قرآن اور علمِ جدید (یونی کوڈ فارمیٹ)

اقتصادی مساوات اور اسلام

 

ایک غلط عقیدہ

ہم میں سے بعض کا خیال ہے کہ اسلام اقتصادی مساوات کا حامی نہیں بلکہ ایک ایسے اقتصادی نظام کو ہمیشہ قائم رکھنے کا حامی ہے جس میں دولت مندوں سے کچھ روپیہ لے کر جماعت کے مفلس لوگوں کی بنیادی معاشی ضروریات مثلاً خوراک‘ رہائش اور لباس کا انتظام کر دیا جائے گویا اُن کے خیال میں مفلسوں کے ساتھ ساتھ سماج میں دولت مندوں کا وجود ضروری ہے اور اسلام اس کا تقاضا کرتا ہے۔ اور اُن کا خیال ہے کہ اگر ایسا نہ ہوتو زکوٰۃ کا حکم ‘جو اسلام کی پانچ بنیادوں میں ایک ہے‘ بے کار ہو جاتا ہے۔

درحقیقت یہ نقطۂ نظر اسلام کی علمی اور عقلی بنیادوں اور اس کے مقاصد اور طریق کار کے بارے میں ایک شدید غلط فہمی کانتیجہ ہے۔

 

تکمیل ضرورت کے درجے

ظاہر ہے کہ بنیادی اقتصادی ضروریات کی تکمیل بھی کئی درجوں کی ہوتی ہیں مثلاً ہم ان ضروریات کی تکمیل پر پچاس روپے ماہوار سے لے کر پانچ ہزار روپیہ ماہوار تک اور کئی صورتوں میں اس سے بھی زیادہ خرچ کر سکتے ہیں۔ اور سچ پوچھئے تو تہذیب و تمدن کے اس زمانہ میں ان ضروریات پر خرچ کرنے کی کوئی حد ہی نہیں۔ ایک دولت مند جو ایک عالی شان اورسامان سے لیس بنگلہ میں رہتا ہے۔ گوناگوں پرتکلف غذائیں کھاتا ہے اور رنگارنگ کا مکلف لباس زیب تن کرتا ہے۔ ان ہی بنیادی اقتصادی ضروریات پر خرچ کرتا ہے اور ایک مفلس جو ایک معمولی سے مکان میں رہتا ہے‘ معمولی خوراک کھاتا ہے اور معمولی کپڑے پہنتا ہے وہ بھی ان ہی ضروریات کی تکمیل کرتا ہے۔ لیکن دونوں کی تکمیل ضروریات میں بہت فرق ہے اور فرق کا سبب یہ ہے کہ ہماری ہر ایک بنیادی معاشی ضرورت کے دو حصے ہوتے ہیں۔

 

ضرورت کے دو حصے

ایک حصہ تو بقائے حیات سے تعلق رکھتا ہے کہ جب تک انسان موسم کے لحاظ سے ایک خاص قسم کا لباس نہ پہنے‘ ایک خاص قسم کے مکان میں نہ رہے اور ایک خاص مقداراور صنف کی غذا نہ کھائے وہ زندہ ہی نہیں رہ سکتا۔ یہ ہماری اقتصادی ضرورت کا حیاتیاتی (Biological)حصہ ہے جسے پتھر کے زمانہ کا انسان بھی پورا کرتا تھا۔ دوسرا حصہ طرز بود و باش میں جذبۂ حسن کی تشفی سے تعلق رکھتا ہے کہ جب انسان کے پاس ذرائع موجود ہوں تو وہ چاہتا ہے کہ خوراک عمدہ‘ لذیذ‘ متنوع‘ خوشنما اور صحت افزاء اور جسم پرور ہو اور اگر ذرائع میسر آتے جائیں تو وہ چاہتا ہے کہ غذا کی یہ خوبیاں حد و حساب سے باہر ہوتی جائیں۔ اسی طرح سے اگر ذرائع میسر ہوں تو مکان اور رہائش کی ضروریات کی تشفی میں بھی وہ بے حد و حساب عمدگی اور حسن پیدا کرنا چاہتا ہے ۔ طرز بود و باش میں انسان کا یہ ذوق حسن اس کے وصف انسانیت سے پیدا ہوتا ہے۔

 

طلب جمال کا اقتصادی پہلو

کیونکہ بحیثیت انسان کے اس کے اندر طلب حسن کا جذبہ ہے جس سے حیوان بہرہ ور نہیں۔ لہٰذا یہ اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہیے کہ اس طریق سے ان ضروریات کی تشفی میں نہ کوئی گناہ ہے اور نہ عیب بلکہ ایک خوبی کا پہلو ہے جسے خدا پسند کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس نے انسان کو اپنی زندگی میں یہ حسن و جمال پیدا کرنے کی توفیق دی ہے :  ((اِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ وَیُحِبُّ الْجَمَال)) ۔ اسی خوبصورت طرزِ زندگی کے بارہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:

 

{  قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِيْنَةَ اللّٰهِ الَّتِيْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِهٖ وَالطَّيِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِط } (الاعراف:۳۲)

 

’’کہو کہ خدا نے اپنے بندوں کے لیے جو زینت کا سامان پیدا کیا ہے اور کھانے پینے کی عمدہ عمدہ چیزیں پیدا کی ہیں ان کا استعمال ناجائز کس نے قرار دیا ہے۔‘‘

 

طرز بود و باش میں جذبۂ حسن کے اظہار میں بھی حسن حقیقی کی محبت ترقی کرتی ہے۔ طرز بود و باش کا حسن کسی قوم کی تہذیب اور تمدن کے معیار کا پتہ دیتا ہے۔ اگر انسان کی زندگی سے اس عنصر کو نکال دیا جائے تو متمدن انسان جو اس وقت دنیا کی رونق کو دیکھ کر خدا کی عظمت کے آگے سر جھکاتا ہے ‘ وحشی ہو جائے اور پھر اسی طرح سے حیوانات کی سطح پر آ جائے جیسے کہ پہلے تھا۔

یہ ہماری بنیادی اقتصادی ضروریات کا نفسیاتی(Psychological) یا جمالیاتی (Artistic)پہلو ہے۔ اور ہر انسان کا یہ حق ہے کہ جہاں تک اسے ذرائع میسر آئیں وہ اپنی ضروریات کے اس پہلو کو بھی مطمئن کرے اور خدا کا شکر بجا لائے‘ لیکن ہر شخص اپنی ضروریات کے اس پہلو کی طرف اس وقت توجہ کرتا ہے جب اسے یقین ہو کہ ضروریات کا حیاتیاتی پہلو مطمئن ہونے کے بعد دولت بچ رہے گی جوں جوں کسی شخص کے پاس دولت بڑھتی جائے گی وہ اپنے اندرونی جذبۂ حسن ہی کی وجہ سے اپنی اقتصادی ضروریات کے جمالیاتی پہلو کو زیادہ سے زیادہ مطمئن کرنے کی کوشش کرے گا۔ اسی چیز کو ہم معیارِ زندگی کے ترفع کا نام دیتے ہیں۔

 

اسلامی اقتصادی نظام کی بنیاد

اب اگر ہم زکوٰۃ کی صورت میں یا کسی اور صورت میں دولت مندوں کی دولت کا ایک نہایت ہی قلیل حصہ جس سے ان کی اقتصادی ضروریات کے جمالیاتی پہلو کو کوئی خاص نقصان نہ پہنچے ‘ لے کر مفلسوں کو دے دیں تاکہ وہ فقط اپنی حیاتیاتی ضروریات کو پورا کر کے زندہ رہیں تو یہ دولت مندوں کی منفعت طلبی‘ خود پرستی اور سنگدلی کے شدید نقصانات سے معاشرہ کو بچانے کی ایک فوری ابتدائی تدبیر ہے نہ کہ اسلام کا پورا مطالبہ یا اسلام کا وہ آخری نصب العینی اقتصادی نظام جو خدا پرستی کے تصور سے بالآخر لازماً پیدا ہوتا ہے اور جسے خدا اور اس کا رسولؐ بالآخر وجود میں لانا چاہتے ہیں خدا کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے کہ جب تک ہم میں سے کوئی دولت مند اپنے مفلس بھائیوں کے لیے بھی ایک ایسی ہی خوبصورت طرزِ زندگی نہیں چاہتا جو وہ اپنے لیے چاہتا ہے اس وقت تک اس کا ایمان کامل نہیں خواہ وہ زکوٰۃ بھی باقاعدگی سے ادا کرتا رہے اور یہ میں ہی نہیں کہہ رہا بلکہ ہمارے پاس تاجدار رسالتؐ (فداہ امی وابی) کا ایک ارشاد بالکل ایسے ہی الفاظ میں موجود ہے:

 

((وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبَّ لِاَخِیْہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ))

 

’’مجھے اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن کامل نہیں جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی کچھ نہ چاہے جو وہ اپنے لیے چاہتا ہے۔‘‘

 

اگر ہر شخص اپنے بھائی کے لیے عملی طور پر وہی پسند کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے تو اس کا نتیجہ دولت کی مساوی تقسیم کے سوائے اور کیا ہو سکتا ہے۔ اب اگر ہم میں سے ہر دولت مند اس ارشاد پر عمل کرے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ حیاتیاتی ضروریات کی سطح سے اوپر کی تمام دولت ہم سب میں برابر تقسیم ہو جائے گی۔ اس سے دولت مند اپنی جمالیاتی اقتصادی ضروریات اس حد تک تو پورا نہ کر سکیں گے البتہ جماعت کی اکثریت کا معیار زندگی بلند ہو جائے گا اور وہ زیادہ انسانی قسم کی زندگی بسر کرنے لگیں گے۔

 

اقتصادی مساوات کا مفہوم

تاہم اقتصادی مساوات سے مراد ایسی مساوات نہیں جس میں ہر فرد کے لیے دولت کی تقسیم نقدی یا جنس کے پیمانہ سے ناپ کر برابر کر دی گئی ہو۔ کیونکہ ایسی مساوات کا نتیجہ عدم مساوات ہو جائے گا۔ بعض لوگوں کے پاس ان کی حیاتیاتی ضروریات سے بہت زیادہ بچے گا۔ بعض کے پاس کم اور بعض اپنی حیاتیاتی ضروریات کو بھی پورا نہ کر سکیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر شخص کی ضروریات ایک جیسی نہیں ہوتیں مثلاً عورت اور مرد کی ضروریات‘ جوان‘ بچے اور بوڑھے کی ضروریات‘ بیمار اورتندرست کی ضروریات‘ سرد اور گرم علاقوں کے رہنے والوں کی ضروریات الگ الگ ہیں۔ اقتصادی مساوات سے مراد دولت کی ایسی تقسیم ہے جو ہر شخص کی اقتصادی ضروریات کے مساوی ہو۔ اگر کوئی شخص اقتصادی مساوات کے اس تصور کے لیے ‘ اقتصادی عدل کی اصطلاح استعمال کرتا ہے تو نام کا اختلاف اہمیت نہیں رکھتا۔ لیکن اگر اقتصادی عدل سے مراد دولت کی ایسی تقسیم ہے جس کی رو سے بعض افراد تو حد سے زیادہ اپنی جمالیاتی ضروریات کی تکمیل کریں اور بعض اُن کی تکمیل سے بالکل محروم رہیں تو اسلام اسے نہ عدل سمجھتا ہے اور نہ پسند کرتا ہے۔

 

سوشلسٹوں کا نعرہ

سوشلسٹوں کے نزدیک بھی اقتصادی مساوات کے معنی یہی ہیں۔ وہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر دولت کو نقدی کے معیار سے ناپ کر برابر کرنے کی کوشش کی جائے تو اس سے اقتصادی مساوات پیدا نہیں ہو گی چنانچہ ان کا نعرہ ہے:

 

’’ہمارا نصب العین یہ ہے کہ اگر ابتداء میں ہر شخص کو اُس کے کام کے مطابق دینے کے سوائے چارہ نہ ہو تو بالآخر ہر شخص کو اس کی ضروریات کے برابر دیا جائے‘‘۔

 

لیکن انہوں نے اپنی اس کوتاہی کو تسلیم کیا ہے کہ وہ اس قسم کی مساوات قائم نہیں کر سکتے۔ چنانچہ اب ان کا نعرہ عملی زندگی کے شکنجہ میں سکڑ کر یہ رہ گیا ہے:

 

’’ہمارا نصب العین یہ ہے کہ اگر ابتداء میں ہر شخص کو اس کی قابلیت کے مطابق دینے کے سوائے چارہ نہ ہو تو بالآخر ہر شخص کو اس کے کام کے برابر دیا جائے۔‘‘

 

سوشلسٹ نظام میں کام کے لحاظ سے دولت کی مساوی تقسیم ممکن ہے۔ لیکن کام کا لحاظ کیے بغیر ہر شخص کی ضروریات کے مطابق دولت کی مساوی تقسیم ممکن نہیں۔ اس قسم کی اقتصادی مساوات کے لیے اسلام جیسا ایک فطرتی اقتصادی نظام ہی کام دے سکتا ہے جو روحانی بنیادوں پر استوار کیا گیا ہو۔ ایسے نظام میں دولت خودبخود ہر شخص کی ضروریات کے مطابق مساوی طور پر تقسیم ہو جاتی ہے۔

 

اسلام کا اعتراض

سوشلزم کے خلاف اسلام کا اعتراض یہ نہیں کہ وہ کیوں دولت کو مساوی طور پر تقسیم کرنا چاہتا ہے یا کیوں اس غرض کے لیے افرا د کی اقتصادی ضروریات کی پیداوار یا بہم رسانی کا کام جماعت کی تحویل میں دے دیتا ہے بلکہ سوشلزم کے خلاف اسلام کا اعتراض یہ ہے کہ وہ اس مقصد کے حصول کے لیے ایک غلط طریق کار اختیار کرتا ہے‘ جو نہ صرف یہ کہ اس مقصد کو قطعاً حاصل نہیں کر سکتا بلکہ جو اس مقصد میں ناکام اور نامراد ہونے کے علاوہ انسان کی زندگی کے اُس مقصد کو بھی ‘جو اس سے برتر اور بلندتر ہے‘ نظر انداز کرتا ہے۔اس کی ترقیوں کو روک دیتا ہے اس کی پوشیدہ فطرتی صلاحیتوں کو پامال کرتا ہے اور اس کو اپنے اس شاندار مستقبل کی طرف آگے بڑھنے نہیں دیتا جو ان صلاحیتوں کی وجہ سے اُس کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ سچی ‘ کامیاب اور پائیدار اقتصادی مساوات فرد کی ضمیر کے اندر ہی سے پیدا ہو سکتی ہے اور اسے وجود میں لانے کا طریق یہ ہے کہ فرد کی روحانی تربیت کی جائے اور اس کے جذبۂ اخوت کو ‘جو اللہ تعالیٰ کی محبت کا ایک پہلو یا ایک جزو ہے‘ خدا کی محبت کی نشوونما سے بیدار کیا جائے۔ لیکن سوشلزم اس بات کو نہیں سمجھتا اور اقتصادی مساوات کو فرد پر باہر سے ٹھونسنا چاہتا ہے۔

 

اسلام کا ایک اور اعتراض

پھر سوشلزم کے خلاف اسلام کا اعتراض یہ بھی نہیں کہ وہ جبر کو کیوں کام میں لاتا ہے اور فرد کے ساتھ سختی کا برتاؤ کیوں کرتا ہے بلکہ اسلام کا اعتراض یہ ہے کہ وہ جبر کو غلط طور پر کام میں لاتا ہے۔ وہ جبر کو فرد کے حق میں استعمال نہیں کرتا بلکہ اس کے خلاف استعمال کرتا ہے ایسا جبر ‘جو فرد کو اس کے نفس کی برائی سے پناہ دے ‘فرد کی صلاحیتوں کو بیدار کرتا ہے‘ اس کے ممکنات کو ظہورمیں لاتا ہے اور اس کی خود شعوری کو نشوونما کرنے اور بلندتر مقامات کی طرف اٹھنے کا موقع دیتاہے۔ ایسا جبر فرد کے حق میں کام آتا ہے اس کے خلاف کام میں نہیں آتا۔ اسلام اس قسم کے جبر کا حامی ہے مخالف نہیں۔

 

اقتصادی مساوات کا مقصد

ایک فرد انسانی کا وجود خود شعوری کا مظہر یا مقام ہے اور انسان کی زندگی کی غرض و غایت یہ ہے کہ اس کی خود شعوری آزادی کے ساتھ نشوونما پاتی رہے۔ ریاست کا فرض اس کے سوائے اور کچھ نہیں کہ خود شعوری کی تربیت کے کام میں فرد کی اعانت کرے اور ایسے حالات پیدا کرے کہ فرد کسی رکاوٹ یا مزاحمت کے بغیر خواہ وہ رکاوٹ اندرونی ہو یا بیرونی اپنی خود شعوری کی ترقی کو حد کمال تک پہنچائے۔ اگر اقتصادی مساوات اس مقصد کے ماتحت پیدا نہیں ہوتی اور پیدا ہونے کے بعد اس مقصد کے ماتحت قائم نہیں رہتی تو محض بے سود ہی نہیں بلکہ حد درجہ ضرر رساں ہے۔

 

سوشلسٹوں کی جہالت

لیکن اگر کوئی حکومت خود شعوری کی ترقی کے لیے موافق حالات پیدا کرنا چاہتی ہو تو اس کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ خود شعوری کے اوصاف اور خواص کیا ہیں۔ وہ کیا چاہتی ہے اور کیونکر تربیت اور ترقی پاتی ہے لیکن افسوس ہے کہ سوشلزم کے پرستار خود شعوری کی حقیقت اور فطرت سے ناواقف ہیں۔ لہٰذا ایک سوشلسٹ ریاست اس کی تربیت کے لیے کچھ کرنے سے قاصر ہے۔ اس کی توجہ کا مرکز جسم کی پرورش ہوتا ہے جسے وہ خود شعوری کی قیمت پر انجام دیتی ہے حالانکہ جسم کی پرورش صرف اُسی حد تک انسان کے کام کی چیز ہے جس حد تک کہ وہ خود شعوری کا ایک ذریعہ ہو۔

 

نامرادی کاباعث

سوشلزم اقتصادی مساوات کا مقصد کیوں حاصل نہیں کر سکتا اور کیوں ضروری ہے کہ وہ آخر کار اس مقصد کے حصول میں ناکام اور نامراد رہے؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ سوشلزم اس مقصد کے حصول کے لیے خود شعوری کے جذبۂ حسن کو روکتا ہے۔ لیکن یہ جذبہ رک نہیں سکتا بلکہ وہ قوت جو اسے روکنا چاہے بالآخر فنا ہو جاتی ہے۔ اس جذبہ کو روکنا کائنات کی ارتقائی حرکت کو روک دینے کے مترادف ہے۔

 

ارتقاء کی مزاحمت

چونکہ سوشلزم ارتقائے کائنات کی قوتوں سے ٹکر لیتا ہے جن کا عمل رک نہیں سکتا لہٰذا ضروری ہے کہ وہ خود برباد ہو جائے ۔ خود شعوری کا جذبۂ حسن ایک بہتے ہوئے دریا کی طرح ہے جب دریا کے راستہ میں کوئی رکاوٹ آ جائے تو دریا کا بہاؤ نہیں رکتا بلکہ اس کا پانی آہستہ آہستہ جمع ہوتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ دریا اُس رکاوٹ کے اوپر سے گزر جاتا ہے یا اسے بہا کر لے جاتا ہے۔ سوشلزم چونکہ خود شعوری کے جذبۂ حسن و کمال کو روکنا چاہتا ہے ضروری ہے کہ اس کے خلاف مزاحمت کی ایک قوت نامعلوم کے طور پر اور آہستہ آہستہ جمع ہوتی رہے۔ یہاں تک کہ بالآخر اس کے نظام کو درہم برہم کر دے۔ سوشلزم ایک غلط آدرش ہے اور ایک غلط آدرش کی بربادی کا سامان اُس کی تعمیر کے اندر ہی مضمر ہوتا ہے۔

 

مذہب کی خوشہ چینی اور ناشکری

ضمناً یہاں اس بات کا ذکر کر دینا چاہیے کہ اشتراکیوں نے مذہب پر یہ الزام لگایا ہے کہ وہ سرمایہ دارانہ لوٹ کھسوٹ کا حامی ہے لیکن دراصل یہ مذہب ہی ہے جو ہر شخص کے حقوق کا محافظ ہے اور سوشلزم جو مزدور کے حقوق کی حفاظت کا دعویٰ کرتا ہے وہ اس کام کے لیے (جسے وہ کبھی کامیابی سے انجام نہیں دے سکتا )مذہب ہی کا ایک ورق چراتا ہے۔انصاف‘ آزادی‘ اخوت اور ہمدردی کے تصورات جن پر سوشلزم اپنے آپ کو مبنی ظاہر کرتا ہے مذہب کے سوائے اور کہاں سے آئے ہیں۔ مذہب ہر شخص کی محنت کا پھل محفوظ کرنا چاہتا ہے اور سوشلزم مذہب کی خوشہ چینی کرنا چاہتا ہے لیکن ناشکری سے اس بات کو نہیں مانتا۔

 

مذہب کا احسان

مذہب نے آزاد مسابقت(Free Competition) پر جو حقوق مبنی کر رکھے تھے وہ اب معاشرہ کے ارتقاء کے ایک خاص مقام پر خود ایک دوسرے کے ساتھ متصادم ہو رہے ہیں۔ لہٰذا مذہب ہی کے نقطۂ نظر سے ان کے درمیان صلح کی ضرورت ہے اور اس تصادم کا پتہ بھی مذہب ہی سے چلتا ہے اگر مذہب نے انسان کو ایک خاص تعلیم نہ دی ہوتی اور وہ تعلیم عام نہ ہو چکی ہوتی تو وہ لوگ جو اب اپنے آپ کو سوشلسٹ کہتے ہیں کبھی معلوم نہ کر سکتے کہ ظلم کہاں ہو رہا ہے‘ انصاف کا خون کہاں کیا جا رہا ہے‘ سرمایہ دار کیا کر رہا ہے اور مزدور کے ساتھ کیا گزرتی ہے اور پھر آزاد مسابقت کے بغیر جس کی اجازت مذہب نے دے رکھی تھی‘ معاشرہ ارتقاء کے اس مقام پر بھی نہ پہنچ سکتا جہاں اس کا رخ بدلنے کی ضرورت ہوتی۔

مذہب زندگی کے ہر مقام پر زندگی کی تنقید کرتا ہے اور سوشلزم اور جمہوریت ہی نہیں بلکہ دنیا کی تمام تحریکیں ‘ جن کو انسان نے کسی حد تک قبولیت سے نوازا ہے‘ مذہب ہی کی تنقید سے فائدہ اٹھاتی رہی ہیں۔

 

اپنی ہی دشمنی

سوشلزم مذہب کا مخالف ہے لیکن مذہب سے الگ ہو کر ان مذہبی اخلاقی اقدار کو عمل میں لانا جن کی نظری حمایت اور عملی تائید سوشلزم نے خواہ مخواہ اپنے ذمے لے رکھی ہے کبھی ممکن نہیں۔ سوشلزم زود یا بدیر مجبور ہوگا کہ یامذہب کے جس عنصر کو وہ چرانا چاہتا ہے اُسی کے پاس رہنے دے اور یا مذہب کے تمام عناصر کو اپنا لے۔

 

جماعتی انتظام اسلامی تصور ہے

جہاں تک افراد کی ضروریات کے جماعتی انتظام کے ذریعہ سے اقتصادی مساوات کے قیام کا تعلق ہے حقیقت نہ صرف یہ ہے کہ اس قسم کی اقتصادی مساوات کے خلاف قرآن اور حدیث میں ایک لفظ بھی موجود نہیں بلکہ قرآن اور حدیث کی تعلیم اس کی تائید کرتی ہے اور بالآخر اس کی توقع رکھتی ہے اور ایک اسلامی جماعت کے روحانی ارتقاء کے ایک خاص مقام پر اسلامی جماعت کے اندر اس کا خود بخودوجود میں آ جانا اور قائم رہنا ضروری ہے۔

 

اسلام کا منشاء

اس مقام پر بے شک زکوٰۃ اس شکل میں نافذ نہیں ہو گی جس سے ہم آشنا ہیں لیکن زکوٰۃ کی یہ معروف شکل جس میں حکومت فالتو جمع شدہ مال کا چالیسواں حصہ لیتی ہے اور باقی جوں کا توں جمع رہتا ہے۔ اسلام کے اقتصادی نظام کا ایک مستقل جزو نہیں اور اسلام کا منشا ہرگز یہ نہیں کہ زکوٰۃ کی اس شکل کو ہمیشہ قائم رکھا جائے بلکہ اسلام کا آخری منشا یہ ہے کہ فرد کو روحانی طور پر اس بات کے لیے تیار کیا جائے کہ وہ اپنی دولت میں دوسرے بھائیوں کو مساوی طور پر شریک کر سکے۔

 

افلاس اور فالتو دولت دونوں خدا کو پسند نہیں

زکوٰۃ کے حکم کا عملی اجراء دو صورتوں کے جمع ہونے پر موقوف ہے:

اول :  یہ کہ مسلمانوں کی جماعت کے اندر مفلسوں کی ایک تعداد موجود ہو۔

دوم :  یہ کہ مسلمانوں کی جماعت کے اندر ایسے دولت مندوں کی تعداد موجود ہو جن کے پاس فالتو مال جمع ہو۔ اب بتایئے کہ ان دونوں شرائط میں سے کون سی شرط ایسی ہے جو اسلام کو پسند ہے اور جسے اسلام موجود رکھنا چاہتا ہے اور کون سی شرط ایسی ہے جو اسلام کو ناپسند نہیں اور جسے اسلام دورکرنا نہیں چاہتا۔ اسلام نہ یہ چاہتا ہے کہ کوئی شخص مفلس ہو اور دوسروں کے رحم و کرم پر زندگی بسر کرے۔حضورﷺ نے فرمایا ہے:

 

((کَادَ الْفَقْرُ اَنْ یَّـکُوْنَ کُفْرًا))

 

’’قریب ہے کہ مفلسی کفر بن جائے‘‘۔

 

حضورﷺ یہ دعا مانگا کرتے تھے:

 

((اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْـکُفْرِ وَالْفَقْرِ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ غَلَبَۃِ الدَّیْنِ))

 

’’اے اللہ میں کفر سے اور ناداری سے پناہ مانگتا ہوں اور قرض کے غلبہ سے بھی‘‘۔

 

تقسیم مال کی علّت

اور نہ ہی اسلام چاہتا ہے کہ بعض لوگوں کے پاس فالتو دولت جمع ہو جائے۔ اس سلسلہ میں قرآن اور حدیث کے ارشادات اس قدر واضح ہیں کہ شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ قرآن نے مال کی تقسیم کا اصول ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:

 

{مَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى فَلِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۙ كَيْ لَا يَكُوْنَ دُوْلَةًۢ بَيْنَ الْاَغْنِيَاۗءِ مِنْكُمْ } (الحشر:۷)

 

’’اور بستیوں کے کافروں سے خدا کے رسول کو جو فے کا مال حاصل ہو وہ اللہ کے لیے اور رسول کے لیے اور اس کے اہل قرابت کے لیے اور یتیموں‘ مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے تاکہ دولت تمہارے دولت مندوں ہی کے حلقہ میں نہ پھرتی رہے۔‘‘

 

حضورﷺ نے جن الفاظ میں زکوٰۃ کی تعریف کی ہے اُن میں اس بات کا اشارہ موجود ہے کہ زکوٰۃ کا مقصد دولت کی مساوی تقسیم ہے:

 

((صَدَقَۃ تُؤْخَذُ مِنْ اَغْنِیَائِ ھِمْ وَتُرَدُّ عَلٰی فُقَرَائِ ھِمْ))

 

’’زکوٰۃ ایک صدقہ ہے جو امراء سے لے کر غرباء کو دیا جاتا ہے۔‘‘

 

یہ صدقہ کسی خاص شرح پر نہیں ٹھہرتا بلکہ اصطلاحی زکوٰۃ وصول کرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے چنانچہ حضورﷺ کا ارشاد ہے:

 

((وَفِی الْمَالِ حَقٌّ سِوَی الزَّکَاۃِ))

 

’’اور مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حقوق ہیں۔‘‘

 

ظاہر ہے کہ یہ حقوق اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتے جب تک کہ سارا فالتو مال اللہ کی راہ میں نہ دے دیا جائے۔

 

انفاق عفو کا حکم

چنانچہ جب لوگوں نے حضورﷺ سے پوچھا کہ وہ خدا کی راہ میں کس حد تک خرچ کریں تو جو آیت نازل ہوئی اس میں ارشاد تھا کہ اپنا سارا فالتو مال اللہ کی راہ میں دے دو۔

 

{یَسْئَلُوْنَکَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ} (البقرۃ:۲۱۹)

 

’’لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ خدا کی راہ کیا خرچ کریں ان سے کہو کہ جو کچھ بچ رہے۔‘‘

 

اوپر گزارش کی گئی ہے کہ انسان طرزِ زندگی میں حسن پیدا کرنے کے لیے جو خرچ کر سکتا ہے اس کی کوئی حد نہیں اور اس کی جمالیاتی ضروریات کے اعتبار سے اس کی دولت کا کوئی حصہ فالتو نہیں ہوتا۔

 

حدیث کی روشنی

لہٰذا یہاں فالتو مال سے مراد دولت کا وہ حصہ ہے جسے ایک شخص کو اپنی جماعت کے دوسرے افراد کے معیارِ زندگی کے لحاظ سے فالتو سمجھنا چاہیے۔ اس قسم کے مال کو جماعت کے مجموعی مفاد کے لیے صَرف کرنے کا نتیجہ یہی ہو سکتا ہے کہ دولت تمام افراد کی ضروریات کے مطابق مساوی طو رپر تقسیم ہو جائے اور جنگ کی طرح کے ہنگامی حالات میں حضورﷺ دولت کی اس قسم کی مساوی تقسیم کو لوگوں کی رضامندی پر نہیں چھوڑتے تھے بلکہ حکماً نافذ فرمایا کرتے تھے۔ ایک صحیح حدیث میں ہے:

 

عن ابی سعید الخدری ان رسول اللہ ﷺ قال من کان معہ فضل ظھر فلیعد بہ علی من لا ظھر لہ ومن کان لہ فضل من زاد فلیعد بہ علی من لا زاد لہ قال فذکر من اصناف المال ما ذکرحتی راینا انہ لا حق لاحد منا فی فضل

’’ابی سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جس کے پاس فالتو سواری ہو وہ اس شخص کو دے دے جس کے پاس سواری نہیں اور جس کے پاس فالتو خوراک ہو وہ اس شخص کو دے دے جس کے پاس فالتو خوراک نہ ہو اور راوی کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے اسی طرح سے مال کی اتنی اقسام کا ذکر کیا کہ ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ فالتو مال پر ہمارا کوئی حق نہیں۔‘‘

 

حب مال کی بیخ کنی

فالتو دولت کا کوئی حصہ جمع رکھنے اور حاجت مندوں کی ضروریات پر صَرف نہ کرنے کا محرک صرف ایک ہی ہو سکتا ہے کہ انسان کو دولت سے محبت ہو۔ لیکن خدا کی محبت کے ساتھ دنیا کی محبت جمع نہیں ہو سکتی۔ جب تک مومن اپنے دل میں خدا کی مخلصانہ محبت پیدا نہ کرے جب تک وہ موحد کامل نہ ہو جب تک خدا کی محبت میں یک پسند و یک بین و یک اندیش نہ ہو اس کی خود شعوری ترقی نہیں کر سکتی اور اس کے اخلاق بلند نہیں ہو سکتے۔ مؤمن کی تربیت کی ضروری شرط یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے سوائے اپنے دل سے تمام محبتوں کوکلیتاً خارج کر دے۔ یہی سبب ہے کہ خدا کا ارشاد ہے کہ ایسے مال کو جس سے تمہیں محبت ہو خدا کی راہ میں خرچ کر دو۔ ورنہ تم نیکوکار نہیں بن سکو گے۔

 

{لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ}  (آل عمران:۹۲)

 

’’تم ہرگز نیکی نہیں پا سکتے جب تک اپنے پسندیدہ مال خدا کی راہ میں خرچ نہ کرو۔‘‘

 

