قرآن اور علمِ جدید (یونی کوڈ فارمیٹ)

نارِ فرنگ

اِرتداد کا منبع

اس جدید اور خطرناک فتنۂ ارتداد کا منبع مغرب کے وہ غلط فلسفے ہیں جن کے بڑے بڑے امام ڈارون‘ میکڈوگل‘ فرائڈ‘ ایڈلر‘  کارل مارکس اور میکاولی ہیں۔ ڈارون کی طرف ارتقاء کا نظریہ منسوب ہے۔ میکڈوگل نے جبلّت کا نظریہ پیش کیا ہے۔ فرائڈ اور ایڈلر نے لاشعور کے نظریات پیش کیے ہیں۔ کارل مارکس کی طرف سوشلزم کا نظریہ منسوب ہے اور میکاولی نیشنلزم کی موجودہ شکل کا مبلغ سمجھا جاتا ہے۔

 

سب سے پہلے ان فلسفیوں کے خیالات اور نظریات سے مختصر سا تعارف کر لیجیے:

 

ڈارون نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ زندگی اپنے ظہور کی ابتداء سے لے کر متواتر ارتقاء کرتی رہی ہے جس سے حیوانات کے مختلف اجسام وجود میں آتے رہے ہیں اور اسی ارتقاء کے نتیجہ کے طور پر روئے زمین پر نوعِ بشر کا ظہور ہوا ہے۔

 

ڈارون کی تشریحِ ارتقاء

لیکن ڈارون ارتقاء کے اسباب کی تشریح اس طرح کرتا ہے کہ ان کو درست تسلیم کر لینے کے بعد ہمارے لیے ناممکن ہو جاتا ہے کہ ہم کائنات کی تخلیق میں کسی قادرِ مطلق ہستی کے دخل یا عمل کو یا خود کائنات ہی کے کسی مقصدیا مدعا کو ذہن میں لا سکیں۔ اس کا خیال ہے کہ ہر جاندار کی نسل کے افراد کی جسمانی بناوٹ اور شکل و شباہت میں خفیف قسم کی تبدیلیاں کسی نہ کسی وجہ سے پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ ایک طویل مدت کے دوران میں ان تبدیلیوں کے جمع ہونے سے ایک نیا جاندار وجود میں آجاتا ہے۔ پھر اگر اس جاندار کی نسل اپنی جسمانی بناوٹ کے لحاظ سے اس قابل ہو کہ جہد للبقا کے دوران میں اپنے ماحول کی مشکلات کے ساتھ کامیاب مقابلہ کر سکے تو وہ زندہ رہتی ہے ورنہ مٹ جاتی ہے۔ اس طرح سے صرف وہی نوعِ حیوانات موجود رہتی ہے جو ماحول کے امتحان میں پوری اتر آئے اور جو کشمکشِ حیات کے فرائض کو ادا کرنے کے لیے سب سے زیادہ موزوں ہو۔ پھر اس نوع سے دوسری انواعِ حیوانات پیدا ہوتی ہیں۔ گویا زندگی کا ماحول کشمکشِ حیات کے ذریعہ سے بقائے اصلح کے اصول پر مختلف انواعِ حیوانات کو پیدا کرتا ہے اور انہیں ایک قدرتی انتخاب سے زندہ رکھتا ہے اور حیوانات کا ارتقاء کسی مقصد اور مدعا کے بغیر حالات زندگی کے تقاضے سے محض اتفاقی طور پر جس سمت میں ممکن ہو خود بخود ہوتا رہتا ہے۔

 

 

اس کے نتائج

اس نظریہ کے نتائج یہ ہیں کہ کائنات میں کہیں بھی کوئی سوچی سمجھی ہوئی تجویز کام نہیں کر رہی۔ قدرت کی طاقتیں اندھا دھند اپنا کام کیے جا رہی ہیں اور ان کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں کہ دنیا کدھر جاتی ہے اور اس کا کیا بنتا ہے۔ خود حضرتِ انسان کا وجود بھی اس کی عقل‘ ضمیر اور محبت کے سمیت ایک اتفاق محض ہے۔ مذہب‘ اخلاق‘ علم‘ فلسفہ‘ سیاست اور ہنر سب حیوانی خواہشات اور مدرکات کے عمل اور ردِّعمل کا نتیجہ ہیں۔ ڈارون کے ماننے والوں کے نزدیک انسانی زندگی اور کائنات سے تعلق رکھنے والے تمام مسائل کا حل ماحول اور حالات اور اتفاقات کی اصطلاحات سے پیدا ہوتا ہے۔

 

میکڈوگل کا نظریہ جو اس نے اپنی کتاب ’’سوشل سائیکالوجی‘‘ میں پیش کیا ہے یہ ہے کہ انسان ایک حیوان ہے جس کا کوئی فعل ایسا نہیں جو اس کی کسی نہ کسی جبلت کے منبع سے سرزد نہ ہوتا ہو جب تک انسان کو کوئی جبلت نہ اکسائے وہ نہ کوئی کام کر سکتا ہے اور نہ ہی کسی کام کے متعلق سوچ سکتا ہے۔

 

 

جبلّت کیا ہے؟

اور جبلت کیا ہے؟ کسی خاص سمت میں عمل کرنے کا ایک فطری حیاتیاتی دباؤ ہے جس کا سامان قدرت نے جسم اور دماغ کی مادی ساخت میں رکھا ہے اور انسان کے اندر بالکل وہی جبلتیں کام کرتی ہیں جو اس سے نچلے درجہ کے حیوانات کے اندر ہیں۔ بھوک‘ غصہ‘ جنسیت‘ فرار حیوانی یا انسا نی جبلتوں کی مثالیں ہیں۔ ہر جبلتی خواہش کے ماتحت جوعمل سرزد ہوتا ہے اس کے ساتھ ایک خاص جذباتی کیفیت موجود رہتی ہے ہر جبلت ایک اندرونی یا بیرونی تحریک کے ماتحت عمل کرتی ہے ۔ جب جبلت کا مخصوص محرک موجود ہو جائے تو ضروری ہے کہ جبلت کا فعل آغاز کر کے اپنی انتہا کو پہنچے ۔ پھر جبلتی خواہش کی تکمیل اور تشفی انسان کے لیے ایک خاص قسم کی آسودگی اور لذت کا موجب ہوتی ہے۔

 

جبلتوں کی غایت

جب ہم ان جبلتوں کی مکمل فہرست پر غور کرتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ جبلتیں دو قسم کی ہیں۔ ایک تو وہ جو حیوان کو مجبور کرتی ہیں کہ وہ ان تمام چیزوں کی طرف کشش محسوس کرے جو اس کی زندگی کو قائم رکھنے والی ہوں اور دوسری وہ جو اسے مجبور کرتی ہیں کہ وہ ان تمام چیزوں سے نفرت کرے اور بھاگے جو (فرد یا نسل کی حیثیت سے) اس کی زندگی کے لیے خطرناک ہوں اس سے صاف ظاہر ہے کہ جبلتوں کا مقصد قدرت کے نزدیک فقط یہ ہے کہ جسم حیوانی کی زندگی قائم رہے ‘ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔گویا ان کا وظیفہ فقط حیاتیاتی ہے اور میکڈوگل اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے۔ بے شک میکڈوگل مانتا ہے کہ انسان کے اندر عقل اور ارادہ ایسے اوصاف موجود ہیں جو حیوان میں نہیں لیکن وہ کہتا ہے کہ انسان اپنی عقل اور اپنے ارادہ دونوں کو اپنی جبلتی خواہشات کی تسلی اور تشفی کے لیے کام میں لاتا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتا ہے:

 

انسانی افعال کی قوتِ محرکہ

’’انسان کے سارے افعال کا اصل منبع اس کی جبلتیں ہیں۔ ہر سلسلۂ خیالات خواہ وہ کیسا ہی خشک اور خالی از جذبات نظر آتا ہو۔ کسی نہ کسی جبلت کی قوتِ محرکہ کی وجہ سے اپنے مقصد کو پہنچتا ہے۔ ایک انتہائی درجہ کے ترقی یافتہ ذہن کی فکری کُل کے تمام پرزے مل کر صرف ایک ایسے آلہ کی حیثیت رکھتے ہیں جس کے ذریعہ سے یہ جبلتیں اپنی تسلی اور تشفی حاصل کرتی ہیں۔ ان جبلتی خواہشات کو ان کے زبردست مادی حیاتیاتی پرزوں کے سمیت انسانی دماغ سے خارج کر دیجیے تو آپ دیکھیں گے کہ جسم کے لیے ناممکن ہے کہ وہ کسی قسم کی سرگرمی یا عمل کا اظہار کر سکے ۔ وہ قطعاً بے عمل اور بے حرکت ہو جائے گا جیسے کہ ایک عجیب و غریب گھڑی جس کی کمانی الگ کر لی گئی ہو‘‘۔

 

