قرآن اور علمِ جدید (یونی کوڈ فارمیٹ)
عقیدئہ وطنیت کی بے ہودگی
ردِ ّوطنیت
کتاب کے حصہ اوّل میں نظریۂ وطنیت کی کچھ خامیاں بیان کی گئی ہیں لیکن حصہ دوم میں نظریۂ ارتقاء‘ نظریۂ جبلت‘ نظریۂ لاشعور اور نظریۂ اشتراکیت پر بحث کرتے ہوئے جن حقائق کو غلط تصورات کی تردید میں پیش کیا گیا ہے اور نیز ان نظریات کے اندر جو تصورات صحیح ہیں اور جن کی تائید کی گئی ہے وہ تمام مل کر نظریۂ وطنیت کو غلط ثابت کرنے کے لیے کفایت کرتے ہیں لہٰذا یہاں اس نظریہ کی تردید کے لیے کسی اور اضافے کی ضرورت نہیں۔
بلادلیل ادّعا
سوال یہ ہے کہ عقیدئہ وطنیت کے حامیوں کے پاس کون سے علمی یا عقلی دلائل ایسے ہیں جن کی بنا پر وہ سمجھتے ہیں کہ ہر ریاست کی بنیاد اسی عقیدہ پر ہونی چاہیے۔
وطن پرستوں سے سوالات
کیا یہ لوگ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ انسان کی فطرت کے تقاضے کیا ہیں اوروہ کیونکر پورے ہو سکتے ہیں یا انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے اور ایک قومی ریاست اس مقصد کو پورا کرتی ہے یا نہیں کرتی۔ اگر کرتی ہے تو کس طرح سے کرتی ہے۔ اگر ارتقاء ایک حقیقت ہے تو انسانی مرحلہ میں وہ کونسی سمت میں ہو رہا ہے کیا قومی ریاست عملِ ارتقاء کو روکتی ہے یا اس کی مدد کرتی ہے اور مدد کرتی ہے تو کس طرح سے۔ اگر جذبۂ لاشعور ایک حقیقت ہے اور صحیح طریق پر اس کی تشفی کرنا ضروری ہے تو اس کی نوعیت کیا ہے اور صحیح طریق سے اس کی تشفی کیونکر ہوتی ہے۔ کیا قومی ریاست اس تشفی میں اعانت کرتی ہے یا مخالفت۔ کیا حقیقتِ کائنات مادہ ہے یا روح۔ اگر روح ہے تو اس خالقِ کائنات روح کی صفات کیا ہیں۔ کیا وہ نیک و بد کی تمیز کرتا ہے یا نہیں کرتا۔ کیا کائنات کے اندر اس کی کوئی مرضی اور کوئی مدعا ہے یا نہیں‘ یا کیا وہ بے مقصد اور بے مدعا کام کرتا ہے۔ اگر اس کی کوئی مرضی یا اس کا کوئی مقصد اور مدعا ہے تو اس مرضی اور مدعا کے ساتھ انسان کی مرضی اور مدعاکا کیا تعلق ہے اور کیا تعلق ہونا چاہیے۔ کیا انسان کو اس مرضی کی مخالفت کرنی چاہیے یا موافقت۔ کیا قومی ریاست جو بعض انسانوں کی مرضی اور مدعا کا نتیجہ ہوتی ہے‘ اس روح کائنات کی مرضی اور مدعا کی مخالفت کرتی ہے یا موافقت۔ اور پھر اگر کائنات میں قانونِ ارتقاء کے ساتھ ساتھ تباہی اور بربادی کا بھی ایک قانون اپنا عمل کر رہا ہے تو یہ قانون کون سی جماعتوں اور قوموںکو برباد کرتا ہے اور کون سی جماعتوں اور قوموں کو چھوڑ دیتا ہے ۔ کیا قومی ریاست اس قانون کے عمل کی زد میں آتی ہے یا اُس سے صاف بچ جاتی ہے۔ عقیدئہ وطنیت کی رو سے ان سوالات کا مدلل جواب بہم پہنچانا وطن پرستوں کے ذمہ ہے۔
آخری ریاست
