قرآن اور علمِ جدید (یونی کوڈ فارمیٹ)
فرائڈ نظریۂ لاشعور( جنسیت)
افسوسناک غلطی
فرائڈکے نظریہ میں صرف ایک بات ایسی ہے جو روحِ قرآن کے خلاف ہے اوروہ یہ ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ انسان کے لاشعوری جذبہ کی نوعیت جنسی محبت ہے اور وہ جنسی خواہشات کی غیر محدود آسودگی سے مطمئن ہوتا ہے لیکن چونکہ فرائڈ جذبۂ لاشعور کو انسان کے تمام اعمال کا محرک قرار دیتا ہے‘ لہٰذا قرآن کے نقطۂ نظر سے یہ جذبہ وہی ہے‘ جسے اوپر انسان کی خود شعوری کا جذبۂ حسن قرار دیا گیا ہے اور جو آدرش(Ideal) کی محبت میں اپنا اظہار پاتا ہے ۔اور صرف خدا کی محبت سے مکمل اور مستقل طور پر مطمئن ہوتا ہے۔ فرائڈ نے اس جذبہ کی نوعیت کو سمجھنے میں غلطی کی ہے اور جیسا کہ عنقریب ہم دیکھ لیں گے اس غلطی کی وجہ سے وہ اپنے استدلال میں بار بار ٹھوکریں کھانے اور حقائق کو افسوس ناک حد تک مسخ کرنے پر مجبور ہوا ہے جس سے اس کا نظریہ معقولیت کے پایہ سے گر گیا ہے۔
قرآن کا نظریہ
اگر اس کے نظریہ کو اس غلطی سے پاک کر دیاجائے تو وہ انسان کی فطرت کے قرآنی نظریہ کے ساتھ جس کی تشریح اوپر میکڈوگل کے نظریۂ جبلت کے سلسلہ میں کی گئی ہے پوری طرح سے منطبق ہو جاتا ہے بلکہ اس کی مزید تشریح اور تفسیر اور قابل قدر تجرباتی تائید اور توثیق بہم پہنچاتا ہے۔
اس وقت بھی فرائڈ کی تحقیقات کے بعض اہم ترین نتائج جو انسان کی فطرت کے اس قرآنی نظریہ کے ساتھ یا بالعموم روحِ قرآن کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں حسب ذیل ہیں:
سرچشمۂ اعمال
اوّل : انسان کے تمام اعمال کا سرچشمہ صرف ایک ہے اور وہ ایک زبردست جذبۂ محبت کی صورت میں ہے۔
نوٹ : فرائڈ اس جذبہ کو جنسی محبت قرار دیتا ہے لیکن قرآن کے نزدیک اس کی حقیقت خدا کی محبت ہے۔ اس سلسہ میں قرآن کی آیت:
{وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِ(۵۶)} (الذّٰریٰت)
’’میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف عبادت کے لیے پیدا کیا ہے‘‘۔
اور بعض اور آیات کے مطالب اوپر بیان کیے گئے ہیں۔
لاشعور کا جبر
دوم : یہ جذبہ لاشعوری ہے کیونکہ انسان اسے جاننے یا سمجھنے کے بغیر بھی اس کے مطابق عمل کرنے پر مجبور ہوتا ہے گویا وہ اس سے ہانکا یا دھکیلا جاتا ہے۔
نوٹ : ضلالت اور ہدایت کی قرآنی اصطلاحات سے مراد جذبۂ لاشعور کی ضلالت اور ہدایت ہے جب ہم اس جذبہ کو ٹھیک طرح سے جانتے اور سمجھتے نہ ہوں تو ہمارا جذبہ لاشعور بہک جاتا ہے اور ہم اسے ایک غلط تصور سے مطمئن کرنے لگتے ہیں‘ یہ ضلالت ہے۔ جب ہم اس جذبہ کو ٹھیک طرح سے جانتے اور سمجھتے ہوں تو اسے ٹھیک طرح سے مطمئن کرتے ہیں اور یہ ہدایت ہے۔ ضلالت اس جذبہ کی لاشعوری اطاعت یا اطاعت باکراہ ہے اور ہدایت اس کی شعوری اطاعت یا اطاعت بطوع ہے۔
ارتقائے محبت
سوم : بچپن میں ہمارا جذبۂ لاشعور والدین اور استادوں اور بزرگوں کی محبت میں اور اس کے بعد آدرشوں کی محبت میں اپنااظہار پاتا ہے۔
چہارم : آدرش ارتقاء کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ کامل ہوتے جاتے ہیں ۔ جوں جوں وہ ارتقاء کرتے ہیں وہ صفاتِ مجردہ(Abstract Qualities) پر مشتمل ہوتے جاتے ہیں۔
نفس انسانی کے وظائف
پنجم: نفس انسانی کے تین وظائف (Functions)ہیں جو اس کے تین حصوں کے سپرد ہیں۔ فرائڈ نے ان تینوں کے نام حسب ذیل تجویز کیے ہیں:
(۱) لاشعور یا اِیڈ(ID) نفس انسانی کا وہ حصہ جو اس کے تمام اعمال کا اصلی مبدأ یا محرک ہے۔
(۲) شعور یا ایغو(Ego)نفس انسانی کا وہ حصہ جو آدرشوں کی صورت میں لاشعور کی خواہشات کی ترجمانی کر کے ان کی تشفی کا اہتمام کرتا ہے۔
(۳) فوق الشعور یاسوپر ایغو(Super Ego) نفس انسانی کا وہ حصہ جو ایغو کی اس ترجمانی پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے شعور لاشعور کے اطمینان کے لیے آدرشوں کو پیدا کر کے اُ ن کا تتبع کرتا ہے۔
خوف و حزن کا سبب
ششم: انسان اپنے جذبۂ لاشعور کو اپنی ذہنی صحت (Mental Health)کو نقصان پہنچانے کے بغیر دبا نہیں سکتا۔ اگر اس کا جذبۂ لاشعور اطمینان پانے سے رک جائے یا مایوس یا محروم یا ناکام ہو جائے تو انسان ذہنی امراض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ جو صدمہ کی کیفیت یا شدت کے مطابق بعض وقت تو معمولی پریشانیوں(Anxieties) کی صورت میں ہوتی ہیں اور بعض وقت ایک شدید اعصابی خلل‘ یا ہسٹیریا یا جنون کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔
نوٹ: قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اہل جنت خوف و حزن سے محفوظ ہوں گے اس کی وجہ یہی ہے کہ اہل جنت کی محبت حق تعالیٰ بغیر کسی رکاوٹ کے ترقی کرتی رہے گی۔ محبت حسن میں رکاوٹ گناہ سے پیدا ہوتی ہے اور اہل جنت وہ لوگ ہوں گے جو معصوم ہوں گے یا اپنے گناہوں کی سزا بھگت کر ان کی رکاوٹوں پر عبور پا چکے ہوں گے۔
طلبِ جمال کی دلنوازیاں
ہفتم: مذہب کی پیروی‘ اصولِ اخلاق کا تتبع‘ علم کی جستجو اور ہنر(Art)کا انہماک ایسی سرگرمیاں ہیں جو مایوس یا ناکام جذبۂ لاشعور کو تسکین دیتی ہیں اور انسان کو اُن ذہنی امراض سے بچاتی ہیں جو ا س جذبہ کو روکنے سے اسے لاحق ہوتی ہیں ۔
نوٹ : فرائڈ غلطی سے اس مظہر کو ترفع (Sublimation)کا نام دیتا ہے ۔ اس کا خیال ہے کہ جب انسان سماج کے خوف سے جنسی خواہشات کی پوری تشفی نہیں کر سکتا تو ان کو مجبوراً علم‘ ہنر‘ مذہب اور اخلاق کی خواہشات کی صورت میں تبدیل کر دیتا ہے گویا جنسی خواہشات کو اپنی اصلی جگہ سے اٹھاکر بلند کر دیتا ہے۔ اس طرح سے وہ ان مقدس سرگرمیوں کو اصلی اور فطرتی نہیں سمجھتا بلکہ دبی ہوئی جنسی خواہشات کی بدلی ہوئی غیر فطرتی صورت قرار دیتا ہے۔ لیکن قرآن کے نزدیک یہ سرگرمیاں سب کی سب اصلی اور فطرتی ہیں اور ان کی اطمینان بخشی کی وجہ یہ ہے کہ وہ سب حسن کی جستجو یا خدا کے ذکر کی صورتیں ہیں حسن کی محبت جذبۂ لاشعور ہے اور حسن خدا ہے۔
{اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْب} (الرعد:۲۸)
’’خبردار خدا کے ذکر سے دلوں کو اطمینان ہوتا ہے‘‘۔
کاالنقش فی الحجر
ہشتم: ہر کام جو انسان بچپن سے لے کر مرتے دم تک کرتا ہے خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا معمولی ہو یا غیر معمولی نفس انسانی میں اس طرح سے نقش ہو جاتا ہے کہ پھر کبھی نہیں مٹتا خواہ اُسے انسان بالکل بھول جائے اور یاد دلانے سے بھی یاد نہ کر سکے۔
نوٹ : فرائڈ نے تجربات سے معلوم کیا ہے کہ انسان کا ہر عمل چھوٹا ہو یا بڑا اُس کے لاشعور میں ہمیشہ محفوظ رہتا ہے اور وقت کے گزرنے سے اُس میں کوئی تغیر واقع نہیں ہوتا۔ قرآن نے نفس انسانی کے اس قانون کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے :
{اِنَّ عَلَیْکُمْ لَحٰفِظِیْنَ (۱۰) کِرَامًا کَاتِبِیْنَ (۱۱) یَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ(۱۲) } (الانفطار)
’’بے شک تمہارے اوپر معزز لکھنے والے مقرر ہیں جو کچھ تم کرتے ہو وہ جانتے ہیں۔‘‘
{وَکُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰــہُ طٰٓئِرَہٗ فِیْ عُنُقِہٖ ط … اِقْرَاْ کِتٰـبَکَط کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا (۱۴) } (بنی اسراء یل :۱۳ اور ۱۴)
’’ہر انسان کی نحوست اور سعادت کی فال ہم نے اس کی گردن میں لٹکا دی ہے … اپنی سرگزشت اعمال خود پڑھ لے۔ آج تو اپنے اعمال کا محاسبہ کرنے کے لیے خود کافی ہے۔‘‘
{مَالِ ھٰذَا الْکِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَۃً وَّلَا کَبِیْرَۃً اِلاَّ اَحْصٰھَا} (الکہف:۴۹)
’’یہ تحریر عجیب ہے کہ کوئی کام چھوٹا ہو یا بڑا ایسا نہیں جس کا ذکر اس میں نہ ہو۔‘‘
{فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃ خَیْرًا یَّرَہٗ(۷) وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃ شَرًّا یَّرَہٗ(۸)}
’’اورجو شخص ذرّہ بھر نیکی کرے گا دیکھ لے گا اور جو شخص ذرہ بھر بدی کرے گا دیکھ لے گا۔‘‘
حیات بعد الممات کا ثبوت
تحفظ و ضبطِ اعمال کے قانون پر جو فرشتے مامور ہیں انہیں ’’کِرَامًا کَاتِبِیْنَ‘‘ کہا گیا ہے ۔ فرائڈ کو تو سمجھ میں نہیں آیا کہ اعمال کا اس احتیاط اور حفاظت کے ساتھ لاشعور میں ضبط رہنا کارخانۂ قدرت کے اندر کون سے مقصد کو پورا کرتا ہے۔ لہٰذا وہ صرف فلسفیوں کو دعوت دینے پر اکتفا کرتا ہے کہ اس حقیقت پر سوچ بچار کر کے اس کی وجہ دریافت کرو اور اس کے مضمرات کو باہر لائو۔ لیکن قرآن کے نزدیک انسان کے لاشعوری نامۂ اعمال میں اُس کے اعمال کا ضبط رہنا اس غرض سے ہے کہ موت کے بعد ان اعمال کو انسان اپنے ارتقاء کے لیے کام میں لائے یعنی حد درجہ تکلیف دہ حالات سے گزر کر غلط اعمال کی بندشوں اور رکاوٹوں سے نجات پائے اور صحیح اعمال کی قوت سے ارتقاء کے بلند تر مقامات پر قدم رکھتا جائے کیونکہ انسان کی خود شعوری جسم کی موت کے بعدبھی اپنی منزل مقصود کی طرف ارتقاء کرتی رہتی ہے لیکن اس نکتہ کی تفصیلات کا ذکر آگے آئے گا۔
قرآن اور لاشعور
فرائڈ کے نظریہ کہ سب سے بڑی غلطی یعنی یہ کہ جذبۂ لاشعور جنسی نوعیت کا ہے اس قدر ظاہر اور باہر ہے اور حقائق کی روشنی میں اس قدر آسانی سے ایک غلطی ثابت ہو سکتی ہے کہ ہمیں یقین کرنا چاہیے کہ فرائڈ کے پیرو بہت جلد اس کا احساس کر کے اس کا ازالہ کریں گے اور پھر یہ نظریہ ہمہ تن قرآن کے نظریۂ فطرت کی تفسیر بن جائے گا اس بنا پر اب بھی اگر یہ سمجھا جائے کہ مجموعی طور پر فرائڈ کے نظریہ نے فطرتِ انسانی کے متعلق ہمارے علم میں ایک گراں قدر اضافہ کیا ہے اور اس علم کی آئندہ دور رس ترقیوں کے لیے راستہ صاف کر دیا ہے تو بالکل بجا ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ اس وقت فرائڈ کی بنیادی غلطی کی وجہ سے دنیا بھر میں لوگ اس نظریہ کو فطرتِ انسانی کے صحیح تقاضوں کو بروئے کار لانے اور پورا کرنے کی بجائے انہیں دبانے اور روکنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور اس وقت اس نظریہ کی وجہ سے زہد و تقدس کی بجائے معصیت اور فحاشت کو ترقی ہو رہی ہے۔
مضحک دلیلیں
فرائڈ نے لفظ جنسیت کا مفہوم مضحکہ خیز حد تک وسیع کر دیا ہے۔ عام لوگ تجربہ کی بنا پر ہمیشہ سے یہی سمجھتے رہے ہیں کہ بعض ان بچوں کو چھوڑ کر جن میں جنسی احساسات ایک مرض کے طور پر قبل از وقت پیدا ہو جاتے ہیں‘ جنسی خواہشات کا اوّلین ظہور جوانی میں ہوتا ہے ۔ چونکہ جذبۂ لاشعور انسان کی فطرت کا ایک مستقل خاصہ ہے جو بچپن ہی سے فرد کے ساتھ رہتا ہے لہٰذا جذبۂ لاشعور کی جنسی نوعیت ثابت کرنے کے لیے فرائڈ کو اس بات کی ضرورت لاحق ہوئی کہ وہ یہ ثابت کرے کہ انسان کی جنسی خواہشات تمام دوسرے حیوانات کی جنسی خواہشات کے برعکس آغازِ حیات ہی سے اس کو دامن گیر ہو جاتی ہیں لہٰذا وہ کہتا ہے کہ بچہ کا انگوٹھا چوسنایا ماں کی چھاتیوں کو چوسنا یا نگلنا یا فضلات اور رطوبات کا خارج کرنا ایسی تمام حرکات جنسی نوعیت کی ہیں۔ پھر وہ سمجھتا ہے کہ بچے کو اپنے ماں باپ سے جو محبت ہوتی ہے اس کی بنیاد بھی جنسیت ہے۔ بچہ اپنے والدین میں سے ایک فریق یعنی مخالف جنس کے فریق کے ساتھ ایک جنسی محبت رکھتا ہے اور دوسرے فریق کے خلاف جنسی رقابت کا جذبہ محسوس کرتا ہے۔ اس جنسی محبت کو وہ آبائی الجھاؤ کا نام دیتا ہے۔ جب بچہ کا رجحان اس کے برعکس ہو تو فرائڈ کہتا ہے کہ بچہ کی محبت اب بھی جنسی نوعیت کی ہے لیکن آبائی الجھاؤ الٹ گیا ہے۔
