قرآن اور علمِ جدید (یونی کوڈ فارمیٹ)

بے بسی کا عالم!

مغربی تصورات کے پیدا کیے ہوئے فتنۂ ارتداد کے خلاف ہمارا ردِّعمل اگرچہ کئی طرح کا ہے۔ لیکن اب تک اس کاحل مکمل بے بسی کے سوا ئے اور کچھ نہیں۔ اس میں وہ غیرت دینی کا مظاہرہ اور وہ جوش وخروش بالکل نہیں جو مذاہب کے پیدا کیے ہوئے فتنۂ ارتداد کے خلاف ہمارے ردِّعمل کا ایک جزو تھا۔

 

لاعلمی

ہم میں سے بعض تو ایسے ہیں جنہیں اس فتنہ کا علم ہی نہیں وہ خود محلہ کی مسجد میں نماز پڑھتے ہیں اور نمازی اور دین دار مسلمانوں سے ان کا میل جول ہے۔ باقی مسلمانوں کو جو اس فتنہ کی نذرہو چکے ہیں وہ فقط بے دین مسلمان کہتے ہیں اور ان سے ناراض ہوتے ہیں کہ وہ نماز نہیں پڑھتے‘ روزہ نہیں رکھتے اور دوسرے احکام دین پر عمل نہیں کرتے ۔ چونکہ ’’یہ مغرب زدہ‘‘ مسلمان اسلامی عقائد سے برگشتہ ہونے کے باوجود دائرہ اسلام کے اندر ہی رہتے ہیں اس لیے متدیّن مسلمانوں کو ان کے اسلام پر دھوکہ ہوتا ہے اور وہ نہیں جانتے کہ جب اسلام پر ان لوگوں کا اعتقاد ہی باقی نہیں رہا تو ان کے لیے نماز پڑھنا اور دوسرے احکامِ دین پر عمل کرنا کس طرح ممکن ہے؟

 

بے اعتنائی

پھر ہم میں سے بعض ایسے ہیں جنہیں اس فتنہ کے وجود کا علم تو ہے لیکن وہ اسے بے معنی اور ناقابل اعتناء سمجھتے ہیں وہ ایک احمقانہ خود اعتمادی کا شکار ہیں اور مغرب کے گمراہ کن فلسفیانہ تصورات کی معقول اور مدلل تردید مہیا کرنے کی بجائے ان کے مقابلہ میں اسلام کی عمدگی اور معقولیت کے زبانی بلاثبوت دعوؤں سے اپنے آپ کو مطمئن کر تے رہتے ہیں۔ پھر بعض ایسے ہیں جو اس فتنہ کو بالکل بے معنی اور ناقابلِ اعتناء تو نہیں سمجھتے لیکن یہ نہیں جانتے کہ اس کا اثر کس قدر وسیع اور گہرا ہے اور دن بدن کس قدر سرعت کے ساتھ اس کی وسعت اور گہرائی میںاضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ اگر اس کے خلاف اسلام کی فوری اور مؤثر مدافعت کاانتظام نہ کیا گیا تو ملت کا وجود کس قدر خطرہ میں ہے۔

 

سہل گیری

پھر بعض ایسے ہیں جو اس فتنہ کے پیدا کیے ہوئے خطرہ کااحساس تو کرتے ہیں لیکن‘اس کے مقابلہ کے لیے اپنے آپ کو بے بس پاتے ہیں۔ وہ دبک کر ایک کونے میں بیٹھتے ہیں۔

 

خوش اعتقادی

اور اسلام کے مستقبل پر اپنے یقین کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ عنقریب کوئی معجزہ عمل میں آئے گا جو ملت کو اس خطرہ سے بچا لے گا۔ ان کو معلوم نہیں جب کسی قوم کی زندگی میں کوئی معجزہ رونما ہوتا ہے تو وہ قوم خود ہی اس کا ذریعہ بنتی ہے اور خدا کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ قوم خود اپنی حالت کو نہ بدلے:

 

{  اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْم حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ}  (الرعد:۱۱)

 

’’خدا کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت نہ بدلیں‘‘۔

 

