قرآن اور علمِ جدید (یونی کوڈ فارمیٹ)

انسان کی فطرت کا قرآنی نظریہ

 

اعمال کا اصلی محرک

اب قرآن کی طرف آیئے۔ قرآن میکڈوگل کی مشکلات میں اس کی راہنمائی کرے گا۔ قرآن کے نزدیک انسان کے اعمال کی قوت محرکہ (Motivating Force) اس کی حیوانی جبلتیں نہیں بلکہ خدا کی عبادت کا ایک زبردست جذبہ ہے چنانچہ قرآن کا ارشاد ہے:

 

{فَاَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًاط فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَاط لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُق} (الروم:۳۰)

 

’’اے پیغمبرؐ خدا کی عبادت پر یکسوئی سے قائم رہو۔ یہ وہی فطرت انسانی ہے جس پر خدا نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ پیدائشی تقاضے بدلا نہیں کرتے لہٰذا یہ دین پکی بنیاد پر ہے۔‘‘

 

ایک اور جگہ قرآن نے اسی مضمون کو یوں بیان فرمایا ہے:

 

{وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِ (۵۶)} (الذریت)

 

’’میں نے جنوں اور انسانوں کو فقط عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔‘‘

 

ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی فطرت عبادت کے لیے بنائی گئی ہے ایک اور جگہ قرآن حکیم نے ایک قصہ کے پیرایہ میں اوپر کی آیات کے مضمون کی تائید اس طرح سے کی ہے :

 

{وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِيْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَاَشْهَدَهُمْ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ ۚ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ  ۭ قَالُوْا بَلٰي ڔ شَهِدْنَا } (الاعراف:۱۷۲)

 

’’جب تیرے پروردگار نے بنی آدم کو ان کی پیٹھوں سے اکٹھا کر کے خود ان پر گواہ بنایا اور پوچھا کہ کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں تو سب نے کہا ہاں ہم گواہ ہیں تو ہمارا پروردگار ہے!۔‘‘

 

یہ آیت بتاتی ہے کہ قول و فعل میں خدا کی ربوبیت کا اقرار انسان کی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے۔

 

حدیث کی وضاحت

حضورﷺ کی کئی احادیث ایسی ہیں جو قرآن کے اس مضمون کی مزید وضاحت کرتی ہیں مثلاً:

 

((کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلٰی فِطْرَۃِ الْاِسْلَامِ فَاَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہٖ اَوْ یُنَصِّرَانِہٖ اَوْ یُمَجِّسَانِہٖ))

 

’’ہر بچہ فطرتاً اسلام پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں۔‘‘

 

ایک حدیث قدسی ہے:

((قَالَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ انی خلقت عبادی حنفاء فجاء تھم الشیاطین فاجتالتھم عن دینھم وحرمت علیھم ما احللت لھم))

 

’’اللہ تعالیٰ عزوجل فرماتے ہیں میں نے اپنے  بندوں کی فطرت میں خدائے واحد کی عبادت کی خواہش رکھی لیکن شیاطین نے آ کر ان کو اپنے فطرتی دین سے گمراہ کر دیا اور وہ ان چیزوں کو حرام سمجھنے لگے جو میں نے ان پر حلال کی تھیں۔‘‘

 

ایک سوال

لیکن کیا ان آیات اور احادیث سے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست ہو گا کہ قرآن کے نزدیک انسان کی فطرت کا کچھ حصہ تو عبادات کے لیے بنایا گیا ہے اور کچھ حصہ اس کی دوسری حیوانی قسم کی ضروریات اور خواہشات کے لیے وقف رکھا گیا ہے۔ کیا انسان کی فطر ت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے بعض افعال واعمال تو عبادت کے طو رپر ہوں اور بعض عبادت کے طور پر نہ ہوں کہ وہ شب و روز کے اوقات میں سے کچھ حصہ تو خدا کی عبادت کے لیے صرف کرے اور باقی اوقات میں عبادت کے علاوہ اور جو چاہے کرتا رہے۔

 

قرآن کا دعویٰ

اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ انسان کی فطرت اس طرح سے بنائی گئی ہے کہ وہ خدا کی عبادت کے سوائے اور کچھ کر ہی نہیں سکتا۔ ضروری ہے کہ اس کی ساری زندگی یعنی اس کی زندگی کا ہر فعل خدا کی عبادت کے جذبہ سے نمودار ہو اور اس کی عبادت پر مشتمل ہو ۔ قرآن کا یہ دعویٰ نہایت انقلاب انگیز ہے اور فطرت انسانی کے تمام قدیم و جدید فلسفیانہ نظریات کے لیے دعوت مبارزت ہے۔ لیکن ا س کے باوجود قرآن کا دعویٰ یہی ہے اور اس سے ایک ذرّہ بھی کم نہیں۔ آیت:

 

{وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِ (۵۶)} (الذّٰریٰت)

 

’’ہم نے جنوں اور انسانوں کو عبادت کے سوا اور کسی بات کے لیے پیدا نہیں کیا‘‘۔

 

میں مَا اور اِلاَّ کے الفاظ سے قرآن کا یہ دعویٰ صاف ظاہر ہے ۔ اور پھر خدا کی عبادت کی مثال حضورﷺ کی زندگی ہے اور آپؐ ‘کو یہ حکم دیا گیا تھا:

 

{قُلْ اِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (۱۶۲)}

(الانعام )

 

’’بے شک میری نماز میری قربانی میری زندگی اور میری موت سب اللہ کے لیے ہیں جو اہل جہان کا پروردگار ہے۔‘‘

 

جب ہم اس نظریہ کو واضح طور پر سمجھنے کے لیے اس پر مزید غور و فکر کرتے ہیں تو سب سے پہلا سوال جو ہمارے سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ خدا کے معنی کیا ہیں اور عبادت کے معنی کیا ہیں۔

 

لفظ ’’خدا‘‘  کا مفہوم

قرآن کی روسے خدا کے معنی ہیں وہ ذات جو تمام ایسے اوصاف کی مالک ہو جو تعریف اور ستائش کے قابل ہیں۔ قرآن ان اوصاف کو اسمائے حسنیٰ کہتا ہے اور ان کی ایک فہرست مہیا کرتا ہے۔ ان میں بعض یہ ہیں: خالق (پیدا کرنے والا) ‘ ربّ (ربوبیت کرنے والا)‘ رحمٰن (عام مہربانی کرنے والا) ‘ رحیم (رحم کرنے والا)‘ کریم (کرم کرنے والا)‘ قدیر (قدرت والا)‘ علیم(جاننے والا)‘ حق (سچ)‘ حی (زندہ)‘ قیوم(قائم رکھنے والا) وغیرہ۔

 

باقی رہا یہ سوال کہ خدا کو کیا کہا جائے اللہ یاگاڈ‘یا رحمن‘ یا خدا‘ قرآن کے نزدیک یہ بات چنداں اہمیت نہیں رکھتی چنانچہ ارشاد ہے:

 

{قُلِ ادْعُوا اللّٰہَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ ط اَیًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَہُ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی ط}  (بنی اسراء یل:۱۱۰)

 

’’کہو خد اکو اللہ کہو یا رحمن کہو یا کسی اور نام سے پکارو اس پر کچھ موقوف نہیں ۔ صرف اتنا یاد رہے کہ تمام اچھے اوصاف بغیر کسی استثنیٰ کے صرف اللہ کے اوصاف ہیں کسی اور کے نہیں۔‘‘