انسانیت حیوانیت کی ایک صورت

اس کا مطلب صاف طور پر یہ ہے کہ اگر انسان کی سرشت میں کوئی ایسی قوتیں موجود ہیں جنہیں عقل اور ارادہ کہا جاتا ہے تو وہ بھی اس وقت تک بے فائدہ اور بے کار رہتی ہیں جب تک کہ کوئی جبلتی خواہش انہیں اپنی تسکین اور تشفی کے لیے کام میں نہ لائے۔ جب تک کہ ایک غلط خواہش کو روکنے کے لیے ہم عقل اور ارادہ سے کام نہ لیں۔ ہم اسے روک نہیں سکتے‘ لیکن عقل اور ارادہ کو کام میں لانے کی خواہش ہماری حیوانی جبلتوں کے ماتحت ہے۔ اس نقطۂ نظر سے انسان فقط ایک ترقی یافتہ ذہن رکھنے والا حیوان ثابت ہوتا ہے جو اپنی بہتر دماغی صلاحیتوں کے باوجود اپنی حیوانی سرشت سے باہر قدم نہیں رکھ سکتا۔ نیز اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی اعلیٰ ترین سرگرمیاں جو خاص اسی سے تعلق رکھتی ہیں اور اسے حیوان سے ممیز کرتی ہیں‘ مثلاً مذہب‘ اخلاق‘ سیاست‘ علم‘ ہنر‘ تتبع‘ تصورات حسن وغیرہ جبلتوں سے اور جبلتوں کی تشفی کے لیے یعنی بقائے فرد و نسل کے مقصد کے ماتحت پیدا ہوتی ہیں اور ان کا کوئی بلند تر ماخذ یا مقصد انسان کی فطرت کے اندر موجود نہیں ۔ درحقیقت میکڈوگل نے حیوانی جبلتوں کو ان سرگرمیوں کا ماخذ ثابت کرنے کے لیے بڑا زور مارا ہے۔ میکڈوگل نے اپنی بعد کی تصنیفات میں جبلت کی بجائے جبلت کے دائرہ کو اور وسیع کرنے کے لیے رجحانِ طبعی کا لفظ استعمال کیا ہے۔ لیکن نام کی اس تبدیلی سے اس کے نظریہ کے خدوخال میں کوئی فرق نہیں آتا!

 

میکڈوگل کی عظمت

نفسیاتِ انسانی کے اس حیوانی قسم کے نظریہ کے باوجود بلکہ اس کی وجہ سے میکڈوگل اس زمانہ کے سب سے بڑے ماہرین نفسیات میں سے ایک مانا جاتا ہے اور اس کی کتاب ’’سوشل سائیکالوجی‘‘ نفسیات کی ایک بہت بڑی کتاب سمجھی جاتی ہے جسے دنیا کی تمام یونیورسٹیوں نے ‘جن میں ہماری پاکستان کی یونیورسٹیاں بھی شامل ہیں‘نفسیات کے نصاب کے ایک اہم ترین جزو کے طور پر داخل کر رکھا ہے گویا اس کا نظریہ نفسیاتِ انسانی کا ایک صحیح اور معیاری نظریہ سمجھاجاتا ہے۔

 

 

فرائڈ کہتا ہے :

’’کہ شخصیت انسانی یا نفس انسانی صرف وہی نہیں جسے ہم شعور کہتے ہیں اور جس کی مدد سے سوچتے‘ جانتے اور محسوس کرتے اور گرد و پیش کے حالات میں تغیر کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ بلکہ اس کے علاوہ نفس انسانی کا ایک حصہ ایسا بھی ہے جو ہمارے شعور کی سطح کے نیچے موجود رہتا ہے‘‘۔

 

انسانی شخصیت کا بڑا حصہ

یہ حصہ ‘جسے فرائڈ تحت الشعور یا لاشعور کا نام دیتا ہے ‘اس کے خیال میں شخصیت انسانی کا بہت بڑا حصہ ہے بلکہ انسان کی ساری شخصیت یا نفس انسانی یہ لاشعور ہی ہے اور شعور اسی کا ایک جزو ہے جو بیرونی دنیا کا جائزہ لینے کے لیے اوپر ابھر آیا ہے۔نفس انسانی کی مثال ایسی ہے جیسے سمندر میں تیرتا ہوا برف کا ایک تَودہ جو اپنے ایک نہایت ہی قلیل قریباً دسویں حصہ کے سوا تمام کا تمام سطح سمندر سے نیچے ہوتا ہے‘ بلکہ یہ تشبیہہ بھی شعور اور لاشعور کی باہمی نسبت کو واضح کرنے کے لیے کافی نہیں۔ یوں کہنا چاہیے کہ شعورکو لاشعور سے وہی تعلق ہے جو سمندر کی جھاگ کو سمندر سے ہے کیونکہ لاشعور کے تمام مشتملات اور متضمنات یعنی ہمارے تمام جذبات‘ محسوسات اور خیالات لاشعور ہی سے آتے ہیں۔

 

طوفانِ تمنا

لاشعور میں ایک طوفان تمنا ہر وقت موجزن رہتا ہے اور یہ تمنا ایک زبردست جنسی خواہش ہے جسے ہر عورت اور مرد کا لاشعور غیر متناہی حد تک مطمئن کرنا چاہتا ہے۔ لیکن لاشعور اپنی جنسی خواہشات کو شعور کے ذریعہ سے پوری کر سکتا ہے۔ لہٰذا وہ شعور کو مجبور کرتا ہے کہ وہ ان کی تسکین کا سامان پیدا کرے اگرچہ شعور جو درحقیقت لاشعور ہی کا ایک حصہ اور اسی کی پیداوار ہے۔ لاشعور کی خواہشات کو پورا کرنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ تاہم اکثر اوقات انہیں بتمام و کمال پورا کرنے سے قاصر رہ جاتا ہے۔

 

سماج کی رکاوٹ

اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک مخالف سمت سے اس پر ایک زبردست دباؤ ہوتا ہے جواسے خواہشات کی تکمیل سے روکتا ہے۔ یہ مخالف قوت سماج ہے ۔ افراد مجبور ہوتے ہیں کہ سماج میں اپنی نیک نامی بحال رکھنے کے لیے اپنی لاشعوری خواہشات کے بہت سے حصہ کو روک دیں۔ لیکن ان خواہشات کو روکنے سے فرد کو ایک بے چینی اور بے قراری لاحق ہو جاتی ہے۔ اس کا دماغی توازن بگڑنے لگتا ہے۔ اکثر اوقات وہ پریشانی‘ ہسٹیریا‘ جنون وغیرہ دماغی امراض میں گرفتار ہو جاتا ہے تاکہ فرد ان امراض سے بچ جائے اورسماج کے روبرو نیک نامی اور نیک چلنی کے تقاضوں کو بھی پورا کر سکے۔ سماج نے بعض ڈھکوسلے بنا رکھے ہیں جن کے تتبع سے فرد کی توجہ ان خواہشات سے کسی قدر ہٹ جاتی ہے اور اس کے لیے ممکن ہو جاتا ہے کہ وہ ان امراض سے کسی حد تک محفوظ ہو جائے۔سماج کے یہ ڈھکوسلے یا مخترعات مذہب‘ اخلاق‘ فلسفہ‘ علم‘ ہنر وغیرہ کے ناموں سے مشہور ہیں۔

 

جنسیت طفولیت

چونکہ انسان اپنی پیدائش کے وقت اپنا لاشعور اپنے ساتھ لے کر آتا ہے۔ اس لیے فرائڈ کے نظریہ کے مطابق ضروری ہے کہ اس کی جنسی خواہشات کا عمل بچپن ہی سے شروع ہو جائے لیکن عام خیال یہ ہے کہ جنسی خواہشات جوانی میں پیدا ہوتی ہیں۔ اس اعتراض کو رفع کرنے کے لیے فرائڈ ہمیں بتاتا ہے کہ بچے کا انگوٹھا چوسنا یا ماں کے سرپستان کا چوسنا یا بول و براز کا خارج کرنا بچے کے جنسی افعال ہیں جن سے اس کو جنسی لذت حاصل ہوتی ہے۔

 

طفولیتی عشق اور رقابت

اور پھر جب بچہ ذرا بڑا ہوتا ہے تو اس کے دل میں اگر لڑکی ہو تو اپنے باپ سے اگر لڑکا ہو تو اپنی ماں سے ایک جنسی نوعیت کی محبت پیدا ہوجاتی ہے اور اس جنسی محبت کے ردِّعمل کی وجہ سے اس کے ساتھ ساتھ بچے کے دل میں اگر لڑکی ہو تو ماں کے خلاف اور اگر لڑکا ہو تو باپ کے خلاف ایک رقابت کا جذبہ پیداہو جاتا ہے۔ اس جذبۂ محبت کو فرائڈ نے آبائی الجھاؤ  کانام دیا ہے۔ یہ آبائی الجھاؤ فرائڈ کے نظریہ لاشعور کا مرکزی نقطہ ہے جس سے وہ اپنے تمام نتائج کو اخذ کرتا ہے۔

 

