قرآن اور علمِ جدید (یونی کوڈ فارمیٹ)
بارآور قوتیں اور بارآور تعلقات
ایک عجیب و غریب خیال
کارل مارکس کا یہ خیال نہایت ہی عجیب و غریب ہے کہ اقتصادی ضروریات کا سامان پیدا کرنے والی کوئی قوتیں (Productive Forces) ایسی ہیں جو انسان سے باہر ہیں اور انسان کی مرضی کے بغیر ایک معاشی نظام کو بدل کر دوسرا معاشی نظام وجود میں لاتی ہیں۔ اور انسان چاہے یا نہ چاہے اس کے سر پر ٹھونس دیتی ہیں ۔ اگر کارل مارکس ذرا غور کرتا تو اسے نظر آتا کہ یہ قوتیں درحقیقت ایک ہی قوت میں جمع ہو جاتی ہیں اور وہ علم کی ترقی کی قوت ہے۔ کائنات ایک خارجی چیز ہی سہی لیکن یہ کیونکر کہا جا سکتا ہے کہ کائنات کے حقائق کا علم ایک داخلی چیز نہیں۔ اور وہ انسان کی مرضی کے بغیر اُس پر اثر انداز ہوتا ہے اور اس کے معاشی حالات کو بدلتا ہے۔
علم کی ترقی اور اقتصادی حالات
انسان کا علم اس لیے ترقی کرتا ہے کہ انسان علم کے لیے بے قرار ہے اور اس کی پیہم جستجو کرتا رہتا ہے۔ علم کی جستجو خود جذبۂ حسن کا ایک پہلو ہے لیکن جوں جوں انسان کا علم ترقی کرتا ہے وہ اپنے جذبۂ حسن کے ہر ایک پہلو کا اظہار بہتر طریق سے کرتا ہے۔ علم کی ترقی اسے ایک ایسی قوت بہم پہنچاتی ہے جس سے وہ نہ صرف نظریہ کی جدوجہد اور علم اور ہنر کی جستجو بہتر اور زیادہ مؤثر طریق سے کرتا ہے بلکہ وہ اپنی بنیادی معاشی ضروریات کو بھی زیادہ عمدہ اور خوبصورت طریق سے پورا کرتا ہے۔ وہ خورا ک کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے پتھر کے آلات سے بھی شکار کیا کرتا تھا۔ لیکن جب اسے علم ہوا کہ دھات کو بہتر اسلحہ بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے تو اس کے شکار کی مہمیں زیادہ آسانی سے کامیاب ہونے لگیں۔ اور وہ اپنی خوراک کی ضرورت کو بہتر طریق سے پورا کرنے لگا جب اس نے آگ جلانا سیکھ لیا تو وہ اس ضرورت کو او ر بھی عمدہ طریق سے پورا کرنے لگا اور پھر جب وہ کھیتی باڑی سے اناج اور غلہ پیدا کرنے لگا تو اس نے اپنی خوراک کو اور بھی زیادہ لذیذ اور متنوع بنا لیا ‘ وعلیٰ ہٰذا القیاس۔ علم کی ترقیوں سے اس کی ہر بنیادی ضرورت بہتر اور آسان تر طریقوں سے مطمئن ہوتی رہی ہے۔ اب کیا دھات کی خاصیات کا علم‘ آگ جلانے کا علم اور کھیتی باڑی کے فن کا علم انسان کی خواہش یا کوشش کے بغیر ممکن ہوا یا کیا یہ کوئی ایسی بیرونی قوت تھی جو انسان کی مرضی کے بغیر اس کی طرزِ زندگی کو زیادہ خوبصورت اور زیادہ رنگین اور اس کے معاشی نظام کو بہتر اور خوب تر بناتی رہی۔
بارآور قوتوں کی اصل
کارل مارکس سمجھتا ہے کہ مشینوں کی ایجاد‘ بھاپ کے انجن سے چلنے والے سمندری جہاز کی ایجاد‘ امریکہ کی دریافت وغیرہ بارآور قوتیں (Productive Forces) ہیں جنہوں نے جاگیرداری نظام (Feudal System) کو بدل کر صنعتی نظام کو وجود میں لایا ہے۔ لیکن مشینوں کی ایجاد کا سبب کیا ہے۔ انسان کی یہ جدوجہد کہ وہ اپنی ضروریات کے سامان کو عمدہ اور آسان طریق سے پیدا کر سکے اور بھاپ کے انجن والے سمندری جہاز کی ایجاد کا سبب یہ تھا کہ انسان سمندری سفر زیادہ حفاظت اور سرعت سے کر سکے۔ امریکہ کی دریافت کا سبب انسان کی یہ کوشش تھی کہ وہ اپنے ذوق دریافت کو مطمئن کر ے اور اگر ہو سکے تو اپنی ضروریات کے حصول کے لیے میدانِ جستجو کو اور وسیع کرے۔ لہٰذا یہ بارآور قوتیں نہ انسان سے الگ ہیں اور نہ اس کی مرضی کے خلاف اس کے اقتصادی حالات پر اثر انداز ہوتی ہیں‘ انسان خود انہیں پیدا کرتا ہے تاکہ وہ ایسے طریق سے اس کے معاشی حالات پر اثر انداز ہوں جو اسے مرغوب اور پسندیدہ ہے۔مارکس جس چیز کو ’’بارآور قوتیں‘‘ کہتا ہے وہ خود انسان ہی ہے جو اپنے جذبۂ حسن کی مزید تشفی کے لیے اپنے گرد و پیش کے حالات پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ بارآور قوتوں کی ترقی انسان کے حالات کو معین نہیں کرتی‘ بلکہ انسان کی خواہشات اور جستجوئے حسن کی سرگرمیاں بارآور قوتوں کی ترقی کو معین کرتی ہیں۔
ایک غلط فہمی
’’انسان وہی کچھ ہوتا ہے جو اس کی سامان سازی کے مادی حالات اسے قرار دے دیں‘‘۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ انسان سامان سازی کے مادی حالات کو خود بدلتا ہے تاکہ وہ اس کی فطرت کے تقاضائے حسن کے ساتھ مطابق ہو جائیں۔
مضحکہ خیز نقل
مارکس نے ہیگل کا یہ خیال چرا کر الٹا کر دیا ہے کہ ہر تصور کے اندر ایک ایسا عنصر ہوتا ہے جو اس کے کُل کا نقیض ہوتا ہے اور جو اس کے ساتھ ٹکرا کر اسے ختم کر دیتا ہے اور ایک نئے تصور کو پیدا کرتا ہے۔ اس طرح سے تصورات کی حرکت جاری رہتی ہے۔ کارل مارکس نے معاشی نظام کے اندر جسے وہ مجمل طور پر بارآور تعلقات یا سامان آفرینی کے تعلقات کا نام دیتا ہے ایک تضا د فرض کیا ہے جو سامان آفرین قوتوں سے پیدا ہوتا ہے۔ سامان آفرین قوتیں‘ سامان آفرینی کے تعلقات کے ساتھ ٹکرا کر انہیں ختم کر دیتی ہیں اور پھر ایک نیا معاشی نظام پیدا ہوتا ہے۔ لیکن ہیگل کا خیال جس قدر لطیف اور دلکش ہے‘ کارل مارکس کی نقل اسی قدر بھونڈی اور مضحکہ خیز ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہیگل کا خیال صداقت پر مبنی ہے اور کارل مارکس کی نقل فقط ایک وہم یا فریبِ نفس کا نتیجہ ہے۔
ایک وہمی تضاد
درحقیقت نام نہاد سامان آفرین قوتوں اور سامان آفرینی کے تعلقات میں قطعاً کوئی تضاد نہیں۔ اگر ان میں کوئی تضاد فرض کیا جائے تو وہ ایسا ہی ہے جیسا کہ اُس شخص کی دو حالتوں میں جو نہانے کے لیے پہلے نل کی ٹونٹی کوکھول دے اور پھر یہ محسوس کرے کہ اب اسے اپنے جسم کو حرکت دے کر اس ڈھب پر لے آنا چاہیے کہ ٹونٹی کا بہتا ہوا پانی اس کے جسم پر پڑنے لگے یا اُس شخص کی دو حالتوں میں جو کسی کتاب کا مطالعہ کرنے کے لیے پہلے برقی قمقمہ کو روشن کر دے اور پھر یہ محسوس کرے کہ اب اسے کسی قدر تکلیف اٹھا کر کتاب کو کھولنا اور ایک خاص رخ پر بیٹھنا پڑے گا تاکہ روشنی کتاب پر پڑتی رہے۔
حسن کی جستجو کے دوران میں ایک فردِ انسانی ہر وقت اپنے عمل کو اپنے مقاصد کے ساتھ مطابق کرتا رہتا ہے۔ ہر مقصد کے حصول کے کئی مرحلے ہوتے ہیں اور مقصد کی جستجو کے معنی یہ ہیں کہ ہم ایک مرحلہ سے گزر کر دوسرے مرحلہ کی طرف اور دوسرے سے گزر کر تیسرے کی طرف بڑھیں یہاں تک کہ ہمارا مقصد حاصل ہو جائے۔ ان مراحل میں کوئی تضاد نہیں ہوتا۔ کیونکہ ہر مرحلہ کے اندر جو مقاصد پوشیدہ ہوتے ہیں اگلا ہر مرحلہ اُن کی کچھ اور تکمیل کر دیتا ہے۔