 

{وَلِلّٰہِ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِھَا ط} (الاعراف:۱۸۰)

 

’’تمام اچھی صفات اللہ ہی کی صفات ہیں اسے ان صفات سے پکارو۔‘‘

 

{اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ}  (الفاتحہ:۱)

 

’’سب تعریف اللہ کے لیے ہے۔‘‘

 

جمال حقیقی

ان آیات کا مطلب نہ صرف یہ ہے کہ تمام قابل تعریف صفات اللہ کی صفات ہیں بلکہ ان کا مطلب یہ بھی ہے کہ یہ صفات اللہ کے سوائے کسی میں موجود نہیں اور اگر وہ کسی دوسرے میں موجود ہیں تو اس کی صفات کا ایک پرتو ہیں اور عارضی اور جزوی طور پر اسی کی عطا کی ہوئی ہیں۔لہٰذا درحقیقت وہ اس کی صفات نہیں بلکہ اللہ ہی کی صفات ہیں اور جب تمام قابل تعریف صفات صرف ایک ہی ذات میں موجود ہیں تو لازماً حسن یا جمال کی اصطلاح صرف اسی ذات کے لیے صحیح طور پر برتی جا سکتی ہے۔ وہی ذات حسن کا مبداء اور منتہا ہے۔ وہی ذات حسن و جمال حقیقی ہے۔

 

لفظ ’’عبادت‘‘ کا مفہوم

حسن وہ چیز ہے جو ہمیں محبت پر مجبور کرتی ہے لہٰذا حسن کے اندر کمال بھی شامل ہے کیونکہ نقص سے محبت کرنا ممکن نہیں۔ حسن کا احساس بے اختیار محبوب کی تعریف اور ستائش کرنے‘ اس سے قریب ہونے‘ اس کے سامنے عجز و نیاز کا اظہار کرنے‘ اس کی خدمت اور اطاعت کرنے اور ہر آن اور ہر لمحہ اس کی رضامندی کی جستجو کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ اسی چیز کا نام عبادت ہے جس کی خواہش قرآن کی رو سے انسان کے سارے اعمال کی جڑ ہے۔ اگر حسن عبادت کی خواہش پیدا نہیں کر سکتا تو وہ حسن ہی نہیں۔ اور ضروری ہے کہ ہمارے دل میں اس کے کسی نقص کا خیال موجود ہو۔ عبادت کی اصل احساس حسن ہے جس کا دوسرا نام محبت ہے۔ معبود وہی ہے جو محبوب بھی ہو اور اگر محبوب فی الحقیقت محبوب ہے تو ضروری ہے کہ وہ معبود بھی ہو اور قرآن اس کی تصدیق ان الفاظ میں کرتا ہے:

 

{وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ}  (البقرۃ:۱۶۵)

 

’’ایمان لانے والے خدا سے شدید محبت کرتے ہیں۔‘‘

 

ان حقائق کی روشنی میں ہم قرآن کے نظریۂ فطرت کو مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کر سکتے ہیں:

 

’’حسن حقیقی کی محبت انسان کے تمام اعمال کا سرچشمہ ہے‘‘۔

 

ایک سوال

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر خدا کی عبادت انسان کی فطرت ہے ‘اگر خدا کی محبت انسان کے تمام اعمال کا سرچشمہ ہے تو ہر انسان اپنی ساری زندگی کو خدا کی محبت یا عبادت کے لیے وقف کیوں نہیں کر دیتا۔ یہ مان لیا کہ جو لوگ خدا پر ایمان لاتے ہیں اور خدا کی عبادت کرتے ہیں وہ اپنی فطرت کا اظہار ٹھیک طرح سے کرتے ہیں۔ لیکن اس زمانہ میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو خدا پر ایمان نہیں لاتے یا عملاً کافر ہیں اور خدا کی عبادت نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کی فطرت کہاں غائب ہو جاتی ہے اور انسان ہونے کے باوجود وہ انسانی فطرت کا جامہ اتارنے میں کس طرح کامیاب ہو جاتے ہیں؟

 

فطرت کے غیر مبدل قوانین

قرآن اس سوال کا جواب یہ دیتا ہے کہ کسی انسان کی فطرت غائب نہیںہو سکتی۔کوئی انسان اپنی فطرت کا جامہ اتار نہیں سکتا کیونکہ فطرت انسانی کے قوانین غیر مبدل ہیں:

 

{لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِط } (الروم:۳۰)

 

’’پیدائشی تقاضے بدلا نہیں کرتے۔‘‘

 

قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ منکرین کے دل میں بھی خدا اور اس کے اوصاف کی محبت بدستور رہتی ہے۔ اور ان کی زندگی کے تمام اعمال بھی اسی محبت کے سرچشمہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ گویا ان کی زندگی بھی عبادت ہی کے لیے وقف رہتی ہے لیکن ان کی صورت میں ہوتا یہ ہے کہ وہ سچے خدا سے جو فی الحقیقت تمام اوصاف حسن کا مالک ہے‘ آشنا نہیں ہوتے اور لہٰذا وہ اپنی فطرت کے تقاضائے عبادت سے مجبور ہو کر کسی اور تصور کو خدا سمجھ لیتے ہیں اور پھر اس خودساختہ خدا کی طرف وہ تما م اوصاف حسن منسوب کرتے ہیں جن کا مالک فقط سچا خدا ہے۔

 

جذبۂ عبادت کا غلط استعمال

اور پھراس کی خدمت اور اطاعت کرتے ہیں۔اس کے سامنے عجز و نیاز کا اظہار کرتے ہیں‘ اس کی تعریف و ستائش کرتے ہیں‘ اس کی رضامندی اور پسندیدگی کی جستجو کرتے ہیں اور اس کا قرب ڈھونڈتے ہیں۔ غرض اس جھوٹے خدا کے لیے ان کی محبت اور عبادت کے تمام فطرتی تقاضے اپنا کام بالکل اسی طرح سے کرتے ہیں جس طرح سچے خدا کے لیے ایک مومن کی فطرت کے تقاضے اپنا کام کرتے ہیں۔ صرف ان لوگوں کی صورت میں ان کا مرجع یا محرک یا مظہر اور ہوتا ہو قرآن نے اس حقیقت کو یوں بیان فرمایاہے:

 

{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّـتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَہُمْ کَحُبِّ اللّٰہِ ط وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ط } (البقرۃ:۱۶۵)

 

’’ان لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر دوسرے تصورات کو اپنا معبود بنا لیا ہے اور وہ اپنے ان معبودوں سے ایسی ہی محبت کرتے ہیں جو صرف خدا سے کرنی چاہیے۔ لیکن وہ لوگ جو خدا پر ایمان لائے ہیں خدا سے شدید محبت کرتے ہیں۔‘‘

 

قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ یہ جھوٹے خدا  رب السموت والارض اور خدائے واحد قہار ہی کی طرح کے رَبّ مانے جاتے ہیں اور ان کو ربّ کہا جاتا ہے۔ گو ان کے اندر رَبّ کی صفات موجود نہیں ہوتیں اور ان کو ماننے ولا ان کے اندر ان اوصاف کی موجودگی خواہ مخواہ فرض کر لیتا ہے۔

 

{یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ئَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ (۳۹) مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ الَّا اَسْمَآئً سَمَّیْتُمُوْہَا اَنْتُمْ وَاٰبَآؤُکُمْ} (یوسف:۴۰)

 

’’اے قید خانہ کے ساتھیو کیا عبادت کے لیے بہت سے رب اچھے ہیں یا ایک ہی غالب خدا اچھا ہے۔ تم اسے چھوڑ کر فقط ناموں کی عبادت کرتے ہو جو تم نے اور تمہارے آباؤ اجداد نے وضع کر لیے ہیں (کیونکہ اُن میں ربّ کی صفات درحقیقت موجود نہیں)۔‘‘

 

جھوٹے خدا

انسان نے اپنی تاریخ میں کئی قسم کے جھوٹے خداؤں کی عبادت کی ہے اور اب بھی کر رہا ہے۔ پتھر‘ درخت‘ دریا‘ پہاڑ‘ ہاتھ سے تراشے ہوئے بت سب اس کے خدا بنے رہے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنی سفلی خواہشات کی لذت کو‘ حرص و ہوا کو‘ شہرت‘ حکومت یا دولت کو لوگوں کی رضامندی یا پسندیدگی کو یا بیوی یا اولاد کو یا کسی دوست یا افسر کو اپنا خدا سمجھ لیتا ہے اس عہد میں اُس کے جھوٹے خداؤں نے ازموں(isms) کی صورت اختیار کر لی ہے مثلاً  نیشنلزم(Nationalism)‘ کمیونزم (Communism)‘  نازی ازم(Nazi-ism)فاشزم(Fascism)‘ ہیومنزم(Humanism)بعض لوگوں کے خدا ہیں۔

 

نصب العین کی ماہیت

بعض وقت جھوٹے خداؤں کو ماننے والے لوگ اپنے خدا کو خدا نہیں کہتے لیکن عملی طور پر ان کو خدا سمجھتے ہیں۔ وہ خدا کی اصطلاح عام طور پر سچے خدا کے لیے رہنے دیتے ہیں لیکن سچے خدا کی صفات اس سے چھین کر اپنے جھوٹے خدا کو سونپ دیتے ہیں ۔ تاہم ہرشخص کا خدا وہی ہے جسے وہ عملی طو رپر خدا مانتا ہے اور جس کی طرف وہ عملی طور پر صفاتِ حسن منسوب کرتا ہے۔ حکماء نے اس قسم کے خدا کے لیے آئیڈیل(Ideal)یا نظریہ یا نصب العین یا آدرش کی اصطلاح وضع کی ہے ۔ کسی شخص کا نصب العین وہ تصور ہوتا ہے جس کی محبت اس کی زندگی کے تمام اعمال کو پیدا کرتی ہے اور جسے وہ اپنے محبوب یا معبود کا درجہ دیتا ہے۔ خواہ وہ اسے خدا کا نام نہ دے۔

 

اختصار نتائج

اگر ہم اس اصطلاح کو کام میں لائیں تو اب تک ہم جن نتائج کو پہنچے ہیں ان کے مطابق فطرتِ انسانی کے متعلق قرآن کا نظریہ اس طرح سے بیان کیا جا سکتا ہے:

 

’’آئیڈیل یا آدرش کی محبت کا جذبہ انسان کے سارے اعمال کا سرچشمہ ہے۔ یہ جذبہ ایسا ہے کہ اگر انسان اس کے اظہار کا صحیح طریق نہ جانتا ہو تو اس کا اظہار غلط طریق سے کرتا ہے یعنی ایک غلط تصور کو اپنا آدرش بنا لیتا ہے۔ پھر خدا کی تمام صفات اُس کی طرف منسوب کرتا ہے اوراس کی عبادت اور اطاعت اس طرح کرتا ہے گویا وہ سچ مچ کا خدا ہے اور خدا کی صفات کا مالک ہے۔ لیکن صحیح کامل اور سچا نصب العین اس ہستی کا تصور ہے جو اس کائنات کی خالق ہے‘ جو ربّ ہے‘ رحمن و رحیم ہے‘ حی و قیوم ہے‘ علیم و قدیر ہے اور فرضی طور پر نہیں بلکہ حقیقی طور پر تمام صفات حسن و کمال کی مالک ہے‘‘۔

 

قیمتی مضمرات

انسان کی فطرت کا یہ قرآنی نظریہ یوں تو دو فقروں میں بیان ہو جاتا ہے لیکن اس کے مضمرات اور نتائج بہت دور رس ہیں اور انسان اور کائنات کی حقیقت کے بہت سے پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں۔

 

چند سوالات

جب ہم ان مضمرات اور نتائج پر حاوی ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو بعض سوالات ہمارے سامنے آتے ہیں مثلاً:

 

اوّل : آدرش کی محبت کا جذبہ انسان میں کہاں سے آیا ہے۔ اس کا سبب اور اس کا مقصد کیا ہے۔ ارتقاء کے عمل میں جبلتوں کا مقصد تو یہ ہے کہ فرد کی زندگی اور نسل قائم رہے کیونکہ اس کے بغیر ارتقاء کی حرکت جاری نہیں رہ سکتی لیکن آدرش کی محبت کا جذبہ ارتقاء کے کون سے مقصد کو پورا کرتا ہے؟

 

دوم : اگر یہ جذبہ ارتقاء کے کسی مقصد کو پورا کرتا ہے تو وہ مقصد اس سے کس طرح پورا ہوتا ہے؟

 

سوم :  آدرش کی خصوصیات کیا ہیں اور انسان کی مختلف صلاحیتوں اور سرگرمیوں مثلاً قانون‘ سیاست‘ تعلیم‘ اخلاق‘ فلسفہ‘ سائنس‘ علم‘ ہنر اور عقل کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے؟

 

چہارم :  اگر آدرش کی محبت انسان کے تمام اعمال کا سرچشمہ ہے تو اس کی جبلتی خواہشات جو اپنا علیحدہ حیاتیاتی دباؤ رکھتی ہیں کہاں جاتی ہیں۔ جبلتوں کے ساتھ آدرش کا کیا تعلق ہے؟

 

پنجم :  بمشکل کوئی منکر خدا ایسا ہو گا جو خدا کے تصور سے ناواقف ہو یا اُس کی اُن صفات کا علم نہ رکھتا ہو جو خدا کو ماننے والے خدا کی طرف منسوب کرتے ہیں اور جو فی الحقیقت اُسی کی صفات ہیں۔ پھر ایک منکر خدا کو چھوڑ کر دوسرے آدرش کو اپنی محبت کے لیے کیوں چنتا ہے؟

 

ششم :  کسی خاص وقت پر کسی خاص آدرش کے منتخب ہونے کی وجہ کیا ہوتی ہے؟

 

ہفتم :  آدرش کے بدلنے کی وجہ کیا ہوتی ہے؟

 

ہشتم :  بعض غلط آدرشوں کے ماننے والے لوگ مثلاً نیشنلزم یا کمیونزم کے پرستار اس بات کے مدعی نہیں ہوتے کہ اُن کے آدرشوں کے اندر وہ صفات موجود ہیں جو خدا کو ماننے والا خدا کی طرف منسوب کرتا ہے بلکہ بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ وہ اپنے آدرش کے ساتھ ساتھ خدا کو بھی مانتے ہیں۔ تو پھر کس طرح سے سمجھا جائے کہ قرآن کے اس ارشاد کے مطابق کہ:

