیات (Physicist) ہی نہیں بلکہ ماہرین ماوراء الطبعیات (Metaphysics) بھی ہیں۔ ان سب سائنس دانوں کے دلائل اس مفروضہ کی تائید کرتے ہیں کہ کائنات کی حقیقت ایک شعور یا ذہن ہے۔
پروفیسر پلینک کا تبصرہ
نظریہ کوانٹم کے موجد پروفیسر پلینک کے ساتھ جے ۔ ڈبلیو ۔ این سلیوین کی ایک گفتگو۲۶جنوری۱۹۳۰ء کے رسالہ آبزرور(Observer)میں شائع ہوئی تھی۔ اس میں پروفیسر پلینک کہتا ہے:
’’میں شعور کو ایک بنیادی حقیقت سمجھتا ہوں۔ مادہ کو شعور کا نتیجہ سمجھتا ہوں۔ ہم شعور سے آگے نہیں جا سکتے۔ ہر چیز جس کا ہم ذکر کرتے ہیں یا جس کو موجود تصور کرتے ہیں ا س کی ہستی شعور پر مبنی ہے‘‘۔
آلیورلاج کا تبصرہ
مشہور ماہر طبعیات سر آلیور لاج(Oliver Lodge)لکھتا ہے:
’’کائنات پر شعور کی حکومت ہے خواہ یہ شعور کسی ماہر ریاضیات سمجھا جائے یا کسی مصور کا یا شاعر کا۔ یہی وہ حقیقت ہے جو ہستی کو معنی خیز بناتی ہے۔ ہماری روز مرہ کی زندگی میں رونق پیدا کرتی ہے‘ ہماری امید کو بڑھاتی ہے اور جب علم ناکام رہ جاتا ہے تو یقین کے ساتھ ہمیں قوت بخشتی ہے‘‘۔
جینز کا استدلال
سرجیمز جینز(James Jeans)کا استدلال یہ ہے کہ مادہ سب کا سب ریاضیاتی نسبتوں میں ظاہر کیا جا سکتا ہے ۔ ریاضیات کا دخل جس طرح سے سالمہ کی ہیئت ترکیبی میں نظر آتا ہے۔ اُسی طرح سے اجرامِ فلکی کے نظامات میں بھی موجود ہے۔ ریاضیات کے قوانین جس طرح قریب ترین مادی اشیاء پر حاوی ہیں اسی طرح کائنات کے دور دراز حصوں پر بھی حکمران ہیں لیکن ریاضیات کا علم جس قدر ہمیں اس وقت حاصل ہے وہ کائنات کے مطالعہ سے حاصل نہیں ہوا بلکہ ہمارے اپنے منطقی یا عقلی استدلال سے حاصل ہوا ہے‘ جس کا کائنات کے مطالعہ سے کوئی تعلق نہیں۔ اپنی قوتِ استدلال کی رہنمائی میں اپنے ہی ذہن کی پیداوار کے طور پر قوانین ریاضیات کو مرتب کرنے کے بعد جب ہم کارخانۂ قدرت پر نگاہ ڈالتے ہیں تو یہ دیکھ کر ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ نہ صرف کائنات کی تعمیر ان قواعد کے عین مطابق ہوئی ہے بلکہ یہی قوانین اس کائنات کی آخری صورت ہیں چونکہ مادہ غیر حقیقی ہے اس لیے کائنات آخر کار قوانین ریاضیات کے ایک مجموعہ کے بغیر کچھ ثابت نہیں ہوتی۔ ہم نے ان قوانین کو ‘جو ہمارے باہر کی دنیا میں جاری اور ساری ہیں‘ خود بخود کیونکردریافت کر لیا اور پھر یہ قوانین مادی دنیا کی تعمیر میں خودبخودکیونکر کام آئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات ہماری طرح کے ایک شعور کی تخلیق ہے۔ یہ شعور ہماری طرح ٹھیک ٹھیک ریاضیاتی اور منطقی انداز کے ساتھ سوچ سمجھ سکتا ہے۔ پس ضروری ہے کہ خارجی دنیا اور ہمارا شعور دونوں اسی شعور عالم نے پیداکیے ہوں۔
جینز کا حوالہ
سرجیمزجینزاپنی کتاب پراسرار کائنات (The Mysterious Universe) میں لکھتا ہے:
’’کائنات کسی مادی تشریح کی متحمل نہیں ہو سکتی اور میری رائے میںاس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی اپنی حقیقت ایک خیال سے زیادہ نہیں۔ آج سے تیس سال پہلے ہم یہ سمجھتے تھے یا فرض کرتے تھے کہ ہم ایک آخری میکانکی حقیقت کی طرف بڑھے چلے جا رہے ہیں۔ آج کی دنیا بہت حد تک اس بات پر متفق ہیں اور جہاں تک علمِ طبعیات کے ماہرین کا تعلق ہے۔ اس رائے کے ساتھ اختلاف قریباً مفقود ہے کہ علم کا دریا ایک غیر میکانکی حقیقت کی طرف بہ رہا ہے۔ کائنات ایک بڑی مشین کی بجائے ایک بڑے تصور کی صورت میں نظر آنے لگی ہے۔ اب شعور کوئی ایسی چیز نہیں جو مادہ کی دنیا میں اتفاقاً داخل ہو گئی ہو بلکہ اس کی بجائے ہم یہ شبہ کرنے لگے ہیں کہ ہمیں شعور ہی کو مادہ کی دنیا کا خالق اور حکمران قرار دینا چاہیے۔ ہمارے اپنے شعور کو نہیں بلکہ اس شعور کوجس کے اندر وہ سالمات ‘جن سے ہمارا شعور صورت پذیر ہوا ہے‘ خیالات کی حیثیت رکھتے ہیں ‘ جدید علم ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم اپنے پہلے جلد بازی سے قائم کیے ہوئے تاثرات پر کہ ہم اتفاق سے ایک ایسی دنیا میں آ پہنچے ہیں جو زندگی سے کچھ سروکار نہیں رکھتی یا زندگی سے عملاً عداوت رکھتی ہے‘ نظر ثانی کریں۔ اغلب ہے کہ مادہ اور شعور کی قدیم دوئی جو اس فرضی عداوت کی ذمہ دار تھی‘ بالکل ناپید ہو جائے نہ اس لیے کہ مادہ اور بے حقیقت ثابت ہو جائے گا یا شعور مادہ ہی کی ایک خاصیت بن جائے گا بلکہ اس لیے کہ ٹھوس اور حقیقی مادہ آخر کار شعور ہی کی ایک مخلوق اور شعور ہی کا ایک ظہور مانا جائے گا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کائنات ایک ایسی مدبر اور منظم ہستی کا پتہ دیتی ہے جو ہمارے شعور کے ساتھ کچھ نہ کچھ مشابہت رکھتی ہے جس حد تک ہمیںعلم ہو سکا ہے‘ جذبات ‘ اخلاق اور احساسِ حسن کے اوصاف کے لحاظ سے نہیں بلکہ ایک ایسے اندازِ فکر کے لحاظ سے جسے ہم کسی بہتر لفظ سے تعبیر نہ کر سکنے کی وجہ سے ریاضیاتی اندازِ فکر کہتے ہیں‘‘۔
شعورِ عالم کے اوصاف
سرجیمز جینز بظاہر اس احتیاط کی وجہ سے جو ایک سائنس دان کا خاصہ ہے‘ کائناتی شعور کی صرف ایک صفت یعنی ذہانت یا ریاضیاتی فکر کو تسلیم کرتا ہے۔ اس کے خیال میں شعور عالم کی یہی ایک صفت تھی جو ریاضیات یا سائنس کی مدد سے ثابت ہو سکتی تھی اور ہو چکی ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ جب ہم یہ مان لیں کہ کائنات کی آخری حقیقت شعور ہے اور ہم اس کی طرف ریاضیاتی فکر بھی منسوب کرنے لگیں تو پھر اس نتیجہ کو روک نہیں سکتے کہ اس کے اندر وہ تمام صفات موجود ہوں گی جو ہمارے علم کے مطابق شعور کا خاصا ہیں مثلاً اخلاق ‘جذبات‘ طلب ‘مدعا۔ یہ ہو نہیںسکتا کہ شعور ایک جگہ تو اپنی تمام جلالی اور جمالی صفات سے متصف ہو اورد وسری جگہ فقط ریاضیاتی ذہن ہی کا مالک ہو اور پھر اس کی صفات جلال و جمال‘ اس کی خلاقیت ‘ قدرت‘ رحمت اور ربوبیت اس کی تخلیق کائنات سے آشکار ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ہم یہ ماننے پر مجبور ہیں کہ کائنات کا شعور ہماری طرح خود شناس اور خود آگاہ ہے۔ لہٰذا وہ ایک شخصیت یا ایک خود شعوری ہے۔ اسی خود شعوری نے کائنات کو پیدا کیا ہے اسی نے اس کو حیوانی مرحلہ میں ارتقاء کی منزلوں سے گزارا ہے اور بالآخر یہی خود شعوری ہے جو انسان میں جلوہ گر ہوئی ہے۔
مقصدیتِ ارتقاء کا سبب
اگر ہم ڈریش اور بعض دوسرے ماہرین حیاتیات کے نتائج کو جو ڈارون کے میکانکی نظریہ سے اختلاف رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جاندار کے اندرونی ارتقائی رجحانات ایک مقصد یا مدعا یا پلان کے مطابق اظہار پاتے ہیں۔ عصر جدید کے ماہرین طبعیات کے اس نتیجہ سے ملا کر دیکھیں کہ کائنات کی حقیقت شعور ہے تو ہماری سمجھ میں آ جاتا ہے کہ ان ماہرین حیاتیات کے نتائج درست ہیں اور جاندار کے جسم کا مخفی پلان یا مقصد یا مدعا اسی شعورِ عالم کا پلان یا مقصد یا مدعا ہے اور یہ پلان صرف جاندار کے جسم کے اندر ہی نہیں بلکہ ساری کائنات کے اندر کام کر رہا ہے۔ اور کائنات کا ارتقاء اسی کے مطابق ہو رہا ہے اور انسان بھی اسی پلان کے ماتحت خود شعوری کے وصف سے بہرہ ور کیاگیا ہے ۔ ڈریش کہتا ہے ساری کائنات کی بھی ایک اینٹی لیچی ہے جسے لوگ خدا کہتے ہیں اور بعض سائنس دان کائنات کو بھی بجا طور پر ایک زندہ جسم(Organism) قراردیتے ہیں۔