قرآن اور علمِ جدید (یونی کوڈ فارمیٹ)

مکیاولی (نظریۂ وطنیت)

 

ایک مکمل نظریہ

وطنیت یا علاقائی قومیت کا نظریہ بالقوہ انسان اور کائنات کا ایک مکمل نظریہ ہے کیونکہ وہ اپنے معتقد کی پوری زندگی کو معین کرتا ہے۔ لیکن وہ ایک مدلل اور منظم فلسفہ یا نظامِ حکمت کی صورت میں نہیں۔خود مکیاولی نے عقلی اور علمی لحاظ سے اس نظریہ کو درست ثابت کرنے کے لیے کوئی دلائل نہیں دیئے۔ اپنی کتاب دی پرنس (The Prince) میں جو اس نظریہ کے پرستاروں کی ایک مقدس کتاب کی حیثیت رکھتی ہے اُس نے جو طرزِ بیان اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ اگر وطن کو ایک آدرش یا نصب العین مان لیا جائے (اور وہ فرض کرتا ہے کہ اسے ایک آدرش مانا جا چکا ہے) تو پھر اس آدرش کی حفاظت اور خدمت کے تقاضے کیا ہوتے ہیں۔

 

مکیاولی کا موقف

مکیاولی کی کتاب ایک سچے وطن پرست حکمران کے لیے قواعد حکومت مرتب کرتی ہے اُس کے افکار کا ایک خاکہ اس کتاب کے پہلے حصہ میں دیا جا چکا ہے۔ بالاختصار اس کا خیال یہ ہے کہ بہترین حکمران وہ ہے جس میں وطن کی محبت کے علاوہ اور تمام خواہشات اور جذبات مردہ ہوں۔ انصاف اور ظلم‘ رحم اور بے رحمی‘ جھوٹ اور سچ‘ عزت اور بے عزتی اس کے نزدیک بے معنی الفاظ ہوں اور وہ اپنی عاقبت ‘اپنی ضمیر یا اپنی سیرت کو بچانے کی بجائے اپنے وطن عزیز کو بچانے کے لیے ہمیشہ تیار رہے۔ اگر اس کے موقف کو ایک فقرہ میں بیان کیا جائے تو وہ یہ ہے کہ ’’بددیانتی ایک سچے وطن پرست حکمران کے لیے بہترین حکمت عملی ہے‘‘۔

 

صحیح نتائج

درحقیقت اگر وطن کو ایک آدرش یا نظریۂ حیات مان لیا جائے تو مکیاولی کا موقف عقلی طور پر بالکل صحیح ثابت ہوتا ہے اور ہم مجبور ہوتے ہیں کہ پھر اس کے تمام نتائج کو تسلیم کریں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اصول اخلاق جو ہمارے عمل کو معین کرتے ہیں ہمیشہ کسی نہ کسی آدرش سے پیدا ہوتے ہیں اور اُن کا وجود محض خلا میں نہیں ہوتا۔ پھر ہر آدرش کے اصول اخلاق الگ ہوتے ہیں جو اس آدرش کے تقاضوں سے پیدا ہوتے ہیں اور اس کے حصول کے لیے موید اور معاون ہوتے ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم محبت کے لیے تو ایک آدرش کو منتخب کریں اور عمل کے لیے جن اصول اخلا ق کی پابندی کریں وہ کسی اور آدرش سے ماخوذ ہوں۔ اس طرح سے ہم اپنے آدرش کی خدمت یا حفاظت نہیں کرتے‘ بلکہ اُس کی قیمت پر اس آدرش کی خدمت یا حفاظت کرتے ہیں جس کے اصولِ اخلاق کو ہم اپنا رہے ہوں۔ نیکی کی تمام قسمیں‘ انصاف‘ سچائی‘ رحم‘ دیانت داری وغیرہ خدا کے تصور سے پیدا ہوتی ہیں۔ لہٰذا اگر مکیاولی کہتا ہے کہ وہ شخص جو نیکی کو نیکی کے لیے اختیار کرتاہے  سچا وطن پرست نہیں ہو سکتا تو اس کا کہنا بالکل صحیح ہے اور وہ شخص غلطی پر ہے جو سمجھتا ہے کہ ہم وطن پرستی کے ساتھ ساتھ نیکی‘ مذہب اور اخلاق کے تقاضوں کو بھی  پورا کر سکتے ہیں۔