 

{یُحِبُّوْنَھُمْ کَحُبِّ اللّٰہِ} (البقرۃ:۱۶۵)

 

’’وہ اُن سے ایسی ہی محبت کرتے ہیں جیسی مومن خدا سے کرتا ہے‘‘۔

 

وہ اپنے آدرش کی طرف درحقیقت خدا کی صفات منسوب کرتے ہیں۔

 

نہم :  جب صحیح اور سچے آدرش کی محبت انسان کی فطرت ہے تو انبیاء کے آنے کی ضرورت کیا تھی۔ قدرت نے انسان کو اپنے حال پر کیوں نہیں چھوڑ دیا۔ تاکہ وہ خود بخود اپنی فطرت کو پا لے۔ عملِ ارتقاء میں نبوت کا باعث اور مقام کیا ہے  اور اگر نبوت ارتقاء کے لیے ضروری ہے تو ختم کیوں ہو جاتی ہے۔ وعلیٰ ہذا القیاس۔

 

جب تک ہم ان سوالات کا جواب مہیا نہ کریں فطرتِ انسانی کے متعلق قرآن کے نقطۂ نظر کی پوری تشریح نہیں ہو سکتی اورقرآن کا نقطۂ نظر حکماء کے نزدیک پوری طورح سے قابل فہم نہیں ہوتا۔

 

جواب

ان سوالات کا جواب جو درحقیقت قرآن کے اس نظریہ کے اندر ہی موجود ہے اور اُس کے مضمرات اور نتائج پر مشتمل ہے۔ ایک مسلسل تشریح کی صورت میں حسب ذیل ہے:

 

حقیقتِ کائنات

گذشتہ صفحات میں ایک مقام پر ہماری بحث کا حاصل یہ تھا کہ اس صدی کی علمی تحقیقات اس بات کی شہادت دے رہی ہیں کہ کائنات کی اصل اور آخری حقیقت ایک شعور (Consciousness)ہے اور ہمارا نتیجہ یہ تھا کہ ضروری ہے کہ یہ شعور خود شناس اور خود شعور ہو اور تمام جمالی اور جلالی صفات کا مالک ہو۔ حکماء کی اصطلاح میں اس قسم کے شعور کو خود شعوری(Self-Consciousness)کہا جاتا ہے۔ قرآن نے اسے اللہ اور الرحمن کہا ہے۔

 

خود شعوری زندگی ہے

خود شعوریٔ عالم کے تخلیقی کارنامے جو کائنات کی صورت میں ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں‘ بتا رہے ہیں کہ وہ فقط ایک شعور یا ایک قوت مدرکہ ہی نہیں بلکہ ایک قہرمان تخلیقی قوت ہے‘ جو قدرت مطلقہ کی مالک ہے جو حی و قیوم ہے اور خود بخود حیات اور زندگی ہے۔ چنانچہ اس خود شعوری کے بارہ میں قرآن کی تعلیم یہی ہے :

 

{اَللّٰہُ لَا اِلٰــہَ اِلاَّ ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ} (البقرۃ:۲۵۵)

 

’’اس کے سواکوئی معبود نہیں وہ زندہ اور قائم ہے۔‘‘

 

{ھُوَ اللّٰہُ الْخَالِقُ الْبَارِیُ الْمُصَوِّرُ لَـہُ الْاَسْمَائُ الْحُسْنٰی} (الحشر:۵۹)

 

’’وہ اللہ ہے خالق اور باری اور مصور ہے تمام اچھی صفات اسی کی ہیں۔‘‘

 

{ھُوَ الرَّزَّاقُ ذُوالْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُ (۵۸)} (الذّٰرٰیٰت)

 

’’وہ رازق ہے بڑی طاقت کا مالک ہے۔‘‘

 

ارتقاء نفخ روح کا نتیجہ ہے

یہی خود شعوری ہے جس نے کائنات کو پیدا کیا ہے جو اسے ارتقاء کی منزلوں سے گزار رہی ہے جس نے اپنے آپ کو ایک طویل ارتقائی عمل سے انسان کے قالب میں پھونک کر اسے خود شعور کر دیا ہے اور جو اس طرح سے جسد انسانی میں زیادہ سے زیادہ جلوہ گر ہو کر مسجود ملائک بنتی جا رہی ہے:

 

{فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَـہٗ سٰجِدِیْنَ(۲۹)} (الحجر)

 

’’جب میں اسے مکمل کر لوں اور اپنی روح اس میں پھونک دوں تو (اے فرشتو) اس کے سامنے سجدہ میں گر پڑنا۔‘‘

 

جب انسان کی خود شعوری اپنے کمال کو پہنچے گی تو فرشتوں کا سجدہ بھی مکمل ہو گا اور وہ پھونک بھی مکمل ہو گی۔ جس نے کائنات کے ارتقائی عمل کی صورت اختیار کی ہے اور جس سے خدا اپنی روح کو انسان کے قالب میں پھونک رہا ہے۔

 

خود شعوری کا خاصہ

جذبۂ حسن(Urge for Beauty)یا آدرش کی محبت خود شعوری کا خاصہ ہے اور خود شعوری جہاں ہو گی اس میں یہ خاصہ موجود ہو گا۔ اگر انسان کی خود شعوری آدرش سے محبت کرتی ہے تو کائنات کی خود شعوری بھی آدرش سے محبت کرتی ہے ۔ خدا کا آدرش انسانیت کاملہ ہے اور انسان کا آدرش خدا ہے۔

 

نفرت محبت کا ایک پہلو ہے

محبت کا دوسرا پہلو نفرت ہے۔ خود شعوری اپنے آدرش سے محبت کرتی ہے لیکن ان تمام چیزوں سے نفرت کرتی ہے جو اس کی محبت کے راستہ میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ کائنات کے ارتقاء کا ایک پہلو محبت اور تعمیر ہے اور دوسرا پہلو نفرت اور تخریب ہے۔ اور انسان اپنی زندگی میں آدرشوں کی جستجو کرتے ہوئے محبت اور نفرت اور تعمیر اور تخریب کے دونوں پہلوؤں کو ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ رکھتا ہے۔ ایک طرف سے اپنی محبت کی تکمیل کااہتمام کرتا ہے۔ اور دوسری طرف سے اپنی محبت کے راستہ سے رکاوٹوں کو دور کرتا ہے ۔ انسان اور خدا دونوں کی صورت میں نفرت محبت کے ماتحت اس کی خدمت اور اعانت کے لیے ظہور میں آتی ہے ۔ ورنہ خود شعوری کا اصلی اور بنیادی وصف محبت ہی ہے بلکہ خود شعوری کی جملہ صفات جلال و جمال کا سرچشمہ محبت ہی ہے۔

 

محبت موجب اظہارِ صفات ہے

قرآن حکیم نے اللہ تعالیٰ کے وصف محبت کو رحمت کا نام دیا ہے اور بتایا ہے کہ اس کا یہ وصف اس کی نفرت پر سبقت رکھتا ہے اور کائنات کی ہر چیز پر حاوی ہے:

 

اِنَّ رَحْمَتِیْ سَبَقَتْ عَلٰی غَضَبِیْ

 

’’میری رحمت میرے غضب پر سبقت رکھتی ہے‘‘۔

 

{وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ } (الاعراف:۱۵۶)