امید و بِیم

والدین بچے کی محبت کے جواب میں اس کے ساتھ محبت کرتے ہیں لیکن اگر وہ ان کی خواہش کے مطابق کام نہ کرے تو اس کے ساتھ سختی کا برتاؤ بھی کرتے ہیں۔ درشتی اور نرمی کے اس دوگونہ برتاؤ کی وجہ سے وہ بچے کی شخصیت پر اپنا پورا پورا تسلط یا قبضہ حاصل کر لیتے ہیں۔ بچہ ہمیشہ اپنے والدین کی محبت کی تمنا اور اس کے فقدان کے خوف کی وجہ سے دو متضاد جذبات کے درمیان رہتا ہے جو اس کے شعور میں ایک مستقل جگہ بنا لیتے ہیں اور مرتے دم تک اس کے سر پر سوار رہتے ہیں۔ جوں جوں بچے کی عمر بڑھتی ہے اس کے یہ دونوں جذبات یعنی محبت کی اُمید اور انقطاعِ محبت کا خوف والدین سے ہٹ کر آدرشوں کی طرف آتے جاتے ہیں۔

 

آدرشوں کا منبع

بچہ کے دل میں والدین کی محبت کم ہوتی جاتی ہے اور آدرشوں کی محبت بڑھتی جاتی ہے۔ فرائڈ کے الفاظ میں گویا بچہ آبائی الجھاؤ پر عبور حاصل کرتا جاتا ہے اور فوق الشعور اس کی جگہ لیتا جاتا ہے۔ فوق الشعور ہی کا ایک وصف یا خاصہ ہے جو فرائڈ کے خیال کے مطابق آبائی الجھاؤ کے انحطاط کے ساتھ وجود میں آتا ہے او رپھر زیادہ سے زیادہ قوی ہوتا جاتا ہے۔ فوق الشعور کا کام یہ ہوتا ہے کہ شعور کے سامنے آدرشوں کو پیش کرے اس کی وجہ سے فرد‘ ضمیر اور اخلاق اور مذہب اور نصب العین کے مقرر کیے ہوئے اصولِ عمل کا زور یا دباؤ محسوس کرتا ہے۔

 

نیابت والدین

فوق الشعور چونکہ آبائی الجھاؤ یا والدین کی محبت کا قائم مقام ہوتا ہے اس لیے وہ فرد کے ساتھ وہی برتاؤ کرتا ہے جو پہلے والدین اس کے ساتھ کیا کرتے تھے ۔وہ والدین کی طرح اس کی سرپرستی اور راہنمائی کا دم بھرتا ہے۔ بعض کاموں سے منع کرتا ہے اور بعض کی تلقین کرتا ہے اور جب فرد کوئی ایسا کام کرتا ہے جو اس کی مرضی کے خلاف ہوتا ہے تو وہ اسے والدین ہی کی طرح ڈراتا اور دھمکاتا اور پریشان کر کے سزا دیتا ہے۔ تاہم فوق الشعور کا برتاؤ اس لحاظ سے والدین سے مختلف ہوتا ہے کہ وہ والدین کی طرح محبت نہیں کرتا اور پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ اس کی زجر و توبیخ اسے آبائی الجھاؤ سے وراثتاً ملی ہو بلکہ خواہ والدین نے بچے کو کیسی ہی محبت سے پالا ہو اور اس کی پرورش کے دوران میں ڈرانے اور دھمکانے سے کیسا ہی اجتناب کیا ہو فوق الشعور ہر حالت میں درشتی اور سختی سے کام لیتا ہے اور اس کی زجر و توبیخ میں کوئی فرق نہیں آتا۔

 

فوق الشعور کی خاصیتیں

پھر فرائڈ کہتا ہے کہ :

’’اگر فرد آبائی الجھاؤ پر پوری طرح سے عبور حاصل نہ کر سکا ہو تو اس کا فوق الشعور پوری قوت اور پوری نشوونما حاصل نہیں کر سکتا۔ دوسرے الفاظ میں جب تک فرد کے دل میں والدین کی طفلانہ محبت موجود رہتی ہے وہ آدرشوں کے ساتھ پوری پوری محبت نہیں کر سکتا پھر فوق الشعور ان اشخاص کا اثر بھی قبول کرتا ہے جو والدین کے قائم مقام کی حیثیت اختیار کر چکے ہوں یعنی ایسے اشخاص کا جو بچے کی تربیت میں حصہ لے رہے ہوں اور جن کو بچہ عظمت و کمال کا نمونہ سمجھتا ہو۔

 

عام طور پر فوق الشعور والدین سے پیہم دور ہوتا جاتا ہے۔ گویا اشخاص اور ذوات سے الگ ہو کر تصورات کی طرف منتقل ہوتا جاتا ہے۔ بچہ اپنی عمر کے مختلف حصوں میں اپنے والدین کی قدر و قیمت کا اندازہ مختلف طرح سے کرتا ہے۔ فوق الشعور کے ظہور میں آنے اور آبائی الجھاؤ کے مٹنے سے پہلے والدین بچے کو کامل اور اعلیٰ درجہ کے اشخاص معلوم ہوتے ہیں لیکن بعد میں جب آبائی الجھاؤ کمزور ہوجاتا ہے اور فوق الشعور قوی ہوجاتا ہے تو بچہ کے نزدیک ان کی خوبی اور ان کے وقار اور کمال میں نقص پیدا ہوجاتا ہے۔ پھر شعور کی توجہ کسی نہ کسی آدرش کی طرف ہو جاتی ہے۔ یہ آدرش اس سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس کے تتبع میں کامل سے کامل تر ہوتا جائے۔ شعور اس کے ان تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے اس کی جستجو کرتا ہے اور اس سے اپنا مقابلہ کر کے اپنی حیثیت کا جائزہ لیتا ہے۔ فوق الشعور‘ شعور کے آدرشوں کی ترجمانی کرتا ہے‘‘۔

 

فوق الشعور کا سبب

فرائڈ کے خیال میں شعور کا یہ آدرش جس کی ترجمانی فوق الشعورکرتا ہے۔ فرد کے پرانے آدرش یعنی والدین ہی کی ایک صورت ہے جو باقی رہ گئی ہے کیونکہ فرد اس کو اسی طرح قابل تحسین و تعریف سمجھتا ہے جس طرح سے والدین کو سمجھتا تھا۔وہ کہتا ہے کہ فوق الشعور تمام اخلاقی اور مذہبی پابندیوں کا منبع اور خواہش کمال کا حامی اور مددگار ہے۔ عام طور پر والدین اور ان جیسے دوسرے بزرگ ‘بچوں کی تربیت کرتے وقت اپنے اپنے فوق الشعور کے تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچہ کا فوق الشعور ان کے والدین کے نمونہ پر تعمیر نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کے فوق الشعور کے نمونہ پر تعمیر ہوتا ہے۔

 

لاشعور کی خاصیات

فرائڈ لکھتا ہے:

’’لاشعو رابلتی ہوئی خواہش کی ایک دیگ ہے اس کے اندر کوئی نظم اور کوئی سوچا سمجھا ہوا ارادہ نہیں۔ صرف لذت کی خاطر جنسی خواہشات کی تکمیل کا جذبہ ہے۔ منطق کے قوانین بلکہ اضداد کے اصول بھی لاشعور کے عمل پر حاوی نہیں ہوتے۔ مخالف خواہشات ایک دوسرے کو زائل کرنے کے بغیر اس میں پہلو بہ پہلو ہمیشہ موجود رہتی ہیں‘ لاشعور میں کوئی ایسی چیز نہیں جو نفی سے مشابہت رکھتی ہو اور ہمیں یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ فلسفی کا یہ دعویٰ کہ وقت اور فاصلہ ہمارے افعال کے لازمی عناصر ہیں لاشعور کی دنیا میں غلط ہو جاتا ہے۔ لاشعور کے اندر کوئی ایسی چیز نہیں جو وقت کے تصور سے علاقہ رکھتی ہو۔ لاشعور میں وقت کے گزرنے کا کوئی نشان نہیں اور یہ ایک حیرت انگیز حقیقت ہے جس کے معنی سمجھنے کی طرف ابھی تک فلسفیوں نے پوری توجہ نہیں کی کہ وقت کے گزرنے سے لاشعور کے عمل میں کوئی تغیر واقع نہیں ہوتا ایسی خواہشاتِ عمل جو لاشعور سے کبھی باہر نہیں آئیں بلکہ وہ ذہنی تأثرات بھی جنہیں روک کر لاشعور میں دبا دیا گیا ہو لاشعور میں ہر لحاظ سے غیر فانی ہوتے ہیں اور سالہا سال تک اس طرح سے محفوظ رہتے ہیں گویا ابھی کل وجود میں آئے ہیں۔‘‘

 

