قرآن اور علمِ جدید (یونی کوڈ فارمیٹ)

میکڈوگل کے لیے قرآن کی راہنمائی

 

قرآن کی روشنی

اب فطرت انسانی کے اس قرآنی نظریہ کی روشنی میں میکڈوگل کے نظریۂ جبلت کو دیکھئے۔ آپ کو نظر آئے گا کہ قرآن کا نظریہ میکڈوگل کی مشکلات کا تسلی بخش حل بہم پہنچاتا ہے ‘ اس کی اغلاط کا سبب بتاتا ہے اور ان کا ازالہ کرتا ہے اور اُس کے نظریہ کی تمام کمیوں اور کوتاہیوں کو دور کر کے اسے مکمل کرتا ہے۔

 

سب سے پہلے حیوان اور انسان کے ان امتیازات پر غور کیجئے جو صفحہ ۱۹ پر درج ہیں۔ میکڈوگل نے ان فروق و امتیازات میں سے دوسرے فرق کے سوائے کسی کی وجہ بیان کرنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ اس کے نظریہ کی رو سے ان کی وجہ بیان کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔ لیکن قرآن کے نقطۂ نظر سے ان فروق کی وجوہات حسب ذیل ہیں:

 

پہلے فرق کا سبب :

انسان کے خود شعور ہونے کی وجہ یہ ہے کہ خود شعوری کائنات کی آخری حقیقت  ہے جو انسان کے اندر نمودار ہوئی ہے۔ خود شعوری جبلتوں کی پیداوار نہیں بلکہ جبلتیں خود شعوری کی پیداوار ہیں۔ لہٰذا ہم جبلتوں سے انسان کی خود شعوری کی تشریح نہیں کر سکتے بلکہ خود شعوری سے جبلتوں کی تشریح کر سکتے ہیں۔ حیوان میں خود شعوری جبلتوں کی پابندیوں میں جکڑی ہوئی تھی لیکن انسان میں پہنچ کر وہ ان پابندیوں سے آزاد ہوئی ہے ۔ اپنے آپ کو جاننا خود شعوری کا وصف ہے جو آزاد ہونے کے بعد اُس نے پا لیا ہے۔

 

دوسر ے فرق کا سبب :

انسانی عزم یا ارادہ کی وجہ یہ ہے کہ انسان خود شعور ہے اور خود شعوری کا خاصہ ہے کہ وہ ایک آدرش سے محبت کرتی ہے جو اس کے نزدیک انتہائی حسن و کمال کا تصور ہوتا ہے ۔ جذبۂ آدرش کا مستقل اور مکمل اطمینان خدا کے تصور سے ہوتا ہے لیکن جب تک انسان کو اس تصور کے حسن و کمال کا ذاتی احساس نہ ہو اس کا یہ جذبۂ آدرش بہک کر اور تصورات کے ذریعہ سے اپنا اطمینان چاہتا ہے یہ تصورات کئی قسم کے ہوتے ہیں ۔ ان میں سے ایک سماج کی پسندیدگی کا تصور ہے جسے اکثر لوگ اپنا آدرش بناتے ہیں۔ آدرش کی محبت کا جذبہ نہایت قوی ہے اور جبلتوں پر حکومت کرتا ہے۔ آدرش کے تقاضا کے مطابق عمل کرنے کا نام عزم ہے۔ بالخصوص ایسی حالت میں جب یہ تقاضا جبلتی تقاضوں کے خلاف ہو۔ عزم کا ماخذ یا منبع کوئی جبلت نہیں بلکہ آدرش کی محبت ہے اور چونکہ نصب العین کی محبت انسان سے مخصوص ہے اس لیے عزم بھی انسان ہی سے مخصوص ہے۔ حیوان اس وصف سے بہرہ ور نہیں۔ آدرش کی محبت جب چاہتی ہے اور جس قدر چاہتی ہے جبلتی تقاضوں کو روک دیتی ہے اور ہم کہتے ہیں کہ انسان نے عزم کا اظہار کیاہے۔

 

تیسر ے فرق کا سبب :