 

’’میری رحمت ہر چیز پر حاوی ہے‘‘۔

 

خدا کے کئی نام ایسے ہیں مثلاً الرحمن‘ الرحیم اور الودود جو براہِ راست رحمت اور محبت سے ماخوذ ہیں۔

 

حضورﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے تمام اسماء میں سے اللہ اور الرحمن زیادہ پسند ہیں۔ خدا نے بھی خود قرآن میں بار بار اپنے آپ کو الرحمن کہا ہے:

 

{اَلرَّحْمٰنُ(۱) عَلَّمَ الْقُرْاٰنُ(۲)} (الرحمن)

 

’’وہ رحمن ہے جس نے انسان کو قرآن سکھایا‘‘۔

 

{اَلرَّحْمٰنُ فَاسْئَلْ بِہٖ خَبِیْرًا} (الفرقان:۵۹)

 

’’رحمن کے بارہ میں کسی باخبر سے پوچھیں تو معلوم ہو کہ اس کی شان کیا ہے؟۔‘‘

 

خدا کی صفات کا عکس

صفات جلال و جمال خود شعوری کی محبت کی تکمیل کے لیے ایک دوسرے کی تائید کرتی ہیں چونکہ خود شعوری انسان کے اندر بھی ہے اس لیے محبت اور نفرت اور صفاتِ جلال و جمال انسان کے اندر بھی موجود ہیں اور یہ صفات ارتقاء کے عمل سے دن بدن زیادہ سے زیادہ نمودار اور آشکار ہوتی جا رہی ہیں اور انسان کی خود شعوری اپنی صفات کے لحاظ سے خدا کی خود شعوری کے قریب آتی جا رہی ہے ۔ تعلیمِ نبوت کی پیروی کا مقصد یہی ہے کہ ہم اختیار اور ارادہ سے ارتقاء کے اس مقصد کی تائید کریں۔ چنانچہ حضورﷺ کا ارشاد ہے:

 

((تخلقوا بِاخْلَاقِ اللّٰہِ))   (سنن النسائی)

 

’’اللہ کے اوصاف سے اپنے آپ کو متصف بناؤ‘‘۔

 

انسان کی خود شعوری گویا چھوٹے پیمانہ پر خدا کی خود شعوری کا عکس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا:

 

((اِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ اٰدَمَ عَلٰی صُوْرَتِہٖ))   (صحیح بخاری و مسلم)

 

’’بے شک اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے۔‘‘

 

اور یہی سبب ہے کہ خدا نے انسان کو اپنی معرفت کا مکلف بنایا ہے اور اسے اپنا خلیفہ قرار دیا ہے ۔ اگر ہمارے اندر خدا کی خود شعوری یا اس کی روح کا ایک عکس نہ ہوتا تو ہم خدا کو پہچان نہ سکتے بلکہ اس کی عبادت بھی نہ کر سکتے۔ خدا کو پہچاننے کے لیے یہ کافی ہے کہ انسان اپنے آپ کو پہچانے۔ اسی لیے صوفیاء کا قول ہے:

 

مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّـہٗ  (جامع الصغیر)

 

’’جس نے اپنے آپ کو پہچانا اس نے خدا کو پہچانا۔‘‘

 

اور خود خداوند تعالیٰ نے انسان کو ہدایت کی ہے کہ اس کا عرفان حاصل کرنے کے لیے جہاں تم کائنات کا مطالعہ کرو‘ وہاں اپنے آپ کو بھی آنکھیں کھول کر دیکھو۔ کیونکہ تمہاری خود شعوری یاتمہارے نفس کے اندر بھی معرفتِ حق کی راہنمائی کا سامان موجود ہے:

 

{وَفِی الْاَرْضِ اٰیَاتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَ(۲۰) وَفِیْ اَنْفُسِکُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ(۲۱)} (الذّٰریٰت)

 

’’اور خدا کی ہستی پر یقین کرنے والوں کے لیے زمین میں نشانات ہیں اور نفس انسانی میں بھی کیا تم نہیں دیکھتے؟‘‘

 

عمل ارتقاء کا دائرہ

ارتقاء کا عمل جس سے انسان کامل سے کامل تر ہوتا جا رہا ہے ایک ایسا عمل ہے جس سے ایک طرف خدا اپنے آدرش کو حاصل کر رہا ہے اور دوسری طرف انسان کیونکہ انسان کے کامل سے کامل تر ہونے کے معنی یہی ہیں کہ وہ اسی طرح سے بن جائے جس طرح خدا اسے بنانا چاہتا ہے یعنی اپنی فطرتی استعداد کے مطابق خدا کے اخلاق سے متخلق اور اس کے اوصاف سے متصف ہو جائے ۔ ارتقاء کے اس عمل سے خود شعوری کی دونوں طرفین ایک دوسرے کے قریب آ رہی ہیں اگر انسان خداکے قریب آ رہا ہے تو خدا بھی انسان کے قریب آ رہا ہے۔ گویا خود شعوری اپنے آپ کی کشش رکھتی ہے۔ اور دونوں اطراف سے اپنے آپ ہی کو چاہتی ہے اور اپنی ہی جستجو کر رہی ہے۔ رومی نے اپنی مثنوی کے ابتدائی اشعار میں اس مضمون کو ایک نہایت لطیف پیرایہ میں بیان کیا ہے۔ کائنات کا ارتقاء ایک دائرہ کی طرح جہاں سے شروع ہوتا ہے‘ وہیں ختم بھی ہوتا ہے۔ اس کی حرکت ایک ایسے تیر کی طرح ہے جو کمان سے چھوٹا ہے لیکن کمان ہی کی طرف واپس آ رہا ہے۔ اس کی ابتداء کائنات کی خود شعوری ہے اور اس کی انتہا بھی وہی ہے ۔ قرآن حکیم نے اس موضوع پر مختلف آیات میں روشنی ڈالی ہے:

 

{ھُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ} (الحدید:۳)

 

’’خدا کائنات کی ابتدا بھی ہے اور انتہا بھی‘‘۔

 

{وَاَنَّ اِلٰی رَبِّکَ الْمُنْتَھٰی (۴۲) } (النجم)

 

’’اور ارتقائے کائنات کی انتہا خدا ہے‘‘۔

 

{وَاِلَیْہِ یُرْجَعُ الْاَمْرُ کُلُّہٗ} (ھود:۱۲۳)

 

’’اور اس کی طرف سارے امور کا مرجع ہے‘‘۔

 

{وَاِلَی اللّٰہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرِ (۱۵۹)} (آل عمران)

 

’’سارے امور کا مرجع اللہ کی ذات ہے‘‘۔

 

{وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ(۴۱)} (الحج)

 

’’سب کاموں کا مقصود اللہ تعالیٰ ہے‘‘۔

 

{وَاِلَی اللّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ (۲۲)} (لقمٰن)

 

’’سب کاموں کی انتہا اللہ تعالیٰ ہے‘‘۔

 