فرد اور سماج کی مماثلت
فرد انسانی کے سارے مقاصد اس کی خودشعوری کے جذبۂ حسن سے پیدا ہوتے ہیں اور جو حال فرد کا ہے وہی سماج کا بھی ہے۔ سماج کا کردار (Behaviour)فرد کے کردار کے ساتھ نہایت قریب کی مماثلت رکھتا ہے۔ جس طرح سے فرد کی ایک خود شعوری ہے اسی طرح سے سماج کی بھی ایک خود شعوری ہے اور دونوں کی صورت میں خود شعوری کا محرک عمل جستجوئے حسن ہے۔
ایک فرد انسانی کے بعض اعضاء پہلے ماحول میں ایک تبدیلی پیدا کرتے ہیں جسے وہ چاہتا ہے۔ پھر اُس کے دوسرے اعضاء یا یوں کہیے کہ فرد خود اپنی مجموعی حیثیت سے اس تبدیلی کے ساتھ مطابقت پیدا کرتا ہے۔ کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرے تو ماحول کی اس تبدیلی سے جو اس نے اپنے مقصد کے ماتحت خود پیدا کی ہے پورا پورا فائدہ نہیں اٹھا سکتا وہ تبدیلی اور مطابقت دونوں کو خود ہی پیدا کرتا ہے اور دونوں اس کے ایک ہی مقصد کے حصول کے دو قدم ہوتے ہیں۔ یہی حال انسانی سماج کا ہے۔ انسانی سوسائٹی کی صورت میں بعض افراد پہلے ماحول میں ایک تبدیلی پیدا کرتے ہیں جسے سوسائٹی چاہتی ہے پھر اس کے دوسرے افراد یا یوں کہیے کہ سوسائٹی خود اپنی مجموعی حیثیت سے اس تبدیلی کے ساتھ مطابقت پیدا کرتی ہے۔ کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرے تو ماحول کی اس تبدیلی سے‘ جو اُس نے اپنے مقصد کے ماتحت خود پیدا کی ہے‘ پورا پورا فائدہ نہیں اٹھا سکتی۔فرد کی طرح سوسائٹی تبدیلی اور مطابقت دونوں کو خود ہی پیدا کرتی ہے اور دونوں اس کے ایک ہی مقصد کے حصول کے دو قدم ہوتے ہیں۔ دوسرا قدم پہلے قدم کی نسبت اس کے مقصد سے قریب تر ہوتا ہے۔ لہٰذا سوسائٹی پہلے قدم کے بعد دوسرا قدم اٹھاتی ہے۔ کارل مارکس اس تبدیلی اور اس مطابقت کو اس طرح سے سمجھتا ہے کہ سامان آفرینی کے تعلقات بدل کر سامان آفریں قوتوں کے ساتھ مطابقت پیدا کر لیتے ہیں کیونکہ دونوں کا تصادم ہو جاتا ہے حالانکہ ظاہر ہے کہ یہاں تصادم کا ذکر بے معنی ہے۔ اقتصادی تغیرات کے ذریعہ سے سوسائٹی اپنے مقصد کی طرف بڑھتی جاتی ہے اور سوسائٹی کا مقصد جو اس کے لاشعوری جذبۂ حسن سے پیدا ہوتا ہے‘ ہر آن یہ ہوتا ہے کہ اپنی طرزِ زندگی کو زیادہ عمدہ اور زیادہ خوبصورت بنائے۔
تبدیلی ٔ ماحول کا مقصد
ماحول کی ہر تبدیلی اور سامان آفرین قوتوں کی ہر ترقی ‘جو انسان خود پیدا کرتا ہے یا جو قدرت پیدا کرتی ہے اور جسے انسان قبول کرتا ہے‘ سوسائٹی کے اسی مقصد کے ماتحت پیدا ہوتی ہے یا قبول کی جاتی ہے۔ جب اس قسم کی ایک تبدیلی یا ترقی وجود میں آتی ہے تو سامان آفرینی کے تعلقات ایک ڈھب اختیار کرتے ہیں اور جب دوسری تبدیلی یا ترقی وجود میں آتی ہے تو انسان ان تعلقات کو اس کے مطابق بدل دیتا ہے تاکہ اس سے پوری طرح مستفید ہو سکے۔اور لہٰذا سامان آفرینی کے تعلقات دوسرا ڈھب اختیار کرتے ہیں۔ اس طرح سے معاشی نظام بدلتا رہتاہے۔ ایک معاشی نظام سے دوسرے معاشی نظام کی طرف انسانی سماج کی حرکت سماج کی مجموعی خواہش کے عین مطابق ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بعض افراد جو پہلے معاشی نظام کے مطابق اپنا معاشی کاروبار قائم کر چکے ہوں اس تبدیلی یا ترقی کے ساتھ‘ جو سماج کے دوسرے ذہین تر اور فعال تر افراد کی کوششوں سے وجود میں آ رہی ہو ‘مطابقت پیدا کرنے میں دقت محسوس کریں لیکن چونکہ وہ تبدیلی یا ترقی طرزِ زندگی کو اور خوبصورت بنانے کا ایک پیغام اور ایک ذریعہ ہوتی ہے اس لیے سوسائٹی مجموعی طو رپر اسے قبول کرتی ہے اور یہ افراد اس کی مزاحمت نہیں کر سکتے۔ سامان آفرینی کے نئے تعلقات عارضی طور پر بعض افراد کی مرضی کے خلاف ہوں تو ہوں لیکن وہ مجموعی حیثیت سے سوسائٹی کی مرضی کے خلاف نہیں ہوتے۔
بارآور قوتوں کا منبع
مارکس جسے بارآور قوتیں کہتا ہے وہ خود انسان ہی ہے جو اپنی فطرت کے تقاضائے حسن کو ہر لمحہ اور زیادہ مطمئن کرنے کے لیے اپنے ماحول کو بدلنے کی جدوجہد کرتا رہتا ہے۔ مارکس نے یہ غلط سمجھا ہے کہ ’’افراد (یعنی ان کی تمام خواہشات اور سرگرمیاں) بارآور قوتوں کی کسی خاص ترقی سے معین ہوتے ہیں‘‘ ۔ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ بارآور قوتوں کی ہر ترقی کا باعث خود افراد ہوتے ہیں۔ افراد پیدائش کے مادی حالات سے نہیں بنتے بلکہ اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے خود پیدائش کے مادی حالات کو پیدا کرتے ہیں۔
سوشلسٹوں کا اختلاف
مارکس تو کہتا ہے کہ ’’افراد سامان آفرین قوتوں کی کسی خاص ترقی سے معین ہوتے ہیں‘‘ اور ’’سامان آفرینی کے تعلقات ان کی مرضی سے بے نیاز ہوتے ہیں‘‘۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بعد کے اشتراکی فلسفیوں نے اس کی غلطی کو محسوس کیا ہے چنانچہ انہوںنے اس کی اس عبارت کو بدل کر حقائق سے قریب تر لانے کی کوشش کی ہے۔ ’’مارکسی فلسفہ کانصاب‘‘ کے مصنفین لکھتے ہیں:
’’انسان اجتماعی حالات اور اقتصادی ترقیوں سے متأثر ہوتا ہے معین نہیں ہوتا‘‘۔
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
’’انسان اپنے ماحول سے صرف جزوی طور پر معین ہوتا ہے لیکن ماحول کے ساتھ اس کا تعلق ساکن یا جامد نہیں۔ اوّل تو ماحول بھی اُسی حد تک انسان کی پیداوار ہے جس حد تک کہ خود انسان ماحول کی پیداوار ہے۔ دونوں ایک دوسرے پر متواتر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ انسان جو تبدیلیاں پیدا کرتا ہے وہ خود اس پر اثر انداز ہوتی ہیں اور پھر انسان اور تبدیلیوں کو وجود میں لانے کی کوشش کرتا ہے‘‘۔
غیر مبدل فطرت
لیکن اس بیان میں پھر یہ مغالطہ ہے کہ گویا انسان جو تبدیلیاں پیدا کرتا ہے وہ اس کی مرضی کے باوجود یا اُس کی مرضی کے خلاف اس پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ماحول کی تبدیلیاں انسان پر وہی اثر پیدا کرتی ہیں جو وہ چاہتا ہے اور جس کے پیش نظر وہ بڑی محنت اور کوشش سے انہیں وجود میں لاتا ہے یا قدرت کا ایک بیش بہا تحفہ سمجھ کر انہیں قبول کرتا ہے۔ جب ماحول کی کوئی تبدیلی انسان کی مرضی کے خلاف وجود میں آتی ہے تو انسان اس کے اثر سے خود نہیں بدلتا بلکہ اسے روکنے اور بدلنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اس کے نقصانات سے محفوظ رہے۔ طرزِ زندگی میں حسن پیدا کرنے کی خواہش انسان کا امتیاز ہے۔ زندگی کے اقتصادی پہلو کے لحاظ سے انسان جو کچھ ہے اسی خواہش کی وجہ سے ہے یہ خواہش کبھی نہیں بدلتی اور ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ ہم اس خواہش کی تکمیل میں اور آگے قدم اٹھاسکتے ہیں لیکن اسے بدل نہیں سکتے۔