ظاہر ہے کہ اس پسندیدہ مال میں سے جسے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ مال بھی شامل ہے جو زکوٰۃدینے کے بعد انسان کے پاس بچ رہتا ہے اور انسان اس کی محبت کی وجہ سے اُس سے جدا ہونا نہیں چاہتا۔ باقی رہا ناپسندیدہ مال سو اسے کوئی شخص اپنے پاس جمع رکھتا ہی نہیں کہ اسے خرچ کرنے کا حکم دیا جاتا۔

جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت طلحہ(رضی اللہ تعالٰی عنہ )حضورﷺ کے پاس آئے اور کہا کہ میرا ایک باغ ہے جو مجھے بہت عزیز ہے۔ میں اسے خدا کی راہ میں دینا چاہتا ہوں ۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ باغ اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کر دو۔ چنانچہ حضرت طلحہؓ نے اسے اپنے تین رشتہ داروں میں بانٹ دیا۔

 

کنز مال کی ممانعت

پھر فالتو مال کا خدا کی راہ میں خرچ کرنا ایک ایسی نیکی نہیں جو فقط درجات کو بلند کرتی ہے اور جس کا اختیار کرنا یا نہ کرنا مسلمانوں کی مرضی پر موقوف رکھا گیا ہے بلکہ فالتو مال کا جمع رکھنا اور خدا کی راہ میں خرچ نہ کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک ایسی برائی ہے جس کے لیے سخت سزاکا وعید ہے:

 

{يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ   ۭ وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُوْنَهَا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ  ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ    ۙ (۳۴) يَّوْمَ يُحْمٰي عَلَيْهَا فِيْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوٰي بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوْبُهُمْ وَظُهُوْرُهُمْ ۭهٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ    (۳۵) } (التوبۃ)

 

’’اے ایمان والو بہت سے احبار اور رہبان لوگوں کا مال ناحق طور پر کھاتے ہیں اور خدا کی راہ سے روکتے ہیں وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ان لوگوں کو دردناک عذاب کی خبر دے دو۔ وہ دن یاد کریں جب یہ مال جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا اور اس سے ان کی پیشانیوں ‘پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغ دیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ وہ مال ہے جسے تم نے اپنے آپ کے لیے جمع کیا تھا اب جو کچھ جمع کیا تھا اس کا مزہ چکھو۔‘‘

 

{وَیْلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِ (۱) نِ الَّذِیْ جَمَعَ مَالًا وَّعَدَّدَہٗ (۲) یَحْسَبُ اَنَّ مَالَہٗ اَخْلَدَہٗ ( ۳)}  (الھمزۃ)

 

’’خرابی ہے ہر طعنہ زن عیب جو کے لیے جو مال جمع کرتا ہے اور اس کا حساب رکھتا ہے ۔ یہ شخص سمجھتا ہے کہ اس کا مال ہمیشہ رہے گا۔‘‘

 

ایک پیشین گوئی

پس اگر ضروری ہے کہ اسلام آخر کار اپنے مقاصد میں کامیاب ہو (اور ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ صرف اسلام ہی کے مقاصد بالآخر کامیاب ہوں گے) تو یہ بھی ضروری ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آئے جب افلاس اور فالتو دولت جن کی موجودگی پر زکوٰۃ کا دارو مدار ہے دونوں کا ازالہ اس حد تک ہو جائے کہ پھر زکوٰۃ یا کوئی اور صدقہ لینے اور دینے کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہو اور حضورﷺ نے صاف الفاظ میں اس وقت کے آنے کی پیشین گوئی فرمائی ہے:

 

تصدقوا فانہ یاتی علیکم زمان یمشی الرجل بصدقتہ فلا یجد من یقبلھا یقول الرجل لو جئت بھا بالامس لقبلتھا فاما الیوم فلا حاجۃ لی بھا (صحیح البخاری)

 

’’خیرات کرو۔ بے شک تم پر ایک ایسا وقت بھی آنے والا ہے جب تم میں سے کوئی اپنا صدقہ لیا پھرے گا اور اُسے قبول کرنے والا نہ پائے گا۔ وہ کہے گا کہ اگر تو کل آتا تو میں اسے قبول کر لیتا۔ لیکن آج (حالات بدل چکے ہیں) مجھے اس کی ضرورت نہیں۔‘‘

 

احکام دین فرد اور جماعت کے ارتقائی تصورپر مبنی ہیں

اس کتاب کے گزشتہ صفحات میں اس موضوع پر مفصل بحث ہو چکی ہے کہ اسلام کائنات کے ارتقائی تصور کا حامی ہے اور اسلام کے نزدیک مسلمان فرد اور مسلمان جماعت دونوں روحانی اورنفسیاتی طور پر ترقی پذیر ہیں۔ اسلام فرد اور جماعت کی روحانی ترقی کے انتہائی مقام کو نگاہ میں رکھتا ہے اور اسے قریب لانا چاہتا ہے۔ لہٰذا اس کوشش میں وہ عبوری دور کے لیے بھی احکام صاد کرتا ہے تاکہ ان احکام کی مدد سے مسلمان عبوری مرحلہ سے گزر کر آگے نکل جائے۔ لیکن چونکہ وہ نہیں چاہتا کہ عبوری زمانہ ہمیشہ رہے وہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ ‘جو احکام اس عبوری زمانہ کے ساتھ وابستہ ہیں ‘اُن کا اطلاق ہمیشہ ہوتارہے۔

 

چند مثالیں

مثلاً اسلام شراب نوشی کو پسند نہیں کرتا لیکن ایک وقت وہ تھا جب اس نے شراب نوشی کو تسلیم کیا تھا اور شراب نوشی کے لیے یہ قانون بنایا تھا کہ جب تم نشہ کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ۔

 

{لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى }  (النساء:۴۳)

 

’’نشہ کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ۔‘‘

 

اسلام غلامی کو پسند نہیں کرتا لیکن ایک وقت وہ تھا جب اس نے غلاموں کی خرید و فروخت کو گوارا کیا تھا اور غلاموں کے ساتھ برتاؤ کے قوانین بنائے تھے۔ ان قوانین کا مطلب یہ نہیں کہ وہ چاہتا ہے کہ غلامی کی رسم کو زندہ رکھا جائے تاکہ قرآن کا وہ حصہ جو ان قوانین پر مشتمل ہے‘ بے کار نہ ہو جائے۔ بلکہ ان کا مطلب یہ ہے کہ وہ جانتاہے کہ انسان بدی سے نیکی کی طرف یکایک نہیں بلکہ صرف تدریجاً ہی آ سکتا ہے اور مسلمانوں کی جماعت میں آخر کار غلامی کا وجود باقی نہیں رہے گاکیونکہ وہ اسلام کی روح کے خلاف ہے اور توحید کے عقیدہ اور ربّ العباد کی بندگی کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتا۔

اسی طرح سے اسلام چوری کو پسند نہیں کرتا۔ لیکن اس نے بتایا ہے کہ چور کے ہاتھ کاٹ دیئے جائیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں چوری کی لعنت کو زندہ رکھنا چاہیے تاکہ کتاب اللہ میں اس قانون کی تاقیامت موجودگی کا سبب قائم رہے۔ اور کوئی یہ نہ کہے کہ قرآن کا کوئی حصہ ایسا بھی ہے جو صرف وقتی حالات کے لیے تھا اور اسلام کی تعلیم قیامت تک کے لیے نہیں۔ حالانکہ یہ بالکل قرین قیاس ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آ جائے‘ جب ہر شخص کی ضروریات اس طرح سے پوری ہونے لگیں یا ہر شخص کی سیرت کے اندر دیانت داری کا خیال ایسا راسخ ہو جائے کہ چوری کا امکان ختم ہو جائے‘ اور اسلام چاہتا ہے کہ یہ وقت جلد آئے۔اسلام کے سارے تعزیری احکام صرف اُسی وقت تک نافذ ہو سکتے ہیں جب تک انسانی معاشرہ ترقی کر کے اُس مقام سے آگے نہیں نکل جاتا جہاں ان جرائم کا اقدام ‘جن کی روک تھام کے لیے یہ تعزیرات تجویز کی گئی ہیں‘ ممکن ہے۔

 

عبوری دَور کے احکام

اسی طرح سے اسلام پسند نہیں کرتا کہ افراد کے پاس فالتو دولت جمع رہے۔ تاہم جب فرد کے دل میں خدا کی محبت یہاں تک ترقی نہیں کرتی کہ جمع شدہ دولت کی محبت پر غالب آ جائے وہ اس وقت تک خود شعوری کے ارتقاء کی تدریج اور تسہیل کے لیے عبوری دور کو تسلیم کرتا ہے اور اس کے لیے جائیداد کی بیع و شریٰ‘ شفعہ تقسیم جائیداد‘ قرضہ‘ زکوٰۃ‘ صدقہ اور عطیہ وغیرہ کے عبوری قوانین نافذ کرتا ہے۔ لیکن اسلام کی تابعداری میں بالآخر فرد کو ایک ایسی روحانی ترقی نصیب ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے پاس فالتو دولت رکھنا نہیں چاہتا۔

شریعت کی پابندی سے خدا کی محبت کا ترقی کرنا اور آخرت کی فکر کا زیادہ سے زیادہ دامن گیر ہوتے جانا ضروری ہے۔ جوں جوں مومن کے دل میں خدا کی محبت ترقی کرتی ہے دنیا اور مال و زر کی محبت کم ہوتی جاتی ہے لیکن یہ ایک بے ساختہ تدریجی عمل ہے اور ہم ایسا نہیں کر سکتے کہ آج ہی یہ فرض کر لیں کہ وہ عبوری دور گزر گیا ہے اور اب ہم ان احکام کو جبراً منسوخ کر سکتے ہیں۔ اس دور سے گزرنے کے لیے ہمیں عرصۂ دراز تک اسلامی تعلیم اور تربیت اور خدا کی محبت کی نشوونما کی ضرورت ہے۔

 

مومن کی ملکیت میں کوئی چیز نہیں ہوتی

دولت دنیا کے متعلق ایک مومن کا نقطۂ نظریہ ہے کہ وہ اس کا مالک نہیں بلکہ اس کا امین ہے اور اسے فقط اس دولت کا حق استعمال دیا گیا ہے تاکہ وہ اس دنیا میں زندہ رہ سکے۔ وہ جس طرح سے خدا کے سوائے کسی کو معبود یا حاکم نہیں سمجھتا اُسی طرح سے اس کے سوائے کسی کو دنیا کی چیزوں کا مالک بھی نہیں سمجھتا۔ جب کثرتِ عبادت سے اُس کی محبت کمال پر پہنچتی ہے تو اس کا یہ احساس نہایت ہی قوی ہو جاتا ہے۔ مال تو ایک طرف وہ اپنی زندگی کو بھی اپنا نہیں سمجھتا ہے۔ اس نے اپنا مال اور اپنی جان دونوں کو اللہ کے پاس بیچ دیا ہے اور اس کے عوض میں اللہ کی رضامندی حاصل کر لی ہے :

 

{اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَاَمْوَالَہُمْ بِاَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَط} (التوبۃ:۱۱۱)

 

’’اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں سے جنت کے عوض میں ان کی جانیں اور اُن کے مال خرید لیے ہیں اور وہ اس تجارت کو نہایت سود مند پاتا ہے۔‘‘  ؎

 

اے کہ می گوئی چرا جامے بجا نے میخری

ایں سخن با ساقئے ما گو کہ ارزاں کردہ است

 

لہٰذا جب وہ دیکھتا ہے کہ بعض لوگوں کو اشد ضروریات کا سامان بھی میسر نہیں تو وہ اپنی فالتو دولت کو جس کے ساتھ اس کا کوئی دلی تعلق نہیں ہوتا بتمام و کمال اللہ کی راہ میں دے دینا آسان سمجھتا ہے اور درحقیقت دولت کے اس استعمال کے سوائے اس کا کوئی اور استعمال وہ جانتا ہی نہیں کیونکہ اس کا کوئی اور استعمال اسے اپنے نصب العین حیات کے ساتھ مطابق نظر نہیں آتا۔

 

فالتو دولت کا صرف ایک استعمال

لہٰذا وہ یہ اقدام بجبر و اکراہ نہیں کرتا بلکہ برضا و رغبت کرتا ہے بلکہ ایک ایسی خواہش سے کرتا ہے کہ جسے روکنا اس کے لیے آسان نہیں ہوتا۔ اس کا مقصد حیات یہ ہے کہ جماعت کے تمام افراد کی خود شعوری ارتقاء کر کے کمال کو پہنچے۔ وہ جانتا ہے کہ جماعت کے مفلس افراد ‘جو اپنی حیاتیاتی ضروریات کو بھی پورا نہیں کر سکتے ‘ ارتقائے خود شعوری کے لیے جدوجہد کرنے سے مجبور ہیں اور وہ اس قابل ہے کہ اپنے مال سے ان کی پریشانیوں کو دور کر کے ارتقاء کے راستہ پر آگے جانے میں اُن کی مدد کر سکے لہٰذا اُن کی خاطر اپنے فالتو مال سے الگ ہو کر وہ اپنے ہی مقصد حیات کی خدمت کرتا ہے۔

 

حضورﷺ کی زندگی کی مثال

اور خود حضورﷺ کی زندگی کی مثال اس سلسلہ میں اس کی راہنما بنتی ہے کہ آپؐ نے فرمایا:

 

((نَحْنُ مَعْشَرَ الْاَنْبِیَائِ لَا نَرِثُ وَلَا نُوْرِثُ))

 

’’ہم انبیاء کا طبقہ ہیں ہم نہ وراثت میں کچھ لیتے ہیں اور نہ دیتے ہیں‘‘۔

 

حضورﷺ کے اس فرمان کو ہم یہ کہہ کر نظر انداز نہیں کر سکتے کہ انبیاء کی بات جدا ہے کیونکہ خدا کی ہدایت یہ ہے کہ ہم حضورﷺ کی زندگی کو اپنے لیے ایک نمونہ بنائیں۔ اور تاریخ اُمت میں ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں جنہوں نے اس نمونہ کو اپنا راہنما بنایا تھا اور جن کو خدا اور خلقت کی محبت نے دولت دنیا کی محبت سے بے نیاز کر دیا تھا۔ اور یہ خیال بھی غلط ہے کہ ہر شخص خدا کی محبت کے اس مقام کو نہیں پا سکتا۔ اگر یہ صحیح ہے تو پھر ہر شخص نجات بھی نہیں پا سکتا اور خدا کی ہدایت صرف چند انسانوں کے لیے رہ جاتی ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہر انسان کی فطرت ایک جیسی ہے اور اس فطرت کا تقاضا بھی ایک ہی ہے‘ یعنی خداکی محبت۔ ہر شخص اس تقاضا کو بدرجۂ کمال پورا کر سکتا ہے اور اسے پورا کرنا چاہیے‘ اسلام یہی چاہتا ہے ۔ درحقیقت جب تک ہم قرآن کے احکام کو ارتقائی نقطۂ نظر سے نہ دیکھیں ہم انہیں ٹھیک طرح سے نہیں سمجھ سکتے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا خود ارتقاء اور اس کے قوانین کو ایک حقیقت سمجھ کر اپنے احکام جاری کرتا ہے۔

 

تلاشِ حسن کے فوری اور آخری تقاضے

یہی سبب ہے کہ کہیں تو یہ حکم ہے کہ شراب ہرگز نہ پیو اور کہیں یہ ارشاد ہوا ہے کہ نشہ کی حالت میں نماز نہ پڑھو۔ کہیں یہ فرمایا کہ اپنا تمام فالتو مال اللہ کی راہ میں دے دو اور کہیں حضورﷺ کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ ان کے فالتو مال سے کچھ حصہ بطور خیرات کے لے لو تاکہ وہ پاک ہو جائیں:

 

{خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ} (التوبۃ:۱۰۳)

 

’’ان کے مال سے بطور صدقہ کے ایک حصہ وصول کر لو تاکہ وہ پاک ہو جائیں۔‘‘

 

ان احکام میں درحقیقت کوئی تضاد نہیں ۔ ایک حکم محبت جمال کا آخری تقاضا ہے اور دوسرا اس کا فوری یا ابتدائی تقاضا۔

 

حدیث لن تضلوا کا مطلب

اگر ہم قرآن کی تعلیم کو ارتقائی نقطۂ نظر سے دیکھیں اور سمجھیں تو ہم اسے صحیح طور پر سمجھیں گے اور پھر یہ تعلیم ہمیں قیامت تک کے تمام حالات کے لیے کفایت کرے گی صحابہؓ کے قول :

 

حَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ (صحیح مسلم) ’’اللہ کی کتاب ہمارے لیے کافی ہے‘‘۔

اور حضورﷺ کے ارشاد:

 

((لَنْ تَضِلُّوْا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِھِمَا)) (مستدرک)

 

’’جب تک تم انہیں تھامے رہو گے گمراہ نہیں ہو گے۔‘‘

 

کے معنی یہی ہیں۔ لیکن جب ہم اسے غلط طور پر سمجھیں گے تو یہ قرآن کی تعلیم ہی نہ ہو گی اور لہٰذا ہمیں قیامت تک راہنمائی کرنا تو ایک طرف موجودہ زمانہ میں بھی راہنمائی نہ کر سکے گی۔ اگر ہم اسلام کو ارتقائی نقطۂ نظر سے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش نہ کریں گے تو ہم اسلام کا ایک ایسا تصور قائم کریں گے جو اسلام کی مرضی کے خلاف صحیح سمت میں انسان کی ترقی کو روک دے گا۔ گویا ہم اسلام ہی کا نام لے کر اسلام کی مزاحمت کریں گے۔ قرآن کی تعلیم فطرتِ انسانی کے ابدی قوانین پر مبنی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ انسان اور کائنات کے ارتقائی تصور کو ملحوظ رکھتی ہے۔

 

قرآن کے تدریجی نزول کا باعث فرد اور جماعت کا ارتقائی تصور ہے

اگر ایسا نہ ہوتا تو قرآن ایک جملۂ واحدہ کے طور پر نازل ہوتا اور فقط ابدی قوانین کے ایک بیان پر مشتمل ہوتا‘ جس کا حالات حاضرہ سے کوئی تعلق نہ ہوتا‘ لیکن قرآن کی تعلیم ٹکڑوں میں نازل ہوئی ہے۔ہر ٹکڑا ایک خاص موقع(Situation) سے تعلق رکھتا ہے ‘ جسے شان نزول کہتے ہیں۔ ہر شانِ نزول ایک خاص نفسیاتی ماحول ہے اور قرآن کا حکم‘ جو اس سے تعلق رکھتا ہے ‘یہ بتاتا ہے کہ انسان کس طرح سے اس نفسیاتی ماحول سے نکل کر اگلے نفسیاتی ماحول میں اپنا قدم رکھے تاکہ اُس سے بھی اگلے نفسیاتی ماحول میں قدم رکھنے کے قابل ہو جائے اور اس طرح سے اس کی ترقی تاقیامت ہوتی رہے۔ گویا قرآن کی تعلیم کا ایک حصہ فطرتِ انسانی کے ابدی قوانین کی روشنی میں انسان کے بدلتے ہوئے حالات پر ایک تنقید و تبصرہ کی صورت میں ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ محبت جمال کے مکمل اظہار کی سمت میں انسان کی راہنمائی کی جائے اور اسے بتایا جائے کہ وہ اپنی عملی زندگی کو اپنی بڑھتی ہوئی محبت جمال کے مطابق کس طرح سے بدلے کہ اس کی محبت کا اندرونی ارتقاء اور بیرونی مظاہرہ اپنے کمال پر پہنچے۔یہ ان لوگوں پر خدا کی خاص رحمت ہے جو قرآن کے پہلے مخاطب تھے۔ ذیل کے ارشادِ خداوندی میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے:

 

{لَقَدْ اَنْزَلْنَا اِلَـیْکُمْ کِتَابًا فِیْہِ ذِکْرُکُمْ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ (۱۰)}  (الانبیاء)

 

’’ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا ذکر ہے کیا تم سوچتے نہیں۔‘‘

 

اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ قرآن جو جملۂ واحدہ کے طور پر نازل نہیں ہوا اس کافائدہ یہ ہے کہ حضورﷺ کے دل کو اطمینان رہتا ہے:

 

{کَذٰلِکَ لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ}  (الفرقان:۳۲)

 

’’اس کا فائدہ یہ ہے کہ ہم تمہارے دل کی ڈھارس بندھاتے رہیں۔‘‘

 

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر قرآن جملۂ واحدہ کی صورت میں نازل ہوتا تو وہ لازماً ابدی اصولوں کی ایک دستاویز کی صورت میں ہوتا اور حالات وقت پر اُن اصولوں کے عملی اطلاق کے بارہ میں کوئی روشنی اس کے اندر موجود نہ ہوتی ۔ اس سے قرآن کی تفہیم‘ قبولیت اور کامیابی میں ایسی رکاوٹیں پیدا ہوتیں جو حضورﷺ کے لیے پریشانی کا موجب ہوتیں۔ اس پریشانی کے ازالہ کے لیے وحی کی ہدایت میں معاشرہ کے وقتی تقاضوں اور افراد کی ارتقائی حالتوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ اور قرآن کوجزء ً جزء ً نازل کیا گیا ہے۔ جس ذات پاک نے قرآن نازل کیا ہے وہ جانتی ہے کہ تخلیق اس کے اپنے بنائے ہوئے قانون تدریجی کی پیروی کرتی ہے اور انسان بدی کی حالت سے یکایک نیکی کے کمال پر نہیں پہنچ جاتا۔

 

روحانی نشوونما کی کھاد

اور یہ بھی جانتی ہے کہ جب فرد اور جماعت کی کسی حالت کے بعد کی ارتقائی حالت کے وجود میں آنے کے لیے نفسِ انسانی کے اندر پورا سامان موجود ہو جائے اور وہ وجود میں آجائے تو اس کے بعد کی دوسری حالت بھی اُس سے خود بخود لازماً نکل آتی ہے اور پھر تیسری اور پھر چوتھی۔ لہٰذا ایک بگڑے ہوئے انسانی معاشرہ کی تربیت کا طریق یہ ہے کہ اس کی موجودہ حالت کے بعد پہلی ارتقائی حالت کو وجود میں لانے کے لیے تعلیم و تربیت کا پورا پورا سامان مہیا کر دیا جائے جس سے وہ حالت وجود میں آ جائے اور پھر غیر مبدل قوانین فطرت کی بنا پر اعتماد رکھا جائے کہ اسی سامان کی مدد سے یہ حالت خود بخود دوسری‘ تیسری اور چوتھی حالتوں میں بدلتی چلی جائے گی‘ یہاں تک کہ معاشرہ اپنے کمال پر پہنچ جائے گا۔ایک مرجھائے ہوئے پودے کی شاخوں پر پھول اور پھل نمودار کرنے کا طریق یہ ہے کہ اسے پانی‘ کھاد‘ ہوا اور روشنی کی کافی مقدار مہیا کر دی جائے پھر اگر وہ ہرا بھرا ہو جائے اور اس میں نئے پتے نکل آئیں تویقین رکھنا چاہیے کہ وہ ان سہولتوں کی بدولت برابر نشوونما پاتا رہے گا یہاں تک کہ ایک دن پھول اور پھل اس کی شاخوں پر نمودار ہو جائیں گے۔ قرآن کا طریق ہدایت یہی ہے وہ معاشرہ کو ایک بچے کی طرح انگلی سے پکڑ کر لے جاتا ہے لیکن توقع رکھتا ہے جب اس بچے کی ٹانگوں میں قوت پیدا ہو گی تو وہ انگلی چھوڑ کر خود بخود اس راستہ پر چلنے لگے گا جس پر انگلی سے پکڑ کر اس کی راہنمائی کی جا رہی ہے۔ وہ معاشرہ کو جامد نہیں سمجھتا بلکہ ترقی پذیر سمجھتا ہے لہٰذا وہ اسے منزل کی انتہا پر ہاتھوں سے پکڑ کر لے جانا ضروری نہیں سمجھتا بلکہ اُسے سب سے پہلے صرف راستہ کی ابتداء پر کھڑا کرتا ہے کہ ادھر آؤ پھر منزل کی طرف اشارہ کر دیتا ہے کہ ادھر چلے جاؤ اور وہ جانتا ہے کہ انسان کی فطرت کے اندر اس بات کی ضمانت موجود ہے کہ جب ایک دفعہ وہ اپنی منزل کے راستہ پر قدم رکھے گا اور منزل اسے صاف دکھائی دینے لگے گی تو وہ ایک اندرونی دباؤ کی وجہ سے برابر اسی راستہ پر چلتا جائے گا۔

 

واپس آنا کفر ہے لیکن آگے جانا عین اسلام ہے

اگر ہم اسلام کے بتائے ہوئے راستہ پر آگے چلتے جائیں تو کوئی حرج نہیں بلکہ اسلام یہی چاہتا ہے لیکن ہم اس راستہ پر قدم واپس نہیں اٹھا سکتے وہ ترک اسلام کے مترادف ہو گا اور گمراہی ہو گی ۔ ہم قرآن کے ایک حکم کا ترک صرف اسی صورت میں کر سکتے ہیں جب ہم اُ س سے بہتر حکم کو(جو ہماری محبت کے ارتقاء کی ایک بلند ترحالت سے تعلق رکھتا ہو) قبول کرنے کے لیے تیار ہوں اور جب ہم اس بات کے لیے تیار ہوں تو ہمیں ضرور پہلے حکم کو ترک کر کے دوسرے اعلیٰ تر حکم کو اختیار کرنا چاہیے اس وقت پہلے حکم کے ساتھ چمٹے رہنا ایسا ہی گناہ ہے جیسا کہ شروع ہی سے اسے اختیار نہ کرنا۔ خدا کا طریق کار بھی ایسا ہی ہے ۔ وہ جب ایک حکم کو منسوخ کرتا ہے تو ارتقاء کے تقاضوں کے مطابق اُس سے بہتر حکم جاری کرتا ہے:

 

{مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِھَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْھَا}  (البقرۃ:۱۰۶)

 

’’جب ہم کسی آیت کو منسوخ کرتے یا محو کرتے ہیں تو اس کی جگہ ایک بہتر آیت کو لاتے ہیں۔‘‘

 

اگر کوئی شخص زکوٰۃ ادا کرتا ہے تو خدا اسے پسند کرتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنا سارا فالتو مال خدا کی راہ میں دے دیتا ہے اور اس طرح سے ادائیگی زکوٰۃ کے حکم سے آزاد ہو جاتا ہے تو خدا اسے اور بھی زیادہ پسند کرتا ہے۔ حضورﷺ نے جب دیکھا کہ حضرت طلحہؓ کے دل میں خدا کی محبت اس حد تک ترقی کر گئی ہے کہ وہ اپنی محبوب جائیداد کو اللہ کی رضا مندی کے لیے اس کی راہ میں صرف کر سکتے ہیں تو آپؐ نے یہ نہیں کہا کہ تم زکوٰۃ جو اسلام کے بنیادی احکام میں سے ایک ہے ‘ کہاں سے ادا کرو گے یا زکوٰۃ ادا کرتے رہو یہی کافی ہے بلکہ فوراً حکم دیا کہ باغ کو رشتہ داروں میں تقسیم کر دو۔ اگر فرد کے لیے جائز ہی نہیں بلکہ مستحسن ہے کہ وہ اپنے سارے فالتو مال کو اللہ کی راہ میں دے کر زکوٰۃ کے حکم سے آگے نکل جائے تو جماعت کے لیے کیوں مستحسن نہیں۔ آخر جماعت مجموعہ افراد ہی کا تو نام ہے۔

 

ارتقاء کے ہر مقام سے احکامِ شریعت کی مطابقت

اسلام کی شریعت ایک ہے جو کبھی نہیں بدلتی اور کبھی ساقط نہیں ہوتی۔ لیکن فرد اور جماعت کے ارتقاء کے ہر مقام کے لیے اس کے احکام جدا ہیں اور یہ سب احکام قول لااِلہ الااللہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ جب انسان کو شریعت کے تقاضوں کی متابعت سے ایک مقام حاصل ہو جاتا ہے تو شریعت کے بلند تر تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اس کے اندر خود اکساہٹ پیدا ہوتی ہے اسی لیے کہا گیا ہے کہ ارتقائے روحانیت کے ایک مقام پر جو چیز نیکی ہے وہی اس سے بلند تر مقام پر بدی ہے:

 

حسنات الابرار سیات المقربین

’’عوام کی نیکیاں خواص کی بدیاں ہیں‘‘۔

چونکہ انسان کے ارتقاء کے بلند ترین مقامات کے لیے بھی تمام ضروری احکام قرآن میں موجود ہیں اس لیے نبوت ختم ہو گئی ہے اور قرآن قیامت تک ہماری ہدایت کے لیے کافی ہے۔

 

حَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ   (صحیح مسلم)

 

’’اللہ کی کتاب ہماری ہدایت کے لیے کافی ہے‘‘۔

 

اسلام کے ترقی یافتہ نظام کی آخری صورت

قرآن کے جن احکام کو اوپر نقل کیا گیا ہے جو تعزیرات سے تعلق رکھتے ہیں یا جو انفرادی جمع شدہ غیر مستعمل سرمایہ کو جائز فرض کرتے ہیں وہ مقصود بالذات نہیں بلکہ اسامی معاشرہ کے لیے ایسی ہدایات ہیں جو معاشرہ کی روحانی ترقی کے ایک مقام تک کام آتی ہیں اور جن کا مقصد یہ ہے کہ معاشرہ وہیں نہ رہے بلکہ ترقی کر کے اس مقام سے آگے گزر جائے پھر آگے جا کر قرآن ہی کے اور احکام معاشرہ پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ اسلامی نظام اجتماعی کی آخری اور کامل ترین صورت وہ نہیں جو ان ابتدائی احکام کے خاکہ میں نظر آتی ہے بلکہ وہ ہے جو ان احکام اور اسلام کے دوسرے احکام کی مخلصانہ جاں فروشانہ پیروی سے ارتقائے خود شعوری کے نتیجہ کے طور پر آخر کار خود بخود پیدا ہوتی ہے۔

 

خدا کی ہدایت منزل کی تعیین اور رُخ نمائی ہے

جب قانونِ ارتقاء کو ایک حقیقت مان لیا جائے کہ نوعِ انسانی ترقی کرتی رہی ہے اور آئندہ ترقی کرتی رہے گی تو پھر خدا کی ہدایت کے معنی یہ نہیں لیے جا سکتے کہ زندگی کا ایک آہنی شکنجہ جس سے نکل کر انسان آگے نہ جا سکتا ہو بلکہ اُس کے معنی یہ ہو جاتے ہیں کہ آخری منزل یا ایک آخری نصب العین کی تشریح اور توصیف اور پھر اس منزل کی تعیین سمت اور رخ نمائی۔ چنانچہ قرآن ایک آخری منزل یا آخری نصب العین پیش کرتا ہے اُس کی مکمل وضاحت کرتا ہے اور اس کے حصول کی اہمیت اور ضرورت پر زور دیتا ہے‘بلکہ اپنا سارا زورِ بیان اسی پر صرف کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ اس نصب العین کی رُخ نمائی کے طور پر ایک فوری ابتدائی اور بنیادی پروگرام بھی پیش کرتا ہے اور اس کے ذریعہ سے ہمیں اس راستہ پر ڈال دیتا ہے جو اس منزل کی طرف جاتا ہے۔ پھر توقع رکھتا ہے کہ اگر ہم اسی سمت میں چلتے رہے تو قدم بقدم آگے بڑھتے رہیں گے۔ یہاں تک کہ اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ جائیں گے۔ یہی سبب ہے کہ قرآن ارتقائے بشر کی تمام ضروریات کو پورا کرتا ہے اور ہر زمانہ میں اس کی راہنمائی کے لیے کفایت کرتا ہے۔

 

مقصودِ حیات

اسلام کے نزدیک فرد اور جماعت کی زندگی کاآخری نصب العین یہ ہے کہ وہ خدا کی محبت کی اندرونی پرورش اور نشوونما کر کے اُسے انتہا تک پہنچائیں اور پھر اپنی بیرونی عملی زندگی میں اس محبت کا اظہار اس طرح سے کریں کہ صفاتِ جمال اس میں پوری طرح سے جلوہ گر ہو جائیں۔ اس طرح سے کرہ زمین پر ایک جنت ارضی وجود میں آجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کی ساری تعلیم کا مدار و محور یہ ہے کہ انسان ایسی محبتوں کا خاتمہ کر دے جو خدا کی محبت کی ممدو معاون نہ ہوں۔

 