جب قومی ریاست کے پرستاران سوالوں کا جواب دینے بیٹھیں گے تو لازماً وہ اپنے موقف پر نظر ثانی کرنے کے لیے مجبور ہوں گے اور بالآخر اپنے عقیدہ کو ترک کر کے ایک مذہبی ریاست کی حمایت کرنے لگیں گے۔ کیونکہ اگر انسان اور کائنات کی حقیقت کا بے لاگ علمی مطالعہ کیا جائے تو یہ بات آشکار ہو جاتی ہے کہ ارتقائے بشر کے انتہائی نقطہ پر جو عالمگیر ریاست دنیا کے اندر موجود ہو گی اور جو ریاست انسان کو ارتقاء کے اس نقطہ پرپہنچائے گی وہ ایک روحانی یامذہبی ریاست ہو گی اور باقی تمام ریاستیں اس کے سامنے مٹ کر فنا ہو چکی ہوں گی ۔ جب ارتقاء کا یہ دور آئے گا تو لوگ تاریخوں میں اقوامِ عالم کی باہمی جنگوں کا حال پڑھ کر ایسا ہی تعجب کریں گے جیسا کہ اس وقت ہم قبائلی لڑائیوں کا حال تاریخوں میں پڑھ کر عہدِ سلف کے انسان کی بربریت پر تعجب کرتے ہیں۔
علم و عقل سے دشمنی
دراصل وطنیت کے پرستار اپنے عقیدہ کو علم و عقل کی کسوٹی پر پرکھنا نہیں چاہتے۔ علم اور عقل ان کے نزدیک اچھی چیزیں ہیں لیکن وہ اس کام نہیں آتیں کہ انسان کے جذبات کی راہنمائی کریں‘ غلط جذبات سے ہٹائیں اور صحیح جذبات پر لائیں۔انسان کو فکر و عمل کا صحیح راستہ بتائیں۔ اسے نقصان‘ ذلت اور بربادی کے راستہ سے روکیں اور فائدہ ‘عزت اور ترقی کے راستہ پر چلائیں۔
جہالت پر اصرار
وطنی یا قومی ریاست دراصل ہر حالت میں جہالت پر اصرار کرنے اور قائم رہنے کی خواہش کا نتیجہ ہے کیونکہ قومیت کے حامی ہمیشہ عقل اور علم کو اس عقیدہ کے ادنیٰ خدمت گزاروں کی حیثیت سے کام میں لانا چاہتے ہیں اور انہیں کبھی اجازت نہیں دیتے کہ وہ اس عقیدہ کی صحت کے موضوع کو معرضِ بحث میں لائیں یا اس کی بنیادوں کو اپنی تحقیق کا تختۂ مشق بنائیں۔ اس لحاظ سے یہ عقیدہ اشتراکیت سے بہت پست ہے۔
اشتراکیوں کی فوقیت
کیونکہ اشتراکی بہرحال اپنے نظریہ کو علم اور عقل کی کسوٹی پر پرکھ کر ردّ یا قبول کرتے ہیں۔ ایسے لوگ ہم سے زیادہ قریب ہیں کیونکہ ہم بالآخر عقل اور علم کے نام پر اپنی بات اُن سے منوا سکتے ہیں لیکن جو لوگ علم و عقل کے تقاضوں سے آنکھیں بند کر کے فقط میں نہ مانوں کی رٹ لگا رہے ہوں ہم ان سے بحث میں کیونکر اُلجھ سکتے ہیں۔
اُلٹا طعنہ
اس کے باوجود یہ لوگ ہمیں طعنہ دیتے ہیں کہ مسلمان قوم بھی عجیب ہے کہ روشنی اور تہذیب کے اس زمانہ میں بھی ایک مذہبی ریاست بنانا چاہتی ہے۔ ایک دیوانے کی طرح جو ہمیشہ دوسروں کو دیوانہ سمجھتا ہے اور اسے کبھی خیال نہیں آتا کہ وہ خود دیوانہ ہے۔
ایک دلیل
وطن پرستوں کی سب سے زیادہ وزن دار دلیل یہ ہو سکتی ہے کہ انسان مجبور ہے کہ منظم جماعتوں یا ریاستوں کی صورت میں زندگی بسر کرے اور ریاست کا وجود ایک خطۂ زمین کو چاہتا ہے پس لامحالہ ایک خطۂ زمین کے رہنے والے لوگ ہی ایک ریاست بنائیں گے۔ ان لوگوں میں قدرتی طور پر مرزبوم کے علاوہ نسل‘ رنگ‘ زبان‘ روایات‘ عادات و شمائل اور رسوم و رواج کا اشتراک بھی ہو گا جو اُن کو متحد کر کے ایک ریاست کے وجود کو ممکن بنائے گا لیکن یہ وہی دلیل ہے جو عہد قدیم میں ایک قبیلہ پرست انسان اپنے قبیلہ کو تمام دوسرے قبائل کے خلاف قائم ہونے والی ایک قدرتی اجتماعی وحدت ثابت کرنے کے لیے دے سکتا تھا۔