ایغو کی خاصیات

ایغولاشعور کا وہ حصہ ہے جو بیرونی دنیا کے قریب ہونے اور اس سے متأثر ہونے کی وجہ سے بدل گیا ہے ۔ ایغو نے اپنے ذمہ یہ کام لے رکھا ہے کہ لاشعور کے لیے بیرونی دنیا کی ترجمانی کر کے اسے بچائے کیونکہ اگر لاشعور اپنی جنسی خواہشات کی اندھا دھند تسکین کی خاطر بیرونی قوتوں کو ‘جو اس سے زیادہ زبردست ہیں‘ بالکل نظر انداز کر دے تو اس کی زندگی خطرہ میں پڑ جاتی ہے۔ عام فہم زبان میں یہ کہنا چاہیے کہ ایغو ہوش اور احتیاط کا حامی ہے اور لاشعور غیر مہذبانہ ناتراشیدہ خواہشات کا‘ ایغو فعالیت کے اعتبار سے کمزور ہے اور اپنی ساری قوت لاشعور سے ‘جس کایہ ایک حصہ ہے ‘ مستعار لیتا ہے۔ لاشعور کے مطلوب سے اپنے آپ کو وابستہ کر کے یہ لاشعور کی خوشنودی کا استحقاق پیدا کرتا ہے اور اس طرح سے لاشعور کی قوتِ عمل سے حصہ لیتا ہے۔ لاشعور کی خواہشات کی تکمیل ایغو کا کام ہے ۔ اگر یہ ایسے حالات پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائے جو اُن خواہشات کی تکمیل کے لیے مساعد ہوں تو اس کا فرض ادا ہو جاتا ہے۔

 

ایغو اور لاشعور کا تعلق

ایغو اور لاشعور کا باہمی تعلق ایسا ہی ہے جیسے کہ ایک سوار اور اس کا گھوڑا ۔ گھوڑا سوار کے لیے حرکت کے ذرائع مہیا کرتا ہے اور سوار اس بات کا حق رکھتا ہے کہ اس کی اور اپنی منزلِ مقصود کو معین کرے اور گھوڑے کی حرکت کو اس کی طرف موڑے۔ لیکن ایغو اور لاشعور کی صورت میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سوار مجبور ہوتا ہے کہ گھوڑے کو اسی سمت میں لے جائے جس سمت میں گھوڑا خود جانا چاہتا ہے۔

 

ایغوکی مشکلات

مثل مشہور ہے کہ کوئی شخص دو آقاؤں کو خوش نہیں کر سکتا لیکن بے چارے ایغو کا کام اس سے بھی زیادہ مشکل ہے اسے بیک وقت تین آقاؤں کوخوش کرنا اور تینوں کے مطالبات کو ماننا پڑتا ہے یہ مطالبات ہمیشہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ اور اکثر ان میں موافقت پیدا کرنا ناممکن ہوتا ہے۔ کوئی تعجب نہیں کہ ایغو اکثر ہمت ہارجاتا ہے یہ تین جابر آقا بیرونی دنیا ‘ فوق الشعور اور لاشعور ہیں۔ ایغو بیرونی دنیا کے مطالبات پیش کرنے کے لیے وجود میں آیا ہے لیکن یہ اس بات پر بھی مجبور ہے کہ لاشعور کا فرماں بردار خادم بن کر رہے۔ اپنے آپ کو لاشعور کے مطلوب کی حیثیت میں پیش کرے اور لاشعور کی قوتِ عمل سے حصہ لے۔ لاشعور اور بیرونی دنیا کے درمیان صلح کرانے کی کوشش میں یہ اکثر مجبور ہوتا ہے کہ لاشعور کے غیر شعوری احکام کو معقولیت کا لباس پہنائے‘ لاشعوراور بیرونی دنیا کے اختلافات کو ایک فریب کاری کے ساتھ نظر انداز کرتا رہے اور ایسی حالت میں بھی جب لاشعور اپنی ضد اور غیر مصالحانہ روش پر اصرار کر رہا ہو وہ بیرونی دنیا کے احترام کا جھوٹا دعویٰ کرتا رہے ۔ دوسری طرف سے ا س کی ہر حرکت سخت گیر فوق الشعور کی نظر میں رہتی ہے جو لاشعور اور بیرونی دنیا کی طرف سے پیدا ہونے والی مشکلات سے قطع نظر کر کے عمل کے اصول معین کرتا ہے اور اگر ایغو ان اصولوں پر عمل نہ کرے تو وہ اس کو پریشان کر کے سزا دیتا ہے اور اس کی پریشانی‘ احساس کہتری اور احساسِ جرم کی صورت اختیار کرتی ہے۔

 

ایغو کی بے بسی

اس طرح جبکہ لاشعور اسے پیچھے سے ہانک رہا ہوتا ہے‘ فوق الشعور اسے آگے سے روک رہا ہوتا ہے اور سماج اسے ملامت کر رہا ہوتا ہے۔ایغو ان تمام طاقتوں کو جو اس کے اندر اور باہر سے اس پر اثر انداز ہوتی ہیں ایک دوسرے کے مطابق اور موافق کرنے کی ناکام کوشش کرتا ہے یہی سبب ہے کہ ہم اکثر چلا اٹھتے ہیں کہ ’’زندگی آسان نہیں‘‘۔جب ایغو اپنی بے بسی کا اعتراف کرتا ہے تو اسے تین قسم کی پریشانیاں لاحق ہوجاتی ہیں۔ ایک سماج کی طرف سے دوسری فوق الشعور کی طرف سے اور تیسری لاشعور کی طرف سے۔

 

سماج کے ڈھکوسلے

چونکہ فرائڈ کے نزدیک ’’انسان شرمناک جنسی خواہشات کا غلام ہے اور بدی اس کی فطرت میں ہے ۔ اس لیے وہ کہتا ہے کہ انسان کی اعلیٰ سرگرمیاں یعنی علم‘ ہنر‘ مذہب‘ فلسفہ اور اخلاق اپنی کوئی مستقل حیثیت یا قدر وقیمت نہیں رکھتیں بلکہ اس کی ناقابل تسکین اور مجبوراً ترک کی ہوئی جنسی خواہشات کو بہلانے کا ایک ذریعہ ہیں ان کی جڑ یا بنیاد انسان کی وہی پلید فطرت ہے جسے وہ سماج کے خوف سے اپنی اصلی شکل میں مطمئن نہیں کر سکتا اور ایک دوسرے بھیس میں ظاہر کرنے پر مجبور ہو تا ہے۔ مذہب کی حقیقت فقط یہ ہے کہ جب انسان کی عمر ترقی کر جاتی ہے اور وہ سمجھنے لگتا ہے کہ اب اس کے والدین اس کی حفاظت یا غور و پرداخت کرنے سے قاصر ہیں تو وہ ایک آسمانی باپ کی خواہش پیدا کر لیتاہے۔ اصول اخلاق سماج کی پید اکی ہوئی ایک مصنوعی رکاوٹ ہیں تاکہ فرد کی جنسی خواہشات بے لگام ہو کر اسے نقصان نہ پہنچائیں۔ ضمیر گویا سماج کا پولیس مَین ہے جو فردکے شعور میں پہرہ دینے کے لیے مقرر کیا گیا ہے اور نیک و بد کی تمیز محض فرضی ہے‘‘۔وعلیٰ ہذا القیاس۔

 

انسان کی پیدائشی بدبختی

مختصراً فرائڈ کے نزدیک انسان ایک مغلوب الشہوات حیوان ہے جسے قدرت نے ذیل کے تین متبادل طریق ہائے کار میں سے ایک کے اختیار کرنے پر مجبور کررکھا ہے:

 

(i)  وہ اپنے لاشعور کی حد درجہ شرمناک جنسی خواہشات کو پوری آزادی اور بے حیائی سے مطمئن کرے‘ بے شک سماج اسے برا سمجھے گا لیکن اسے کوشش کرنی چاہیے کہ وہ سماج کی پروا نہ کرے۔

 

(ii)  وہ سماج کے خوف سے اپنی طاقتور جنسی خواہشات کو ہمت سے دبا دے اور پھر تشویش‘ ہسٹریا‘ جنون‘ خوف اور پریشانی وغیرہ دماغی امراض میں مبتلا ہوجائے۔

 

(ii)  وہ اپنی جنسی خواہشات سے قطع نظر کر کے ان کی بجائے مذہب‘  اخلاق‘ علم اور ہنر ایسی سرگرمیوں سے اپنے آپ کو دھوکہ دیتا رہے اور اس کے ساتھ ہی خوب یاد رکھے کہ ان سرگرمیوں کی حقیقت ایک وہم سے زیادہ نہیں اور دراصل ان کی اپنی کوئی قدر و قیمت نہیں سوائے اس کے کہ وہ اس کے دکھے ہوئے دل کو مبتلائے فریب کرنے کا ایک ذریعہ ہیں۔

 

فرائڈ کی مقبولیت

فرائڈ کا نظریہ مغرب کی یونیورسٹیوں میں نصابِ تعلیم کا جزو ہے۔ نفسیاتِ جدید کے نام سے اس پر ہزاروں کتابیں لکھی گئی ہیں اور دن رات لکھی جا رہی ہیں۔ اس نظریہ کی اشاعت نے مغرب میں جنسی تعلقات کی ان پابندیوں کو ‘جو مذہب یا سماج نے عائد کر رکھی تھیں‘ بہت ڈھیلا کر دیا ہے ۔ وہاں اب یہ خیال عام ہے کہ یہ پابندیاں مضرِ صحت ہیں‘ دماغی امراض پیدا کرتی ہیں اور ان سے چمٹے رہنا ایک خطرناک قسم کی قدامت پسندی ہے۔

 