مبداء کی طرف رجوع کا قانون

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف کائنات کا مجموعی ارتقاء اس بات پر موقوف ہے کہ وہ جہاں سے چلے وہیں پہنچ جائے بلکہ کائنات کی ہر چیز کا کمال اس بات پر منحصر ہے کہ وہ وہیں پہنچ جائے جہاں سے چلے۔ بجلی کی رَو ایک دائرہ بناتی ہے اور جہاں سے چلتی ہے وہیں پہنچ جاتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو اس کی قوت کوئی نتیجہ پیدا نہ کرتی اور آئن سٹائن ہمیں بتاتا ہے کہ روشنی کی کرنیں ایک خطِ مستقیم میں حرکت نہیں کرتیں بلکہ ہر روشنی کی کرن ایک بہت بڑا دائرہ بنا کر وہیں پہنچنا چاہتی ہے جہاں سے چلتی ہے۔ درخت بیج سے چلتا ہے اور بیج پر پہنچتا ہے۔ حیوان اپنے تخم سے آغاز کرتا ہے اور اپنے حیاتیاتی کمال پر پہنچ کر اپنا تخم پیدا کرتا ہے۔ کائنات خود شعوری سے چلی تھی اور خود شعوری پر ختم ہوتی ہے:

 

{ھُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ} (الحدید:۳)

 

’’وہ ابتدا میں بھی ہے اور انتہا پر بھی‘‘۔

 

لہٰذا ہم نہایت آسانی سے یقین کر سکتے ہیں کہ جب تک انسان اپنے کمال کو نہ پہنچے یہ کائنات فنا نہیں ہوگی۔

 

حسن و محبت کی دو طرفہ بے حجابی

خود شعوری انسان کی ہو یا خدا کی بیک وقت محبت بھی ہے اور حسن بھی ۔ جب وہ خود شعوری کی جستجو کر رہی ہوتی ہے تو وہ محبت ہوتی ہے اور جب خود شعوری اس کی جستجو کر رہی ہوتی ہے تو وہ حسن ہوتی ہے۔ اس کائنات کے ارتقاء میں جس کا حاصل اور جس سے مراد انسان کا ارتقاء ہے‘ ایک طرف سے خدا کا حسن اور دوسری طرف سے انسان کا حسن دن بدن زیادہ سے زیادہ بے حجاب ہوتا جا رہا ہے۔ نیز اسی عمل کی بدولت ایک طرف سے خدا کی محبت اور دوسری طرف سے انسان کی محبت دن بدن زیادہ سے زیادہ بے نقاب ہوتی جا رہی ہے۔

 

خدا کا جذبۂ محبت

قرآن کی متعدد آیات اس مضمون پر روشنی ڈالتی ہیں کہ انسانِ کامل خدا کا آدرش ہے اور خدا اس سے محبت رکھتا ہے اور اس کی جستجو کر رہا ہے:

 

{ھُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْکُمْ وَمَلٰٓئِکَتُـہٗ لِیُخْرِجَکُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ}

(الاحزاب:۴۳)

 

’’اللہ وہ ہے جو اپنے فرشتوں سمیت تم پر درود بھیجتا ہے تاکہ تم کو اندھیروں سے روشنی میں لائے ۔‘‘

 

{فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرْکُمْ}  (البقرۃ:۱۵۲)

 

’’میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا۔‘‘

 

{اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ} (البقرۃ:۲۵۷)

 

’’خدا ان لوگوں کا دوست ہے جو ایمان لائے ہیں یعنی خدا سے محبت کرتے ہیں وہ ان کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے۔‘‘

 

{قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ} (آل عمران:۳۱)

 

’’کہو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری تابعداری کرو۔ اللہ تم سے محبت کرے گا۔‘‘

 

ایک حدیث میں ہے کہ جب انسان میری طر ف ایک بالشت بھر آتا ہے تو میں اس کی طرف ایک ہاتھ آتا ہوں اور جب وہ میری طرف ایک ہاتھ آتا ہے تو میں اس کی طرف چار ہاتھ آتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چلتا ہوا آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑتا ہوا تا ہوں۔

 

حدیث کے الفاظ حسب ذیل ہیں:

 

یقول اللّٰہُ تَعَالٰی اَنَا عِنْدَ ظن عَبْدِیْ بِیْ وَاَنَا مَعَہٗ اِذَا ذَکَرَنِیْ فَاِن ذکرنی فی نفسہ ذکرتہ فی نفسی وان ذکرنی فی ملا ذکرتہ فی ملا خیر منہ وان تقرب الی شبرا تقربت الیہ ذراعا وان تقرب الی ذراعا تقربت الیہ باعا۔ وان اتانی یمشی اتیتہ‘ ھرولۃ حتی کنت یدہ التی یبطش بھا ورجلہ التی یمشی بھا وسمعہ الذی یسمع بہ وبصرہ الذی یبصرہ بہ

 

’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں بندے کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہوں جیسا کہ وہ میرے ساتھ گمان رکھتا ہے۔ اور جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے پاس ہوتا ہوں۔ اگر وہ میرا ذکر دل سے کرے تو میں اس کا ذکر اپنے دل میں کرتا ہوں اور اگر وہ میراذکر کسی مجلس میں کرے تو میں اس کا ذکر اس سے بہتر مجلس میں کرتا ہوں اور اگر وہ میری طرف ایک بالشت آئے تو میں اس کی طرف ایک ہاتھ آتا ہوں۔ اور اگر وہ میری طرف ایک ہاتھ آئے تو میں اُس کی طرف چار ہاتھ آتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چلتا ہوا آئے تو میں اس کی طرف دوڑتا ہوا آتا ہوں۔ یہاں تک کہ دونوں کا باہمی قرب ایسا ہو جاتا ہے کہ میں اس کا وہ ہاتھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور وہ پاؤں ہو جاتا ہے جس سے وہ چلتا ہے اور وہ کان ہو جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور وہ آنکھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے۔‘‘

 

خدا کا جذبۂ محبت ارتقاء کا باعث ہے

کائنات کی خود شعوری کو اپنے آدرش سے جو محبت ہے وہی طاقت ہے جو کائنات کی اوّلین پیدائش کا موجب ہوئی تھی‘ جو ماضی میں کائنات کو اس کے ارتقائی مدارج میں سے گزارتی رہی ہے اور جو اسے بالآخر ارتقاء کے نقطۂ کمال پر پہنچائے گی۔ یہی سبب ہے کہ ارتقاء کا ہر قدم خدا کی محبت ربوبیت اور رحمت کا ایک عظیم الشان مظاہرہ ہے ۔ ارتقاء کا مجموعی نتیجہ تعمیر اور ترقی ہے تخریب اور تنزل نہیں۔ محبت‘ ربوبیت اور رحمت کے بغیر کائنات ارتقاء کے راستہ پر ایک قدم بھی آگے نہ جا سکتی۔ یہ محبت بے مقصد نہیں بلکہ ایک مدعا رکھتی ہے اور وہ مدعا عملِ تخلیق میں آدرش کا حصول ہے۔ قرآن کی متعدد آیات اس بات کا اعلان کرتی ہیں کہ کائنات ایک مدعا اورمعنی رکھتی ہے:

 

{رَبَّـنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ(۱۹۱)} (آل عمران)

 

’’اے ہمارے پروردگار تو نے یہ کائنات بے مقصد نہیں بنائی لہٰذا اس مقصد کی رو سے ہم آگ کے حق دار نہ ہو جائیں ہمیں اس سے بچائیو۔‘‘

 

{خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ} (التغابن:۳)

 

’’اللہ نے زمین اور آسمان کو ایک سچے مقصد کے ماتحت پیدا کیا ہے‘‘۔

 

