قرآن اور علمِ جدید (یونی کوڈ فارمیٹ)
اقتصادی حالات اور جذبۂ حسن
اقتصادی تغیرات کا منبع
حقیقت یہ ہے کہ مارکس انسان کی جن سرگرمیوں کو ’’شعور‘‘ یا ’’مشتملات شعور‘‘ یا ’’نظریاتی اشکال‘‘ کا نام دیتا ہے اور جو اوپر کی تصریحات کے مطابق انسان کے جذبۂ حسن سے ظہور پاتی ہیں یعنی نظریات اور معتقدات‘ مذہب‘ اخلاق‘ قانون‘ علم‘ ہنر‘ سیاست اور فلسفہ وغیرہ اقتصادی حالات سے پیدا نہیں ہوتیں بلکہ خود اقتصادی حالات کو پیدا کرتی ہیں۔
آیئے ہم سب سے پہلے اس بات پر غور کریں کہ انسان کے معاشی حالات کے بدلنے کی بنیادی اور اصلی وجہ کیا ہوتی ہے۔
ضروریات کی توسیع
ظاہر ہے کہ اگر حیوان کی طرح انسان کی ضروریات بھی ہمیشہ ایک ہی رہیں تو نہ صرف ان کی تکمیل کا سامان ہمیشہ ایک ہی رہے گا بلکہ اس کو پیدا کرنے کا طریق بھی ہمیشہ ایک ہی رہے گا۔ اگر بالفرض اس سامان کے پیدا کرنے کا طریق بدل جائے تو چونکہ یہ طریق پیدائش بھی ہماری ضروریات میں سے ایک ضرورت ہو گا۔ اور ہمیں اسے اختیار کرنے کے لیے کچھ نیا سامان درکار ہو گا۔ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہماری ضروریات کا ایک حصہ بدل گیا ہے۔ ہم نہ صرف اپنی ضروریات کی تکمیل کی اشیاء چاہتے ہیں بلکہ ان اشیاء کو پیدا کرنے کی اشیاء بھی چاہتے ہیں۔ یہ دوسری قسم کی اشیاء بھی ہماری ضروریات میں شامل ہیں۔ گویا اگر ہماری ضروریات ہمیشہ ایک ہی رہیں تو لازماً ہمارا معاشی نظام بھی ایک ہی حالت پر رہے گا۔
ضروریات کی تکمیل
لیکن حیوان کی طرح ہماری ضروریات ہمیشہ ایک نہیں رہتیں بلکہ پیہم بڑھتی رہتی ہیں اور ضروریات کے بڑھنے کی وجہ کیا ہے؟
ضروریات کے بڑھنے کی وجہ یہ نہیں کہ ہماری اصلی اور بنیادی ضروریات میں اضافہ ہوتا جاتا ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ان اصلی اور بنیادی ضروریات کوہر آن زیادہ خوبصورت اور عمدہ طریق سے مطمئن کرنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا اُن ضروریات کے دائرہ کے اندر اور ضروریات محسوس کرتے چلے جاتے ہیں چونکہ ضروریات کی طرزِ تکمیل کی عمدگی اور خوبصورتی (جس میں سہولت کے معنی بھی شامل ہیں) کی کوئی حد نہیں۔ اس لیے ہماری ضروریات کی بھی کوئی حد نہیں۔
انسانی اور حیوانی ضروریات
ہماری بنیادی اقتصادی ضروریات جن کی تکمیل زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے بالکل وہی ہیں جو ہم سے نچلے درجہ کے حیوانات کی ہیں ۔ یہ حیوانات قدرت کے عطا کیے ہوئے سامان میں سے ان ضروریات کو پوری طرح سے مطمئن کر لیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کو برقرار رکھنے کے قابل ہیں ان حیوانات سے ہی قدیم زمانہ کے انسان کی نسل پیدا ہوئی۔ یہ حیوانات تو اب تک بھی اپنی ان ضروریات کو اُسی طریق سے پورا کرتے ہیں جو روزِ اوّل سے انہوں نے اختیار کیا تھا۔ لیکن انسان ہمیشہ اُن کی تکمیل کے نئے نئے طریقے ایجاد کرتا رہتا ہے۔
بود و باش میں حسن آفرینی