فحاشت

فحاشت خواہ کسی قسم کی ہو اب یورپ میں ایک معمولی ذاتی خواہش کی تسکین کا ذریعہ سمجھی جاتی ہے جس میں کسی دوسرے کو دخل دینے یا رکاوٹ پیدا کرنے کا کوئی حق نہیں۔ جنسی خواہشات کی آزادانہ تسکین ایسی ہی ہے جیسے کہ پیاس کے وقت پانی کا ایک گلاس پی لینا خواہ کہیں سے مل جائے۔

 

جنسی ادب

جنسی خواہش انسان کی فطرت کا ایک حیاتیاتی تقاضا ہے جسے دبانا یا چھپانا دونوں ناجائز ہیں اس ذہنیت نے مغرب میں ایک بہت بڑا ادبی ذخیرہ پیدا کر دیا ہے جس میں ہر آن اضافہ ہوتا رہتا ہے اور جس کا امتیازی وصف عریانی ہے۔

 

جنسی مذاہب

اسی ذہنیت کے ماتحت یورپ میں بعض ایسے مذاہب پیدا ہو گئے ہیں جن کی رُو سے عریانی اور بے حیائی کو مقدس سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً نیچرزم اور نیوڈزم اور اس سے بھی بدتر کئی ازم جن کے ذکر سے قلم بھی شرماتا ہے۔

 

ہماری نقالی

ہمارے ہاں بھی فرائڈ کا نظریہ یہی اثرات پیدا کر رہا ہے۔ یہ نظریہ ہماری یونیورسٹیوں میں نفسیات کے نصاب کا جزو ہے۔ اس پر اب اردو میں کتابیں لکھی جا رہی ہیں اور بڑے زور سے اس کی اشاعت ہو رہی ہے۔ اس کے اثر سے جنسی تعلقات کی پابندی یا آزادی کے متعلق ہمارا نقطۂ نظر بھی مغرب سے متفق ہوتا جارہاہے۔

 

عُریاں نگاری

ہم بھی ایک عریاں قسم کا ادب پیدا کر رہے ہیں‘ جو نہایت ہردلعزیز ہے اور ہمارے ہاں نفسیات فرائڈ کے اخبار اور رسالے‘ حشرات الارض کی طرح نکل رہے ہیں اور ہاتھوں ہاتھ بکھ رہے ہیں۔ یہ صورت حال خود بتارہی ہے کہ یہ نظریہ ہمارے دین و ایمان کو کس قدر تباہ کر رہا ہے۔

 

ایڈلر : فرائڈ کے ساتھ مل کر کام کرتا رہا ہے اور اس کا شاگرد ہے۔ تاہم اس نے جذبۂ لاشعور کی نوعیت کے بارے میں فرائڈ سے اختلاف ہے۔

 

لاشعوری جذبہ کی نوعیت

اس کا خیال ہے کہ لاشعور کے اندر جس خواہش کا طوفان موجزن ہے وہ جنسی محبت نہیں بلکہ حبِّ تفوق ہے تاہم و ہ فرائڈ کی طرح مذہب‘ اخلاق‘ فلسفہ‘ علم‘ ہنر اور انسان کی دوسری اعلیٰ سرگرمیوں کا استخفاف کرتا ہے اور ان کو سماج کی مخترعات قراردیتا ہے اور ان کی اہمیت اور قدر و قیمت کو فرضی سمجھتا ہے۔ اس کے نزدیک انسان کی زندگی کی ساری تگ و دو کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو دوسروں پر غالب کرے۔بچپن میں جب وہ اپنے والدین اور دوسرے لوگوں کو دیکھتا ہے تو اپنے آپ کو ان کے مقابلہ میں کمزور اور ناتواں پاتا ہے وہ اس کی نسبت ہر لحاظ سے قوی تر‘ بہتر اور برتر ہوتے ہیں اور اپنی برتری اور قوت کی وجہ سے اس پر حکمران ہوتے ہیں اور اسے مغلوب اور مقہور رکھتے ہیں۔

 

احساسِ کمتری

ادھر یہ کمزوری اور ناتوانی کا احساس اس کے دل میں ایک مستقل جگہ بنالیتا ہے اور ادھر یہ کوشش شروع کر دیتا ہے کہ اس کمزوری اور ناتوانی سے نجات حاصل کر کے اپنے آپ کو دوسروں پر غالب کر دے اور اس کی ساری زندگی کی تگ و دَو اس غلبہ کی جستجو کی صورت اختیار کرتی ہے۔ وہ طاقت‘ غلبہ اور قوت کس چیز میں سمجھتا ہے‘ اس کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ اس کے نزدیک اس کی کمی یا کمزوری کی نوعیت کیا ہے اور وہ اپنی کون سی کمی یا کمزوری کی تلافی کرنا چاہتا ہے۔

 

گویا اگر فرائڈ انسان کو مغلوب الشہوت حیوان قرار دیتا ہے تو ایڈلر اسے ایک شیطان سمجھتا ہے جسے دوسروں کو مغلوب اور مقہور کرنے کا ایک لاعلاج مرض لاحق ہے۔

 

مادہ کا ارتقاء

کارل مارکس کا خیال ہے کہ دنیا میں نہ خدا ہے نہ روح۔ کائنات کی حقیقت فقط مادہ ہے جو ارتقاء کرتے کرتے انسان تک پہنچا ہے۔ انسانی مرحلہ پر پہنچنے کے بعد کائنات کے ارتقاء نے انسانی سماج کے اقتصادی یا معاشی حالات ارتقاء کی صورت اختیار کی ہے۔ نفس انسانی فقط مادہ کی ایک خاص ترکیب و ترتیب اور ایک خاص ترقی یافتہ صورت کا نام ہے۔ انسان مادہ کی بنی ہوئی ایک کَل ہے جس کو روٹی‘ کپڑا‘ مکان اور دوسری مادی اشیاء کی ضرورت ہے۔

 

سماج کے اوہام

جب اس کی یہ ضروریات پوری نہیں ہوتیں تو وہ ذہنی طور ان کی کمی پوری کرنے کے لیے خدا ‘ مذہب‘ فلسفہ‘ سیاست‘ علم اور ہنر کے ڈھکوسلے یا کھلونے ایجاد کر لیتی ہے اور جب تک اس کی معاشی ضروریات تشنہ رہتی ہیں وہ برابر ان سے اپنے آپ کو فریب دیتی اور اپنے دل کو بہلاتی اور اپنے غم کو غلط کرتی رہتی ہے۔ لہٰذا انسان کو چاہیے کہ اپنی زندگی کا نظام اس طرح سے بنائے کہ اس میں اقتصادی ضروریات کی تکمیل اور تشفی کے سوائے اور کسی چیز کی گنجائش باقی نہ رہے۔ اگر انسان کی زندگی میں اقتصادی ضروریات کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور روحانی اقدار کی گنجائش باقی رہے گی تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اس کی اقتصادی ضروریات کی تکمیل اسی نسبت سے ناقص رہے گی۔

 

تاریخی مادیت

کارل مارکس نے اپنے فلسفہ کی تائید کے لیے ڈارون کے نظریۂ ارتقاء سے کام لے کر اسے اپنے مقصد کے مطابق ڈھال لیا ہے۔ اس کی مدد سے اس نے ایک نظریۂ تاریخ وضع کیا ہے جسے وہ تاریخی مادیات کا نام دیتا ہے۔ ڈارون کا نظریہ تو زندگی کی ابتداء سے لے کر صرف انسان کے ظہور تک کائنات کے ارتقاء کی کیفیت بیان کرتا ہے لیکن انسان کے ظہور میں آنے کے بعد ارتقاء کس طرف ہو رہا ہے؟ کارل مارکس نے اپنے نظریۂ تاریخی مادیات کے ذریعہ سے اس سوال کا جواب مہیا کرنے کی کوشش کی ہے اور اس طرح وہ ڈارون کے نظریہ کو آگے لے گیا ہے۔ اس کے نزدیک حیاتیاتی مرحلہ کی طرح انسانی مرحلہ میں بھی ارتقاء کا سبب میکانی قوتوں کا عمل اور ردِّعمل ہے۔ تاریخی مادیات کے نظریہ کا ماحصل یہ ہے کہ کائنات ایک عالم گیر سوشلسٹ انقلاب کی طرف حرکت کر رہی ہے۔ وہ شروع سے ترقی کرتا چلا آیا ہے ۔ جب یہ ترقی کرتے کرتے انسان تک پہنچا تو اس کے ارتقاء نے انسان کے نظام ہائے معاشی کو اپنا راستہ بنایا۔ چنانچہ اس حرکتِ ارتقاء کی وجہ سے انسانی سماج کے نظام ہائے معاشی بدلتے رہے ہیں۔

 

ارتقاء کا نقطۂ کمال

اس تغیر کا آخری نتیجہ یہ ہو گا کہ دنیا میں ایک سوشلسٹ انقلاب رونما ہوگا جو تمام دنیا میں پھیل جائے گا۔ تاریخی مادیات کا تصور فلسفہ سوشلزم کو بہت مضبوط کر دیتا ہے کیونکہ بظاہر یہ تصور اس سوال کا سب سے پہلا معقول اور مدلل جواب ہے کہ انسانی مرحلہ میں ارتقاء کا رخ کس طرف ہے۔ اس تصور نے فلسفہ سوشلزم کو اس لیے بھی بہت فروغ دیا ہے کہ اس کو ماننے کے بعد ایک شخص مجبور ہوجاتاہے کہ سوشلزم کے سوائے ہر نظریہ زندگی کے مستقبل سے کلیتاً مایوس ہو جائے اور اسے عارضی‘ اور لہٰذا ناکارہ اور غلط قرار دے ۔