اسلام کی پانچ بنیادوں کے اندرونی مقاصد

اس نصب العین کی طرف جو راستہ جاتا ہے اس کی ابتدا وہ ہے جسے حضورﷺ نے اسلام کی پانچ بنیادوں کا نام دیا ہے یعنی خدا کی ربوبیت کا اقرار‘ روزہ‘ حج‘ نماز اور زکوٰۃ۔ چنانچہ ہر ایسے شخص کے لیے جو دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے یہ ضروری ہے کہ اس پروگرام کو قبول کرے اور فی الفور جامۂ عمل پہنا دے۔ ان پانچ بنیادی احکام میں سے ہر حکم ایک ابتدائی پروگرام ہے لیکن ایک انتہائی مقصد اپنے اندر مخفی رکھتا ہے جو مؤمن کے نصب العین حیات یعنی خدا کی محبت کے کمال کا ایک جزو ہے اور اسلام توقع رکھتا ہے کہ مؤمن اس مقصد کو نگاہ میں رکھے گا اور حاصل کرے گا۔

 

کلمۂ توحید کا مقصد

مثلاً کلمۂ توحید کو زبان سے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بالآخر مسلمان اسے زبان سے کہنے پر اکتفا نہ کرے بلکہ یقین پیدا کرے کہ درحقیقت حسن و کمال کی تمام صفات کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اور اس کے سوائے دوسرا اور کوئی نہیں اور یہ یقین ایسا پختہ ہو کہ مسلمان کی ساری عملی زندگی کو معین کر سکے۔

 

روزہ کا مقصد

روزہ کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان بالآخر اس بات کی استعداد پیدا کرے کہ سال میں ایک ماہ نہیں بلکہ سال بھر اللہ تعالیٰ کی محبت اس کی جبلتی حیوانی خواہشات پر غالب رہے۔

 

حج کا مقصد

حج کا مقصد یہ ہے کہ مؤمن عمر میں ایک دفعہ نہیں بلکہ عمر کے ہر لمحہ میں دنیا کے مسلمانوں کے ساتھ وحدت اور اخوت کے رشتہ کو محسوس کرے اور جانے کہ اس رشتۂ‘وحدت و اخوت کی اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن سب کا مشترک معبود ہے اور وہ سب یکساں طور پر اس کے بندے ہیں۔

 

نماز کا مقصد

نماز کا انتہائی مقصد یہ ہے کہ مسلمان دن میں پانچ دفعہ ہی نہیں بلکہ بار بار اس کثرت سے اور ایسے اخلاص اور ایسے خشوع اور خضوع سے خدا کا ذکر کرے کہ اسے درجۂ احسان یا خدا کا دیدار حاصل ہو اور اس کی محبت اور شدید اور اس کا عمل اور پاکیزہ ہو جائے۔

 

حصولِ مقصد کے اور ذرائع

چنانچہ قرآن میں نماز کے علاوہ بھی کثرت ذکر پر زور دیا گیا ہے۔ حالانکہ نماز بھی ذکر ہی کی ایک صورت ہے:

 

{اَقِمِ الصَّلوٰۃَ لِذِکْرِیْ} (طٰہٰ:۱۴)

 

’’میرے ذکر کے لیے نماز قائم کرو۔‘‘

 

{وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّـعَلَّـکُمْ تُفْلِحُوْنَ} (الجمعۃ:۱۰)

 

’’خدا کا ذکر کثرت سے کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘

 

{فَاِذَا قَضَیْتُمُ الصَّلوٰۃَ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ قِیَامًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِکُمْ} (النساء:۱۰۳)

 

’’جب تم نماز سے فارغ ہو جاؤ تو خدا کا ذکر کرو کھڑے بیٹھے یا پہلو پر لیٹے ہوئے۔‘‘

 

چونکہ ذکر کا مقصد خدا کی محبت کو درجۂ کمال پر پہنچانا ہے۔ اس لیے ہدایت یہ ہے کہ بعض وقت ذکر تنہائی میں بھی کرو اور اس میں اخلاص اور خشوع اور خضوع پیدا کرو۔

 

{اُدْعُوْا رَبَّـکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃ} (الاعراف:۵۵)

 

’’اللہ کو پکارو عاجزی سے اور چھپ کر۔‘‘

 

{وَاذْکُرْ رَبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّخِیْفَۃً} (الاعراف:۲۰۵)

 

’’خدا کو اپنے دل میں یاد کرو عاجزی سے اور خوف سے۔‘‘

 

نماز کے مقصد کو پانے کے لیے خشوع ضروری ہے۔

 

{قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ(۱) الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلٰوتِھِمْ خَاشِعُوْنَ(۲)} (المؤمنون)

 

’’بے شک وہ مؤمن جو اپنی نماز میں خدا سے ڈرتے ہیں اپنی مراد کو پہنچیں گے۔‘‘

 

{وَیَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّرَھَبًا وَّکَانُوْا لَنَا خَاشِعِیْنَ (۹)} (الانبیاء)

 

’’وہ لوگ جو اللہ کو رغبت اور خوف سے پکارتے ہیں اور ہم سے ڈرتے ہیں‘‘۔

 

حضورﷺ نے فرمایا ہے:

 

((اَلْاِحْسَانُ اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَـکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّـہٗ یَرَاکَ))  (مسلم)

 

’’درجۂ احسان یہ ہے کہ تو خدا کی عبادت اس طرح سے کرے گویا تو خدا کو دیکھ رہا ہے اور اگر تو خدا کو نہ دیکھ سکے تو وہ تو ہر حالت میں تجھے دیکھ رہا ہے۔‘‘

 

یہ درجۂ احسان محبت کے نقطۂ کمال پرحاصل ہوتا ہے۔

 

زکوٰۃ کا مقصد

اسی طرح سے زکوٰۃ اگرچہ اسلام کے بنیادی احکام میں سے ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان بالآخر اپنی فالتو دولت کا تھوڑا سا حصہ نہیں بلکہ اپنی تمام فالتو دولت خدا کی راہ میں دے دینا سیکھے۔

 

سمت منزل کے نشانات

اسلام کے یہ پانچ بنیادی احکام درحقیقت منزل کی سمت کے نشانات ہیں جو رہرو کی سہولت کے لیے راستہ پرآویزاں کیے جاتے ہیں اور خود منزل نہیں ہوتے۔ لیکن ہم نادانی سے ان کو ہی منزل مقصود سمجھ لیتے ہیں۔ عمارت کی بنیادیں عمارت کا عین نہیں ہوتیں۔ لیکن ہم غلطی سے اسلام کی ان بنیادوں کو ہی اسلام کا عین سمجھتے ہیں۔ بے شک اسلام ان پانچ بنیادی احکام پر بڑا زور دیتا ہے۔ لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ جو شخص منزل کی راہ پر پہلا قدم نہیں اٹھاتا وہ منزل پر کبھی نہیں پہنچ سکتا۔ اسلام پہلا قدم اٹھانے پر زور دیتا ہے لیکن اس سے زیادہ زور وہ ا س بات پر دیتا ہے کہ ہم پہلا قدم اٹھانے کے بعد وہیں کھڑے نہ ہو جائیں بلکہ آگے چل کر منزل پر پہنچیں۔

 

صلوٰت کے دو مفہوم

دراصل جس طرح سے اسلام میں صلوٰۃ کے دو معنی ہیں اُسی طرح سے زکوٰۃ کے بھی دو معنی ہیں۔ صلوٰۃ کا ایک مفہوم تو وہ ہے جس کے مطابق صلوٰۃ ایک اصول ہے جس پر کاربند ہونے کے لیے تمام انبیاء کہتے رہے ہیں یعنی خدا کا ذکر ‘اس کی ستائش‘ اس کی تسبیح و تقدیس۔ صلوٰۃ کا دوسرا مفہوم وہ ہے جس کے مطابق صلوٰۃ عبادت کی وہ شکل ہے جو حضورﷺ کے عمل و ارشاد سے معین ہوئی۔

 

زکوٰۃ کے دو مفہوم

اسی طرح سے زکوٰۃ کا ایک مفہوم تو وہ ہے جس کے مطابق زکوٰۃ ایک اصول ہے جس کی تلقین خدا کے ہر پیغمبر نے کی ہے اورجس پر کاربند ہونا انسان کی روحانی ترقی کے لیے ہر زمانہ میں ضروری تھا اور ضروری رہے گا۔ اور زکوٰۃ کا دوسرا مفہوم وہ ہے جس کے مطابق وہ خیرات کی ایک خاص شکل ہے جو ایک اقل قلیل کے طور پر حضورﷺ کے ارشاد سے معین ہوئی۔ صلوٰۃ اور زکوٰۃ دونوں فرد کی روحانی ترقی کے لیے ضروری ہیں اور اس سلسلہ میں ایک کی اہمیت دوسرے سے کم نہیں۔ یہی سبب ہے کہ قرآن حکیم میں صلوٰۃ اور زکوٰۃ دونوں کا ذکر بار بار ایک ساتھ آیا ہے لیکن جس طرح سے صلوٰۃ کی معین صورت فرد کی روحانی ترقی کے لیے کافی نہیں اور اصولِ صلوٰۃ کی رو سے اس کے لیے ضروری ہے کہ معین صلوٰۃ کے بعد اپنا سارا فالتو وقت ذکر اور تسبیح و تقدیس میں صرف کرے اسی طرح سے زکوٰۃ کی معین صورت فرد کی روحانی ترقی کے لیے کفایت نہیں کرتی بلکہ زکوٰۃ کے اصول کی رو سے اُس کے لیے ضروری ہے کہ فالتو مال کا ایک تھوڑا سا معین حصہ ہی نہیں بلکہ اپنا سارا فالتو مال خدا کی راہ میں خرچ کر دے۔ حکم زکوٰۃ کی روح بالآخر اسی بات کا تقاضا کرتی ہے۔

 

فہمِ دین کی شرط

دراصل جب تک ہم احکامِ شریعت کی روح کو نہ سمجھیں اور اسے اپنا راہنما نہ بنائیں اس وقت تک نہ تو ہم ان احکام کا مطلب صحیح طو رپر سمجھ سکتے ہیں اور نہ انہیں ٹھیک طرح سے عملی جامہ پہنا سکتے ہیں۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے حافظ ابن قیم نے فرمایاہے:

 

ایاک والظاھریۃ البھتۃ فانھا تورث قسوۃ القلب وتوجب الحرمان عن محاسن الشرع

’’خبردار ظاہریت محض سے بچ کر رہنا کیونکہ وہ انسان کو خدا کی محبت سے محروم کرتی ہے اور شریعت کے محاسن کو سمجھنے اور عمل میں لانے سے روکتی ہے‘‘۔

 

اصولِ زکوٰۃ کی تشریح

زکوٰۃ کا اصول سمجھنے کے لیے ہمیں ایک جسم حیوانی اور ایک جماعت کی باہمی مماثلت پر غورکرنا چاہیے۔ جیسے کہ پہلے عرض کیا گیا ہے ہر جماعت ایک آدرش یا نصب العین کے ماتحت وجود میں آتی ہے اور اسی کی خاطر زندہ رہتی ہے جماعت کے افراد ایک قائد کے ماتحت متحد اور منظم ہو کر ایک جماعت کی صورت اختیار کرتے ہیں ۔ آدرش کی محبت اس جماعت کی روحِ رواں ہوتی ہے۔ جماعت اپنے لیڈر کی قیادت میں اپنی تمام قوتوں کو آدرش کے حصول کے لیے وقف کرتی ہے جس قدر اس کے افراد اپنے مشترک آدرش سے زیادہ محبت کرتے ہیں اسی قدر وہ آپس میں زیادہ متحد اور منظم ہوتے ہیں اور جماعت بھی اُسی نسبت سے زیادہ تندرست اور طاقتور ہوتی ہے اور اسی قدر اس کی جدوجہد زیادہ مؤثر اور زیادہ کارگر ہوتی ہے۔

ایک جسمِ حیوانی درحقیقت ایک فرد نہیں ہوتا بلکہ بہت سے افراد کی ایک جماعت ہوتا ہے۔ یہ افراد جسم کے خلیات ہوتے ہیں‘جو مختلف وظائف ادا کرتے ہیں لیکن جو سب کے سب جسم کے قائد یعنی دماغ یا نظامِ عصبی کے ماتحت متحد اور منظم ہوتے ہیں۔ نظامِ عصبی کا میکانیہ اُن کو خون کی صورت میں خوراک بہم پہنچاتا ہے۔ ہر خلیہ صرف اسی قدر خوراک حاصل کرتی ہے جس قدر اس کی نشوونما کے لیے ضروری ہوتی ہے اور فالتو خوراک دوسرے خلیات کے سپرد کر دیتی ہے اور خوراک کی یہ مساوی تقسیم جسم کے مرکزی نظام کے ماتحت انجام پاتی ہے۔اگر بعض خلیات کے پاس زیادہ خون جمع ہو جائے تو اسے بیماری کی حالت سمجھا جاتا ہے اور جس قدر خون زیادہ مقدار میں جمع ہو اسی قدر بیماری زیادہ شدید سمجھی جاتی ہے۔ ایسی حالت میں دوسرے خلیات کے پاس خون کم مقدار میں پہنچتا ہے اور جسم کی مجموعی قوت میں کمی واقع ہو جاتی ہے اور جسم بقائے حیات کے لیے مؤثر اور کارگر جدوجہد کرنے سے قاصر رہ جاتا ہے۔

 

خلیہ کی زکوٰۃ

ایک خلیہ کا فالتو خوراک جسم کے مرکزی نظام کی معرفت دوسرے خلیات کے سپرد کر دینا اُس کی زکوٰۃ ہے۔ زکوٰۃ گویا ہر خلیہ کی انفرادی صحت اور سارے جسم کی صحت کے لیے ایک لازمی چیز ہے۔ ہر خلیہ کی زکوٰۃ سے جسم کی خوراک تمام خلیات کے درمیان مساوی طور پر تقسیم ہو جاتی ہے اسی طرح سے اگر جماعت کے کسی فرد کے پاس ضرورت سے زیادہ اقتصادی قوت فراہم ہو جائے اور وہ اپنی اس فالتو قوت کو تمام و کمال اور فی الفور جماعت کے دوسرے افراد کے سپرد نہ کرد ے توجماعت کے اندر مرض کی حالت پیدا ہو جائے گی جس سے ہر فرد کی انفرادی طاقت اور ساری جماعت کی طاقت کم ہوجائے گی اور جماعت نصب العین کے حصول کے لیے مؤثر اور کارگر جدوجہد نہ کر سکے گی۔

 

فرد کی زکوٰۃ

فرد کا اپنی تمام فالتو اقتصادی قوت یا دولت کا جماعت کے دوسرے افراد کے سپرد کر دینا زکوٰۃ ہے۔ زکوٰۃ کے اس اصول کا تقاضا یہ ہے کہ فرد جس قدر جلد ممکن ہو یہ بات سیکھ جائے کہ اسے اپنی تمام فالتو دولت جماعت کے حوالے کر دینی چاہیے۔ اگر وہ ایسا کرے گاتو افراد کی فالتو دولت لازماً تمام افراد کے درمیان مساوی طور پر تقسیم ہو جائے گی۔ زکوٰۃ کی معین صورت کا مقصد فرد کو یہی سکھانا ہے۔ زکوٰۃ کا حکومت کی معرفت فراہم ہونا اس غرض سے ہے کہ فرد کو یاد رہے کہ وہ ایک فرد نہیں بلکہ ایک جماعت ہے اور اگر وہ جماعت کے مفاد کو نگاہ میں نہیں رکھے گا تو اس کے اپنے مفاد خطرہ میں رہیں گے۔

 

حضورﷺ کے ارشادات

فرد اور جماعت کی باہمی مماثلت فقط ایک خیال ہی نہیں جو ہماری عملی زندگی سے بے تعلق ہو بلکہ حضورﷺ نے فرمایا ہے کہ مسلمان عملی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح سے ہمدردی کا برتاؤ کریں کہ گویا وہ ایک ہی جسم کے مختلف اعضاء ہیں۔

 

((المؤمنون کرجل واحد اذا اشتکی عینہ اشتکی کلہ وان اشتکی راسہ اشتکی کلہ ))  (مسلم)

 

’’مؤمنوں کی جماعت ایک فرد واحد کی طرح ہے کہ جب اس کی آنکھ دکھتی ہے تو وہ تمام کا تمام دکھ اٹھاتا ہے اور جب اس کا سردکھتا ہے تو وہ تمام کا تمام دکھ اٹھاتاہے‘‘۔

 

((تری المؤمنون فی تراحمھم وتوادھم وتعاطفھم کمثل الجسد اذا اشتکی عضوا تداعی لہ سائر جسدہٖ بالسھر والحمی (بخاری و مسلم)

 

’’تو دیکھے گا کہ مؤمن آپس کی محبت‘ ہمدردی اور مہربانی میں ایک تن واحد کی طرح ہیں کہ جب ا س کا ایک عضو بیمار ہو تا ہے تو تمام جسم بیداری اور بخار سے اس کے خلاف احتجاج کرتا ہے۔‘‘

 

ان احادیث کا مضمون ایک اور حدیث میں اس طرح سے بیان ہوا ہے:

 

((المؤمن للمؤمن کبنیان یشد بعضہ بعضا )) (بخاری و مسلم)

 

’’ایک مؤمن دوسرے مؤمن کے لیے ایسا ہے جیسے دیوار کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کو سہارا دیتی ہے‘‘۔

 

جو دولت مند مسلمان نہایت دیانت داری کے ساتھ فالتو مال کے تمام عبوری قوانین کی پابندی کرتا ہے اور ہر سال اپنی نقدی اور زیورات اور اپنی زمین کی پیداوار میں سے زکوٰۃ ادا کرتا ہے وہ خدا کی نگاہوں میں اچھا مسلمان ہے۔ لیکن جو دولت مند مسلمان اپنی تمام فالتو دولت کو حاجت مندوں کے سپرد کر دیتا ہے اور زکوٰۃ کی نوبت ہی آنے نہیں دیتا وہ خدا کی نگاہوں میں اُس سے بہتر اور بلند تر درجہ کا مسلمان ہے۔

 

غلامی کی مثال

لہٰذا فالتو مال کے متعلق اسلام کا موقف غلامی کے متعلق اس کے موقف سے مختلف نہیں۔ اسلام غلام کو پسند نہیں کرتا لیکن جب تک غلامی کا استیصال نہیں ہوتاوہ اس کے مفاسد کو کم کرنے کے لیے قواعد بناتا ہے۔ اسی طرح سے اسلام فالتو مال کو پسند نہیں کرتا لیکن جب تک اس کا خاتمہ نہیں ہوتا وہ اس کے مفاسد کو کم کرنے کے لیے قوانین نافذ کرتا ہے۔ جس طرح سے غلامی کے خاتمہ سے غلامی کے قوانین کا نفاذ بے محل ہو جاتا ہے اسی طرح سے فالتو مال کے خاتمہ سے فالتو مال کے قوانین کا نفاذ بے محل ہو جاتا ہے۔

 

مومن کا سرمایہ

جس طرح سے غلامی کی رسم جسے قرآن وقتی طور پر گوارا کرتا ہے بالآخر عقیدئہ توحید کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتی اسی طرح سے فالتو مال رکھنے کی رسم بھی عقیدئہ توحید کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی۔ مؤمن جیسا کہ عرض کیا گیا ہے دنیا کی ہر چیز پر اپنے حقِ استعمال کا قائل ہے اپنے آپ کو کسی چیز کا مالک نہیں سمجھتا۔

 

{وَلِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ} (النساء:۷۱)

 

’’کائنات کی ہر چیز کا مالک اللہ ہے۔‘‘

 

غناء (دولت) مؤمن کی ملکیت نہیں بلکہ اللہ کی ملکیت ہے اور جب اللہ کی ملکیت ہے تو تمام مسلمان اس پر برابر کا حق رکھتے ہیں۔

 

{یٰٓـاَیُّھَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآئُ اِلَی اللّٰہِ وَاللّٰہُ ھُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ(۱)}(الفاطر)

 

’’اے لوگو تم خدا کے محتاج ہو خدا بے پرواہ اور قابل ستائش ہے۔‘‘

 

بعض رسوم کو گوارا کر کے اللہ تعالیٰ معاشرہ کو تدریجی ترقی کا موقعہ دیتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ صحیح اور اصل ترقی وہی ہے جو تدریجاً وجود میں آئے اور وہ جانتا ہے کہ مسلمان کو کلمۂ توحید کی صورت میں ایک ایسی تعلیم دے دی گئی ہے کہ یہ ترقی ضرور وجود میں آئے گی اور تمام رسوم جو عقیدئہ توحید کے ساتھ پوری پوری مناسبت نہیں رکھتیں مسلمان اپنی روحانیت کے ارتقاء سے مجبور ہو کر خود بخود ان سے الگ ہو جائے گا۔

ایک اعتراض:ان شواہد کی بنا پر مسلمان یہ مان لیتا ہے کہ بے شک اگر ایک مسلمان فرد چاہے تو اپنا سارا فالتو مال خدا کی راہ میں دے سکتا ہے۔ لیکن بعض مسلمان کہتے ہیں کہ اس بات میں حکومت کا کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے۔

 

مال کی جبری وصولی زکوٰۃ تک محدود نہیں

لیکن یہ خیال درست نہیں۔ اوّل تو ایک اسلامی جماعت کا حق ہے کہ زکوٰۃ وصول کرنے کے بعد بھی دولت مندوں کے فالتو مال کا جس قدر حصہ چاہے جبراً وصول کرے اور اس پر خود حضورﷺ کا یہ فرمان:

 

((وَفِی الْمَالِ حَقٌّ سِوَی الزَّکَاۃِ ))

 

’’اور مال میں زکوٰۃ کے علاوہ اور بھی حقوق ہیں ‘‘  شاہد ہے۔

 

کیونکہ اگر مال پر زکوٰۃ کے علاوہ کوئی حق ہے تو پھر جب زکوٰۃ حکومت وصول کرتی ہے تو یہ حق بھی حکومت ہی کو وصول کرنا چاہیے اور جب حکومت زکوٰۃ کو جبراً وصول کرتی ہے تو اس حق کو بھی اسے جبراً وصول کرنا چاہیے۔

 

بنیادی ضروریات کی کفالت پر زور

اگر جماعت کے بعض افراد کی حیاتیاتی سطح کی ضروریات پوری نہ ہو رہی ہوں تو ودسرے افراد کے لیے زکوٰۃ سے قطع نظر ان کا مہیا کرنا فرض ہے اور ایمان کی قلیل ترین شرط ہے جسے نظر انداز کرنے سے انسان جنت کے اعلیٰ مدارج سے محروم نہیں ہوتا بلکہ دوزخ میں جاتا ہے۔ قرآن کے ان ارشادات پر غور فرمایئے:

 

{اَرَئَ یْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِ (۱) فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ (۲) وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ (۳) }  (الماعون)

 

’’کیا تو نے اس کو نہیں دیکھا کہ دین کی تکذیب کرتا ہے۔ یہ وہ شخص ہے جو یتیم کے حقوق سے بے پروا ہے اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتا۔‘‘

 

{لَا یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ الْعَظِیْمِ (۳۳) وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ (۳۴)}

(الحاقۃ)

 

’’وہ خدائے عظیم پر ایمان نہیں لاتا اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتا۔‘‘

 

{ مَا سَلَکَکُمْ فِیْ سَقَرَ (۴۲) قَالُوْا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ (۴۳) وَلَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَ (۴۴) }  (المدثر )

 

’’پوچھا گیاتمہیں دوزخ میں کونسی چیز لائی ہے انہوںنے کہا ہم نماز نہیں پڑھتے تھے اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔‘‘

 

حضورﷺ نے فرمایا ہے وہ شخص ایمان سے محروم ہے جو خود پیٹ بھر کر کھانا کھاتا ہے‘ لیکن اُس کے پاس ہی اس کا ہمسایہ بھوکا رہتا ہے۔

 

لیس المؤمن بالذی یشبع وجارہ جائع مع جنبہ

 

(شعب الایمان‘ مستدرک حاکم‘ معجم کبیر)

 

’’وہ شخص مؤمن نہیں جو سیر ہو کر کھانا کھاتا ہے حالانکہ اس کا ہمسایہ اس کے پاس ہی بھوکا ہوتا ہے۔‘‘

 

ایک حدیث اس طرح سے ہے :

عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ ﷺ ان اللہ تعالی یقول یوم القیمۃ یا ابن ادم مرضت فلم تعدنی۔ قال یا رب کیف اعودک وانت رب العالمین قال اما علمت ان عبدی فلانا مرض فلم تعدہ اما علمت انک لوعدتہ لوجدتنی عندہ یابن ادم استطعمتک فلم تطعمنی قال یارب وکیف اطعمک وانت رب العالمین قال اما علمت انہ استطعمک عبدی فلان فلم تطعمہ اما علمت انک لواطعمتہ لوجدت ذالک عندی یاابن ادم استسقیتک فلم تسقنی قال یا رب کیف اسقیک وانت رب العالمین قال استسقاک عبدی فلان فلم تسقہ اما انک لو سقیتہ وجدت ذالک عندی (مسلم)

’’ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:خداوند تعالیٰ قیامت کے دن کہے گا۔ اے ابن آدم میں مریض ہوا تو تو نے میری عیادت نہ کی۔ تو وہ کہے گا اے میرے ربّ میں کیونکر تیری عیادت کرسکتا ہوں کہ تو ربّ العالمین ہے۔ اللہ تعالیٰ کہے گا کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا اور تو نے اس کی عیادت نہ کی کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس دیکھتا۔ اے ابن آدم میں نے تجھ سے کھانا مانگا اور تو نے مجھے کھانا نہ کھلایا تو وہ کہے گا کہ اے خدا میں تجھے کیونکر کھانا کھلا سکتا ہوں کہ تو رب العالمین ہے تو وہ کہے گا کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا اور تو نے اسے کھانا نہ کھلایا کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اسے کھانا کھلاتا تو اس کا اجر میرے پاس پاتا۔ اے ابن آدم میں نے تجھ سے پانی مانگا اور تو نے مجھے پانی نہ پلایا۔ وہ کہے گا کہ اے خدا میں تجھے پانی کیونکر پلا سکتا ہوں کہ تو رب العالمین ہے تو وہ کہے گا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا اور تو نے پانی نہ پلایا۔ اگر تو اسے پانی پلاتا تو اس کا اجر میرے ہاں پاتا۔‘‘

 

ایک صحیح حدیث میں ہے:

 

((المسلم اخو المسلم لا یظلمہ ولا یسلمہ ومن کان فی حاجۃ اخیہ کان اللہ فی حاجتہ ومن فرج عن مسلم کربۃ فرج اللہ عنہ کربۃ من کربات یوم القیامۃ ومن ستر مسلما سترہ اللہ یوم القیمۃ)) (بخاری و مسلم))

 

’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ اس پر ظلم نہیں کرتا اور نہ اُس سے بے وفائی کرتا ہے جو شخص اپنے بھائی کی حاجت پوری کرتا ہے اللہ اس کی حاجت پوری کرتا ہے اور جو شخص مسلمان کی ایک سختی دور کرتا ہے تو خدا قیامت کے دن کی سختیوں میں سے ایک سختی اس کے لیے دور کر دیتا ہے اور جو شخص مسلمان کو کپڑا پہناتا ہے خدا اسے کپڑا پہناتا ہے‘‘۔

 

حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:

 

ان اللہ فرض علی الأغنیاء من أموالھم بقدر ما یکفی فقراء ھم فان جاعوا وعروا وجھدوا فبمنع الاغنیاء حق علی اللہ تعالی ان یحاسبھم یوم القیمۃ ویعذبھم علیہ  (امام ابن حزم)

 

’’اللہ تعالیٰ نے دولت مندوں پر فرض کیا ہے کہ اپنے مال کا اس قدر حصہ دے دیں جو مفلسوں کی ضروریات کے لیے کافی ہو۔ اگر لوگ بھوکے اور ننگے رہیں اور دکھ اٹھائیں تو اس کی وجہ دولت مندوں کا بخل ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کا حق ہے کہ قیامت کے دن اُن کا محاسبہ کرے اور ان کو عذاب دے۔‘‘

 

حکومت کے دخل کی ضرورت

ان تمام آیات‘ احادیث اور روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ جب مسلمانوں کی جماعت کے اندر دولت مندوں اور مفلسوں کے دونوں طبقات موجود ہوں تو دولت مند طبقہ پر فرض ہے کہ زکوٰۃ سے قطع نظر مفلسوں کے طبقہ کو اپنے مال کا فالتو حصہ یہاں تک کدیں کہ اُن کی حیاتیاتی سطح کی ضروریات باحسن طریق پوری ہوجائیں لیکن دولت مندوں کے ان فرائض اور مفلسوں کے ان حقوق کے درمیان توازن خود بخود وجود میں نہیں آ سکتا۔ ضروری ہے کہ کوئی اور قوت جو دونوں طبقوں کے حال کی نگران ہو‘ پہلے طبقہ کے افراد سے دوسرے طبقہ کے حقوق وصول کر کے ان کو مناسب طور پر تقسیم کر دے۔ یہ قوت خود جماعت کی مجموعی قوتِ فکر و عمل یا بالفاظ دیگر جماعت کی حکومت ہی ہو سکتی ہے۔حکومت ہی کا فرض ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ جماعت کے افراد اپنے حقوق اور فرائض ٹھیک طرح وصول کرتے اور ادا کرتے ہیں یا نہیں۔ جماعت آدرش کی محبت کی وجہ سے وجود میں آتی ہے اور آدرش کی جستجو کی خاطر منظم ہو کر ایک حکومت کی صورت اختیار کرتی ہے۔چونکہ یہ فرائض اور حقوق آدرش سے پیدا ہوتے ہیں اور چونکہ اس قسم کی تقسیم دولت آدرش کی جستجو کا ضروری حصہ ہے لہٰذا اسے انجام دینا جماعت کی حکومت ہی کا وظیفہ ہے۔

 

حکومت کی ماہیت

حکومت جماعت سے باہر کی کوئی چیز نہیں بلکہ خود جماعت ہی ہے لہٰذا شریعت کے جو احکام جماعت کے لیے ہیں اُن کا اطلاق حکومت ہی پر ہوتا ہے۔ ایک جماعت میں حکومت کی حیثیت وہی ہے جو ایک زندہ جسم حیوانی میں دماغ کی ہے۔ حکومت کے ذریعہ سے جماعت اپنی مجموعی حیثیت میں سوچتی اور کام کرتی ہے۔ ہم کو معلوم ہے کہ حضورﷺ نے مسلمانوں کی جماعت کو ایک زندہ جسم حیوانی یا ایک فرد سے تشبیہہ دی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح سے ایک فرد اپنے جسم کے تمام اعضاء کے لیے مصروفِ عمل ہوتا ہے اور اپنے آپ میں اور اپنے اعضاء میں فرق نہیں کرتا اسی طرح سے مسلمانوں کی جماعت کو اپنے تمام افراد کے لیے من حیث الجماعت کام کرنا چاہیے۔ جس طرح سے فردِ واحد اپنے ایک عضو کے درد کو دور کرنے کے لیے اپنی تمام قوتوں کو مصروف کر دیتا ہے اسی طرح سے مسلمانوں کی جماعت کے بعض افراد کے مصائب کا ازالہ کرنے کے لیے پوری جماعت کو مصروفِ عمل ہونا چاہیے۔

 

المؤمنون کرجل واحد اذا اشتکی عینہ اشتکی کلہ وان اشتکی راسہ اشتکی کلہ

 

’’مسلمان ایک فردِ واحد کی طرح ہیں کہ جب اُس کی آنکھ دکھتی ہے تو وہ تمام کا تمام درد محسوس کرتا ہے اور جب اس کا سر دکھتا ہے تو وہ تمام کا تمام درد محسوس کرتاہے۔‘‘

 

جماعت کی وحدت کا دوسرا نام حکومت ہے

لیکن جب کسی جماعت کے اندر ایک ایسی تنظیم یا وحدت پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ اس کی وجہ سے ایک شخص واحد کی طرح کام کرنے لگ جاتی ہے تو وہ خود بخود ایک حکومت بن جاتی ہے ورنہ وہ ایک فرد کی طرح مجموعی حیثیت سے عمل کے قابل نہیں ہو سکتی۔ گویا حضورﷺ کی حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی حکومت ہی جماعت کے تمام افراد کی اس طرح سے نگرانی کرے جس طرح سے کہ ایک فرد اپنے اعضاء کی نگرانی کرتا ہے۔ اگر فرد بھی اپنے آپ کے لیے ایک حکومت کی حیثیت نہ رکھتا تو اس کے لیے بھی اپنی مجموعی حیثیت سے اپنے مختلف اعضاء کی خاطر سوچنا اور کام کرنا ممکن نہ ہوتا۔ اوپر عرض کیا گیا ہے کہ جماعت کی نشوونما کے لیے جماعت کے اندر افراد کی فالتو اقتصادی قوت کا تقسیم کرنا اسی طرح ہے جیسے کہ فرد کی نشوونما کے لیے فرد کے اندر خلیات کی فالتو طاقت کا تقسیم ہونا ۔جس طرح سے مؤخر الذکر تقسیم جسم کے مرکزی انتظام کے ماتحت ہوتی ہے‘ اسی طرح سے اوّل الذکر تقسیم جماعت کے مرکزی نظام کی معرفت ہونی چاہیے۔