بعض وقت انسان اپنی جبلتوں کو ان کے طبعی مطالبہ سے زیادہ کام میںلاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہر جبلت کی تشفی کے ساتھ قدرت نے جبلت کی اہمیت کے مطابق ایک لذت اور آسودگی کا احساس وابستہ کر دیا ہے اور بعض لوگ اس لذت اور آسودگی پر ایسے مر مٹتے ہیں کہ اسی کو اپنا آدرش بنا لیتے ہیں اور اُن کے جذبۂ حسن کی تمام قوت ان جبلتی خواہشات کی تائید کرنے لگتی ہے‘ جن کی تشفی کو وہ اپنا آدرش بناتے ہیں۔ ایسی حالت میں انسان اپنی جبلتوں کو ان کی طبعی حدود سے زیادہ استعمال کرتا ہے ۔ حیوان ایسا نہیںکر سکتا کیونکہ جبلت کی غیر طبعی تائید کے لیے اُس کے پاس کوئی جذبۂ محبت یا جذبۂ عمل موجود نہیں۔

 

چوتھے فرق کا سبب :

انسان کے اندر آدرشوں کی محبت اس کی خود شعوری کی ایک خاصیت کے طور پر موجود ہے۔ حیوان چونکہ خود شعور نہیں اُس کے اندر آدرشوں کی محبت کی خاصیت بھی موجود نہیں۔

 

پانچویں فرق کا سبب :

انسان علم کی خاطر علم کی جستجو کرتا ہے اور حیوان ایسا نہیں کرتا کیونکہ وہ ایسا کر ہی نہیں سکتا۔ علم کی جستجو صداقت کی جستجو ہے اور صداقت حسن کا ایک پہلو ہے اور حسن کی محبت یا جستجو صرف آزاد خود شعوری کا وصف ہے جو یا خدا میں ہے یا انسان میں۔

 

چھٹے فرق کا سبب :

اخلاقی اقدار کو صرف ان اقدار کی خاطر چاہنا بھی صرف انسان ہی کا وصف ہے۔ کیونکہ نیکی کی جستجو بھی طلب حسن ہی کی ایک صورت ہے جس طرح سے صداقت حسن کا پہلو ہے اُسی طرح سے نیکی (Goodness) بھی حسن ہی کا ایک پہلو ہے۔

 

ساتویں فرق کا سبب :

ہنر بھی چونکہ حسن کی آزادانہ تخلیق ہے وہ بھی انسان کے جذبۂ حسن ہی کی ایک خصوصیت ہے جس سے حیوان بہرہ ور نہیں۔

 

آٹھویں فرق کا سبب :

انسان کے عواطف کے تنوع کی وجہ یہ ہے کہ عواطف بنیادی طو رپر خود شعوری سے تعلق رکھتے ہیں اور جبلتوں سے تعلق نہیں رکھتے۔ عواطف خود شعوری کے اوصاف ہیں اور چونکہ ہر جبلت خود شعوری کے کسی وصف کو ظاہر کرتی ہے اس لیے ہر جبلتی رجحان کے ساتھ ایک عاطفی کیفیت وابستہ ہوتی ہے اور جب یہ رجحان اظہار پاتا ہے تو یہ عاطفی کیفیت بھی اس کے ساتھ اظہار پاتی ہے ۔ چونکہ حیوان میں خود شعوری آزاد نہیں اور اپنے سارے اوصاف کا اظہار نہیں کر سکتی۔ اس لیے اس کے سارے عواطف بھی حیوان میں نمودار نہیں ہوتے۔

 

نویں فرق کا سبب :

صوفیاء اور عباد کو اپنے روحانی تجربہ(Spiritual Experience)کے دوران میں جو ایک غیر معمولی خوشی اور مسرت حاصل ہوتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس قسم کے تجربہ کے دوران میں ان کا جذبۂ محبت پوری تشفی پاتا ہے۔ حیوان اس خوشی یا مسرت سے محروم ہے کیونکہ وہ جذبۂ حسن سے بھی محروم ہے۔ اس کے حصہ میں صرف وہ گھٹیا قسم کی مسرت(Pleasure)ہے جو قدرت نے جبلتی خواہشات کی تشفی کے ساتھ وابستہ کر رکھی ہے۔

 

اب عزم(Volition)کے بارہ میں میکڈوگل کی تشریح کی طرف رجوع کیجیے اور اس تشریح کی ان خامیوں کو ذہن میں لایئے جن کو ہم نے اوپر کسی قدر تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے پھر دیکھئے کہ قرآن کا نظریۂ فطرت ان خامیوں سے کیونکر محفوظ ہے۔

 

