قرآن اور علمِ جدید (یونی کوڈ فارمیٹ)

میکڈوگل نظریۂ جبلّت

 

روحِ قرآن سے مطابقت

میکڈوگل کے نظریہ میں جو تصورات روحِ قرآن سے مطابقت رکھتے ہیں وہ حسب ذیل ہیں:

 

(۱)  ایک حیوان کے سارے افعال جبلتوں کے ماتحت سرزد ہوتے ہیں۔

 

(۲)  جبلت عمل کا ایک خاص اندرونی حیاتیاتی دباؤ ہے جس کے لیے حیوان کے نظامِ عصبی یا دماغ میں خاص مراکز موجود ہوتے ہیں۔

 

(۳)  ہر جبلت کی قدرتی فعلیت ایک خاص اندرونی یا بیرونی تحریک (Stimulus) کے ماتحت ایک خاص مدعا کے ساتھ اور ایک خاص قسم کی جذباتی کیفیت یا عاطفہ (Emotion)کی ہمراہی میں شروع ہوتی ہے اور جب تک مدعا حاصل نہیں ہو جاتا‘ برابر جاری رہتی ہے۔

 

(۴)  جبلتوں کے عمل کی قدرتی غرض یہ ہے کہ فرد حیوانی کی زندگی اور نسل باقی رہے۔

 

(۵)  انسان کے اندر وہی جبلتیں ہیں جو اس سے نچلے درجہ کے حیوانات میں موجود ہیں کیونکہ جہاں تک بقائے حیات اور نسل کا تعلق ہے انسان کی ضروریات بالکل وہی ہیں جو حیوان کی ضروریات ہیں۔

 

قرآن کی مخالفت

یہ تصورات صحیح ہیں اور قرآن کے تشریحی اور تفسیری مواد کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن میکڈوگل کا یہ خیال تعلیم قرآن کے خلاف ہے اور قطعاً غلط ہے کہ انسان کی ساری فطرت اُس کی حیوانی جبلتوں پر مشتمل ہے یا اس کے اعمال کا ماخذ یا منبع اس کی حیوانی جبلتیں ہیں۔ میکڈوگل کے نظریہ کا یہ حصہ بعض شدید قسم کے اعتراضات کی زد میں آتا ہے۔ ہم اس سے پوچھتے ہیں کہ اگر انسان کے محرکات عمل بھی وہی ہیں جو حیوان کے اندر پائے جاتے ہیں تو پھر حیوانی فطرت اور انسانی فطرت ایک دوسرے کے ساتھ پوری طرح سے متوارد اور متوافق کیوں نہیں۔ انسان کی فطرت کئی پہلوؤں سے حیوان کی فطرت سے مختلف ہے مثلاً:

 

انسان اور حیوان کا پہلا فرق

حیوان صرف جانتا‘ سوچتا اور محسوس کرتا ہے لیکن انسان جب سوچتا‘ جانتا اور محسوس کرتا ہے تو جانتا بھی ہے کہ وہ سوچتا جانتا اور محسوس کرتا ہے۔ گویا حیوان کا شعور اپنے آپ سے آگاہ نہیں لیکن انسان کا شعور اپنے آپ سے آگاہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہم اس حقیقت کا اظہار اس طرح سے کرتے ہیں کہ حیوان فقط شعور (Consciousness)کا مالک ہے۔ لیکن انسان خود شعوری (Self-Consciousness) سے بہرہ ور ہے۔

 

دوسرا فرق :

حیوان اپنی جبلتوں کی مخالفت نہیں کر سکتا۔ ان کے طبعی مطالبہ کو روک نہیں سکتا اور ان کو اپنے اختیار اور ارادہ سے تشنہ یا غیر مطمئن نہیں رکھ سکتا۔ لیکن انسان اپنی جبلتوں کی مخالفت کر سکتا ہے۔ ان کے طبعی مطالبہ کو روک سکتا ہے اور اپنے اختیار اور ارادہ سے ان کو تشنہ اور غیرمطمئن رکھ سکتا ہے۔

 

مخالفت جبلت کے معنی

اس میں شک نہیں کہ بعض وقت ہمیں ایسا نظر آتا ہے کہ حیوان بھی اپنی کسی جبلت کی مخالفت کر رہا ہے مثلاً جب ایک گائے باغ میں گھس کر گھاس چر رہی ہو تو وہ اپنی بھوک کی جبلت کو مطمئن کر رہی ہوتی ہے لیکن جب مالی اسے ہانک دیتا ہے تو وہ اپنی خوراک چھوڑ کر بھاگ جاتی ہے لیکن اس قسم کی تمام مثالوں میں ہمیں نظر آئے گا کہ حیوان کی مخالفتِ جبلت کا باعث یہ ہے کہ وہ ایک دوسری اس سے قوی تر جبلت کو مطمئن کرنا چاہتا ہے۔ اس مثال میں گائے نے بھوک کی جبلت کو ترک کر کے اپنی جبلت فرار(Flight) کو مطمئن کیا ہے۔ دونوں جبلتوں کی غرض زندگی کا قیام تھا لیکن اگر گائے بھاگ نہ جاتی تو اس کی زندگی فوری طور پر خطرہ میں پڑ جاتی ہے۔ لہٰذا وہ سب سے پہلے جبلت فرار کو مطمئن کرتی ہے کبھی کبھی انسان بھی ایسا ہی کرتا ہے۔ مثلاً جب ایک بچہ جسے بھوک لگ رہی ہو سزا کے خوف سے بے وقت کھانے سے احتراز کرتا ہے۔

 