 

جبر کی ضرورت

اگر حقوق خود بخود ادا نہ ہو رہے ہوں یا خود بخود آسانی سے یا پوری طرح سے ادا نہ ہو سکتے ہوں تو اُن کے وصول کرنے کے لیے جبر کا استعمال نہ صرف جائز ہے بلکہ ضروری ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود مہمان کی تواضع سے انکار کرتا ہے تو مہمان کا حق وصول کرنے کے لیے اس پر سختی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

 

المقدام بن معدیکرب سمع النبی ﷺ یقول أیما مسلم ضاف قوما فاصبح الضیف محروماً کان حقا علی کل مسلم نصرہ حتی یأخذ لہ بقراہ من مالہ وزرعہ

 

’’مقدام بن معدیکرب سے روایت ہے کہ میں نے حضورﷺ کو کہتے سنا کہ جب کسی مسلمان کے پاس کوئی شخص مہمان کی حیثیت سے ٹھہرے اور مہمان محروم رہ جائے تو ہر مسلمان پر اس کی مدد کرنا فرض ہے۔ یہاں تک کہ اس کے مال یا اس کی فصل سے اس کی مہمانی وصول ہو جائے۔‘‘

 

غاصب اورباغی کا فتویٰ

امام ابن حزم نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ جو لوگ استطاعت کے باوجود مساکین کو کھانا نہیں کھلاتے وہ حکومت کے باغی اور دشمن ہیں اور ان سے جنگ کرنا چاہیے۔

 

لا یحل لمسلم اضطر ان یاکل میتۃ او لحم خنزیر وھو یجد طعاماً فیہ فضل عن صاحبہ لمسلم او لذمی لان فرض علی صاحب الطعام اطعام الجائع۔ فاذا کان ذالک کذالک فلیس بمضطر الی المیتہ ولا الی لحم الخنزیر ولہ ان یقاتل عن ذالک فان قتل فعلی قاتلہ القود وان قتل المانع فعلیہ لعنۃ اللہ لانہ منع حقا وھو طائفۃ باغیۃ قال تعالی (فان بغت احدھما علی الاخری فقاتلوا التی تبعی حتی تفیٔ الی امر اللہ) ومانع الحق باغ علی اخیہ الذی لہ الحق ولھذا قاتل ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ مانع الزکوٰۃ وباللہ التوفیق۔

 

’’کسی مجبور مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ ایسی حالت میں مردار یا خنزیر کھائے جب کسی مسلمان یا ذمی کے پاس ضرورت سے زیادہ خوراک موجود ہو کیونکہ صاحب طعام پر فرض ہے کہ بھوکے کوکھانا کھلائے۔ اس صورت میں وہ مردار یا خنزیر کھانے پر مجبور نہیں اور اسے چاہیے کہ اس غرض کے لیے اس سے جنگ کرے اگر وہ قتل ہو جائے تو قاتل سے بدلہ لینا چاہیے اور اگر بخیل مارا جائے تو ملعون ہوا کیونکہ اس نے حق کو روک دیا تھا اور وہ چوریا ڈاکو ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اگر ایک گروہ دوسرے گروہ کا حق چھینے تو غاصب گروہ کے خلاف جنگ کرو یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کو مانے۔ حق کو چھیننے والا اپنے بھائی کے خلاف جو صاحب حق ہے بغاوت کرتا ہے۔ اسی لیے حضرت ابوبکر صدیقh نے زکوٰۃ نہ دینے والوں کے خلاف جنگ کی تھی۔‘‘

 

اور امام ابن حزم نے لکھا ہے:

وفرض علی الاغنیاء من اھل کل بلد ان یقوموا بفقراء ھم وبجبرھم السلطان علی ذالک ان لم تقم الزکوٰۃ بھم ولا فی سائر اموال المسلمین بہم فیقام لھم ما یاکلون من القوت الذی لا بد منہ من اللباس للشتاء والصیف بمثل ذالک وبمسکن یکنھم من المطر والصیف والشمس وعیون المارۃ۔

 

’’ہر شہر کے اغنیاء کا فرض ہے کہ مفلسوں کی حاجات پوری کریں اور بادشاہ اس بات کے لیے انہیں مجبور کرے ۔ اگر زکوٰۃ اور مسلمانوں کا دوسرا مال اُن کے لیے کافی نہ ہو تو وہ ان کے لیے خوراک اتنی مہیا کرے جس کے بغیر چارہ نہیں اور گرما اور سرما کے لیے اسی قدر لباس اور مکان جو انہیں بارش‘  گرمی‘ دھوپ اور راہ گزروں کی نظروں سے پناہ دے‘‘۔

 

حضرت عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کا ارشاد

حضرت عمررضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا تھا:

 

لو استقبلت من امری ما استدبرت لاخذت فضول مال الاغنیاء فقسمتھا علی الفقراء المھاجرین

 

’’میری خلافت کا جو وقت گزر چکا ہے اگر وہ پھر واپس آ سکتا تو میں دولت مندوں کے تمام فالتومال پر قبضہ کر لیتا اور اسے مفلس مہاجرین پرتقسیم کر دیتا۔‘‘

 

صحیح جبر کے بغیر آزادی ممکن نہیں

اصل بات یہ ہے کہ اس قسم کا جبر ایک مسلمان کے اختیار کو سلب نہیں کرتا اور نہ اُسے نیکی کے کام میں رضامندی کے ساتھ مشغول ہونے سے روکتا ہے بلکہ اس کے برعکس صورت حال یہ ہے کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے جو رغبتِ خیر یا احساسِ فرض اس کے دل میں موجود ہوتا ہے یہ جبر اس رغبت یا احساس کو ان محرکاتِ شیطانی یا خواہشاتِ نفسانی سے آزاد کرتا ہے جو اس کے ساتھ مزاحم ہوتے رہتے ہیں مثلاً عیش پرستی‘ بخل‘ حرص‘ فضول خرچی‘ ذوقِ نمائش وغیرہ اقسامِ خواہشات سے جو منع کا سبب بنتی ہیں۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے وہ خود بھی اسی قسم کے شیطانی وسوسوں پر غالب آنا چاہتا ہے لیکن غالب نہیں آ سکتا اور ان کے ساتھ ایک ناکام کشمکش میں مصروف رہتا ہے۔ لیکن حکومت کی طرف سے خیرات کی جبری وصولی اس کی مدد کرتی ہے اور اس کی مسلمانی کو اس کی طبیعت کے سفلی رجحانات پر غالب آنے کا موقع دیتی ہے۔ حکومت کا یہ جبر فرد کے خلاف نہیں بلکہ اُن شرانگیز نفسیاتی خواہشات کے خلاف ہے جو اس سے غیر ہیں اور اس کی مخالف ہیں اور جن سے وہ خود اپنے قلب کے بہترین احوال میں نجات حاصل کرنے کا متمنی ہوتا ہے۔

 

جمہوریت پرستوں کی نافہمی

افسوس ہے کہ جبر کے بارہ میں ہم مسلمان بھی اس وقت بہت سی غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں اور ان غلط فہمیوں کا باعث بعض مغربی اقوام کا پروپیگنڈہ ہے جو آزادی اور جمہوریت کے تصورات کے معنی نہیں سمجھتے لیکن اس کے باوجود ان کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں۔ ان تصورات کے بارہ میںان لوگوں کی کم فہمی کا باعث یہ ہے کہ انہوںنے فرد کا ایک جامد اور غیر ارتقائی تصور قائم کر رکھا ہے۔ ایک فردِ انسانی ایک متحرک اور ترقی پذیر ہستی ہے جواپنی فطرت کے تقاضوں سے مجبور ہو کر روحانیت کے ایک بلند ترین مقام تک ترقی کرنا چاہتی ہے ہر وہ چیز جو فرد کو اس مقام تک ترقی کرنے سے روکتی ہے خواہ وہ اندرونی سفلی خواہشات کی صورت میں ہو یا بیرونی رکاوٹوں کی صورت میں ہو‘ فرد کی آزادی کے منافی ہے۔ اور اسے راستہ سے ہٹانا فرد کے پاؤں کی ایک زنجیر کو کاٹ دینا اور اس کو حریت اور آزادی سے ہمکنار کرنا ہے۔ لیکن یہ بات نہایت اہم ہے کہ فرد کی آزادی کی دشمن قوتیں بالآخر تمام اس کے اندر ہی سے پیدا ہوتی ہیں اور اس کی سفلی خواہشات کی صورت اختیار کرتی ہیں۔ کیونکہ بیرونی رکاوٹیں جب تک اندرونی رکاوٹوں میں نہ بدل جائیں فرد کو ایک دلیرانہ مقابلہ کے لیے آمادہ کرتی ہیں اور اس کی جدوجہد کے لیے ایک مہمیز کا کام دیتی ہیں۔ لیکن اگر فرد ان رکاوٹوں سے دب کر ہمت ہار بیٹھے اور عافیت کوشی اور مصلحت بینی کو اختیار کرے تو یہی رکاوٹیں اس کی اندرونی جبلتی خواہشات کی صورت اختیار کر کے اسے اپنا اور بیرونی رکاوٹوں کا غلام بنا لیتی ہیں۔

 

آزادی کے معنی

لفظ آزادی کے غلط استعمال سے بچنے کے لیے ہمیں احتیاط کرنی چاہیے کہ جب ہم آزادی کا نام لیں تو متعین کر لیں کہ آزادی کس مقصد کے لیے۔ کیونکہ آزادی بغیر مقصد کے نہیں ہوتی اور ہمیشہ کسی نہ کسی مقصد کے لیے صَرف ہوتی ہے۔ اور ہر مقصد کے لیے آزادی کی نوعیت الگ ہے۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اس وقت دنیا کے دونوں مخالف کیمپ ایک دوسرے کو طعنہ دیتے ہیں کہ انہوں نے لوگوں کو غلام بنا رکھا ہے۔ اصل میں دونوں سچ کہتے ہیں ۔ روس ایک مقصد کے لیے آزادی بہم پہنچاتا ہے توامریکہ دوسرے مقصد کے لیے ۔ سچی آزادی وہ ہے جو اسلام چاہتا ہے یعنی یہ کہ انسان خدا کی رضاجوئی کے لیے اندرونی اور بیرونی رکاوٹوں سے آزاد ہو۔ اندرونی رکاوٹوں سے فی الفور اور بیرونی رکاوٹوں سے بعد میں جو قوت ہماری اندرونی رکاوٹوں کے خلاف جبر اور سختی کا برتاؤ کر کے ہمیں اُن سے پناہ دیتی ہے وہ ہمیں آزادی بخشتی ہے۔

 

صحیح جبر حکومت کا فرض ہے

چونکہ فرد اور جماعت دونوں متحرک اور ترقی پذیر ہیں۔ بدی اور نیکی کی کشمکش دونوں کے اندر موجود رہتی ہے۔ فرد کے اندر بری خواہشات بھی ہوتی ہیں اور اچھی خواہشات بھی ۔ اسی طرح سے جماعت کے اندر اشرار بھی ہوتے ہیں اور ابرار بھی۔ فرد کی بری خواہشات اس کی اچھی خواہشات کو کامیاب ہونے نہیں دیتیں۔ اسی طرح سے جماعت کے اشرار جماعت کے ابرار کو آزادی سے جینے نہیں دیتے۔ جس طرح سے حکومت کا یہ فرض ہے کہ جماعت کے نیک افراد کو بدوں کی بدی سے محفوظ رکھے اسی طرح سے اس کا یہ فرض ہے کہ فرد کی فطرتی نیکی کو جو اسے اپنے نصب العین کی طرف آگے لے جانا چاہتی ہے ‘ اس کے نفس کی برائی سے محفوظ رکھے اور فرد اور جماعت دونوں کو اپنی اپنی اندرونی برائی سے محفوظ کرنے میں جبر سے کام لینا فرد اور جماعت دونوں کے بہترین مفاد کا عین تقاضا ہے۔ اصل میں صحیح جبر تعلیم ہی کا ایک پہلو ہے جس طرح سے جبری پرہیز دوا کا ایک پہلو ہے۔ صحیح جبر ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنے بیٹے سے انتہائی محبت رکھے اور جب اس کی سیرت بگڑتی ہوئی دیکھے تو محبت سے ہی مجبور ہو کر اُس کے ساتھ سختی کا برتاؤ کرے۔ جب ایک فرد کی اسلامی تعلیم و تربیت اس طرح سے ہو چکی ہو کہ وہ خوب سمجھ چکا ہو کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے‘ نیک کیا ہے اور بد کیا ہے۔ رشد کیا ہے اور غی ّ کیا ہے۔ اور اس کے بعد بھی وہ رشد کو اختیار نہ کرے تو اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ جبر کے ذریعہ سے اس کو اس کے نفس کے شر سے بچایا جائے۔ ایسے جبر کو وہ اندر سے پسند کرتا ہے اور اسے ایک رحمت سمجھتا ہے اور تعلیم و تربیت کے ذریعہ سے اتمام حجت کرنے کے بعد جبر فی الواقع ایک رحمت ہوتا ہے۔ جبر کی ضرورت کے پیش نظر ہی اسلام زکوٰۃ کو باوجود اس بات کے کہ وہ ایک صدقہ یا خیرات ہے جبراً وصول کرتا ہے زکوٰۃ کی جبری وصولی کے لیے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جنگ کی۔ لیکن حکومت بروقت ضرورت یعنی افلاس کے ازالہ کے لیے زکوٰۃ وصول کرنے کے بعد بھی لوگوں کے بچے ہوئے زائد مال کو اسی طرح جبراً وصول کر سکتی ہے جس طرح کہ وہ زکوٰۃ وصول کرتی ہے۔

 

سنت اور قوانین فطرت کی مطابقت

یقینا اگر مفلسوں کی حیاتیاتی ضروریات اور حاجات کو پورا کرنے کے لیے زکوٰۃ کے وصول کرنے کے بعد باقی ماندہ فالتو مال کا وصول کرنا بھی ضروری سمجھا جائے تو اس کے وصول کرنے کا کوئی طریقہ اس سے بہتر‘ محفوظ تر اور انسان کی فطرت اور رسول اللہﷺ کی سنت سے زیادہ مطابقت نہیں رکھتا جو خود زکوٰۃ کی وصولی کے لیے حضورﷺ نے اختیار فرمایا تھا یعنی حکومت کی معرفت اور قانون کی طاقت کو حرکت میں لا کر ۔ اور حکومت حق رکھتی ہے کہ اس غرض کے لیے فالتو مال کا ایک حصہ نہیں بلکہ سارے کا سارا فالتو مال جبراً وصول کرے۔ اس قسم کے حالات میں حکومت جو جبر کرتی ہے وہ حکومت کا جبر نہیں ہوتا بلکہ اپنے آپ پر جماعت کا جبر ہوتا ہے۔

 

اعلیٰ خواہشات کا جبر ادنیٰ خواہشات پر

یعنی جماعت کی اعلیٰ خواہشات کا جبر اُس کی ادنیٰ خواہشات کے خلاف جس طرح سے فرد کی خود شعوری کے ارتقاء کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ اس کی اعلیٰ خواہشات ادنیٰ خواہشات پر جبر کر کے اُن کو روک دیں تاکہ فرد کی محبت کی تمام قوت اعلیٰ خواہشات کی طرف منتقل ہو جائے۔ وہ عمل کے لیے آزاد ہو جائیں اور ان کو فرد کی شخصیت پر پورا تسلط حاصل ہوجائے اسی طرح سے جماعت کی خود شعوری کا ارتقاء اس بات پر منحصر ہے کہ جماعت کے اعلیٰ افراد کی اعلیٰ خواہشات اس کے ادنیٰ افراد کی ادنیٰ خواہشات کو جبر سے روک دیں تاکہ جماعت کی محبت تمام کی تمام اعلیٰ خواہشات کی طرف منتقل ہو جائے۔ وہ عمل کے لیے آزاد ہو جائیں اور ان کو جماعت کی شخصیت پر پورا غلبہ اور تسلط حاصل ہو جائے۔

 

ایک مثال سے اسلامی ریاست کے ارتقاء کی تشریح

اپنے مطلب کی مزید وضاحت کے لیے میں آپ سے التماس کروں گا کہ پرہیزگار متدین اور پابند شریعت مسلمانوں کے ایک شہر کا تصور کیجیے جو ایک چھوٹی سی خود مختار ریاست مدینہ(City State)کی طرح ہے۔ فرض کیجیے کہ اس میں قریباً ساٹھ ہزار گھر ہیں اور کام کاج کرنے والے مردوں کی تعداد بھی قریباً اتنی ہی ہے۔ ان میں سے قریباً آٹھ ہزار مرد سرمایہ دار اور صاحب نصاب ہیں‘ جن کے پاس ریاست کی بڑی بڑی ملازمتیں‘ نقدی‘ سونا‘ چاندی‘ کاشت کرنے کی زمینیں‘ صنعتی کارخانے اور کاروباری فرمیں ہیں۔ بارہ ہزار افراد متوسط درجہ کے ہیں جن کا گزارا اچھا ہے‘ لیکن کوئی بچت نہیں۔ باقی چالیس ہزار افراد مزدور اور غرباء ہیں۔ شہر میںحکومت کی طرف سے دینی تعلیم و تربیت کا نہایت عمدہ انتظام ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر شخص شریعت کے احکام کی پوری پابندی کرتا ہے۔ سرمایہ داروں میں سے ہر شخص عبادت گزار اور پرہیزگار ہے اور اپنے فالتو مال میں سے شریعت کی مقرر کی ہوئی شرحوں کے مطابق ہر سال باقاعدگی اور دیانت داری کے ساتھ زکوٰۃ ادا کرتا ہے اور مزید خیرات بھی کرتا ہے۔ اُن میں سے ایک سرمایہ دار ایسا ہے جو محسوس کرتا ہے کہ زکوٰۃ اور خیرات ادا کرنے کے باوجود اس کے نادار اور محتاج بھائیوں میں اور اس میں بڑا فرق ہے ۔ وہ زندگی کی آسائشوں (Comforts) اور تکلفات(Luxuries)سے بھی بہرہ ور ہے لیکن غرباء کو اشد ضرورت کی چیزیں بھی بمشکل میسر آتی ہیں۔ پھر وہ دوسرو ں کو خیرات دیتا ہے ۔ دوسروں سے خیرات لیتا نہیں اور اس کے مفلس بھائی محتاجی میںمبتلا ہیں۔ حضورﷺ کے فرمان ((حَتّٰی یُحِبَّ لِاَخِیْہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ)) (بخاری و مسلم)کے ماتحت اور قرآن کے ارشادات {لَنْ تَنَالوُا الْبِرَّ}(آل عمران:۹۲)  اور {قُلِ الْعَفْوَ} (البقرۃ:۲۱۰) کے مطابق وہ خود فیصلہ کرتا ہے کہ اپنا تمام فالتو مال حاجت مندوں کو دے دے۔ چونکہ وہ سمجھتا ہے کہ وہ شہر کے ہزاروں حاجت مندوں کی ضروریات کا ٹھیک نسبتی اندازہ قائم نہیں کر سکے گا اور اس کی تقسیم لوگوں کی ضروریات کے لحاظ سے کم و بیش ہو جائے گی اور چونکہ وہ جانتا ہے کہ حکومت ذمہ دار اور خدا ترس لوگوں پر مشتمل ہے جو زکوٰۃ بھی وصول کر کے حاجت مندوں میں دیانت داری سے تقسیم کرتی ہے۔ لہٰذا وہ حکومت کو اطلاع دیتا ہے کہ اس کے مال پر قبضہ کر کے اسے ازالہ افلاس کے کام میں لائے اور مناسب طور پر لوگوں میں تقسیم کر دے۔ فرض کیجیے کہ ایک دو ماہ کے عرصہ میں باقی سرمایہ دار اُس کی مثال سے متأثر ہو کر اوراس کی طرح بہتر اور بلند تر درجہ کے مسلمان بننے کی خواہش سے اسی طرح اپنے فالتو مال کو حکومت کے سپرد کر دیتے ہیں۔

ان سب کا فیصلہ شریعت کی رو سے قابل ستائش ہے لیکن جب حکومت کے پاس اس قسم کی آٹھ ہزار درخواستیں پہنچتی ہیں تو حکومت پر بڑی ذمہ داری اس بات کی عائد ہوتی ہے کہ وہ اس سرمایہ کو اس طرح سے تقسیم کرے کہ اقتصادی طور پر لوگوں کی حالت بہتر ہو بدتر نہ ہو۔ وہ محسوس کرتی ہے کہ اگر اس نے اس سرمایہ کو مناسب پیش بندیوں کے بغیر غرباء میں تقسیم کر دیا تو بڑے بڑے صنعتی کارخانے جن میں عوام کی ضروریات کی چیزیں عمدہ اور سستی تیار ہوتی ہیں اور بڑے بڑے تجارتی ادارے جن کے ذریعہ سے وہ بازار میں پہنچتی اور تقسیم ہوتی ہیں‘ بند ہو جائیں گے۔ اس سے نہ صرف لوگوں کو اپنی ضروریات میسر نہ ہوں گی بلکہ بے کاری بڑھ جائے گی۔ اگر زمین چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ گئی تو اُن کی زراعت اقتصادی طور پر منفعت بخش نہیں رہے گی اور پیداوار میں کمی واقع ہو جائے گی اور پھر بعض لوگ اس لیے مفلس ہیں کہ انہیں محنت کی بجائے خیرات پر گزارہ کرنے کی عادت ہے۔ ایسے لوگ مفت میں مالدار ہو جانے کی وجہ سے اور نکمے ہو جائیں گے‘ سرمایہ کو بیٹھ کر کھائیں گے اور پھر مفلس ہو جائیں گے۔

 

اسلامی ریاست کا ترقی یافتہ نظام

لہٰذا وہ فیصلہ کرتی ہے کہ:

(۱) ایک طرف سے شہر کے تمام بے کاروں اور ناداروں اور دوسرے افراد کی صلاحیتوں اور قابلیتوں کی فہرستیں اور دوسری طرف سے شہرداروں کی تمام اقتصادی ضروریات کی فہرستیں تیار کرلی جائیں۔

(۲)  کارخانے اور فرمیں بدستور جاری رہیں اور جو لوگ ان میں ملازم ہیں‘ بدستور ملازم رہیں۔ حکومت ان کو تنخواہ دے اور خود کارخانوں کا انتظام کرے اور ان کی آمدنی سے (جس کا صرف ایک قلیل حصہ پہلے زکوٰۃ کی صورت میں حکومت کو ملتا تھا) اور کارخانے کھولے اور بعض ایسے مفلسوں کو ان کارخانوں پر کام کرنے پر لگا دے جو پہلے بے کاری کی وجہ سے افلاس میں مبتلا تھے اور بے قاعدہ خیرات پر گزارہ کرتے تھے۔

(۳) کاشت کی زمین ایسے رقبوں میں بانٹ دی جائے کہ ہر رقبہ کی آمدنی متوسط درجہ کے ایک خاندان کی تمام حیاتیاتی ضروریات اور بعض جمالیاتی ضروریات کے لیے کفایت کرے۔ پھر ملحقہ ٹکڑوں کے مالکوں کو کہا جائے کہ وہ انجمنیں بنا لیں اور اپنے ٹکڑوں کو امداد باہمی کے اصول پر اس طرح سے کاشت کریں کہ وہ گویا ایک ہی

قطعۂ زمین ہے اور اپنی آمدنی کو مساوی طو رپر آپس میں تقسیم کر لیں اس طرح سے زراعت کی قیمتی مشینوں اور قیمتی کھادوں کو استعمال کر کے اپنی پیداوار اور اپنی آمدنی میں اضافہ کریں۔

(۴) کوئی کارخانہ یا کوئی اجتماعی کاشت کا قطعۂ زمین اس قدر چھوٹا نہ ہو کہ اس کی پیداوار مہنگی پڑے۔ اور کوئی تجارتی فرم اس قدر کم سرمایہ سے کام نہ کرے کہ وہ اپنے کام کو مؤثر (Efficient)آسان اور ارزاں طریق سے نہ کر سکے۔

یہ فیصلہ چونکہ شہر کی آبادی کے تمام طبقات کو پوری طرح سے مطمئن کرتا ہے اور افلاس کی بیماری سے مستقل نجات دیتا ہے لہٰذا تمام لوگ اسے قبول کرتے اور خوشی سے جاری کرتے ہیں۔

یہ نظام ایک ترقی یافتہ اسلامی جماعت کا بے ساختہ ظہور میں آنے والا اقتصادی نظام ہے اور سوشلزم سے اس کا دور کا بھی تعلق نہیں کیونکہ اس کی جڑ تقویٰ ہے۔ خدا کی محبت کی نشوونما ہے اور وہ مخالف فطرت چیز نہیں جو سوشلزم کا امتیاز ہے۔

 

ایک واضح فرمان

حضورﷺ کے بعض ارشادات اس قسم کے نظام کی واضح تائید کرتے ہیں۔ اشعریین کا قاعدہ تھا کہ جب ان میں سے بعض مفلس ہو جاتے تو خوراک‘ نقدی یا جو چیز ان کے پاس ہوتی ایک مقام پر جمع کر دیتے اور پھر سب میں برابر تقسیم کر دیتے۔ حضورﷺ نے ان کی تائید فرمائی اور کہا کہ میں ان کو پسند کرتا ہوں کہ ان کا عمل میری خواہش کے عین مطابق ہے۔ حدیث کے الفاظ ہیں:

 

عن ابی ردۃ قال قال النبی ﷺ ان لاشعریین اذا ارملوا فی الغزوۃ او قل طعام عیالھم بالمدینۃ جمعو ما کان عندھم فی ثوب واحد ثم اقتسموا بینھم بالسویۃ فھم منی وانا منھم (صحیح مسلم)

 

’’ابی ردہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا اشعری قبیلہ کے لوگ جب جنگ میں نادار ہو جاتے ہیں یا شہر میں رہتے ہوئے ان کے بال بچوں کے لیے خوراک کم ہو جاتی ہے تو جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے ایک ہی کپڑے یا برتن میں جمع کر دیتے ہیں اور آپس میں برابر تقسیم کر لیتے ہیں۔ ان کے اعمال میری خواہش کے عین مطابق ہیں اور میں ان میں سے ایک ہوں۔‘‘

 

حجم کا فرق غیر اہم ہے

اس سے معلوم ہوا کہ اگر افلاس کی حالت میں دولت کو ایک مقام پر جمع کر کے جماعت کے تمام افراد میں برابر طور پر تقسیم کرنے کا یہی اصول بڑے پیمانہ پررائج کر دیا جائے جس میں جماعت کے تمام افراد شامل ہوجائیں اور وصول کنندہ اور تقسیم کنندہ مرکز جماعت یا حکومت کو قرار دیا جائے تو یہ طریق بھی حضور اکرمﷺ کے نزدیک ویسا ہی پسندیدہ ہو گا کیونکہ دونوں طریقوں میں سوائے حجم اور پیمانہ کے کچھ فرق نہیں۔

 

اشتراکیت اور اسلام کا فرق

جس طرح سے حدیث کے الفاظ بالسویۃ (مساوی طور پر) کے معنی یہ نہیں کہ اشعریین اپنے بچوں اور جوانوں کو برابر مقدار کی خوراک دیتے تھے اُسی طرح سے ریاست کے افراد کے درمیان دولت کی برابر تقسیم میں بھی برابری کا یہ مفہوم نہیں لیا جائے گا۔ دہریت پرست سوشلسٹ اگر اس قسم کے نظام کو اپنا کر چلانا چاہیں تو آخر ناکام رہیں گے۔ کیونکہ اس کی کامیابی کے لیے کارپردازانِ حکومت اور مزدوروں اور ملازموں کا روحانی طور پر تربیت یافتہ ہونا اور خداپرستی ‘ خدا طلبی اور پرہیزگاری کے اوصاف سے بہرہ ور ہونا ضروری ہے۔ ایک اسلامی جماعت میں اسلامی تربیت کے ذریعہ سے یہ اوصاف پیدا ہو جاتے ہیں لیکن سوشلسٹ جماعت میں پیدانہیں ہوتے لہٰذا ایک سوشلسٹ جماعت اس قسم کے نظام کو نہ پیدا کر سکتی ہے اور نہ چلا سکتی ہے۔

اس نظام کی وجہ سے مسلمان اپنی نماز با جماعت کو مسجد کے صحن سے باہر لا کر اپنی ساری زندگی کو نمازباجماعت بنا لیتا ہے۔ اس کی وجہ سے مسلمانوں کی جماعت وہی جسدِ واحد یا بنیان مشدود بن جاتی ہے جس کا ذکر حضورﷺ کی ان احادیث میں ہے‘ جو اوپر نقل کی گئی ہیں۔

ایک ترقی یافتہ اسلامی جماعت کے تمام افراد جو مل کر اس نظام کو چلائیں گے خدا کی محبت میں گداز ہوں گے اور خدا کی محبت کی غیر متناہی تربیت اور نشوونما کے سوائے ان کی زندگی کا کوئی اور مقصد نہیں ہو گا۔

 

ایک اعتراض : یہاں شاید یہ کہا جائے کہ فرد کی شخصیت کا ارتقاء اس بات پر موقوف ہے کہ وہ جدوجہد کر کے بدی پر غالب آئے اور نیکی اختیار کرے۔تلاشِ رزق پر کشودن کے لیے ایک بہانہ ہے ۔ اگر جدوجہد نہ ہو گی تو شخصیت کا ارتقاء کیونکر ہو گا۔ ایک ایسے نظام کے اندر فرد کے تمام افعال ایک عادتHabitیا Routineبن جائیں گے۔  جن کو نہ نیک کہا جا سکے گا اور نہ بد۔ ہر نیا فرد انسانی جو اس نظام کے اندر پیدا ہو کر اپنی آنکھیں کھولے گا ایک خاص قسم کی طرزِ زندگی کو اختیار کرے گا جس کے مقصد اور مدعا سے وہ برخلاف ان لوگوں کے جنہوں نے اسے پہلے برپا کیا تھا‘ غافل ہو گا اور لہٰذا اُن کی نیکی سے حصہ نہیں لے گا اور ان کی عائد کی ہوئی پابندیوں میں جکڑا جائے گا۔

 

ایک غلط فہمی

اس اعتراض کی بنیاد یہ غلط فہمی ہے کہ نیکی اور حسن کی جستجو محض فرد سے تعلق رکھتی ہے اور محدود ہے۔ لیکن دراصل نیکی اور حسن کی جستجو نہ تو ایک انفرادی عمل ہے اور نہ محدود ہے۔ ہر نیکی کے اوپر ایک اور نیکی ہوتی ہے جو پہلی نیکی کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے اور جس میں پہلی نیکی شامل ہوتی ہے جب ہم نیکی کے راستہ پر ایک قدم اٹھانے میں کامیاب ہو جائیں اور اس پر پوری قوت سے جم جائیں تو پھر ہماری فطرت وہیں ٹھہرنا نہیں چاہتی‘ بلکہ ہم اس راستہ پر دوسرا قدم اٹھانے پر مجبور ہوتے ہیں اور اس پر مستحکم ہو جانے کے بعد تیسرا اور پھر چوتھا وعلیٰ ہٰذا القیاس۔ کیونکہ ہم نیکی‘ حسن اور صداقت کی جستجو سے کبھی سیر نہیں ہوتے اور ہماری فطرت جس کمال کی جستجو کر رہی ہے اس کی کوئی حد نہیں یہی مطلب ہے قرآن کی اس آیت کا:

 

{لَتَرْکَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ (۱۹) فَمَا لَہُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ (۲۰)} (الانشقاق)

 

’’یاد رکھو تم ایک مقام سے دوسرے تک اور دوسرے سے تیسرے تک پیہم ترقی کرتے جاؤ گے۔ پھر اب وہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے۔‘‘

 