جبلت جنس کی مزعومہ پیچیدگی
اس کا خیال ہے کہ انسان میں جبلت جنس کا عمل اس قدر سادہ نہیں ہوتا جس قدر حیوان کی صورت میں ہوتا ہے۔ انسان میں اس جبلت کے کئی عناصر ہوتے ہیں جنہیں مل کر ایک کل یا ایک وحدت بن جانا چاہیے لیکن وہ کبھی مل کر ایک کل یا ایک وحدت نہیں بنتے۔ اس کے علاوہ انسان کی صورت میں یہ جبلت اپنی نشوونما کے دو ادور میں سے گزرتی ہے۔ ایک دور تو چار سال کی عمر کے لگ بھگ آتا ہے اور دوسرا جوانی کے فوراً بعد۔ درمیانی عرصہ میں یہ جبلت مخفی رہتی ہے اور ترقی نہیں کرتی۔
مرکزی خیال
فرائڈ نہ صرف خوابوں اور دماغی بیماریوں کو جنسی خواہشات کا نتیجہ سمجھتا ہے بلکہ تندرست انسانوں کے تمام ایسے اعمال کو بھی جو بظاہر جنسیت سے کوئی علاقہ نہیں رکھتے ان ہی خواہشات کا نتیجہ قرار دیتا ہے مثلاً وہ کہتا ہے کہ آدرشوں کی محبت بھی‘ جو بچپن کے بعد انسان میں لازماً پیدا ہو جاتی ہے ‘ جنسی خواہشات کا نتیجہ ہے کیونکہ وہ آبائی الجھاؤ کی قائم مقام ہے اور آبائی الجھاؤ والدین کے لیے بچہ کی جنسی محبت کا دوسرا نام ہے۔ آبائی الجھاؤ رفتہ رفتہ ختم ہو کر آدرشوں کی محبت کو اپنا جانشین بنا دیتا ہے حاصل یہ کہ آبائی الجھاؤ کا تصور فرائڈ کے سارے نظریہ کی بنیاد ہے۔ ارنسٹ جونز(Ernest Jones) ٹھیک کہتا ہے کہ:
’’فرائڈ کے نظریۂ تحلیل نفسی کے تمام نتائج اس الجھاؤ کے ارد گرد پیدا ہوئے ہیں۔ اگر فرائڈ کا یہ خیال درست ہے تو اس کے باقی تمام نتائج بھی درست ہوں گے ورنہ غلط‘‘۔
طوفانِ ملامت
طفولیتی جنسیت کا خیال جسے فرائڈ نے نہایت ہی مضحک دلائل سے سہارا دینے کی کوشش کی ہے گو فرائڈ کے نظریہ کی بنیاد ہے تاہم بہت سے ماہرین نفسیات کو قائل نہیں کر سکا۔ اس کی وجہ سے فرائڈ پر یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ خود جنسی خواہشات کا غلام ہے۔ دنیا کی ہر چیز کو جنسیت کے نقطۂ نظر سے دیکھتا ہے اور دنیا میں جنسی خواہشات کا سکہ بٹھانا چاہتا ہے۔ تحلیل نفسی کے نظریہ کے خلاف بدترین اعتراضات اسی تصور پر تھوپے گئے ہیں۔ یہی وہ چٹان ہے جس کے ساتھ تحلیل نفسی کی ناؤ ٹکراکر ٹوٹی اور تین حصوں میں بٹ گئی۔ ایڈلر(Adler)اور یونک(Jung)‘جو فرائڈ کے شاگرد تھے اور اس کے ساتھ مل کرکام کرتے رہے تھے‘اس نتیجہ پر پہنچے کہ ان کے لیے ناممکن ہے کہ اپنے استاد کے اس عقیدہ سے متفق ہو سکیں۔
باعثِ افتراق
لہٰذا انہوں نے جذبۂ لاشعور کی نوعیت کے متعلق اپنے ہی نظریات پیش کیے۔ ایڈلر نے کہا کہ یہ جذبہ حبِّ تفوق کا ہے اور یونگ نے کہا یہ جذبہ نہ تفوق کے لیے ہے اور نہ جنسیت کے لیے۔ بلکہ کسی ایسی چیز کے لیے ہے جو ان دونوں کے بین بین ہے۔ اگرچہ اُن کے نظریات فرائڈ سے بھی کم مقبول ہوئے تاہم ان کا وجود ثابت کرتا ہے کہ جذبۂ لاشعور کی نوعیت کے متعلق جس قدر قیاس آرائیاں کی گئی ہیں ‘ان میں سے کوئی بھی حقائق کے ساتھ پوری پوری مطابقت نہیں رکھتی اور کوئی بھی تسلی بخش نہیں اور اس سلسلہ میں ایک نئے معقول اور قابل قبول نظریہ کے لیے میدان خالی ہے۔
بے بصری
میرا خیال ہے کہ اس نئے معقول اور قابل قبول نظریہ کی طرف بعض ایسے حقائق صاف طور پر راہنمائی کررہے ہیں جو فرائڈ نے خود اپنی تجرباتی تحقیق سے دریافت کیے تھے‘ لیکن جن کے اصلی مطالب اور مقتضیات کو وہ مادیت کے حق میں اپنے شدید ذہنی تعصب کی وجہ سے پوری طرح نہیں سمجھ سکا۔
اعتراضات
اگر ہم فرائڈ کی ان عبارتوں کا بغور مطالعہ کریں‘ جو کتاب کے پہلے حصہ میں درج کی گئی ہیں‘ تو ہمیں صاف طور نظر آجاتا ہے کہ انسان کا جذبۂ لاشعور درحقیقت حسن و کمال کے لیے ہے ‘جنسیت کے لیے نہیں۔ اور لاشعور کا یہ نظریہ نہ صرف تمام حقائق کے ساتھ پوری پوری مطابقت رکھتا ہے بلکہ ان حقائق کو بھی قابل فہم بناتا ہے جن کو سمجھنے سے فرائڈ نے عجز کا اظہار کیا ہے ۔ بلکہ یہ نظریۂ تحلیل نفسی کے تمام مکتبوں کے اختلافات کو ختم کر کے انہیں متحد کرتا ہے۔
فرائڈتسلیم کرتا ہے کہ بچہ اپنے والدین سے اس لیے محبت کرتا ہے کہ وہ اُن کو’’قابل تعریف شخصیتیں‘‘ سمجھتا ہے‘ اُن کے لیے ایک ’’ستائش‘‘ کا جذبہ محسوس کرتا ہے اُن کی طرف ’’کمال‘‘ منسوب کرتا ہے اور وہ اپنے استادوں سے بھی اس لیے محبت کرتا ہے کہ وہ اس کی نظر میں ’’کمال کا ایک نمونہ‘‘ ہوتے ہیں۔ آگے چل کر جب فرد کی عمر ترقی کر جاتی ہے اور فوق الشعور آبائی الجھاؤ کی جگہ لے لیتا ہے تو فوق الشعور’’ حصولِ کمال کی خواہش کا حامی‘‘ بن جاتا ہے اور ’’غیر متناہی کمال‘‘ کا مطالبہ کرنے لگتا ہے۔
ناگزیر نتیجہ
کیا ہم ان تصریحات سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کر سکتے کہ ایک فرد انسانی بچپن سے لے کر مرتے دم تک خوبی اور جمال اور عظمت اور کمال کی ایک زبردست خواہش میں گرفتار رہتا ہے۔ بچپن میں یہ خواہش ماں باپ کی ذات میں اپنی تکمیل ڈھونڈتی ہے کیونکہ اُن سے خوب تر‘ کامل تر اور اعلیٰ تر شخصیتیں بچہ کے علم میں نہیں ہوتیں‘ پھر جوں جوں بچہ کا علم اور تجربہ ترقی کرتے جاتے ہیں وہ بہتر سے بہتر اشیاء اور اشخاص اور تصورات کی طرف اپنی محبت کا رخ پھیرتا چلا جاتا ہے۔
جذب حسن و کمال
خوبی اور جمال اور عظمت اور کمالِ حسن کی مختلف تعبیرات ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے لاشعور میں طلب حسن کا جذبہ ہے اور انسان عمر بھر اس جذبہ کی تکمیل اور تشفی کے لیے کوشاں رہتا ہے اگر ایک چیز اس جذبہ کو مطمئن نہ کر سکے تو دوسری چیز کی طرف رخ کرتا ہے اور پھر تیسری چیز کی طرف وعلیٰ ہٰذا القیاس۔
فوق الشعور کا مطالبہ
یہی جذبہ ہے جو حصولِ کمال کی اس خواہش کا سبب ہے جس کی حمایت فوق الشعور کے ذمہ ہے اور غیر متناہی حسن و کمال کے لیے فوق الشعور کا مطالبہ اس کے سوائے اور کیا معنی رکھتا ہے کہ وہ خدا ہی کو چاہتا ہے کیونکہ انسان نے آج تک غیر متناہی حسن و کمال خدا کے تصور کے سوائے اور کسی تصور کی طرف منسوب نہیں کیا۔ ہیگل کے نزدیک بجاطور پر خدا کی تعریف ہی یہ ہے کہ وہ ایک ایسی ہستی ہے جس کے حسن و کمال کی کوئی انتہا نہ ہو۔
اس حقیقت کو ذہن میں رکھنے کے بعد ہم آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ جوں جوں بچہ کی عمر بڑھتی جاتی ہے ‘ کیوں اس کے والدین جو پہلے اس کی نظر میں حسن و کمال کا نمونہ تھے ’’اپنا بہت سا وقار کھو دیتے ہیں‘‘۔ کیوں فوق الشعور ’’والدین سے دور ہٹتا چلا جاتا ہے‘‘ اور کیوں ’’اشخاص اور ذوات سے بالاتر ہو کر‘‘ اوصاف مجردہ(Abstract Qualities) کی طرف آتا جاتا ہے اور کیوں بچہ اپنے والدین کی طرف ’’اپنی عمر کے مختلف حصوںمیں مختلف قدر و قیمت منسوب کرتا ہے‘‘۔
نوٹ : ان دو پیروں میں جن الفاظ کو بطور حوالہ کے نقل کیا گیا ہے وہ فرائڈ کی کتاب ’’نیو انٹروڈکٹری لیکچرز آن سائیکو انیلیسز‘‘(New Introductory Lectures on Psycho Analysis) سے لیے گئے ہیں۔
بودا پن
پس فوق الشعور نہ تو والدین کی محبت کا قائم مقام ہے اور نہ اس کا نتیجہ ہے بلکہ فوق الشعور اور والدین کی محبت دونوں اسی لاشعوری جذبۂ حسن و کمال کا نتیجہ ہیں۔ اس میں ذراشک نہیں کہ فرائڈ کے نظریہ کا سب سے کمزور حصہ اس کا یہ دعویٰ ہے (جسے وہ غلطی سے ایک دلیل شمار کرتا ہے) کہ فوق الشعور آبائی الجھاؤ کا قائم مقام اور اس کا نتیجہ ہے۔ تعجب ہے کہ فرائڈ اس دعویٰ کو ثابت کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرتا اور اس کے باوجود وہ اسے ایک ایسا محفوظ اور محکم نتیجہ سمجھتا ہے کہ اپنے سارے نظریۂ لاشعور کی بنیاد ہی اسی پر رکھتا ہے۔
عدم مماثلت
بنیادی طور پر بچے سے والدین کا برتاؤ محبت کا برتاؤ ہوتا ہے گاہ بگاہ ان کی سختی کا باعث بھی ان کی محبت ہی ہوتی ہے۔ چنانچہ بچہ جب جوان ہوتا ہے تو اس سختی کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ فوق الشعور بھی ضمیر کی ملامت گری اور درشت کلامی کی صورت میں فرد کے ساتھ سختی کا برتاؤ کرتا ہے۔ لیکن اگر فوق الشعور آبائی وظائف کا جانشین ہے تو اس کی وجہ کیا ہے کہ وہ آبائی وظائف سے فقط سختی کو ہی وراثتاً حاصل کرتا ہے اور والدین کی محبت اور نرمی سے ذرہ بھر حصہ نہیں لیتا۔ اس کے علاوہ گو والدین نے اپنی شدید محبت کی وجہ سے بچے کے ساتھ کبھی سختی کا برتاؤ نہ کیا ہو فوق الشعور اس کے ساتھ پھر بھی سختی کا برتاؤ کرتا ہے۔ پھر اس کی وجہ کیا ہے کہ ایسی صورت میں فوق الشعور آبائی وظائف سے کچھ بھی وراثتاً حاصل نہیں کرتا۔ آبائی الجھاؤ کے دو پہلو ہوتے ہیں ۔ بچہ والدین سے محبت بھی کرتا ہے اور ان سے ڈرتا بھی ہے۔ اس کا خوف محبت سے پیدا ہوتا ہے کیونکہ وہ اتنا سزا سے نہیں ڈرتا جتنا اس بات سے ڈرتا ہے کہ وہ والدین کی محبت کو کھو دے گا۔ بچے کو ڈر کا صلہ یہ ملتا ہے کہ اسے والدین کی محبت حاصل ہوتی ہے۔
بے ربط باتیں
لیکن ایک جواں سال آدمی جب فوق الشعور یا آدرش سے ڈر کر اس کی متابعت کرتا ہے تو اسے محبت کی صورت میں فوق الشعور یا آدرش سے کوئی صلہ نہیں ملتا۔ اور پھر اس کی وجہ کیا ہے کہ آبائی الجھاؤ اپنے مزعومہ جنسی ماخذ کے باوجود فرد کی بعدکی ز ندگی میں ایک ایسی شکل اختیار کرتا ہے (یعنی ضمیر یا معیار سیرت یا روحانی یا مذہبی یا اخلاقی آدرشوں کی شکل ) جو جنسی خواہشات سے کوئی علاقہ نہیں رکھتیں بلکہ ایک حد تک ان کی مخالف ہے۔ فرائڈ ہمیں بتاتا ہے کہ جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے فوق الشعور آبائی الجھاؤ سے دور ہٹتا جاتا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے اگر وہ آبائی الجھاؤ کا جانشین تھا تو چاہیے تھا کہ جوں جوں وقت گزرتا جاتا وہ اپنی اصلیت کے زیادہ سے زیادہ قریب آتا جاتا۔ پھر بعض وقت فوق الشعور ایسے آدرش پیش کرتا ہے جو نہ صرف والدین کی خواہشات کے مطابق نہیں ہوتے بلکہ ان خواہشات کے منافی ہوتے ہیں ۔ اگر آدرشوں کی محبت انسان کا ایک قدرتی جذبہ یا اُس کی فطرت کا ایک مستقل تقاضا نہ ہو بلکہ آبائی الجھاؤ کے مٹ جانے کا ایک اتفاقی نتیجہ ہو تو پھر ہم ان تمام حقائق میں سے کسی کی معقول اور تسلی بخش تشریح نہیں کر سکتے۔ فرائڈ خود لکھتا ہے:
اعترافِ عجز
’’میں جس حد تک چاہتا ہوں آپ کوبتا نہیں سکتا کہ آبائی الجھاؤ فوق الشعور میں کس طرح سے تبدیل ہو جاتا ہے … اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا خیال ہے کہ ہم نے خود اس کو پوری سے نہیں سمجھا‘‘۔
نامعقول اصرار
آبائی الجھاؤ کا فوق الشعور میں بدل جانافرائڈ کی سمجھ میں اس لیے نہیں آتا کہ وہ ہر حالت میں اس بات پر اصرار کرنا چاہتا ہے کہ لاشعور کے جذبہ کی ماہیت جنسی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب تک فرائڈ یہ نہ کہے کہ فوق الشعور آبائی الجھاؤ کا نتیجہ ہے جس کی نوعیت جنسی ہے اس وقت تک اُس کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اخلاقی‘ روحانی یا مذہبی آدرشوں کو جنسیت کے ساتھ متعلق کر سکے۔ اس کے اس استدلال میں حقائق کو اپنے عقیدہ کے مطابق تشکیل دینے کی کوشش صاف طور پر نظر آ رہی ہے۔
کور چشمی