 

عظیم انسان

مکیاولی کی عظمت اس بات پر موقوف ہے کہ اس نے وطن پرستوں کو ان کے فرائض اور ذمہ داریوں سے آگاہ کیا ہے اور بتایا ہے۔ خدا‘ مذہب اور اخلاق کے بارہ میں ان کا اصلی اور صحیح مقام یہ ہے کہ یا وہ خدا‘ مذہب اور اخلاق کے خیال کو ترک کر دیں یا وطن پرستی کو خیرباد کہہ دیں۔ مکیاولی کا پرجوش انگریز شاگرد بیکن(Bacon) کہتا ہے:

 

’’یہ حکمرانوں کی حماقت ہے کہ وہ ایک نتیجہ کو وجود میں لانے کا خیال کریں لیکن اس کے ذرائع کو برداشت نہ کر سکیں‘‘۔

 

ہماری تائید

وطنی ریاست کے اخلاق کے بارہ میں مکیاولی نے جو نظریہ پیش کیا ہے وہ دراصل ہمارے اس عقید ہ کی تائید کرتا ہے کہ کوئی انسان بیک وقت دو آدرشوں سے محبت نہیں کر سکتا ۔ یہی بات حضرت مسیحؑ نے کہی تھی جب آپؑ نے فرمایا تھا کہ :

 

’’کوئی شخص دو آقاؤں کو خوش نہیں کر سکتا‘‘۔

 

اور یہی بات قرآن کہتا ہے جب وہ ارشاد کرتا ہے:

 

{ مَا جَعَلَ اللّٰہُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْفِہٖ} (الاحزاب:۴)

 

’’اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کے پہلو میں دو دل نہیں رکھے۔‘‘

 

عملی اطاعت

مکیاولی کی بات چونکہ سچی تھی ۔ اس لیے دنیا بھر میں وطن پرست سیاست دانوں کو عملاً اختیار کرنی پڑی ہے۔ قومی ریاستوں کے اربابِ اختیار ہر جگہ مکیاولی کی ہدایات پر سختی سے کاربند ہیں۔ وہ اپنی زبان سے نیکی‘ سچائی‘ انصاف‘ آزادی‘ تہذیب اور شرافت ایسی اقدار کا نام لیتے ہیں لیکن وطن کے مفاد کی خاطر عملی طو رپر ان کے تقاضوں کو نہایت بے شرمی سے پامال کرتے رہتے ہیں۔ گو وطن پرست سیاست دان اس بات کے مدعی نہ ہوں کہ وہ مکیاولی کی حکمت سے استفادہ کر رہے ہیں۔ اور گو وہ براہِ راست اُس سے استفادہ نہ کر رہے ہوں۔ لیکن وطن پرستی کے آدرش کی نوعیت ایسی ہے کہ وہ عملاً مکیاولی کی حکمت کو اپنا راہنما بنا نے پر مجبور ہیں۔ اور پھر یہ بھی ظاہر ہے کہ ریاست کے افراد کے خیالات وہی ہوتے ہیں جو اُن کے راہنماؤں اور حکمرانوں کے خیالات ہوتے ہیں۔

 

عالمگیر نفوذ

اگر راعی اور رعایا میں افکار و آراء کا اتحاد موجود نہ ہو تو راعی رعایا کو ایسی تعلیم دیتا ہے کہ وہ بالآخر اُس کے ساتھ متفق ہو جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ مکیاولی کا نظریہ اس وقت قومی ریاستوں کے سیاست دانوں پر ہی مسلط نہیں بلکہ اُن کے عوام پر بھی پوری طرح سے مسلط ہے۔ لہٰذا قومی ریاستوں کی تعداد اور وسعت کودیکھ کر یہ کہنا درست ہے کہ مکیاولی اس وقت دنیا بھر میں عملی سیاست کے کامیاب ترین حکماء میں سے ہے۔

 

ایکٹن کی مدح سرائی

لارڈ ایکٹن (Lord Acton)مکیاولی کی تعریف کرتے ہوئے لکھتا ہے:

’’وہ پہلا شخص ہے جس نے پورے احساس اور پوری وضاحت کے ساتھ بعض ایسی قوتوں کی تشریح کی ہے جو اس زمانے میں فعال ہیں۔ اخلاق‘ مذہب یا نئی روشنی جو پیہم ترقی کر رہی ہے یا رائے عامہ کی بیدار اور ہوشیار نظریں کوئی چیز بھی اس کے تسلط کو کم نہیں کر سکی اور نہ ہی نوعِ انسانی کی فطرت کے بارہ میں اس کی رائے کو غلط ثابت کر سکی ہے ۔ ایسے اسباب جو اب تک اپنا عمل کر رہے ہیں اور ایسے نظریات اور عقائد جو سیاست‘ فلسفہ اور سائنس میں اس وقت آشکار ہیں‘ اُس کے افکار کو نئی طاقت بخش رہے ہیں ۔ بعض لوگوں کی ملامت اور مخالفت کے باوجود ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ ہم سب کے خیالات کی سطح کے قریب ہے اور محسوس کرتے ہیں کہ وہ مٹ جانے والی ایک مثال نہیں بلکہ ایک لازوال قوت ہے جو اس زمانہ میں بھی مؤثر ہے‘‘۔

 

خوفناک نتائج

ممکن نہیں تھا کہ وطن پرست سیاست دان مکیاولی کے نظریہ کو قبول کرتے لیکن اس کے خوفناک نتائج سے محفوظ رہتے۔ یہ نتائج قوموں کی شدید باہمی رقابت اور پھر عالمگیر جنگوں کے ایک غیر متناہی سلسلہ میں نمودار ہوئے ہیں۔ اب تک انسانیت دو عالمگیر جنگوں کی ہولناک تباہ کاریوں سے دوچار ہو چکی ہے اور تیسری ان دونوں سے زیادہ ہولناک عالمگیر جنگ کے بادل کرئہ ارض کی فضا پر منڈلا رہے ہیں۔

 

وطن پرستوں کے جو تصورات روح قرآن سے مطابقت رکھتے ہیں وہ حسب ذیل ہیں:

 

مکمل اطاعت

(۱)  ایک ریاست کے افراد کو چاہیے کہ اپنی ساری محبت کو اپنے نظریہ کے لیے وقف کر دیں یعنی اُس سے ایک ایسی شدید محبت رکھیں کہ کوئی دوسرا تصور اس محبت میں شریک ہو کر اسے کم نہ کر سکے اس کے بغیر نہ تو ریاست کے افراد کے اندر پورا پورا اتحاد ہو سکتا ہے اور نہ ہی وہ اپنی ریاست اور اپنے نظریہ کی حفاظت یا خدمت اپنی پوری طاقت سے کر سکتے ہیں۔

 

مکمل افتراق

(نوٹ)  وطن پرستی اور خدا پرستی کا مکمل افتراق اس تصور کا لازمی نتیجہ ہے۔ اسلام کی رو سے ریاست کا نظریہ خدا کا تصور ہونا چاہیے اور عقیدئہ وطنیت کی رو سے یہ نظریہ خود ریاست یا وطن ہی کا تصور ہونا چاہیے۔ خدا کا تصور حسنِ حقیقی کے نفسیاتی اوصاف پر مشتمل ہے اور وطن کا تصور جغرافیائی اور مادی اوصاف مثلاً ارضی حدود‘ نسل‘ رنگ‘ زبان ‘رسوم و  روایات وغیرہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان اوصاف کے مجموعہ کو وطن کہا جاتا ہے۔

 

(۲)  ہر ریاست  (کم از کم ابتداء میں) ایک خاص جغرافیائی مقام پر اور خاص جغرافیائی حدود کے اندر وجود میں آتی ہے۔

 

