قرآن اور علمِ جدید (یونی کوڈ فارمیٹ)

ایڈلر نظریۂ لاشعور   (حبِّ تفوق)

 

ایڈلر کا جائز اختلاف

ایڈلر کا یہ خیال درست تھا کہ جذبۂ لاشعور کی ماہیت جنسی نہیں اور اسے اپنے اس خیال کی صحت پر یہاں تک اعتماد تھا کہ وہ آخر کار اس کی حمایت کے لیے اپنے استاد کی رفاقت ترک کرنے پر مجبور ہوا۔ لیکن افسوس ہے کہ وہ فرائڈ کے ناتسلی بخش نظریہ کی جگہ کوئی بہتر یا معقول تر نظریہ پیش نہیں کر سکا۔

 

دوسری غلطی

اور اُس نے محض ایک غلطی کو ترک کر کے دوسری غلطی کو اختیار کر لیا ہے۔ اس کے نزدیک جذبۂ لاشعور حب تفوق ہے۔ اور تعجب ہے کہ وہی بچپن کی زندگی جو فرائڈ کو جنسی مسدودات سے معمور نظر آتی تھی ‘ایڈلر کو تحریک تفوق کے پیچ و تاب میں الجھی ہوئی نظر آتی ہے۔

 

کتاب کے پہلے حصہ میں ایک حد تک ایڈلر کے خیال کی وضاحت کر دی گئی ہے۔

 

حب تفوق فطرتی خواہش ہے

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غلبہ یا تفوق کی خواہش بیرونی اسباب کا نتیجہ ہے یا اندرونی اسباب کا۔ اگر حقیقت یہ ہے کہ آغازِ حیات سے بچہ کے ارد گرد ایسے لوگ موجود رہتے ہیں جو ہر لحاظ سے اس پر غالب اور فائق ہوتے ہیں اور جن سے وہ کمتر اور کہتر ہوتا ہے‘ تو بچہ دوسرے لوگوں کے تفوق کو اور اپنی کہتری اور کمتری کو ایک معمولی اور قدرتی چیز کیوں نہیں سمجھنے لگتا۔ وہ اپنی ناتوانی کے پیش نظر اپنی کمتری سے راضی ہونے کی بجائے تفوق کی خواہش کیوں کرتا ہے۔

 

طاقت حسن ہے

ظاہر ہے کہ بچہ اس وقت تک دوسروں پر تفوق اور استیلاء کی خواہش پیدا نہیں کر سکتا جب تک کہ اس کی اپنی فطرت کے اندر کوئی استعداد ایسی موجود نہ ہو جس کی وجہ سے وہ نہ صرف بعض چیزوں کو بعض دوسری چیزوں سے برتر اور بہتر سمجھتا ہو بلکہ برتر اور بہتر چیزوں کوحاصل کرنے کی اکساہٹ بھی محسوس کرتا ہو۔ اگر اس کے اندر اس قسم کی کوئی استعداد موجود ہے تو پھر یہ وہی ہے جسے ہم نے لاشعوری جذبۂ حسن قرار دیا ہے۔

 

ایڈلر صاف طور پر اعتراف کرتا ہے کہ بچے کی خواہش تفوق کا سبب یہ ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ دوسرے اس کی تعریف کریں گے اور وہ دوسروں کی توجہ اور محبت کا مرکز بن جائے گا ۔ گویا تفوق جسے وہ چاہتا ہے اس کے نزدیک اور دوسروں کے نزدیک کوئی ایسی چیز ہے جسے وہ اور دوسرے لوگ قابل ستائش سمجھتے ہیں۔ ایسی حالت میں ظاہر ہے کہ تفوق حسن ہی کا دوسرا نام ہے۔ کیونکہ ستائش صرف حسن کے لیے ممکن ہے۔

 

غلبہ اور قہر صفات حسن ہیں

حسن کی صفات میں سے ایک صفت طاقت ہے کیونکہ ہم طاقت کی تعریف اور ستائش کرتے ہیں ‘ اسے پسند کرتے ہیں اور چاہتے ہیں۔ طاقت حسن ہے کیونکہ وہ ہماری محبت کا مرکز بنتی ہے۔ غالب اور قہار خدا کے اسمائِ حسنیٰ(اچھی اور قابل ستائش صفات) میں سے ہیں۔ لہٰذا اگر فرائڈ یہ کہتا ہے کہ جذبۂ لاشعور طاقت کے لیے ہے تو وہ قرآنی نظریۂ لاشعور کی تائید کر رہا ہے جس کی رو سے جذبۂ لاشعور خدا کی ذات اور صفات کے لیے ہے۔