عزم کا باعث جذبۂ حسن ہے

ہمارے عزم یا ارادہ کا منبع ہماری کوئی جبلت نہیں بلکہ ہماری خود شعوری کا جذبۂ حسن ہے‘ جو نصب العین کی محبت کی صورت اختیار کرتا ہے ‘جو جبلتوں سے الگ اور جبلتوں پر غالب رہنے والا ایک محرک عمل ہے اور انسان سے خاص ہے۔انبیاء اور اولیاء کی مثالی نیک عملی کا منبع اور ہماری نیک عملی کا منبع اور نیز ہماری نیک عملی اور انبیاء اور اولیاء کی نیک عملی کی ستائش کا منبع ہمارا یہی جذبۂ حسن ہے۔ جذبۂ خود شعوری کا مقصد اپنی تسلی اور تشفی ہے۔ یہ عقل کے تابع نہیں بلکہ عقل اس کے تابع ہے اور یہی سبب ہے کہ بعض وقت اس جذبہ کے ماتحت ہمارا عمل ایسا ہوتا ہے جسے ہم عقل اور ہوش و خرد کے عام معیاروں کے مطابق نہ سمجھ سکتے ہیں اور نہ درست قرار دے سکتے ہیں لیکن وہ عمل چونکہ انسان کے تصور حسن کے مطابق ہوتا ہے ‘ انسان تمام نکتہ چینیوں اور ملامتوں سے بے پرواہ ہو کر اسے روا رکھتا ہے۔

 

جذبۂ حسن کا معیارِ عقلیت

انسان کی ہر خواہش کی طرح انسان کی خواہشِ حسن بھی اپنی الگ عقلیت (Rationality) رکھتی ہے اور اس پر عمل کرتی ہے۔ وہ کمزور خواہش جو عزم کی صورت میں طاقتور جبلتی خواہش پر فتح پاتی ہے ‘ اسی جذبۂ حسن سے پیدا ہوتی ہے اور یہ خواہش درحقیقت کمزور نہیں ہوتی بلکہ جبلتی خواہشات کے دباؤ سے دبی ہوئی ہوتی ہے اور آدرش کے حسن و جمال پر توجہ مرکوز کرنے سے اپنی اصلی طاقت میں آجاتی ہے اور جبلتوں پر فتح پاتی ہے اور اُس کی اس فتح کا باعث اس کی اپنی طاقت ہوتی ہے نہ کہ کسی جبلتی رجحان کی تائید یا اعانت۔ جبلتی خواہش کو روک دینے والی قوت آدرش کی محبت کے سوائے اور کوئی نہیں ہوتی۔

 

پروفیسر جیمز کی غلطی

جس قدر یہ محبت شدید ہوتی ہے اسی قدر یہ قوت بھی شدید ہوتی ہے ۔ جب آدرش کی محبت بہت طاقتور ہو تو نام نہاد کمزور تصوری یا اخلاقی خواہش اور طاقتور جبلتی خواہش کی قوتوں کی باہمی نسبت الٹ جاتی ہے۔ جو کمزور خواہش تھی وہ طاقتور ہو جاتی ہے اور جو طاقتور تھی وہ کمزور ہو جاتی ہے۔ ایسی حالت میں فعل جمیل(Moral Action) کو ظہور میں لانے کے لیے فرد کو کوئی جدوجہد کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ جبلتی خواہشات کی طرف سے کوئی مقاومت موجود نہیں ہوتی۔ انبیاء‘ صوفیاء‘ اولیاء اور شہداء کے ساتھ یہی ماجرا پیش آتا ہے ۔ یہ لوگ نیک‘ عمدہ اور قابل ستائش کام کوشش سے نہیں کرتے بلکہ ایک ایسی رغبت اور خواہش سے کرتے ہیں جسے وہ روک نہیں سکتے۔ لہٰذا پروفیسر جیمز(James)نے فعل جمیل کی جو تعریف کی ہے کہ وہ ایک ایسا فعل ہے جو شدید ترین مقاومت کے خلاف سرزد ہوتا ہے‘ ہر حالت میں درست نہیں۔ کئی دفعہ فعل جمیل ایک ایسا فعل ہوتا ہے جو قلیل ترین مقاومت کے خط پر ظہور پذیر ہوتا ہے۔

 