ناقابل توسیع ریاست

(نوٹ)  اسلام کی رو سے ہر وہ شخص جو اسلام کے اصولوں کو قبول کرے‘ خواہ وہ کسی مقام‘رنگ‘ نسل‘ زبان اور رسوم و روایات سے تعلق رکھتا ہو‘ اسلامی ریاست کا ویسا ہی معزز‘ باوقار اور بااختیار فرد بن جاتا ہے جیسا کہ اس کا کوئی اور فرد۔ لہٰذا ایک اسلامی ریاست مساوی فرائض اور حقوق رکھنے والے افراد کی ایک جماعت کی حیثیت سے پھیل سکتی ہے‘ یہاں تک کہ اس کی جغرافیائی حدود تمام کرئہ ارض پر حاوی ہو سکتی ہیں ‘لیکن ایک قومی یا وطنی ریاست اس طرح سے نہیں پھیل سکتی۔ اپنی غیر مبدل ارضی حدود کے باہر جو اس کے نظریۂ وطنیت یا قومیت سے معین ہوتی ہیں اُس کے پھیلنے کی صورت صرف ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ ریاست دوسرے ملکوں کو فتح کر کے بلاواسطہ اپنا غلام بناتی چلی جائے یا بالواسطہ اپنی سیادت اور قیادت کے دائرہ میں داخل کرتی چلی جائے۔ لہٰذا مشمولہ ممالک پر اُس کی حکومت وہاں کے لوگوں کے فائدہ کے لیے نہیں ہوتی بلکہ ایسی لوٹ کھسوٹ کے لیے ہوتی ہے جس سے گھر کے لوگ مستفید ہوتے ہیں۔

 

اتفاقِ ولادت

فرد کی وطنیت یا قومیت کا دار و مدار ایسے اوصاف پر ہے جو قدرت کی طرف سے اتفاق ولادت کے نتیجہ کے طو رپر اُسے حاصل ہوتے ہیں۔ لہٰذا کوئی شخص ایک قوم یا ایک وطن کو ترک کر کے دوسری قوم یا دوسرے وطن کو اختیار نہیں کر سکتا۔ غیر انگریز کے لیے انگریز ہونا اور غیر جرمن کے لیے جرمن ہونا ناممکن ہے۔

 

خطرناک جذبہ

لیکن جیسا کہ ‘ہر غلط آدرش کی صورت میں ہوتا ہے ‘ نظریۂ قومیت میں صداقت کے عناصر ایک غلط ماحول میں جا کر اپنی صداقت کھو دیتے ہیں۔ نہ تو ایک قومی ریاست کے افراد کی شدید حب الوطنی ہی کوئی قدر وقیمت رکھتی ہے اور نہ ہی خاص ارضی حدود کے اندر اس کے وجود کا آغاز کوئی اچھا انجام پیدا کرتا ہے بلکہ ایک قومی ریاست کے افراد کی محبت وطن (جس میں ارضی حدود بھی شامل ہیں) جس قدر زیادہ شدید ہوتی ہے اسی قدر ان کو غلط راستہ پر آگے لے جاتی ہے اور ان کی خود شعوری کی تربیت میں رکاوٹیں پیدا کرتی ہے۔ چونکہ ایک قومی ریاست ایک غلط اور ناپائیدار آدرش پر مبنی ہوتی ہے۔ لہٰذا اس کی ہر خوبی ایک عیب اور ہر اچھائی ایک نقص بن کر اسے آخر کار تباہ و برباد کر دیتی ہے۔ کسی ریاست کے اندر کوئی خوبی نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ ایک اسلامی ریاست نہ ہو۔

 

بعد المشرقین

مقاصد اور نتائج کے لحاظ سے ایک قومی ریاست کو ایک اسلامی ریاست سے کوئی نسبت نہیں۔ ایک اسلامی ریاست میں افراد کے باہمی اتحاد کی وجہ خدا کی محبت ہوتی ہے اور ایک قومی ریاست میں افراد کے باہمی اتحاد کی وجہ وطن کی محبت ہوتی ہے۔ اسلامی ریاست کے مفاد کا نچوڑ ریاست کے اندر اور باہر ساری نوعِ بشر کی خود شعوری کی تربیت ہے اور قومی ریاست کے مفاد کا ماحصل ایک خاص نسل یا وطن کے لوگوں کی مادی اور اقتصادی اغراض کی زیادہ سے زیادہ تشفی‘ اسلامی ریاست ایک مقصد کے حصول کا ذریعہ ہوتی ہے اور وہ مقصد حسن و کمال کی جستجو ہوتا ہے۔ ایک قومی ریاست خود اپنا مقصد ہوتی ہے اور اپنے آپ سے بلند تر کسی مقصد کے لیے جدوجہد نہیں کرتی۔ اسلامی ریاست کی غیرت ‘حمیت اور قربانیوں سے دنیا بھر میں بے انصافی‘ دروغ ‘فریب‘ غلامی‘ لوٹ اور دوسری تمام بداخلاقیوں کی جڑ کٹتی ہے اور قومی ریاست کی غیرت‘ حمیت اور قربانیوں سے دنیا بھر میں ان تمام اخلاقی بدعنوانیوں کی جڑ مضبوط ہوتی ہے۔