قومی اور قبیلوی عصبیت
ایک قبیلہ کے افراد کے اندر نسل‘ رنگ‘ زبان‘ روایات‘ عادات وشمائل اور رسوم و رواج کا جس قدر اشتراک ہوا کرتا تھا وہ آج ایک وطن کے رہنے والوں میں بھی ممکن نہیں۔ تو پھر کیا آج ہم میں سے کوئی سمجھتا ہے کہ قبائلی وحدتوں کا موجود رہنا صحیح تھا اور تہذیب کے بہترین تقاضوں کے مطابق تھا۔ آج ہم سمجھتے ہیں کہ قبیلہ پرستی سے انسان کی ہمدردیاں محدود ہوجاتی ہیں اور اس کا نتیجہ قبائلی جنگوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ حالانکہ کوئی وجہ نہیں کہ ایک قبیلہ کے افراد دوسرے قبیلہ کے خلاف جو انہیں کے بھائی بند ہیں‘ قتل و غارت اور کشت و خون پر آمادہ ہوں کیا قوم پرستی سے یہی صورت حال پیدا نہیں ہوتی۔ اگر اس بنا پر آپ ماضی کے ایک قبیلہ پرست انسان کو غیر مہذب اور وحشی کہتے ہیں تو ایک قومیت پرست انسان کو غیر مہذب اور وحشی کیوں نہیں کہتے۔
وحشیانہ تنگ نظری
اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ عہد حاضر کی ایک قوم حجم اور وسعت میںقبیلہ سے بڑی ہوتی ہے اور بہت سے قبیلوں سے مل کر بنی ہوتی ہے۔ ایک قبیلہ بھی ایک خاندان سے حجم اور وسعت میں بڑا ہوتا تھا اور بہت سے خاندانوں سے مل کر بنتا تھا۔ پھر ہم نے قبیلہ کو کیوں قائم نہ رکھا ۔ انسان کی مشتاق جمالِ فطرت نے پہلے خاندان پرستی کو جاہلانہ تنگ ظرفی پر محمول کیا اور اس پر تین حرف بھیج کر اپنی ہمدردیوں کو قبیلہ کے افراد تک وسعت دی۔ اس کے بعد اس نے قبیلہ کو بھی ایک تنگ نظرانہ عصبیت سمجھا اور اسے ترک کر کے اپنے آپ کو ایک قوم کا فرد کہنے لگا۔ اب کوئی دن کی بات ہے کہ اس کی آنکھیں اس حقیقت کے لیے کھل جائیں گی کہ قوم پرستی بھی ایک تنگ نظرانہ عصبیت ہے اور چاہیے کہ وہ اسے ترک کر کے افراد کی وحدت کو ایک ایسے تصور پر قائم کرے جو پائیدار ہو اور جس میں تمام نوعِ انسانی شریک ہو سکے اور یہ تصور فقط توحید کا تصور ہے۔
خیر الامم کا مقام
اس حقیقت کے لیے انسان کی آنکھیں کھولنے کا فریضہ قدرت نے مسلمان قوم کے سپرد کر رکھا ہے جسے تمام قسم کی عائلی‘ قبیلوی یا قومی عصبیتوں سے مجتنب رہنے کی ہدایت کی گئی ہے اور جو درحقیقت اپنے عقیدئہ توحید کے ساتھ ان عصبیتوں کو جمع نہیں کر سکتی۔ قرآن کا ارشاد ہے:
{وَجَعَلْنٰـکُمْ شُعُوْبًا وَّقَـبَـآئِلَ لِتَعَارَفُوْاط اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰـکُمْط} (الحجرات:۱۳)
’’ہم نے تمہیں خاندان اور قبیلے بنایا تاکہ تم ایک دوسرے کو زیادہ تفصیل سے جان لو۔لیکن (عزت اور بزرگی کا معیار صرف تقویٰ ہے) اس میں شک نہیں کہ تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔‘‘
پھر ارشاد ہے:
{وَمِنْ اٰیٰتِہٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافُ اَلْسِنَتِکُمْ وَاَلْوَانِکُمْ ط} (الروم:۲۲)