جوں جوں اپنے گرد و پیش کی کائنات کے متعلق انسان کا علم بڑھتا گیا وہ اپنی بنیادی حیوانی یا جسمانی ضروریات کی طرزِ تکمیل میں نیا حسن‘ نئی خوبی اور نیا جمال پیدا کرتا رہا اور آج تک پیدا کرتا چلا آ رہا ہے۔ پہلے وہ حیوانوں کی طرح غاروں میں رہتا تھا‘ بعد میں اسے معلوم ہوا کہ غاروں سے نکل کر درختوں کی شاخوں سے بنی ہوئی ایک جھونپڑی میں رہنا زیادہ آسائش کا موجب ہے۔ پھر اس نے کیچڑ کی جھونپڑی بنائی۔ پھر کیچڑ کی اینٹیں بنا کر کچا مکان بنایا۔ پھر اس نے اینٹوں کو آگ سے پکانا سیکھ لیا۔ پھر آج فن تعمیر ترقی کی جس معراج پر پہنچا ہے‘ ہم خوب جانتے ہیں۔اسی طرح سے کھانے پینے اور سفر کرنے کی ضروریات کی تکمیل میں وہ حسن‘ خوبی اور عمدگی پیدا کرتا رہا ہے۔ اور آج یہ حسن‘ خوبی اور عمدگی ہماری تمام ضروریات کی غیر متناہی رنگارنگی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ جب بھی ہم اپنی کسی ضرورت کو ذرا اور حسین اور عمدہ طریق سے پورا کرنے کا ڈھب سیکھ جاتے تھے ہمارے معاشی حالات میں ایک تبدیلی پیدا ہو جاتی تھی۔ اس طرح ہماری ضروریات ترقی کرتی رہیں۔ ہماری طرزِ زندگی خوبصورت ہوتی گئی اور ہمارے معاشی حالات بدلتے گئے۔ کیا ضروریات کو اس قدر وسیع اور پیچیدہ بنادینا بقائے حیات کے لیے ضروری تھا؟ ہرگز نہیں۔
غاروں میں رہنے والے قدیم انسان کی بنیادی ضروریات بھی ہماری طرح تھیں وہ بھی کھاتا‘ پیتا‘ تن ڈھانپتا‘ رہتا اور سفر کرتا تھا۔ ہم بھی کھاتے‘ پیتے ‘ تن ڈھانپتے‘ رہتے اور سفر کرتے ہیں۔ غاروں کا رہنے والا انسان اپنی ضروریات کو پوری طرح سے مطمئن کرتا تھا۔ اور یہی وجہ ہے کہ وہ زندہ رہا اور اس کی نسل جو دورِ حاضر کا انسان ہے‘ باقی رہی۔ آج ہم بھی چاہیں تو قدیم زمانہ کے اس انسان کی طرح زندگی بسر کر کے اپنی ان ضروریات کو پوری طرح مطمئن کر سکتے ہیں اور زندہ رہ سکتے ہیں۔ لیکن ہم اپنی ضروریات کو ایک بالکل مختلف طریق سے جو ہم نے لاکھوں برس کے ارتقاء کے بعد سیکھا ہے‘ پورا کرنے پر مصر ہیں‘ کیوں؟ ہماری طرزِ زندگی اور پتھر کے زمانہ کے لوگوں کی زندگی میں فرق کس چیز نے پیدا کیا ہے؟ ہماری اس خواہش نے کہ ہمیں اپنی طرزِ زندگی کو اور خوبصورت بنانا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ اس خواہش کی اصل ہمارا وہی لاشعوری جذبۂ حسن ہے جو ہم میں اور حیوانات میں امتیاز پیدا کرتا ہے۔ اگر ہم میں جذبۂ حسن نہ ہوتا تو ہمارے نظام ہائے معاشی میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہوتی۔
ہنر کی ایک اہم قسم
میکڈوگل کے نظریہ کی بحث میں ہم اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ انسان اپنے جذبۂ حسن کا اظہار چار مختلف طریقوں سے کرتا ہے:
اوّل : آدرش کی جستجو میں
دوم : اخلاق میں
سوم : علم کی جستجو میں
چہارم: ہنر میں