جب ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ انسان ماحول کی تبدیلی سے بدل گیا ہے تو اصل واقعہ جو رونما ہوتا ہے‘ یہ ہے کہ یا ماحول کی تبدیلی کسی نہ کسی طرح سے اُس کی اس خواہش سے مطابقت رکھتی تھی اور اس نے اس تبدیلی سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کا طریقہ سیکھ لیا ہے۔ اور یا یہ تبدیلی اس کی خواہش سے مطابقت نہیں رکھتی تھی اور وہ اس بات میں کامیاب ہو گیا ہے کہ اسے اپنی اس خواہش کی تکمیل میں رکاوٹ پیدا کرنے سے باز رکھے۔ یہ ٹھیک ہے کہ انسان کا تعلق اپنے ماحول سے ساکن اور جامد نہیں۔ لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی تمنائے حسن غیر محدود ہے اور اسے ہر وقت عمل پر آمادہ رکھتی ہے اور انسان خود ترقی پسند اور فعال اور متحرک ہے۔
اختصار
اوپر کی ساری بحث کا حاصل یہ ہے کہ معاشی نظم کے بدلنے کی وجہ ہماری ضروریات کی غیر محدود توسیع ہے اور اس توسیع کا سبب طرزِ زندگی کو حسین و جمیل بنانے کی کوشش ہے‘ جو ہنر کی ایک قسم ہے اور اس کوشش کا سبب ہمارا وہ خاص انسانی امتیاز ہے جسے یہاں جذبۂ حسن کہا گیا ہے۔
دولت کا مقام اور نصب العین
ہم اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جس قدر سامان یا دولت پیدا کرتے ہیں اس کی بنیادی وجہ گو طرزِ زندگی کی تجمیل اور تحسین ہے لیکن چونکہ انسان کی ساری زندگی اس کے نظریہ کے ماتحت رہتی ہے لہٰذا آخر کار یہ ہمارا نظریہ ہی ہے جو سامان آفرینی کا طریق اور پیدا شدہ سامان کے استعمال کا طریق مقرر کرتا ہے ۔ دولت نظریہ کے ماتحت اور اس کی خدمت کے لیے پیدا کی جاتی ہے اور کام میں لائی جاتی ہے۔ وہ نظریہ کی ایک خدمت تو یہ کرتی ہے کہ ہماری زندگی کو قائم رکھتی ہے اور اس طرح سے ہمیں نظریہ کی جدوجہد کے لیے مہیا کرتی ہے اور دوسری خدمت یہ کرتی ہے کہ وہ ہماری قوت میں اضافہ کرتی ہے اور نظریہ کی جدوجہد میں آسانیاں پیدا کرتی ہے۔ چونکہ ہر نظریہ اپنے وقار اور حلقہ اقتدار کی غیر محدود توسیع چاہتا ہے‘ لہٰذا ہر نظریہ ہر وقت دوسرے تمام نظریات کے ساتھ برسرپیکار رہتا ہے اور اس پیکارمیں کامیاب ہونے کے لیے اسے ہر قسم کی قوت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اقتصادی قوت ایک اہم قوت ہے جو اُسے اس مقصد کے لیے کام دیتی ہے۔ چونکہ اقتصادی قوت کی وجہ سے ہم دشمن کے مقابلہ میں اپنی تمام ضروریات کو زیادہ مؤثر اور زیادہ سہل طریق سے پورا کر سکتے ہیں‘ لہٰذا دشمن پر ایک گونہ سبقت لے جاتے ہیں۔
متأثر اور معین کرنے کا فرق
جب ہماری اقتصادی قوت بڑھ جاتی ہے تو ہمارا نظریہ اپنے دائرئہ اثر کو وسیع کر لیتا ہے پھر وہ اس بڑھتی ہوئی قوت کی وجہ سے اپنی اقتصادی قوت کو اور مستحکم کر لیتا ہے اور یہ مستحکم شدہ اقتصادی قوت نظریہ کے حلقہ اثر کی مزید توسیع کا موجب ہوتی ہے۔ اس طرح سے نظریہ کے لیے ہماری جدوجہد اقتصادی حالات سے متأثر ہوتی رہتی ہے۔ اقتصادی حالات نظریہ کو معین نہیں کرتے بلکہ نظریہ اقتصادی حالات کو معین کرتا ہے۔ مارکس ٹھیک کہتا ہے کہ ’’سامان آفرینی کا طریق سیاسی‘ اجتماعی اور روحانی زندگی کو متأثر کرتا ہے‘‘ لیکن اس کے فوراً بعد اس کا یہ کہنا کہ ’’یہ انسان کی اقتصادی زندگی ہے جو اس کے نظریہ کو معین کرتی ہے‘‘۔ قطعاً غلط ہے وہ اس کا کوئی ثبوت نہیں دیتا۔ اور غلطی سے یہ سمجھتا ہے کہ یہ کہتے ہوئے گویا وہ اپنے پہلے قول ہی کو دہرا رہا ہے حالانکہ اس کا یہ دعویٰ پہلے دعویٰ سے یکسر مختلف ہے۔ کیونکہ اس میں وہ معین کرنے والے اسباب کو متأثر کرنے والے حالات سے خلط ملط کرتا ہے۔
طبقاتی جنگ
مارکس کا یہ تصور بھی حد درجہ غلط ہے کہ اقتصادی طبقات (Economic Classes) میں کوئی اقتصادی جنگ ہو رہی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ایک ایسی سوسائٹی میں اقتصادی طبقات ضرور ہوں گے جو کامل تصور حسن یعنی خدا کے تصور پر مبنی نہ ہو کیونکہ ایسی سوسائٹی میں بے انصافی کے خلاف کوئی اندرونی مزاحمت موجود نہیں ہو گی اور لہٰذا ہر شخص ‘جس قدر دولت ممکن ہو سکے گی‘ اپنے لیے سمیٹ لے گا۔اس سے لازماً ایک دوسرے کے اوپر مختلف اقتصادی طبقات پیدا ہو جائیں گے۔ لیکن ایک اقتصادی طبقہ کے افراد متحد اور منظم نہیں ہوتے ۔ اُن میں سوائے اس بات کے کہ اُن کی آمدنی قریباً یکساں ہوتی ہے اور کوئی چیز مشترک نہیں ہوتی۔ لہٰذا ایک طبقہ دوسرے طبقوں کے خلاف برسرپیکار نہیں ہوتا بلکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک طبقہ کے افراد آپس میں ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہوتے ہیں۔
طبقاتی جنگ کی حقیت
آدرش یا نظریہ کی تحریک کے بغیر کوئی جنگ بلکہ کوئی عمل ممکن نہیں۔ مارکس جسے طبقات کی جنگ کہتا ہے وہ درحقیقت افراد کی جنگ ہے۔ ہر فردپر ایسے فرد کے خلاف‘ جو اُس کے مقاصد کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے اور جس حد تک وہ رکاوٹ پیدا کرتا ہے‘ نبرد آزما ہے۔خواہ وہ اس کے اپنے اقتصادی طبقہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہو یا اس سے نیچے کے طبقہ کے ساتھ یا اوپر کے طبقہ کے ساتھ اس جنگ کا محرک ہمیشہ فرد کا نظریہ ہوتا ہے کیونکہ فرد کے تمام مقاصد نظریہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس جنگ میں اگر فرد کوئی اقتصادی فائدہ حاصل بھی کر لے تو اس کی اہمیت بھی نظریہ سے ماخوذ اور متعلق ہوتی ہے ۔ ہر شخص‘ خواہ وہ کسی اقتصادی طبقہ سے تعلق رکھتا ہو ‘اپنا ایک نظریہ رکھتا ہے۔ایک اقتصادی طبقہ صرف اس وقت منظم ہو کر عمل کے قابل ہو سکتا ہے جب کوئی نظریہ اسے متحد کر دے لیکن اس صورت میں وہ ایک نصب العینی جماعت (Ideological Community) کہلائے گا نہ کہ اقتصادی طبقہ (Economic Class)۔
جماعتی اتحاد کا سرچشمہ