مثال کی تشریح

وہ لڑکا جس کی مثال میکڈوگل نے دی ہے خوف پر اس لیے غالب آ گیا تھا کہ جب اس کے دوست اور تماشائی اُسے دیکھ رہے تھے ‘ اس نے اپنے آدرش کے حسن و جمال پر توجہ مبذول کر کے اس کی محبت کو یہاں تک طاقتور کر لیا تھا کہ اس کی قوت خوف کے جبلتی رجحان کی قوت سے بڑھ گئی تھی اور ظاہر ہے کہ اس کا آدرش اس کے دوستوں اور تماشائیوں کی پسندیدگی اور ستائش تھا ۔

 

پراسرار اصطلاحات

میکڈوگل عزم کی مزید تشریح کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتا ہے :

 

’’عزم کا خاص نشان جس سے ہم اُسے ایک جبلتی خواہش سے یا جبلتی خواہشات کے باہمی تصادم سے ممیز کر سکتے ہیں ‘یہ ہے کہ ساری شخصیت یا شخصیت کا مرکز یا انسان خود یا وہ چیز جسے وہ اور دوسرے لوگ اس کا نہایت ہی ضروری حصہ قرار دیتے ہیں‘ کمزور تصوری خواہش کا ساتھ دینے لگتی ہے۔ اس کے برعکس ایک جبلتی خواہش ایک ایسی چیز سمجھی جاتی ہے جو شخصیت کے اس نہایت ہی ضروری مرکز کے مقابلہ میں شخصیت سے غیر ہوتی ہے اور ایک ایسی طاقت ہوتی ہے جسے ہم اپنی نہیں سمجھتے اور جسے ہم خود یا ہماری شخصیت خوف و ہراس اور نفرت کی نگاہوں سے دیکھتی ہے‘‘۔

 

مشکلات میں اضافہ

لیکن میکڈوگل یہ نہیں بتاتا کہ نفس انسانی کے اندر کی وہ چیز جسے وہ ’’ساری شخصیت‘‘ ’’شخصیت کا مرکز‘‘ ’’انسان خود‘‘ ’’انسان کا نہایت ضروری حصہ‘‘ ’’شخصیت کا ضروری مرکز‘‘ ’’ہم خود‘‘ یا ’’ہماری شخصیت‘‘ وغیرہ مختلف قسم کی مبہم اور پراسرار اصطلاحات سے تعبیر کرتا ہے‘ کیا چیز ہے۔ کیا وہ شروع ہی سے انسان کے ساتھ ہوتی ہے یا بعد میں پیدا ہوتی ہے پھر کیا وہ ہر انسان میں پیدا ہوتی ہے یا بعض انسانوں میں۔ کیا وہ جبلتوں سے الگ ہے یا جبلتوں کا عین ہے اگر عین ہے تو کیا وہ جبلتوں کا ایک ایسا مجموعہ ہے جس میں جبلتیں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ رکھی ہوئی موجود ہوتی ہیں یا جبلتوں کا ایک ایسا مرکب ہے جس میں جبلتیں شامل ہو کر ایک نئی چیز بن جاتی ہیں اور کوئی جبلت ایک دوسرے سے پہچانی نہیں جاتی۔ اگر مجموعہ ہے تو اس مجموعہ کو وجود میں لانے والی چیز کون سی ہے اور کس عمل سے انہیں وجود میں لاتی ہے۔ اگر وہ مرکب ہے اور جبلتیں اپنی ذات کو اس میں کھو دیتی ہیں تو پھر وہ اپنا علیحدہ علیحدہ کام کیونکر کرتی ہیںاور اگر وہ جبلتوں ہی کا مجموعہ یا مرکب ہے تو اُن کو خوف و ہراس سے کیوں دیکھتا ہے۔ کیا جبلت تفوق بھی ان جبلتوں میں شامل ہے جس کو یہ شخصیت کا مرکز خوف و ہراس سے دیکھتا ہے اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو وہ اس سے مدد کیونکر لیتا ہے۔ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو اس جبلت کے مستثنیٰ ہونے کی وجہ کیا ہے؟

 

متضاد باتیں

میکڈوگل یہاں اپنی تردید خود کر رہا ہے۔ وہ پہلے کہہ چکا ہے کہ کمزور تصوری خواہش کو طاقتور بنانے والی قوت جبلتِ تفوق ہے لیکن یہاں وہ کہتا ہے کہ یہ قوت شخصیت کا مرکز ہے جو جبلتی خواہشات کو خوف و ہراس سے دیکھتا ہے اور اپنے آپ سے بیگانہ سمجھتا ہے۔ اب اگر شخصیت کامرکز خود جبلت تفوق ہی نہیں تو میکڈوگل کا بیان اُس کے اپنے ہی خلاف ہے۔