یہاں پہنچ کر اگر فرائڈ یہ سمجھتا کہ ہو سکتا ہے کہ فوق الشعور آبائی الجھاؤ کا نتیجہ نہ ہو بلکہ فطرتِ انسانی کے ایک ایسے بنیادی خاصہ یا تقاضا کا نتیجہ ہو جو خود آبائی الجھاؤ کا سبب ہو تو اس کے لیے اس کے پاس کافی وجہ موجود تھی لیکن بدقسمتی سے فرائڈ نے منزل کا سراغ گم کر دیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ وہ مشکلات میں پھنس کر رہ گیا۔
حل مشکلات
اگر ہم فرض کر لیں کہ جذبۂ لاشعور حسن و کمال کے لیے ہے اور فوق الشعور لاشعور کی خواہشات کی وہ ترجمانی ہے جو شعور وقتاً فوقتاً کرتا رہتا ہے تو ہم اوپر کے تمام سوالات کا تسلی بخش جواب دے سکتے ہیں آدرشوں کی محبت کا باعث براہِ راست لاشعور کا دباؤ ہے۔ لہٰذا یہ محبت نفس انسانی کا ایک مستقل اور قدرتی وظیفہ ہے جو کسی آبائی الجھاؤ کانتیجہ نہیں بلکہ نام نہاد آبائی الجھاؤ اس کا نتیجہ ہے۔ چونکہ لاشعور کا جذبۂ حسن و کمال انسان کی فطرت کا ایک مستقل تقاضا ہے ‘اس کا فعل آغازِ حیات ہی سے شروع ہو جاتا ہے۔ بچپن میں یہ جذبہ ماں باپ اور استادوں اور بزرگوں کی محبت میں اپنا اظہار پاتا ہے۔ گویا یہ شخصیتیں بچہ کا آدرش بنتی ہیں لیکن جوں جوں ایغو کا علم ترقی کرتا جاتا ہے۔ یہ جذبہ کامل تر آدرشوں میں اپنا اظہار پاتا جاتا ہے۔ اس مفروضہ کی مدد سے طفولیتی محبت اور طفولیتی مسدودات(Repressions)کی ایسی معقول تشریح ہو جاتی ہے کہ پھر اُن کی تشریح کے لیے طفولیتی جنسیت کا نظریہ جو فرائڈ نے پیش کیا ہے اور جس کی وجہ سے اُسے بہت سے ماہرین نفسیات کی ملامت کا ہدف بننا پڑا غیر ضروری ہو جاتا ہے۔
عقل سلیم کا بار
فرائڈ کا یہ خیال عقل سلیم پر حد درجہ ناگوار ہے کہ والدین کے لیے بچے کی محبت کا باعث اس کی جنسی خواہشات ہیں۔ ہم مانتے ہیں کہ یہ بالکل ممکن ہے کہ لڑکا باپ کی نسبت ماں سے اور لڑکی ماں کی نسبت باپ سے زیادہ محبت رکھتی ہو لیکن ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ فقط یہ ہو کہ ماں‘لڑکی کی نسبت لڑکے سے اور باپ لڑکے کی نسبت لڑکی سے زیادہ محبت رکھتا ہے اور لڑکی یا لڑکا اپنی زائد محبت سے محض ان کی محبت کا جواب دیتے ہیں۔ یہ بھی تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ ممکن ہے کہ بچہ خود اپنے جنسی رجحانات کی وجہ سے (بالخصوص ایسی حالت میں جبکہ وہ قبل از وقت جوان ہو رہا ہو) اپنے والدین میں سے جنس مخالف کے فریق کے ساتھ زیادہ محبت رکھتا ہو ۔ لیکن چونکہ عام طور پر بچے کی محبت خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی ماں اور باپ دونوں کے لیے یکساں ہوتی ہے بلکہ بعض دفعہ لڑکا باپ سے اور لڑکی ماں سے زیادہ محبت رکھتی ہے اور چونکہ بچہ والدین کے علاوہ ایسے لوگوں سے بھی جو اس کی تعلیم اور تربیت میں حصہ لیتے ہیں اور جن کو وہ خوبی اور کمال کا نمونہ سمجھتا ہے۔
اشارہ
مثلاً استادوں یا بزرگوں سے اُن کی جنس سے قطع نظر محبت کرتا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ والدین کے لیے بچے کی محبت کاباعث اُس کی جنسی خواہشات نہیں بلکہ اس کی فطرت کا کوئی اور ہی تقاضا ہے جو جنسیت سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ حقائق بتا رہے ہیں کہ یہ تقاضا حسن و کمال کی محبت ہے جس کا مرجع بچپن میں ماں باپ‘ استاد اور بزرگ ہوتے ہیں کیونکہ بچہ کچھ تو اُن کے قرب اور رعب و ادب اور محبت اور نیکی کے برتاؤ کی وجہ سے اور کچھ اپنی کم سنی اور کم فہمی کی وجہ سے مجبور ہوتا ہے کہ صرف اُن کو ہی خوبی اور کمال اور عظمت کی انتہا سمجھے۔ تاہم جب اُس کا علم ذرا ترقی کر جاتا ہے تو اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کے والدین یا بزرگوں میں وہ کمالات موجود نہیں جو وہ نادانی سے اُن کی طرف منسوب کر رہا تھا۔ لہٰذا اس کا لاشعوری جذبۂ حسن و کمال یا اس کی محبت کا جذبہ بلند تر اور کامل تر آدرشوں کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔
ایک سوال
اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ اگر ہمارا جذبۂ لاشعور حسن و کمال کے لیے ہے تو اس کی وجہ کیا ہے کہ فرائڈ کو اپنے تجربات کے دوران میں معلوم ہوا کہ اُس کے بہت سے مریض فی الواقع جنسی مسدودات سے بیمار تھے اور اس مفروضہ کی بنا پر تحلیل نفسی کا جو علاج اُن کے لیے برتا گیا اس میں اکثر اوقات اسے کامیابی ہوئی۔
اس کی تشریح کے لیے بھی ہمیں انسان کی فطرت کے اس قرآنی نظریہ کی طرف لوٹنا پڑے گا جس کے علمی اور عقلی مقتضیات اورمضمرات پر میکڈوگل کے نظریۂ جبلت کے سلسلہ میں مفصل بحث کی گئی ہے۔
کائناتی جذبۂ حسن
جذب‘ محبت یا حسن کی جستجو جس کا دوسرا پہلو دفع‘ نفرت اور غیر حسن سے گریز ہے‘ خود شعوری کا مرکزی وصف ہے جو ارتقاء کے ہر مرحلہ میں اُس مرحلہ کی ضروریات کے مطابق اپنا اظہار کرتا رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ محبت اور نفرت کی قوتیں زندگی کے ہر مقام پر کارفرما نظر آتی ہیں۔ مادی مرحلۂ ارتقاء میں ان کا ظہور مادہ کے قوانین کی صورت میں ہوا اور نتیجہ یہ ہے کہ مادہ کے قوانین درحقیقت جذب اور دفع کی مختلف صورتیں ہیں جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہے کہ اس کا ثبوت ہمیں الیکٹرانوں اور پروٹانوں کی باہمی کشش‘ سالمات کی باہمی کشش‘ قلماؤ کے دوران میں ذرات کی باہمی کشش‘ برقی رو کے مثبت اور منفی باروں کی باہمی کشش‘ مقناطیسی قطبوں کی باہمی کشش‘ کشش ثقل اور مادہ کی تمام بنیادی خاصیتوں میں آسانی سے مل جاتا ہے۔ حیوانی مرحلۂ ارتقاء میں خود شعوری نے جبلتوں کو پیدا کیا تو جبلتوں مین بھی ہم کو جلبِ منفعت اور دفع مضرت کی صورت میں محبت اور نفرت کی یہی قوتیں کارفرما نظر آتی ہیں۔
جذبۂ حسن کی براہِ راست خوشہ چینی
حیوان کی ہر جبلت یا تو اُسے کسی چیز کے قریب لاتی ہے اور یا کسی چیز سے دور کرتی ہے ۔ اگرچہ قریب لانا اور دور کرنا دونوں کا مقصد ہمیشہ بقائے حیات اور تسلسل نوع ہوتا ہے۔ گویا بقائے حیات یا تسلسلِ نوع کا مقصد خود شعوری کی جستجوئے جمال کا ایک پہلو ہے جس کی تائید میں حیوان کی ہر جبلت وجود میں آتی ہے لیکن یہ نقطہ نہایت اہم ہے کہ جبلت جنس کے علاوہ حیوان کی باقی تمام جبلتیں خود شعوری کے مرکزی وصف یعنی جستجوئے جمال کے وصف سے معناً اور بالواسطہ حصہ لیتی ہیں جس کی وجہ سے ان جبلتوں میں سے کسی جبلت کا فعل اس وصف کا عین (Identical)نہیں ہوتا بلکہ اس کا خادم ہوتا ہے۔ صرف جبلت جنس(بالخصوص اس کا وہ حصہ جس کی وجہ سے نر اور مادہ سب سے پہلے ایک دوسرے کی طرف کشش محسوس کرکے بعد میں جنسی فعل کے لیے ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں) بلاواسطہ اور براہِ راست خود شعوری کے اس مرکزی خاصہ سے حصہ لیتی ہے یعنی جبلت جنس کا ابتدائی عمل عین کششِ حسن کے ذریعہ سے تکمیل پاتا ہے لہٰذا جب ارتقاء کے دوران میں یہ جبلت انسان تک (جس میں خود شعوری کا جذبۂ حسن پہلی دفعہ حسن حقیقی کی جستجو کے لیے آزاد ہوتا ہے) پہنچتی ہے تو ایک ایسی قوت اور کیفیت حاصل کر لیتی ہے جو اسے حیوانی مرحلہ میں حاصل نہیں تھی۔
جبلت جنس اور جذبۂ حسن کا تعلق
جبلتِ جنس حیوان اور انسان دونوں میںموجود ہے لیکن حیوان میں اعصابی بیماریاں پیدا نہیں کرتی کیونکہ حیوان میں یہ جبلت اپنی فطرتی قوت کے مطابق عمل کرتی ہے۔ لیکن انسان میں بالخصوص جوانی کے زمانہ میں یہ جبلت خود شعوری کے جذبۂ حسن سے مزید قوت حاصل کر لیتی ہے کیونکہ خود شعوری کا یہ جذبہ جو حسن کا متلاشی ہوتا ہے اور اپنے مطلوب کونہ جاننے کی وجہ سے آسانی سے بہک جاتا ہے بہت جلد جبلت جنس کے راستہ پر جو براہِ راست خود شعوری کے اسی جذبہ سے تشکیل پاتی ہے ‘ چل نکلتا ہے اور اس طرح سے اپنے آپ کو جنس مخالف کے ایک فرد کی محبت میں ظاہر کرنے لگتا ہے۔ ایسی حالت میں انسان کی جبلت جنس اور اس کا جذبۂ حسن دونوں ایک دوسرے کے مؤید ہوتے ہیں۔
جبلتِ جنس کا روحانی پہلو
ہم جانتے ہیں کہ سب سے پہلی راحت اور آسودگی جو ایک مرد اور ایک عورت کو ایک ودسرے کی محبت میں محسوس ہوتی ہے جنسی نوعیت کی نہیں ہوتی۔ یہ ویسی ہی ایک روحانی مسرت ہوتی ہے جیسی کہ ہم میں سے کوئی ہنر کے ایک شاہکار کو دیکھ کر محسوس کرتا ہے۔ جنسی فعل سے جو لذت حاصل ہوتی ہے اس کی نوعیت اس سے بالکل جدا ہے۔ جنسی محبت کے اوّلین آغاز میں فریقین کو جنسیت کا کوئی خیال نہیں ہوتا جب ابتدائی روحانی کشش مرد اور عورت کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا کام کر چکتی ہے تو دونوں کا قرب جنسی خواہش کو بیدار کرتا ہے۔ اس وقت ابتدائی بلند قسم کی روحانی مسرت بعد کی گھٹیا قسم کی جنسی لذت کے لیے جگہ خالی کر دیتی ہے۔
کششِ جمال کا سہارا
اس میں ذرا شک نہیں کہ خود شعوری اپنی فطرت کے اہم ترین وصف یعنی کششِ جمال کو جبلتِ جنس کے ایک محدود فعل کے اندر نمودار کر کے اشاعتِ ذات یا تسلسلِ نوع کی خاطر نر اور مادہ کو بہم کرنے کے لیے کام میں لاتی ہے۔ نہ صرف انسان بلکہ حیوانات اور پرندے اور حشرات الارض بھی جن میں رنگ کی دلکشی‘ آواز کی خوبی یا پروں کی زیبائش نر اور مادہ کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا ذریعہ بنتی ہے ‘قدرت کی اس تدبیر سے مستفید ہوتے ہیں۔
جذبۂ حسن کی گمراہی
چونکہ طلب جمال کا جذبہ جبلت جنس کی فعلیت کی ابتداء کرتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب جذبۂ حسن یا اس کا کچھ حصہ صحیح طورپر اپنا اظہار نہ پا رہا ہو اور اس جذبہ کی قوت کے رک جانے کی وجہ سے انسان ملول خاطر ہو رہا ہو تو اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا وہ آزادانہ جنسی لطف اندوزی سے اپنی پریشانی کا علاج کر سکتا ہے۔ لیکن یہ بے راہ روی اُس کے لیے مفید نہیں بلکہ مضر ہوتی ہے کیونکہ اس کا رُکا ہوا جذبۂ جنسی لذائذ کے لیے نہیں بلکہ حسن حقیقی کے قرب کی لذت کے لیے ہوتا ہے۔ چونکہ جذبۂ حسن لاشعوری ہے انسان کو اکثر معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی مکمل آسودگی کس چیز سے ہوتی ہے اور لہٰذا وہ اس کی تعمیل میں اکثر غلطیاں کرتا ہے ۔ اگر خود شعوری پہلے ہی صحیح آدرش سے واقف نہ ہو تو وہ جوانی کے زمانہ میں بالخصوص ‘جبکہ اس کا علمِ حسن و کمال محدود ہوتا ہے‘ اپنے جنسی رفیق کو ہی ایک تصور حسن یا آدرش قرار دے کر اُسی کے ذریعہ سے اپنے جذبۂ حسن کو مطمئن کرنے لگتی ہے۔
آخری مایوسی
لیکن چونکہ جنسی رفیق خود شعوری کے اصلی تصور حسن یاصحیح آدرش کی صفات سے عاری ہوتا ہے اور صحیح آدرش نہیں بن سکتا لہٰذا آخر کار خود شعوری کا جذبۂ حسن اطمینان پانے سے قاصر رہ جاتا ہے اور خود شعوری کو بہت جلد مایوسی اور ذہنی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو بعض وقت شدید اعصابی خلل یا ذہنی مجادلہ(Mental Conflicts) کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔
محبت کی ناکامیاں