ہر اقتصادی طبقہ کے اندر مختلف نظریات ہوتے ہیں اور ہر نظریاتی جماعت کے اندر مختلف اقتصادی طبقات ہوتے ہیں‘ جب تک ایک ہی اقتصادی طبقہ کے افراد کا نظریہ ایک نہ ہو جائے‘ ضروری بات ہے کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف جنگ آزماہیں۔ مثلاً جب تاجر تجارتی اشیاء کی تشہیر کرنے اور خریداروں کو اپنی طرف کھینچنے کے بارہ میں اپنے ہم پیشہ افراد سے رقابت کا اظہار کرتے ہیں۔ اس کے برعکس جب افراد کا نظریہ ایک ہوجائے تو ‘خواہ وہ مختلف اقتصادی طبقات سے تعلق رکھتے ہوں اور ان کی دولت یا آمدنی کا معیار الگ الگ ہو ‘ضروری بات ہے کہ ان میں اتحاد ہو۔ایسے افراد بروقت ضرورت اپنی دولت آپس میں مساوی طور پر تقسیم کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ اتحاد ‘ عمل اور پیکار کا سرچشمہ فقط نظریہ کی محبت ہے۔
تاریخ کی گواہی
تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ جب کبھی افراد نے مل کر کام کیا تو اس کی وجہ ان کے نظریہ کی وحدت تھی۔ ایک اقتصادی طبقہ کے لوگ اس وقت تک مل کر کام نہیں کر سکتے جب تک ان کا نظریہ ایک نہ ہو جائے یا کوئی شخص تعلیم و تربیت سے اُن کا نظریہ ایک نہ کر دے۔
مارکس کے عمل کی گواہی
جب مارکس(Marx)اور اینگلز(Engels) نے اپنا منشور جس کے آخری الفاظ یہ تھے : ’’دنیا بھر کے مزدورو متحد ہو جاؤ‘‘ قلم بند کیا تو اس کی وجہ فقط یہ تھی کہ وہ جانتے تھے کہ جب تک مزدوروں کا نظریہ ایک نہیں ہو گا خواہ اُن کی اقتصادی حالت ایک ہی رہے وہ عمل کے لیے متحد نہیں ہو سکیں گے۔ اور نظریہ ان کی اقتصادی حالت سے خودبخود پیدا نہیں ہو گا بلکہ محنت اور کوشش اور تعلیم اور تربیت سے پیدا ہو گا‘ گویا نظریہ کا ماخذ بیرونی اقتصادی حالات نہیں بلکہ انسان کی فطرت کی ایک اندرونی استعداد ہے جسے تعلیم اور تربیت سے معرض عمل میں لایا جا سکتا ہے۔ یہ منشور اس بات کا ثبوت ہے کہ اشتراکیت کے بانی خود عملی طور پر اس بات کے قائل تھے کہ اقتصادی حالات نہیں بلکہ نظریات ہمارے اعمال پر حکمران ہیں اور نظریات اقتصادی حالات سے پیدا نہیں ہوتے بلکہ (وسیع معنوں میں) تعلیم و تربیت کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
مذہبی اقدار کا سہارا
انہوں نے مزدور کے دل میں آزادی اور انصاف کی خواہش کو بیدار کرنا چاہا‘ اور ظاہر ہے کہ آزادی اور انصاف مذہبی اور اخلاقی اقدار ہیں ‘جن کا ماخذ جذبۂ حسن ہے۔ گویا انہوں نے اپنے عمل سے اس بات کا ثبوت مہیا کر دیا ہے کہ وہ اس بات کے قائل تھے کہ ان اقدار کی خواہش ہی مزدور کو عمل پر آمادہ کر سکتی ہے۔ بنیادی طور پر ہماری جدوجہد ہمیشہ کسی نظریہ کے لیے ہوتی ہے ‘کسی مادی یا اقتصادی فائدہ کے لیے نہیں ہوتی۔ کیونکہ انسان کے تمام اعمال کا سرچشمہ صرف جذبۂ حسن ہے جو نظریہ کی محبت کی صورت اختیار کرتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کبھی اس جدوجہد کا نتیجہ کوئی مادی یا اقتصادی فائدہ بھی ہو۔
جدوجہد کا محرک
جب ایک اقتصادی گروہ کسی اقتصادی فائدہ کے لیے جدوجہد کر رہا ہو تو اس کا سبب یا تو یہ ہوتا ہے کہ اس گروہ میں تمام افراد کا نظریہ ایک ہی ہوتا ہے اور یا اُن کا نظریہ تو ایک نہیں ہوتا لیکن زیر نظر اقتصادی فائدہ ان کے مختلف نظریات کے حصول کے لیے ایک مشترک درمیانی ذریعہ یا واسطہ ہوتاہے۔ پہلی صورت میں وہ ایک نظریاتی جماعت کی حیثیت رکھتے ہیں اور محض ایک اقتصادی طبقہ نہیں لہٰذا وہ آخر تک پورے اتحاد کے ساتھ عمل کرنے کے قابل ہوں گے۔ وہ اس جماعت کی طرح ہیں جس کے افراد ایک مشترک مذہبی نظریہ کی محبت کی خاطر تمام اقتصادی فوائد سے بے پرواہ ہو کر ایک مقدس جنگ میں حصہ لینے کے لیے نکل آئیں۔
لیکن اگر ان افراد کے نظریات یا آخری مقاصد حیات الگ الگ ہیں اور مالی فائدہ فقط اس کے حصول کے لیے ایک درمیانی واسطہ یا ماتحت مقصد کی حیثیت رکھتا ہے تو اُن کا اتحاد مستقل اور مکمل نہیں ہوگا۔ جب ماتحت مقصد حاصل ہو جائے گا تو اُن میں سے ہر شخص اپنے اپنے نظریہ کے مطابق عمل کرنے لگے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جماعت کے بعض افراد کا نظریہ یہ تقاضا کرے کہ وہ اس ضمنی مقصد کے حصول کی جدوجہد کے درمیان میں ہی دوسروں سے الگ ہوجائیں۔ ایسی حالت میں نام نہاد’’طبقاتی مفاد‘‘ کے ساتھ غداری کی ایک مثال ہمارے سامنے آ جائے گی لیکن طبقاتی مفاد کے ساتھ ان لوگوں کی بے وفائی درحقیقت اپنے نظریہ کے ساتھ وفاداری ہے۔
تجربہ کی شہادت
تجربہ نے قطعی طور پر ثابت کر دیا ہے کہ ایک اقتصادی جماعت کے افراد کو ‘جو مختلف نظریات رکھتے ہوں‘ مکمل اتحاد کے ساتھ کام پر آمادہ نہیں کیا جاسکتا۔اس سے پہلے کہ وہ مل کر کوئی کام کریں اُن کے نظریات میں تعلیم و تربیت کے ذریعہ سے وحدت پیدا کرنا ضروری ہے۔ یہی سبب ہے کہ تجارتی انجمنوں (Trade Unions)کی تحریک جو انگلستان میں انیسویں صدی میں شروع ہوئی تھی‘ زیادہ کامیاب نہ ہو سکی اور یہی سبب ہے کہ انگلستان اور امریکہ کے مزدور روس کے مزدوروں کے ساتھ دنیا بھر کے ملکوں میں پرولتاری انقلاب پیدا کرنے کے پروگرام میں کسی اتحاد کا احساس نہیں کر سکے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جتنی دفعہ یورپ کے اشتراکیوں نے کوشش کی کہ مختلف قوموں کے مزدوروں کی ایک متحدہ جماعت بنائی جائے اتنی ہی دفعہ انہیں اس میں ناکامی ہوتی۔مختلف الخیال مزدوروں کے لیے متحد العمل ہونا فطرت انسانی کے قوانین کی رو سے ممکن نہیں۔
خوب و ناخوب کا ’’لیبل‘‘
اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کہ جذبۂ حسن یا نصب العین یا نظریہ ہی عمل کا محرک ہے‘ یہ بات کافی ہے کہ ہم وہی کام کرتے ہیں جسے ہم درست اور اچھا سمجھتے ہیں اور جس کام کو نادرست اور برا سمجھتے ہیں‘ اسے ترک کر دیتے ہیں۔ اچھے اور برے اور خوب اور ناخوب عمل کا امتیاز ہمارے نظریہ سے پیدا ہوتا ہے‘ جو ہمارے نزدیک اعلیٰ ترین خوبی یا اچھائی یا حسن کا تصور ہوتا ہے‘ یہ تصور ہمارے جذبۂ حسن سے پیدا ہوتا ہے۔ ہر کام کرنے سے پہلے ہم اس پر ’’خوب‘‘ یا ’’اچھا‘‘ کا لیبل (Label)لگاتے ہیں اور ’’اقتصادی لحاظ سے سود مند‘‘ کا لیبل نہیں لگاتے۔ خواہ ہم جانتے ہوں کہ اس کام کا نتیجہ کوئی اقتصادی فائدہ ہو گا۔ یہ امر کہ‘ خوب اور ناخوب عمل کے بارہ میں ہمارا اندازہ غلط ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے‘ اس حقیقت کو نہیں بدل سکتا۔خود شناسی کے ابتدائی مراحل میں زشت و زیبا کے متعلق ہمارے اندازے غلط بھی ہوتے ہیں لیکن ان کا رجحان صحت اور درستی کی طرف ہوتا ہے اور ہمارے تجربہ اور علم کی ترقی سے وہ صحت اور درستی میں ترقی کرتے جاتے ہیں۔