عزم کے معنی

لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان اپنی جبلت کی مخالفت اس طریق سے کرتا ہے کہ اس مخالفت کے عمل کے دوران میں کسی اور جبلت کی تشفی کا سامان پیدا نہیں ہوتا اور بقائے فرد اور نسل کے تقاضوں میں سے کوئی تقاضا پورا نہیں ہوتا بلکہ جبلتوں کے مطالبات اور بقائے فرد و نسل کے تقاضے پامال ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ روزہ داروں کا بھوک اور پیاس کو روکنا‘ محب وطن سپاہیوں کا میدانِ جنگ میں سینہ پر گولیاں کھانا‘ غیر شادی شدہ پارساؤں کا جنسی تعلقات سے پرہیز کرنا‘ سائنس دانوں اور سیاحوں کا طلب علم کی خاطر بڑی بڑی قربانیاں کرنا‘ انسان کی اس قسم کی مخالفت جبلت کی مثالیں ہیں۔ جبلت کی مخالفت کو حکماء کی اصطلاح میں ارادہ(Will)یا عزم(Volition)کہا جاتا ہے اور عزم کو فعلِ جمیل یا تصوری یا اخلاقی فعل کی ایک ضروری شرط سمجھا جاتا ہے۔

 

تیسرا فرق:

حیوان اپنی کسی جبلت کو اس کے طبعی مطالبہ سے زیادہ مطمئن نہیں کر سکتا۔ لیکن انسان اپنی جبلتوں کو اُن کی ضروریات اور طبعی حدود سے زیادہ مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ حیوان جبلتوں کی لذت کے لیے اتنی ہی کشش رکھتا ہے جتنی کہ اُن کی طبعی فعلیت(Natural Activity)کے ساتھ وابستہ کی گئی ہے لیکن انسان کے لیے یہ کشش حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہے۔

 

چوتھا فرق:

انسان محض آدرشوں(Ideals)کی خاطر یعنی ان کی کشش اور محبت سے مجبور ہو کر آدرشوں کی طلب اور جستجو کرتا ہے اور اُن کے لیے جبلتی تقاضوں کو قربان کرتا ہے۔ حیوان کے اندر کوئی ایسا جذبۂ عمل موجود نہیں۔

 

پانچواں فرق :

انسان علم کی خاطر علم کی جستجو کرتا ہے حیوان کے اندر بے شک ایک ذوق دریافت (Curiosity) موجود ہے لیکن یہ ذوق اس کی جبلتوں کی خدمت اور اعانت کے لیے اپنی تشفی چاہتا ہے انسان کے اندر صداقت یا علم کی تلاش خود صداقت یا علم کی غرض کے علاوہ کسی اور غرض کے لیے نہیں ہوتی۔ فلسفہ اور سائنس انسان کی فطرت کے اس پہلو کے نتائج ہیں۔

 

چھٹا فرق :

انسان اخلاقی اقدار کو ان اقدار ہی کے لیے چاہتا ہے اور اُن کے حصول کی کوشش میں اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ اُس کے تقاضے ٹھیک طرح سے مطمئن ہوتے ہیں یا نہیں۔ مذہب‘ اخلاق‘ سیاست اور قانون انسان کی فطرت کے اس پہلو کے نتائج ہیں۔

 

ساتواں فرق :

انسان حُسن کو حُسن کے لیے آزادانہ طو رپر طلب کرتا ہے اور اپنے کاموں میں حسن کا اظہار کرتا ہے جس کی ایک صورت ہنر (Art)ہے ۔ حیوان بھی اپنے بعض کاموں میں مثلاً گھونسلا بنانے میں حسن کا اظہار کرتا ہے لیکن حیوان میں اس قسم کا اظہارِ حسن ایک مقررہ اور غیر مبدل صورت میں ہوتا ہے اور ایک جبلت کی شکل اختیار کرتا ہے جو دوسری جبلتوں کے ساتھ مل کر فرد کی زندگی اور نسل کو برقرار رکھنے کے لیے کام دیتاہے۔

 

آٹھواں فرق :

انسان کے عواطف(Emotions)حیوان کے عواطف کی نسبت بہت زیادہ متنوع ہیں۔

 

نواں فرق :

صوفیاء اور عباد کو ایک ایسا روحانی تجربہ(Mystic Experience) حاصل ہوتا ہے جس میں ان کی مسرت یا خوشی انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔ کسی جبلت کی تشفی اس قسم کی مسرت یا خوشی پیدا نہیں کرتی۔ لہٰذا حیوان اس مسرت سے قطعاً بے نصیب ہے۔

 

فروق کا باعث کیا ہے

میکڈوگل ہمیں یہ نہیں بتاتا کہ اس کے نظریۂ جبلت کے مطابق انسان کی ان خصوصیات کی تشریح کیونکر کی جا سکتی ہے۔ اگر انسان کی حیوانی جبلتیں ہی اُس کے تمام افعال کی قوت محرکہ ہیں تو ان جبلتوں نے اس کی فطرت کے اندر یہ خصوصیات جو بظاہر جبلتوں سے بے تعلق بلکہ ان کی مخالف ہیں‘ کیوں پیدا کر دی ہیں اور حیوان کے اندر ان جبلتوں کے باوجود یہ خصوصیات کیوں پیدا نہیں ہوئیں۔

 

میکڈوگل کی خاموشی

دوسری خصوصیت کے علاوہ باقی تمام خصوصیات کے متعلق وہ بالکل خاموش ہے حالانکہ جب تک کہ وہ ان خصوصیات کی تشریح نہ کرتا‘ اس کا نظریہ مکمل نہیں ہو سکتا تھا۔ اور دوسری خصوصیت یعنی مخالفت جبلت یا عزم کی تشریح جو اُس نے کی ہے‘ وہ صحیح نہیں۔ وہ کہتا ہے چونکہ انسان کے اندر عقل(Reason)کا وصف پیدا ہو گیا ہے۔

 

لہٰذا اس وصف کے ماتحت اس کے جبلتی رجحانات میں تغیر پیدا ہو جاتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ:

 

’’افراد اور اقوام کے اندر سیرت اور عزم کی خصوصیات ظہور پاتی ہیں‘‘۔

 