اوّل الذکر طریقہ نہایت اہم ہے کیونکہ نظریہ کی طرف ہم وہ سارا حسن منسوب کرتے ہیں جو ہمارے لاشعور کا تقاضا ہے۔ دوسرے طریقوں میں سے ہر ایک اگرچہ جذبۂ حسن کے اندر اپنا الگ مقام رکھتا ہے۔ لیکن ہر ایک بلاواسطہ یا بالواسطہ نظریہ کی محبت کا خدمت گزار ہے۔ کسی واسطہ کے ذریعہ سے حسن کا اظہار کرنا ہنر کہلاتا ہے۔ چنانچہ جب ہم اینٹ‘ پتھر‘ آواز یا لفظ میں حسن کا اظہار کرتے ہیں تو اسے تعمیر‘ بت سازی‘ موسیقی یا شعر کے ہنر کا نام دیتے ہیں۔ لیکن طرزِ زندگی میں حسن کا اظہار کرنا بھی ہنر ہے اور اس کی اصل بھی ہمارا جذبۂ حسن ہے۔ انسان ہمیشہ سے اس ہنر کا شوقین رہا ہے لیکن اس زمانہ میں یہ ہنر ترقی کے ایک نہایت ہی بلند مقام پر پہنچ گیا ہے۔ اسی ہنر کو تہذیب (Civilisation)کہا جاتا ہے۔
طرزِ زندگی میں اظہارِ حسن
ذرا دورِ حاضر کے ایک مہذب انسان کی طرز بود و باش پر غور کیجیے۔ وہ کوشش کرتا ہے کہ اس کے لباس کا رنگ اور کپڑا کاٹ اور بناوٹ خوبصورت ہوں۔ اس کے مکان اور اس کے سامان کی ہر چیز کی شکل و صورت دلفریب اور دلپذیر ہو۔ اس کی کرسیاں‘ میزیں‘ کتابیں‘ قالین‘ صوفے ‘ دیواروں کی تصاویر اور کمروں کی دوسری چیزیں نہ صرف خوبصورت ہوں بلکہ ایک خوبصورت ترتیب سے رکھی ہوں۔ اس کی گفتگو‘ اس کا کھانا‘ پینا‘ پہننا‘ سونا‘ کھیلنا‘ سفر کرنا‘ غرضیکہ اس کی تمام حرکات و سکنات خوبصورت ہوں۔ اس کا جذبۂ حسن جو اُس کی ملکیت کی تمام اشیاء اور اس کے ذاتی ملکات میں اظہار پاتا ہے‘ اس کے درجۂ علم اور اس کی تعلیم اور تربیت سے راہنمائی حاصل کرتاہے۔ جوں جوں ہمارا علم ترقی کرتا جاتا ہے‘ ہم زیادہ خوبصورت اور زیادہ حسین زندگی بسر کرنے کے قابل ہوتے جاتے ہیں۔ اگر آپ اس زمانہ کے ایک اوسط درجہ کے خوشحال مہذب انسان سے اس کے دیوان خانہ میں ملاقات کریں تو آپ سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ بھی ایک نقاش یا ایک مصور ہی کی طرح ایک ماہر ہنر ہے کیونکہ جس طرح سے ایک نقاش یا مصور رنگ میں حسن کااظہار کرتا ہے دورِ حاضر کا مہذب انسان طرز بود و باش میں حسن کا اظہار کرتا ہے۔
جذبۂ حسن کی کارفرمائی
ایک عمدہ اور خوبصورت زندگی بسر کرنا بھی ایک ایسا ہی ہنر ہے جیسا کہ ایک عمدہ تصویر بنانا یا ایک خوش آہنگ ترانہ کا پیدا کرنا۔ ہنر کی اور اقسام کی طرح اس ہنر کا ماخذ بھی ہمارا جذبۂ حسن ہے۔ یہ جذبہ ہمیں حیوانات سے ممتاز کرتا ہے اور اسی کے اظہار کے لیے ہم اپنی ضروریات کو زیادہ پیچیدہ اور زیادہ وسیع کرتے جاتے ہیں۔ یہی جذبۂ حسن تھا جس نے غاروں کے رہنے والے قدیم انسان کو مجبور کیا کہ وہ غار سے باہر نکل کر درختوں کی شاخوں سے اپنے رہنے کے لیے جھونپڑی تیار کرے۔ اس جذبہ کی کارفرمائی سے ہم اپنی ضروریات کے سامان کو زیادہ سے زیادہ خوبصورت بنانا چاہتے ہیں اور اس سے ہماری ضروریات میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔ گویا ضروریات کے سامان کو استعمال کرتے اور پیدا کرتے ہوئے جب ہم اپنے جذبۂ حسن کا اظہار کرتے ہیں تو ہماری ضروریات بڑھتی جاتی ہیں اور اس سے ہمارا معاشی نظام بدلتا جاتا ہے اور بہتر اورخوشتر ہوتا جاتا ہے۔