 

حقیقت حال

دراصل یہ ’’شخصیت کا مرکز‘‘ ’’یا انسان خود‘‘ جس کا میکڈوگل ذکر کر رہا ہے‘ انسان کی خود شعوری ہے جو جبلتوں کو اپنی اغراض کے لیے پیدا کر کے اپنے آلہ کے طور پر دماغ کی تکمیل کرتی ہے اور دماغ کی تکمیل کی وجہ سے آزاد ہو کر جبلتوں پر حکمران ہو جاتی ہے۔ وہ صرف اپنے آدرش کو چاہتی ہے اور اسی لیے وہ بعض وقت جبلتی خواہشات کی تائید کرتی ہے اور بعض وقت اُن کو خوف و ہراس اور حقارت اور نفرت سے دیکھتی ہے۔ محبت کا جذبہ مصنوعی طور پر بیرونی حالات سے یا عواطف کے ہیجان میں آنے سے پیدا نہیں ہوتا بلکہ ایک پیدائشی چیز ہے البتہ جذبۂ محبت کا مرجع یا آدرش عمر‘ تجربہ اور علم کی ترقی کے ساتھ ساتھ حسن و کمال کے معیا ر میں ترقی کرتا رہتا ہے۔ ہمارا جذبۂ محبت کبھی زائل نہیں ہوتا البتہ ہمارا آدرش بدل جاتا ہے جب ایک آدرش زائل ہو تو دوسرا آدرش فوراً اس کی جگہ لے لیتا ہے کیونکہ ہمارا فطرتی پیدائشی جذبۂ محبت اظہار پانے سے رک نہیں سکتا۔

 

جذبہ انسان کا خاصہ ہے

چونکہ جذبۂ محبت صرف خود شعوری کا خاصہ ہے اور خود شعوری صرف انسان میں آزاد ہے اس لیے صرف انسان ہی جذبۂ محبت کو محسوس کرتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بعض اعلیٰ درجہ کے حیوانات مثلاً گھوڑے ‘ہاتھی اور کتے بظاہر جذبۂ محبت کو محسوس کرتے ہیں لیکن حیوان کا دماغ اس قدر غیر مکمل ہوتا ہے کہ وہ خود شعوری کی ضرورت کو پورا نہیںکرتا اور اسے اتنی آزادی نہیں دیتا کہ وہ اپنے وظیفۂ محبت کو پوری طرح سے ادا کر سکے اس لیے حیوان کا جذبۂ محبت (اگر ہم اسے ایک جذبہ کہہ سکتے ہیں) ناتمام اور غیر شعوری اور مقید و مجبور ہوتا ہے۔ اس کی کیفیت ایک غیر مبدل ترقی یافتہ جبلت کی طرح ہوتی ہے جو نہ تو جبلتوں پر حکومت کر سکتی ہے اور نہ ہی خود شعوری کے تمام عواطف کا اظہار کرسکتی ہے۔

 

غلط مثال

میکڈوگل اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کہ ایک جذبۂ جبلتی عواطف کے ہیجان میں آنے سے بنتا ہے ایک لڑکے کی مثال دیتا ہے جس کا باپ اس کے سامنے بار بار غصہ کا اظہار کرتا ہے جس سے لڑکا خوف کا ایک ابتدائی جذبۂ پیدا کر لیتا ہے اور پھر یہ جذبہ دوسرے عواطف کو جسے باپ کا قابلِ نفرت طریقِ عمل ہیجان میں لاتاہے اپنے ساتھ شامل کر کے نفرت کے ایک مکمل جذبہ کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔

 

لیکن اس مثال میں لڑکے کا آدرش یا محبت کا جذبہ پہلے ہی موجود تھا۔ البتہ اُس کی کم سنی کی وجہ سے اس کا آدرش زیادہ بلند نہیں تھا بلکہ وہ صرف اس کی مرغوب جبلتی خواہشات کی تشفی تک محدود تھا۔ لہٰذا جو شخص ان خواہشات کی تشفی کے راستہ میں رکاوٹ بنا وہ لازماً اُس کی نفرت کا موجب بن گیا۔ اس حالت میں بھی لڑکے کی نفرت اس کے آدرش کے ماتحت پیدا ہوئی۔ اور اس کے پیدا ہونے میں اتنی ہی دیر لگی جتنی کہ یہ معلوم کرنے میں کہ وہ شخص فی الواقع اس کی مرغوب جبلتی خواہشات کے راستہ میں ایک رکاوٹ ہے۔