عزم کی غلط تشریح

لیکن اس خیال کا اظہار کرتے ہوئے میکڈوگل اس بات کو نظر انداز کر گیا ہے کہ عقل ہماری خواہشات کی مخالفت نہیں کرتی۔ ایک خواہش کی مخالفت صرف ایک خواہش ہی کر سکتی ہے جو خواہش قوی تر ہوتی ہے وہ دوسری خواہشات پر غالب آ جاتی ہے۔ عقل اس قوی خواہش کی راہنمائی کرتی ہے اور اسے بتاتی ہے کہ وہ اپنے راستہ کی رکاوٹوں کو خواہ وہ دوسرے لوگوں کی خواہشات کی پیداوار ہوں یا فرد کی اپنی خواہشات کا نتیجہ ہوں کیونکر ہٹا سکتی ہے‘ عقل کوئی خواہش نہیں بلکہ ایک قوتِ ممیزہ(Discriminating Faculty)ہے جو خواہشات کی تکمیل میں ایک اندرونی امداد بہم پہنچاتی ہے ‘ لہٰذا جبلت کو روکنا یا عزم پیدا کرنا اس کے بس کی بات نہیں۔ اور حکماء نے تسلیم کیا ہے کہ جبلتوں کی خدمت گزار عقل ایک حد تک حیوانات کے اندر بھی موجود ہے لہٰذا وہ فطرت انسانی کے کسی امتیاز کی تشریح نہیں کر سکتی۔

 

پریشان خیالی

معلوم ہوتا ہے کہ میکڈوگل اپنے ان الفاظ کے باوجود جو اوپر نقل کیے گئے ہیں اس دلیل کے زور کو نادانستہ طو رپر محسوس کرتا ہے کیونکہ آگے جا کر وہ اپنے موقف کو یکسر بدل دیتا ہے اور عقل سے قطع نظر کر کے بلکہ شخصیت اور سیرت کو پیدا کرنے والی ایک قوت کی حیثیت سے اُس کی مخالفت کر کے جبلتوں کی بناپر انسان کے عزم کی تشریح کرنے لگتا ہے۔ اس سے ہم اس کی پریشان خیالی کا اندازہ کر سکتے ہیں۔

 

جیمز کا نظریۂ عزم

اپنے نظریۂ جبلت کے مطابق عزم کی تشریح کرتے ہوئے میکڈوگل سب سے پہلے پروفیسرجیمز(James)کی کتاب ’’اصول نفسیات‘‘(Principles of Physchology) کا حوالہ نقل کرتا ہے ۔ پروفیسر جیمز لکھتا ہے:

 

’’اگر ایک تصوری یا اخلاقی فعل کی ایک مختصر تعریف کی ضرورت ہو تو بظاہر اس سے بہتر کوئی تعریف نہیں کی جا سکتی کہ یہ ایک ایسا فعل ہے جو شدید ترین اندرونی مقاومت کے خلاف عمل میں لایا جاتا ہے‘‘۔

 

حقائق کو مختصر طور پر یوں بیان کیا جا سکتا ہے:

 

’’اگر (ر) رغبت کے لیے (ن) نیکی کی خواہش کے لیے اور (ک) ذہنی کوشش کے لیے علامات ہوں تو (ن) کی قوت (ر) سے کم ہوتی ہے۔ لیکن (ن)+(ک) کی قوت (ر) سے بڑھ جاتی ہے‘‘۔

 

ذہنی کوشش کی یہ قوت (ک) جو رغبت کی قوت (ر) پر غالب آ کر فعل جمیل کو وجود میں لاتی ہے۔ کہاں سے آتی ہے۔ پروفیسر جیمز(James)اس سوال کے جواب میں خاموش ہے۔ چنانچہ میکڈوگل(Mcdougall)لکھتا ہے:

 

میکڈوگل کا تبصرہ

’’یہاں پروفیسر جیمز اور بہت سے حکماء کی طرح اپنے آپ کو ایک ایسے مشکل مسئلہ سے دوچار پاتا ہے جو قابل حل نہیں اور جس کے متعلق ہم فقط یہ کہہ سکتے ہیں کہ عزم کمزور خواہش کی حمایت میں جدوجہد کر کے اسے اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنے طاقتور حریف پر غالب آئے اور باقی رہا یہ سوال کہ عزم کیا ہے۔ اس کی کوئی تشریح اس سے زیادہ نہیں ہو سکتی کہ وہ ایک ایسی قوت کے ظہور کا امکان ہے جس کے منبع‘ماضی یا مصدر کے متعلق ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پروفیسر جیمز کے نزدیک یہ وہ مقام ہے جہاں عزم کی حقیقت کا کھوج لگانے کے لیے جب ہم ا س کے نتائج سے اس کے اسباب کی طرف واپس جانے لگتے ہیں تو اسرارِ نہانی کی ایک ناقابل عبور دیوار ہمارے درمیان حائل ہو جاتی ہے کیونکہ رغبت کو روک دینے والی کوشش ایک ایسے مقام سے سرزد ہوتی ہے جو ہماری عقل کی پہنچ سے باہر ہے اور یا پھر سرے سے اس کا کوئی ماخذ یا منبع موجود ہی نہیں‘‘۔

 

میکڈوگل کی تشریح

اس طرح سے پروفیسر جیمز کی ناکامی کا ذکر کرنے کے بعد میکڈوگل عزم کے سبب کے متعلق خود اپنی تشریح پیش کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ درحقیقت اس زائد قوت کا منبع جو اخلاقی فعل میں کمزور تصوری خواہش(Ideal Impluse) کی تائید کرتی ہے جبلت تفوق٭(Self-Assertion)ہے اور اس کے ثبوت میں وہ ایک لڑکے کی مثال دیتاہے:

 

’’جو تماشائیوں کی موجودگی میں اپنے عزم کی کوشش سے خوف کے ایک ایسے محرک پر فتح پا لیتا ہے جو اسے کسی اچھے کام سے روک رہا ہو۔ وہ کوشش کرتا ہے اور خوف پر فتح پاتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے ساتھی اسے دیکھ رہے ہیں۔ تفوق کی خواہش کمزور تصوری خواہش کی تائید میں کام کرنے لگتی ہے اور یہی بات عزم کی اُن لطیف کوششوں پر بھی صادق آتی ہے جن میں اس جبلت کا عمل اس قدر مخفی ہوتا ہے کہ آج تک اس کا سراغ نہیں پایا جا سکا‘‘۔