ارتقاء کی ایک ضروری شرط

اللہ تعالیٰ کا منشا یہ ہرگز نہیں کہ ہم ایک ہی بدی پر بار بار فتح پاتے رہیں اور ایک ہی نیکی کو بار بار حاصل کرتے رہیں بلکہ اس کا منشا یہ ہے کہ جب ہم ایک بدی پر فتح پائیں تو وہ فتح دائمی ہو یہاں تک کہ ہم اُس بدی کی طرف پھر واپس نہ لوٹ سکیں۔ تاکہ اگلے درجہ کی نیکی کی طرف قدم اٹھانا ہمارے لیے ممکن ہو۔ اسی لیے ارشاد کیا گیا ہے:

 

{یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْا اِلَی اللّٰہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا} (التحریم:۸)

 

’’اے ایمان لانے والو! اللہ کی طرف اس طرح سے لوٹو کہ پھر واپس نہ جاؤ۔‘‘

 

اللہ تعالیٰ کا منشا یہ نہیں کہ زندگی ہمیشہ ایک ہی مقام کے لیے جدوجہد کرتی رہے بلکہ اس کا منشا یہ ہے کہ جب زندگی جدوجہد کر کے ایک بلند سطح پر قدم رکھے تو اس کو اس طرح سے اپنائے اور اس پر اس طرح جم جائے کہ پھر اس سے نہ پھسلے تاکہ اگلی بلند تر سطح پر قدم رکھ سکے۔

 

مادی مرحلۂ ارتقاء کی مثال

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر مرحلۂ ارتقاء میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ مادی مرحلۂ ارتقاء میں مادہ کی خاصیات مادہ کے اندر رفتہ رفتہ جمع ہوئیں۔ ایک خاصیت کے راسخ ہو جانے کے بعد دوسری خاصیت پیدا ہوئی اور پھر تیسری اور چوتھی وعلیٰ ہٰذا القیاس یہاں تک مادہ اپنی تمام موجودہ خاصیات کے ساتھ ظہور پذیر ہو گیا۔

 

حیوانی مرحلۂ ارتقاء کی مثال

حیوانی مرحلۂ ارتقاء میں جب جاندار کسی خواہش یا مقصد کے ماتحت پیہم جدوجہد کرتا ہے تو اُس کی جدوجہد ایک عادت بن کر راسخ ہو جاتی ہے اور اس کے نتائج اُس کے جسم کے ایک مستقل تغیر کی صورت میں محفوظ ہو جاتے ہیں۔ یہ تغیر اس کی کسی اندرونی مخفی صلاحیت کو بروئے کار لاتا ہے۔ گویا اُس کی جدوجہد کی کامیابی جسم کے اندر جدید صلاحیت کی صورت میں مستقل طور پر ثبت ہو جاتی ہے۔

 

عادت کی ضرورت

جاندار کی بعد کی نسلیں اسے وراثتاً حاصل کرتی ہیں اور اس وراثت کی وجہ سے وہ اس بات کے لیے مہیا ہو جاتی ہیں کہ اگلی صلاحیتوں کے حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر سکیں۔جب تک ایک صلاحیت کو حاصل کرنے کے لیے جدوجہد جاری رہتی ہے‘ زندگی کی توجہ اس میں مصروف رہتی ہے جب وہ ایک خود کار(Automatic) عادت بن جاتی ہے اور ایک جسمانی تغیر کی صورت میں نمودار ہوتی ہے تو زندگی کی توجہ اگلی صلاحیت  کے حاصل کرنے کے لیے آزاد ہو جاتی ہے۔ اس طرح سے ارتقاء جاری رہتا ہے۔

 

بلی کا پنجہ

بلی کاپنجہ درحقیقت اس کی ایک ایسی جدوجہد کا ریکارڈ ہے جو ایک عادت بن گئی تھی۔ اگرچہ اسے حاصل کرنے کے بعد فوراً ہی بلی اس بات کو بھول چکی ہو گی کہ اسے حاصل کرنے کے لیے وہ ماضی میں کس قدر کوشش کرتی رہی تھی۔ عادت درحقیقت زندگی کی وہ استعداد ہے جس کے ذریعہ سے وہ اپنی ان کامیابیوں کو جو ایک دفعہ حاصل ہو جاتی ہیں غیر شعوری طور پر محفوظ رکھتی ہے تاکہ اس کی بنا پر اگلی کامیابیوں کو حاصل کر سکے۔ زندگی کی اس استعداد کو اصطلاح میں نیمی یا حفظ کہا گیا ہے۔

 

حفظ اور عمل ارتقاء کی دو ضروری شرطیں

غیر شعوری حافظہ نیمی کی ایک صورت ہے ۔ جدوجہد زندگی کی وہ استعداد ہے جس کی وجہ سے وہ حاصل شدہ اور عادت سے محفوظ شدہ کامیابیوں کی بنا پر نئی کامیابیاں حاصل کرتی ہے اس استعداد کو اصطلاح میں ہارمی(Horme)یا عمل کہا گیا ہے حفظ اور عمل یعنی پچھلی کامیابیوں کو ایک خود کار عادت کے طور پر محفوظ کرنا اور اگلی کامیابیوں کو تازہ کوششوں سے حاصل کرنا دونوں ارتقاء کی ضروری شرائط ہیں۔

 

مثالیں

پرندوں کا اڑنا‘ انسان کا دو ٹانگوں پر چلنا اور مچھلیوں کا تیرنا پہلے پہل بڑی جدوجہد سے ممکن ہوا ہو گا۔ اس کے بعد جب پرندوں کے پر نمودار ہو گئے۔ مچھلیوں کے پہلوؤں کے عضلات تیرنے کے لیے موزوں ہو گئے اور انسان کے پیروں اور ٹانگوں کی ساخت چلنے کے لیے مناسب ہو گئی تو اس جدوجہد کی ضرورت ختم ہو گئی اور جدوجہد کا رخ بدل گیا۔ اگر جدوجہد کے نتائج ایک ایسی عادت یا ایک ایسی مستقل صلاحیت کے طور پر محفوظ نہ ہو جاتے جو زندگی کو جہاں تک ان نتائج کا تعلق ہے ‘ آزاد کر دیتی تو حیوانی مرحلہ میں کوئی ارتقاء ممکن نہ ہوتا۔

 

قرآن کا مقصدِ وحید

انسانی مرحلہ میں ارتقاء کے معنی یہ ہیں کہ نوعِ بشر کی ممکنات کا ظہور ہو انسان کی مخفی صلاحیتیں بروئے کار آئیں اور اس کے پوشیدہ کمالات آشکار ہوں اور قرآن کی تعلیم کا واحد منشا یہ ہے کہ انسان کے اس ارتقاء کو آسان بنایا جائے۔

 

ظہور عادات کی حکمت

لیکن یہاں بھی انسان کی پوشیدہ صلاحیتوں کا ظہور اس طرح سے ہوتا ہے کہ جب کوشش اور جدوجہد سے ایک صلاحیت بروئے کار آئے تو اس کے ظہور کو ایک عادت بنا کر پختہ کر لیا جائے۔ یہاں تک کہ وہ خود بخود بغیر توجہ اور بغیر کوشش کے ظہور میں آتی رہے اور ہم بالکل بھول جائیں کہ وہ ظہور میں آ رہی ہے۔ اس طرح سے توجہ اگلی بلند تر درجہ کی صلاحیت کو ظہور میں لانے کے لیے آزاد ہوجاتی ہے اور پھر جب یہ دوسری صلاحیت اظہار پا کر راسخ ہو جاتی ہے تو انسان اُس سے اگلی صلاحیت کو نمودار کرنے کی طرف توجہ کر سکتا ہے وعلیٰ ہٰذا القیاس۔ لیکن اگر ہم اپنی جدوجہد اور اپنی توجہ کو ارتقاء کی ایک ہی سطح سے مخصوص کر دیں اور بار بار ایک ہی درجہ کی صلاحیت کی نمائش کرتے رہیں اور اگلا قدم اٹھانے کے قابل ہوجانے کے باوجود اگلا قدم نہ اٹھائیں تو ہماری ترقی رک جاتی ہے اور ہماری مخفی صلاحیتیںجو بعد میں ظہور پانے والی تھیں‘ دبی کی دبی رہ جاتی ہیں۔

 

شریعت کی ضرورت

ارتقاء کی جدوجہد ایک ضابطۂ اوامر ونواہی یا ایک شریعت کے ماتحت ہوتی ہے  اور جوں جوں ارتقاء کے مقامات بلند سے بلندتر ہوتے جاتے ہیں اس شریعت کے تقاضے بھی بلند سے بلندتر ہوتے جاتے ہیں۔

 

صلاحیتوں کا ارتقاء کس طرح ہوتاہے۔ ایک مثال

مثلاً ایک انسانی فرد کے اندر یہ صلاحیت مخفی ہے کہ وہ دوپہیوں کی ایک سواری پر بیٹھ کر جس میں پہیے آگے پیچھے ایک ہی سیدھ میں لگے ہوئے ہوں جس سمت میں چاہے بے تکلف دوڑتا پھرے۔ جب بائیسکل کی ایجاد نہیں ہوئی تھی تو یہ بات ہر شخص کو ناممکن نظر آتی ہو گی۔ لیکن ایک استاد نے انسان کی اس صلاحیت کو بھانپ لیا اور سواری بنا کر دے دی اور اس کو چلانے کا ڈھب سیکھنے کے لیے نہایت مفصل ہدایات بھی دیں جو اس صلاحیت کے ارتقاء کے ہر مرحلہ پر انسان کی راہنمائی کرسکتی تھیں۔ جو شخص چاہتا ہے کہ وہ بائیسکل چلانا سیکھ جائے اس کے لیے یہ ہدایات ایک ضابطۂ اوامر و نواہی یا ایک شریعت کا کام دیتی ہیں ۔ شروع میں اس شریعت کی پابندی مشکل ہوتی ہے اور انسان غلطیاں کرتا اور ٹھوکریں کھاتا ہے ۔ اور ہر غلطی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ گر جاتا ہے اور اسے چوٹیں آتی ہیں۔ جب وہ اس شریعت کے ابتدائی حصہ پر عمل کر کے اپنے اس عمل کو راسخ اور خود کار (Automatic) بنا لیتا ہے تو اس کی مخفی صلاحیت کا ایک حصہ نمودار ہوجاتا ہے۔ پھر اس صلاحیت کا اظہار اس کے لیے ایسا آسان ہوتا ہے کہ اُس پر اس کی کوئی کوشش اور کوئی توجہ صرف نہیں ہوتی بلکہ وہ بھول جاتا ہے کہ وہ اس صلاحیت کا اظہار کر رہا ہے ۔ لہٰذا توجہ باقی ماندہ صلاحیت کے نمودار کرنیکے لیے آزاد ہو جاتی ہے۔ اب اس کی جدوجہد اس کی شریعت کے بلندتر تقاضوں کی متابعت میں ظہور پاتی ہے یہاں تک کہ اس کا عمل پھر راسخ اور خود کار ہو کر اسے ارتقائے صلاحیت کے اگلے قدم کے لیے مہیا کر دیتا ہے وعلیٰ ہٰذا القیاس۔ حتیٰ کہ جب وہ اپنی شریعت کے اعلیٰ ترین تقاضوں کی پابندی کر لیتا ہے تو اس کی صلاحیت بھی اپنے ارتقاء کے کمال کو پہنچ جاتی ہے۔ اس صلاحیت کی یہ حالتِ کمال یہاں تک تعجب انگیز ہے کہ سرکسوں میں ایک عجوبہ کے طور پر اس کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ صلاحیت کا ہر جزو جو آشکار ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس کا پہلا جزو ظہور پا کرشخصیت کا ایک مستقل غیر شعوری جزو بن چکا ہوتا ہے اور توجہ اگلے جزو کو ظہور میں لانے کے لیے مہیا ہو جاتی ہے ۔جب وہ شریعت کے ایک ضابطہ سے اعلیٰ تر ضابطہ کی طرف رخ کرتا ہے تو پہلے ضابطہ کو ترک نہیں کرتا بلکہ اُسے ایک خودکار عادت کے طور پر اپنے عمل میں جذب کر کے آگے چلتا ہے۔

 

ایک او رمثال

اسی طرح سے ہر انسان کے اندر یہ صلاحیت ہے کہ وہ کسی غیرزبان میں نہایت عمدہ طریق سے اظہارِ خیال کر سکے بغیر اس بات کے کہ اس زبان کے جاننے والوں میں اسے رہنے کا موقع ملا ہو ۔ اس صلاحیت کو نمودار کرنے کے لیے بھی ایک شخص کو ایک ضابطۂ اوامر و نواہی یا ایک شریعت کے ماتحت جدوجہد کرنا پڑتی ہے اور یہ شریعت گرامر اور محاورہ کے قواعد پر مشتمل ہوتی ہے۔ شروع شروع میں انسان ان قواعد کی پابندی میں غلطیاں کرتا ہے لیکن جدوجہد سے اس کی طرزِ گفتار صحیح ہو کر ایک عادت بن جاتی ہے اور اس کی صلاحیت بتدریج زیادہ سے زیادہ آشکار ہوتی جاتی ہے۔ جس حد تک زبان کے فقرے اس کی عادت میں داخل ہوتے ہیں وہ قواعد کو ذہن میں لانے کے بغیر بے تکلف ان کو ادا کرتا ہے اوربالکل بھول جاتاہے کہ وہ بعض نہایت مشکل قواعد کی پابندی کر رہا ہے۔

 

فرد کا ارتقاء بالآخر نوع کا ارتقاء بنتا ہے

انسان کی ہر ایک روحانی یا اخلاقی صلاحیت کا ارتقاء بھی اسی طریق سے ہوتا ہے جس طرح سے حیوانی مرحلہ میں ایک جاندار کے جسمانی ارتقاء سے قدرت کی غرض یہ ہے کہ وہ ایک نوع کا ارتقاء بن جائے چنانچہ وہ اگلی نسلوں کو وراثتاً منتقل ہوتا ہے اور بالآخر ایک فرد کا ارتقاء نہیں رہتا بلکہ ایک نوع کا ارتقاء بن جاتا ہے اسی طرح سے افراد کے روحانی یا اخلاقی ارتقاء سے قدرت کا منشا یہ ہے کہ وہ ایک معاشرہ یا ایک سوسائٹی کا ارتقاء بن جائے چنانچہ وہ وراثت اور ماحول کے ذریعہ سے منتقل ہو کر بالآخر ایک معاشرہ یا ایک سوسائٹی کا ارتقاء بن جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر قوم بلکہ ہر خاندان‘ ہر گروہ اور جماعت کا معیار تہذیب و اخلاق اور شرافت و دیانت الگ ہوتا ہے۔ مثلاً جو فرد انسانی انگریزی قوم میں پیدا ہوتا ہے وہ انگریزی قوم کی اخلاقی خوبیوں سے خود بخود بہرہ ور ہوجاتا ہے اور ہمارے لیے ناممکن ہے کہ ہم کسی دوسری قوم کے فرد کو جو انگریزوں کی نسبت تہذیب و تمدن کی ایک پست تر سطح پر ہو محنت اور کوشش سے تربیت کرنے کے بعد بھی ان میں سے بعض خوبیوں کے ساتھ آراستہ کر سکیں۔

 

ارتقاء کا مقصود نوع ہے فرد نہیں

انسان کی ترقی ایک سوسائٹی کی ترقی ہے ایک فرد کی ترقی نہیں۔ ارتقاء کی قوتوں کی توجہ کا مرکز انسانی سوسائٹی کی مجموعی حیثیت ہے ۔ فرد کی اہمیت صرف یہ ہے کہ وہ سوسائٹی کا ایک جزو ہے اور اس کی ترقی سے سوسائٹی کی ترقی ہوتی ہے۔ یہاں پھر فرد اور خلیہ کی باہمی مماثلت ہمیں حقیقتِ حال کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ ایک خلیہ کی قوت جب ترقی کرتی ہے تو وہ اپنی قوت سے جسم کو طاقتور کرتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس جب جسم کی قوت ترقی کرتی ہے تو اس سے تمام خلیات طاقت پاتے ہیں اور کمزور یا بیمارخلیات خود بخود صحت مند اور قوی ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح سے ایک انسانی فرد جب ترقی کرتا ہے تو اس کی ترقی سے جماعت کی ترقی ہوتی ہے لیکن اس کے برعکس جماعت کی اخلاقی ترقی سے افراد خود بخود ترقی کرتے ہیں اور ان کی اخلاقی کمزوریاں اور کوتاہیاں خود بخود ور ہوجاتی ہیں۔

 

فرد جماعت کے لیے ہے

اگر پوچھا جائے کہ فرد اور جماعت میں سے زیادہ اہمیت کس کی ہے تو اس کا جواب فرد کی فطرت خود دیتی ہے جو سوسائٹی کے بغیر اپنا پورا اظہار نہیں کر سکتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فرد کو قدرت نے اس طرح سے بنایا ہے کہ وہ سوسائٹی کے ایک جزو کے طور پر کام آئے جس طرح سے کرسی کی ایک ٹانگ کہ وہ اپنی ذاتی وحدت بھی رکھتی ہے لیکن اس کی ذاتی وحدت کی جو حیثیت یا قدر و قیمت ہے وہ صرف اس بات پر موقوف ہے کہ وہ ایک بڑی وحدت کا جزو ہے اور اس کی وحدت کی تعمیر اس طرح سے ہوئی ہے کہ وہ ایک بڑی وحدت کا جزو بن سکے۔

 

جماعتی زندگی پر زور

یہی سبب ہے کہ اسلام نے جماعتی زندگی پر زور دیا ہے۔ مسلمان نماز بھی ایک جماعت میں ادا کرتا ہے اوراپنی دعاؤں میں زیادہ تر جمع کے صیغے استعمال کرتا ہے اور بھول جاتا ہے کہ فرد کی حیثیت سے اُس کے کوئی مفاد ایسے ہیں جنہیں خدا سے طلب کرنے کی ضرورت ہے اس میں شک نہیں کہ قیامت میں فرد اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہو گا۔

 

جماعت کے حقوق

لیکن اس کی جزا اور سزا تمام تر اُن اعمال سے تعلق رکھے گی جو جماعت کے ایک فرد کی حیثیت سے اُس سے سرزد ہوں گے۔ یعنی ایسے اعمال سے جو حقوق العباد کی ادائیگی سے تعلق رکھتے ہیں اور خود حقوق اللہ کی ادائیگی کی اہمیت بھی فقط یہ ہے کہ اُس سے حقوق العباد کی ادائیگی کے لیے ضروری تربیت حاصل ہوتی ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ خدا جماعتوں کو ان کے قائدین اور تابعین کے سمیت اکٹھی سزا اور جزا دے گا اور ان کا اکٹھا حساب لے گا۔

 

{یَوْمَ نَدْعُوْا کُلَّ اُنَاسٍ بِاِمَامِھِمْ} (بنی اسراء یل:۷۱)

 

’’جس دن ہم تمام لوگوں کو اُن کے لیڈروں کے ساتھ بلائیں گے۔‘‘

 

دنیا اور آخرت میں جماعتوں کی جزاء اور سزا

اورد نیامیں بھی خدا کی جزا اور سزا جن وحدتوں کے لیے صادر ہوتی ہے وہ زیادہ تر انسانی جماعتیں ہی ہوتی ہیں انسانی افراد نہیں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اُمتوں اور قوموں کی تباہیوں کا ذکر کیا ہے۔ اسی طرح سے اللہ تعالیٰ نے قوموں اور اُمتوں کو اپنے انعامات کے لیے منتخب کیا ہے جب خدا کا عذاب ایک قوم پرنازل ہوتا ہے تو اس میں نیک لوگ بھی مبتلا ہوجاتے ہیں اور اس کی وجہ یہ نہیں کہ خدا فرد کی نیکی کا بدلہ بدی سے دیتا ہے بلکہ اُس کی وجہ یہ ہے کہ وہ فرد جو ایک بری سوسائٹی کا ممبر ہے خواہ کیسا ہی نیک ہو اگر تبلیغ حق کے لیے اپنی جان تک ہتھیلی پر نہیں رکھ لیتا تو وہ اُن کی بدی میں شریک ہے لہٰذا سزا سے نہیں بچ سکتا لیکن اگر وہ امکان کی آخری حد تک تبلیغ حق کرتا ہے تو خدا قوم کو تباہ کرنے سے پہلے اسے ضرور بچاتا ہے تاکہ اپنے معیار حق و صداقت کے مطابق وہ ایک نئی قوم پیدا کر سکے ۔ جب تک کہ وہ مبلغ حق و صداقت ہار کر ان سے الگ نہ ہو جائے اُن پر عذاب نازل نہیں ہوتا کیونکہ اس وقت تک اُن کی بہتری اور رجوع الی الحق کی امید باقی ہوتی ہے:

 

{وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَھُمْ وَاَنْتَ فِیْھِمْ} (الانفال:۳۳)

 

’’جب تک تو اُن میں ہے خدا ان کو عذاب دینے والا نہیں۔‘‘

 

نفسیاتی ماحول کی اہمیت

معاشرہ کے ارتقاء سے فرد کا نفسیاتی ماحول خود بخود بدلتا جاتا ہے اور فرد جس ماحول میں پیدا ہوتا ہے اُس کے اخلاقی معیار سے براہِ راست فوری طور پر مستفید ہوتا ہے۔ مثلاً بچہ اپنے ماحول سے فوری طور پر زبان سیکھ لیتا ہے ۔ وہی زبان جس کے سیکھنے کے لیے ماحول سے باہر کے اشخاص کو گرامر کے قواعد کے ماتحت ایک طویل جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ ہم لوگ جو مسلمانوں کے گھر پیدا ہوتے ہیں خود بخود مسلمان ہوتے ہیں اور اعتقادوعمل کی ایک راہ بغیر کسی جدوجہد کے اختیار کر لیتے ہیں اور یہ راہ اتنی ہی اچھی یا بری ہوتی ہے جتنی کہ ہمارے والدین اور ہمارے خاندان کے افراد کی۔ یہ ایک واضح فائدہ ہے اس سے گو ہماری نیکی اور ہدایت کی زندگی براہِ راست اور غیر شعوری طور پر ماحول کے اثر سے حاصل کی ہوئی ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود وہ نیکی اور ہدایت کی زندگی ہوتی ہے۔

 

وراثتی صلاحیتوں کی اہمیت کم نہیں

وہ پہلا جاندار جس کی جدوجہد نے اسے پروں سے بہرہ ور کر دیا تھا اس قبل ہو گیا تھا کہ ہوا میں اڑ سکے لیکن اس کی نسل کے افراد اڑنے کی استعداد میں اُس سے پیچھے نہیں رہے۔ اگرچہ اُن میں سے کسی کو وہ جدوجہد کرنی نہیں پڑی جو اُن کے باپ نے کی تھی وہ اس کی جدوجہد کے ثمرات کو آنسو بہانے کے بغیر وراثتاً حاصل کرتے ہیں اور اُن کو یاد بھی نہیں ہوتا کہ ان کی طاقتِ پرواز اس قسم کی کسی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح سے جو شخص روحانی اور اخلاقی سطح ارتقاء پر ایک نیک تر‘ بہتر اور بلند تر درجہ کا رجحانِ عمل اپنے ماحول کے اثر سے (جس میں وراثت بھی شامل ہے)بلاجدوجہد اور براہِ راست حاصل کرتا ہے اس کی نیکی اُس شخص کی نیکی سے کسی طرح کم نہیں جس نے یہ ماحول پیدا کرنے کے لیے پہلے جدوجہد کی تھی۔

 

وراثت کا فائدہ

اگرچہ نیکی کا یہ وراثتی خود کار رجحانِ عمل اسے وراثتاً حاصل ہوتا ہے اور اس کے لیے خود کوئی جدوجہد کرنا تو درکنار اسے یاد بھی نہیں ہوتا کہ اُسے حاصل کرنے میں اس کے آباء و اجداد کو کوئی جدوجہد کرنی پڑی تھی۔ اس وراثتی رجحانِ عمل کا بڑا فائدہ اسے یہ ہوتا ہے کہ وہ نیکی کے بلند تر مقامات کی طرف زیادہ آسانی سے آگے بڑھ سکتا ہے اگر زندگی اپنی جدوجہد کے نتائج کو محفوظ نہ کرے اور محفوظ کرنے کے بعد اپنی جدوجہد کو کلیتاً بھول نہ جائے تو وہ اگلی منزل کی طرف ارتقاء نہیں کر سکتی۔

 

ایک خطرناک غلطی

نیکی اور بدی کے اس غیر ارتقائی غلط تصور کی وجہ سے ہم میں سے بعض کا خیال ہے کہ سن بلوغت کو پہنچ کر ایک انسان کو جسے ہدایت وراثت میں ملی ہے پھر نئے سرے سے وراثت کے تمام اثرات سے آزاد ہو کر ہدایت کو قبول کرنا چاہیے۔ چنانچہ وہ وراثتی مسلمانوں کو نسلی مسلمان یا رسمی مسلمان کہتے ہیں لیکن ہمارے ان بھائیوں کو چاہیے کہ ذرا اس بات پر بھی غور فرمائیں کہ کیوں اکثر اشخاص اپنے نصب العین کی محبت کو وراثت اور ماحول سے اخذ کرتے ہیں۔ درحقیقت وراثت اور ماحول کے یقین آفرین اثرات قدرت کے ان انتظامات میں سے ہیں جن سے قدرت نفسیاتی سطح ارتقاء پر اپنی حاصلات (Achievements)کو محفوظ کرتی ہے اور یہ انتظامات اس لیے ہیں تاکہ بالآخر صحیح آدرش یعنی اسلام کے کام آئیں۔ ان کے بغیر اُمت ِ محمدیہؐ کا ارتقاء دوسرے الفاظ میں نوعِ بشر کاارتقاء یا نفسیاتی مرحلہ میں پوری کائنات کا ارتقاء جو آئندہ اُمت محمدیہؐ کے ارتقاء کی شکل اختیار کرے گا‘ جاری نہیں رہ سکتا۔

 

نفسیاتی مرحلہ ارتقاء میں حفظ یا نیمی کا مظاہرہ

وراثت اور ماحول کے اثرات نفسیاتی مرحلۂ ارتقاء میں زندگی کی قوتِ حفظ یا نیمی (Mneme)کا مظہر ہیں یہ اثرات ہمیں اس جدوجہد کے اعادہ سے بچاتے ہیں جو ماضی میں ایک دفعہ کامیاب ہو چکی ہوتی ہے۔ یہ اثرات جہاں گمراہی کو قائم رکھتے ہیں وہاں ہدایت کو بھی قائم رکھتے ہیں اور اسے نشوونما پانے کا موقعہ دیتے ہیں۔ ان کی وجہ سے گمراہی کا قائم رہنا ہمارے لیے تشویش کا موجب نہیں۔ اس لیے کہ اگر ہدایت کی قوتیں ان اثرات کی وجہ سے قائم رہ کر طاقتور ہو جائیں (اور بالآخر ان کا طاقتور ہونا ضروری ہے) تو وہ گمراہی کے ماحول پر فتح پا کر اسے بدل دیں گی اور پھر گمراہی خود بخود مٹ جائے گی۔

 

{بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَـیَدْمَغُہٗ فَاِذَا ھُوَ زَاھِقٌ} (الانبیاء:۱۸)

 

’’بلکہ ہم حق کو باطل پر دے مارتے ہیں اور وہ اسے کچل دیتا ہے اور باطل ناگہاں مٹ جاتا ہے۔‘‘

 

اگر نیکی وہی ہے جو شعوری طور پر پوری جدوجہد کرنے کے بعد حاصل کی جائے اور اگر ضروری ہے کہ ہر فرد انسانی نیکی‘ حسن اور صداقت کا ہر اکتساب شعوری طور پر کرے اور معاشرہ کی عادات‘ رسومات اور مسلّمات میں سے کسی کو قبول نہ کرے تو پھر نہ صرف ہم مسلمانوں کو ‘جو اپنے ماحول سے غیر شعوری اثر قبول کرنے کی وجہ سے دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ہیں‘مرتد ہو کر نئے سرے سے اسلام قبول کرنا چاہیے۔ بلکہ ہر فرد انسانی کو چاہیے کہ پہلے پتھر اور دھات کے زمانہ کے معیار تہذیب و تمدن کی طرف واپس لوٹے اور پھر وہاں سے اپنے ارتقاء کو نئے سرے سے شروع کرے۔ کیونکہ اگر زمانۂ حال کا انسان اخلاق‘ سیرت اور عادات و اطوار کی ان تمام خوبیوں سے جو وہ معاشرہ اور ماحول کے اثرات سے براہِ راست اور غیرشعوری طور پر جذب کرتا ہے‘ کنارہ کش ہو جائے تو پتھر اور دھات کے زمانہ کے انسان سے کسی طرح مختلف نہیں ہو گا۔ ظاہر ہے کہ نیکی کا یہ تصور ارتقاء کے ان مقاصد کو ‘جو قدرت کے مدِّنظر ہیں اور نیز ان وسائل اور ذرائع کو جو قدرت اُن کے حصول کے لیے اختیار کرتی ہے ‘ نظر انداز کرتا ہے۔ اور لہٰذا درست نہیں ہو سکتا۔

 

آئندہ نسلوں کی شکرگزاری

اس ساری بحث کا حاصل یہ ہے کہ اگر فرد ایک ایسی سوسائٹی کا ممبر ہو جو بعض وجوہ سے ترقی یافتہ ہو تو وہ سوسائٹی کی ترقی سے خود بخود بہرہ اندوز ہوتا ہے اور اُسے ضروراس سے بہرہ اندوز ہونا چاہیے۔ خواہ اس مرحلۂ ترقی کو وجود میں لانے کے لیے اُس نے خود کوئی جدوجہد نہ کی ہو ترقی یافتہ اسلامی نظام کے ماحول میں جو شخص پیدا ہو گا وہ ماحول ہی کی برکتوں سے حرص و ہوا اور افلاس اور بیکاری اور ملحقہ مفاسد سے محفوظ رہے گا اور اس طرح سے وہ بڑے فائدہ میں رہے گا۔ کیونکہ وہ ارتقاء کے زینہ پر ایک بلند تر سیڑھی سے اپنی زندگی کا آغاز کرے گا اور نیکی اور حسن کے انتہائی مقامات تک پہنچنے کے لیے اس کی جدوجہد آسان تر ہو گی۔ چونکہ مستقبل کا اسلامی نظام ایک ترقی یافتہ نظام ہو گا اور ارتقاء کے راستہ پر ہر موجودہ نظام سے بہت آگے کا ایک قدم ہو گا جو خدا اور رسولؐ کی ہدایات کی متابعت میں طلب کمال کے لیے جماعت کی فطرتی جدوجہد کے نتیجہ کے طو رپر وجود میں آئے گا لہٰذا جو فرد اس میں جنم لے گا وہ اپنے آباء و اجداد کا شکر گزار ہو گا کہ وہ اُن کی ترقی کو وراثتاً حاصل کررہا ہے اور اُسے خود اُس کے لیے کوئی جدوجہد کرنی نہیں پڑی۔

 

انسانی معاشرہ کے مخفی کمالات

انسانی معاشرہ کی مخفی صلاحیتوں میں سے ایک صلاحیت یہ ہے کہ جماعت کے تمام افراد سچ مچ ایک قائد کے ماتحت تن واحد کی طرح متحد اور منظم ہو جائیں۔ ایک طرف افراد کے درمیان آپس میں اور دوسری طرف قائد اور جماعت کے ہر فرد کے درمیان فکر و عمل کا پورا پورا اتحاد موجود ہو‘ جماعت کے تمام افراد کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے ہمدردی‘ اخوت‘ محبت اور مساوات کے جذبات درجۂ کمال پر ہوں یہاں تک کہ ایک کا درد سب کا درد ہو اور ایک فرد کی تکلیف کا ازالہ کرنے کے لیے ساری جماعت خود بخود اور فوری طور پر حرکت میں آئے۔

 

فطرت انسانی کی شہادت

معاشرہ کی یہ حالت اس کے ارتقاء کی حالت کمال ہے اور خدا کی ہدایت کا مقصد یہ ہے کہ انسان اس حالتِ کمال کو پہنچے اس وقت ہم میں سے ایک کو بظاہر یہ مشکل نظر آتا ہے کہ کبھی اس حالت کمال کو پہنچے۔ لیکن جس خدا نے انسان کو بنایا ہے وہ اس کی صلاحیتوں سے واقف ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ایک دن انسان اپنی اس حالتِ کمال کو ضرور پا کر رہے گا اور اس بات کی شہادت خود انسان کی فطرت کے اندر موجود ہے۔

 