مقصد کائنات ہر چیز میں پوشیدہ ہے

کائنات کے مقصد اور مدعا سے دنیا کی ہر چیز حصہ لیتی ہے۔ کائنات کی ہر چیز کو وہی فطرت عطا کی گئی ہے جو کائنات کے مرکزی مقصد اور مدعا سے مطابقت رکھتی تھی۔ یہی سبب ہے کہ ڈریش (Driesch)کے تجربات نے اسے اس نتیجہ پر پہنچایا کہ جسم حیوانی کے اندر ایک پوشیدہ مقصد ایسا کام کر رہا ہے جو اسے اپنی ضروریات کے مطابق ڈھالتا اور بناتا ہے۔ خود شعوری کی یہی بامقصد محبت ہے جسے برگسان(Bergson) قوتِ حیات(Vital Force)کا نام دیتا ہے۔ اسی کو بعض دوسرے حکماء نے لائف فورس (Life Force)کہا ہے۔ انسانی مرحلہ میں قدم رکھنے کے بعد یہ قوت ایک لاشعوری نفسیاتی دباؤ کی صورت اختیار کرتی ہے جسے فرائڈ (Freud) لبیڈو (Libido) کا نام دیتا ہے اور جو درحقیقت انسانی خود شعوری کے جذبۂ حسن کا ایک نفسیاتی دباؤ ہے۔  گویا انسان کی محبت اپنے آدرش(خدا) کے لیے دراصل کائنات کی خود شعوری کی وہ محبت ہے جو وہ اپنے آدرش(انسانِ کامل) کے لیے محسوس کرتی ہے اور جو شروع سے ہی کائنات یعنی انسان کو ارتقاء کی مادی اور حیاتیاتی منازل سے گزارتی ہوئی اب نفسیاتی منزل پر پہنچ کر انسان کی خود شعوری کی صورت میں آزاد ہوئی ہے تاکہ براہِ راست اور شعوری طور پر Consciouslyاپنے آپ کی جستجو کرے۔ اب اس جذبہ کو پالینے کی وجہ سے انسان اپنی تعمیر اور تکمیل میں ‘جو خدا اور انسان دونوں کا مشترک مقصد ہے‘خدا کے ساتھ تعاون کرنے کے قابل ہو گیا ہے۔

 

کائنات میں تخریب تعمیر کی معاون ہے

کائنات کے اندر اس تعمیری جذبۂ محبت کی کارفرمائی کونہ سمجھنے کی وجہ سے ڈارون (Darwin)ارتقاء کے اسباب کا غلط تصور قائم کرتا ہے اور اسے قدرت کی تخریبی کارروائیوں کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔ اسے سمجھ میں نہیں آیا کہ کائنات کے ارتقا کے اندر اصلی اور بنیادی چیز تعمیر ہے تخریب نہیں اور جہاں تخریب ہے وہ تعمیر کے ایک پہلو کے طور پر اُس کے ماتحت اُس کی اعانت کے لیے وجود میں آئی ہے تاکہ تعمیر کے راہ کی رکاوٹیں دور ہو جائیں۔

 

محبت اور نفرت جذب و دفع کی قوتوں کی شکل میں

کائناتی خود شعوری کی محبت (جس کا دوسرا پہلو نفرت ہے) کی کارفرمائیوں کے نشانات ہمیں ارتقاء کے ایک ایک قدم پر آشکار نظر آتے ہیں۔ کیونکہ یہ محبت اور نفرت یا جمال و جلال کی صفات جذب(Attraction)اور دفع(Repulsion)کی قوتوں کی صورت اختیار کرتی ہیں اور اس صورت میں کائنات کے ارتقاء کے آغاز سے لے کر انتہا تک اپنا کام برابر کرتی رہتی ہیں۔ روشنی کی شعاعوں سے لے کر جدوجہد کرنے والے انسان تک کائنات کا ایک ایک ذرہ متحرک ہے اور اس حرکت کی وجہ یہی جذب اور دفع کی قوتیں ہیں کیونکہ حرکت کے معنی یہ ہیں کہ ایک مقام کو دفع کر کے دوسرے مقام کی طرف جذب کرنا۔ جوں جوں کائنات ارتقاء کے مدارج طے کرتی گئی ہے ان قوتوں کی صور ت ارتقاء کے تقاضوں کے مطابق بدلتی گئی ہے۔

 

مادی مرحلہ میں محبت اور نفرت کی حالتیں

ابتدائے آفرینش میں کائناتی شعاعوں(Cosmic Rays)کی حرکت کو چھوڑ کر جب ہم آگے بڑھیں تو یہ جذب و دفع کی قوتیں ہمیں الیکٹرانوں اور پروٹانوں میں جو برقی قوت کے مثبت اور منفی باروں(Charges)کے حامل ہیں ‘ کام کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ پھر مادی ارتقاء کے دوران میں مادہ کی حرکت کی تمام صورتیں کشش ثقل (Gravity)متضاد مقناطیسی قطبوں کی باہمی کشش قلماؤ (Crystallization) مختلف خواص کے نئے نئے عناصر کا ظہور غرضیکہ ہر ایک مادی قانون (Physical Law) ان ہی قوتوں کے عمل سے پیدا ہوا ہے۔ اور ان ہی قوتوں کے عمل کی ایک شکل ہے۔ حیاتیاتی مرحلۂ ارتقاء میں پہنچ کر یہ قوتیں جبلتوں کی صورت اختیار کرتی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ حیوان کی تمام جبلتیں یا محبت اور جذب سے تعلق رکھتی ہیں یا نفرت اور دفع سے متعلق ہیں حیوان کے تمام افعال جبلتوں سے پیدا ہوتے ہیں۔ اور ان تمام افعال کا حاصل یہ ہے کہ وہ ان چیزوں کی طرف جذب کا اظہار کرتا ہے جو اس کی زندگی اور نسل کو برقرار رکھنے میں ممدو معاون ہوتی ہیں۔

 

حیوانی مرحلہ میں محبت اور نفرت کی حالتیں

اور ان تمام چیزوں کو دفع کرتا ہے جو اس کی زندگی اور نسل کو برقرار رکھنے کے مقصد میں رکاوٹ پیدا کرنے والی ہوتی ہیں۔ مثلاً جبلت جنس(Sex)‘ جبلت تغذیہ (Feeding)‘ جبلت امومت(Maternal)‘ جبلت  جتماعی  (Gregarious)‘ جبلت انقیاد (Submission)‘ سب جذب یا محبت سے ماخوذ ہیں اور جبلت فرار (Flight)‘ جبلت حجاب(Concealment)‘ جبلت غضب (Pugnacity)‘ جبلت تفوق(Assertion)دفع یا نفرت سے ماخوذ ہیں۔ پہلی قسم کی جبلتوں میں خدا کی جمالی صفات کا اور دوسری قسم کی جبلتوں میں اس کی جلالی صفات کا مظاہرہ ہے۔ تاہم دونوں قسم کی جبلتوں کا مقصد ایک ہی ہے یعنی حیوان کی زندگی کا قیام۔ گویا یہاں بھی جلال جمال کی اعانت کرتا ہے اور اس کا محافظ اور نگہبان ہے۔ چونکہ مادی اور حیاتیاتی کائنات کے اندر (بالخصوص انسان کی ضروریات کے لحاظ سے کائنات کی تعمیر اور تخلیق کے اندر) خدا کی صفات کے نشانات ہیں اس لیے قرآن انسان کو دعوت دیتا ہے کہ وہ خدا کو پہچاننے کے لیے کائنات کا مطالعہ کرے۔