 

عذر گناہ

یہ کہنے کے بعد میکڈوگل ہمیں یقین دلاتا ہے کہ اس کی یہ تشریح کسی طرح سے بھدی یا مہمل نہیں۔ اگرچہ:

 

’’یہ الٹی سی نظر آتی ہے اور ہمارے دل میں نیک کاموں کی عظمت کا جو احساس ہے اس کے منافی ہے کہ نیکی ایک ایسی جبلت پر موقوف سمجھی جائے جو ہم میں اور ادنیٰ حیوانات میں مشترک ہے اور جس کا کام حیوانات کی زندگی میں ایسا ہے جو محض ثانوی اہمیت رکھتاہے اور اخلاقی رنگ سے باہر بالکل عاری ہے… اگر کوئی ایسا وصف جسے ہم جائز طو رپر قابل تحسین و احترام سمجھتے ہوں۔ آج سے بہت پہلے ایک نہایت ہی حقیر ابتداء سے وجود میں آیا ہو تو اس سے اس کی ذاتی قدر و قیمت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی اور اس کی اس ابتداء کو جاننے کے بعد اس کے لیے ہمارے پاس احترام میں کوئی فرق نہیں آنا چاہیے‘‘۔

 

لیکن دراصل نیکی کے ماخذ کے متعلق میکڈوگل کی تشریح نیکی کی عظمت کے احساس کے لیے ناگوار ہی نہیں بلکہ علمی اور عقلی نقطۂ نظر سے نامعقول بھی ہے۔

 

ایک سوال

ہم میکڈوگل سے پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ اگر عزم کا سبب جبلت تفوق ہے تو یہ جبلت نیکی کی کمزور تصوری خواہش کا ساتھ کیوں دیتی ہے اور اس کے مقابل کی طاقتور جبلتی خواہش کا ساتھ کیوں نہیں دیتی۔ میکڈوگل کے خیال کے مطابق ان دونوں خواہشات کا اصل منبع انسان کے جبلتی رجحانات ہی ہیں تو پھر جبلتِ تفوق کمزور خواہش کی خاص طرفداری کیوں کرتی ہے۔ حالانکہ جہاں تک اس جبلت کی ہی تشفی کا تعلق ہے‘ اگر یہ جبلت کمزور خواہش کو چھوڑ کر طاقتور خواہش کی تائید کرتی تو اس مقصد کو زیادہ آسانی اور زیادہ کامیابی سے حاصل کر سکتی تھی مثلاً اگر ہم دشمن کو معاف کرنے کی بجائے اس کے ساتھ لڑائی کر کے اس کو مغلوب کر لیں یا ایک تھپڑ کے عوض میں دوسری گال پھیر دینے کی بجائے دوتین تھپڑ رسید کر کے دشمن کو بھگادیں تو اس سے ہماری جبلت تفوق پوری طرح سے مطمئن ہو جاتی ہے تو پھر اس حالت میں یہ جبلت اپنی مکمل تشفی کا راستہ چھوڑ کر کمزور خواہش کا ساتھ کیوں دیتی ہے۔ خصوصاً جب یہ ظاہر ہے کہ یہ جبلت اپنے سارے ماضی میں یعنی حیوانات کی دنیا میں ہمیشہ اپنی تشفی طاقت کے ایسے ہی مظاہروں سے کرتی رہی ہے۔ پھر اس کا سبب کیا ہے کہ انسانی مرحلۂ ارتقاء میں پہنچ کر یہ جبلت یکایک اپنی گزشتہ عادت کو بھول جاتی ہے اور اپنے اصل کام کو ترک کر کے کمزور اخلاقی خواہش کا ساتھ دینے لگتی ہے۔

 

ایک ممکن سبب

اوپر بیان کیا گیا ہے کہ میکڈوگل کے نزدیک حیوان اور انسان میں صرف ایک ہی امتیاز ہے اور وہ یہ کہ انسان میں عقل کا وصف ہے اور حیوان میں نہیں تو پھر کیا ہم یہ سمجھیں کہ جبلت تفوق جو انسان میں پہنچ کر اپنی عاد ت اور فطرت کے خلاف کمزور اخلاقی خواہش کی خاص طرفداری کرنے لگتی ہے اس کی وجہ عقل کا اثر ہے؟

 

تردید

لیکن فعل جمیل(Moral Action)کی کئی مثالیں ہیں جن کی حمایت ہم عقل کی بناء پر نہیں کر سکتے۔ بعض وقت ایسے اشخاص جو بظاہر ہوش و خرد سے پوری طرح بہرہ ور ہوتے ہیں اپنے اصولوں کی خاطر جو اُن کے اپنے خیالات سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے‘ بڑی بڑی سختیاں جھیلتے ہیں‘ یہاں تک کہ موت کو قبول کر لیتے ہیں۔ تاریخ میں ایسے شہداء کی مثالوںکی کمی نہیں جنہیں دو راستوں میں سے ایک راستہ اختیار کرنے کا موقع دیا گیا۔ ایک طرف دولت‘ طاقت اور حکومت تھی اور دوسری طرف موت‘ کسمپرسی اور ناداری۔ لیکن انہوں نے موت کو زندگی پر اور ناداری اور بے مائیگی کو دولت اور ثروت پر ترجیح دی۔ محض عقل کے نقطۂ نظر سے اس طرزِ عمل کی حمایت کرنا ممکن نہیں۔ یہ بات کسی طرح سمجھ میں نہیں آ سکتی کہ اس قسم کی مثالوں میں انسان کی جبلت تفوق کس طرح سے خود اس بات کا سبب بنتی ہے کہ انسان تفوق کو ترک کر کے مقہوری اور مجبوری کو اختیار کرے اور میکڈوگل خود مانتا ہے کہ اختیار محمود اور ترک نامحمود کی ان کوششوں کی عقلی تشریح کرنا ممکن نہیں چنانچہ وہ لکھتا ہے:

 