 

جلال و جمال لازم و ملزوم ہیں

شاید اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ایڈلر کے نزدیک طاقت کی خواہش جذبۂ لاشعور کا ایک جزو نہیں بلکہ سارا جذبۂ لاشعور ہے۔ اس کے نزدیک طاقت کے علاوہ اور ہر چیز جو انسان چاہتا ہے‘ طاقت ہی کے لیے چاہتا ہے۔ اس کے نزدیک طاقت انسان کی تمام خواہشات میں سے مرکزی اور بنیادی خواہش ہے۔ لہٰذا ہمارے نظریہ اور ایڈلر کے نظریہ میں بہت فرق ہے ۔لیکن اگر ایڈلر کا مطلب یہ ہے کہ طاقت کہیں حسن کی دوسری صفات کے بغیر بھی موجود ہو سکتی ہے تو وہ خود اپنے نظریہ کے معانی اور نتائج کو نہیں سمجھتا۔ یا تو جس چیز کو ہم طاقت سمجھ رہے ہیں ‘ وہ طاقت ہی نہیں اور محض فریب اور دھوکا ہے اور یا پھر وہ لازماً حسن کی دوسری صفات کے ساتھ موجود ہو گی۔ اور ہم مجبور ہوں گے کہ اُسے اُن دوسری صفات کے ساتھ قبول کریں۔

 

حصولِ قوت کا مقصد

طاقت کی ساری کشش اس بات میں ہے کہ انسان اسے ان چیزوں کے حصول کے لیے کام میں لائے گا جنہیں وہ حسن‘ نیکی اور صداقت سمجھتا ہے خواہ صحیح طور پر خواہ غلط طو رپر۔ طاقت کا کوئی ایسا طلبگار ممکن نہیں‘ کسی ایسے انسان کا تصور کرنا ممکن نہیں جو طاقت کو استعمال کرنے کی خواہش کے بغیر طاقت چاہتا ہو۔ اگر وہ اسے استعمال کرے گا تو کس چیز کے لیے؟ وہی چیز اس کا مطلوب یا مقصود یا آدرش ہو گی اور اس کا لاشعوری جذبہ طاقت کے نام سے درحقیقت اُسی کی خواہش کر رہا ہو گااور اُسی کو وہ طاقت کا نام دے رہا ہو گا۔ کیونکہ طاقت وہی ہے اور اسی قدر ہے جو مقصد کے حصول کے لیے کام میں لائی جا سکتی ہو اور لائی جا رہی ہو۔

 

طاقت حسن نیکی اور صداقت ہے

انسان کا مقصد ہی اس کا محبوب ہوتا ہے لہٰذا وہ اس کا آدرش یا تصورِ حسن(Ideal) ہے وہ صداقت (Truth) بھی اسی کو سمجھتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اس کے بغیرہر مقصد یا آدرش غلط اور نادرست اور جھوٹ اور کذب ہے۔ اس کے نزدیک وہ آدرش نیکی(Goodness)بھی ہے کیونکہ اس مقصد سے وہ سیکھتا ہے کہ کون سا کام کرنے کے لائق ہے اور کون سا کرنے کے لائق نہیں گویا وہ نیکی اور بدی اور اخلاق کا معیار اُسی سے اخذ کرتا ہے۔ ان تصریحات سے ظاہر ہے کہ طاقت‘ حسن‘ نیکی اور صداقت سے الگ نہیں ہو سکتی۔ مقصد کے حصول کے کوشش تخلیق ہے۔ ہم طاقت تخلیق کے لیے چاہتے ہیں۔ خدا طاقت ہے اور اس کی طاقت عمل تخلیق عالم یا عمل ارتقائے عالم میں نمودار ہوئی ہے۔ انسان کی طاقت اس کے آدرش کی خدمت اور اعانت کے لیے‘ جو اس کے اپنے ارتقاء کا ایک ذریعہ ہے‘ نمودار ہوتی ہے۔جس آدرش کی خدمت اور اعانت کے لیے ہم طاقت چاہتے ہیں ہم اُسی کی پرستش اور عبادت کرتے ہیں اور اسی کو حسن قرار دیتے ہیں۔

 