 

برنارڈ شا‘ کارل مارکس کے اس نظریہ سے وجد میں آگیا ہے اور وہ انتہائی عقیدت میں ڈوب کر لکھتا ہے:

 

’’کارل مارکس کا سر ایک دیوتا کی طرح بلند ہے ۔ کیونکہ اس نے سماج کے ارتقاء کا قانون دریافت کر لیا ہے‘‘۔

 

لیکن برنارڈ شا اور اس جیسے دوسرے لوگ جو مارکس کے عقیدت مند ہیں محض ایک غلط فہمی کا شکار ہیں کیونکہ سماج کے ارتقاء کا اصلی صحیح قانون ان کے سامنے موجود نہیں۔

 

مارکس کا نظریہ

کارل مارکس نے اپنے فلسفہ کو مختصر طو رپر یوں بیان کیا ہے:

 

’’میرے سارے غور و فکر کا مرکزی تصور جس سے میں نے تمام دوسرے نتائج اخذ کیے ہیں یہ ہے کہ ایک جماعت کے افراد اپنی اقتصادی ضروریات کی تکمیل کا سامان پیدا کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ ایک خاص قسم کے معاشی تعلقات قائم کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ان تعلقات کے ظہور میں ان کی خواہش یا مرضی کو کوئی دخل نہیں ہوتا اور ان کا سارا دار و مدار کسب معاش کے ان قدرتی مادی ذرائع پر ہوتا ہے جو کسی خاص وقت پر موجود ہوں۔ ان تعلقات کا مجموعہ جماعت کا معاشی نظام کہلاتا ہے اور یہی نظام وہ اصل بنیاد ہے جس پر سیاست اور قانون کی ساری عمارت کھڑی کی جاتی ہے اور جو خاص قسم کے اجتماعی تصورات کو پیدا کرنے کا موجب ہوتا ہے۔ گویا مادی ضروریات پیدا کرنے کا طریق انسان کی ساری اجتماعی‘ سیاسی اور روحانی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ انسانوں کے نظریات اور تصورات نہیں جو ان کی مادی زندگی کو معین کرتے ہیں بلکہ یہ ان کی مادی زندگی ہے جو ان کے تصورات اور نظریات کو معین کرتی ہے ۔ کچھ عرصہ کے بعد ضروریات کی بہم رسانی کے قدرتی ذرائع ترقی کر کے ایک ایسے مرحلہ پر پہنچ جاتے ہیں جہاں وہ افراد کے موجودہ معاشی تعلقات کے ساتھ یا (ایک قانونی طرز ِ بیان کو اختیار کرتے ہوئے) ملکیت کے ان تعلقات کے ساتھ جن میں وہ پہلے عمل کرتے رہے ہیں‘ مزاحم ہونے لگتے ہیں۔ اگرچہ یہ تعلقات خود بھی ذرائع پیداوار کی نشوونما کی ایک خاص شکل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تاہم یہ ان کی نشوونما کے لیے ایک رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ ایسی حالت میں اجتماعی انقلاب کے ایک دَور کا آغازہوتا ہے۔معاشی بنیادوں کے بدلتے ہی ان کے اوپر کی ساری تعمیر (یعنی مذہبی‘ اخلاقی‘ روحانی‘ سیاسی ‘ قانونی اور علمی نظریات و تصورات) بتدریج یا فی الفور بدل جاتی ہے۔ اس تغیر پر غور کرتے ہوئے ہمیں اس مادی تغیر میں جو ضروریاتِ زندگی کی بہم رسانی کے لیے ضروری اقتصادی حالات کے اندر رونما ہوتا ہے (اور جس کا صحیح اندازہ ایسا ہی آسان ہے جیسا کہ قوانین طبعی کے عمل کا اندازہ لگانا) اور اس تغیر میں جو قانونی‘ سیاسی‘ مذہبی‘ ہنری یا علمی تصورات میں مختصر یہ کہ نظریات میں رونما ہوتا ہے اور جس کے ذریعے سے لوگ اس تصادم کا احساس کرتے ہیں اور اسے اپنی جدوجہد سے انجام تک پہنچاتے ہیں ‘فرق کرنا چاہیے جس طرح سے ہم ایک فرد انسانی کی شخصیت کا صحیح اندازہ اس رائے کی بنا پر قائم نہیں کر سکتے جو وہ اپنے بارہ میں رکھتا ہے ۔ اسی طرح سے ہم اس قسم کے اجتماعی تغیر کے دور کی ماہیت کا صحیح اندازہ اس کے تصورات اور نظریات سے نہیں لگا سکتے بلکہ ہمیں چاہیے کہ ہم ان تصورات اور نظریات کا سبب مادی زندگی کے اندرونی تضاد میں یعنی اس تصادم میں تلاش کریں جو سامانِ زندگی کو پیدا کرنے والی اجتماعی قوتوں اور ان معاشی تعلقات کے درمیان جن کے ذریعہ سے سامانِ زندگی پیدا ہو رہا ہے‘ رونما ہونے کو تیارہوتاہے‘‘۔

 

اینگلز کا اختصار

مارکس کا ساتھی اینگلز ‘جس نے سوشلزم کے فلسفہ کی تعمیر میں مارکس کے ساتھ برابر کا حصہ لیا ہے‘ اسی خیال کو زیادہ مختصر اور زیادہ واضح طور پر یوں بیان کرتا ہے‘‘۔

 

’’مارکس نے اس سادہ حقیقت کا کھوج لگایا (جو آج تک تصورات اور نظریات کی بالائی نشوونما میں چھپی ہوئی تھی) کہ اس سے پہلے کہ انسان سیاست‘ علم‘ ہنر‘ مذہب وغیرہ میں دلچسپی لے سکے۔ یہ ضروری ہے کہ اسے خوراک‘ پانی‘ کپڑا اور مکان میسر ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی کے اس سامان کی بہم رسانی جو فوری طور پر ضروری ہے اور اس کے ساتھ ہی ایک قوم یا ایک دَور کی نشوونما کا موجودہ مرحلہ یہی وہ بنیادیں ہیں جن پر سیاسی رسم و رواج اورقانونی نظریات اور ہنری بلکہ مذہبی تصورات تعمیر کیے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اوّل الذکر کو ایک سبب یا اصل کے طور پر پیش کرنا چاہیے حالانکہ آج تک اوّل الذکر کی تشریح کے لیے اکثر مؤخر الذکر کو ایک سبب کے طور پر پیش کیا جاتارہا ہے‘‘۔

 

سوشلزم کی دلکشی

سوشلزم ایک سیاسی نظریہ کی حیثیت سے کرئہ ارض کے قریباً چوتھائی حصہ پر حکمران ہے اس کے علاوہ دنیا کے ہر ملک میں سوشلسٹ جماعتیں موجود ہیں۔ دنیا کے ہر اسلامی ملک میں اقتصادی انصاف کے مطالبہ کی بنا پر جو انجمنیں وجود میں آتی ہیں وہ سوشلزم سے اپنا رشتہ جوڑ لیتی ہیں۔ کیونکہ سوشلسٹ اپنے مقاصد کی پیش بُرد کے لیے ان کی امداد کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ دنیا کے ہر ملک میں سوشلزم کی حمایت میں ایک ادب وجود میں آ چکا ہے جس کی مقدار بڑھتی جا رہی ہے ۔ کسان اور مزدور کے ساتھ ہمدردی اس ادب کا مرکزی موضوع ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی سوشلزم کے مراکز جابجا موجود ہیں اور وہاں سے ہر قسم کا سوشلسٹ لٹریچرصادر ہوتا رہتا ہے۔

 

ریاست کا آدرش

مکیاولی‘ اٹلی کا وہ فلسفی ہے جو قومیت یا وطنیت کے نظریہ کا مبلغ ہے اور جس نے اسے ایک اجتماعی فلسفہ کی شکل دی ہے اس کا عقیدہ یہ ہے کہ ریاست کی حفاظت اور ترقی انسان کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد ہے لہٰذا ضروری ہے کہ مذہب اور اخلاق اس کے ماتحت اس کے خدمت گزار بن کر رہیں جب ریاست کے مفاد اس بات کا تقاضا کریں تو حکمران کے لیے جائز ہی نہیں بلکہ ضروری ہے کہ دغا‘ مکر‘ فریب ‘ جھوٹ اور ظلم سے جس قدر چاہے کام لے۔

 

سیاست دانوں کا طریق کار

یورپ میں قومی ریاست کا وجود اور اس کی حفاظت اور ترقی کے لیے یورپ کے سیاست دانوں اور ان کے ایشیائی شاگردوں کے وہ طریقے‘ جن میں وہ مذہب‘ اخلاق‘ نیکی ‘ تہذیب ‘ عدل‘ انسانیت‘ شرافت اور آزادی کا نام لے لے کر دوسری قوموں پر طرح طرح کے مظالم روا رکھتے ہیں ‘ اسی فلسفی کی تعلیم کا نتیجہ ہیں۔اب یورپ میں جھوٹ‘ مکر اور فریب سیاست کے ضروری عناصر سمجھے جاتے ہیں۔