میکڈوگل کا اعتراف

’’ہم اس بات کی کوئی عقلی توجیہہ نہیں کر سکتے کہ لوگوںکے دلوں میں رائے عامہ کا ایسا شدید احترام کیوں ہوتا ہے اور یہ خواہش اس قدر طاقتور کیوں ہوتی ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کی پسندیدگی حاصل کریں اور اُن کی ناپسندیدگی سے محفوظ رہیں۔ یہ کہنا کافی نہیں کہ اس کا سبب اُن کی اپنی بہتری اور بہبودی اور مادی خوشحالی اور فارغ البالی کی خواہش ہے یا اس کا سبب یہ خیال ہے کہ لوگوں کی تعریف سن کر انہیں مسرت حاصل ہو گی اور ملامت سن کر ذہنی تکلیف ہو گی۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ بعض لوگ ہر طرح سے دانا اور ہوش مند ہونے کے باوجود ہر قسم کا عیش و آرام بلکہ زندگی کی ہر نعمت کو اس غرض کے لیے قربان کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں کہ موت کے بعد انہیں شہرت اور نیک نامی حاصل ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا فعل اس خواہش کے ماتحت سرزد ہوتا ہے کہ لوگ انہیں اس وقت اچھا کہیں گے جب مدت گزر چکی ہو گی کہ وہ خود ان کے اچھا یا برا کہنے سے کوئی اچھا یا برا اثر لینے کے قابل نہیں رہے ہوں گے۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ دوسروں کی رائے کا شدید احترام جو اکثر انسانوں کے دل میں موجود ہوتا ہے اور جس سے کم و بیش ہر انسان حصہ لیتا ہے ان تمام نفسیاتی مسائل میں سے جو نظریۂ اخلاق کی بنیاد ہیں‘ ایک نہایت ہی اہم اور نہایت ہی دشوار مسئلہ ہے‘‘۔

 

لہٰذا میکڈوگل کے نظریۂ عزم کے خلاف ایک بات تو یہ ہے کہ یہ قطعاً واضح نہیں کہ جبلت تفوق انسان میں کمزور اخلاقی خواہش کا ساتھ دے کر اسے کیوں مضبوط کرنا چاہتی ہے‘ جبکہ انسان کی عقل بھی اس غیر معمولی غیر متوقع امتیازی برتاؤ کا سبب نہیں۔

 

غلط استدلال

دوسری بات یہ ہے کہ یہاں میکڈوگل اپنے استدلال میں علت اور معلول کو خلط ملط کر رہا ہے‘ جس سے اس کا استدلال از سرتاپا غلط ہو کر رہ گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس خاص واقعہ میں جسے میکڈوگل نے ایک مثال کے طو رپر پیش کیا ہے۔ دوسروں کی موجودگی میں لڑکے کی اخلاقی کوشش اس کی جبلت تفوق کو کیوں مطمئن کرتی ہے۔ میکڈوگل کا جواب یہ ہے کہ سماج بالعموم ایسے کام کو پسند کرتا ہے اور لڑکے کو یقین ہے کہ اس کے ساتھی اس کی تعریف کریں گے اور اس طرح سے اس کو دوسروں پر تفوق حاصل ہوگا۔

 

تعلیم نبوت اور عزم

لیکن پھر سوال یہ ہے کہ سماج ایسے کام کو کیوں پسند کرتا ہے اور کیوں قابل ستائش سمجھتا ہے ۔ اس کے جواب میں میکڈوگل کہتا ہے کہ سماج کی تعریف اور ستائش کا سبب یہ ہے کہ اولیاء اور انبیاء(Prophets and Saints)ایسی نادر شخصیتوں کے اعلیٰ اخلاق کے اثر سے سماج نے اعلیٰ اخلاق کی روایات کو جذب کر لیا ہے اور انبیاء اور اولیاء کے اثر کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ ہمارے دلوں میں اپنے لیے تعریف اور ستائش کا جذبہ پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

 

مشکل کا التواء

ظاہر ہے کہ اس تشریح سے میکڈوگل نے مشکل کو حل نہیں کیا بلکہ اسے ایک قدم اور پیچھے ہٹا دیا ہے اور ایک مشکل کو دوسری مشکل میں بدل دیا ہے۔ اب ہمارا سوال یہ ہے کہ انبیاء اور اولیاء کے اعلیٰ قابل ستائش اخلاق کا سبب کیا ہے۔ کیا وہ بھی سماج کی پسندیدگی حاصل کرکے اپنی جبلت تفوق کو مطمئن کرنا چاہتے ہیں۔

 

دائرہ میں استدلال

اگر میکڈوگل کے پاس اس سوال کا جواب یہی ہے تو پھر وہ ایک دائرہ میں استدلال کر رہا ہے ۔ کیونکہ ادھر وہ کہہ چکا ہے کہ اخلاقی اعمال کے لیے سماج کی پسندیدگی ان روایات کا نتیجہ ہے (اور سبب نہیں) جو انبیاء اور صوفیاء کے اعلیٰ قابل ستائش اخلاق نے قائم کی ہیں۔

 

ایک ذمہ داری

اس کے علاوہ یہ بتانا میکڈوگل کے ذمہ ہے کہ ہم انبیاء اور صوفیاء کے اعلیٰ اخلاق کی تعریف کیوں کرتے ہیں ۔ کیونکہ جب تک ہم ان کے اخلاق کو قابل تعریف و ستائش نہ سمجھیں‘ اعلیٰ اخلاق کی تعریف اور ستائش کی کوئی روایات قائم نہیں ہو سکتیں۔

 