 

یہاں جبلتی عواطف کے ہیجان نے لڑکے کی نفرت کو پیدا نہیں کیا بلکہ اُسے یہ فیصلہ کرنے میں مدد دی ہے کہ وہ اپنی نفرت کے جذبہ کو جو اُس کی محبت کے جذبہ کے ماتحت پہلے ہی اس کی فطرت کے اندر پیدائشی طور پر موجود تھا کس چیز کی طرف موڑے انسان اپنی نفرت کے لیے ہر اُس چیز کو منتخب کرنے پر مجبور ہے جو اس کے آدرش کی مخالف ہو خواہ اس کا آدرش کیسا ہی پست ہو۔

 

حیوانی اور انسانی عواطف کا فرق

انسان کے عواطف اس کے آدرش کے خدمت گزار ہوتے ہیں لیکن حیوان کے عواطف اس کے جسم کے خدمت گزار ہوتے ہیں۔وہ عواطف جو جبلتوں سے وابستہ ہیں ایک حیاتیاتی مقصد رکھتے اور اُس وقت عمل کرتے ہیں جب جسم کی ضروریات کی مخالفت یا اعانت ہو رہی ہو۔ ان کی غرض یہ ہے کہ جبلتی رجحان کا عمل شروع ہو کر اپنے انجام کو پہنچے تاکہ اس کے ذریعہ سے حیوان اپنی زندگی اور نسل قائم رکھ سکے۔ لیکن انسان میں یہ جبلتی عواطف بالآخر آدرش کے ماتحت رہتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں انسان کی صورت میں عواطف اس وقت ہیجان میں آتے ہیں جب آدرش کی ضروریات نہ کہ جسم کی ضروریات کی مخالفت یا اعانت ہو رہی ہو۔

 

عواطف کے ہیجان کا باعث محبت ہے

جب ہمارا علمِ جمال نہایت ہی محدود ہو اور ہم حیوانات کی سطح پر زندگی بسر کر رہے ہوں جیسا کہ مثلاً ایک بچے یا ایک وحشی انسان کی صورت میں اکثر ہوتا ہے تو ہمارا آدرش بلند نہیں ہوتا اور جبلتی خواہشات کی لذت تک محدود رہتا ہے لہٰذا جب ان خواہشات کی مخالفت یا اعانت ہو رہی ہو تو ہمارے عواطف اپنے اپنے مواقع پر ہیجان میں آتے ہیں۔ اس صورت میں بھی ہمارے عواطف کی تحریک کا سبب آدرش کی محبت کا پیدائشی اور فطرتی جذبہ ہوتاہے۔ میکڈوگل کی مثال میں جب تک لڑکے کا آدرش اُس کے جبلتی تقاضوں کے قریب رہے گا اس کی محبت اور نفرت کے جذبات ان اشخاص تک محدود رہیں گے جو ان تقاضوں کی اعانت یا مخالفت کرتے ہیں لہٰذا یہی اشخاص ہوں گے جو اس کے عواطف کو ہیجان میں لائیں گے۔ لیکن جوں جوں اس کا آدرش جبلتی خواہشات سے بلند تر ہوتا جائے گا اور حسن و کمال کے اوصاف کے قریب آتا جائے گا وہ اپنے آدرش کی خاطر اپنی جبلتی خواہشات اور عواطف کو قابو میں لائے گا۔ ایک ایسے مہذب انسان کی صورت میں جو ایک بلند آدرش سے محبت رکھتا ہو خوف کا عاطفہ بالآخر اس وقت عمل کرے گا جب جسم کو نہیں بلکہ آدرش کو خطرہ ہو گا۔ ہماری جبلتی خواہشات سے وابستہ ہونے والے دوسرے عواطف کا حال بھی ایسا ہی ہے ۔ آدرش کی محبت انہیں سختی سے اپنے ماتحت رکھتی ہے عواطف ہمیشہ محبت کے خدمت گزار ہوتے ہیں یہاں تک کہ حیوان میں بھی جہاں وہ فقط جبلتوں کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں۔ ایک قسم کی محبت ہی کی خدمت کرتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ تمام جبلتیں یا محبت سے تعلق رکھتی ہیں یا نفرت سے۔ گو یہ صحیح ہے کہ حیوان کی جبلتی محبت انسان کی آدرشی محبت کی طرح آزاد نہیں ہوتی۔