 

ڈپلومیسی اور پروپیگنڈا

سیاست دانوں کا جھوٹ ایک فن شمار کیا جاتا ہے اور اسے ڈپلومیسی‘ سٹیٹس مَین شِپ اور پروپیگنڈا کے مہذب ناموں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ چونکہ ہر قومی ریاست اپنے ہی مفاد کی حفاظت کرتی ہے وہ اس غرض کے لیے دوسری قوموں کے مفاد کو پامال کرتی‘ہے۔

 

رقابت اور نفرت

اوراس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر قوم میں دوسری تمام قوموں کے خلاف ایک رقابت اور نفرت کا جذبہ پرورش پاتا ہے۔ اگرچہ ہر ریاست یا قوم اپنے اس شرمناک جذبہ کوشیریں الفاظ اور دلکش نظریات اور معصومانہ پند و نصائح کا جامہ پہنا کر رکھتی ہے لیکن دراصل یہی جذبہ ہے جو قوموں کو ایک دوسرے کے خلاف جنگ کرنے پر اکساتارہتاہے۔

 

ایک مذہب

قوم پرست اپنی قوم کو جو کسی خاص جغرافیائی حدود میں بس رہی ہو کوئی خاص زبان بولتی ہو یا کسی خاص نسل سے تعلق رکھتی ہو ایک مقدس تصور کی حیثیت دیتے ہیں اور پھر اس تصور کو اپنی ساری زندگی کا مدار اور محور بناتے ہیں۔ ان کا ہر کام‘ ان کا چلنا پھرنا‘ اٹھنا بیٹھنا اور جینا مرنا اس تصور کی خدمت کے لیے وقف ہوتا ہے۔ ان کا نظامِ تعلیم‘ نظامِ اخلاق‘ نظامِ قانون ‘ نظامِ سیاست ‘ نظامِ معیشت‘ دستور ِاساسی غرضیکہ ان کی جماعتی زندگی کا ہر ایک پہلو اس تصور کی ضروریات کے ماتحت تشکیل پاتا ہے۔

 

عملی زندگی کا محور

گووہ خدا کو بھی مانتے ہوں اور کسی نہ کسی مذہب سے بھی اپنا تعلق ظاہر کرتے ہوں۔ لیکن خدا یا مذہب سے ان کا تعلق برائے نام اور سطحی ہوتا ہے۔ ان کا سیاسی تصور ہی ان کا اصلی معبود ہوتاہے۔

 

خداسے بیزاری

جب کبھی ایسا موقع پیدا ہو جائے کہ ان کا مذہب ان کی قومیت کے تصور کے ساتھ مزاحمت کر رہا ہو اور مذہب یا خدا اور اس سے پیدا ہونے والی اخلاقی اقدار (مثلاً انسانیت ‘ نیکی‘ عدل‘ حریت وغیرہ) کے تقاضے ان کے سیاسی تصور کے تقاضوں کے خلاف ہوں تو وہ ہمیشہ خدا اور مذہب اور انسانیت اور نیکی اور عدل اور حریت کے تقاضوں کو لات مار کر اپنے سیاسی تصور کا ساتھ دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک انسان کے لیے اس کی فطرت کے قوانین کی رو سے ناممکن ہے کہ وہ بیک وقت دو نصب العینوں سے محبت کرے اور دونوں کو مساوی اہمیت دے۔ اگر قومیت پرست لوگ مذہب اور اخلاق کو اہمیت دیں تو وہ قوم پرست نہیں بلکہ خدا پرست ہوں گے۔

 

مذہب کاا ستعمال

مکیاولی کے نزدیک مذہب کی اہمیت فقط یہ ہے کہ ریاست کے اربابِ اختیار ریاست کے استحکام کے لیے جو کچھ کریں۔ اس کی جذباتی حمایت ان کو مذہب سے حاصل ہو سکتی ہے۔ چنانچہ مکیاولی لکھتا ہے:

 

’’ایک عقل مند حکمران کو چاہیے کہ جب دیکھے کہ عہد کی پابندی اسے نقصان دے گی تو عہد کو توڑ دے … ضروری نہیں کہ حکمران میں وہ تمام خوبیاں موجود ہوں جن کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے۔ لیکن یہ نہایت ضروری ہے کہ دوسروں کو ایسا ہی نظر آئے کہ اس میں یہ خوبیاں موجود ہیں اور میں یہ کہوں گا کہ ان اوصاف کا مالک ہونا اور انہیں ہمیشہ کام میں لانا ضرر رساں ہے اور ان کی نمائش کرنا مفید ہے… جب ریاست کے مفاد خطرہ میں ہوں تو پھر اس بات کی پرواہ نہیں کرنا چاہیے کہ انصاف اور ظلم اور رحم اور بے رحمی اور قابل تعریف اور شرمناک کے الفاظ کیا معنی رکھتے ہیں‘‘۔

 

ہیگل کی تائید

مکیاولی کے نظریۂ قومیت کو ہیگل کے نظریۂ ریاست سے بہت مدد ملی ہے۔ ہیگل کا خیال ہے کہ ریاست ایک مقدس وجود ہے جو کبھی غلطی کا ارتکاب نہیں کر سکتا اور اس کا حق ہے کہ اسے غیر محدود توسیع اور غیر مشروط اطاعت حاصل ہوتی رہے۔

 

اسلام سے مغائرت

ظاہر ہے کہ قومیت کے ساتھ اسلام اکٹھا نہیں ہو سکتا۔ اگر ہم قومیت کو اپنا سیاسی اور جماعتی تصور قراردے لیں تو پھر ناممکن ہے کہ ہم اسلام کو اپنی انفرادی زندگی کے لیے بھی راہنما بنا سکیں جو مسلمان برضا و رغبت ایک قومی ریاست کا فرد ہو گا وہ مجبور ہوگا کہ اپنی انفرادی عملی زندگی میں اسلام سے الگ ہو جائے یا اس سے برائے نام اور نمائشی تعلق رکھے کیونکہ اسلام فقط نماز و روزہ اور حج اور زکوٰۃ کا نام نہیں بلکہ زندگی کے ہر ایک فعل میں خدا کی رضامندی کو ملحوظ رکھنے کا نام ہے۔ مسلمان کی ساری زندگی ہی عبادت ہے اگر وہ اپنی زندگی کے ایک حصہ کو اپنی قومی ریاست کی ضروریات کی خاطر خدا کی رضا جوئی کے لیے کام میں نہیں لاتا اور اس پر رضامند ہے تو وہ صریحاً خدا کے ساتھ شرک کرتا ہے اور غیر اللہ کو اللہ کا مقام دیتا ہے۔

 

نیشنلزم کی خوبیاں

ہر غلط سیاسی نظریہ کی طرح نیشنلزم کے اندر بعض ایسے عناصر بھی ہیں جو عمدگی اور اچھائی کا پہلو لیے ہوئے ہیں مثلاً یہ نظریہ جماعت کے افراد کے اندر یک جہتی ‘ اتحاد‘ تنظیم اور قربانی کے اوصاف پیدا کرتا ہے۔ اگرچہ ان اوصاف کا عمل اس جماعت کے افراد کے تنگ دائرہ تک محدود رہتا ہے تاہم ان کی وجہ سے جماعت کی فوجی ‘اقتصادی اور سیاسی قوت ترقی کر جاتی ہے۔ یورپ کی قوموں نے نیشنلزم کے تصور کے ماتحت جو مادی ترقی حاصل کی اس کی وجہ سے انہوں نے غیر قوموں کو سیاسی اور مذہبی لحاظ سے اپنا غلام بنا لیا۔

 

ارتداد کی زبردست قوت

دنیا بھر  میں مسلمان نیشنلزم کے تصور سے یہاں تک متأثر ہوئے ہیں کہ اب اسلام ان کی عملی زندگی میں ایک ثانوی اہمیت رکھتا ہے۔ حالانکہ جو مسلمان اسلام کو اپنی زندگی میں دوسرے درجہ کی اہمیت دیتا ہے‘ اسے مسلمان نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اسلام دوسرے درجہ کی اہمیت قبول نہیں کرتا:

 

{قُلْ اِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ لاَ شَرِیْکَ لَہٗ ج  وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ}  (الانعام:۱۶۲‘ ۱۶۳)

 

’’کہو میری نماز اور قربانی اور زندگی اور موت اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں مجھے یہی حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے اسے تسلیم کرتاہوں‘‘۔

 