توسیع ضروریات کے اسباب
بعض ماہرین اقتصادیات کے نزدیک جن میں انگلستان کے ایک نامور ماہر اقتصادیات پروفیسر مارشل(Marshall) بھی شامل ہیں۔ ہماری ضروریات کی غیر محدود توسیع کی وجہ ہماری تین خواہشات ہیں:
اوّل : تنوع کی خواہش
دوم : امتیاز اور برتری کی خواہش
سوم : آرام یا سہولت کی خواہش
لیکن جب ہم ان خواہشات کا تجزیہ کریں تو ثابت ہوتا ہے کہ ان کا ماخذ ہمارا جذبۂ حسن ہی ہے۔
تمنائے حسن کی صورتیں
تنوع(Variety) کی خواہش کی بنیاد یہ ہے کہ ہمارا جذبۂ حسن جس خوبی یا خوبصورتی کا تقاضا کرتا ہے وہ غیر متناہی ہے۔ ہم ایک چیز کو خوبصورت سمجھ کر اپناتے ہیں لیکن کچھ عرصہ کے بعد ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسی خوبصورت نہیں جیسی کہ ہم سمجھتے تھے۔ ہمارا جذبۂ حسن اور حسن کا تقاضا کرتا ہے لیکن چیز کا حسن اس تقاضا کے مطابق بڑھ نہیں سکتا لہٰذا ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہم ا س سے اکتا گئے ہیں۔ پھر ہم ایک مختلف چیز کی تمنا کرتے ہیں۔
درحقیقت ایک مختلف چیز کی تمنا زیادہ خوبصورت چیز کی تمنا یا خوبصورتی کے کسی اور پہلو کی تمنا ہوتی ہے جس سے پہلی چیز عاری ہوتی ہے۔ اسی طرح سے ہماری برتری یا امتیاز (Distinction)کی خواہش کی بنیاد یہ ہے کہ ایسے لوگ ہمیں پسند کریں یا ہماری تعریف کریں جنہیں ہم پسند کرتے ہیں یا جن کی طرف ہم حسن اور کمال منسوب کرتے ہیں اور ہم لوگوں کی پسندیدگی اور تعریف کو حاصل کرنے کے لیے اپنے لباس میں‘ اپنی دوسری مادی چیزوں میں‘ اپنی قابلیت ‘اخلاق ‘سیرت اورعام طرزِ زندگی میں حسن کا اظہار کرتے ہیں۔ اپنے آپ میں حسن کا اظہارکرنا جس سے ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہمیں دوسروں پر برتری حاصل ہو گئی ہے‘ دوسروں کے حسن و کمال سے محبت کرنے کا بھی ایک طریقہ ہے۔ گویا ہر حالت میں برتری کی خواہش کا منبع بھی جذبۂ حسن ہی ہے۔ سہولت یا آرام (Comfort)کی خواہش بھی درحقیقت لطافت‘ حسن اور عمدگی کی خواہش ہے۔ کیونکہ جس قدر کوئی چیز ہماری ضرورت کے ساتھ زیادہ مطابقت رکھے گی اسی قدر زیادہ عمدہ اور اچھی سمجھی جائے گی اور اسی قدر زیادہ آرام دہ اور باسہولت تصور کی جائے گی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ ایک ایسے آرام کو حاصل کرنے کے لیے جو ان کی کسی ضرورت کو ایک عمدہ اور خوبصورت طریق سے پورا کرنے کا نتیجہ ہوتا ہے‘ اکثر حد سے زیادہ تکلیف برداشت کرنے کے لیے آمادہ ہو جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ حسن کی جستجو ہے سہولت یا آرام کی جستجو نہیں۔ اگر ضرورت کی کسی خاص چیز کے استعمال سے سہولت اور آرام میں کچھ اضافہ ہو جائے تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم نے اپنی ضرورت اور اس کے ذرائع تکمیل کے درمیان ایک موزونیت اور مناسبت پیدا کر لی ہے اور موزونیت اور مناسبت حسن ہی کا دوسرا نام ہے۔