’’آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہارے امتیازات الوان والسنہ اللہ کی قدرت کے نشانات میں سے ہیں ‘‘(یعنی ان کی غرض خدا کی معرفت ہے جو انسان کا اصل مقصود ہے اور اس کی عزت اور شرف کا معیار ہے)۔
حضورﷺ نے اپنے آخری خطبہ میں جن باتوں پر سب سے زیادہ زور دیا اُن میں سے ایک یہ تھی کہ:
((لَا فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی عَجَمِیٍّ )) (صحیح بخاری)
’’عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں۔‘‘
قرآن کے نزدیک دوسرے انسانوں سے مسلمانوں کے اتحاد کی بنیاد صرف ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ خدائے واحد پر ایمان لائیں اور صرف اُسی کو اپنا معبود مانیں۔
{قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِيْٓ اِبْرٰهِيْمَ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗ ۚ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِهِمْ اِنَّا بُرَءٰۗؤُا مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۡ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاۗءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗٓ}
(الممتحنۃ:۴)
’’بے شک حضرت ابراہیم اور آپ کے ساتھیوں کے طرزِ عمل میں تمہارے لیے ایک قابل تقلید مثال ہے۔ انہوںنے اپنی قوم کو کہا کہ ہم تم سے اور تمہارے آدرشوں سے جو تم نے اللہ کو چھوڑ کر اختیار کر لیے ہیں بیزار ہیں ہم تمہارے عقیدہ کے منکر ہیں اور ہمارے اورتمہارے درمیان ایک ایسی دشمنی ہے جو ہمیشہ رہے گی جب تک تم خدائے واحد پر ایمان نہ لاؤ۔‘‘
{ لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ (۲۸)}
(آل عمران)
’’مسلمان مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں سے اتحاد نہ کریں۔‘‘
خود حضورﷺ کی زندگی کی مثال ہمیں بتا رہی ہے کہ آپ نے اپنی قوم کے خلاف جو نسل‘ رنگ‘ زبان اور وطن کے لحاظ سے آپ کے ساتھ اشتراک رکھتے تھے اس بنا پر اعلان حرب کیا کہ وہ صحیح بنیادوں پر قومیت کی تعمیر کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
عہد بربریت کی یاد
درحقیقت اگر انسان علمی ترقی اور تہذیب کے اس زمانہ میں بھی رنگ‘ نسل‘ زبان‘ روایات اور ارضی حدود کو ایک آدرش بنا کر اُن سے محبت کرے اور قومیتوں میں بٹا رہے تو آج کل کے زمانہ میں اور وحشت اور بربریت کے اس زمانہ میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا جب انسان ان ہی اوصاف کی بنا پر خاندانوں اور قبیلوں میں بٹا ہوا تھا اور خاندان اور قبیلہ سے بلند تر کسی آدرش کا تصور نہ کر سکتا تھا۔ وطنیت دراصل عہد قدیم کی عائلی یا قبیلوی عصبیت ہی کی ایک توسیع ہے۔ اگر ہم ہر قوم کو ایک بڑا قبیلہ سمجھ لیں تو عصر حاضر کی تہذیب‘ عہد ِ قبائلی کی تہذیب سے کسی طرح مختلف ثابت نہیں ہو گی۔ اگر پہلے ہر قبیلہ اپنی بڑائی اور عظمت پر فخر کرتا تھا تو اب ہر قوم اپنی بڑائی اور عظمت پر فخر کرتی ہے۔ اگر پہلے ہر قبیلہ کے افراد صرف اپنے ہی قبیلہ سے ہمدردی رکھتے تھے تو اب ہر قوم کے افراد صرف اپنی ہی قوم کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔ اگر پہلے ہر قبیلہ کی تگ و دو فقط اپنی ذات کے لیے اقتصادی اور مادی فوائد کے حصول تک محدود تھی تو اب ہر قوم کی تگ و دو فقط اپنی ذات کے لیے اقتصادی اور مادی فوائد کے حصول تک محدود ہے۔ اگر پہلے قبائل ذرا ذرا سی باتوں کے لیے آپس میں ہر وقت برسرپیکار رہتے تھے تو اب قومیں ذرا ذرا سی باتوں کے لیے ہر وقت آپس میں برسرپیکار رہتی ہیں۔
خطرناک پہلو
خطرہ اس بات میں نہیں کہ کوئی قوم خاص جغرافیائی حدود کے اندر جس میں ایک خاص نسل‘ رنگ یا زبان کے لوگ بستے ہوں اپنی سیاسی زندگی کا آغاز یا استحکام کرے بلکہ خطرہ اس بات میں ہے کہ کوئی قوم جغرافیائی حدود‘ نسل یا زبان ایسے مادی امتیازات سے ایک آدرش کے طور پر محبت کرے۔ انہیں اپنے عمل کا مدار و محور بنائے اور ان کی بنا پر باقی ماندہ تمام نوعِ انسانی سے کٹ جائے۔
فطرت کے تقاضے
انسان مادہ نہیں بلکہ روح ہے۔ لہٰذا اس کے اتحاد کی بنیاد مادی یا جغرافیائی اوصاف کے اندر نہیں بلکہ روحانی اوصاف کے اندر ہے ۔ اور ان روحانی اوصاف کا مرکز اس کا یہ وصف ہے کہ اسے ایک جذبۂ حسن دیا گیا ہے جو صرف کامل اور صحیح آدرش کی محبت سے مطمئن ہوتا ہے۔ یہی وہ آدرش ہے جو تمام نوعِ بشر کو متحد کر سکتاہے۔ لہٰذا ضروری بات ہے کہ جو ریاست اس آدرش پر مبنی ہو گی وہ بالآخر تمام روئے زمین پر پھیل جائے گی اور اسی کے ذریعہ سے انسان کا ارتقاء اپنے کمال پر پہنچے گا ۔ ایک آدرش کی حیثیت سے رنگ‘ نسل‘ زبان وغیرہ کی طرح کے جغرافیائی اوصاف یعنی وطن سے محبت کرنا انسان کی فطرت میں نہیں۔ لیکن چونکہ قومیت پرست وطن کو ایک آدرش کا درجہ دیتے ہیں۔
مصنوعی خدا
لہٰذا ایک بت پرست کی طر ح انہیں بہت تکلف کرنا پڑتا ہے اور انہیں اس تصور کو حسن و خوبی کا ایک فرضی یا مصنوعی لباس پہنانا پڑتا ہے اور پھر یقین کرنا پڑتا ہے کہ یہ لباس فرضی یا مصنوعی نہیں۔ چنانچہ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اُن کا وطن ایک زندہ معبود ہے جو ان کا خالق بھی ہے اور ربّ بھی ہے اور کوئی عظمت کوئی بڑائی اور کوئی اچھائی ایسی نہیں جو اس کی طرف منسوب نہ ہو سکے۔
عبادت کے طریقے
مثلاً وہ اسے مادرِ وطن یا پدر وطن کہتے ہیں۔ اس کے مدحیے لکھتے ہیں‘ اس کے گن گاتے ہیں‘ اس کے جھنڈے کو بڑے اخلاص اور بڑی عاجزی کے ساتھ سجدہ کرتے ہیں‘ اس کے راہنماؤںکی تصویروں اور مجسموں کو پوجتے ہیں‘ درسی کتابوں میں اس کی تعریفیں لکھتے ہیں‘ اور اپنے سارے نظامِ تعلیم کی تشکیل اس طرح سے کرتے ہیں کہ اس کی محبت بچپن ہی سے ان کے دلوں میں اتر جائے اور پھر ہر ممکن طریق سے کوشش کرتے ہیں کہ ان کے دلوں میں وطن کی یہ محبت نقطۂ کمال پر پہنچے اور وہاں قائم رہے۔ وہ اس کی محبت کے نشہ سے پوری طرح سرشار ہونا چاہتے ہیں اور اُن کی تمنا ہوتی ہے کہ یہ نشہ ایسا چڑھے کہ پھر اترنے نہ پائے۔ ان طریقوں سے وہ اپنے لاشعوری جذبۂ حسن کو مطمئن کر تے ہیں اور ایک غلط آدرش سے اپنی نفسیاتی زندگی کے خلا کو پر کرتے ہیں۔