ارتکابِ جرم کی شرط
اور تو اور ایک چور یا گنہگار یا مجرم بھی جرم کا ارتکاب کرنے سے پہلے دلائل کے ساتھ اپنے ضمیر کو مطمئن کرلیتا ہے کہ وہ اچھا کام کر رہا ہے۔ جب تک اس کا ضمیر ’’اچھا‘‘ یا ’’خوب‘‘ کا فیصلہ صادر نہیں کرتا وہ جرم کا اقدام نہیں کرتا۔ ’’خوب‘‘ اور ’’ناخوب‘‘ کے غلط اندازے ادنیٰ اور گھٹیا قسم کے نظریات سے پیدا ہوتے ہیں ۔ بہرحال وہ نظریات سے پیدا ہوتے ہیں اور ہمارا عمل ہمیشہ ان ہی سے آغاز کرتا ہے جوں جوں نظریات کا معیار بلند تر ہوتا جاتا ہے ہمارے یہ اندازے درست تر ہوتے جاتے ہیں۔
کم و بیش کا احساس
جب دولت کی تقسیم میں ایک ریاضیاتی قسم کی ناہمواری موجود ہو تو ہم اسے آسانی سے معلوم کرلیتے ہیں اور اکثر اسے برداشت کرتے چلے جاتے ہیں بلکہ اسے ایک قدرتی چیز سمجھتے رہتے ہیں۔ حالانکہ وہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ معاشی یا اجتماعی (Social)حالات ناخوب اور ناپسندیدہ ہیں۔ محض ناپسندیدہ حالات کی موجودگی بلکہ اس علم کی موجودگی بھی کہ وہ موجود ہیں ان کو تبدیل کرنے کے لیے کوئی محرک نہیں۔ تبدیلی پر اُکسانے کے لیے ہمیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ وہ ناپسندیدہ ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس احساس کا منبع ہماری فطرت کا کوئی ایسا معیار ہے‘ جس سے یہ طے ہوتا ہے کہ کون سی چیز پسندیدہ ہے اور کون سی ناپسندیدہ ۔ نہ کہ کوئی ایسا معیار جو یہ طے کرتا ہے کہ اقتصادی یا مالی لحاظ سے زیادہ کیا ہے اور کم کیا ہے۔
خوب و زشت کا احساس
مالی لحاظ سے زیادہ اور کم کا احساس تو شروع ہی سے موجود تھا‘ لیکن یہ احساس بے بس تھا اور حالات میں کوئی تبدیلی پیدا کرنے سے قاصر تھا۔ خوب و زشت اور کم و بیش کے دو احساسات میں سے صرف پہلا احساس ہی عمل کا محرک ہے دوسرا نہیں۔ہم حالات میں صرف اسی وقت تبدیلی پیدا کرتے ہیں جب یہ احساس پید اہو جائے کہ خوب اور پسندیدہ عمل کیا ہے گو ان اقتصادی حالات کا علم جو تبدیلی چاہتے ہیں اس احساس کے ظہور سے بہت پہلے موجود ہو۔ اس سے ظاہر ہے کہ ہمارا عمل درحقیقت اس احساس یا اس تصور کے ماتحت اور اس کی خدمت کے لیے نمودار ہوتا ہے نہ کہ کسی اقتصادی فائدہ کے لیے۔
مزید ثبوت
اس کا مزید ثبوت یہ ہے کہ جب ہمارا عمل جس سے ہم مطلوبہ تبدیلی پیدا کرنا چاہتے ہیں اقتصادی فوائد کو ایک خاص شکل میں اور ایک خاص حد تک حاصل کر لیتا ہے تو خود بخود رک جاتا ہے۔ اور اقتصادی فوائد کی یہ شکل اور یہ حد بھی اس احساس سے معین ہوتی ہے کہ خوب اور پسندیدہ کیا ہے اور ناخوب اور ناپسندیدہ کیا ہے۔اگر حالات کی تبدیلی سے ہمارا مقصد صرف اقتصادی فوائد کا حصول ہی ہوتا تو چاہیے تھا کہ جب ہم ان فوائد کے حصول کے لیے اپنی کوششوں کو ایک دفعہ شروع کر دیتے تو پھر جب تک اس قسم کے مزید فوائد کی توقع موجود رہتی‘ ہماری کوششیں بھی جاری رہتیں۔ہم ایک خاص حد تک پہنچ کر اپنی جدوجہد کو چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ ہماری جنگ‘ حق ‘ انصاف‘ صداقت‘ خوبی‘ پسندیدگی اور حسن کے لیے ہوتی ہے نہ کہ ایک ایسی چیز کے لیے جو مالی یا اقتصادی لحاظ سے زیادہ قیمتی یاو زن دار سمجھی جائے۔
انقلاب آفریں فیصلہ
ایک معاشی نظام کو درہم برہم کرنے سے پہلے ہم فیصلہ صادر کرتے ہیں کہ وہ نادرست اور قابل نفرت ہے۔ اس فیصلہ کا ماخذ ہماری خود شعوری کا جذبۂ حسن ہے جو اسے پرکھنے کے لیے ایک معیار کا کام دیتا ہے۔ او رجب ہم کسی جماعت کو عمل کی دعوت دے رہے ہوں تو اس کے اثر کے لیے ہمیں تمام تر اس معیار پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے۔
قوتِ حرکت
مارکس اور اینگلز کو بھی اپنا منشور لکھتے ہوئے اسی پر انحصار کرنا پڑا خود شعوری کا جذبۂ حسن قوتِ عمل کا ایک محفوظ ذخیرہ ہے جو ہماری زندگی کی کَل کے تمام پرزوں کو حرکت میں لاتا ہے۔ تاریخ کے تمام بڑے بڑے انقلابات کا آغاز نئے فلسفوں سے ہوا ہے کیونکہ فلسفے نظریات کی تلقین کرتے ہیں اور جذبۂ حسن کی قوت کے نکاس کے لیے عمل کی نئی راہیں کھولتے ہیں۔
عملی تکذیب
جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہے اگر علمی اور عقلی نظریات بھی اقتصادی حالات کا نتیجہ ہیں تو اشتراکی دنیا بھر کے ملکوں میں اشتراکیت کا پروپیگنڈا کیوں کرتے ہیں۔ پھر مزدوروں اور کسانوں کو عقل اور علم کے نام سے تلقین اور نصیحت کی کیا ضرورت ہے۔ پھر تو عقل اور علم کی اپنی کوئی حیثیت ہی نہیں لیکن پروپیگنڈا یعنی مزدور کی تعلیم اور تربیت کے بغیر اشتراکیوں کو اپنے مقاصد میں کوئی کامیابی نہیں ہوتی۔ اگر ہم اس بات پر غور کریں کہ اشتراکی پروپیگنڈا کی ضرورت کیوں محسوس کرتے ہیں ۔ اشتراکی پروپیگنڈا کیا کام کرتا ہے۔ کس طرح سے مزدور کو اشتراکی بنا دیتا ہے تو ہمیں آسانی سے معلوم ہو جائے گا کہ نظریات اقتصادی حالات کا نتیجہ نہیں ہوتے بلکہ وہ اپنی جداگانہ ہستی رکھتے ہیں۔ فطرت انسانی کے اندر اُن کا ایک خاص منبع اور ماخذ ہے جسے مناسب طور پر متأثر کرنے کے بغیر ہم انہیں وجود میں نہیں لا سکتے‘ خواہ اقتصادی حالات کچھ ہوں۔
پروپیگنڈا سے نتیجہ
ظاہر ہے کہ اگر مزدور کی یہ خواہش کہ وہ اپنے لیے زیادہ دولت حاصل کرے ایک سرمایہ دار ملک میں اشتراکی انقلاب پیدا کرنے کے لیے کفایت کرتی تو اشتراکیوں کو پروپیگنڈا کی کوئی ضرورت پیش نہ آتی۔ کیونکہ ہر نادار اور مفلس مزدور یہ چاہتا ہی ہے کہ وہ دولت مند ہو جائے لیکن اس کی یہ خواہش اس غرض کے لیے کفایت نہیں کرتی کیونکہ وہ اس قدر کمزور ہوتی ہے کہ نہ تو اسے دولت مندوں کے خلاف اکساتی ہے اور نہ ہی اسے کسی انقلابی جدوجہد کے لیے آمادہ کرتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ خواہش اس کے نظریات کے ماتحت دبی ہوئی ہوتی ہے۔ مثلاً وہ سمجھتا ہے کہ اُسے ملک کے داخلی امن کی خاطر یا قومی استحکام کی خاطر یا اپنے ملک کی شہنشاہیت کو برقرار رکھنے کی خاطریا پرہیزگاری یا قناعت کی خاطر اس خواہش کو انقلابی طریقوں سے پورا نہیں کرنا چاہیے۔
نظریاتی تعلیم