احساسِ تفو ق کی بنیاد

طاقت سے ہمیں برتری اور تفوق کا احساس ہوتا ہے کیونکہ ہم یقین کرنے لگتے ہیں کہ اب ہم نے اپنا آدرش حاصل کر لیا ہے یا کم از کم اب ہم اس کے بہت قریب ہو جائیں گے۔ چونکہ حسن کی کوئی انتہا نہیں ‘ہم طاقت سے کبھی سیر نہیں ہوتے‘ ہم طاقت کی مدد سے اور طاقت حاصل کرتے ہیں تاکہ حسن سے اور قریب ہو جائیں اور اس کی ایک اور جھلک دیکھ لیں۔

 

طاقت کے مختلف تصورات

ایڈلر جانتا ہے کہ طاقت کے متعلق ہمارے اندازے مختلف ہوتے ہیں لیکن اس کی وجہ یہ بتاتا ہے کہ بچپن میں ہمارے کہتری کے احساسات بھی مختلف ہوتے ہیں جیسا ہمارا احساسِ کہتری ہوتا ہے ہم اس کی تلافی کے لیے طاقت بھی ویسی ہی چاہتے ہیں۔لیکن اس کا یہ خیال درست نہیں کہ طفولیت میں ہمارے کہتری کے احساسات مختلف قسم کے ہوتے ہیں۔ ہر بچہ کی کمزوری بنیادی طور پر دوسرے تمام بچوں کے ساتھ مشترک ہوتی ہے اور ہر بچہ کے لواحقین کا تفوق بھی بالعموم ایک ہی جیسا ہوتا ہے۔ دراصل طاقت کے تصورات کے اختلاف کی وجہ حسن کے تصورات کا اختلاف ہے۔ ہمارے آدرش کے حسن کا معیار ہمارے علم اور تجربہ پر موقوف ہے اور ہمارا آدرش ہمارے علم کی ترقی سے ارتقائی منازل طے کر کے کمال کے قریب پہنچتا جاتا ہے۔ کسی خاص وقت میں جیسا ہمارا آدرش ہوتا ہے ضروری ہے کہ ہم اس کے حصول کے لیے طاقت کا تصور بھی ویسا ہی قائم کریں۔ جب تصور حسن بدلتا ہے تو تصور طاقت بھی اُس کے ساتھ بدل جاتا ہے ۔ ہر تصور حسن کی جستجو کے لیے الگ قسم کی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔

 

احساسِ کہتری کی بنیاد

جب ہم اپنے تصور حسن کو حاصل نہیں کر سکتے تو ہم اسے کمزور اورگھٹیا محسوس کرتے ہیں ۔ اگر ہم کسی شخص کو قابل تعریف عادتوں اور خصلتوں کا مالک سمجھتے ہوں تو ہم چاہتے ہیں کہ اس کی محبت یا پسندیدگی حاصل کریں۔ جب ہم اس خواہش میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہم میں قوت اور برتری کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح سے جب ہم عوام کی ستائش اور محبت کا مرکز بنتے ہیں یا جب ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہم نے کوئی نیک اور اچھا کام کیا ہے یا جب ہم ہنر کی تخلیق میں یا علم کی تحقیق میں کامیاب ہوتے ہیں۔ غرضیکہ جب ہم کامیابی سے کسی ایسے فعل کو انجام دیتے ہیں جس کا مقصد جستجوئے حسن ہو تو ہم فائق‘ غالب یا طاقتور محسوس کرتے ہیں اور اس کے برعکس جب ہم ان طریقوں میں سے کسی ایک طریق سے حسن کی جستجو میں ناکام رہتے ہیں تو ہم کمزور‘ بے طاقت‘ مغلوب اور گھٹیا محسوس کرتے ہیں۔

 

احساسِ جرم اور احساسِ کہتری

فرائڈ سچ کہتا ہے کہ احساسِ جرم یا احساسِ کہتری میں امتیاز کرنا سخت مشکل ہے۔ جب ہم طاقت کو کام میں نہ لا سکیں تو ہم مجرم محسوس کرتے ہیں۔ اور جب ہم تصور حسن کے قریب نہ پہنچ سکیں تو ہم کمزور اور ناتواں محسوس کرتے ہیں۔

 

ان حقائق سے صاف ظاہر ہے کہ طاقت یا تفوق درحقیقت حسن ہی کی خواہش ہے اور تفوق کی خواہش اور حسن کی خواہش درحقیقت ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ لہٰذا ایڈلر کا استدلال فرائڈ سے بھی زیادہ واضح طور پر اس حقیقت کی طرف راہنمائی کرتا ہے کہ جذبۂ لاشعور حسن ہی ہے۔

 

 

قرآن اور علمِ جدید (یونی کوڈ فارمیٹ)