 

غلط تقسیم

میکڈوگل کی اس غلطی کاسبب کہ ایک جذبہ عواطف کے پے در پے ہیجان سے وجود میں آتا ہے یہ ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ عواطف بنیادی طور پر حیوانی جبلتوں سے تعلق رکھتے ہیں اور انسان کی شخصیت تمام تر حیوانی جبلتوں سے بنی ہے۔ وہ بنیادی (Primary) اورثانوی(Secondary)عواطف میں فرق کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ جبلتی عواطف‘ جوحیوان اور انسان دونوں میں مشترک طور پر موجود ہیں ‘ بنیادی ہیں اور باقی جو انسان سے مخصوص ہیں اُن کے باہمی اختلاط اور امتزاج سے پیدا ہوئے ہیں لہٰذا وہ ماخوذ اورثانوی ہیں۔

 

لیکن اگر عواطف جبلتوں ہی سے وابستہ ہیں تو اس کی وجہ کیا ہے کہ وہ حیوان کی صورت میں امتزاج پا کر ایسے ہی ثانوی اور ماخوذ عواطف نہیں بن جاتے ‘جو انسان سے خاص ہیں‘ عواطف کی یہ رنگا رنگی اور گوناگونی فقط انسان ہی کے حصہ میں کیوں آئی ہے۔ اور پھر انسان ہی میں عواطف کا وہ نظام کیوں پیدا ہوتا ہے جسے میکڈوگل جذبہ کا نام دیتا ہے۔عقل جو میکڈوگل کے نزدیک صرف ایک ہی بنیادی خصوصیت ہے ‘جو حیوان اور انسان میں امتیاز پیدا کرتی ہے ‘یقینا عواطف کی اس کیمیاوی ترکیب کا باعث نہیں تو پھر ہم اس کا باعث اور کس چیز کو قرار دیں۔

 

میکڈوگل نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔

دراصل عواطف بنیادی طور پر جبلتوں کے عواطف نہیں بلکہ خود شعوری کے عواطف ہیں۔ ان کا اصلی مالک انسان ہے اور وہ حیوان نہیں جو اس کے اندر اس کے تابع رکھا گیا ہے۔ وہ عواطف جو جبلتوں سے متعلق ہیں بے شک زندگی کی حفاظت کے لیے بہت ضروری ہو سکتے ہیں۔

 

عواطف کی اصل

لیکن کوئی وجہ نہیں کہ ہم انہیں بنیادی اور اصلی قرار دیں اور یہ سمجھیں کہ باقی تمام عواطف جنہیں ہم انسان کی حیثیت سے محسوس کر سکتے ہیں مختلف مقدار میں اُن کے امتزاج سے بنے ہیں۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ جبلتوں اور ان کے عواطف نے مل کر خود شعوری کو ترکیب نہیں دیا بلکہ خود شعوری نے جبلتوں کو اُن کی موجودہ شکل دی ہے۔ جبلتوں کا وجود اور ان کی کیفیت دونوںکا باعث خودشعوری ہے۔ ہر جبلت خود شعوری کے کسی وصف سے حصہ لیتی ہے اور اس کی غرض یہ ہے کہ نیم شعور حیوان کو اس طریق سے عمل کرنے پر مجبورکیا جائے کہ وہ ارتقاء کی اغراض کے لیے اپنی زندگی کو برقرار رکھ سکے۔

 