لہٰذا جب تک یہ خواہش ان نظریات سے آزادانہ ہو اور خود ایک نظریہ بن کر اُن کی جگہ نہ لے لے وہ نہ تو طاقتور ہو سکتی ہے اور نہ ہی اپنی تکمیل کے لیے آزاد ہو سکتی ہے۔ جب وہ ایک نظریہ کی صورت اختیار کر لیتی ہے تو باقی تمام خواہشات اس کے تابع ہو جاتی ہیں۔ پھر وہ نہ صرف دوسرے نظریات کی ماتحتی سے آزاد ہو جاتی ہے بلکہ جذبۂ حسن کی قوت سے اپنی طاقت میں اضافہ کر لیتی ہے۔ ایسی حالت میں وہ مزدور کے سارے اعمال کا محرک بن جاتی ہے۔ اشتراکی مبلغ کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ مزدور کو ایک ایسا نظریۂ حیات دے دیا جائے جو اسے دوسرے تمام نظریات سے زیادہ جاذب اور دلکش نظر آنے لگے جو دوسرے تمام نظریات کو مٹا کر اس کے دل پر متمکن ہو جائے اور جس کا ایک عنصر انقلاب پیدا کرنے کی خواہش ہو لیکن چونکہ نظریات کا منبع دولت کی خواہش نہیں بلکہ حسن کی خواہش ہے لہٰذا وہ مزدور کی خواہش حریت و عدل کو ابھارتا ہے اور اسے سرمایہ دار کی بے انصافی کے خلاف نفرت دلاتا ہے۔ مارکس کا فلسفہ اور اشتراکیوں کا پروپیگنڈا پرانے نظریات اور معتقدات کو ہٹا کر ایک نئے نظریہ کو جو اشتراکیوں کی اغراض کے لیے مناسب اور موزوں ہو‘ مہیا کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اس کوشش کی غرض مزدور کو روحانی طور پر مفتوح و مغلوب کرنا ہے اور اس کی ساری اہمیت اس کے روحانی نتائج سے پیدا ہوتی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ مزدور کے جذبۂ حسن کی قوت کو جو اس وقت اور نظریات کے کام آ رہی ہے اُن سے الگ کر کے اشتراکی انقلابی نظریہ کے لیے وقف کر دیا جائے۔
جذبۂ حسن سے استعانت
ہر نظریہ کا منبع جذبۂ حسن ہے جس کے عناصر میں انصاف اور آزادی اور لہٰذا اقتصادی انصاف اور اقتصادی آزادی بھی شامل ہیں اور اشتراکی اپنے پروپیگنڈا میں اُن سے کام لے کر کامیاب ہوتا ہے۔ چونکہ مارکس کا نظریہ علمی نقطۂ نظر سے تمام دوسرے نظریات کی تردید کرنے کا مدعی ہے اس لیے ظاہر ہے کہ اس کا فلسفہ مزدور کی نظریاتی یا نصب العینی تقلیب اور نفسیاتی نوزائیدگی میں بڑا کام کرتا ہے اگر آج مزدوراشتراکی پروپیگنڈا کی وجہ سے سرمایہ پرستی کو ہر ملک میں تہہ و بالا کرنے پر آمادہ ہو تو اس کی وجہ یہ نہیں ہو گی کہ وہ کوئی ذاتی مالی فائدہ چاہتا ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہو گی کہ اب اس کا نظریہ اقتصادی عدل ہے اور وہ اپنے اس نظریہ کی جستجو سے ایک قلبی اطمینان حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس کی انقلابی سرگرمیوں کی وجہ صرف یہ خیال ہے کہ خواہ وہ ان کے بعدزندہ رہے یا نہ رہے‘ لیکن ان کی وجہ سے وہ دنیا کے ایک حصہ میں اقتصادی عدل قائم کر سکے گا اور یہ خیال ہرگز نہیں کہ اگر وہ زندہ رہا تو مالی لحاظ سے مستفید ہو گا۔ اس کا محرک عمل سرمایہ داروںکی دولت کا رشک نہیں بلکہ انصاف کی محبت اور بے انصافی سےنفرت ہے۔
ایک اور ثبوت
اس کا ثبوت یہ ہے کہ اشتراکی پروپیگنڈا سے مفلس مزدور ہی متأثر نہیں ہوتا بلکہ دولت مند سرمایہ دار بھی متأثر ہوتا ہے کیونکہ ایک انسان کی حیثیت سے اس کے دل میں بھی وہی جذبۂ حسن ہے جو مزدور کے دل میں ہے۔ چنانچہ گودولت مند یہ جانتا ہے کہ وہ ایک اشتراکی انقلاب سے اسے مالی لحاظ سے فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہو گا پھر بھی وہ کئی دفعہ مزدورکی مدد کے لیے تیار دیکھا جاتاہے۔ یہ طبقہ شناسی (Class Consciousness) نہیں بلکہ خود شناسی (Self Consciousness)ہے۔ ان حقائق سے صاف ظاہر ہے کہ اجتماعی انقلابات کا باعث نظریات ہیں نہ کہ اقتصادی حالات اور عمل اور جدوجہد کا منبع جذبۂ حسن ہے نہ کہ تقسیم کی دولت۔
غلط پیش گوئی
چونکہ مارکس اس غلطی میں مبتلا تھا کہ اقتصادی حالات ہی انقلابات پیدا کرتے ہیں اس لیے اُس نے آج سے قریباً ایک صدی پہلے یہ پیش گوئی کر دی تھی کہ انگلستان ایک اشتراکی انقلاب کے لیے بالکل تیار ہے۔ لیکن اس کی پیش گوئی ابھی تک پوری نہیں ہوئی اور نہ آئندہ اس کے پورا ہونے کی کوئی توقع ہے۔ یقینا اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ انگریز مزدور انگریزی قومیت کے نظریہ کو اشتراکی نظریہ سے زیادہ دلکش پاتا ہے اور اسے اشتراکیت کے عوض میں ہاتھ سے دینا نہیں چاہتا اور اس کی نسبت یہ بہتر سمجھتا ہے کہ اپنے جائز اقتصادی حقوق کو قانونی طریقوں سے ‘جو اس کے نظریہ کو نقصان نہ پہنچائیں‘ حاصل کرے۔ہمارا اشتراکی فلسفی یہ نہیں سمجھ سکا کہ عمل کا محرک صرف نظریہ ہے اور انسان اپنے نظریہ کی خاطر غیر محدود قربانیاں کر سکتا ہے اور مالی اغراض اس کی نگاہوں میں بسا اوقات ہیچ ہو کر رہ جاتی ہیں اور لہٰذا بالکل ممکن ہے کہ انگلستان کا مزدور اپنی اقتصادی مشکلات کے باوجود اشتراکیت کو کبھی قومیت پر ترجیح نہ دے سکے۔
ایک بھیانک خواب
یہ حقیقت کہ نظریات انسان کی اقتصادی زندگی کو معین کرتے ہیں اشتراکی فلسفیوں کے دل ودماغ پر ایک بھیانک خواب کی طرح چھائی ہوئی ہے اور وہ محسوس کرتے ہیں کہ اسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ گو وہ اس بات پر مجبور ہیں کہ مارکس کے اس بالکل متضاد عقیدہ پر بھی (جو اس کے فلسفہ کی روحِ رواں ہے) ایمان لائیں کہ انسان کی اقتصادی زندگی اس کے نظریات کو معین کرتی ہے۔
بدحواسیاں
لہٰذا ان کے حواس اکثر منتشر ہو جاتے ہیں اور وہ بے ربط اور متضاد باتیں کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ ’’مارکسی فلسفہ کی درسی کتاب‘‘ کے بعض فقرے ملاحظہ کیجیے:
اعترافات
’’لیکن ایک روسی جانتا ہے کہ ایک انسان کا نظریہ اہمیت رکھتا ہے وہ ناجائز نفع اندوزی اور طفیلیت کے پیچھے ایک واضح طاقت کے طور پر موجود ہوتا ہے اور اگر ہم اپنی سیاسی اور صنعتی تدابیر کے ساتھ ساتھ سرمایہ دارانہ فلسفہ کی تردید نہ کریں اور اس کے عوض میں ایک اور فلسفہ کی تبلیغ نہ کریں تو ہم سماج کی بیماریوں کو دور نہیں کر سکتے۔ روسی جس فلسفہ کو ردّ کرتے ہیں اس کے مغالطات کو جانتے ہیں اور ان کے پاس اپنا ایک فلسفہ ہے جو ان کی آنکھوں کو ہر چیز کے دیکھنے کے لیے روشنی بخشتا ہے‘‘۔