اُس وقت ہمیں ایسا نظر آتا ہے کہ گویا ان تمام امراض کا باعث جبلت جنس کی رکاوٹ ہے لیکن دراصل ان کا سبب خود شعوری کے جذبۂ حسن کی رکاوٹ ہوتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ جو لوگ جنسی محبت میں مایوس یا ناکام ہو جاتے ہیں‘ وہ بلند اخلاقی یا روحانی سرگرمیوں میں اطمینان محسوس کرتے ہیں اور بالآخر محبت کی ناکامیوں کو بھول جاتے ہیں اور یہی سبب ہے کہ وہ لوگ ‘جو اس قسم کی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں‘اپنی جنسی خواہشات کو حسب منشا ضبط میں رکھ سکتے ہیں ۔ کوئی وجہ نہیں کہ وہ لوگ جو اپنی خود شعوری کے جذبہ حسن کا ٹھیک اظہار کرنے کی تربیت حاصل کر چکے ہوں ذہنی مجادلات یا اعصابی امراض کا شکار ہوں۔
عشقیہ داستانیں
عشقیہ داستانوں‘ ناولوں‘ نظموں اور تصویروں کے ساتھ ہماری تمام دلچسپی کا سبب یہ ہے کہ ہمارا جذبۂ حسن ہماری کم علمی یا نادانی کی وجہ سے جبلت جنس کی تائید کرتے ہوئے جنسی محبت کی راہ سے اظہار پانے لگتا ہے اور اس طرح سے ہماری جنسی محبت غیر معمولی طور پر طاقتور ہو جاتی ہے۔ ہم اپنے متوقع جنسی شریک کو اپنا آدرش بنا لیتے ہیں ۔ پھر وصال کی امیدیں ہمارے شوق کو تیز کرتی ہیں اور ہجر کے خدشات ہمارے دردِ دل کو بڑھاتے ہیں۔ کبھی ہم رو رو کر اشکوں کے دریا بہاتے ہیں اور کبھی خوشی سے پھولے نہیں سماتے ۔ محبت کے اثر سے واقعات کے مطابق ہمارے عواطف بڑی تندی اور تیزی کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں اور ہماری زندگی کو رنگین بناتے ہیں ۔ زندگی کی تمام چاشنی اور لذت اور رونق اور شگفتگی ہماری خود شعوری کے جذبۂ حسن کی مرہونِ منت ہے نہ کہ جبلت جنس کی۔
روحانی مسرتوں کا نمونہ
قدرت کا یہ انتظام جس کی وجہ سے جبلت جنس(Sex Instinct) کسی قدر خود شعوری کے جذبۂ حسن سے یعنی روحانیت سے حصہ لیتی ہے قدرت کے ایک اہم مقصد کو پورا کرتا ہے کیونکہ وہ خاص مسرت جو مرد اور عورت اپنی ابتدائی جنسی محبت کی کامیابی میں محسوس کرتے ہیں (اس سے پہلے کہ یہ مسرت جنسی فعل کی اس لذت کے لیے میدان خالی کرے جو بالآخر اس کے نتیجہ کے طور پر حاصل ہوتی ہے) ان کو مسرت سے آشنا کرتی ہے جو خود شعوری اپنے اصلی آدرش یعنی خود شعوریٔ عالم کی محبت میں محسوس کرتی ہے اور اس طرح سے ہمارے جذبۂ حسن کو ایک دلیل راہ اور محرک عمل کا کام دیتی ہے۔
عشق مجازی کا حاصل
جب ایک مرد ایک عورت کی شدید اور مخلصانہ محبت سے ایک دفعہ آشنا ہو جائے اور پھر اس میں کامیاب یا ناکام ہو کر اور حسن مجازی کی ناپائیداری سے واقف ہو کر عبادت اور اطاعت کے ذریعہ سے حسن کے مبداء اور منتہیٰ یعنی محبوبِ حقیقی کی طرف عود کرنا چاہے تو وہ اُس شخص کی نسبت بہت جلد کامیاب ہوتا ہے جو ایک شدید اور مخلصانہ محبت کے تجربہ سے عمر بھر محروم رہا ہو۔ کیونکہ وہ جلدی محسوس کرنے لگتا ہے کہ ایک ایسی مسرت جو اُس کی پہلی مسرت سے مشابہ ہے لیکن اُس سے کئی گنا زیادہ گہری اور زیادہ روح افزا ہے رفتہ رفتہ رفتہ بڑھتی جارہی ہے اور اسے زندگی اور قوت بخش رہی ہے۔ بڑی شدت اور بڑے اخلاص کے ساتھ محبت کرنا خواہ مرجع محبت کوئی ہو ایک نہایت ہی اعلیٰ درجہ کی فعلیت ہے کیونکہ ایک تو اُس کی وجہ سے ہم اپنی زندگی میں کم از کم ایک دفعہ اس جذبۂ حسن کا پورا پورا اظہار کرلیتے ہیں جس کا اظہار کرنا ہماری تمام قسم کی نفسیاتی ترقیوں کے لیے نہایت ہی ضروری ہے اور دوسرے اس قسم کی محبت خود اپنی ہی تشفی اور تکمیل کے لیے زود یا بدیر لازماً اللہ تعالیٰ کی شدید محبت میں بدل جاتی ہے۔
غلط فہمی کی وجہ
جب ہم اس حقیقت پر غور کرتے ہیں کہ جذبۂ حسن جبلت جنس کے ساتھ خلط ملط ہو جاتا ہے تو ہمیں فرائڈ کی اس غلط فہمی کی وجہ معلوم ہو جاتی ہے کہ وہ کہتا ہے کہ انسان میں جبلت جنس نہایت پیچیدہ ہے اور بہت سے عناصر پر مشتمل ہے جنہیں مل کر ایک ہو جانا چاہیے لیکن جو شاذ ہی ایک ہوتے ہیں۔
ایک سادہ خواہش
دراصل انسان میں جبلت جنس ایک ایسی ہی سادہ خواہش ہے جیسی کہ ادنیٰ حیوانات میں۔ فرائڈ جن نام نہاد عناصر کو جبلت جنس کی طرف منسوب کرتا ہے وہ وہی ہیں جن کا ذکر ہم نے اوپر کیا ہے۔ ایک عنصر تو خود جبلت جنس ہے اور دوسرا عنصر جذبۂ حسن ہے۔ جب جبلت جنس جذبۂ حسن کے ساتھ مل جاتی ہے تو پیچیدہ ہو جاتی ہے اور مختلف غیر مصالح عناصر پر مشتمل نظر آتی ہے۔ جبلت جنس کے ان فرضی عناصر کو ان معنوں میں ایک ہونا چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کی مزاحمت نہ کریں۔ لیکن اس وحدت اور ہم آہنگی کو حاصل کرنے کا طریق یہ نہیں کہ جذبۂ حسن جبلتِ جنس کی راہ سے اظہار پائے اور انسان جبلت جنس کو اپنا آدرش بنا لے۔ بلکہ اس کا طریق یہ ہے کہ جبلت جنس کو جذبۂ حسن سے الگ کر کے اس کے ماتحت کر دیا جائے اور دونوں کو موقع دیا جائے کہ اپنا فطرتی اظہار پاتے رہیں۔
جبلت جنس کا اصلی مقام
ایسی حالت میں جبلت جنس اور جذبۂ حسن دونوں اپنے اصل مقام کو حاصل کر لیں گے اور لہٰذا ایک دوسرے سے تعاون کریں گے۔ جذبۂ حسن حسن و کمال حقیقی کے آدرش میں اپنا اظہار پائے گا اور جبلت جنس اُس کے ماتحت اس کی خدمت گزار بن کر رہے گی۔ اس طریقِ کار سے انسان ذہنی مجادلہ اور اعصابی امراض سے محفوظ رہے گا اور اس کا لاشعور پورا پورا اطمینان پائے گا۔
پریشانیوں کا راستہ
اگر لاشعور کا جذبہ جنسی نوعیت کا ہوتا تو جنسی خواہشات کی بے روک ٹوک تسکین ہماری کامل آسودگی کا موجب ہوتی لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ جنسی خواہشات کی بے روک ٹوک تسکین ہمیں بالآخر زیادہ پریشان حال اور مصیبت زدہ بنا دیتی ہے۔ کیونکہ ہم محسوس کرنے لگ جاتے ہیں کہ ہم نے جذبۂ حسن کو تشنہ رکھا ہے چونکہ جنسی تسکین کے اندر وہ اوصاف نہیں ہوتے جنہیں انسان ہونے کی حیثیت سے ہم چاہنے پر مجبور ہیں لہٰذا جنسیت تادیر ہمارا آدرش نہیں بن سکتی۔
جبلت جنس کی خدائی
جب ہم عارضی طور پر اسے اپنا آدرش بناتے ہیں تو ہمارا اصلی آدرش دب جاتا ہے کیونکہ ہم اس کی محبت کا بہت سا حصہ اس سے چھین کر جنسی خواہشات کے سپرد کر دیتے ہیں یہی وہ حالت ہے جس کے بارہ میں قرآن نے فرمایا ہے:
{اَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـهَهٗ هَوٰىهُ ۭ ا } (الفرقان:۴۳)
’’(اے پیغمبرﷺ) کیا تو نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا خدا بنالیا ہے۔‘‘
تاہم ہمارا آدرش ہماری بے لگام جنسیت کے پس منظر میںموجود ہوتا ہے اور ہمارے جذبۂ لاشعور کے ایک حصہ کی تشفی (خواہ یہ حصہ کتنا ہی قلیل رہ گیا ہو) اس کے ذریعہ سے ہو رہی ہوتی ہے اور جنسیت ہمارے جذبۂ لاشعور کے باقی ماندہ بڑے حصہ کی تشفی کر رہی ہوتی ہے۔ گویا ایک مقام پر ہماری جنسی محبت ہمارے آدرش سے ٹکرا رہی ہوتی ہے لیکن وقتی طور پر جنسی محبت کے بڑھ جانے اور آدرش کی محبت کے کم ہو جانے کی وجہ سے یہ ٹکراؤ اس قدر خفیف ہوتا ہے کہ ہم اس کی پرواہ نہیں کرتے۔
متضاد خواہشات کا اجتماع
تاہم یہ ذہنی مجادلہ کی ایک صورت ہے کیونکہ ہم دو متضاد خواہشات کو پیدا کرتے ہیں اور اُن کو بیک وقت پورا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ دونوں خواہشات اپنی اصل کے لحاظ سے ایک ہی ہوتی ہیں کیونکہ ان کا منبع جذبۂ لاشعور ہوتا ہے لہٰذا اُن کو ایک ہی تصور یعنی آدرش سے پورا ہونا چاہیے ۔ جب جنسی محبت اپنی تشفی پا کر کمزور ہونے لگتی ہے تو آدرش کی محبت پھر اپنی اصلی حالت کو لوٹتی ہے۔ لیکن پاتی ہے کہ اسے بے وفائی سے ترک کر دیا گیاہے۔ ایسی حالت میں ذہنی مجادلہ نہایت ہی شدید صورت اختیار کر جاتا ہے جنسی خواہشات کی آزادانہ تسکین سے ہمارے اعصابی خلل کے بڑھ جانے کی وجہ یہی ہے۔
اعصابی خلل کا باعث
ذہنی مجادلہ یا اعصابی خلل اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہمارا آدرش صحیح نہ ہو یا ہم ابھی صحیح آدرش سے پوری پوری محبت کرنا نہ جانتے ہوں۔ جب ہمارا آدرش درحقیقت صفاتِ حسن سے عاری ہو تو وہ تنہا ہماری طلب حسن کو پورا نہیں کر سکتا۔ اس لیے ہم حسن کی خواہش کو جو ایک تھی اور ایک تصور سے مطمئن ہونی چاہیئے تھی دومتضاد خواہشات میں بانٹ دیتے اور بیک وقت دومتضادتصورات سے مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایسی حالت میں ہم اندرونی طور پر بے اطمینان اور ناخوش ہوتے ہیں۔ہمیں مکمل اطمینان قلب صرف اس وقت حاصل ہوتا ہے جب کوئی ذہنی مجادلہ موجود نہ ہو۔ جب ہمارا آدرش ہمارے جذبۂ حسن کو بتمام و کمال مطمئن کر رہا ہو اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم اپنے آدرش کے اندر کمال حسن کا احساس کر رہے ہوں یعنی جب ہم حسن حقیقی کے محاسن اور کمالات کا شعوری احساس اس طرح سے کر رہے ہوں کہ ہمارے لاشعوری جذبۂ حسن کا کوئی حصہ غیر حسن کی طرف منتقل نہ ہو رہا ہو اور نہ ہو سکتا ہو۔
لاشعور کی رکاوٹ
جب ہمارا لاشعوری جذبۂ حسن ہمارے آدرش میں مکمل اظہار نہ پا سکے تو ہم غیر مطمئن ہوتے ہیں خواہ ہمارا آدرش کوئی شخص ہو یا فرض ہو یا سماج کی پسندیدگی اور ستائش ہو جو مرتبہ ‘دولت یا طاقت یا کسی اور چیز سے حاصل ہو سکتی ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ صورت حال اس وقت پیدا ہو سکتی ہے جب ہمارا آدرش صفاتِ حسن سے عاری ہو اور ہم اس بات کا احساس کرنے لگ جائیں اور یا اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ہمارا آدرش صفات حسن سے عاری تو نہ ہو لیکن ہم اس میں ان صفات کی موجودگی کا پورا پورا احساس نہ کر سکتے ہوں۔
ضعف اعتقاد کا باعث
یعنی جب آدرش کا اعتقاد یا آدرش کے حسن کی معرفت ابھی اپنی ترقی کے ابتدائی مراحل میں ہو ایک ہی آدرش سے محبت رکھنے والے تمام افراد کی محبت ایک ہی درجہ کی نہیں ہوتی ایک ہی آدرش کی محبت مختلف افراد میں ایک ہی وقت پر اور ایک ہی فرد میں مختلف اوقات میں مختلف انداز کی ہوتی ہے۔ آدرش کی شدید محبت کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں اس پر کامل اعتقاد ہے اور ہم اس کے حسن کا پورا پورا احساس رکھتے ہیں۔ یہ احساس آخر کار اس بات پر موقوف ہے کہ آیا آدرش میں وہ اوصاف فی الواقع بدرجۂ کمال موجود ہیں یا نہیں جنہیں ہم فطرتاً چاہتے اور پسند کرتے ہیں یا جن کی تعریف اور ستائش کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ جس قدر کوئی آدرش صحیح آدرش کے اوصاف یعنی حق تعالیٰ کے اوصاف کے قریب ہو گا اتنا ہی آسان ہو گا کہ ہم اس سے مکمل اور مستقل طور پر محبت کر سکیں۔ کیونکہ اتنا ہی وہ آدرش ہمارے جذبۂ حسن کو زیادہ آسودہ اور زیادہ مطمئن کر سکے گا۔ تاہم آدرش خواہ کوئی ہو اگر ہم اس کی خامیوں سے غافل ہوں اور اس سے پوری پوری محبت کر رہے ہوں تو ذہنی مجادلہ ممکن نہیں ہوتا ہے۔ لیکن غلط آدرش کی صورت میں یہ غفلت کی حالت زیادہ مدت تک قائم نہیں رہتی۔ اور آخر کار ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے جب ہم اس کی خامیوں سے آگاہ ہو کر اس سے بیزار ہو جاتے ہیں۔ اس حالت میں ایک ذہنی مجادلہ پیدا ہوتا ہے اور اگر ہم فی الفور ایک اور آدرش سے اتنی ہی محبت پیدا نہ کر لیں تو ہمارا جذبۂ لاشعور رک جاتا ہے اور ذہنی امراض پیداکردیتا ہے۔
محب وطن سپاہی