تمنائے حسن اور انسانی ضرورتیں
مثل مشہور ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ اس بنا پر بعض لوگوں کا خیال ہے کہ استعمال کی نئی نئی اشیاء کے ظہور میں آنے کی وجہ ضرورت ہے لیکن جب ہم اس بات پر غور کرتے ہیں کہ ہر شخص لفظ ضرورت کو الگ معنی دیتا ہے تو ضرورت کی حقیقت کھل جاتی ہے۔ اگر دو آدمیوں کی آمدنی ایک جیسی ہو تو ہو سکتا ہے کہ ان میں سے ایک اس بات کی شدید ضرورت محسو س کرتا ہو کہ اس کے پاس ایک اچھی موٹر کار ہو‘ ایک اچھا ریڈیو سیٹ ہو‘ اعلیٰ درجہ کا فرنیچر ہو‘ اعلیٰ درجہ کے برتن اور دوسرا ساز وسامان ہو۔اور دوسرا بالکل جائز طورپر سمجھتا ہو کہ ان میں سے کئی چیزیں ایسی ہیں جن کے بغیر اس کا گزارہ ہو سکتا ہے ۔ ایسی صورت میں دونوں کے نقطۂ نظر میں اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ پہلا شخص اچھا ذوق رکھتا ہے یعنی طرزِ زندگی میں اظہارِ حسن کی جو خواہش قدرت نے ا س کے دل میں رکھی ہے‘ وہ تربیت یافتہ اور قوی ہے اور دوسرا شخص بدذوق ہے یعنی طرزِ زندگی میں اظہار حسن کی جو خواہش فطرتاً اس کے دل میں موجود ہے وہ مناسب تربیت یا راہنمائی نہیں پا سکی لہٰذا وہ اپنا اظہار کرنا نہیں جانتی۔
زِیْنَۃُ اللّٰہ کے معنی
اسلام نے خوبصورت طرز بود و باش کو سراہا ہے اور اسے ایک نعمت قرار دیا ہے اور زینت اور جمال کے الفاظ سے یاد کیا ہے:
{ قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِيْنَةَ اللّٰهِ الَّتِيْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِهٖ وَالطَّيِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ } الاعراف: (۳۲)
’’ان کو کہو کہ طرزِ زندگی کا وہ حسن جو اللہ نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کیا ہے اور صَرف کی عمدہ چیزیں کون ہے جو انہیں حرام قرار دیتا ہے۔‘‘
{وَلَکُمْ فِیْہَا جَمَالٌ حِیْنَ تُرِیْحُوْنَ وَحِیْنَ تَسْرَحُوْنَ} (۶) (النحل)
’’اور جب تم اپنے مویشیوں کو صبح گھر سے ہانکتے ہو اور شام کو گھر واپس لاتے ہو تو اس میں تمہاری شان و شوکت کی جھلک ہوتی ہے‘‘۔
ہماری ضروریات کے اندر مجرد ضرورت کا عنصر تو بالکل وہی ہے جسے ہمارے آباء‘واجداد نے جو پتھر کے زمانہ میں کرئہ ارض پر بستے تھے‘ محسوس کیا تھا۔ وہ اس ضرورت کو بتمام و کمال پورا کرتے رہے اور اسی لیے زندہ رہے اور عہد حاضر کے انسان کی صورت میں اپنی نسل چھوڑ گئے۔ ہماری تمام ضروریات جو جبلتی خواہشات کے علاوہ ہیں‘ قیامِ حیات کے لیے غیر ضروری ہیں لیکن اظہارِ جمال کے لیے ضروری ہیں ۔ یعنی جس حد تک ہم حیوان ہیں وہ غیر ضروری ہیں اور جس حد تک ہم انسان ہیں اور جذبۂ حسن رکھتے ہیں وہ ضروری ہیں۔ ہم نے ان کو انسانوں کی حیثیت سے اپنے جذبۂ حسن کو مطمئن کرنے کے لیے بڑھایا ہے۔