’’اس بات سے ان لوگوں کو تعجب ہوگا جنہوں نے ہمیشہ یہ سمجھا ہے کہ اشتراکی فلسفہ کا اوّلین اصول یہ ہے کہ نظریات اقتصادی حالات سے پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن گو کوئی نظریہ محض خیالات کی پرواز سے اور سماج کی ضروریات سے الگ تھلگ وجود میں نہیں آتا۔ تاہم جب کوئی نظریہ ایک دفعہ جنم لے لے تو یہ ایک مستقل قوت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اگر اس پر یقین کیا جائے تو جس اقتصادی نظام کی یہ پیداوار ہوتا ہے اسے ہمیشہ قائم رکھنے میں مدد دیتا ہے اور اگر اسے باطل ثابت کر دیا جائے تو اس نظام کی ایک بنیاد گر جاتی ہے۔ اس لیے ایک روسی چیسٹرٹن(Chesterton) سے اتفاق رکھتا ہے کہ انسان کی جو چیز عملی طور پر اہم ہے وہ کائنات کے متعلق اس کا نظریہ ہے‘‘۔
’’ہم سمجھتے ہیں کہ ہوٹل کی ایک مالکہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسافر سے پوچھے کہ اس کی آمدنی کیا ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ وہ دریافت کرے کہ اس کا نظریۂ کائنات کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایک سپہ سالار کے لیے جو دشمن سے جنگ کر رہا ہو یہ دریافت کرنا ضروری ہے کہ دشمن کی فوجوں کی تعداد کیا ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ وہ دریافت کرے کہ دشمن کا فلسفہ کیا ہے‘‘۔
’’تاریخ عالم میں کوئی بڑی تحریک ایسی وجود میں نہیں آئی جو ایک فلسفیانہ تحریک نہ تھی۔ بڑے بڑے نظریات کے ابھرنے کا زمانہ بڑے بڑے نتائج کے رونما ہونے کا زمانہ تھا‘‘۔
’’درحقیقت یہ قطعاً ناممکن ہے کہ کوئی شخص اپنے ذہن کو فلسفہ سے بالکل آزاد رکھے … وہ شخص جو کہتا ہے کہ وہ فلسفی نہیں درحقیقت ایک گھٹیا فلسفی ہے‘‘۔
مارکس کی تکذیب
ظاہر ہے کہ اشتراکی فلسفیوں کا یہ سلسلۂ اعترافات کہ انسان کا نظریہ ناجائز نفع اندوزی اور طفیلیت کا صریحی اور قطعی سبب ہوتا ہے کہ جب تک نظریہ کا استیصال نہ ہو ‘ سماجی امراض کا علاج ممکن نہیں‘ کہ نظریہ بذاتِ خود ایک طاقت ہے کہ نظریہ عملی لحاظ سے انسان کی اہم ترین چیز ہے کہ بڑے بڑے نظریات بڑے بڑے واقعات کا سبب ہوتے ہیں‘ نتیجہ نہیں ہوتے‘اگر مارکس کے بنیادی عقیدہ کا انکار نہیں تو کچھ بھی نہیں۔
ناممکن باتیں
کس طرح سے ممکن ہے کہ اقتصادی حالات میں نظریات پیدا کرنے کی خاصیت ہو اور پہلے وہ خود ایک نظریہ کو پیدا کریں پھر ایک مرحلہ پر اُن کی یہ خاصیت خود بخود بغیر کسی وجہ کے بدل جائے اور وہ نہ صرف نظریہ پر اثر انداز ہونے سے رک جائیں بلکہ الٹا ان سے متأثر ہونے لگیں اور نظریہ ‘جو اُن ہی کا مخلوق تھا ‘ان پر ایسا حکمران اور مسلط ہو کہ جب تک اسے ہٹایا نہ جائے اقتصادی حالات میں کوئی تبدیلی کرنا ممکن نہ ہو اور خواہ اقتصادی حالات کیسے ہی ناہموار اور ناخوشگوار ہوں ‘ انسان ان کو خوشی سے برداشت کرتا چلا جائے۔کس طرح سے ممکن ہے کہ پہلے ایک علت اپنے معلول کوپیدا کرے اور پھر اپنی سرشت بدل کر اپنی علت ہی کی علت بن جائے۔ کبھی ایسا نہیں دیکھا گیا کہ قدرت کے قوانین میں علت اور معلول نے اپنی جگہوں کو بدل لیا ہو یعنی کچھ عرصہ کے لیے علت علت ہو اور معلول معلول ہو اور پھر علت معلول اور معلول علت بن جائے۔ دو متضاد خاصیات ایک ہی چیز میں جمع نہیں ہو سکتیں۔ کس طرح سے ممکن ہے کہ نظریات اقتصادی حالات کا باعث بھی ہوں اور نتیجہ بھی ہوں‘ کس طرح سے ممکن ہے کہ ایک وقت میں دن بھی ہو اور رات بھی ہو۔
بہکی بہکی باتیں
اگر یہ سب باتیں ممکن ہیں تو پھر یہ بتانا مارکسیوں کے ذمہ ہے کہ پہلے اقتصادی حالات نظریہ کو کیوں پیدا کرتے ہیں ۔بعد میں کس مقام پر اور کیوں نظریہ پر اثر انداز ہونے سے رک جاتے ہیں اور پھر کیوں اپنی فطرت کے برعکس نظریہ سے متأثر اور مجبور ہونے لگ جاتے ہیں۔ اور پھر ہم کس طرح سے معلوم کر سکتے ہیں کہ کسی خاص وقت پر نظریہ اقتصادی حالات پر اثر انداز ہو رہا ہے یا اقتصادی حالات نظریہ پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ لیکن مارکسی فلسفیوں کے پاس ان سوالات کا کوئی جواب نہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ یہاں اُن کے خیالات میں کوئی عقلی ترتیب اور نظم باقی نہیں رہا۔
ایسے زوردار الفاظ میں نظریات کو اقتصادی حالات پیدا کرنے والی اور قائم رکھنے والی قوت تسلیم کرنے کے بعد اُن کا یہ کہنا کہ کوئی نظریہ محض پروازِ خیال کا نتیجہ نہیں ہوتا اور سماج کی ضروریات سے الگ وجود میں نہیں آتا‘ ان کے بنیادی عقیدہ کو ثابت نہیں کرتا۔ کون کہتا ہے کہ ایک نیا نظریہ محض پروازِ خیال کا نتیجہ ہوتا ہے اور سماج کے اقتصادی حالات سے اُس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
فطرت انسانی کا خاصہ
مہذب انسان یعنی طرزِ زندگی میں حسن کی جستجو کرنے والے انسان کے اقتصادی حالات کو نظریات کی مخلوق قرار دینے والے یہ کہتے ہیں کہ نظریہ کی محبت انسان کی فطرت کا ایک مستقل خاصہ ہے جس کی وجہ سے انسان چاہتا ہے کہ کسی ایسے تصور سے محبت کرے جس میں تمام صفاتِ حسن بدرجۂ کمال موجود ہوں۔ لہٰذا یہ نظریہ محض پروازِ خیال کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ ہمارے اندازئہ حسن کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جس تصور میں بھی صفات حسن بدرجۂ کمال نظر آئیں ہم اُسی کو اپنا نظریہ بنا لیتے ہیں۔ لیکن ہم اکثر اوقات غلطی کرتے ہیں اس لیے ایک ناقص نظریہ کو چھوڑ کر ایک کامل تر نظریہ کی طرف اپنا رخ بدلتے رہتے ہیں۔
خارج میں ظہور
اور پھر نظریہ کی محبت کوئی ایسی چیز نہیں جو محض خیال میں رہتی ہو بلکہ وہ انسان کے گرد و پیش کے حالات میں اپنا جلوہ دکھانا چاہتی ہے۔ وہ ان حالات کو بدلنے والی ایک شدید اور زبردست قوتِ عمل ہے۔ اور صرف وہی ایک قوت ہے جو اُن حالات کو بدلتی ہے۔ نظریہ چونکہ انسان کی زندگی کے تمام حالات پر ‘جن میں اقتصادی حالات بھی شامل ہیں‘چھاجاتا ہے‘ اس لیے اس کا کمال یا نقص اور اس کی اچھائی یا برائی کا عکس حالات میں نظر آنے لگتا ہے۔ ہر نظریہ اُس خاص قسم کے حالات چاہتا ہے اور پیدا کرتا ہے جو اس نظریہ کی فطرت سے مناسبت رکھتے ہوں جب تک وہ نظریہ موجود رہے ‘ وہ حالات موجود رہتے ہیں۔ اگر نظریہ کسی پہلو سے ناقص اور نادرست ہو یعنی اس میں تمام صفاتِ حسن موجود نہ ہوں تو ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں جو ہمار ے لیے تسلی یا اطمینان کا باعث نہیں ہوتے یعنی ہمار ے جذبۂ حسن کو مطمئن نہیں کر سکتے مثلاً دولت کی تقسیم ناہموار ہو جاتی ہے یا ہماری اخلاقی حالت گر جاتی ہے۔ ایسی حالت میں ہم فوراً معلوم کر لیتے ہیں کہ وہ نظریہ ‘جس نے یہ حالات پیدا کیے ہیں‘ غلط اور ناقص ہے۔ لہٰذا ہم اس نظریہ سے متنفر ہو جاتے ہیں اور اپنے جذبۂ حسن کو مطمئن کرنے کے لیے ایک نئے نظریہ کو اختیار کرنا چاہتے ہیں ‘جس میں وہ نقائص موجود نہ ہوں‘ جو حالات کی خرابی کا موجب ہوئے تھے اور چونکہ یہ نظریہ بھی حالات میں اپنا ظہور چاہتا ہے لہٰذا حالات بدل کر اس کے مطابق ہو جاتے ہیں۔