خطرناک نتائج
اس طرح سے وطن پرست اتحاد اور قوت حاصل کر لیتے ہیں لیکن جذبۂ حسن کا غلط استعمال کر کے اور غلط آدرش کو اختیار کر کے لہٰذا وہ غلط آدرش کے تمام نقصانات اور خطرات مول لے لیتے ہیں۔ ان کے فکر و عمل کا معیار گھٹیا ہو جاتا ہے۔ وہ مکر ‘فریب‘ جھوٹ‘ظلم اور بددیانتی کی زندگی اختیار کر لیتے ہیں ۔ وہ ارتقاء کی راہ میں ایک رکاوٹ بن جاتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کچھ جنگوں کی صورت میں بیرونی ضربات سے اور کچھ بداخلاقی کی صورت میں اندرونی شکستوں سے ارتقاء کی قوتیں انہیں تباہ و برباد کرتی رہتی ہیں اور بالآخر انہیں مٹا کر اپنا راستہ ہموار کرتی ہیں۔
یقینی موت
لہٰذا وطن کے تصور پر ریاست کی بنیاد رکھنا پہلے بداخلاقی ‘بے ایمانی‘ فریب کاری اور غرض پرستی کو اور آخر کار مایوسی‘ ذلت اور موت کو دعوت دینا ہے۔ ایک قومی ریاست کے لیے موت کے سوائے دوسری کوئی راہ نہیں۔ اگر اتفاقاً ایک اندرونی انقلاب کے لیے ذریعہ سے وہ ایک نئے صحیح تر آدرش پر مبنی ہو جائے تو پھر بھی اس کا مطلب یہی ہو گا کہ وہ خود مٹ گئی ہے اور اس کی جگہ ایک اور ریاست وجود میں آ گئی ہے۔
ایک غلط فہمی
بعض قومیت پرست ایسے بھی ہیں جن کو یہ غلط فہمی ہے کہ وطن پرستی اور خدا پرستی کے دونوں عقائد ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو موجود رہ سکتے ہیں اور ایک انسان قومی ریاست میں رہتے ہوئے مذہب اور اخلاق کے تقاضوں کو پورا کر سکتا ہے۔
سادہ لوحی
اگر ان قومیت پرستوں کا خیال یہ نہیں کہ وہ قدم قدم پر حکومت سے بغاوت کر کے مذہب اور اخلاق کے تقاضوں کو پورا کرتے رہیں گے تو ان سادہ لوحوں کو چاہیے کہ اپنے آقائے نامدار مکیاولی کا بغور مطالعہ کر کے اپنے نظریہ کے متضمنات سے واقف ہو جائیں۔
منافقانہ تعلق
اگر کوئی مذہب فی الواقع ایک اخلاقی قوت ہے جو انسان کے ہر فعل پر نیک و بد کا حکم لگاتا ہے تو قومیت کے نظریہ کے ساتھ اس کا بہم ہونا ناممکن ہے۔ جس ریاست کی بنیاد نظریۂ قومیت پر ہو گی اُس کے افراد ایسے مذہب کے ساتھ ایک منافقانہ اور سطحی لگاؤ کا اظہار کریں تو ممکن ہے ‘لیکن دل سے ایسے مذہب کو اپنی زندگی کا راہنما نہیں بنا سکتے۔ لیکن اگر مذہب اس قسم کی اخلاقی طاقت نہیں جو انسان کے ہر فعل کے متعلق نیک یا بد کا فیصلہ صادر کرتا ہو تو وہ ہماری عملی زندگی پر مطلق اثر انداز نہیں ہو سکتا لہٰذا اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ اگر کوئی شخص اس قسم کے مذہب کی رسوم کو ادا کرتا ہے تو اس کا مقصد عملی زندگی کی اصلاح نہیں بلکہ فقط ایک رواج کی نمائشی پابندی ہے ۔ اسلام یقینا اس قسم کا مذہب نہیں۔ اسلام انسان اور کائنات کا ایک مکمل نظریہ ہے اور انسان کی پوری زندگی کے لیے ایک لائحہ عمل ہے۔
والحمد للہ الذی بعزتہ تتم الصالحات
====