ایک محب وطن سپاہی میدانِ جنگ میں اپنی جان خطرہ میں ڈال دیتا ہے کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ ایسا کرنا اُس کافرض ہے۔ آدرش کے تقاضا کو فرض کہا جاتا ہے۔ سپاہی کا آدرش اس کا وطن ہے چونکہ وہ اپنے آدرش سے محبت کرتا ہے وہ اپنا فرض انجام د ینا چاہتا ہے۔وہ اپنا فرض کس حد تک انجام دے گا اور اپنی جان کس حد تک خطرہ میں ڈالے گا اس کا دار ومدار اس بات پر ہے کہ اسے اپنے آدرش سے کس حد تک محبت ہے۔ اگر اس کی محبت شدید ہو گی یعنی اگر وہ فی الواقع آدرش کے حسن کو محسوس کرتا ہو گا تو فرض انجام دینے کی خواہش اس قدر طاقتور ہو گی کہ وہ اس کی تمام دوسری خواہشات کو جن میں زندہ رہنے کی خواہش بھی شامل ہے ‘ مغلوب کر لے گی۔ اس کے برعکس اگر اپنے آدرش کے لیے اس کی محبت کمزور ہو گی تو جذبۂ حسن کا کچھ حصہ زندہ رہنے کی خواہش میں اپنا اظہار پائے گا اور دونوں خواہشات میں ایک تصادم ہو گا۔ زندہ رہنے کی خواہش اسے مجبور کرے گی کہ وہ میدانِ جنگ سے بھاگ جائے جب گولا سپاہی کے قریب پھٹے گا تو یہ تصادم اپنی انتہا کو پہنچ جائے گا اور اس کا نتیجہ ایک اعصابی عارضہ ہو گا جسے پہلی جنگ عظیم میں شیل شاک(Shell Shock) کا اصطلاحی نام دیا گیا تھا اور جس میں سپاہی کے اعصاب بے کار اور اس کے اعضاء مفلوج ہو جاتے ہیں۔
شیل شاک کی وجہ
اس مثال میں شیل شاک کی وجہ یہ ہوئی ہے کہ سپاہی اپنے آدرش کے حسن کا احساس کرنے سے قاصر رہا ہے بلکہ اس کے برعکس وہ اپنے آدرش کی خامیوں کا احساس رکھتا ہے مثلاً وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کا آدرش کوئی مستقل قدر و قیمت نہیں رکھتا اور لہٰذا اسے زندگی قربان کرنے کا کوئی پائیدار صلہ نہیں مل سکے گا۔ گویا وہ سمجھتا ہے کہ اس کا آدرش ناقص ہے اور اوصاف حسن سے عاری ہے کیونکہ حسن حقیقی کے اوصاف میں سے ایک وصف پائیداری اور دوام بھی ہے۔ لہٰذا وہ اس آدرش سے فریب نہیں کھا سکتا چونکہ صحیح آدرش میں یعنی خدا کے تصور میں وہ تمام اوصاف کمال فی الواقع موجود ہیں جو ہم چاہتے ہیں (اور یہی سبب ہے کہ وہ صحیح آدرش ہے) لہٰذا ہم فریب کھانے یا غلطی کا ارتکاب کرنے کے بغیر اُس کی طرف یہ اوصاف منسوب کر سکتے ہیں اور یہ ممکن ہے کہ ہم اُس سے ایک ایسی شدید محبت کر سکیں کہ ہماری کوئی جبلتی خواہش اُس پر غالب نہ آئے اور لہٰذا کوئی ذہنی مجادلہ پیدا نہ ہو۔
اگر سپاہی فریب کھاسکتا اور غلط طور پر ہی اپنے آدرش کی طرف اوصاف حسن (ہمیشگی یا دوام کے وصف کے سمیت) منسوب کرنے میں کامیاب ہوجاتا مثلاً وہ یہ سمجھتا کہ اگر اُس نے اپنے ملک کے لیے جان قربان کر دی تو وہ یقینی طور پر ابدی زندگی حاصل کرے گا یا وہ اپنے ملک کی بہبودی کے سوائے جو میدانِ کارزار میں جان لڑانے سے یقینا ہمیشہ کے لیے حاصل ہو جائے گی اور کچھ نہیں چاہتا تو اُس کی محبت تصور اپنے کمال کوپہنچ جاتی اور اس کے ذہن میں کوئی مجادلہ پیدا نہ ہوتا کیونکہ کوئی جبلتی خواہش اس کی محبت کے مقابلہ میں نہ آ سکتی۔ ایسی صورت میں وہ میدانِ جنگ میں ڈٹ کر لڑتا اور گو بم اُس کے ارد گرد پھٹتے رہتے وہ شیل شاک کا شکار نہ ہو سکتا لیکن ایک غلط تصور کی محبت مشکل سے اس کمال کو پہنچتی ہے۔
ایک اور مثال
ایک اور مثال لیجیے جس میں جبلت جنس حب تصور سے مقابلہ کرتی ہے۔ فرض کیا کہ ایک مہذب قانون کا احترام کرنے والا شہری اپنے ہمسایہ کی بیوی کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ سماج کی پسندیدگی اس کا آدرش ہے اور وہ اس آدرش سے محبت کرتا ہے۔ اگر اس کی محبت کافی حد تک شدید ہو گی تو وہ تمام جبلتی خواہشات کو ‘جن میں اس عورت کی محبت بھی شامل ہے ‘ قابو میں رکھے گی۔اگر اس کی محبت شدید نہ ہو گی تو اس کا جذبۂ حسن کا ایک حصہ عورت کی جنسی محبت کی راہ سے اظہار پانے لگے گا۔ گویا جو محبت صرف ایک ہی تصور یعنی صحیح آدرش کے لیے تھی وہ دو متضاد اور متصادم خواہشات میں بٹ جائے گی۔ ایک سماج کی پسندیدگی کی خواہش اور دوسری عورت کی محبت کی خواہش۔ اس کا نتیجہ ذہنی تصادم اور اعصابی خلل میں ظاہر ہو گا۔
مصیبت کا باعث
اس آدمی کی مصیبت کا باعث یہ ہے کہ وہ اپنے آدرش پر پورا پورا اعتقاد نہیں رکھتا۔ یعنی اس کی طرف حسن منسوب نہیں کر سکتا۔ وہ اپنے آدرش سے ڈرتا بھی ہے کیونکہ اس کی طویل صحبت اورمحبت کی وجہ سے وہ اس کے اثر سے پوری طرح سے آزاد نہیں ۔ تاہم وہ سمجھتا ہے کہ وہ اسے اپنی جنسی خواہش کو قربان کرنے کا صلہ نہیں دے سکے گا۔ معالج نفس اور مریض دونوں بے قصور ہوں گے۔ اگر وہ سمجھیں کہ اعصابی خلل کا باعث جنسی خواہش کی رکاوٹ ہے کیونکہ ظاہر حالات ایسے ہی ہیں اور یہ بالکل درست ہے کہ اگر آدرش جنسی خواہش کے راستہ میں رکاوٹ پیدا نہ کرتا تو اعصابی خلل پیدا نہ ہوتا لیکن سوال یہ ہے کہ علاج کا صحیح طریق کیا ہے؟ جنسی خواہش کی راہ سے آدرش کو دور کرنا یا آدرش کی راہ سے جنسی خواہش کو ہٹانا۔ ظاہر ہے کہ پہلا طریق علاج ‘جو ایک محلل نفس فرائڈ کی اتباع میں اختیار کرتا ہے ‘غلط ہے۔ کیونکہ جنسی خواہش آدرش کی جگہ نہیں لے سکتی۔ لاشعور کا تقاضائے حسن و کمال اس کو یہ جگہ لینے نہیں دیتا۔ البتہ ہم آدرش کی راہ سے جنسی خواہش کو دور کر سکتے ہیں اور اس کا طریق یہ ہے کہ ہم ایک طرف سے جنسی خواہش کی کشش کو کم کریں اور دوسری طرف سے آدرش کی محبت کو زیادہ کریں۔
صحیح طریق علاج
اور اگر سماج کی پسندیدگی کا آدرش مریض کے علم کی رو سے کم درجہ کا ہو اور اسے کامیابی سے دھوکہ نہ دے سکے تو ہم اس کے سامنے ایک ایسا آدرش پیش کریں جو تمام نقائص سے پاک ہو جس میں حسن و کمال کے تمام عناصر بدرجۂ کمال موجود ہوں اورجس کا تقاضا یہ ہو کہ اپنے ہمسایوں کے لیے دل میں اچھی نیت رکھنی چاہیے۔ اگر ہم مریض کے دل میں اس قسم کے ایک تصور کی محبت کی نشوونما کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو ہم نہ صرف اس کو موجودہ اعصابی خلل سے نجات دلا دیں گے بلکہ آئندہ کے لیے بھی اعصابی امراض کے حملہ کو ناممکن بنا دیں گے ۔ یہ تصور صرف خدا کا تصور ہو سکتا ہے۔
وہ محلل نفس جو فرائڈ کی پیروی کرے گا مریض کو کہے گا کہ اپنی مسدودات کو رہا کر دو اور اپنی جنسی خواہش کی تسکین کر لو۔ لیکن اگر مریض نے اس کا مشورہ مان لیا تو اس کے مرض کی شدت اور بڑھ جائے گی۔ وہ مریض کی نظروں میں سماج کی پسندیدگی کے تصور کا حسن کم کر دے گااور اس کی محبت آدرش کو یعنی سماج کی پسندیدگی کے آدرش کو محبت کے ایک پست مقام پر لے آئے گا۔ یہاں تک کہ بالآخر جذبۂ حسن کی ساری قوت کا نکاس جنسی خواہش کی راہ سے ہونے لگے گا عورت اس کا واحد آدرش بن جائے گی اور ذہنی مجادلہ ختم ہو جائے گا۔ بظاہر ایسا نظرآئے گا کہ مریض اچھا بھلا ہو گیا ہے لیکن یہ صورت حال ایک قلیل مدت تک قائم رہے گی۔
خطرناک مشورہ
چونکہ عورت کی محبت اس کے دل میں تصور حسن کی جگہ مستقل طور پر نہیں لے سکے گی اس لیے مریض درحقیقت فوراً پہلے سے بھی زیادہ شدید ذہنی خلل کے لیے مہیا ہو جائے گا۔ جب اس کی جنسی خواہش مطمئن ہو جائے گی تو اس کی جاذبیت بھی ختم ہو جائے گی اور مریض محسوس کرنے لگے گا کہ وہ اس کے جذبۂ حسن کو بتمام و کمال مطمئن کرنے سے قاصر ہے۔ لہٰذا وہ اپنے جذبۂ حسن کو پوری طرح سے مطمئن کرنے کے لیے پھر اپنے پرانے آدرش کی طرف لوٹے گا لیکن اسے مجروح اور متروک پائے گا۔ یہ صورت حال اس کے لیے ایک شدید بے اطمینانی کا موجب ہو گی ۔ دوسرا مجادلۂ نفس ہو گا جو پہلے سے زیادہ شدید ہو گا اور مریض اسے لاعلاج سمجھے گا صرف ایک احمق محلل نفس ہی مریض کو اس طرح سے اپنی مسدود جنسی خواہشات کو رہا کرنے کامشورہ دے سکتا ہے۔
اندرونی دباؤ
نیک چلنی کی خواہش سماج کے دباؤ کا نتیجہ نہیں (جیسا کہ فرائڈ نے غلطی سے سمجھا ہے) بلکہ لاشعوری جذبۂ حسن کا نتیجہ ہے۔ ہم سماج سے اس لیے ڈرتے ہیں کہ سماج کی پسندیدگی کو ہم اپنا آدرش قرار دے لیتے ہیں اور اس ڈر کا علاج صرف یہ ہے کہ ہم اپناآدرش بدل ڈالیں یعنی ہمیں کوئی اور تصور زیادہ کامل اور حسین نظر آئے۔ اعصابی مریض کی تکلیف کا سبب یہ نہیں ہوتا کہ وہ سماج کے مقرر کیے ہوئے معیارِ اخلاق کے ساتھ اپنے آپ کو مطابق نہیں کر سکتا بلکہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اپنے آپ کے ساتھ یعنی اپنی جبلی خواہشات کو جو اس کا ایک حصہ ہیں اپنے لاشعور کے مطالبات کے ساتھ مطابق نہیں کر سکتا۔ اس کا لاشعوری جذبہ اسے حسن کی جستجو کرنے کے لیے ابھارتا ہے اور وہ اسے روک نہیں سکتا۔ جب لاشعور یا ایغو کی غلطی سے اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے لاشعور کو دو متضاد خواہشات کی تکمیل سے مطمئن کر سکتا ہے تو وہ ایک ذہنی مجادلہ کا شکار ہو جاتا ہے۔ اگر سپاہی کو میدانِ جنگ میں فرار سے روکنے والی قوت اندرونی نہ ہوتی تو وہ یقینا سماج کی پرواہ نہ کرتا اور بھاگ جاتا۔ لیکن وہ جانتا ہے کہ بھاگنے سے وہ سماج کی کسی خواہش کو نہیں بلکہ اپنی ہی ایک خواہش کو پامال کرے گا اور اپنے آپ کو اپنا مجرم شمارکرے گا۔ یہی سبب ہے کہ ایک شریف آدمی اپنی جنسی خواہشات کی آزادانہ تشفی نہیں کر سکتا۔
نامعقول باتیں
انسان کی اعلیٰ ترین سرگرمیوں(مثلاً ہنر‘ علم‘ اخلاق اور تتبع تصورات و نظریات) کے بارہ میں فرائڈ کی تشریح‘ جو اس نظریہ کا نتیجہ ہے کہ انسان کے جذبۂ لاشعور کی ماہیت جنسی ہے‘ اس قدر بھدی اور ناتسلی بخش ہے کہ خود اسی سے اس نظریہ کی نامعقولیت آشکار ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے۔فرائڈ کا خیال یہ ہے کہ جب انسان اپنی خواہشات کو سماج کے خوف سے پوری طرح مطمئن کرنے سے عاجز رہ جاتا ہے تو اس کی یہ خواہشات ہنر‘ علم‘ اخلاق اور تتبع تصورات کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ اس عمل کو وہ ارتفاع خواہشات(Sublimation) کا نام دیتا ہے۔ گویا یہ خواہشات انسان کی حقیقی یا اصلی خواہشات نہیں بلکہ اصلی اور حقیقی خواہشات کی بگڑی ہوئی صورتیں ہیں۔
اہم سوالات
فرائڈ مانتا ہے کہ ان سرگرمیوں سے ہمیں راحت اور آسودگی حاصل ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ بسا اوقات یہ راحت اورآسودگی اس راحت اور آسودگی سے بہت زیادہ ہوتی ہے جو ہمیں ان جبلی خواہشات کی تشفی سے حاصل ہوتی ہے‘ جو فرائڈ کے خیال میں ان سرگرمیوں کی اصل یا بنیاد ہیں اور جن کا یہ سرگرمیاں فرضی یا وہمی بدل ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہماری جبلتی یا جنسی خواہشات کے بدل جانے کی وجہ کیا ہے اور یہ خواہشات بدل کر ایک بالکل متضاد صورت کیوں اختیار کر لیتی ہیں اور پھر اس بدلی ہوئی متضاد صورت میں وہ ہمارے لیے راحت اور آسودگی کا منبع کیوں بن جاتی ہے۔
حقیقت حال
اور پھر اس کی وجہ کیا ہے کہ ہماری جنسی خواہشات جب بدلتی ہیں تو فقط حسن‘ نیکی اور صداقت یا ان سے ماخوذ تصورات کی محبت کی صورت اختیار کرتی ہیں اور اس صورت میں وہ ہمیں ایسی راحت اور آسودگی بہم پہنچاتی ہیں جو رکی ہوئی یا ترک کی ہوئی جنسی خواہشات کی راحت اور آسودگی کا بدل بلکہ نعم البدل بن جاتی ہے۔ ہماری فطرت کے قوانین کے اندر اس کی کوئی وجہ موجود ہونی چاہیے۔ فرائڈ اس بات کو نظرانداز کر جاتا ہے کہ ہمار اکوئی فعل ہمیں اس وقت تک آسودہ نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ براہِ راست ہماری فطرت کے کسی تقاضا کو پورا نہ کرتا ہو اور وہ ہمیں آسودہ بھی اُسی حد تک کرتا ہے جس حد تک کہ اس تقاضا کو پورا کرے ہاں جنسی خواہشات یا اور جبلتی خواہشات کی بعض بگڑی ہوئی صورتیں(Perversions)ایسی بھی ہیں جن سے انسان کو آسودگی حاصل ہوجاتی ہے لیکن وہ ہمیشہ ہماری اصلی جبلتی خواہشات کی سطح پر رہتی ہیں ۔ ان کی صورت میں صرف یہ ہوتا ہے کہ جبلتی خواہشات کی قدرتی تشفی کے عمل کے چند مدارج یا مراحل میں تبدیلی ہو جاتی ہے اور پھر ان سے حاصل ہونے والی آسودگی بھی مکمل اور مستقل نہیں ہوتی لہٰذا ہم اُن کو امراض سمجھتے ہیں اور اُن کو ہنر‘ علم‘ اخلاق اور آدرشوں کے تتبع ایسے افعال سے بآسانی امتیاز کر سکتے ہیں۔