غلط فہمی کا باعث
اس سے مارکسیوں کو غلط فہمی ہوتی ہے کہ نیا نظریہ اقتصادی حالات سے پیدا ہو ا ہے۔ حالانکہ پہلے نظریہ کی صورت میں بھی نظریہ پہلے وجود میں آیا تھا اور اس کے ساتھ مناسبت رکھنے والے اقتصادی حالات بعدمیں پیدا ہوئے تھے اور دوسرے نظریہ کی صورت میں بھی نظریہ پہلے وجود میں آیا تھا اور اس کے ساتھ مطابقت رکھنے والے اقتصادی حالات بعد میں پیدا ہوئے تھے۔ یہ امر کہ نظریہ کو بدلنے کی وجہ وہ اقتصادی حالات تھے ‘ جن کو ہم نے غلط اور قابل نفرت قرار دے دیا تھا‘ مارکسیوں کے نتیجہ کے بالکل برعکس اس بات کا ثبوت ہے کہ نظریہ اقتصادی حالات پیدا کرتا ہے اور اقتصادی حالات نظریہ کو پیدا نہیں کرتے۔ نیا نظریہ اس لیے وجود میں آتا ہے کہ پہلے نظریہ کی جگہ لے لے جس نے پہلے اقتصادی حالات جنہیں ہم نے غلط قرار دے دیا تھا ‘ پیدا کیے تھے اور وہ نئے اقتصادی حالات پیدا کرے جن کو ہم صحیح قرار دے رہے ہیں۔دونوں صورتوں میں ہمارا اعتقاد یہ ہوتا ہے کہ اقتصادی حالات کو معین کرنے والی قوت نظریہ ہی ہے۔ اگر حقیقت اس کے برعکس ہوتی یعنی اگر اقتصادی حالات نظریہ کو پیدا کرتے ہوتے تو ہم سب سے پہلے اقتصادی حالات کو بدلنے کی فکر کرتے اور نظریہ کی پرواہ نہ کرتے کیونکہ وہ خود بخود اقتصادی حالات کے مطابق وجود میں آ جاتا۔
ناقابل تردید ثبوت
لیکن یہ حقیقت (جسے مارکسی تسلیم کرتے ہیں) کہ نظریہ کو تبدیل کرنے کے بغیر اقتصادی حالات کو تبدیل کرنا ممکن نہیں اس بات کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے کہ نظریہ اقتصادی حالات کو معین کرتا ہے۔ ہم سب سے پہلے نظریہ کو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ ہمیں یقین ہوتا ہے کہ اقتصادی حالات اس کے ماتحت ہیں اور جب نظریہ بدل جائے گا تو اقتصادی حالات خود بخود اس کے مطابق بدل جائیں گے۔ اگر اقتصادی حالات ہی سب کچھ ہیں تو مارکسیوں کے نزدیک انسان نظریہ سے ایسی محبت کیوں کرتا ہے کہ اس کی خاطر اقتصادی ناہمواریوں کی بھی پرواہ نہیں کرتابلکہ انہیں خوشی سے برداشت کرتا ہے حتیٰ کہ جب ہم اقتصادی ناہمواریوں کا علاج کرنا چاہیں تو مجبور ہوتے ہیں کہ پہلے اس کے نظریہ کو تبدیل کریں؟
غلط نتیجہ
مارکس کی یہ بنیادی غلط فہمی کہ اقتصادی حالات انسان کی نظریاتی سرگرمیوں کو معین کرتے ہیں نہ صرف فطرتِ انسانی اور تاریخِ انسانی کے حقائق کے خلاف ہے بلکہ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کائنات کی حقیقت مادہ ہے۔
پرانی باتیں
انیسویں صدی میں جب مارکس نے اپنا فلسفہ مدون کیا تھا۔ ماہرین طبعیات مادہ کو فی الواقع حقیقی سمجھتے تھے اور بے شک یہ ایک سبب تھا جس کی وجہ سے مارکس کو اپنا مادیاتی فلسفہ مرتب کرنے کی جرأت ہوئی۔ لیکن چونکہ مارکس کے فلسفہ کی بنیاد غلط ہے ‘ ضروری تھا کہ اس کے تمام نتائج غلط ہوتے۔
جدید تحقیقات
آج ماہرین طبعیات کی تحقیق نے اُن پر روشن کر دیا ہے کہ انیسویں صدی میں انہوں نے مادہ کی حقیقت کے متعلق ‘جو رائے قائم کی تھی ‘وہ غلط تھی۔آج وہ محسوس کرتے ہیں کہ جدید حقائق جو منکشف ہوئے ہیں یہ ثابت کر رہے ہیں کہ مادہ حقیقی نہیں بلکہ شعور حقیقی ہے۔ ڈارون کے نظریہ کی بحث میں ہم نے مختصر طور پر بتایا ہے کہ کس طرح سے ماہرین طبعیات کے اس نتیجہ کو علم الحیات کے بعض حقائق سے مزید تقویت پہنچتی ہے۔ گویااس صدی کے علمی انکشافات سرعت سے مارکس کے فلسفہ کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔
ناکام کوشش
اس میں شک نہیں کہ مارکسی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں کہ اپنے معلم کے فلسفہ کی ایسی تشریح کر دیں جس سے وہ طبعیات اور حیاتیات کے جدید انکشافات کے مطابق ہو جائے لیکن اس سلسلہ میں ان کی ساری کوششوں کا مقصد یہ ہے کہ ان انکشافات کی اہمیت کو گھٹا کر بیان کیا جائے اور اُن کے نتائج اور معانی اور مطالب کو محدود کر دیا جائے۔ لہٰذا ان کی یہ کوشش از سرتاپا ناکام رہی ہے۔
عارضی دور
مارکسزم کا دور تاریخ بشر کا ایک عارضی مرحلہ ہے۔ ہم زیادہ عرصہ تک اس نظریہ کے ساتھ وابستہ نہیں رہ سکتے کیونکہ مارکسزم ہمیں ہماری فطرت کے سب سے زیادہ طاقتور جذبہ یعنی جذبۂ حسن کی تشفی سے محروم کر کے صرف جبری اقتصادی مساوات پر قانع کرنا چاہتا ہے ۔ کچھ عرصہ کے لیے ممکن ہے کہ انسان خود فریبی میں مبتلا رہے اور اس نظریہ پر قناعت کر لے لیکن غیر محدود عرصہ کے لیے ممکن نہیں۔
ارتقاء کی سمت
ہماری اصل ضرورت اور اہم ترین ضرورت لاشعوری جذبۂ حسن کی تشفی ہے اور اقتصادی خوشحالی اس کے حصول کے لیے زندگی کو برقرار رکھنے کا ایک ذریعہ ہے۔ ہم اقتصادی طور پر خوشحال بھی ہوں تو پھر بھی ہمارا غیر مطمئن جذبۂ لاشعور ہمیں بے قرار رکھتا ہے۔ جب تک اس جذبہ کی تشفی کا پورا اہتمام نہ ہو جائے ضروری بات ہے کہ ہم بے قرار رہیں اور اس اہتمام میں کامیاب ہونے کے لیے تجربات کرتے رہیں۔ ان تجربات سے ہی نوعِ بشر کی تاریخ بن رہی ہے۔ فرض کیا کہ اشتراکی آمریت کرئہ ارض پر پھیل جاتی ہے اور تمام انسانوں میں دولت مساوی طور پر تقسیم ہونے لگتی ہے۔ اس قسم کے معاشرہ کا آئندہ ارتقاء کس سمت میں ہو گا۔ مارکسزم کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں۔ دراصل انسان کا ارتقاء حسن و کمال کی جستجو پر موقوف ہے‘ یہ جستجو ہمیشہ جاری رہ سکتی ہے۔ انسان اپنے ارتقاء کی انتہائی منزل پر اس وقت پہنچے گاجب لاشعور کے تمام سربستہ رموز اس پر منکشف ہو جائیں گے اور اس کی غیر محدود طاقتیں اس کی غلام ہو جائیں گی۔
مارکسیوں کا سب سے بڑا فخر یہ ہے کہ مارکس نے واضح طور پر بتایا ہے کہ انسانی معاشرہ کا ارتقاء کس سمت میں ہو رہا ہے لیکن حقائق بتا رہے ہیں کہ دراصل یہی وہ چیز ہے جو مارکس واضح طور پر نہیں بتا سکا۔