ناکام تردید

پھر بعض ایسے بھی ہیں جنہوںنے ان تصورات کی تردید کی طرف توجہ کی ہے لیکن ان کی تردید کئی پہلوؤں سے ناتمام ہونے کے باعث مخالف یا غیر جانبدار لوگوں پر کوئی اثر پیدا نہیں کر سکی کیونکہ انہوں نے ان تصورات کے اصلی ماخذ کے حقائق اور طرزِاستدلال کو نگاہ میں نہیں رکھا یا ان کا روئے سخن اپنوں کی طرف رہا ہے۔ بالخصوص ایسے اپنوں کی طرف جو پہلے ہی ایک غافلانہ خود اعتمادی کا شکار ہیں اور انہوں نے ان بیگانوں کو خطاب نہیں کیا جو ان تصورات کے معتقد ہیں اور جن کی تبلیغ ان تصورات کے زہر کو پھیلانے کا موجب ہو رہی ہے۔ لہٰذا انہوں نے علمی تحقیق اور عقلی استدلال کی نسبت اپنے اعتقادات پر انحصار کیا ہے یا انہوں نے جن تصورات کی تردید کی ہے ان کی جگہ نئے صحیح تصورات پیش نہیں کیے۔ مثلاً مارکس کے نظریۂ تاریخ کی تردید کرنے کے بعد یہ نہیں بتایا کہ اسلامی نظریۂ تاریخ کیا ہے؟ یا اگر انہوں نے ان کی جگہ صحیح اسلامی تصورات پیش کیے ہیں تو یہ نہیں بتایا کہ علمی تحقیق اور عقلی استدلال کی رو سے وہ کیوں صحیح ہیں اور ان سے جو سوالات پیدا ہوتے ہیں ان کا جواب کیا ہے؟ مثلاً اگر مارکس کے فلسفۂ تاریخ کے مقابلہ میں اسلامی فلسفۂ تاریخ پیش کیا ہے تو اسے علمی لحاظ سے درست ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی اور فقط دعویٰ بلادلیل پر اکتفا کیا ہے یا انہوں نے ایک مکمل اور عقلی طور پر منظم نظریۂ کائنات کی تردید کرتے ہوئے خود جو نظریۂ کائنات پیش کیا ہے اسے عقلی اور منطقی طو رپر منظم اور مکمل نہیں کیا۔ تصورات باطلہ کی ایسی تردید دنیا کے حکماء پر جو اثر پیدا کر سکتی تھی وہ ظاہر ہے۔

 

غیروں کا طعنہ

یہی سبب ہے کہ ان تصورات کے حامیوں اور مبلغوں نے بلکہ غیر جانبدار لوگوں نے بھی آج تک یہ تسلیم نہیں کیا کہ ان تصورات کا جواب دینا تو درکنار مسلمانوں میں سے کسی نے اسلام سے ان کے تعارض اور تضاد کا ذکر تک بھی کیا ہو۔ چنانچہ ’’موڈرن اسلام ان انڈیا‘‘ کا امریکن مصنف پروفیسر سمتھ لکھتاہے:

 

’’جہاں دس یا بیس سال پہلے بازاروں کے موڑوں پر مذہبی مناظرے ہوا کرتے تھے اور تعلیم یافتہ مسلمان افکارِ جدید کے متعلق کتابیں پڑھ پڑھ کر اپنا سر کھپاتے تھے آج مسلمان نوجوان ان علمی مشکلات سے بے خبر اور بے پرواہ ہے جو زندگی کے صحیح راستہ کی حیثیت سے مذہب کے سامنے آتی ہیں۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح سے آزاد خیال مسلمانوں نے ان اعتراضات کا قریباً قریباً مکمل جواب دیا جو عیسائیوں نے اسلام پر وارد کیے تھے۔ آج ترقی پسند مسلمان اس جواب کو کافی سمجھتا ہے اور کوئی مسلمان ایسا پیدا نہیں ہوتا جو جواب دینا تو درکنار ان اعتراضات کا فقط ذکر ہی کرے جو اس زمانہ میں فلسفی‘ مؤرخ‘ ماہر نفسیات اور ماہر اجتماعیات نے اسلام پر اور سارے مذاہب پر وارد کر رکھے ہیں جس طرح انیسویںصدی کے کٹر مسلمان جو عیسائیوں اور آزاد خیال مغربیوں کے اعتراضات کا جواب دینے سے انکار کرتے تھے اور سرسید احمد اور امیر علی کو ان کے جواب دینے کی وجہ سے برا سمجھتے تھے‘ قدامت پسندی کا سہارا تھے۔ اسی طرح سے وہ مسلمان جو ان جدید اعتراضات کا جواب دینے سے قطع نظر کرتے ہیں۔ قدامت پسند جماعتوں کا سہارا ہیں‘‘۔

 

غلط تردید

یہی نہیں بلکہ اسلامی نقطۂ نظر سے بھی ان کی تردید اکثر اوقات ناقص اور غلط ہو گئی ہے۔ چونکہ مغرب کے باطل تصورات میں حق کا امتزاج بھی ہے اور وہ اسلامی اور غیر اسلامی تصورات کے ایک مرکب کی صورت میں ہیں۔ لہٰذا کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ انہوں نے اسلامی اور غیر اسلامی تصورات میں فرق نہیں کیا۔ بعض وقت غیر اسلامی تصورات کو اسلامی سمجھ کر اُن کی حمایت کر گئے ہیں اور بعض وقت اسلامی تصورات کو غیر اسلامی سمجھ کر ان کی مخالفت پر اتر آئے ہیں۔

 

انہوں نے نادانستہ طور پر کبھی تو باطل تصورات کی مخالفت‘ بعض دوسرے باطل تصورات کی مدد سے کی ہے اور کبھی صحیح تصورات کی حمایت کے لیے بعض دوسرے صحیح تصورات کی مخالفت کر ڈالی ہے۔ نتیجہ یہ ہوا ہے کہ نہ صرف ان کی تردید غلط ‘ناقص اور بے اثر رہی ہے بلکہ اس کی وجہ سے اسلام کا نقطۂ نظر بھی غلط طور پر پیش ہو گیا ہے۔

 

 

 

قرآن اور علمِ جدید (یونی کوڈ فارمیٹ)