شریعت کا مقصد

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارتقاء کی اس منزل کی طرف راہنمائی کرنے کے لیے ہمیں قرآن کی صورت میں ایک ضابطہ اوامر ونواہی یا ایک شریعت عطا فرمائی ہے ۔ جوں جوں ہم اس شریعت کے تقاضوں کے مطابق جدوجہد کرتے جائیں گے ہم اس حالتِ کمال کے قریب پہنچتے جائیں گے ۔ یہاں تک کہ جب ہم شریعت کے اعلیٰ ترین تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے تیار ہو جائیں گے اور بالآخر ان کو پورا کر لیں گے تو ہم اس حالتِ کمال کو پا لیں گے۔

 

انسانی معاشرہ صفاتِ جمال کے مکمل اظہار کی طرف ترقی کر رہا ہے۔ قرآن کی راہنمائی میں وہ جس حالتِ کمال کو پانے والا ہے۔ ہم اس کی شان اور عظمت کا اندازہ ہی نہیں کر سکتے۔

 

پرکشودن کا بہانہ

بے شک تلاش رزق پر کشودن کا بہانہ ہے لیکن خود پرکشودن منزل پر پہنچنے کا بہانہ ہے۔ خود شعوری کی پرواز کسی منزل پر ٹھہر جانے کا نام نہیں‘ پر کھولنے کے بعد طائر لاہوتی کی پرواز کا ہر لمحہ اُسے ایک نئے مقام پر لے جاتا ہے اور تلاش رزق سے کھلنے والے پر انسان کو بالآخر ارتقاء کے جس مقام پر پہنچاتے ہیں وہ اسلام کا ترقی یافتہ نظام ہے۔

 

لغو بات

اس قسم کے نظام سے انسان باہر سے عائد کی ہوئی پابندیوں میں جکڑا نہیں جائے گا کیونکہ اس کی پابندیاں اس کی فطرت کے مطابق ہوں گی اور وہ ان کو ایک نعمت سمجھ کر قبول کرے گا۔

ہر شخص زندگی کا ایک آدرش رکھنے کے لیے اپنی فطرت سے مجبور ہے اور آدرش وہ چیز ہے جو ایک اندرونی دباؤ سے زندگی کے ہر فعل کو معین کرتا ہے اور زندگی کے ہر لمحہ پر فکر و عمل کی ایک خاص پابندی عائد کرتا ہے۔ جب انسان بعض پابندیوں کو جو قانون کی صورت میں باہر موجود ہوں رضا و رغبت سے اپنے اوپر عائد کرتا ہے تو وہ بیرونی پابندیاں نہیں رہتیں بلکہ آدرش کی عائد کی ہوئی اندرونی پابندیاں ہو جاتی ہیں جو آزادی میں خلل پیدا نہیں کرتیں۔

 

ایک اہم ضرورت

صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ قانونی پابندیاں انسان کے اندرونی جذبۂ حسن سے متعارض نہ ہوں۔ ترقی یافتہ اسلامی نظام میں ایسانہیں ہو گا ۔ لیکن اشتراکی الحادی نظام میں اس کا ہونا ضروری ہے ۔ ظاہری آزادی ایسی پابندیوں کا نام ہے جو انسان اپنی مرضی سے اپنے اوپر عائد کرے لیکن وہ اس کی فطرت کے مطابق نہ ہوں اور اصلی آزادی ایسی پابندیوں کے قبول کرنے کا نام ہے جو انسان کے جذبۂ حسن سے مطابقت رکھتی ہوں اور جستجوئے جمال کی مؤید ہوں۔

 

اصلی آزادی

اشتراکی نظام میں عارضی طور پر صرف ظاہر آزادی کا ہونا ممکن ہے لیکن اسلامی نظام میں ایسی اصلی آزادی حاصل ہو سکتی ہے جو ظاہری آزادی بھی ہو۔ اسلامی نظام کی پابندیاں فرد پر نہیں ہوں گی بلکہ فرد کے اندر کی ان خواہشات پر ہوں گی جو اُس سے غیر ہیں اور جن سے وہ بچنا چاہتا ہے جو پابندیاں انسان کے نفس کی برائی کے خلاف ہوں وہ اس کی شخصیت کے ارتقاء کے لیے ایک سازگار فضا مہیا کرتی ہیں جیسے کہ ایک بڑھتے اور پھولتے ہوئے پودے سے کسی سایہ کرنے والی یا ہوا کو روکنے والی چیز کو ہٹا دیا جائے تو وہ خوب بڑھتا اور پھولتا ہے۔

 

تعلیم کا نقص

اگر اسلامی ریاست کا کوئی فرد بعض اسلامی پابندیوں سے گھبرائے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ وہ پابندیوں سے آزاد ہونا چاہتا ہے کیونکہ وہ فطرتاً ان سے آزاد ہو ہی نہیں سکتا بلکہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ ایک آدرش کی پابندیوں کو ہٹا کر کسی دوسرے آدرش کی پابندیوں کو اپنے اوپر عائد کرنا چاہتا ہے۔ اور اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ اپنے آدرش کے حسن کے نظارہ سے محروم ہے۔ اس کا ایمان اور اعتقاد ناقص ہے۔ دوسرے الفاظ میں اُس کی تعلیم اور تربیت ناقص ہے۔ ایسی حالت میں ہمیں اس بات کی ضرورت ہو گی کہ ہم اس کی تعلیم و تربیت کاتسلی بخش انتظام کریں یہاں تک کہ وہ اپنے آدرش کے حسن و جمال کو دیکھے اور اس کی عائد کی ہوئی پابندیوں کو رغبت اور کشش سے قبول کرے۔

 

قانون کی حقیقت

قانون کے بارہ میں ہم بہت سی غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں۔ ہم اکثر اسے ایک جبر یا ایک مصیبت سمجھتے ہیں لیکن دراصل جب کوئی جماعت اپنے آدرش کی جستجو میں اپنے کسی عمل کو ایک خودکار عادت کی صورت میں لانا چاہتی ہے تو اس کی یہ خواہش قانون کی صورت اختیار کرتی ہے لہٰذا قانون فرد یا جماعت سے باہر کی کوئی چیز نہیں ہوتا بلکہ اُن کے آدرش کے اندرونی تقاضوں سے پیدا ہوتا ہے اور فرد اور جماعت کی خواہشات کی ضبط شدہ تعبیرات کا نام ہے۔ اچھا قانون وہ ہے جو ایک اعلیٰ آدرش کی پیداوار ہو اور برا قانون وہ ہے جو ایک ناقص اور پست آدرش کی پیداوار ہو اور لہٰذا غیر فطرتی ہو۔ ترقی یافتہ اسلامی نظام کے تمام قوانین فطرتی اور اعلیٰ قسم کے قوانین ہوں گے کیونکہ وہ سب کے سب صحیح آدرش سے پیدا ہوں گے۔ تربیت یافتہ مرد مؤمن اُن کو خوشی سے قبول کرے گا اور اُن کی وجہ سے کوئی جبر محسوس نہیں کرے گا۔

 

منصوبہ بندی اور آزادی

ہمارے بعض بھائی منصوبہ بندی(Planning)پر معترض ہوتے ہیں کہ اُس سے انسان کی آزادی میں فرق پڑتا ہے۔ ان کے خیال میں آزادی کا تقاضا یہ ہے کہ حالات کو اپنے قدرتی بہاؤ کے رخ پر چھوڑ دیا جائے۔ لیکن آزادی کا یہ مفہوم درست نہیں۔ آزادی کے معنی ہیں اپنے آپ پر ایسی پابندیوں کو عائد کرنے کے لیے آزاد ہونا جو خود شعوری کو اس کے نصب العین کے قریب لائیں۔ حالات کو اپنے قدرتی بہاؤ کے رخ پر کوئی نہیں چھوڑتا اور نہ کوئی چھوڑ سکتا ہے۔ ہر شخص انہیں اپنے آدرش کے تقاضوں کے مطابق بدلنے پر مجبور ہے۔ البتہ بعض لوگ اس کام کو دور اندیشی‘ قابلیت اور ہوشیاری سے انجام دیتے ہیں اور بعض لوگ بھدے پن سے ‘ منصوبہ بندی بذاتِ خود کوئی بری چیز نہیں۔ لیکن جب وہ غلط آدرش کی خدمت کرے تو وہ غلط ہو جاتی ہے اور انسان کو ناجائز طور پر پابند کرتی ہے۔ اگر اس کا مقصد انسان کی خود شعوری کو اپنے نصب العین کی طرف بڑھنے کے لیے آزاد کرنا ہے تو وہ عین رحمت ہے۔

 

منصوبہ بندی کی غرض

ایک ترقی یافتہ اسلامی ریاست میں منصوبہ بندی کی غرض یہ ہو گی کہ فرد کو جستجوئے حسن کی جدوجہد میں زیادہ سے زیادہ سہولتیں بہم پہنچائی جائیں۔ انسان کی اُن صلاحیتوں اور قابلیتوں کو اور اُس کے اُن طبعی رجحانات عمل کو ‘جو آزاد مسابقت میں معاشرہ کی بے رحمی سے اپنے اظہار کے لیے میدان نہیں پا سکتے اور رک جاتے ہیں‘ اظہار کا موقعہ دیا جائے۔ منصوبہ بندی سے اسلامی ریاست فرد کے لیے نام نہاد قدرتی حالات کی مخالفت کو موافقت میں بدلتی ہے اور اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ مختلف انسان ‘جو مختلف قسم کی قابلیتیں اور قوتیں لے کر پیدا ہوتے ہیں ‘ان کی پوری پوری نشوونما ہو تاکہ وہ جماعت کی مشترک زندگی میں اپنا فرض پوری طرح سے ادا کریں۔ہر شخص اپنے گھر کا انتظام ٹھیک رکھنے کے لیے منصوبہ بندی کرتا ہے۔ جب گھر میں چھوٹے پیمانہ پر منصوبہ بندی مفید ہوتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ریاست کے بڑے پیمانہ پر وہ مضر ہو۔

 

قدرت کا آلۂ کار

انسان کی منصوبہ بندیاں درحقیقت حالات کے قدرتی بہاؤ کا ہی ایک جزو ہیں اور قدرت سے الگ کوئی چیز نہیں۔ کیونکہ انسان خود قدرت کا ہی ایک جزو ہے اور آخر کار اُسی کا آلۂ کار ہے خدا نے انسان کو اسی لیے خود شعور کیا ہے کہ وہ اپنے گرد و پیش کے حالات کے اندر انتشار اور بگاڑ کو دور کر کے نظم اور بناؤ پیدا کرے اور ان حالات کو اپنے مقاصد کے مطابق جہاں تک بدلنا چاہے بدلے۔ درحقیقت اللہ تعالیٰ دنیا کے حالات کے اندر نظم اور بناؤ خود پیداکرنا چاہتا ہے اور پیدا کرتا ہے لیکن اس کے لیے انسان کے جذبۂ حسن کو ایک ذریعہ بناتا ہے۔

 

ایک اعتراض : کہا جاتا ہے کہ منصوبہ بندی سے انسان کی یہ خواہش پوری نہیں ہو سکتی کہ کچھ وسائل کار اس کے ہاتھوں میں ہوں جنہیں وہ اپنے اختیار سے استعمال کر سکے اور ان وسائل پر اپنے رجحان کے مطابق کام کر کے اپنی مخفی قوتوں کو ابھارے اور چمکائے۔ حالانکہ اُس کی شخصیت اپنے ارتقاء کے لیے سب سے بڑھ کر اس چیز کی محتاج ہے۔

 

جواب : لیکن ایک ترقی یافتہ اسلامی ریاست میں فرد کو اپنے رجحان کے مطابق کام کرنے کا موقع دیا جائے گا اور جو وسائل کار اس کے ہاتھوں میں دیے جائیں گے وہ  یہی سمجھے گا کہ وہ اس کے اپنے ہی ہیں اور اس کا فرض ہے کہ جماعت کے مجموعی مفاد کے لیے انہیں اس طریق سے کام میں لائے کہ اس کی تمام مخفی قوتیں بروئے کار آ جائیں۔ البتہ اس کا محرکِ عمل جلب زر اور منفعت اندوزی اور حرص و ہوا کے داعی نہیں ہوں گے بلکہ اس کا محرک ِعمل فرض شناسی‘ دیانت داری اور اخوت کے جذبات ہوں گے ۔ شخصیت کا ارتقاء حرص و ہوا اور منفعت اندوزی کے محرکات کو اکسانے سے نہیں ہوتا بلکہ افلاس اور جلب منفعت دونوں کی فکر سے آزاد کرنے ‘ خدا کی رضاجوئی کی فکر کو پیدا کرنے اور خدا اور خلقت کی محبت کے جذبات کی نشوونما کرنے سے ہوتا ہے۔

 

ارتقائے شخصیت کے معنی

اس زمانہ میں سیاسی اور اقتصادی مسائل پر بحث کرتے ہوئے ارتقائے شخصیت کے الفاظ بکثرت استعمال کیے جاتے ہیں لیکن ان الفاظ کا مفہوم ٹھیک طرح سے سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم پہلے اس بات کا تعین کریں کہ فرد کی شخصیت کا ارتقاء کس سمت میں ہوتا ہے‘ کہاں  جا کر ختم ہوتا ہے ‘ فرد اور جماعت کے لیے کیا نتائج پیدا کرتا ہے اور اُن کے کس کام آتا ہے۔ نیز فرد کی شخصیت کے اندر کون کون سے رجحانات ہیں جو اپنا اظہار چاہتے ہیں اور کون کون سی مخفی قوتیں ہیں جن کو ابھارنے اور چمکانے کی ضرورت ہے ۔ صرف اسی صورت میں ہم معلوم کر سکتے ہیں کہ کو ن کون سے کام ایسے ہیں جن سے فرد کی شخصیت کا ارتقاء ہوتا ہے اور اس کی مخفی قوتیں ابھرتی اور چمکتی ہیں۔ پھر ہمیں اس بات کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے کہ ضروری ہے کہ فرد انسانی کی شخصیت کا ارتقاء ساری کائنات کے ارتقاء کا ایک جزو ہو اُس کے ساتھ مناسبت رکھتا ہو اور اُس سے متصل اور متسلسل ہو لہٰذا ارتقائے شخصیت کا مسئلہ ارتقائے کائنات کے فلسفہ کے بغیر واضح طور پر سمجھا نہیں جا سکتا۔ ہو نہیں سکتا کہ ارتقاء ساری کائنات میں نہ ہو اور فقط انسان کی شخصیت میں ہو۔ جو لوگ کائناتی ارتقاء کو ایک حقیقت نہیں مانتے ان کے لیے شخصیت کے ارتقاء کا ذکر عبث ہے۔

 

ارتقائے شخصیت کی تائید

شخصیت کے ارتقاء سے مراد خود شعوری کا ارتقاء ہے اور اس کتاب میں ارتقائے خود شعوری کے موضوع پر مفصل بحث کی گئی ہے۔ اس بحث کی روشنی میں قارئین بآسانی دیکھ سکیں گے کہ چونکہ ایک اسلامی ریاست کی منصوبہ بندی افراد کی صلاحیتوں اور قوتوں کو مجتمع اور منظم کر کے صحیح آدرش کی ضروریات اور اس کے مقتضیات کے ماتحت بہترین مصرف میں لائے گی لہٰذا وہ ارتقائے شخصیت کے لیے ممد و معاون ہو گی‘ مضر اور مزاحم نہیں ہو گی۔

 

ایک اور اعتراض

شاید ترقی یافتہ اسلامی نظام کے خلاف ایک اور اعتراض یہ کیا جائے کہ اس سے چھوٹے سرمایہ دار تو ختم ہو جاتے ہیں لیکن ایک بڑا سرمایہ دار لوگوں پر مسلط ہوجاتا ہے‘ جو عملاً ریاست کی ہیئت ِانتظامیہ(Executive)کا ایک مختصر سا گروہ ہوتا ہے۔ تمام ذرائع معاش اس کے قبضہ میں ہوتے ہیں اور اُسی کے ذریعہ سے لوگوں تک پہنچتے ہیں لہٰذا لوگ اس کے سامنے بے بس ہوتے ہیں۔ اگر وہ اقتدار کے نشہ میں ظالم اور جابر بن جائے تو اس کے خلاف کوئی داد و فریاد ممکن نہیں ہوتی۔

 

اسلامی اور اشتراکی نظام کا فرق

اگر یہ اعتراض ایک لادینی اشتراکی نظام کے خلاف اٹھایا جائے تو درحقیقت وزن رکھتا ہے لیکن ایک ترقی یافتہ اسلامی جماعت کے اقتصادی نظام کے خلاف یہ اعتراض پیدا نہیں ہوتا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہ اعتراض جس حقیقت پر مشتمل ہے وہ اشتراکی لادینی نظام کو ایک نہایت ہی ضرر رساں معاشرہ کی صورت دیتی ہے۔ اس کے برعکس اسلامی نظام کے لیے یہی حقیقت ایک خوبی اور زینت اور اس کی مزید ترقی اور ترفع کی ضامن بن جاتی ہے۔

 

اختیار کا صحیح اور غلط استعمال

کسی جماعت کے مرکز کا غیر محدود اختیار فی نفسہ کوئی بری چیز نہیں۔ اس کی برائی اس کے استعمال سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر اختیار کا استعمال غلط ہے تو وہ جس قدر زیادہ وسیع ہو گا اسی قدر مقاصد ارتقاء کے لیے زیادہ مضر ہو گا اور اسی قدر زیادہ فرد کی شخصیت کو ابھرنے سے باز رکھے گا۔ اس کے برعکس جب حکومت اپنے اختیار کا استعمال صحیح طور پر کر رہی ہو تو جس قدر اس کا اختیار زیادہ وسیع ہو گا اسی قدر مقاصد ارتقاء کے لیے مفید ہو گا اور اسی قدر زیادہ فرد کی شخصیت کے لیے اُبھرنے اور چمکنے کی سہولتیں پیدا کرے گا۔ جب کوئی حکومت غلط آدرش کے ماتحت وجود میں آئے تووہ اپنا اختیار ہمیشہ غلط طور پر اور فرد کے خلاف استعمال کرتی ہے۔ اس کے برعکس جب کوئی جماعت صحیح آدرش کے ماتحت وجود میں آئے اور اس کی محبتِ آدرش پوری طرح ترقی یافتہ ہو تو اس کی حکومت ہمیشہ اپنا اختیار صحیح طور پر اور فرد کے حق میں استعمال کرتی ہے۔

 

اسلامی حکومت کا استعمالِ اختیار

چونکہ ترقی یافتہ اسلامی جماعت کی محبت فرد کی دینی تعلیم اور روحانی تربیت کی وجہ سے حد درجہ ترقی یافتہ ہو گی لہٰذا اس کی حکومت اپنا اختیار صحیح طور پر استعمال کر ے گی۔ یہ اختیار جس قدر زیادہ وسیع ہو گااُسی قدر جماعت کا ہر فرد (جماعت کی مؤثر اعانت کی وجہ سے) آزاد‘ خود نگر‘ خود شناس اور خود شعور ہو گا اور اُسی قدر جماعت زیادہ منظم اور مضبوط اور آدرش کی جستجو کے لیے زیادہ مستعد اور متحد ہو گی۔ اس اختیار کی وسعت ہی کی وجہ سے جماعت فرد کی پوری پوری نگہداشت اور اعانت کرے گی اور فرد اپنی قوت سے جماعت کی قوت بڑھائے گا۔ گویا اُسی کی وجہ سے مسلمانوں کی جماعت پر سچ مچ اس حدیث کے وہ الفاظ صادق آسکیںگے جس میں حضورﷺ نے فرمایا تھا کہ مسلمانوں کی جماعت ایک فردِ واحد کی طرح ہوتی ہے کہ جب اس کی آنکھ دکھتی ہے یا سردرد کرتا ہے تو وہ تمام کا تمام درد محسوس کرتا ہے۔

 

ایک بعید احتمال

باقی رہا یہ سوال کہ اگر اسلامی جماعت کے کارپردازان اور منتظمین بگڑ جائیں تو کیا ہو‘سو اُن کے اوپر ایک قائد ہو گا جو ان کو بگڑنے نہیں دے گا اور قائد کا بگڑنادو طرح سے ہو سکتا ہے:

 

اوّل :  یہ کہ وہ اسلام ہی کو چھوڑ کر کفر اختیار کرے اور معبود حقیقی سے رو گردان ہوکر ناقص اور ناپائیدار معبودوں کی اطاعت قبول کرے۔ لیکن ان معنوں میں ایک ترقی یافتہ اسلامی جماعت کے قائد کے بگڑنے کا احتمال اس قدر بعید ہے کہ ہم آسانی سے اسے نظر انداز کر سکتے ہیں۔

 

قائد کی صفات

اس قسم کی اسلامی جماعت کا قائد ایک ایسا شخص ہو گا جسے مسلمان اس لیے چنیں گے کہ ایک طرف سے تو وہ جماعت کے نصب العین یعنی خدا کا ایسا پرسوز عاشق ہو گا کہ جماعت کا کوئی فرد اس باب میں اس کے مقابل میں نہ رکھا جا سکے گا۔ اس نے اپنے عشق کے لیے بہت سا خونِ دل پیا ہو گا‘ بہت سی تکلیفیں جھیلی ہوں گی‘ بہت سی راتوں کو جاگا ہو گا اور بہت سے آنسو بہائے ہوں گے۔ وہ ذکر اور فکر اور عبادت اور ریاضت سے ایک شعلۂ روشن کی طرح ہو گا اور اس کے شعلۂ دل کی گرمی اور روشنی اس کے فکر و عمل اور اس کی تقریر اور تحریر کے ذریعہ سے اس طرح پھیل رہی ہو گی کہ لوگ یہ سمجھتے ہوں گے کہ وہ روحانیت کے ایک بلند مقام پر فائز ہے اور دوسری طرف سے ایک بے نظیر اسلامی بصیرت اسے عطا ہو گی۔ وہ اپنے ماحول کو سمجھتا اور جانتا ہو گا اور اس کا علم اور حلم اس کی غیرت اور حمیت اور اس کا تدبر اور تعقل قابل اعتماد ہوںگے۔

 

نسبتی برتری

میرا مطلب یہ نہیں کہ اُس میں یہ تمام صفات بدرجۂ کمال موجود ہوں گی۔ کیونکہ مستقبل کی اسلامی جماعت اپنے قائد کا معیار اس قدر بلند نہیں رکھے گی کہ جماعت کا کوئی فرد بھی اس پر پورا نہ اتر سکے اور جماعت کا جو فرد بھی اُن کی مرضی سے مقام قیادت پر فائز ہو جائے وہ دل ہی دل میں اسے ناپسند کرتے رہیں بلکہ وہ اُن ہی میں سے ایک ہو گا۔ میرا مطلب فقط یہ ہے کہ ان صفات میں سے بعض اس میں کم ہوں گی اور بعض زیادہ۔ لیکن اپنی صفات کے مجموعہ کے لحاظ سے وہ جماعت کے تمام دوسرے افراد سے بہتر ہو گا اور صرف اسی لیے جماعت اسے اپنا قائد بنائے گی اور اس سے زیادہ کسی اور خوبی کے لیے نہیں۔تاہم جماعت کے بہترین فرد اور آدرش کے بہترین پرستار کا آدرش سے بغاوت کر دینا اور دوسروں کا اپنے اعتقاد پر یہاں تک قائم رہنا کہ وہ ان کی نکتہ چینی کا حق دارہو جائے بعید از قیاس ہے۔

 

فیصلہ کن طاقت

لیکن اگر اس قسم کا کوئی موقعہ پیدا ہو جائے تو پوری جماعت کی طاقت کے سامنے ایک شخص کی طاقت خواہ وہ کتنی ہی زیادہ ہو‘تادیر ٹھہر نہیں سکتی۔ اس اعتراض کو پیش کرنے والے اس حقیقت سے غافل ہیں کہ جماعتوں اور پارٹیوں کی باہمی آویزش میں جو طاقت آخر کار فیصلہ کن ثابت ہوتی ہے وہ نہ اقتصادی وسائل کی ملکیت سے تعلق رکھتی ہے اور نہ فوج اور اسلحہ کی کمان سے بلکہ وہ آدرش کی محبت اور اخلاقیت اور روحانیت سے پیدا ہوتی ہے۔ جو پارٹی اخلاقی اور روحانی طورپر زیادہ مضبوط ہو گی وہ تمام مادی قوتوں کے علی الرغم اور تمام پابندیوں اور رکاوٹوں کے باوجود دوسری پارٹیوں پر فتح پائے گی۔ ایسے حالات میں یہ طاقت تمام کی تمام قائد کے برخلاف جماعت کے ساتھ ہو گی۔

 

روحانی تربیت کی طاقت

اور ہمیں یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ ایک ترقی یافتہ اسلامی جماعت میں دینی اور روحانی تعلیم اور تربیت پر اتنا زور دیا جائے گا کہ اُس کی اکثریت اسلام کو ٹھیک طرح سے سمجھتی ہو گی اور اس کی پوری پوری محبت سے بہرہ ور ہو گی۔ اگر ایسی جماعت کا قائد کسی وقت شیطان کے فریب میں آ کر خدا کے خوف سے جان بوجھ کر الگ ہونے لگے گا تو لاکھوں بیدار اور ہوشیار آنکھیں جو اس کی طرف تیز تیز نگاہوں سے دیکھ رہی ہوں گی اسے اس حرکت سے باز رکھیں گی ورنہ وہ ضرور اپنی پاداش کو پہنچے گا۔

 

نظم اور اطاعت کی ضرورت

قائد کے بگڑنے کی دوسری صورت یہ ہے کہ نصب العین کے لیے اس کی محبت اور اس کا سوز اور غم تو بدستور رہیں۔ لیکن وہ انسان ہونے کی حیثیت سے کبھی چھوٹی چھوٹی اور کبھی بڑی بڑی ہمالیہ جتنی‘ غلطیوں کا ارتکاب کرتا رہے۔ سو مستقبل کا مسلمان صبر اور تحمل اور نظم اور اطاعت کے اوصاف کا ایسا قدردان ہو گا کہ جب تک اللہ ہی سے قائد کی روگردانی کے واضح اور متواتر شواہد پیدا نہ ہوں گے  وہ ان غلطیوں کی پرواہ نہیں کرے گا اور اس کی اطاعت سے منہ نہیں موڑے گا اور یہ طرزِ عمل قائد کے ساتھ کسی مہربانی کے طور پر نہیں ہو گا بلکہ اس کا جذبۂ حسن خود اسے مجبور کرے گا کہ وہ ہرحالت میں جماعت کے اندر رہے اور قائد کی اطاعت کا طوق خود اپنی خاطر اور اپنے آدرش کی خاطر پوری رضامندی کے ساتھ بلکہ ایک نعمت گراں مایہ سمجھ کر اپنی گردن میں ڈالے رہے کیونکہ اس کے بغیر وہ اپنی پوری صلاحیتوں اور قوتوں کے ساتھ اپنے آدرش کی جستجو نہیں کر سکے گا۔ اسے خوب معلوم ہوگا کہ قائد سے بغاوت کرنا نہیں بلکہ قائد کی اطاعت کرنا اس کی صحیح اور اصلی فطرت ہے اور وہ اپنی صحیح اور اصلی فطرت کے مکمل اظہار ہی سے اطمینان پا سکتا ہے۔

 

قائد کی غلطیوں سے جماعت کا تعاون

شروع میں تو وہ قائد کی غلطی پر اس لیے صبر کرے گا کہ ممکن ہے بعد کے حالات ثابت کر دیں کہ وہ خود غلطی پر ہے اور بالعموم بعد کے حالات یہی ثابت کریں گے لیکن اگر ثابت ہو جائے گا کہ قائد ہی غلطی پر تھا تو پھر بھی وہ محسوس کرے گا کہ قائد سے بغاوت کرنے کی نسبت قائد کی اطاعت کرنے سے وہ اپنے اور اپنی جماعت کے آدرش کی بہتر خدمت کر سکتا ہے۔ جماعت ایک فرد واحد کی طرح ہے۔ ایک فرد اپنے فکر و عمل میں کبھی غلطی پر ہوتا ہے اور کبھی نہیں ہوتا۔ جب فرد کوئی غلطی کرتا ہے تو اس کے قویٰ اور اعضاء اس کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ پھر رفتہ رفتہ وہ تجربہ سے فائدہ حاصل کر کے خود اپنی غلطی کی تلافی کر لیتا ہے۔اسی طرح جب ایک منظم جماعت غلطی کرتی ہے یعنی اس کا قائد غلطی کرتا ہے تو اس کے افراد (بشرطیکہ فی الواقع وہ اپنے آدرش سے شدید محبت رکھتے ہوں) اُس سے کٹ نہیں جاتے بلکہ وہ جماعت کے اندر رہ کر قائد کی اطاعت بجا لاتے ہوئے سب کے ساتھ مل کر غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ تاکہ اُن کا نظم اور اتحاد بگڑنے نہ پائے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جماعت مناسب وقت پر اس غلطی کی تلافی خود بخود کر لیتی ہے۔ متحد اور منظم جماعت کی غلطیاں خودبخود اپنے آپ کو ایسی آسانی سے درست کرتی ہیں کہ ان غلطیوں کو درست کرنے کے لیے بعض بے صبر اور جلد باز اشخاص کاجماعت کے نظم اور اتحاد کو برباد کرنا کسی صورت میں جائز نہیں ہو سکتا۔ متحد ہو کر ایک غلطی پر قائم رہنا‘ اپنی تنظیم اور وحدت اور قوت کو پارہ پارہ کر کے غلطی کو درست کرنے سے بدرجہا بہتر ہے۔ اگر جماعت کی تنظیم اور قوت قائم رہے گی تو وہ زود یا بدیر خود بخود اپنی غلطیوں کی اصلاح کر لے گی ورنہ اس کی زندگی ہی ختم ہو جائے گی۔ اگر جماعت قائم رہے گی تو اس کا ماضی‘ حال اور مستقبل ایک وحدت ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ اس وحدت میں جو چیز آج غلط ہے وہ کل دوسری چیزوں کے وجود میں آنے سے غلط نہ رہے۔

 

ارتقائے انفرادیت کی شرط

بعض لوگوں کو یہ بات عجیب معلوم ہو گی لیکن اس کے باوجود یہ بات بالکل صحیح ہے کہ فرد ایک فرد کی حیثیت سے اپنی شخصیت کا مکمل اظہار اسی صورت میں کر سکتا ہے اور اس کی انفرادیت(Individuality)اسی صورت میں ارتقاء کر سکتی ہے جب وہ اپنی شخصیت کو جماعت کی شخصیت میں کھو دے۔

اسی لیے حضورﷺ نے حکم دیا ہے کہ مسلمان جماعت اپنے امیر سے الگ ہونے کی کوشش نہ کرے۔ خواہ امیر نماز بھی غلط پڑھاتا ہو۔ پھر آپؐ نے فرمایا جماعت کے اندر رہو۔ الگ رہو گے تو آگ میں ڈالے جاؤ گے:

 

عَلَیْکُمْ بِالْجَمَاعَۃِ مَنْ شَذَّ شُذَّ فِی النَّارِ

 

’’جماعت سے لگے رہو جو الگ ہو گا آگ میں ڈال جائے گا‘‘۔

 

وجودِ حکومت کی مخالفت

درحقیقت ایک ترقی یافتہ نظام کے خلاف یہ دلیل کہ اس سے مرکز کا اختیار بہت بڑھ جائے گا اور فرد کی آزادی سلب ہو جائے گی بالآخر حکومت کے وجود ہی کے خلاف جاتی ہے۔ اگر فرد کو زیادہ سے زیادہ آزادی دینا ضروری ہے تو حکومت کو کم از کم اختیار ملنا چاہیے۔ لہٰذا اس دلیل کے اندر یہ عقیدہ مخفی ہے کہ اگر ہو سکے تو حکومت بالکل موجود ہی نہ ہو کیونکہ حکومت ہر حالت میں فرد کی آزادی سلب کر کے وجود میں آتی ہے خواہ وہ اس آزادی کو کم سلب کرے یا زیادہ۔ لیکن چونکہ حکومت کے بغیر چارہ نہیں لہٰذا حکومت کے وجود کو ایک ضروری برائی سمجھ کر گوارا کر لیا جائے۔

 