قدرتی خواہشات
دراصل ہماری یہ اعلیٰ سرگرمیاں ہماری قدرتی اور اصلی خواہشات کو پورا کرتی ہیں۔ یہ خواہشات حسن کے جذبہ سے پیدا ہوتی ہیں یہی جذبہ ہمارے لاشعور کے اندر ایک سمندر کی طرح لہریں لے رہا ہے اسی جذبہ کو ہمارا شعور غلط فہمی سے جنسی خواہشات سے تعبیر کرتا ہے اور لاشعور کی خاطر ان کی تشفی کے درپے ہوتا ہے۔
طلب جمال کی صورتیں
اوپر اس بات کی تشریح کی گئی ہے کہ جذبۂ لاشعور کے ماتحت ہماری جستجوئے حسن چند صورتیں اختیار کرتی ہے۔ جب ہم حسن کو دریافت کررہے ہوتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ ہم صداقت کی جستجو یا علم کی تحقیق میں مصروف ہیں۔ جب ہم حسن کو رنگ یا خشت یا سنگ یا اس قسم کے دوسرے مادی لباس میں ظاہر کر رہے ہوتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ ہم فن کاری(Art)میں مصروف ہیں ۔ جب ہم حسن کو اپنے افعال میں ظاہر کررہے ہوتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ ہماری فعلیت اخلاقی قسم کی ہے جب ہم اپنی ساری قوتوں سے حسن کی خدمت اور پرستش اور اس کے حصول یا قرب کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ ہم آدرشوں کا تتبع کر رہے ہیں۔
فطرتی راحت
ہماری یہ مختلف خواہشات جنسی خواہشات کی بدلی ہوئی صورتیں نہیں بلکہ ہماری اصل خواہشات ہیں جو جنسی خواہشات سے الگ ہیں اور ان پر حکمران ہیں ۔ جب ہم ان خواہشات کومطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہماری تمام فطرتی اور اصلی خواہشات کی طرح ہمیں ان کے اطمینان سے ایک گونہ لذت اور راحت حاصل ہوتی ہے۔ اور یہ لذت اور راحت ایسی بڑھیا قسم کی ہوتی ہے کہ ہم اس کی وجہ سے اپنی جبلتی جنسی خواہشات کی لذت سے قطع نظر کرنے اور اُ ن کو فراموش کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
الٹی بات
بدقسمتی سے فرائڈ نے اصل صورت حال کو الٹا کر کے دکھایا ہے۔ وہ ہماری اصلی اور فطرتی خواہشات کو ‘جو براہِ راست لاشعورکے تقاضائے حسن سے پیدا ہوتی ہیں‘ غلط بگڑی ہوئی غیرحقیقی خواہشات سمجھتا ہے اور ان خواہشات کو جو ایغو جذبۂ لاشعور کی غلط ترجمانیاں کر کر کے حد سے بڑھتی ہوئی جنسی خواہشات کی صورت میں ہمارے سامنے لاتا رہتا ہے صحیح اصلی اور بنیادی خواہشات قرار دیتا ہے۔
ارتفاع کی حقیقت
ارتفاع(Sublimation)کے معنی اگر یہ ہیں کہ ہماری جنسی خواہشات کی ماہیت بدل جاتی ہے تو پھر سرے سے ارتفاع کا کوئی وجود ہی نہیں۔ فرائڈ جس چیز کو ارتفاع کا نام دے رہا ہے‘ اس کی حقیقت یہ نہیںکہ گویا ایک معجزہ کے طور پر یکایک ہماری نچلے درجہ کی خواہشات کی قلب ماہیت ہو جاتی ہے اور پھر وہ ایسی خواہشات کی صورت اختیار کر لیتی ہیں جن کا مقصد طلب حسن و کمال ہوتا ہے بلکہ اُس کی حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنی اصلی اور بنیادی خواہشات کو جو طلب حسن و کمال سے تعلق رکھتی ہیں اور جن کا مبداء ہمارا جذبۂ لاشعور ہے اس طرح سے مطمئن کرنے لگ جاتے ہیں کہ اُن کی اپنی قوت ٹھیک راہ سے اظہار پانے لگ جاتی ہے اور ہماری جبلتی جنسی خواہشات کی طرف منتقل ہو کر انہیں حد سے زیادہ یعنی غیر طبعی حد تک طاقتور نہیں بنا سکتی۔
جذبۂ حسن کا فطرتی اظہار
جب ہمارا جذبۂ حسن ٹھیک طرح سے اظہار پانے لگتا ہے تو وہ اور بھی طاقتور ہو جاتا ہے اور اپنی پوری شان وشوکت میں آ جاتا ہے۔ چونکہ ہمارے اعمال کا محرک ہماری جبلتی یا جنسی خواہشات نہیں بلکہ یہی لاشعوری جذبۂ حسن ہے لہٰذا جب وہ سمجھتا ہے کہ جبلتی یا جنسی خواہشات اس کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرتی ہیں تو وہ اپنی ترقی یافتہ قوت سے اور بھی اس قابل ہو جاتا ہے کہ ان کے طبعی حیاتیاتی دباؤ کے باوجود اُن کو اپنے ماتحت رکھے اور ان کی تسلی اور تشفی کو نہایت سختی کے ساتھ اپنی ضروریات تک محدود کر دے اور اگر ضرورت ہو تو ان کی تشفی کو روک دے۔ اس عمل سے یہ خواہشات اپنے طبعی انداز سے بھی کم اظہار پاتی ہیں اور لہٰذا اُن کی قوت اپنی طبعی سطح سے بھی نیچے گر جاتی ہے۔ یہاں تک کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ خواہشات بالکل معدوم ہو گئی ہیں۔ ہماری فطرت کا قانون ہے کہ ہماری جو خواہش زیادہ اظہار پائے گی وہ زیادہ قوی ہو گی اور جو خواہش اظہار پانے سے رک جائے گی وہ اور کمزور ہو جائے گی اور ’’نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی‘‘ (النساء:۱۱۵) (جس راستہ پر وہ جانا چاہتا ہے ہم اس راستہ پر اسے اور آگے لے جاتے ہیں) کا مطلب یہی ہے۔
بہتر آسودگی
پھر چونکہ ہماری جبلتی خواہشات ہمارے جذبۂ حسن ہی سے وضع کی گئی ہیں لہٰذا جو راحت اور آسودگی ہمیں اُن کے اطمینان سے حاصل ہوتی تھی ہم اُسے نہایت آسانی سے اور پوری کامیابی سے فراموش کر دیتے ہیں۔ کیونکہ اس راحت اور آسودگی سے بہتر راحت اور آسودگی ہمیں جذبۂ حسن کے صحیح اظہار سے حاصل ہونے لگ جاتی ہے‘ چونکہ ہمارا جذبہ حسن پوری طرح سے اظہار پا رہا ہوتا ہے۔ لہٰذاجبلتی جنسی خواہشات کو روکنے کے باوجود ہم مسدودات اور اعصابی امراض اور ذہنی مجادلات کا شکار نہیں ہوتے۔ اور یہ حقیقت اس بات کا مزید ثبوت ہے کہ اس قسم کی تمام غیر طبعی ذہنی کیفیات کا سبب جذبۂ حسن کی رکاوٹ ہے نہ کہ جنسی خواہشات کی رکاوٹ اور یہی جذبہ ہے جو ہمارے لاشعور میں مقیم ہے۔
وہ خواہشات جو ہماری اعلیٰ سرگرمیوں کا موجب ہیں ہمارے جذبۂ لاشعور کی پیداوار ہیں اور لہٰذا ہماری فطرت کا پائیدار اورمستقل جزو ہیں۔ لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم غلطی سے اُن کی قوت کا نکاس غلط راستوں سے کرتے ہیں۔ نام نہاد ’’ارتفاع‘‘ میں صرف یہ ہوتا ہے کہ ان خواہشات کی قوت ٹھیک راستہ سے اظہار پانے لگتی ہے اور جبلتی جنسی خواہشات کی قوت اپنی اصلی طبعی حالت پر آ جاتی ہے اور پھر اس قدر کم ہو جاتی ہے جس قدر ہماری یہ اعلیٰ قسم کی خواہشات پسند کریں۔
قرآنی نظریۂ لاشعور
اب جذبۂ لاشعور کو جذبۂ حسن و کمال سمجھتے ہوئے سارے نظریۂ لاشعور پر نظر ڈالیے۔ آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ مفروضہ اس نظریہ کو کس قدر واضح اور قابل فہم بناتا ہے۔
لاشعور حسن کا طالب ہے اور اس کی خواہش نہایت تیز اور طاقتور ہے لیکن چونکہ بیرونی دنیا سے اس کا براہِ راست کوئی تعلق نہیں وہ کچھ نہیں جانتا کہ بیرونی دنیا میں اس خواہش کی تکمیل کس طرح سے ہو سکتی ہے۔ ایغو جولاشعور ہی کا ایک حصہ ہے جو گویا بیرونی دنیا کو دیکھنے اور کام میں لانے کے لیے سطح شعور سے اوپر نمودار ہو گیا ہے) لاشعور کو ایک خادم کا کام دیتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ بیرونی دنیا کی اصطلاحات میں لاشعور کی خواہشات کی بہترین ترجمانی کر کے اُن کو بہترین طریق سے پورا کرے۔ لاشعور نے ایغو کوجوکام دے رکھا ہے وہ بہت بڑا اور بہت مشکل ہے ۔ کیونکہ اسے اچھی طرح سے معلوم نہیں کہ لاشعور کیاچاہتا ہے۔ ایغواپنا فرض پوری احتیاط اور پوری قابلیت سے انجام دینے کی کوشش کرتا ہے اور لاشعور(ID)کی خواہش کے مختلف انداز ے قائم کرتا ہے۔ ایغو (Ego)یا شعور کی یہ استعداد فوق الشعور(Super Ego)ہے۔
ایغو کی کوششیں
ایغو کے انداز ے تصورات یا نظریات یا آدرش ہیں۔ اپنے فرض کی انجام دہی کے لیے ایغو نے جو کوششیں کی ہیں نوعِ بشر کی ساری تاریخ اُن ہی کی داستان ہے۔ نیز آج تک انسان اور کائنات کا جس قدر علم ہمیں حاصل ہے وہ بھی ایغو کے ایسے ہی اندازوں پر مشتمل ہے۔ ایغو لاشعور کے مقصود کی تلاش اور تتبع میں ہر وقت مصروف رہتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس خدمت کے لیے اُسے ایک بہت بڑا انعام ملنے کی توقع ہوتی ہے اور وہ انعام لاشعور کی دوستی اور محبت ہے۔ ایغو اس دوستی یا محبت کو بہت چاہتا ہے کیونکہ اس سے ایغو لاشعور کی بے پناہ قوت اور طاقت میں حصہ دار ہو جاتا ہے اور اس کی اپنی طاقت اور قوت بڑھ جاتی ہے۔ اگر ایغو اپنا فرض کامیابی سے انجام دے سکے تو اس کے عوض میں اسے بے اندازہ خوشی اور طاقت حاصل ہوتی ہے۔
ایغو کی غلطیاں
ایغو صرف اتنا ہی جانتا ہے کہ لاشعور جس چیز کو چاہتا ہے وہ نہایت ہی عمدہ اور اعلیٰ ہے یہاں تک کہ اس سے بہتر اور خوب تر چیز دنیا بھر میں اور کوئی نہیں۔ اس محدود واقفیت سے آغاز کرنے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ایغو بار بار غلطیاں کرتا ہے اور اس کی پہلی غلطی وہ ہے جسے فرائڈ آبائی الجھاؤ کہتا ہے۔ ایغو والدین کو حسن و کمال کی انتہا سمجھ لیتا ہے۔ چند سال یہ غلطی خوب کامیاب رہتی ہے لیکن جب بیرونی دنیا کے متعلق ایغو کا علم وسیع تر ہو جاتا ہے تو وہ لاشعور کی خواہش کی بہتر ترجمانی کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اب اسے ایسا نظر آتا ہے کہ والدین کے تصور سے بہتر تصورات بھی دنیا میں موجود ہیں اور والدین کا تصور لاشعور کو مطمئن نہیں کر سکے گا۔ پھر ایغو لاشعور کے سامنے اور تصورات پیش کرتا ہے ۔ اکثر اوقات یہ تصورات ایسے ہوتے ہیں جن میں حسن و کمال فی الواقع موجود نہیں ہوتا اور ایغو اُن کی طرف محض غلطی سے منسوب کرتا ہے۔ لہٰذا یہ تصورات آخر کار لاشعور کو مطمئن نہیں کر سکتے۔
ایغو اور لاشعورکا تعاون
تاہم جب کبھی ایغوایک نئے تصور کا انتخاب کرتا ہے تو اسے یقین ہوتا ہے کہ اس نے آخر کار صحیح تصور کو‘جو لاشعور کے لیے پوری طرح سے تسلی بخش ہو گا‘ دریافت کر لیاہے۔لاشعور چونکہ نہیں جانتا کہ ایغو نے کون سا تصور منتخب کیا ہے وہ ایک مخلص دوست کی طر ح ایغو پر بھروسہ کرتا ہے اور ایغو کے انتخاب کو اپنا صحیح تصور سمجھ کر اُس کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔ پھر دونوں ایک دوسرے کے ساتھ خوشی خوشی اپنے آدرش کی طرف دور تک آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ آدرش کی طویل صحبت کی وجہ سے آدرش کے نقائص آخر ایغو پر عیاں ہو جاتے ہیں اور لاشعورکو علم ہو جاتا ہے کہ ایغو نے ‘جو تصور اس کے لیے چنا تھا‘ وہ ناتسلی بخش تھا۔
لاشعور کی مایوسی
چونکہ لاشعور کا جذبہ نہایت قوی ہے اس لیے اس کی مایوسی بھی نہایت شدید ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ ایغو سے تعاون نہیں کرتا اس حالت کو صدمہ‘ تشویش یا اعصابی خلل کا نام دیا جاتا ہے۔ تب ایغو اگر ممکن ہو سکے تو فوراً لاشعور کے لیے ایک اور تصور پیش کرتا ہے جو اس کے خیال میں پہلے تصور سے زیادہ تسلی بخش ہوتا ہے لیکن اکثر ایساکرنا اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا یا اگر ہوتا ہے تو لاشعور کی محبت جس کی ترقی اب مسدودہو گئی ہوتی ہے اس حد تک آزاد نہیں ہوتی کہ اس نئے تصور کی طرف منتقل ہو سکے۔
لاشعور کا انتقام