فطرت کا مستقل تقاضا

میکڈوگل نے یہاں اس بات کو بالکل نظر انداز کر دیا ہے کہ جب تک ہماری اپنی فطرت میں کوئی مستقل خاصہ یا کوئی وصف یا تقاضا ایسا موجود نہ ہو جس کی وجہ سے ہم بعض کاموں کو پسند کرنے اور بعض کوناپسند کرنے پر مجبور ہوں‘ اس طرح سے کہ انبیاء اور اولیاء اور صوفیاء کے اعمال ان اخلا ق میں شمار ہوتے ہیں جنہیں ہم اپنی فطرت کے اس خاصہ یا اس وصف یا تقاضا کی رو سے پسندیدہ اور قابل ستائش جانتے ہوں اور ان کے نقیض کو ناپسندیدہ اور قابل نفرت سمجھتے ہوں۔ اس وقت تک نہ تو ہم انبیاء اور صوفیاء کے اعلیٰ اخلاق کی تعریف کر سکتے ہیں اور نہ ہی اُن کے اثر سے اعلیٰ اخلاق کی روایات کو جذب کر سکتے ہیں۔ ہماری اپنی اخلاقی کوششوں کا سبب اور انبیاء کی اخلاقی کوششوں کا سبب نیز ہمارے اپنے اخلاقی اعمال کی تعریف اور تحسین کا سبب اور انبیاء کے اخلاقی اعمال کی تعریف اور تحسین کا سبب ان تمام مظاہر کا سبب یقینا ہمیں انسان کی فطرت کے اس وصف یا تقاضا کے اندر ہی مل سکتا ہے اور کہیں نہیں مل سکتا۔

 

ازالۂ نقائص کی کوشش

چونکہ میکڈوگل کا یہ نظریۂ عزم جو اس نے اپنے نظریۂ جبلت سے اخذ کیا ہے معقول اور قابل قبول نہیں اور کئی پہلوؤں سے مورد اعتراض ہے ۔ لہٰذا میکڈوگل اس کے نقائص کو دور کرنے کی اور کوشش کرتا ہے۔ مثلاً وہ عزم کے اسباب میں جبلت تفوق کے علاوہ ایک اور عنصر کو بھی شامل کرتا ہے‘ جسے وہ جذبۂ ذات اندیشی(Sentiment of self-regard)کا نام دیتا ہے ۔ یہ جذبہ اُس کے خیال میں کمزور اخلاقی خواہش کا منبع ہے۔

 

میکڈوگل کا خیال ہے کہ ایک جذبہ انسان کی تمام حیوانی جبلتوں کا ایک نظام ہوتا ہے جو انسان کی فطرت میں پیدائشی طور پر موجود نہیں ہوتا بلکہ حالات اور واقعات کے اثر سے بعد میں مصنوعی اور ارتقائی طور پر پیدا ہوتا ہے۔ گویا سب سے پہلے اتفاقاً تمام جبلتیں مل کر ایک جذبۂ ذات اندیشی بناتی ہیں۔ پھر اس جذبہ سے ایک کمزور اخلاقی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ اور پھر تمام جبلتوں میں سے ایک جبلت یعنی جبلت تفوق اس کی کمزوری پر رحم کھا کر اس کی مدد کرتی ہے اور یہ اتفاق بھی ایسا ہے کہ ہر شخص کو اس سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔

 

پھر وہی سوال

یہاں پھر وہی سوال سامنے آتا ہے کہ جب حیوان اور انسان کی جبلتیں ایک ہی ہیں تو پھر حیوان میں جبلتیں ترکیب پا کر جذبۂ ذات اندیشی یا کسی اور جذبہ کی صورت کیوں اختیار نہیں کرتیں۔ کیونکہ میکڈوگل انسان کے اس وصف کو جو اس کے نزدیک حیوان اور انسان میں صرف ایک ہی بنیادی امتیازہے یعنی عقل کو جبلتوں کی اس کیمیاوی ترکیب کا جسے وہ جذبۂ ذات اندیشی کہتا ہے‘ ذمہ دار قرار نہیں دیتا بلکہ وہ اس جذبہ کے نشوو و ارتقاء کی ایک ایسی تشریح کرتا ہے جو حیوان اور انسان دونوں پر مساوی طور پر چسپاں کی جا سکتی ہے۔ مثلاً وہ کہتا ہے:

 

میکڈوگل کا نظریۂ جذبات

’’ذہن کی ترقی کے دوران میں جذبات(Sentiments) کی تعمیر حالات اور واقعات پر موقوف ہوتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں جذبہ ذہن کی ساخت میں ایک نشوونما کا نتیجہ ہوتا ہے اور پیدائشی طور پر موجود نہیں ہوتا۔ ہر جذبہ ایک جاندار کی طرح اپنی زندگی کی ایک تاریخ رکھتا ہے۔ یہ رفتہ رفتہ تعمیر ہوتا ہے اور زیادہ پیچیدہ اور قوی ہوتا جاتا ہے ۔ ممکن ہے کہ یہ غیر محدود طور پر ترقی کرتا جائے یا انحطاط کے ایک دور میں داخل ہو جائے یا بتدریج یا بعجلت یا جزوی یا کلی طو رپر زائل ہوجائے ۔جب کوئی عاطفہ(Emotion) کسی خاص چیز سے بار بار اور زور سے جوش میں آتا ہے تو جذبہ کی ایک ابتدائی شکل رونما ہوتی ہے۔ لیکن شاذ ہی ایسا ہوتا ہے کہ ایک جذبہ اس کی ابتدائی شکل میں دیر تک موجود رہے۔ اس قسم کا جذبہ یا تو مزید تحریک کی عدم موجودگی میں مر جاتا ہے اور یا اگر اس کے مرکز یا مرجع کے ساتھ تعلقات جاری رہیں تو ایک زیادہ پیچیدہ ترکیب اختیار کر لیتا ہے … مثلاً خوف کا عاطفہ ترقی کرنے کی استعداد رکھتا ہے اور دوسرے عواطف کو اپنے ساتھ ملا کر نفرت کے جذبہ کی صورت اختیار کرلیتا ہے… یہ تمام عواطف چونکہ بار بار اس چیز سے ہیجان میں آتے ہیں وہ اس چیز کے ساتھ زیادہ گہری طرح وابستہ ہوتے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس کا محض خیال ہی ان تمام عواطف کو ہیجان میں لانے کے لیے کافی ہوتا ہے اور وہ یا تو اپنی اپنی باری سے اور یا سب کے سب ایک ہی دفعہ پوری طرح سے ہیجان میں آ جاتے ہیں۔ اس طرح سے ایک ابتدائی جذبہ جو خوف کی عاطفہ پر مبنی ہوتا ہے ایک مکمل جذبۂ نفرت بن جاتا ہے‘‘۔