 

شدید غلط فہمی

بعض مسلمانوں کا خیال ہے کہ اسلام کی رو سے مسلمانوں کے لیے ضروری نہیں کہ اپنی ایک علیحدہ آزاد ریاست بنا کر اس میں رہیں ۔ لیکن درحقیقت یہ خیال قطعاً غلط ہے اور تعلیمِ قرآن کی روح سے حد درجہ ناواقفیت پر مبنی ہے۔ جب تک مسلمان آزاد نہ ہو یعنی جب تک وہ ان تمام قوانین کو جن کی اطاعت کرنے کے لیے وہ حکومت سے مجبور کیا جاتا ہے اپنے دینی مصالح کے مطابق خود آزادانہ طور پر وضع نہ کرے یا اپنے آزادانہ فیصلہ کی رو سے انہیں درست قرار دے کر قبول نہ کرے وہ خدا کی عبادت نہیں کر سکتا۔

 

عبادت کا مفہوم

اسلام کے نزدیک خدا کی عبادت فقط کلمہ‘ نماز ‘ روزہ اور حج اور زکوٰۃ کا نام نہیں بلکہ مؤمن کی پوری زندگی ہی خدا کی عبادت ہے۔ قرآن میں ارشاد ہے:

 

{قُلْ اِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (۱۶۲)} (الانعام)

 

’’(اے پیغمبرﷺ) کہو میری نماز میری قربانی میری زندگی اور میری موت سب اللہ کے لیے ہیں۔‘‘

 

غیر اللہ کی اطاعت

لہٰذا اگر مسلمان غیروں کا غلام ہو گا تو وہ اپنی زندگی کا بہت سا حصہ خدا کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے نہیں بلکہ ایک ایسی حکومت کی رضامندی حاصل کرنے کے وقف کرے گا جو خدا کو نہیں جانتی۔ اگر وہ احتجاج کی حالت میں مجبوراً اور بادلِ نخواستہ اپنی زندگی کے اس حصہ کو غیروں کے ماتحت کر دے لیکن اس کے ساتھ ہی اُن کے جبر اور قہر سے آزاد ہونے کی پوری پوری جدوجہد کرتا رہے تو البتہ اس پر کوئی الزام نہیں۔ لیکن اگر وہ زندگی کے اس حصہ کو اسلام کے دائرہ تسلط سے باہر سمجھتے ہوئے برضا و رغبت غیروں کے سپرد کر دیتا ہے تو اس نے یا تو اسلام کے مدعا کو نہیں سمجھا اور یا سمجھ کر اس سے انکار کر دیا ہے۔ کیونکہ وہ اس بات پر رضامند ہے کہ اپنی زندگی کا کچھ حصہ خدا کی اطاعت میں صرف کرے اور کچھ حصہ شیطان کی متابعت میں۔ لیکن زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کرنا ممکن نہیں۔ کوئی شخص بیک وقت دو معبودوں کی پرستش نہیں کرسکتا۔ لہٰذا رفتہ رفتہ اس کی ساری زندگی کلمہ‘ نماز‘ روزہ اور حج اور زکوٰۃ کے التزام کے باوجود اس کے سیاسی آقاؤں کے ماتحت چلی جاتی ہے جنہیں وہ اپنے غائب خدا سے زیادہ زبردست سمجھتا ہے۔

 

تین صورتیں

پس مسلمان کے لیے صرف تین صورتیں ممکن ہیں۔ ضروری ہے کہ یا وہ آزاد ہو یا آزادی کی پوری پوری مخلصانہ جدوجہد میں لگا رہے۔ اور تیسری صورت یہ ہے کہ وہ متمدن زندگی کو ترک کر کے جنگلوں میں جا رہے لیکن غلامی کی طرح رہبانیت بھی اُس کے مقاصد کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی۔

 

 

قرآن اور علمِ جدید (یونی کوڈ فارمیٹ)