لہٰذا اعصابی خلل یا تشویش یا صدمہ کی حالت جاری رہتی ہے گویا یہ شعور کے خلاف لاشعور کی انتقامی کارروائی ہے کہ اس نے کیوں حسن کی غلط ترجمانی کر کے اس کی محبت اور قوت کو غلط طور پر استعمال کیا۔ اسی حالت کو ذہنی مجادلہ کہتے ہیں۔ اس حالت میں ایغو اور لاشعورکے درمیان صلح اور آشتی باقی نہیں رہتی ۔ لاشعور کو مایوس کرنے والا کوئی مخصوص واقعہ ایک انسداد(Repression)یا ایک الجھاؤ(Complex)کی شکل میں لاشعور کو ایغو کے خلاف ایک شکایت کے طو رپر یاد رہتا ہے۔ گویا لاشعور محسوس کرتا ہے کہ ایغو نے اسے فریب دیا ہے اور اس کے ساتھ غلط برتاؤ کیا ہے۔ اس سے شخصیت تقسیم ہو جاتی ہے اور ایغو پریشان اور غمگین ہو جاتا ہے۔
خود شعوری کے طبقات
انسان کی خود شعوری شعور‘ لاشعور اور فوق الشعور سے مل کر بنتی ہے۔ فوق الشعور شعور ہی کا ایک فعل ہے جس کی وجہ سے وہ اصول اخلاق اور نظریات اور آدرش پیش کرتا ہے۔ فوق الشعور کی اصطلاح اس لحاظ سے اہمیت رکھتی ہے کہ اس کی وجہ سے ایغو کے ایک نہایت ہی اہم کام کی طرف توجہ مبذول ہوتی ہے۔ ایغو اس کام کو لاشعور کی تحریک سے انجام دیتا ہے ۔ شعور یا ایغو اور فوق الشعور دونوں کا اصل منبع لاشعور ہی ہے‘ نظریات یا آدرش لاشعور کے جذبہ محبت کی دو تعبیرات ہیں جو ایغو وقتاً فوقتاً پیش کرتا رہتا ہے۔ انسان کی تمام مصیبتیں اور دنیا کی تمام برائیاں ان تعبیرات میں ایغو کی غلطیوں سے پیدا ہوتی ہیں۔
کھچاؤ کا علاج
جب ایغو اور لاشعور کے درمیان کھچاؤ پیدا ہو جائے تو اس سے پہلے کہ اعصابی خلل کی صورت میں اس کے بدترین نتائج ظہور پذیر ہوں۔ اس کو دور کرنا ممکن ہے اور لاشعور کی اصل ماہیت کے پیش نظر اس کا صحیح طریق یہ ہے کہ انسان فوراً اللہ تعالیٰ کے حضور میں سچے دل سے توبہ اور استغفار کرے اور نہایت اخلاص کے ساتھ اس کی پرستش اور عبادت کی طرف رجوع کرے اور تمام ایسے افعال سے ‘جو طلب حسن کے منافی ہوں‘ سختی سے مجتنب رہے۔اگر وہ ایسا کرے گا تو اس کا مطلب سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہو گا کہ وہ لاشعور کے اصل مقصود اور مطلوب کی طرف لوٹ رہا ہے اور اس کی صحیح خواہش کو (جس کی غلط تعبیر کی وجہ سے اس کے ایغو نے اسے مصیبت میں ڈال دیا ہے) پورا کر رہا ہے۔ اس سے شعور فوق الشعور سے یعنی لاشعور کی غلط ترجمانی سے الگ ہو جائے گا ۔ لاشعور کو اطمینان اور تسلی ہو جائے گی اور وہ شعور سے صلح کر لے گا۔
توبہ اور عبادت کا مقام
سچی توبہ اور مخلصانہ عبادت خدا کی شدید اور مخلصانہ محبت کے بغیر ممکن نہیں اور یہ محبت ایسی چیز ہے جو ایمان سے آغاز کر کے رفتہ رفتہ نشوونما پاتی ہے۔ اس کی ترقی وقت چاہتی ہے لہٰذا عبادت کی عادت بنانا انسان کو اعصابی امراض سے محفوظ رکھتا ہے اور اُن کے حملہ کے وقت مؤثر اور شافی علاج بہم پہنچاتا ہے۔ لاشعور ایغو سے صلح کرنے کے لیے ہر وقت آمادہ رہتا ہے بشرطیکہ وہ اس کی خدمت ٹھیک طرح سے بجا لائے۔ گویا وہ کریم الطبع اور ایغو کی پشیمانی اور عاجزی کو ‘جس کا اظہار وہ عبادت اور توبہ کے ذریعہ سے کرتا ہے جلد قبول کر لیتا ہے جونہی کہ ایغوحسن کی جستجو کرنے لگتا ہے اور لاشعور کی صحیح خدمت انجام دینے لگتا ہے‘ لاشعور کی شکایات ‘جو انسان کے ذہنی مجادلہ کی صورت اختیار کرتی ہیں‘ رفع ہو جاتی ہیں۔
شعور اور لاشعور کی صلح
اور دونوں پھر دوست بن جاتے ہیں اور مل کر اپنے مشترک نصب العین یعنی کمالِ حسن کی طرف بڑھنے لگتے ہیں۔ ایغو کا لاشعور سے صلح کی کوشش کرنا انسان کا توبہ کرنا اور خدا کی رحمت کا طلبگار ہونا ہے اور لاشعور کا ایغو سے صلح کر لینا خدا کی رحمت کا عود کرنا اور خدا کا توبہ قبول کرنا ہے۔ ایسی حالت میں لاشعور کا جذبۂ حسن زیادہ سے زیادہ اظہار پانے لگتا ہے حتیٰ کہ لاشعور شعور میں پوری طرح سے جلوہ گر ہوجاتا ہے اور شعور کا اطمینان اور قوت دونوں ترقی کی انتہا پر پہنچ جاتے ہیں۔
اوجِ کمال
یہی خود شعوری کے ارتقاء یا اس کی تربیت اور ترقی کا معراج ہے جہاں ایک قدسی حدیث کے مطابق ‘جو اوپر نقل کی گئی ہے‘ خدا انسان کے ہاتھ پاؤں اور کان‘ آنکھ اور دل میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ خود شعوری کا یہ معراج جہاں پہنچ کر اسے انتہائی راحت اور آسودگی حاصل ہوجاتی ہے‘ اس کی محبت کا کمال ہے جو اگر مرتے دم تک قائم رہے تو پھر کبھی زائل نہیں ہوتا۔ اُس کی وجہ سے موت کے بعد خود شعوری کی راحت اور آسودگی اور ترقی کرتی ہے۔ یہاں تک کہ ایک ایسی انتہا پر پہنچ جاتی ہے کہ ہم اس وقت اس کا اندازہ ہی نہیںکرسکتے۔
{فَـلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُن جَزَائً بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۱۷)} (السجدۃ)
’’کوئی شخص نہیں جانتا ہے کہ (جو لوگ دنیا میں خدا کو راضی کریں گے) ان کے لیے اگلی دنیا میں کیسی آنکھوں کی ٹھنڈک چھپا کر رکھی گئی ہے۔ یہ ان اعمال کا صلہ ہو گا جو وہ کرتے تھے۔‘‘
جنت کا ذکر
یہی وہ جنت ہے جس کا ذکر قرآن حکیم نے ان الفاظ میں کیا ہے:
{ یٰٓــاَیـَّـتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ (۲۷) ارْجِعِیْ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً (۲۸) فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ (۲۹) وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ (۳۰) } (الفجر)
’’اے مطمئن جان۔ اپنے رب کی طرف لوٹ جا ۔تو اس سے راضی ہے اور وہ تجھ سے راضی ہے ۔ میرے بندوں میں مل جا اور میری جنت میں داخل ہو جا۔‘‘
نفسِ انسانی
ظاہر ہے کہ ‘جس چیز کو قرآن حکیم نفس (جان) کہتا ہے ‘ وہ لاشعور ہی ہے کیونکہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ شعور اور فوق الشعور یا نفس کے اور جو عناصر تجویز کیے جائیں وہ سب لاشعور ہی کے وظائف یا اعمال ہیں۔ اس آیت میں بھی نفس سے مراد لاشعور ہی ہے:
{وَفِیْ اَنْفُسِکُمْ اَفَلاَ تُبْصِرُوْنَ (۲۱)} (الذّٰریٰت)
’’او ر خدا کی محبت تمہارے لاشعور میں رکھی گئی ہے کیا تم نہیں دیکھتے۔‘‘
تاہم لاشعور کی اصطلاح اکثر لاشعور کے اس حصہ کے لیے کام میں لائی جاتی ہے جس کی خدمت کے لیے شعور اور فوق الشعور کے وظائف ظہور میں آئے ہیں۔
عبادت جذبۂ لاشعور کے اظہار کا صحیح اور کامیاب طریق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عبادت سے انسان کو اطمینانِ قلب حاصل ہوتا ہے۔ قرآن نے بڑے زور سے اس حقیقت کا اعلان کیا ہے:
{اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبِ (۲۸)} (الرعد)
’’خبردار خدا کے ذکر سے ہی دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔‘‘
فرائڈ کااعتراف
فرائڈ دعا اور عبادت کی اہمیت محسوس کرتا ہے اور اعتراف کرتا ہے کہ عبادات سے نفسِ انسانی کے مختلف طبقات میں ردّوبدل ہو جاتا ہے۔ شعور فوق الشعور سے یعنی آدرش کے بے رحمانہ مطالبات سے بے نیاز ہوجاتا ہے اور لاشعور دائرہ شعور میں آجاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں وہ اعتراف کرتا ہے کہ عبادات کے ذریعہ سے انسان کا لاشعور مناسب تشفی اور اطمینان پاتا ہے اور ذہنی امراض کے امکان سے محفوظ ہو جاتا ہے لیکن اس اعتراف کے ساتھ ہی وہ یہ کہتا ہے کہ تحلیل نفسی کا مقصد بھی یہی ہے ۔ چنانچہ وہ لکھتاہے:
’’بالکل ممکن ہے کہ صوفیوں کے بعض طریقے نفس انسانی کے مختلف طبقات کے معمولی تعلقات کو بدل ڈالیں مثلاً اس طرح سے کہ قوت ‘ادراک‘ ایغو اور لاشعور کی بعض ایسی گہرائیوں پر حاوی ہو جائے جو بصورتِ دیگر اس کی دسترس سے باہر ہوں۔ سوال یہ ہے ‘ کیا یہ طریقے ہمیں ایسے ابدی حقائق کی طرف راہنمائی کرتے ہیں جن سے ساری برکتوں کا ظہور ہو گا۔ یہ بات مشکوک ہے۔ تاہم ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ ہم نے بھی تحلیل نفسی کی معالجانہ کوششوں میں یہی طریق کار اختیار کر رکھا ہے کیونکہ ان کا مقصد بھی یہی ہے کہ ایغو کو مضبوط کیا جائے اسے فوق الشعور سے الگ کر دیا جائے۔ اس کا مطمح نظر وسیع کر دیا جائے اور اس کی تنظیم کو پھیلا دیا جائے تاکہ وہ لاشعور کے کچھ اور حصوں پر حاوی ہو جائے اور جہاں پہلے لاشعور تھا وہاں شعور موجود ہو جائے۔‘‘
پرزور دلیل
اگر صوفیوں کی عبادت جذبۂ لاشعور کو آسودہ نہیں کر تی تو اس سے نفس انسانی کے طبقات میں اعصابی خلل کو دور کرنے والی تبدیلیاں کس طرح پیدا ہو جاتی ہیں اور اگر وہ جذبۂ لاشعور کو آسودہ کرتی ہے تو کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ جذبۂ لاشعور عبادت ہی کے لیے ہے۔ اگر فرائڈ کی تحلیل نفسی اور صوفیوں کی عبادت کا نتیجہ ایک ہی ہے تو کیوں عبادت کو تحلیل نفسی پر ترجیح نہ دی جائے۔
فرائڈ کا تعصب
جبکہ ظاہر ہے کہ تحلیل نفسی ہر حالت میں کامیاب نہیں ہوتی۔ ظاہر ہے کہ عبادت اور لاشعور کے باہمی تعلق کو دیکھ کر فرائڈ کو حیرت ہوئی ہے اور یہ شبہ ہوا ہے کہ شاید یہاں وہ ’’ابدی حقائق پوشیدہ ہیں جن سے ساری برکتوں کا ظہور ہو گا‘‘لیکن فرائڈ اس خیال کو اس لیے ردّ کردیتا ہے کہ وہ اس کی لادینی ذہنیت سے مطابقت نہیں رکھتا۔
ساری برکتوں کا منبع
بہرحال فرائڈ کا یہ شبہ ہمارے اس نتیجہ کو اور تقویت پہنچاتا ہے کہ جذبۂ لاشعور کی حقیقت خدا کی محبت یا حسن و کمال کی محبت ہے اور یہی وہ نتیجہ ہے جو ہمیں فطرتِ انسانی کے اُن ابدی حقائق کی طرف راہنمائی کرتا ہے جن سے فی الواقع نوعِ بشر کے لیے تمام‘برکتوں کا ظہور ہو گا کیونکہ یہ نتیجہ انسان کی تمام مشکلات کا حل اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے۔
تحلیل نفسی علاج نہیں
عبادت کی باقاعدگی انسان کو نہ صرف اعصابی امراض سے محفوظ رکھتی ہے بلکہ اُن کا کارگر علاج ہے اور گو تحلیل نفسی دبی ہوئی خواہشات کو آشکار کرنے کا ایک کامیاب طریقہ ہے‘ لیکن مرض کا مکمل علاج نہیں۔ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اس حقیقت کی روشنی میں کہ جذبۂ لاشعور حسن و کمال کے لیے ہے ‘اور خدا کی عبادت سے مطمئن ہوتا ہے‘ تحلیل نفسی کے طریقوں پر دوبارہ غور کر کے اُن کی اصلاح کریں۔
علاج کے لیے ضروری اجزاء
ہمیں ان طریقوں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ان میں علاج کے بنیادی جزو کے طور پر شعور اور لاشعور کے باہمی فطری تعلقات کے پیش نظر دعا اور عبادت کو بھی شامل کرنا پڑے گا۔ ہم کو خوب معلوم ہے کہ جب تک محلل نفس پوری طرح سے ماہر نہ ہو تحلیلِ نفسی کی کامیابی یقینی نہیں ہوتی۔
حفظ ماتقدم
لیکن اگر تحلیل نفسی کامیاب ہو بھی جائے تو اس کی کامیابی ہر حالت میں عارضی ہوتی ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے ہم مریض کو اعصابی امراض کے آئندہ حملوں سے محفوظ نہیں کر سکتے اور ان امراض کے اصلی اور بنیادی سبب کا (جو غلط اور ناتسلی بخش نظریات یا آرشوں کا انتخاب ہے) ازالہ نہیں کر سکتے کوئی معالج اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتا کہ حفاظت علاج سے بہتر ہے۔ اعصابی امراض کی صورت میں حفاظت کا بندوبست تحلیل نفسی سے نہیں ہوتا بلکہ عبادات کو متواتر جاری رکھنے اور ان کی عادت بنانے سے ہوتا ہے۔
مستقل علاج