اگر یہ مانا جائے کہ ہماری ضروریات کی توسیع کی وجہ ضرورت ہے تو وہ ایسی ہی ضرورت ہے جیسی کہ ایک مصور محسوس کرتا ہے کہ اگر وہ اپنی تصویر کے ایک خاص حصہ میں ایک خاص رنگ کو کام میں لائے تو اس کی تصویر زیادہ خوبصورت ہو جائے گی۔ اس ضرورت کا منبع ہمارا جذبۂ حسن ہی ہے۔ بے شک ضرورت ایجاد کی ماں ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ہم ایک ضرورت کے بعد دوسری ضرورت اور دوسری کے بعد تیسری ضرورت کیوں محسوس کرتے چلے جاتے ہیں۔ کیوں اس کی تکمیل کے لیے نت نئی ایجادیں کرتے جاتے ہیں اور اس طرزِ عمل میں کہیں نہیں ٹھہرتے۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ ہمارا جذبۂ حسن و جمال ہے۔ لہٰذا اس مثل کی تشریح کے لیے ہمیں ایک اور مثل وضع کرنی چاہیے کہ حسن کی خواہش انسانی ضرورتوں کی ماں ہے۔
کوتاہ نظری
یہ مارکس کی کوتاہ نظری ہے کہ وہ بت سازی‘ نقاشی‘ مصوری‘ موسیقی‘ تعمیر‘ شعر اور رقص و سرود کو تو حسن آفرینی کی مختلف قسمیں سمجھ کر ہنر یا فن (Art)قرار دیتا ہے اور ’’مشتملات شعور‘‘ یا’’نظریاتی اشکال‘‘ میں داخل کرتا ہے۔ لیکن طرز بود و باش میں انسان کی حسن آفرینی کو ‘جو انسانی ضروریات کی رنگا رنگی اور اقتصادی حالات کی ترقی کا موجب ہے ‘ہنر یا فن نہیں سمجھتا اور نظریاتی سرگرمیوں میں شمار نہیں کرتا۔ درحقیقت مارکس کی تمام غلطیوں کی جڑ اُس کی یہی غلطی ہے۔
انسان کی حقیقت
اگر مارکس کی توجہ اس ناقابل انکار حقیقت کی طرف مبذول ہو جاتی کہ ہنر کی دوسری قسموں کی طرح طرزِ زندگی کی تجمیل اور تحسین بھی ہنر ہی ہے تو پھر اسے یہ سمجھنے میں کوئی دقت نہ ہوتی کہ جسے ہم انسان کہتے ہیں وہ سب کا سب درحقیقت ان سرگرمیوں کا ہی نام ہے جو اس کے خیال میں ’’شعور‘‘ یا ’’متضمنات شعور‘‘ یا ’’نظریاتی اشکال‘‘ پر مشتمل ہیں اور جن میں ہنر کی تمام قسموں کے علاوہ اخلاقی اور سیاسی اور مذہبی اور علمی نظریات کی جستجو شامل ہے اور یہ کہ جس چیز کو وہ ’’شعور‘‘ کہتا ہے‘ وہ انسان کی اقتصادی زندگی کو پیدا کرتا ہے اور خود اس سے پیدا نہیں ہوتا۔ اگر اس ’’شعور‘‘ کو انسان سے الگ کر دیا جائے تو وہ فقط ایک حیوان بن کر رہ جائے گا۔ وہ بے شک پھر بھی کھانے‘ پینے‘ رہنے اور دوسری جبلتی خواہشات کی تشفی کرنے میں مشغول ہو گا۔
’’شعور‘‘ کے نتائج
لیکن یہ وہ افعال ہیں جو حیوان سے بھی سرزد ہوتے ہیں۔ اس صورت میں نہ صرف یہ کہ وہ مذہب‘ اخلاق‘ سیاست‘ فلسفہ‘ سائنس اور ہنر کی معروف قسموں کی جستجو یک قلم ترک کر دے گا بلکہ اس کی کوئی اقتصادی ضروریات ایسی نہ ہوں گی جن کی تکمیل کے لیے سامان آفرینی کی جدوجہد کرنی پڑے۔ پھر انسان کا اقتصادی نظام ہمیشہ ایک حالت پر رہے گا۔ پھر نہ کوئی بارآور قوتیں (Productive Forces)ظہور میں آئیں گی اور نہ بارآور تعلقات(Production Relations)پیدا ہوں گے۔ غرض ہر قسم کی سامان آفرینی جو انسان سے مخصوص ہے‘ خواہ کسی نظام معاشی سے تعلق رکھتی ہو اور کسی طریق سے انجام پا رہی ہو انسان کے اسی ’’شعور‘‘ کا نتیجہ ہے۔