اسلامی ممالک کے مسلمانوں کی افسوسناک ذہنیت

اوّل تو ایک ایرانی‘ مصری‘ عراقی یا شامی مسلمان یہ کہے گا کہ میں پہلے ایرانی‘ مصری‘ عراقی یا شامی ہوں اور بعد میں مسلمان۔ لیکن اگر وہ ایسا نہ بھی کہے تو پھر بھی عملی طور پر وہ پہلے ملکی ثابت ہوتا ہے اور بعد میں مسلمان۔ اسی ذہنیت کی وجہ سے مسلمان ممالک‘ اسلام کے نام پر اب تک کوئی مؤثر اتحاد نہیں کر سکے۔ اس کی وجہ سے عرب جس قدر وحدت اور رشتۂ مؤدت و اخوت اپنی نسل کے مسلمانوں سے محسوس کرتے ہیں دوسرے مسلمانوں سے نہیں کرتے اسی کی وجہ سے ہندی مسلمانوں کی اکثریت عرصہ دراز تک اکھنڈ ہندوستان اور متحدہ ہندی قومیت کے نظریہ کا شکار بنی رہی۔

 

پاکستان میں نیشنلزم کا زہر

اسی کی وجہ سے اب بھی تعلیم یافتہ پاکستانی مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد پاکستان کو ایک لادینی ریاست بنانا چاہتی ہے اور اس میں ایک لادینی دستور اساسی‘ لادینی نظامِ تعلیم‘ لادینی نظامِ قانون اور لادینی نظامِ معاشیات نافذ کرنا چاہتی ہے اسی کے اثر سے پاکستان کے بعض مسلمان صوبہ پرستی‘ نسل پرستی‘ زبان پرستی اور خاندان پرستی کا نام لے لے کر اپنی قومی وحدت اور تنظیم کو پارہ پارہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اسی کے اثر سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے دشمنوں نے پختونستان کا ڈھونگ رچایا ہے اور اسی کے بل بوتے پر عبداللہ ایسے لوگ کشمیری مسلمانوں کو پاکستان سے الگ کرنے کا منصوبہ باندھ چکے ہیں۔

 

خطرناک مخفی اثرات

کفر کا یہ عقیدہ اس لحاظ سے نہایت خطرناک ہے کہ ملت اسلامیہ کے لیے اس کا تباہ‘کن اثر دوسرے مغربی تصورات کی نسبت زیادہ مخفی طریق سے اپنا کام کرتا ہے۔ یہ مسلمانوں کے دین و ایمان کو اندر ہی اندر گھن کی طرح کھاتا رہتا ہے اور انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ ان کے دین و ایمان کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آرہا ہے۔ اس عقیدہ کے حد درجہ مخفی اور غیر شعوری اثرات کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا کہ تقسیم سے پہلے ہند میں خودعلماء کرام اور راہنمایان اسلام ‘ اسلام ہی کے نام پر نہایت زور شور سے اس عقیدہ کی تبلیغ کرتے رہے۔ ابھی تک ایشیائی قوموں نے جن میں مسلمان بھی شامل ہیںاس نظریہ کی ان ہولناک تباہ کاریوں سے جو دو عالمگیر جنگوں کی صورت میں رونما ہوئی ہیں‘ کوئی سبق نہیں لیا۔

 

ایک غلط خیال

بعض کا خیال ہے کہ ضروری نہیں کہ قومیت کا نظریہ بین الاقوامی جنگوں کا موجب ہو۔ ایک قوم دوسری قوموں کے ساتھ صلح اور آشتی سے رہتے ہوئے اور ہمدردی اور مؤدت کا برتاؤ کرتے ہوئے بھی اپنے قومی مفاد کا پوراپورا خیال رکھ سکتی ہے۔ لیکن دراصل یہ ایک شدید قسم کی غلطی ہے۔

 

ناگزیر نتائج

ہر سیاسی جماعت یا ریاست کردار کے خاص میلانات رکھتی ہے جو اس کے سیاسی نظریہ کی سرشت کے اندر موجود ہوتے ہیں اور جو اسے ایک خاص طریق سے اور ایک خاص سمت میں عمل کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ایک خاص نظریۂ حیات سے ایک خاص قسم کے کردار کا ظہور اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ یہ ضروری ہے کہ ہر درخت اپنا ہی پھل لائے۔ ایک قومی ریاست کا وجود قومیت کے نظریہ پر مبنی ہوتا ہے اور اس کا کردار اس وقت تک بدلا نہیں جا سکتا جب تک اس کا نظریہ نہ بدل جائے۔

 

خود غرضی اور خود پرستی

ایک قومی ریاست کے وجود کا دار ومدار اس بات پر ہے کہ وہ باقی ماندہ نوعِ بشر سے الگ ایک جماعت ہے اور ہمیشہ اس سے الگ رہے گی لہٰذا ایسی محبت‘ رواداری اور ہمدردی جو جماعت کے دائرہ سے نکل کر تمام نوعِ بشر پر پھیل جائے اس کی سرشت میں موجود نہیں ہوتی۔

 

جوں ہی کہ ایک قومی ریاست خود غرضی‘ خود پروری اور خود پرستی کو ترک کرے گی وہ اپنے آپ سے الگ ہو جائے گی اور اس کا وجود ایک قومی ریاست کی حیثیت سے ختم ہو جائے گا۔ ایک قومی ریاست کے اندرونی اتحاد کا سبب یہ ہے کہ اس کے بغیر وہ دوسری قومی ریاستوں کے خلاف اپنے وجود کو برقرار نہیں رکھ سکتی۔

 

قومیت اور خدا پرستی کا بُعد

اس لیے جب تک وہ ایک قومی ریاست ہے وہ اپنی ہمدردیوں کو اتنی وسعت نہیں دے سکتی کہ اس کے دائرہ میں تمام نوع بشر سما جائے۔ جب ایک قومی ریاست دوسری ریاستوں کے ساتھ ہمدردی‘ محبت نیکی اور انصاف سے برتاؤ کرنے کا ایک اصول بنا لے گی تو اسے بسا اوقات اپنے قومی مفاد کو ان اصولوں کی خاطر قربان کرنا پڑے گا اور اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کا سیاسی نظریہ قومیت پرستی کی بجائے خدا پرستی بن گیا ہے اور وہ ایک قومی ریاست کی حیثیت سے ختم ہو گئی ہے اگر یہ نہیں تو پھر وہ قومی ریاست ہے جسے خدا‘ مذہب اور اخلاق سے کوئی سروکار نہیں ہو سکتا۔

 

ایک مسلمہ عقیدہ

قومیت کا نظریہ اس وقت دنیا کے مسلّمات میں شمار ہوتا ہے۔ سبب ہے کہ جب قائد اعظم نے برعظیم ہند میں ایک الگ اسلامی ریاست کا مطالبہ کیا تو انہیں ہر طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ہندو نے دنیا کی اس ذہنیت سے فائدہ اٹھا کر مسلمان کو نگل جانے کی کوشش کی۔ قائد اعظم اور ان کے ساتھی مسلمانوں کو لمبی چوڑی دلیلوں سے ثابت کرنا پڑا تھا کہ ایک الگ اسلامی ریاست کے بغیر مسلمانانِ ہند کی زندگی خطرہ میں ہے۔

 

دشمنانِ اسلام کا ہتھیار

لیکن ہندو ان دلیلوں کے مقابل میں فقط یہ کہہ کر بازی لے جاتا تھا کہ یہ لوگ فرقہ پرست ہیں‘ قو م کے دشمن ہیں اور اس زمانہ میں ایک مذہبی ریاست کے خواب دیکھ رہے ہیں او رپھر نہ صرف مغرب کی قومیں بلکہ خود ہندوستان کے اندر اور باہر کے مسلمان ان کی بات کو وزن دار قرار دیتے تھے۔

 

برٹش کیبنٹ مشن نے مسلمانوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے بھی ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک الگ ریاست کے دلائل کو قبول نہ کیا۔ یہ تو خدا کا شکرہے کہ اس نے خود ہندوؤں کے دل میں تقسیم ہند کا خیال پیدا کیا ورنہ دنیاکی رائے عامہ کی بنا پر پاکستان ایسی ایک اسلامی ریاست ہماری چیخ و پکار کے باوجود کبھی وجود میں نہ آ سکتی۔

 

بھارت کا پروپیگنڈا

آج بھی ہندو دنیا کی اس ذہنیت سے فائدہ اٹھا کر کشمیر کو نگل جانا چاہتا ہے اور پاکستانی مسلمانوں کو دنیا میں رسوا کرنے کے لیے یہ کہنا کافی سمجھتا ہے کہ یہ لوگ اپنے دستور اساسی میں ایک ایسی ریاست وجود میں لا رہے ہیں جو قومیت کی بجائے مذہب پر مبنی ہو گی۔

 

ہماری ذمہ داری

غرضیکہ قومیت یا وطنیت کا عقیدہ اس وقت اقوامِ عالم کے نزدیک ایک ناقابل انکار صداقت ہے اور مسلمانوں کے سوائے کسی کی سمجھ میں نہیں آ سکتا کہ کس طرح سے کوئی قوم اس زمانہ میں ریاست کو مذہب پر مبنی کر سکتی ہے؟ لہٰذا خود اپنی حفاظت اورسلامتی کے لیے اپنے آپ کو اور دنیا کو اس کفر سے نجات دلانا ہماری بہت بڑی ذمہ داری ہے۔

 

قرآن اور علمِ جدید (یونی کوڈ فارمیٹ)