جب تک ایغو حسن کو اپنا آدرش نہ بنائے‘ اس کا آدرش لازماً غلط اور ناتسلی بخش ہو گا اور لہٰذا اس بات کا یقین کیا جا سکتا ہے کہ وہ زود یا بدیر لاشعور کو پھر پریشان کر دے گا جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ انسان پھر اعصابی امراض کا شکار ہو جائے گا ۔ بالآخر لاشعور کی نجات کادار و مدار ایغو کے صحیح انتخاب پر ہے خواہ یہ انتخاب کسی وقت عمل میں آئے۔
تحلیل نفسی کا کام
بڑی بڑی پریشانیاں اور ذہنی بیماریاں جھیلنے کے بعد یا اُن سے پہلے تحلیل نفسی درحقیقت اعصابی خلل کا علاج نہیں کرتی بلکہ اس کے علاج کے لیے ایک سہولت پیدا کرتی ہے۔ علاج تصور کے بدلنے سے معرض وجود میں آتا ہے۔ محلل نفس دعویٰ کرتا ہے کہ محض دبی ہوئی خواہش کو یاد دلانے سے اعصابی خلل دور ہو جاتا ہے۔ یہ بات سمجھ میں آ سکتی ہے اور لاشعور کے قرآنی نظریہ کے مطابق بھی درست ہونی چاہیے۔ مریض اس واقعہ کو بھول جاتا ہے جو دراصل بیماری کا موجب ہوتا ہے کیونکہ اس کی یاد تکلیف دہ ہوتی ہے۔
الجھاؤ کا ازالہ
نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لاشعور کی محبت کا ایک حصہ اس دبی ہوئی خواہش کے ساتھ پیوست ہو کر رہ جاتا ہے اور گو مریض اپنے تصور کو جس کی وجہ سے اسے تکلیف پہنچی ہو ناقص سمجھ کر چھوڑنے کے لیے تیار ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ اپنی زندگی کو نئے سرے سے شروع کرے۔ لیکن جب تک لاشعور کی محبت کا وہ حصہ ‘جو دبی ہوئی خواہش سے الجھ کر پڑا ہے‘ آزاد نہ ہو وہ نئے تصور سے محبت نہیں کر سکتا۔ جونہی کہ محلل نفس مریض کی دبی ہوئی خواہش کو اکھاڑ کر باہر لاتا ہے مریض کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کے خلل کا سبب کیا تھا۔پھر وہ اپنے پہلے آدرش کو اپنے ممکن جدید آدرش سے مقابلہ کر کے دیکھتا ہے تو پہلے آدرش کو ناتسلی بخش ‘تکلیف دہ اور غلط پاتا ہے۔ لہٰذا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ رُکی ہوئی محبت اس کے نئے تصور کی طرف منتقل ہونے کے لیے آزاد ہو جاتی ہے چنانچہ اس کی طرف منتقل ہو جاتی ہے اور خود شعوری کی وحدت بحال ہو جاتی ہے۔
اصلی علاج
ڈاکٹر کی تسلیاں اور نصیحت آمیز باتیں اسے اپنا تصور بدلنے اور نئی زندگی شروع کرنے میں بہت مدد دیتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ علاج کا اصل سبب تصور یا آدرش کا بدلنا ہے نہ کہ دبی ہوئی خواہش کا آشکار ہونا‘ البتہ اگر دبی ہوئی خواہش آشکار نہ ہوتی تو آدرش کا بدلنا محال ہوتا۔ بس تحلیل نفسی کی اہمیت صرف اسی قدر ہے کہ اُس سے دبی ہوئی خواہش کا پتہ چلتا ہے اور مریض کے لیے ممکن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے آدرش کو بدل ڈالے۔
ذہنی صحت کا بیمہ
ان حقائق سے معلوم ہوا کہ اعصابی خلل سے محفوظ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے لیے ایک ایسے نظریہ یا تصور کو منتخب کریں جس کے حسن اور کمال کا معیار ایسا ہو کہ ہم اس سے مکمل اور مستقل طور پر محبت کر سکیں اور اس کے نقائص کی وجہ سے اسے بدلنے کی ضرورت کبھی محسوس نہ کریں۔ یہ تصور صرف خدا کا تصور ہو سکتا ہے۔
ایغو کی آزادی
جب فرائڈ کہتا ہے کہ تحلیل نفسی کا مقصد ایغو کو فوق الشعور سے آزاد کرنا اور اس کے مطمح نظر کو وسیع کرنا ہے تو اس سے اس کی مراد فقط ایغو کے تصور کو تبدیل کرنے سے ہے۔ فوق الشعور سے شعور کی کامل آزادی تو ممکن ہی نہیں۔ فوق الشعور ایغو کو باعث خلل تصور کی بجائے ایک اور تصور دے دیتا ہے اور اس طرح سے ایغو کا مطمح نظر وسیع ہو جاتا ہے۔
تحلیل نفسی کی ناکامی
سب جانتے ہیں کہ تحلیل نفسی کے عمل سے بعض اوقات مریض کی حالت بد سے بدتر ہوجاتی ہے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے ۔ اگر تحلیل نفسی کے دوران میں مریض اس تصور سے ‘جس کی دبی ہوئی خواہش تکلیف کا سبب ہوئی تھی‘ الگ ہو کر دوسرے تصور کو اختیار نہ کر سکے تو دبی ہوئی خواہش کی یاد مرض کے لیے اور مضر ثابت ہو گی اور اسے زیادہ بیمار کر دے گی۔
ایک سہولت
اس حقیقت سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ تحلیل نفسی بذاتِ خود اعصابی خلل کا علاج نہیں بلکہ اصل علاج تصور کا بدلنا اور بلند کرنا ہے۔ تحلیل نفسی اس علاج میں صرف یہ سہولت پیدا کرتی ہے کہ جونہی اس کے ذریعہ سے دبی ہوئی خواہش کا پتہ چلتا ہے لاشعور کی محبت ‘جو اس خواہش نے روک رکھی تھی‘ نئے تصور کی طرف (جسے اب شعور اپنے پہلے تکلیف دہ تصور کو ترک کر کے اختیار کرنا چاہتا ہے) منتقل ہو جاتی ہے۔ اس سے خود شعوری کی وحدت پھر عود کر آتی ہے اور چونکہ انسان اپنی تمام محبت کو اپنے تصور کے لیے صَرف کرنے کے قابل ہو جاتا ہے‘ لہٰذا انسان کی قوتِ عمل میں حیرت انگیز اضافہ ہو جاتا ہے۔ محلل نفس کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے فراموش شدہ حالات کو یاد دلادیا۔
نجات کا سبب
لیکن بیماری سے نجات کا سبب یہ ہے کہ مریض نے اپنے تصور کو بلند کر لیا ہے گو یہ ممکن ہے کہ قلب ذہنیت کے اس عمل میں ڈاکٹر کی موجودگی اس کی شخصیت اور اس کی نصیحت نے بھی بہت سا کام کیا ہو۔ اعصابی خلل ہماری عام پریشانیوں‘ دکھوں اور غموں کی ایک حاد (Acute) صورت ہے۔ اس قسم کی تمام ذہنی تکلیفوں کا علاج یہ ہے کہ تصور کا معیارِ حسن بلند تر کر دیا جائے اور عبادت اس معیار کو بلند کرنے اور بلند رکھنے کا ایک ہی صحیح طریق ہے کیونکہ اس سے لاشعور اس آدرش کو پالیتا ہے جو اسے مکمل اور مستقل طور پر مطمئن کر سکتا ہے۔
اندھے بادشاہ کی مثال
خود شعوری یا نفس انسانی کے تینوں وظائف یا عناصر کا باہمی تعلق سمجھنے کے لیے ہم لاشعور کو ایک اندھے بادشاہ سے تشبیہہ دے سکتے ہیں جسے حالات نے اپنی سلطنت سے دور پھینک دیا ہو۔ وہ اپنے ملک کو واپس آنا چاہتا ہے لیکن چونکہ واپس آنے کا راستہ نہیں دیکھ سکتا۔ اُس نے اپنی مدد کے لیے ایک شخص کو ملازم رکھ لیا ہے اور شرط یہ طے پائی ہے کہ اگر وہ ملازم اسے اپنی سلطنت کی طرف کامیابی سے واپس لے جائے تو بادشاہ اسے اپنی حکومت میں برابر کا شریک کرے گا۔ یہ شخص ایغو یا شعور ہے۔ بادشاہ اس وقت جس مقام پر وہاں سے کئی سڑکیں نکل کر مختلف سمتوں میں جاتی ہیں۔ یہ تمام سڑکیں ایک جیسی کشادہ‘ عمدہ اور خوبصورت معلوم ہوتی ہیں لیکن اُن میں صرف ایک سڑک ایسی ہے جو بادشاہ کے ملک تک پہنچتی ہے۔ باقی تمام سڑکیں یا تو نقطۂ آغاز سے کچھ فاصلہ پر جا کر ختم ہو جاتی ہیں یا خطرناک جنگلوں میں کھو جاتی ہیں یا خوفناک دشمنوں کے علاقہ میں جا نکلتی ہیں۔ ملازم اٹکلیں لگاتا ہے کہ بادشاہ کی سڑک کون سی ہے اور بادشاہ کو کبھی ایک سڑک پر اور کبھی دوسری سڑک پر لے جاتا ہے لیکن ہربار تھوڑی دور جا کر ان کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ غلط سڑک پر چلے آئے تھے۔ لہٰذا دونوں مایوس ہو کر جہاں سے چلے تھے پھر وہیں واپس آ جاتے ہیں اور پھر ایک اور سڑک اختیار کرتے ہیں۔ ہر بار جب ملازم نئی سڑک کو چنتا ہے تو وہ اپنی پوری دانائی اور ہوشیاری سے کام لیتا ہے اور پورا پورا یقین کر لیتا ہے کہ اب کی دفعہ وہ غلطی سے محفوظ ہے۔ لہٰذا ہر بار بادشاہ اور ملازم اپنی منتخب سڑک پر خوشی خوشی چلنے لگتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ وہ ہر لمحہ اپنی منزل مقصود سے اور قریب ہو رہے ہیں۔ ملازم کو پورے غور و فکر سے کام لینے کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس سڑک پر وہ بادشاہ کو لیے جا رہا ہے اس میں صحیح سڑک کی وہ تمام علامات موجود ہیں جن کی ایک سرسری اور گول مول سی اطلاع بادشاہ نے اسے بہم پہنچائی ہے۔ ملازم اس اطلاع کو سڑک کی علامات پر چسپاں کر کے دیکھتا ہے تو اسے نظر آتا ہے کہ یہ علامات اس اطلاع کے عین مطابق ہیں۔ صرف ایک علامت اس میں موجود نہیں ہوتی اور وہ تسلسل ہے اور دونوں کو جلد ہی اس افسوس ناک حقیقت کا علم ہوجاتا ہے اور تسلسل کی عدم موجودگی میں انہیں محسوس ہوتا ہے کہ سڑک میں درحقیقت ان علامات میں سے ایک بھی علامت موجود نہ تھی اور ان کی موجودگی کا احساس محض ایغو کی غلطی کا نتیجہ تھا۔
تشریح
صحیح سڑک وہ ہے جو حسن حقیقی اور مبداء اور منتہائے حسن و کمال یعنی خدا کی طرف جاتی ہے۔ علامات کی موجودگی کا احساس فوق الشعور ہے جو شعور کے سامنے ایک آدرش پیش کرتا ہے۔ ہر بار غلطی کے ظاہر ہو جانے کے بعد واپسی کا سفر اعصابی خلل اور ذہنی مجادلہ ہے۔ تحلیل نفسی صرف اتنا کام کرتی ہے کہ وہ واپسی کے سفر میں سہولتیں پیدا کرتی ہے جن سے وہ جلدی اختتام کو پہنچ جاتا ہے اور پھر ایغو اور لاشعور دونوں ایک نئی سڑک پر چل نکلنے کے لیے مہیا ہو جاتے ہیں لیکن تحلیل نفسی کے اندر اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ نئی سڑک ‘جو اب یہ دونوں اختیار کریں گے ‘ صحیح ہوگی۔ چونکہ تحلیل نفسی آئندہ کی غلطیوں کا سدباب نہیں کرتی اس لیے اعصابی بیماریوں سے نجات نہیں دلاتی۔
قرآنی نظریۂ لاشعور کی معقولیت
یہ نظریۂ لاشعور جس کی تشریح پہلے کی گئی ہے اور جس کی رو سے لاشعور کا جذبہ خدا کی محبت ہے‘ صحیح اور قرآنی نظریۂ لاشعور ہے اور اس کی صحت کی دلیل یہ ہے کہ اس کی مدد سے ہم تمام حقائق کی معقول تشریح کر سکتے ہیں۔ اور اس میں وہ نقائص نہیں جو فرائڈ کے نظریہ میں موجود ہیں مثلاً اس نظریہ کی مدد سے ہم بآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ فوق الشعور‘ لاشعور اور بیرونی دنیا میں ایسا کوئی باہمی تضاد نہیں جس کی وجہ سے ہم فرائڈ کی طرح انسان کو ایک حد درجہ بدقسمت حیوان قرار دینے پر مجبور ہوں فوق الشعور لاشعور کا خادم ہے اگرچہ وہ بعض وقت غلطیوں کا ارتکاب کرتا ہے۔
فرائڈ کی راہنمائی
اگر انسان اپنے جذبۂ لاشعور کو ٹھیک طرح سے سمجھتا ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ انسان کی جنسی جبلت اس کے لیے کسی قسم کی پریشانیاں پیدا کر سکے۔ لاشعور کے اندر کوئی جنسی خواہشات موجود نہیں۔ اس کی خواہشات بے شک غیر معمولی طور پر طاقتور ہیں لیکن وہ حسن‘ نیکی اور صداقت سے تعلق رکھتی ہیں۔ پھر اس نظریہ کی مدد سے ہم بآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ نام نہاد ’’آبائی الجھاؤ‘‘ کی حقیقت کیا ہے۔ اور طفلانہ جنسیت کا مضحکہ خیز نظریہ کیوں غیر ضروری ہے۔ فوق الشعور اور نام نہاد ’’آبائی الجھاؤ‘‘ کا باہمی تعلق کیا ہے اور کس طرح سے فوق الشعور اس مفروضہ الجھاؤ کا وارث نہیں بلکہ براہِ راست جذبۂ لاشعور کا نتیجہ ہے ہماری اعلیٰ ترین سرگرمیاں کیوں نیکی‘ حسن اور صداقت سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کا انہماک کیوں ہمارے لیے راحت اور آسودگی کا باعث ہوتا ہے۔ تحلیل نفسی اعصابی امراض کے علاج میں دراصل کیا کام کرتی ہے۔ بعض وقت کیوں ناکام رہتی ہے اور اسے کامیاب بنانے کا طریقہ کیا ہے۔ اور نیز اعصابی امراض کا سدّباب کیوںکر ہو سکتا ہے۔ یہ قرآنی نظریۂ لاشعور فرائڈ کے نظریہ سے عقلی طو رپر زیادہ مدلل ہی نہیں بلکہ انسان کی اس عظمت کو بھی بحال کرتا ہے جسے فرائڈ نے اپنے غلط استدلال کی ٹھوکروں سے گرا دیا تھا۔
نظریات لاشعور کا اتحاد
اور پھر یہ نظریہ ایڈلر اور فرائڈ دونوں کے درمیان اتحاد پیدا کرتا ہے۔ دونوں کی غلطوں کو رد کرنے اور صداقتوں کو قبول کرنے سے وہ دونوں کو ایک دوسرے کے مطابق کر دیتا ہے۔ ایڈلر کا نظریہ آئندہ صفحات میں زیربحث آئے گا۔