روسو ایسے فلسفیوں کی گمراہی

اس دلیل کا منبع جماعت‘ حکومت اور سیاست کا فطرتی قرآنی نقطۂ نظر نہیں بلکہ وہ گمراہی ہے جو انیسویں صدی میں لاک(Locke) ہابیز(Hobbes) اور روسو(Roussau)ایسے اسرارِ حیات سے ناآشنا فلسفیوں نے پھیلائی تھی اور جس کے اثرات سے متمدن دنیا ابھی تک نجات نہیں پا سکی اور شاید مدت تک نجات نہ پا سکے۔ ان لوگوں کی تعلیم یہ ہے کہ ریاست اور فرد کے درمیان ایک فطرتی مغائرت موجود ہے ۔ لیکن چونکہ فرد ریاست کے بغیر اپنی زندگی ٹھیک طرح سے بسر نہ کر سکتا تھا اس لیے دونوں نے ایک غیر فطرتی مصنوعی معاہدہ کر لیا جس کی رو سے ریاست کے کچھ حقوق فرد پر ہیں اور فرد کے کچھ حقوق ریاست پر ہیں۔ اس سے فرد کی آزادی کا کچھ حصہ سلب ہو جاتا ہے لیکن فرد کو جماعتی زندگی کی وجہ سے کچھ فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔ گویا ریاست ایک ضروری برائی ہے اور اُس کے نقصانات کو کم کرنے کے لیے اس کے اختیارات کو محدود کرنا چاہیے تاکہ فرد ‘جہاں تک ممکن ہو ‘ریاست کے اقتدار سے آزاد رہ سکے۔

 

اسلام کا نقطۂ نظر

اس کے برعکس اسلام کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ منظم جماعتی زندگی جسے دوسرے الفاظ میں ریاست کہا جاتا ہے عین فطرت ہے اور اس کی خواہش انسان کے دل میں جذبۂ حسن کے ایک عنصر کے طور پر موجود ہے۔ گویا جو شخص ایک قائد کے ماتحت ایک منظم جماعتی زندگی اختیار نہیں کرتا وہ خدا کی پوری پوری اطاعت اور اپنے جذبۂ حسن کی پوری پوری تشفی نہیں کر سکتا۔ قائد رسول کا قائم مقام ہے جس طرح سے خدا کی اطاعت کے لیے رسول کی اطاعت ضروری ہے اور خدا کی اطاعت کے مترادف ہے۔ اسی طرح سے خدا کی اطاعت کے لیے رسول کی عدم موجودگی میں قائد کی اطاعت ضروری ہے اور خدا کی اطاعت کے مترادف ہے:

 

{ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ} (النساء:۵۹)

 

’’خدا کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اربابِ حکومت کی اطاعت کرو۔‘‘

 

جماعتی زندگی کی تربیت

جیسا کہ پہلے عرض کیا گیاہے فرد ایک فرد کی حیثیت سے اس وقت تک اپنی صلاحیتوں کی پوری نشوونما ‘اپنی ممکنات کا پورااظہار اور اپنی محبتِ جمال کی پوری پوری تربیت نہیں کر سکتا‘ جب تک کہ وہ اپنے آپ کو جماعت میں نہ کھوئے۔

 

حضورﷺ کی مثال

فرد جب جماعت کے ساتھ اپنے تعلقات نبھانے اور جماعت کے مفاد کی حفاظت اور قائد کی اطاعت کر کے جماعت کی وحدت اور قوت کو قائم رکھنے اور ترقی دینے کی کوشش کرتا ہے تو اس عمل سے اُس کی خود شعوری صحیح سمت میں نشوونما پاتی ہے۔ فرد کا جماعت کے اندر اپنے آپ کو کھونا اپنے آپ کو پوری طرح سے پا لینا ہے یہی سبب ہے کہ حضورﷺ نے جو خاتم النبیین کی حیثیت سے اس لیے مبعوث ہوئے تھے کہ انسان کی زندگی کے تمام ضروری شعبوں پر عقیدئہ توحید کا اطلاق کریں اور اپنی عملی زندگی کی مثال سے ایک ایسی تعلیم مہیا کریں جس کی روشنی میں انسان اپنی فطرت کے ہر ایک ضروری پہلو کا پورا پورا اظہار کر سکے‘ خود اپنی قیادت میں مسلمانوں کو منظم کر کے ایک اسلامی ریاست کو پیدا کر دیا تھا۔

اور وہ لوگ جو بے خبری میں مغرب کی گمراہی سے متأثر ہو کر نام نہاد آزادی کے نام پر بظاہر اسلام کی مدافعت کے لیے ریاست کے وجود سے اصولی اختلاف کرجاتے ہیں خوداس بات کو خوب جانتے ہیں اور اس بات کا اعادہ کرتے ہوئے نہیں تھکتے کہ اسلام میں مذہب اور سیاست ایک دوسرے سے الگ نہیں۔ تو پھر کیا یہ نہ مانا جائے کہ ایک ریاست کے وجود کو ممکن بنانے کے لیے اور پھر اس کے وجود کو فرد کی تربیت اور ترقی کے لیے زیادہ مفید اور مؤثر بنانے کے لیے فرد کا قائدِ جماعت کی ’’غلامی‘‘ اختیار کرنااور قائد کا اس کی ’’آزادی‘‘ کو سلب کرنا اسلام کا منشأ ہے اور فطرتِ انسانی کے عین مطابق ہے اور اسلام اس غلامی کو فرد کی روحانی تربیت کے لیے یہاں تک ضروری سمجھتا ہے کہ اسے حکم ہے کہ اگر وہ نماز بھی پڑھے تو اس غلامی کا طوق اپنی گردن میں ڈال لے اور تنہا نماز نہ پڑھے بلکہ ایک قائد کے پیچھے ایک منظم جماعت میں منسلک ہو کر پڑھے اور اپنے ہر لفظ کو اور اپنی ہر حرکت کو قائد کے الفاظ اور قائد کی حرکات کے ساتھ عین مطابق کرے۔ اس سے اسلام کا مدعا سوائے اس کے اور کیا ہے کہ اطاعت اور فرماں برداری کی تمرین اور مشق جو فرد کو نماز میں حاصل ہو گی اسے زندگی کے وسیع تر میدان میں کام آئے گی۔ درحقیقت یہ غلامی آزادی کی شرط ہے کیونکہ اس کے بغیر فرد اپنی پوری قوت کے ساتھ صحیح آدرش کی جستجو نہیں کر سکتا اورلہٰذا یہ غلامی نہیں بلکہ آزادی ہے۔

 

تصوراتِ مغرب کا غیر شعوری اثر

اوپر میں نے عرض کیا تھا کہ مغرب کے گمراہ کن تصورات کا اثر اس قدر مخفی اور گہرا ہے کہ اُس سے وہ لوگ بھی محفوظ نہیں جو اسلام کی مدافعت کا دم بھرتے ہیں چنانچہ وہ اسلامی تصورات کی حمایت کرنے کی کوشش میں نادانستہ طور پر غیر اسلامی تصورات سے مدد لیتے ہیں اور اس طرح سے غفلت میں خود اسلام ہی کی مخالفت کر جاتے ہیں ۔ ’’آزادی‘‘ اور ’’جمہوریت‘‘ وغیرہ تصورات کے متعلق بعض مسلمانوں کے حالیہ افکار اس کی مثال ہیں۔ اس وقت ان تصورات کی مغربی توجیہہ جو ان مسلمانوں کی طرف سے‘ اسلام کے نام پر پیش کی جاتی ہے اور جس کی رو سے ایک بلند پایہ قیادت کے اختیارات کو بھی عوام میں سے بعض کوتاہ اندیش یا خود پرست افراد کی خواہشات سے محدود کرناضروری ہو جاتا ہے‘ حکومت اور ریاست کے صحیح قرآنی تصور کو بری طرح سے مسخ کر رہی ہے۔

 

معاہدہ کا نظریہ غلط ہے

کسی معاہدہ کی رو سے ایک غیر فطرتی اور مصنوعی اتحاد پیدا کر کے ایک منظم جماعت یا ریاست کی تشکیل کرنا صرف انسان کے لیے ممکن ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ منظم جماعتوں کی صورت میں زندگی بسر کرنے کا وصف حیوانات میں بھی پایا جاتا ہے۔ پرندے ڈاریں بن کر اڑتے ہیں۔ ہاتھی‘ گورخر‘مرگ اور ہرن جنگلوں میں غول بن کر چلتے ہیں اور منظم اور متحد ہونے کے لیے سب سے زیادہ وجیہہ اور جسیم پرندے یا حیوان کو اپنا قائد بناتے ہیں۔ اور شہد کی مکھیوں اور دیمک اور تمام قسم کی چیونٹیوں کی جماعتی تنظیم اس پایہ کی ہے کہ ابھی انسان اس سے بہت دور ہے تو پھر کیا ہم روسو(Rousseau) اور ہابیز(Hobbes)ایسے فلسفیوں کے کہنے سے یہ مان لیں کہ حیوانات بھی کوئی معاہدہ کر کے جماعتی تنظیم پیدا کرتے ہیں۔

 

زندگی کا فطرتی وصف

دراصل ان فلسفیوں نے نہیں سمجھا کہ جماعت بندی یعنی منظم جماعتی زندگی اختیار کرنا اور اُسے زیادہ سے زیادہ منظم کرتے جانا زندگی کا ایک فطرتی وصف ہے۔ یہی سبب ہے کہ اُن کا فلسفۂ سیاست ناقص ہے اور فرد اور حکومت کے باہمی تعلق اور اُن کے حقوق اور فرائض کے بارہ میں اُن کے سارے نتائج غلط ہو کر رہ گئے ہیں۔

 

جماعت بندی کی بنیاد

جماعتی تنظیم کا وصف جو زندگی کی فطرت میں ہے خدا کی صفات احد اور واحد پر مبنی ہے۔ چونکہ خود شعوری ایک وحدت ہے لہٰذا جب وہ اپنے آپ کو بہت سے افراد کی صورت میں ظاہر کرتی ہے تو پھر بھی اپنی وحدت کو قائم رکھنا چاہتی ہے یہی سبب ہے کہ ایک نوع کے افراد ایک دوسرے سے کشش رکھتے ہیں اور متحد ہو کر ایک جماعت بن جانے کی خواہش محسوس کرتے ہیں۔

جماعت بندی کے وصف کا اظہار حیوانات کی دنیا سے مخصوص نہیں بلکہ خود شعوری ارتقاء کے ہر قدم پر اس وصف کا اظہار کرتی ہے۔

 

مادی مرحلہ میں جماعت بندی

مادی مرحلۂ ارتقاء میں ہم اس کا نشان ہر ایک عنصر کے ایٹم کی تنظیم میں سالمات (Molecules) کی ہیئت ترکیبی میں‘ مختلف کیمیاوی مرکبات کے قلموں (Crystals)میں‘ برف کے گالوں (Snow-Flakes) میں اور اجرام فلکی کے نظامات میں دیکھتے ہیں۔

 

حیوانی مرحلہ میں جماعت بندی

حیوانی مرحلۂ ارتقاء میں بھی زندگی کا یہ وصف ایک خلیہ کے سادہ حیوان سے لے کر انتہائی ترقی یافتہ حیوان کے جسم کی حیاتیاتی وحدت(Biological Unity) میں آشکار طور پر نظر آتا ہے۔ پھر تمام انواع حیوانات کے اندر ایک جماعتی احساس موجود ہے جسے ماہرین نفسیات نے گروہ یا جماعت میں رہنے کی جبلت (Gregarious Instinct) کا نام دیا ہے۔ اس جبلت کی وجہ سے حیوانات مل کر رہتے ہیں ‘ منظم جماعتیں بناتے ہیں اور اس طرح سے عمل کرتے ہیں گویا کہ وہ ایک وحدت کے عناصر ہیں۔ جب یہ جبلت نہایت ترقی یافتہ ہو اور دوسری جبلتوں کی مزاحمت کے بغیر یاباوجود کام کرنے لگے تو جماعت ایک سجد واحد کی طرح منظم ہو جاتی ہے۔

 

انسانی مرحلہ میں جماعت بندی

انسانی مرحلۂ ارتقاء میں زندگی کا یہی وصف ایک نظریہ یا آدرش کے انسانوں کی باہمی جماعت بندی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور حکومتوں اور ریاستوں کو وجود میں لاتا ہے۔ ابھی تک زندگی کے اس وصف کا اظہار صرف چیونٹیوں اور شہد کی مکھیوں میں اپنے کمال کو پہنچا ہے۔ لیکن مستقبل میں جب نوعِ بشر ترقی کر کے اپنے کمال کو پہنچے گی اور اُس میں خود شعوری کے تمام اوصاف اپنی پوری شان و شوکت اور پوری ہم آہنگی کے ساتھ نمودار ہوں گے تو ضروری ہے کہ انسان میں بھی یہ وصف اپنی پوری شان و شوکت میں نمودار ہو۔ فرق صرف یہ رہے گا کہ جہاں شہد کی مکھیاں اور چیونٹیاں ایک حیاتیاتی یا جبلتی دباؤ سے مجبور ہو کر جماعتی تنظیم میں جکڑی ہوئی ہیں وہاں مستقبل کی انسانی جماعت کے افراد ایک اندرونی نفسیاتی دباؤ یعنی حسن کی کشش سے مجبور ہو کر پورے اختیار اور پوری رضا و رغبت کے ساتھ ایک شدید قسم کے نظم کی پابندیاں اپنے اوپر عائد کریں گے اور پھر ان پابندیوں کی وجہ سے اُس راستہ پر زیادہ تیزی اور مستعدی کے ساتھ گامزن ہوں گے جو ان کی منزل مقصود یعنی صفاتِ جمال کے مکمل اظہار کی طرف جاتا ہے اور انسان کا یہ خود پسندیدہ نظم (Discipline)جو اُن کو ایک فرد واحد کی طرح بنا دے گا شہد کی مکھیوں کے نظم سے بھی زیادہ مکمل ہو گا۔

 

جماعت بندی کا باعث کششِ جمال ہے

انسانی جماعتیں کشش جمال کی قوت اور آدرش کی محبت کی وجہ سے وجود میں آتی اور قائم رہتی ہیں۔ آدرش ہمیشہ ایک جماعت کا آدرش ہوتا ہے‘ ایک فرد کا آدرش نہیں ہوتا۔ضروری ہے کہ ایک آدرش کو ماننے والا فرد یا خود دوسروں کی اطاعت قبول کرے یا دوسرے اس کی اطاعت قبول کریں۔ اس طرح سے آدرش کے ماننے والوں کی ایک جماعت لازماً پیدا ہوجاتی ہے اور اس جماعت کے افراد آدرش کی محبت کی وجہ سے متحد اور منظم ہو جاتے ہیں جس طرح سے جسم کی حیاتیاتی قوت جسم کو وجود میں لاتی اور اس کے مختلف عناصر کو متحد اور منظم کر کے اسے ایک وحدت کی شکل دیتی ہے‘ اسی طرح سے آدرش کی محبت ایک جماعت کو وجود میں لاتی ہے اور اس کے افراد کو متحد اور منظم کر کے ایک وحدت کی شکل دیتی ہے۔

 

فرد اور جماعت کی مماثلت

جماعت کے افراد جس قدر اپنے آدرش سے زیادہ محبت کریں گے اسی قدر جماعت زیادہ منظم اور زیادہ طاقتور ہو گی ۔ جس طرح سے انفرادی خلیات کی طاقت بیک وقت جسم کی مجموعی طاقت کا نتیجہ بھی ہے اور سبب بھی۔ اسی طرح سے جماعت کے افراد کی طاقت بیک وقت جماعت کی مجموعی طاقت کا نتیجہ بھی ہے اور سبب بھی۔ ہر خلیہ جسم کو قوت پہنچاتی ہے لیکن اس سے قوت حاصل بھی کرتی ہے۔ اسی طرح سے ہر فرد جماعت کو قوت پہنچاتا ہے لیکن اس سے قوت حاصل بھی کرتا ہے۔ جسم کی صورت میں طاقت سے مراد جسمانی طاقت ہے اور جماعت کی صورت میں طاقت سے مراد نفسیاتی طاقت یا محبت۔ جس طرح سے جسم حیوانی دماغ کے بغیر ایک وحدت کے طور پر کام نہیں کر سکتا‘ اُسی طرح سے جماعت ایک قائد کے بغیر ایک وحدت کے طور پر کام نہیں کر سکتی۔ قائد آدرش کا قائم مقام ہوتا ہے۔ جماعت کے اندر رہنے اور جماعتی زندگی بسر کرنے کے معنی ہیں قائد کی اطاعت کرنا۔ جس طرح سے جماعت کے اندر رہ کر زندگی بسرکرنا ایک فطرتی چیز ہے‘ اُسی طرح سے قائد کی اطاعت کرنا ایک فطرتی چیز ہے۔

 

قائد اور مقتدی کا باہمی تعلق فطرتی ہے

چونکہ ہم آدرش کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے ہم جماعت کے بغیر اور قائد کی اطاعت کے بغیر بھی زندہ نہیں رہ سکتے۔ درحقیقت تابع اور متبوع اور قائد اور مقتدی یا مطاع اور مطیع کا باہمی تعلق کوئی غیر فطرتی یا مصنوعی تعلق نہیں ہوتا بلکہ افراد کی فطرت پر مبنی ہوتا ہے اور ان کے جذبۂ حسن کے ناگزیر تقاضوں سے پیدا ہوتا ہے۔ جذبۂ حسن کا ایک تقاضا یہ ہے کہ فرد چاہتا ہے کہ نہ صرف وہ بلکہ تمام نوعِ انسانی جمال حقیقی کے زیادہ سے زیادہ قریب آ جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر فرد کے اندر قیادت اور اطاعت کے دونوں جذبات ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو موجود ہوتے ہیں۔ ہر شخص مطیع اور مطاع کی دونوں حیثیتیں اختیار کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہوتا ہے جب وہ سمجھتا ہے کہ وہ معرفت حسن میں کسی دوسرے فرد سے پیچھے ہے تو وہ اسے قائد مان کر اُس کی اطاعت قبول کرتا ہے تاکہ وہ اس کی راہنمائی سے حسن کے اور قریب ہو جائے اور جب وہ سمجھتا ہے کہ وہ معرفتِ حسن میں دوسروں سے آگے ہے تو وہ اُن کی قیادت کا بیڑا اٹھاتا ہے تاکہ ان کی راہنمائی کر کے ان کو حسن کے اور قریب لے آئے۔ کوئی شخص کسی کو اپنا قائد بنائے گا یا کوئی قائد کیسی راہنمائی کرے گا اس کا دار و مدار اس بات پر ہوتا ہے کہ قائد یا مقتدی کا تصور حسن کیا ہے۔

 

ارتقاء کی دو ضروری شرطیں

یہ ضروری ہے کہ قائد کی محبت حد درجہ ترقی یافتہ ہو اور اس کا یقین اور ایمان پختہ اور محکم ہو لیکن ہر حالت میں قائد کی طاقت اور قوت جس قدر وسیع ہو گی اور اس کا اختیار اور اقتدار جس قدرزیادہ ہو گا وہ اسی قدر آسانی اور عمدگی اور سرعت اور سہولت کے ساتھ اپنے تابعین کو حسن کے قریب لائے گا۔

اس کے برعکس تابعین جس قدر زیادہ اس کی طاقت اور قوت اور اُس کے اختیار اور اقتدار کو تسلیم کریں گے۔ دوسرے الفاظ میں جس قدر زیادہ اس کی اطاعت گزاری اور فرماں برداری کریں گے اور اس پر اعتماد اور بھروسہ کریں گے‘ اسی قدر زیادہ آسانی اور عمدگی اور سرعت اور سہولت کے ساتھ حسن کے قریب آئیں گے اور ان کی جماعت اسی قدر زیادہ متحد اور منظم اور طاقتور ہو گی۔

 

قائد کے وسیع اختیارات کا ایک اہم فائدہ

درحقیقت ترقی یافتہ اسلامی نظام کی دوسری بڑی خصوصیت جس کی وجہ سے وہ عقیدئہ توحید اور صفاتِ جمال کے زیادہ قریب ہوگا یہ ہے کہ جب اس میں مسلمان اپنی رضا و رغبت سے مرکز کو زیادہ طاقتور اور بااختیار کریں گے تو وہ ایک دوسرے کے زیادہ قریب آ جائیں گے اور اپنے جذبات اخوت‘ ہمدردی اور ایثار کا زیادہ مؤثر اور کامیاب اظہار کر سکیں گے اور ایک جماعت کی حیثیت سے زیادہ متحد اور منظم اور زیادہ فعال اور طاقتور ہو جائیں گے۔ گویا نمازباجماعت اور {وَارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِیْنَ} (رکوع کرنے والوں کے ساتھ مل کر رکوع کرو) کے اندر جو مقصد پوشیدہ ہے اس کی طرف ایک بہت بڑا قدم اٹھائیں گے اور اسے صحن مسجد سے باہر اپنی ساری عملی زندگی میں جاری اور ساری کر دیں گے۔

 

فلسفہ ٔ سیاست کی کلید

درحقیقت حضورﷺ کی اُن احادیث کا مضمون جو اوپر نقل کی گئی ہیں اور جن میں آپؐ نے ارشاد فرمایا ہے کہ مسلمانوں کی جماعت ایک فرد واحد کی طرح ہوتی ہے۔ سیاست اور ریاست کے صحیح نظریہ کے لیے ایک کلید کے طور پر ہے۔ ایک منظم جماعت بالخصوص ایک منظم اسلامی جماعت کی فطرتی ترقی یافتہ حالت وہی ہے جس کا نمونہ ہمیں ایک زندہ جسم حیوانی میں نظر آتا ہے۔

 

فرد ایک منظم جماعت ہے

ایک جسم حیوانی بظاہر ایک فرد ہے لیکن حقیقت میں ایک جماعت ہے جس میںخلیات افراد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ماہرین حیاتیات کی تحقیق کے مطابق جسم حیوانی کی ہر خلیہ بھی ایک خود مختار جسم حیوانی کی طرح کام کرتی ہے۔ وہ خوراک حاصل کرتی ہے‘ نشوونما پاتی ہے‘ اپنی نسل پید اکرتی ہے‘ کمزور اور بیمار اور طاقتور اور تندرست ہوتی ہے۔ خوراک نہ ملنے سے انحطاط پاتی اور مرتی ہے۔ خلیات کے فرائض الگ الگ ہیں لیکن اُن سب کا مقصد ایک ہے یعنی جسم کی زندگی اور نشوونما کا قیام۔ دماغ جو خود خلیات سے بنا ہے خلیات کی اُس جماعت کے لیے جو جسم حیوانی کی صورت اختیار کرتے ہیں حکومت کا کام دیتا ہے۔ دماغ جسم پر پورا پور اختیار و اقتدار رکھتا ہے انہیں خوراک بہم پہنچاتا ہے اور اُن سے اپنے اپنے فرائض لیتا ہے تاکہ جسم کی زندگی اور نشوونما قائم رہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ جسم کے مختلف لاکھوں خلیات کے اندر ایک وحدتِ تامہ موجود ہے۔

 

منظم جماعت ایک فرد ہے

ایک منظم جماعت کے اندر اگرچہ افراد جسم کے خلیات کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ جسمانی طور پر ملحق نہیں ہوتے لیکن نفسیاتی یا روحانی طور پر ملحق ہوتے ہیں۔ اس قسم کی جماعت کی مثال چیونٹیوں کی ایک بستی یا شہد کا ایک چھتہ ہے۔ چھتہ بظاہر ایک جماعت ہے لیکن حقیقت میں ایک فرد ہے۔ شہد کی مکھیاں مختلف فرائض ادا کرتی ہیں۔ کوئی شہد ڈھوتی ہے‘ کوئی چوکیداری کرتی ہے‘ کوئی موم بناتی ہے‘ کوئی نر ہے‘ کوئی گھر کی ماما‘ کوئی نرس‘ کوئی دواساز ہے اور کوئی رانی۔ لیکن سب کی سب رانی پر فدا ہوتی ہیں اور رانی کی محبت اور اطاعت اُن کی ساری زندگی کا مدار و محور ہوتی ہے اور یہی چیز ہے جو ان کے اندر وحدت پیدا کر کے انہیں ایک تن واحد کی شکل دیتی ہے۔

 

روسو کی ایک اور غلطی

روسو کے فلسفہ کے اثر سے ایک اور غلط خیال ‘جو اس وقت رائج ہو چکا ہے اور ماہرین سیاست کے ہاں بالعموم قبول کیا جاتا ہے‘ یہ ہے کہ ریاست کے اربابِ اختیارکو ایک خاص وقت پر جماعت کی مجموعی خواہش یا مرضی(Popular Will) سے ہٹ کر کچھ نہیں کرنا چاہیے۔ اور اگر وہ ایسا کرے تو جماعت کے افراد کو حق ہے کہ اس کے خلاف بغاوت کریں۔ لیکن یہ خیال بھی فرد اور جماعت کے اُسی جامد‘ غیر ارتقائی اور غلط تصور کا نتیجہ ہے جس سے اس زمانہ میں کئی اور سیاسی اقدار مثلاً آزادی اور جمہوریت کے غلط مفہوم پیدا ہو کر رائج ہو گئے ہیں۔

 

بہت سی مرضیاں

درحقیقت کسی خاص معاملہ کے متعلق فرد یا جماعت کی رائے یا مرضی(Will) ایک نہیں ہوتی بلکہ بہت سی آراء یا مرضیاں ہوتی ہیں۔ خود شعوری کے ارتقاء کے ہر مقام پر فرد ایک ہی معاملہ کو ایک مختلف نکتۂ نگاہ سے دیکھتا ہے اور ایک مختلف طریق سے اُس کے جواب میں ردِّعمل کرنا چاہتا ہے۔ جس قدر فرد کی خود شعوری زیادہ ترقی یافتہ ہو گی اسی قدر اس کا یہ نکتۂ نگاہ زیادہ صحیح اور یہ طریق کار زیادہ درست ہو گا۔ جوں جوں اُس کی خود شعوری ارتقاء کرتی جاتی ہے اس معاملہ کے متعلق اس کی مرضیاں بدلتی جاتی ہیں۔اور بہتر صحیح تر اور بلند تر ہوتی جاتی ہیں۔ جوں جوں وہ آگے جاتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ اُس نے پہلے اس معاملہ کو غلط سمجھا تھا اور اس کے سلسلہ میں غلط اقدام کیا تھا۔

 

صحیح ترین مرضی

فرد کی آخری مرضی جو خود شعوری کے آخری ارتقائی درجہ پر اُس میں پیدا ہوتی ہے بہترین‘ صحیح ترین اور بلند ترین ہوتی ہے۔ یہاں پہنچ کر فرد اُس معاملہ کو بہترین طو رپر سمجھتا ہے اور اس کے سلسلہ میں بہترین طریق کار اختیار کرتا ہے۔ اگرچہ یہ مرضی بالقوہ اُس کے اندر موجود ہوتی ہے وہ درحقیقت اسی کو جاننا اور کرنا چاہتا ہے لیکن اپنی خود شعوری کے پست تر درجۂ ارتقاء کی وجہ سے وہ نہ اسے جان سکتا ہے اور نہ پورا کر سکتا ہے۔ وہ معیار فکر و عمل جسے وہ کسی خاص وقت پر فی الواقع اختیار کرتا ہے اُس کی خود شعوری کے مقامِ ارتقاء سے معین ہوتا ہے اور اُس سے اوپر نہیں جا سکتا اور نہ اُس سے زیادہ صحیح ہو سکتا ہے۔ یہ اندرونی بلند ترین اور صحیح ترین خواہش ‘جو فرد کے اندر بالقوہ اور مخفی طور پر موجود ہوتی ہے‘ ایک آدرش کے ماننے والے تمام افراد میں ایک ہی ہوتی ہے اور افراد اپنے درجۂ ارتقاء کے مطابق اس سے دور یا قریب ہوتے ہیں۔ جمہور کی انتہائی خیر خواہی اور بہترین خدمت ‘جو ایک سچی جمہوری حکومت کو بجالانی چاہیے‘ یہ ہے کہ جمہور کے تمام سیاسی کاروبار کو ان کی اس بہترین مرضی کے مطابق چلایا جائے۔

 

قائد کا مقام

چونکہ جماعت کے قائد کی خود شعوری جماعت کے تمام افراد کی نسبت ایک بلند تر مقام پر ہوتی ہے اور یہی سبب ہے کہ وہ جماعت کا قائد ہوتا ہے۔ لہٰذا قائد کامعیار فکروعمل جماعت کے ایک عام فرد کے معیار فکر و عمل سے بلند تر درجہ کا ہوتا ہے اور فرد کی اس آخری خواہش یا مرضی سے قریب ترین ہوتا ہے جسے وہ درحقیقت پورا کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اپنے مقامِ ارتقاء کی پستی کی وجہ سے اسے اس وقت نہ جان سکتا ہے اور نہ پورا کر سکتا ہے ۔ یہاں قائد اپنی ترقی یافتہ شخصیت کی وجہ سے اُس کی مدد کو پہنچتا ہے‘ اُس کی راہنمائی کرتا ہے اور اس کے لیے وہ کام کرتا ہے جسے وہ آخر کار خود کرنا چاہتا ہے۔

 

قائد کا فرض

لہٰذا اگر فرد فی الوقت قائد کے اندازِ فکر و عمل کی خوبیوں کو نہ سمجھتا ہو تو قائد پر اعتماد کرنا اور برضا و رغبت ا س سے تعاون کرنا اس کے لیے خود اپنی ہی خاطر ضروری ہوتا ہے۔ اور اگر وہ تعاون نہ کر سکے تو قائد کا فرض ہے کہ جس طرح سے باپ اپنی شدید محبت کے باوجود نادان بیٹے کے بہترین مفاد کے لیے بعض وقت اُس کے ساتھ سختی کا برتاؤ کرتا ہے ‘ اُس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اسے اپنے بہترین مفاد کے تقاضوں کے مطابق عمل کرنے پر مجبور کرے۔ یہاں قائد کا غیر معمولی اختیار اور مقتدی کا غیر معمولی جذبۂ اطاعت گزاری دونوں مل کر مشکل کا حل پیدا کرتے ہیں۔

 

حریت کشی کے طعنے

آج کل نام نہاد جمہوریت پرست ملکوں میں جن میں اس وقت ہمارا ملک بھی شامل ہے جو بعض اشخاص حکومت کو اقتدار پرستی اور حریت کشی کے طعنے دیتے رہتے ہیں‘ اُن کا مقصد آزادی کی حمایت نہیں ہوتا کیونکہ آزادی کا صحیح مفہوم شاذ ہی ان کے مدِّنظر ہوتا ہے‘ بلکہ ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اقتدار پرستی اور حریت کشی کے مواقع دوسروں سے چھین کر اُن کو دے دیے جائیں۔ سچا جمہوریت پرست ملک درحقیقت وہ ہے جہاں حکومت جمہور کے ہر فرد کے بہترین مفاد کے لیے ‘جو تمام کے تمام اُن کے مشترکہ آدرش سے پیدا ہوتے ہیں‘ کام کرتی ہے۔ خواہ اس میں بعض افراد کی پست درجہ کی مرضیوں اور خواہشات کو آزاد ہونے کا موقع نہ ملے۔ صرف ایسے ہی ملک میں فرد اور جماعت کو انسان کے مقصدِ حیات کی طرف آگے بڑھنے کا موقع مل سکتا ہے۔

 

مرض کا ازالہ

جسم کی قوتِ حیات (Vital Force) جسم کے تمام اندرونی اور بیرونی حصص و اعضاء کے آزادانہ عمل کو ممکن بناتی ہے ان کے اس آزادانہ عمل سے جسم کی صحت اور طاقت قائم رہتی ہے لیکن جب جسم کے کسی حصہ یا عضو میں غیر موافق جراثیم کے داخل ہونے سے مرض کی حالت پیدا ہو جائے تو جسم کے اس حصہ یا عضو میں عمل حیات (Life Process)بگڑ کر یا راہِ راست سے ہٹ کر ایک ایسا رخ اختیار کرتا ہے جو جسم کی صحت اور قوت کو نقصان پہنچاتا ہے لیکن جسم کی قوتِ حیات فوراً اس کیفیت کے سدِّباب کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور فی الفور خون کے اندر سفید ذرات(White Cells) جو جراثیم کے زہر کے لیے تریاق کا حکم رکھتے ہیں اس قدر مقدار میں پیدا کرتی ہے کہ اُس سے جراثیم کا قلع قمع ہو جاتا ہے اور جسم کی تمام قوتیں پھر اپنا کام مزاحمت کے بغیر کرنے لگ جاتی ہیں۔

 