انسانی عواطف کی رنگا رنگی کا باعث

چونکہ تمام عواطف خود شعوری کی فطرت میں ہیں لہٰذا جب خود شعوری انسان میں پہنچ کر آزاد ہوتی ہے تو عواطف بھی اپنی پوری ثروت اور پوری رنگا رنگی سے نمودار ہوتے ہیں۔ عواطف مل کر ایک جذبۂ محبت نہیں بناتے بلکہ وہ خود محبت کے فطرتی عناصر ہیں جو محبت کے اندر پہلے ہی موجود ہوتے ہیں۔ وہ محبت کے خدمت گزار ہیں محبت اُن کے ذریعہ سے اپنی حفاظت اور اپنی نشوونما کا انتظام کرتی ہے۔ پھر وہ محبت کے مختلف حالات کا پتہ دیتے ہیں۔ محبت ان کے ذریعہ سے اپنی مختلف کیفیات کا اظہار کرتی ہے اگر وہ محبت کے اندر موجود نہ ہوں تو محبت کی وجہ سے وہ ظہور میں نہ آئیں۔ محبت جب کسی واقعہ کے جواب میں اپنی حفاظت اور اپنے قیام کے لیے کوئی عمل کرتی ہے تو ہم اسے ایک عاطفہ کہتے ہیں۔ کسی عاطفہ کا اظہار کرنا خواہ وہ عاطفہ کوئی ہو موقعہ کے مطابق محبت کا اظہار کرنا ہے چونکہ ہم ہمیشہ محبت کرتے رہتے ہیں لہٰذا ہم ہر وقت کسی نہ کسی عاطفہ کا بھی اظہار کرتے رہتے ہیں۔ تمام عواطف کا مقصد یہ ہے کہ خود شعوری کو آدرش کی سیدھی سمت میں اور اُس کے نقیض کی الٹی سمت میں حرکت دی جائے۔ وہ عواطف بھی جو نفرت پر مبنی ہوں محبت ہی کے خدمت گزار ہوتے ہیں کیونکہ نفرت بھی محبت پر موقوف ہوتی ہے۔

 

مسرت اور غم کا منبع

جب خود شعوری محبت کا راستہ آسانی سے کاٹ رہی ہو یعنی جب وہ آدرش کے قریب آ رہی ہو اور اس کے نقیض کو دور ہٹا رہی ہو تو جوعاطفہ ظہور پاتا ہے اُسے خوشی‘ مسرت یا اطمینان کہا جاتا ہے اور جب حالت اس کے برعکس ہو تو جو عاطفہ ظہور پاتا ہے اسے غم اور حزن کہا جاتا ہے۔ مسرت اور غم کے درمیان بے شمار عواطف ہیں۔ غم کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ خود شعوری کو احساس پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ محبوب تک پہنچنے میں آخری طور پر ناکام رہی ہے اور محبوب ہمیشہ کے لیے اُس سے چھوٹ گیا ہے اس احساس کے باوجود محبت جاری رہتی ہے اور یہی غم کا باعث ہوتا ہے۔ غم ہمیشہ خود شعوری کی غلط فہمی کا نتیجہ ہوتا ہے ۔ انسان کا محبوب یعنی خدا ہر وقت زندہ اور قائم ہے اور اس کا قرب ہر وقت ممکن ہے۔ لہٰذا اگر انسان ذہنی طو رپر صحت مند ہو تو غم کی کیفیت ہمیشہ باقی نہیں رہتی بلکہ زود یا بدیر اُمید میں بدل جاتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہو تی ہے کہ خود شعوری کا فطرتی یقین کہ وہ ہر وقت محبوب کے قریب ہو سکتی ہے جو پہلے دب گیا تھا پھر عود کر آتا ہے۔

 

جبلتوں کی عمارت

میکڈوگل کا نظریہ کہ انسان کی شخصیت ایک ایسی عمارت ہے جس میں جبلتیں اینٹوں کا کام دیتی ہیں۔ انسان اور حیوان کے گوناگوں امتیازات میں سے کسی امتیاز کی تسلی بخش تشریح نہیں کر سکتا۔ بالخصوص یہ سمجھنا مشکل ہے کہ کس طرح سے ممکن ہے کہ ایک انسان محبت کے جذبہ کی خاطر جو خود جبلتوں ہی سے بنا ہوایسی بڑی بڑی قربانیاں کرنے کے لیے آمادہ ہو جائے‘ جن میں جبلتی خواہشات بلکہ خود زندگی کے قیام کا مقصد جس کے لیے جبلتیں وجود میں آئی ہیں‘ بالکل پامال ہو جائے۔

 

آدرش کی حکمرانی

ہرگز ممکن نہیں کہ خدا‘ مذہب ‘ قوم یا وطن کا نصب العین ‘جو بعض وقت انسان سے زندگی کی قربانی طلب کرتا ہے‘جبلتوں پر مبنی ہو اور پھر اپنی ہی بنیادوں کو ڈھا دے۔ حقیقت یہ ہے کہ نصب العین کی محبت کا جذبہ ‘جو انسان اور حیوان کا سب سے بڑا امتیاز ہے ‘جبلتوں پر حکمران ہے اور اگر یہ جبلتوں کی پیداوار ہوتا تو ان پر حکمران نہ ہو سکتا۔

 

قرآن اور علمِ جدید (یونی کوڈ فارمیٹ)