 

دیوار کی مثال

گویا میکڈوگل سمجھتا ہے کہ جس طرح سے مختلف اینٹیں جب ایک معمار کے ہاتھوں سے ایک طویل عرصہ میں ایک دوسرے کے اوپر جمع ہوتی رہیں تو ایک دیوار بنتی ہے اسی طرح سے جبلتی عواطف ایک دوسرے کے اوپر جمع ہو کر ایک جذبہ بناتے ہیں۔ پھر چونکہ ہر جذبہ مناسب موقع پر ہر اُس عاطفہ کو ہیجان میں لا سکتا ہے جس کی اہلیت انسان کی فطرت کے اندر موجود ہے۔ لہٰذا اس پر دیوار کی مثال بھی پوری طرح سے صادق نہیں آتی کیونکہ اگر دیوار میں دوچار اینٹیں کم ہوں یا ایک ردّہ کم ہو تو وہ پھر بھی دیوار ہے لیکن کوئی جذبہ اس وقت تک جذبہ نہیں جب تک کہ اس کا مرکز یا مرجع تمام عواطف کو پوری تعداد میں اور پوری شدت کے ساتھ ہیجان میں لا کر اپنے ساتھ متعلق نہ کر لے۔

 

عقل سے بے تعلقی

جذبات کی نشوونما کی اس تشریح میں عقل کا کوئی ذکر نہیں آیا جس سے معلوم ہوتا کہ ان کی نشوونما انسان سے مخصوص ہے۔ اگر ایک جذبہ کی نشوونما اسی طرح سے ہوتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ایک جذبہ حیوان کے اندر بھی پیدا نہ ہو جائے۔ اور جب ایک جذبہ حیوان کے اندر پیدا ہو سکتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ جذبہ ذاتِ اندیشی نہ ہو۔ اور پھر اس جذبہ کی وجہ سے حیوان کے اندر بھی عزم‘ نیکی اور مخالفتِ جبلت کے اوصاف پیدا نہ ہوں۔ لیکن جذبہ کی نشوونما کی اس تشریح کی خامیاں ظاہر ہیں۔

 

جذبات کی اصلی وجہ

ایک جذبہ ہمارے تمام جبلتی عواطف میں سے ہر ایک عاطفہ کے پے در پے ہیجان میںآنے سے نہیں بنتا بلکہ اس بات کے فوری فیصلہ سے بنتا ہے کہ ہم کسی چیز کو محبت کے قابل سمجھتے ہیں اور کسی چیز کو نفرت کے لائق قرار دیتے ہیں ۔ کسی عاطفہ کا ہیجان میں آنا جذبہ کی موجودگی کا نتیجہ ہے ‘ اُس کی موجودگی کا سبب نہیں۔جب کوئی عاطفہ ہیجان میں آتا ہے تو وہ جذبہ جو اس کے ہیجا ن کا باعث ہوتا ہے پہلے ہی موجود ہوتا ہے اور جذبہ کی موجودگی ہر ایک عاطفہ کو اس کے مناسب وقت پر ہیجان میں لاتی ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص اشتراکیت کے تصور سے محبت رکھتا ہو تو اس کی وجہ سے اُس میں خوشی‘ غصہ‘ ڈر‘ بیزاری‘ حیرت‘ فخر ‘تشکر‘ تحسین‘ امید‘ مایوسی ‘ وغیرہ کے عواطف مناسب اوقات پر نمودار ہوتے ہیں۔ وہ اس تصور کی تعریف کرتا ہے اور امید رکھتا ہے کہ وہ دنیا میں غالب آئے گا ۔ ڈرتا ہے کہ کہیں اس کے دشمن اسے مٹانے میں کامیاب نہ ہو جائیں۔ اس کا دلکش فلسفہ اسے حیرت میں ڈالتا ہے۔ جب کوئی شخص اس کی مذمت کرتا ہے تو اسے غصہ آتا ہے جب اسے کوئی کامیابی حاصل ہوتی ہے تو وہ خوشی محسوس کرتا ہے۔ جب کوئی شخص اس کی مدد کرتا ہے تو وہ شکر گزارہوتا ہے۔ جب اسے کوئی ناکامی ہوتی ہے تو وہ افسوس کرتا ہے وعلیٰ ہذا القیاس۔

 

ایک مضحک بات

اب اگر میکڈوگل سے اتفاق کرتے ہوئے ہم یہ سمجھیں کہ اشتراکیت کا تصور اس شخص میں ایک عرصہ دراز کے اندر مختلف موقعوں پر اور محض اتفاقی حالات کی بنا ء پر ان عواطف کو بار بار پوری قوت کے ساتھ ہیجان میں لاتارہا ہو گا اور پھر کبھی اس میں خوشی پیدا کرتا ہو گا ‘ کبھی غصہ اور کبھی ڈر کبھی حیرت کبھی شکر‘ کبھی امید‘ کبھی افسوس‘ کبھی تحسین‘ کبھی مایوسی یہاں تک کہ انسان سے تعلق رکھنے والا کوئی ایک عاطفہ بھی ایسا باقی نہ رہا ہو گا۔ جو بار بار شدت کے ساتھ ہیجان میں نہ آیا ہو اور تب جا کر اُس کے دل میں اشتراکیت کی محبت کا جذبہ پیدا ہوا ہو گا تو یہ آشکار طور پر ایک مضحک سی بات ہے دراصل اس شخص کی محبت کی وجہ یہ ہے کہ وہ اشتراکیت کے تصور کی عمدگی کا قائل ہے اور یہ ایک عقیدہ ہے اور ایک عقیدہ قائم کرنے سے پہلے انسان سوچ بچار سے کام لیتا ہے اور پھر فوراً ایک فیصلہ کر دیتا ہے جس سے یا اسے پسند کر لیتا ہے یا ناپسند۔ وہ اس بات کا منتظر نہیں ہوتا کہ ایک تصور مدت تک اس کے عواطف میں پرزورہیجان پیدا کرتا رہے۔ یہاں تک کہ کوئی عاطفہ ہیجان میں آنے سے نہ رہ جائے اور پھر وہ اس تصور سے خود بخود محبت پیدا کر لے گا۔