اختلاف کا ازالہ

اسی طرح سے جب آدرش سے غیر اور لہٰذا آدرش کے مخالف تصورات کے ماتحت کوئی پارٹی جماعت کے اندر وجود میں آتی ہے اور اپنے مقاصد کے لیے جدوجہد کرنے لگتی ہے تو یہ جماعت کے جسم کی حالت مرض ہوتی ہے جس کو پیدا کرنے کے لیے یہ تصورات مرض کے جراثیم کا کام دیتے ہیں لہٰذا جماعت کی مجموعی اخلاقی اور روحانی قوت یعنی حکومت (جو جسم کی قوت حیات کے قائم مقام ہے) کا فرض ہونا چاہیے کہ اس کی طرف فوری توجہ کر کے اس کا خاتمہ کر دے ورنہ آدرش کی جستجو کے راستہ میں ایک رکاوٹ پیداہو جائے گی اور جس مقصد کے لیے جماعت وجود میں آئی ہے ‘جس مقصد کے لیے وہ قائم رہنا چاہتی ہے اور پیہم جدوجہد کر رہی ہے ‘ اسے نقصان پہنچے گا۔

 

آزادی کا ترک

بعض لوگ جو آزادی اور جمہوریت کی غلط توجیہہ کرتے ہیں یہ کہیں گے کہ حکومت اس پارٹی کو گوارا کر کے آزادی اور جمہوریت کے تقاضوں کو پورا کرے گی۔ لیکن دراصل وہ ایسا کرتے ہوئے آزادی اور جمہوریت کے تقاضوں کو پامال کر رہی ہو گی۔ کیونکہ وہ اپنے آدرش کی طرف ‘جو جمہور کے ہر فرد کا آدرش بھی ہو گا‘آگے بڑھنے کے لیے پوری طرح سے آزاد نہیں رہے گی۔ اور اپنی اس آزادی کو محض فرض ناشناسی سے خود ترک کرے گی۔ لہٰذا جمہور کے بہترین مفاد کے خلاف کام کرے گی۔ جوں جوں یہ پارٹی قوت پکڑے گی جماعت کے افراد غیر تصورات کے غلام ہوتے جائیں گے۔ جماعت کی طاقت اور قوت گھٹتی جائے گی کیونکہ وہ دن بدن اپنے نصب العین کی محبت سے محروم ہوتی جائے گی جو نظریاتی جماعت اپنے نظریہ پر یقین رکھتی ہو وہ اپنے اندر غیر نظریات کو نمودار ہونے اور بڑھنے اور پھولنے کا موقع نہیں دے سکتی۔

 

اسلامی ریاست میں صرف ایک پارٹی ہوتی ہے

ایک جماعت جو اسلام ایسے ایک واضح نظریۂ حیات پر مبنی ہو صرف ایک مقصد رکھتی ہے اور اس کے حصول کا طریق کار بھی ایک ہی ہوتا ہے اور اس مقصد اور اس طریق کار کو جماعت کا قائد جس کی خود شعوری جماعت کے تمام افراد کی نسبت زیادہ ترقی یافتہ ہوتی ہے سب سے بہتر سمجھتا ہے لہٰذا مسلمانوں کی جماعت صرف ایک پارٹی پر مشتمل ہوتی ہے اور وہ پارٹی قائد کی پارٹی ہوتی ہے جو پارٹی قائد کے مقصد اور اس کے طریق کار کے خلاف وجود میں آتی ہے وہ لازماً آدرش سے غیر آدرش کے مخالف تصورات پر مبنی ہوتی ہے۔ آدرش کے مقاصد کے خلاف کام کرتی ہے اور جماعت کو آدرش کی مخالف سمت میں لے جاتی ہے۔ آیا کوئی پارٹی جو ریاست کے اندر وجود میں آئی ہے آدرش کی مخالف ہے یا موافق اس کا امتحان صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ آیا وہ جو طریق کار اختیار کرتی ہے وہ قائد کے طریق کار سے مختلف ہے یا متفق اگر اس کا طریق کار قائد کے طریق کار سے مختلف ہے تو وہ بلاشک و شبہ آدرش کے خلاف کام کرے گی۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک سچی اسلامی جمہوریت ریاست کے اندر قائد کی پارٹی کے علاوہ کوئی دوسری پارٹی موجود ہو ہی نہیں سکتی۔

 

متضاد باتیں

ایک اسلامی ریاست کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ فرد اور جماعت کی خود شعوری کو ارتقاء کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولتیں بہم پہنچائے۔ ریاست کے اندر کسی مخالف پارٹی کا وجود اس مقصد سے مطابقت نہیں رکھتا ۔ کس طرح سے ممکن ہے کہ ایک طرف سے تو وہ محبت کی نشوونما کے لیے اپنا سارا زور صرف کرے اور دوسری طرف سے مخالف پارٹیوں کی صورت میں ایسی قوتوں کو فروغ پانے کا موقع دیتی رہے جو اس نشوونما کو روک دیں۔ اگر وہ ایسا کرے گی تو اُس کی مثال ایک ایسی گاڑی کی طرح ہو گی جس کو ایک گھوڑا آگے کی طرف کھینچ رہاہو اور دوسرا پیچھے کی طرف۔ ایسی گاڑی یا ایک جگہ کھڑی رہے گی یا پیچھے کو جائے گی اور اگر آگے کو جائے گی تو نہایت دھیمی رفتار سے جو بار بار مخالف سمت اختیار کرتی رہے گی۔ پرہیز علاج کا جزو ہے اگر ہم چاہیں کہ ہماری جسمانی طاقت ترقی کرے تو ہمیں اچھی غذا اور مناسب ورزش کے ساتھ ساتھ اُن تمام مشاغل سے مجتنب رہنا پڑتا ہے جو جسم کو کمزور کرنے والے ہوں۔

 

مخالف پارٹیاں ناقابل برداشت ہیں

ایک اسلامی ریاست کا قائد اس لیے اس کا قائد ہو گا کہ وہ جماعت کے آدرش کی ضروریات اور مقتضیات کو جماعت کے تمام افراد سے بہتر سمجھتا ہو گا لہٰذا ریاست میںاحزابِ اختلاف سوائے اس کے اور کس بات کے لیے وجود میں آئیں گی کہ وہ اپنی بے علمی کو قائد کے علم پر اور اپنی پست درجہ کی خواہشات کو قائد کی بلند درجہ کی خواہشات پر مسلط کریں‘ اس کے راستہ میں رکاوٹیں پیدا کریں اور جماعت کو جو اُس کی قیادت میں کامیابی کے ساتھ حسن و کمال کی جستجو کر رہی ہوں گی غیر حسن اور غیر جمال کی جستجو پر مائل کریں۔ ایسی پارٹیاں درحقیقت آدرش کی خدمت کرنا نہیں چاہتیں بلکہ اقتدار کی طالب ہوتی ہیں جسے وہ حریت کشی کے طعنوں سے حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ اگر جمہوری حکومت صحیح معنوں میں جمہوری حکومت ہے اور جمہور کے تعلق میں اپنے وظائف اور فرائض کو اچھی طرح سے سمجھتی ہے تو ایسی پارٹیوں کا وجود گوارا نہیں کر سکتی۔

 

قائد مشورہ کرتا ہے

جہاں تک جماعت کے اہل رائے افراد سے مشورہ کا تعلق ہے ‘ کوئی قائد اپنی ذمہ داری کے احساس سے ایسا تہی دست نہیں ہو سکتا کہ وہ اس سے مستفید ہونے کی کوشش نہ کرے۔ لیکن حزب اختلاف کی عدم موجودگی میں وہ دوسروں کے مشوروں کو کسی دباؤ کے لیے نہیں بلکہ ان کی قدر و قیمت کے لیے مانے گا۔

 

حزب اختلاف کی نقصان رسانی

کہا جاتا ہے کہ حزب اختلاف حکومت کو راہِ راست سے بھٹکنے نہیں دیتا۔ لیکن دراصل حزب اختلاف کے خوف سے حکومت راہِ راست سے ہمیشہ بھٹکی رہتی ہے وہ اپنے اختیار کو آدرش کی جستجو کے لیے نہیں بلکہ اپنے حامیوں کی تعداد کو زیادہ کرنے اور زیادہ رکھنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ اس کے برعکس ہر فیصلہ کرنے سے پہلے قائد کے دل میں بھی خیالات کی ایک کشمکش پیدا ہوتی ہے جس میں بعض خیالات حزب اختلاف کا کام کرتے ہیں۔ جب آدرش کی محبت کی وجہ سے قائد کوئی فیصلہ کرنے لگتا ہے تو آدرش کی محبت ہی اُسے اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کرنے کی دعوت دیتی ہے اور اُسے اس کے ممکن نقائص اور اس کی ممکن مشکلات سے خبردار کرتی ہے۔

 

اصلی حزب اختلاف

اور دوسری طرف سے اُس کے فیصلہ کی خوبیاں اس کے ذہن میں لاتی ہے لہٰذا وہ ایک کشمکش میں مبتلا ہوتا ہے۔ اس کشمکش کو آسان اور مختصر کر کے کسی فیصلہ پر پہنچانے کے لیے وہ مشورہ کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ مشورہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدرش کے صحیح مفاد کی جانب زیادہ قوی ہو کر دوسری جانب پر فتح پاتی ہے اور قائد کا فیصلہ سرزد ہوتا ہے جو اُس کی خود شعوری کے مقام ارتقاء کی نسبت سے آدرش کے بہترین مفاد کے مطابق ہوتا ہے یہ اندرونی حزب اختلاف جو ریاست کے بہترین افراد کے ساتھ قائد کے مشورہ کے دوران میں اور اس کی وجہ سے اپنی پوری قوت کے ساتھ کام کرتا ہے‘ بیرونی حزبِ اختلاف کی نسبت بہت زیادہ دیانت داری اور قابلیت سے اپنا فرض انجام دیتا ہے کیونکہ وہ خود قائد کی اعلیٰ درجہ کی محبت اور قابلیت کی پیداوار ہوتا ہے۔ بیرونی حزب اختلاف جو لازماً پست اور گھٹیا خواہشات کا علمبردار ہوتا ہے‘ اس فرض کو انجام دینے کے قابل ہرگز نہیں ہوتا۔

 

قائد کا مقام

ایک ترقی یافتہ اسلامی جماعت کا فرد یہ محسوس کرے گا کہ قائد کے احکام اُس سے غیر کسی طاقت کے احکام نہیں بلکہ اُس کے اپنے احکام ہیں جو وہ خود اپنے اوپر نافذ کرنا چاہتا ہے اور جسے اس کے قائد نے اُسی کی مرضی کو سمجھ کر نافذ کر دیا ہے۔ وہ محسوس کرے گا کہ قائد کی ذات میں اس کی خود شعوری ارتقاء کے ایک بلند مقام پر پہنچ کر اس کے لیے ایک بہتر قسم کے فکر و عمل کو ممکن بنا رہی ہے ۔ لہٰذا ان احکام پر چیں بجبیں ہونا تو درکنار وہ اُن کے لیے قائد کا ایسا شکرگزار ہو گا کہ اُس کی محبت میں ڈوب جائے گا اور قائد کے لیے اس کی یہ محبت درحقیقت اللہ تعالیٰ کی محبت ہی کا ایک جزو ہو گی اور لہٰذا اس کی ترقی سے ا س کی خود شعوری ارتقاء کی ایک اور بلند تر سطح پر قدم رکھے گی۔

 

ارتقاء کی منزل مقصود

چونکہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ نوعِ بشر ایک ہی نصب العین کے ماتحت یعنی توحید کے نصب العین کے ماتحت اس طرح سے متحد اور منظم ہو کہ ایک تنِ واحد کی طرح ہو جائے اس لیے معاشرہ کا ارتقاء بھی اسی سمت میں ہو رہا ہے۔ یوں تو انسان کے جذبۂ حسن میں اس طر ح متحد اور منظم ہونے کا سامان موجود ہے۔

 

تلاشِ رزق کے نتائج

لیکن اس سامان کا استعمال حسن یا آدرش کی جستجو کے ماتحت بعض جزوی اور ثانوی مقاصد کی تلاش کے دوران میں ہو رہا ہے اور ان مقاصد میں سے ایک اہم مقصد تلاش رزق ہے گویا تلاشِ رزق بے شک انسانیت کے ارتقاء کے ہر مقام پر پرکشودن وپریدن کا بہانہ بن رہی ہے۔

 

تلاش رزق اور اتحادِ انسانیت

کوئی وقت وہ تھا جب انسان کی تلاش رزق کی صورت ایسی تھی کہ وہ انفرادی زندگی یا زیادہ سے زیادہ متاہل زندگی بسر کرکے بھی اسے قائم رکھ سکتا تھا۔ پھر اسے محسوس ہوا کہ جب تک وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ تعلقات نہ رکھے اور اُن کے ساتھ مل کر تقسیم کار نہ کرے وہ تنہا اپنی تمام اقتصادی ضروریات کو پورا نہیں کر سکتا۔ یہ قدم اسے اپنے دوسرے بھائیوں کے قریب لے آیا۔ رفتہ رفتہ ان ضروریات کی آسان بہم رسانی کے لیے وہ اس قابل ہوا کہ مشینیں ایجاد کرے۔ مشینوں کی ایجاد سے بڑے پیمانہ کی صنعت (Large Scale Production)ممکن ہوئی جس سے کارخانہ میں کام کرنے والے لوگوں کی بڑی بڑی جماعتیں وجود میں آئیں۔ ان جماعتوں میں ہزاروں افراد ایک دوسرے کے اور قریب آ گئے اور سرمایہ دار کے ماتحت کارخانہ کے ایک ہی مقصد کے ماتحت منظم ہو گئے۔ پھر چھوٹے چھوٹے کارخانے ٹوٹتے گئے اور بڑے بڑے کارخانے وجود میں آتے گئے کیونکہ ایک بڑے کارخانہ کو پیدائش میں ایسی سہولتیں حاصل ہوتی تھیں کہ چھوٹے کارخانے اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے اور ٹوٹ جاتے تھے ۔ کارخانوں کے حجم کی توسیع سے انسانی افراد اور قریب آتے گئے اور انسانی جماعتیں اور بھی وسیع ہوتی گئیں اور اُن کے مرکز زیادہ طاقتور اور بااختیار ہوتے گئے۔

 

تلاشِ رزق کا آخری قدم

اب اس سلسلہ کا آخری قدم جو اسلامی تعلیم و تربیت کے ذریعہ سے اسلام کے ترقی یافتہ نظام کی شکل میں رونما ہو گا‘ صرف ایک ہی کارخانہ دار اور ایک ہی سرمایہ دار کا وجود باقی رہنے دے گا اور باہمی اختلاف اور نفاق اور مزاحمت کے جس قدر مواقع موجود رہ گئے ہوں گے اُن کو آخری طور پر ختم کر دے گا اور یہ تغیر صفاتِ جمال کے مطابق اور ان مقاصد کے مطابق ہو گا جو عقیدئہ توحید اور احکامِ شریعت میں مخفی ہیں چونکہ یہ بڑا سرمایہ دار یا کاخارنہ دار مردِ مؤمن ہو گا‘ اس کا کارخانہ تمام مفاسد اور عیوب سے پاک ہو گا۔

 

صَرف کے طریقے اور اتحادِانسانی

جہاں ایک طرف پیداوار(Production)کے طریقے بدل بدل کر انسانی افراد کے اتحاد اور نظم کو ترقی دیتے اور انسانی جماعتوں کے مرکزوں کو زیادہ بااختیار و بااقتدار بناتے رہے ہیں وہاں دوسری طرف صَرف(Consumption)کے طریقے بھی انسان کو زیادہ سے زیادہ متحد اور منظم کرنے اور اس کے مرکز کو زیادہ سے زیادہ اختیار و اقتدار سونپنے کی سمت میں بدلتے جا رہے ہیں۔

 

کل اور آج کا فرق

کوئی زمانہ وہ تھا کہ جب رات کو ایک فرد باہر جاتا تھا تو اپنا دیا جلا کر ہاتھ میں لے لیتا تھا۔ اب اس کے لیے دنیا کے ہر شہر میں تنویر طرق  (Street Lighting) کی صورت میں جماعت کے مرکز کا انتظام ہے۔

پہلے ہر شخص دشمن کے خلاف جنگ کرنے کے لیے خود اپنے ہتھیاروں سے تیار ہوتا تھا یا اپنے دوستوں ‘ رشتہ داروں یا ہمسایوں کو مدد کے لیے بلا لیتا تھا اور پھر اُن میں سے کوئی اُس کی مدد کو آتا تھا اور کوئی نہیں۔ اب افراد کی حفاظت کے لیے دنیا کے ہر ملک میں فوج اور پولیس کا انتظام ہے‘ جو جماعت کے مرکز کے سپرد ہوتا ہے۔ اسی طرح سے اب پیغام بھیجنے کے لیے کسی شخص کو اپنا قاصد مقرر کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ مرکز کے ڈاک خانوں‘ تار گھروں اور ٹیلی فونوں سے کام لیتا ہے۔ سفر کرنے کے لیے اپنی سڑکیں اور اپنی ریل گاڑیاں اور اپنے پل نہیں بناتا بلکہ حکومت کی ریلوں‘ سڑکوں اور پلوں پر سفر کرتا ہے۔

 

غلط اعتراض

اب اگر کوئی شخص کہے کہ مرکز کی اس محتاجی کو ختم کر کے انسان کو آزادی دی جائے کہ جب ضرورت ہو وہ روشنی کے لیے اپنا انتظام کرے‘ دشمن کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے اپنی تدابیر کرے‘ پیغام بھیجنے کے لیے اپنا قاصد تیار کرے اور سفر کرنے کے لیے اپنی سڑکیں اور ریلیں خود مہیا کرے یا کسی اور طریق سے سفر کرے۔کیونکہ ان ساری ضروریات کے آزادانہ انتظام کی جدوجہد سے اس کی شخصیت ارتقاء کرے گی ۔ ظاہر ہے کہ یہ رائے درست نہیں ہو سکتی اور اس قسم کی رائے کو ہم اسلام کی طرف منسوب نہیں کر سکتے۔

 

بصیرت اسلام سے محرومی

اس قسم کی جدوجہد کے معنی یہ ہیں کہ فرد جہاں سے چلا تھا پھر وہیں آ جائے۔ اس جدوجہد سے اس کی شخصیت ارتقاء نہیں کرے گی بلکہ انحطاط کی طرف جائے گی کیونکہ‘ جن کامیابیوں کو وہ انسانی جماعت کے ایک فرد کی حیثیت سے ایک دفعہ حاصل کر چکا ہے‘ انہیں پھر حاصل کرنا چاہتا ہے اور اپنی ان نئی کامیابیوں کی طرف توجہ نہیں کرتا جو ابھی اس کی جدوجہد کی منتظر ہیں۔ اس کا رخ پیچھے کی طرف ہے آگے کی طرف نہیں۔

 

تقسیم خوراک و لبا س کا مرکزی انتظام

جب ہم روشن راستوں پر چلنے‘با آرام سفر کرنے‘ دشمن کا کامیاب مقابلہ کرنے اور اپنے پیغامات اور خطوط کو ارزاں اور قابل اعتماد طریق سے بھیجنے کے لیے مرکز کا انتظام قبول کرتے ہیں اور اسے احکام اسلام کے خلاف نہیں سمجھتے تو پریشانیوں کے بغیر روٹی کھانے اور کپڑا پہننے کے لیے مرکز کا انتظام قبول کرنا اسلامی احکام کے خلاف کس طرح ہو سکتا ہے؟ اور جب ہماری ان دوسری ضروریات کے مرکزی انتظام سے ہماری شخصیت کے ارتقاء کو نقصان نہیں پہنچتا تو خوراک اور لباس کی ضروریات کو پورا کرنے سے بھی اس قسم کے کسی نقصان کا خطرہ نہیں ہو سکتا۔

پیداوار اور صَرف کے ذریعہ سے وحدت انسانی کے ارتقاء کے یہ دونوں راستے‘ جن کی تشریح اوپر کی گئی ہے‘ اسلام کے ترقی یافتہ نظام کے اندر آ کر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر جاتے ہیں کیونکہ اس نظام میں دونوں کا انتظام جماعت کے ہاتھ میں ہوتا ہے گویا یہ نظام ان دونوں راستوں کی ایک قدرتی منزلِ مقصود ہے۔

 

معاشرہ کی خرابیوں کا سبب

قدرت کے نزدیک معاشرہ کی تمام ترقیوں کا مقصد یہ ہے کہ تمام نوعِ انسانی کے افراد زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے کے قریب آتے جائیں۔ یہاں تک کہ تمام نوع انسانی ایک فرد واحد کی طرح متحد اور منظم ہو جائے۔ جب تک یہ صورت پیدا نہیں ہوتی معاشرہ کی کوئی حالت انسان کے جذبۂ حسن کو مطمئن نہ کر سکے گی اور اس کے اندرونی معیارِ حسن پر پوری نہ اتر سکے گی بلکہ معاشرہ کی ہر حالت کے اندر کوئی نہ کوئی خرابی ایسی موجود رہے گی جو آخر کار انسان کی بے اطمینانی اور پریشانی کا موجب ہو گی اور انسان کو اکسائے گی کہ وہ ہر ممکن طریق سے اس کا ازالہ کرے اور جب وہ اس کا ازالہ کرے گا تو نوعِ بشر کی وحدتِ کاملہ کی طرف ایک قدم اور آگے بڑھے گا۔ معاشرہ کی ہر ناقص حالت خواہ وہ ارتقاء کے کسی درجہ سے تعلق رکھتی ہو اس لیے ناقص ہوتی ہے کہ وہ انسان کے جذبۂ حسن سے مطابقت نہیں رکھتی اور خدا کی محبت (جس میں انسان کے جذباتِ اخوت‘ مساوات اور مواساۃ بھی شامل ہیں) کی پوری تشفی نہیں کر سکتی۔

 

مصنوعی وحدت

روس کے اشتراکی نظام کے اندر جو شدید نقائص موجودہیں ان سب کی بنیاد بھی یہی ہے کہ وہ ایک مصنوعی وحدت قائم کرتا ہے۔ وحدت ایک احساس کا نام ہے جو انسان کے اندر کی چیز ہے اور کسی بیرونی مادی شے کا نام نہیں۔ یہ احساس اندر سے باہر آ کر ایک قانونی نظام کی صورت اختیار کر سکتا ہے لیکن کوئی قانونی نظام جو خارج میں موجود ہو ایک اندرونی احساس کی شکل اختیار نہیں کر سکتا۔

 

تعلیم اسلام کی اہمیت

اندرونی روحانی احساسات روحانی تربیت چاہتے ہیں اور روحانی تربیت فطرت انسانی کے خاص قوانین کے ماتحت ہوتی ہے جو صرف اسلام نے سکھائے ہیں اور اگر ہم ان قوانین کو نہ جانتے ہوں تو ہم یہ تربیت نہیں کر سکتے۔ پس اگر روس یا دنیا کا کوئی اور ملک اپنے نظام کے نقائص کو دور کرنا چاہتا ہے تو اسے دل و جان سے اسلام کی طرف آنا پڑے گا۔ اسلام ہر نظام کے نقائص کو دور کر کے اسے حالت کمال تک پہنچاتا ہے جہاں حدیث کے الفاظ میں افراد کا باہمی تواد اور توافق اور تراحم یہاں تک ترقی کر جاتا ہے کہ وہ ایک تنِ واحد کی طرح ہو جاتے ہیں۔ چونکہ اس باہمی تواد اور تعاطف اور تراحم کا اظہار بالآخر جماعت کے مرکز کی معرفت ہوتا ہے لہٰذا مرکز کا افراد کی اپنی مرضی سے وسیع اختیار اور اقتدار کا مالک ہونا ضروری ہوتا ہے اسلام کے نزدیک اس قسم کی وحدتِ تامہ کو حاصل کرنے کا گُر کلمۂ توحید ہے۔

 

مُردہ نظام

خدا کی محبت کے بغیر ہر نظام جسم مردہ کی طر ح ہے۔ جسم مردہ میں بھی ایک مصنوعی وحدت ہوتی ہے جس کی رو سے جسم ایسے اجزاء کا ایک مجموعہ ہوتا ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ پڑے ہوتے ہیں۔ لیکن اگر نفس عیسیٰ سے وہ جسم زندہ ہو جائے تو زندگی کی رو جسم کے تمام عناصر کے اندر ایک سچی وحدت پیدا کر دیتی ہے جس سے جسم کا ہر عنصر ایک مرکزی مدعا کے ماتحت دل و جان سے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔ جماعتوں کی صورت میں یہ نفس عیسیٰ اللہ تعالیٰ کی محبت ہے اور اس محبت کا لازمی نتیجہ ایک مضبوط مرکز کے ماتحت ایک قومی انتظام کا ظہور ہے۔ ہم اکثر غلط آدرشوں کی محبت سے اس محبت کی کمی پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ایک غلط آدرش کے اندر خود جان نہیں ہوتی لہٰذا اس کی محبت نہ کامل ہوتی ہے اور نہ پائیدار۔

 

حکومت کی راہنمائی کی ضرورت

اوپر میں نے عرض کیا تھا کہ عبادت گزار اور پرہیزگار مسلمانوں کی جماعت کے روحانی ارتقاء کے ایک بلند مقام پر قومی انتظام خود بخود ظہور میں آجاتا ہے۔ لیکن اگر حکومت کے موقف مقام اور وظائف کے بارہ میں وہ تصریحات جو اوپر پیش کی گئی ہیں‘ مدنظر رکھی جائیں تو اس عرض داشت کا مطلب یہ نہیں لیا جائے گا کہ اسلامی حکومت قومی انتظام کو وجود میں لانے کے لیے کوئی ابتداء یا کوئی راہنمائی نہیں کرے گی اس کے برعکس چونکہ اسلامی حکومت جماعت کی بہترین اندرونی خواہشات کی ترجمان ہو گی وہ اُن کی تکمیل کی طرف جماعت کو ساتھ لے کر قدم آگے بڑھائے گی خواہ یہ خواہشات جماعت کے چند افراد کی صورت میں ابھی پوری قوت اور آشکارائی حاصل نہ کر سکی ہوں اور ادنیٰ اور پست قسم کی خواہشات کے ساتھ ایک عاجزانہ کشمکش میں مصروف ہوں۔

 

ضرورت کا تقاضا

اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ جب تک مسلمانوں کی جماعت اپنے روحانی ارتقاء کے کمال کو نہ پہنچے وہ قومی انتظام کی طرف کوئی قدم نہیں اٹھا سکتی یا اسے کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہیے۔ اس کے برعکس اگر مسلمانوں کی جماعت جس کی اسلامی تعلیم و تربیت میں کوئی کمی نہ رہی ہو یہ دیکھے کہ اس قدم کے بغیر ربوبیت اور عدل کے تقاضے پامال ہو رہے ہیں‘ اس کا روحانی ارتقاء رکتا جا رہا ہے اور اپنے نصب العین کمال کی طرف اُس کی پیش قدمی سست ہوتی جا رہی ہے تو اسے یہ قدم فی الفور اٹھانا چاہیے۔ ارتقاء کے راستہ کا ہر قدم‘ جو انسان خواہ وہ فردہو یا جماعت اپنی منزل کی طرف آگے اٹھاتا ہے‘اس کے اگلے قدم کو آسان کر دیتا ہے جو قدم اس کی طرف اٹھ سکتا ہے اسے اٹھنا چاہیے اور جب وہ اٹھے گا تو اپنے آپ کو خود مستحکم کر لے گا۔

 

ارتقائے خود شعوری کاراستہ

ایک فرد انسانی کے دل میں جب صحیح نصب العین واضح طور پر متعین ہوجاتا ہے تو پھر وہ اُس کے حصول کے لیے جدوجہد کرتا ہے۔ لیکن اس کی جدوجہد کامیاب اسی صورت میں ہوتی ہے جب وہ اسے بتدریج آسان سے مشکل کی طرف اور معلوم سے غیر معلوم کی طرف لے جائے۔ انسان کی فطرت کے کئی پہلو اور اس کی زندگی کے کئی شعبے ہیں۔ ارتقاء کے بلند ترین مقام پر فرد کی فطرت کے تمام پہلو اور اس کی زندگی کے تمام شعبے پوری طرح سے نشوونما پاچکتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان میں سے ہر ایک کی نشوونما شروع سے لے کر آخر تک یکساں رفتار سے جاری رہتی ہے بلکہ سب سے پہلے انسان کی فطرت کا وہ پہلو نشوونما پانے لگتا ہے جس کے لیے وہ اپنی علمی اور عملی تربیت کے لحا ظ سے زیادہ مستعد ہوتا ہے۔ سب سے پہلے اس نصب العین کمال کی طرف زندگی کا وہ شعبہ ترقی کرتا ہے جس کی ترقی اس کے ذوق اور پسندیدگی کے زیادہ قریب ہوتی ہے۔ پھر اس ترقی سے دوسرے شعبوں کی ترقی کا سامان فراہم ہوتا ہے اور دوسرے شعبوں میں اس کی ترقی سہل ہوجاتی ہے کیونکہ اس کی محبت بڑھ جاتی ہے اور اس محبت کی قوت سے زندگی کے ہر شعبہ میں اس کا عمل آسان ہو جاتا ہے اور اس کی فطرت کا ہر پہلو نشوونما پاتا ہے۔ لہٰذا یہ سمجھنا غلطی ہے کہ جب تک فرد کی پوری پوری روحانی تربیت نہ ہو جائے وہ اپنے نصب العین کمال کی فلاں یا فلاں سمت میں آگے نہ بڑھے‘بلکہ اگر وہ اپنی روحانی تربیت چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ ہر سمت میں جو اسے آسان نظر آتی ہے اپنا قدم آگے بڑھائے اور پھر اپنی اس ترقی کو اور ترقیوں کازینہ بنائے۔

 

فرد کا ارتقاء

فرد کی روحانی اور اخلاقی ترقی فرد کی رغبت اور خواہش اور ذوق و شوق کے خط پر ہوتی ہے۔ اگر ہم فرد کی روحانی اور اصلاحی ترقی کے لیے ایک ایسا معین اور غیر مبدل پروگرام بنا دیں جو ایک آہنی شکنجہ کی طرح ہو تو اس پروگرام کے دائرہ کے اندر رہتے ہوئے بھی وہ اتنی ہی ترقی کرے گا جتنی اس کی رغبت اور خواہش کے اندر منعکس ہو رہی ہو گی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں پابندی عائد نہیں کرنی چاہیے کیونکہ پابندی عائد کرنے کے بغیر ترقی کا راستہ کھو جاتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ پابندی عائد کرنے کے بعد ذوق اور شوق کی تربیت اور نشوونما کو نہیں بھولنا چاہیے۔

 

جماعت کا ارتقاء

ایک جماعت کا ارتقاء بھی فرد ہی کی طرح ہوتا ہے جماعت کے ارتقاء کے نقطۂ کمال پر فطرت ِ انسانی کے تمام پہلوپوری طرح سے نشوونما پا لیتے ہیں۔ لیکن کسی خاص وقت پر اس میں فطرتِ انسانی کے بعض پہلوؤں کی نشوونما بعض دوسرے پہلوؤں سے زیادہ یاکم ہو سکتی ہے۔

 

تدریج اور تسہیل

خود شعوری فطرتاً سہل سے مشکل کی طرف اور معلوم سے غیر معلوم کی طرف حرکت کرتی ہے۔ اسی لیے قرآن حکیم نے اپنے احکام میں تدریج اور سہولت کے اصولوں کو ملحوظ رکھا ہے جسے ہم بعض وقت غلط طور پر سمجھتے ہیں اور قرآن کے ابتدائی اور انتہائی احکام میں فرق نہیں کرتے اور نہ ابتدا سے انتہا کی طرف بڑھتے ہیں۔

 

ایک غلط فہمی

ان اصولوں کو نگاہ میں نہ رکھنے کی وجہ سے بعض ہمارے محترم رہنماؤں نے کسی وقت اپنے ساتھیوں کو مشورہ دیا تھا کہ جب تک نماز ‘روزہ اور عمل صالح سے ان کی سیرت پختہ نہ ہو جائے وہ سیاست سے الگ رہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نماز اور روزہ کے علاوہ سیرت کوپختہ کرنے کا ایک عمدہ وسیلہ جسے کام میں لانے کے لیے لوگ تیار تھے اُن کے ہاتھوں سے جاتا رہا اور جب ان رہنماؤں کی نظر میں سیاست میں دخل دینے کا وقت آیا تو حالات اور مشکل ہو چکے تھے۔ لوگوں کا جوشِ عمل سرد ہو چکا تھا اور بالآخر یہی وقت ان کی سیرت کے امتحان کا تھا۔ غرض یہ ہے کہ انسان کی خود شعوری جس سمت میں ترقی کر سکتی ہے اسے ترقی کرنے کا موقع ملنا چاہیے تاکہ دوسری سمتوں میں اس کی ترقی آسان ہو جائے۔

 

 

 

قرآن اور علمِ جدید (یونی کوڈ فارمیٹ)