 

روز مرہ کا مشاہدہ

کیا ہم روزمرہ نہیں دیکھتے کہ انسان کے دل میں محبت اور نفرت کے جذبات خواہ اشیاء کے لیے ہوں یا اشخاص کے لیے ہوں یا تصورات اور عقائد کے لیے ہوں فوری طور پر پیدا ہوجاتے ہیں۔ مثلاً ایک جمہوریت پرست انسان ایک ہی رات میں ایک کتاب پڑھنے سے یا ایک لیکچر سننے سے اشتراکی بن سکتا ہے اور ایک اشتراکی ایک ایسے ہی عمل سے فوراً ایک آزاد جمہوریت پسند انسان بن سکتا ہے۔ ایسے حالات میں عواطف کا پرزور اور متواتر ہیجان کہاں ہوتا ہے۔

 

اور پھر کیا ہم یہ نہیں دیکھتے کہ جس چیز سے ہمیں محبت پیدا ہوتی ہے‘ اس کے نقیض سے نفرت خود بخود پیدا ہوجاتی ہے۔ خواہ ہم اس نفرت کو جانتے بھی نہ ہوں۔ حالانکہ عواطف کا ہیجان میں آنا اگر محبت کے جذبہ کے لیے ضروری ہے تو ویسا ہی نفرت کے جذبہ کے لیے بھی ضروری ہونا چاہیے اور پھر جب ہماری محبت یا نفرت کا مرجع بدل جاتا ہے تو اس کے ساتھ ہی وہ مواقع بھی فوراً ہی بدل جاتے ہیں جو ہمارے عواطف کو ہیجان میں لاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ جو موقع پہلے خوشی پیدا کرتا تھا وہ غمی پیدا کرنے لگے۔ وعلیٰ ہذا القیاس۔

 

جذبہ صرف ایک ہے

انسان صرف ایک ہی جذبہ رکھنے کے قابل ہے اور وہ محبت کا جذبہ ہے۔ نفر ت کا جذبہ اسی کے ماتحت محبوب کے نقیض کے خلاف محبت کی تکمیل اور اعانت کے لیے پیدا ہوتا ہے اور درحقیقت یہ جذبۂ محبت ہی کا ایک پہلو ہے۔ لیکن میکڈوگل محبت کے علاوہ  نفرت کو ایک علیحدہ جذبہ کے طور پر ذکر کرنے کے بعد ایک تیسرے جذبہ(Sentiments) کا بھی ذکر کرتا ہے جسے وہ عزت(Respect)کا نام دیتا ہے لیکن اگر عزت ایک رسمی چیز ہے تو وہ ایک جذبہ نہیں بلکہ افعال کا ایک ضبط یا نظم ہے جو کسی اور جذبہ محبت کے ماتحت ہے اور اگر وہ ایک رسمی چیز نہیں تو وہ خود ایک جذبۂ محبت ہے اور محبت سے الگ کوئی جذبہ نہیں۔ سچی محبت کے بغیر سچی عزت ممکن نہیں اور جو شخص سچی عزت نہیں کرتا وہ مخلصانہ محبت بھی نہیں کرتا۔ جب ہم کسی شخص کی عزت کریں اور اس سے محبت نہ کریں تو درحقیقت ہم اس کے ایک جزو سے محبت کرتے ہیں اور دوسرے جزو سے نفرت کرتے ہیں اور جب ہم کسی شخص سے محبت کریں اور اس کی عزت نہ کریں تو ہم اس کے ایک جزو سے محبت کررہے ہوتے ہیں اور دوسرے جزو سے نفرت کرتے ہیں۔ انتہائی عزت اور انتہائی محبت ایک ہی چیز کے دو مختلف نام ہیں۔

 

ان حقائق سے صاف ظاہر ہے کہ جذبہ عواطف کے ہیجان میں آنے سے پیدا نہیں ہوتا بلکہ اس کے برعکس جب انسان میں کبھی کوئی عاطفہ ہیجان میں آتا ہے تو اس کے پیچھے ایک جذبہ پہلے ہی موجود ہوتا ہے۔

 

اختصار

میکڈوگل کے نظریہ کی اس تنقید سے ذیل کے نقاط روشنی میں آتے ہیں:

 

(۱)  حیوانی جبلتوں کو انسانی اعمال کا سرچشمہ قرار دینے کے بعد میکڈوگل حیوان اور انسان کی فطرت کے آٹھ بین امتیازات کے متعلق بالکل خاموش ہے۔ اور ہمیں نہیں بتاتا کہ جبلتیں حیوان کے اندر یہ امتیازات کیوں پیدا نہیں کرتیں اور انسان کے اندر کیوں پیدا کرتی ہیں۔

 

(۲)  میکڈوگل نو میں سے صرف ایک امتیاز یعنی عزم(Volition)کی تشریح کے لیے قلم اٹھاتا ہے لیکن اس کی بھی معقول تشریح نہیں کر سکتا بلکہ قدم قدم پر غلطیاں کرتاہے۔

 

(۳)  میکڈوگل پہلے عزم اور سیرت کو انسانی وصفِ عقل کا نتیجہ قرار دیتا ہے اور بعد میں عزم اور سیرت کی تشریح کرتے ہوئے عقل کو بالکل الگ رکھتا ہے اور جبلت کی بناء پر ان کی تشریح کرتا ہے۔

 

مختصراً اس تنقید سے پتہ چلتا ہے کہ میکڈوگل ذہنی مشکلات میں مبتلا ہے اور فطرت انسانی کے کئی مسلمہ حقائق ایسے ہیں جنہیں وہ اپنے نظریۂ جبلت سے مطابقت نہیں دے سکتا لہٰذا اس کا نظریہ صحیح نہیں۔

 

قرآن اور علمِ جدید (یونی کوڈ فارمیٹ)