 

{وَفِی الْاَرْضِ اٰیَاتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَ(۲۰)} (الذّٰریٰت)

 

’’اور زمین میں خدا کی ہستی اور صفات پر ایمان لانے والوں کے لیے کئینشانات ہیں۔‘‘

 

اور ان لوگوں کو سراہتا ہے جو کائنات پر غور فکرکرتے ہیں:

 

{وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ} (آل عمران:۱۹۱)

 

’’اوروہ جو آسمان و زمین کی مخلوقات پر غور و فکر کرتے ہیں۔‘‘

 

کائنات پر غور و فکر درحقیقت خدا کے اسماء حسنی کا ذکرکرنے اور ان پر غور و فکر کرنے کے مترادف ہے لہٰذا عبادت کی ایک قسم ہے۔

 

انسانی مرحلہ میں محبت اور نفرت کی حالتیں

انسانی مرحلۂ ارتقاء پر پہنچ کر جذب و دفع کی قوتیں اصولِ اخلاق کی صورت اختیار کرتی ہیں۔ گویا حیاتیاتی سطح سے جہاں وہ جبلتوں کی شکل میں تھیں گزر کر نفسیاتی سطح پر آجاتی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ گو ہر آدرش کے اصول اخلاق الگ ہوتے ہیں۔ لیکن ہر آدرش کے اصول اخلاق یا محبت اور جذب سے تعلق رکھتے ہیں یا نفرت اور دفع سے۔ انسان کے تمام افعال اُس کے اخلاقی اصولوں سے پیدا ہوتے ہیں اور اس کے تمام افعال کا ماحصل یہ ہوتا ہے کہ وہ ان کاموں سے کشش رکھتا ہے جو اس کے آدرش کے لیے مفید اور مؤیّد ہوں اور ان کاموں سے نفرت کرتا ہے جو اُس کے آدرش کی راہ میں ایک رکاوٹ بن جائیں۔ ہر آدرش کے اصول اخلاق اتنے ہی بلند ہوتے ہیں جتنا کہ وہ آدرش جس سے وہ پیدا ہوتے ہیں۔ اگر آدرش نہایت ہی پست ہو تو یہ اخلاقی اصول نہایت ہی پست ہوں گے۔ تاہم یہ اصول جبلتوں کی طرح ایک دباؤ رکھتے ہیں لیکن یہ دباؤ حیاتیاتی نہیں ہوتا بلکہ نفسیاتی ہوتاہے اور اس کا منبع آدرش کی محبت ہوتی ہے کیونکہ ہر شخص جانتا ہے کہ اگر وہ اپنے آدرش کی ضروریات کے مطابق عمل نہ کرے گا تو وہ اپنے آدرش کو پا نہیں سکتا۔ لہٰذا آدرش کی محبت سے مجبور ہو کر وہ اس کے اصولوں پر عمل کرتا ہے۔ جذب سے تعلق رکھنے والے اصول اخلاق خدا کی صفات جمال سے اور دفع سے تعلق رکھنے والے اصول اخلاق خدا کی صفات جلال سے ماخوذ ہوتے ہیں لیکن مقصد دونوں کا ایک ہی ہوتا ہے جس طرح سے جمالی اور جلالی جبلتوں کا مقصد یہ تھا کہ جسم کی حفاظت اور تکمیل ہو اسی طرح سے جمالی اور جلالی اصولِ اخلاق کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آدرش کی حفاظت اور تکمیل ہو۔

 

کائنات کا ارتقا ء انسان کا ارتقاء ہے

شروع سے لے کر آخر تک ساری کائنات کا ارتقاء جس میں خود شعوری ٔ عالم اپنی صفات محبت و نفرت کا اظہار کرتی ہے‘ درحقیقت انسا ن کی خود شعوری کا ارتقاء ہے اور کائنات کی تکمیل اس وقت ہو گی جب انسان کی خود شعوری اپنے کمال کو پہنچے گی۔ اس ارتقاء سے کائنات کی خود شعوری زیادہ سے زیادہ اپنی تخلیق میں جلوہ گر ہوتی جا رہی ہے۔ مادہ کا ارتقاء اور حیوان کا ارتقاء انسان ہی کے ارتقاء کے مدارج اور مقامات ہیں۔ مادہ کو ارتقائی مدارج سے گزار کر مکمل کرنے اور اپنے تمام مادی قوانین کے سمیت وجود میں لانے سے خود شعوری کی غرض یہ تھی کہ مادہ اس قابل ہو جائے کہ وہ اپنے قوانین کی مدد سے حیوانی زندگی کے نمودار ہونے اور قائم رہنے کے لیے سازگار فضا مہیا کرے اور جب حیوانی زندگی وجود میں آئی تو حیوان اور اس کی جبلتوں کا ارتقاء شروع ہوا۔ شروع میں جسم حیوانی کے اندر صرف دو ہی جبلتیں تھیں ایک وہ جس کی وجہ سے وہ خود خوراک حاصل کرتا اور زندہ رہتا تھا اور دوسری وہ جس کی وجہ سے وہ اپنی نسل کو برقرار رکھتاتھا لیکن بعد میں جب ارتقاء سے نئی نئی انواع حیوانات وجود میں آئیں تو ان بنیادی جبلتوں کے ماتحت اور بہت سی جبلتیں شاخوں کی طرح پھوٹ نکلیں۔ اگرچہ ان کے وظائف کا مرکز پھر بھی یہی مقصد تھا کہ حیوان کی زندگی اور نسل برقرار رہے۔

 

جبلتوں کے ارتقاء کا مقصد

لیکن اب ان کی وجہ سے حیوان کی قوتوں میں اور اضافہ ہو گیا اور وہ اپنی دو بنیادی جبلتوں کو زیادہ پیچ دار طریق سے مطمئن کرنے لگا۔ ہر نئی جبلت جو وجود میں آئی خود شعوری کی کسی جمالی یا جلالی صفت سے ماخوذ تھی حیوان کے ارتقاء کے دوران میں کبھی کوئی ایسا جبلتی رجحانِ عمل وجود میں نہیں آیا اور نہ آ سکتا تھا جس کی اصل خود شعوری کے اسماء یا صفات کے اندر موجود نہ ہو۔ یہی صفات ہیں جو کائنات کے ارتقاء کی ممکنات ہیں۔ جبلتوں کی تفریح اور تنوع سے خود شعوری کا مقصد یہ تھا کہ وہ اپنے آپ کو یعنی اپنی صفات جمال و جلال کو ایک ایک کر کے مادہ کے اندر یعنی حیوان کے جسم کے اندر پوری طرح سے متمکن کرے اور اس طرح اپنی مکمل آزادی کے لیے ایک راستہ تیار کرے یہ راستہ حیوان کا نظامِ عصبی یا دماغ ہے جس کی ترقی سے جبلتوں کی ترقی ممکن ہوئی ہے ہم جانتے ہیں کہ حیوان کی ہر جبلت اُس کے دماغ کے اندر ایک جسمانی اور مادی مقام رکھتی ہے۔ لہٰذا ظاہر ہے کہ نئی جبلتوں کے وجود میں آنے سے دماغ کے اندر نئے مراکز (Centers)اور نئے خلیات(Cells)پیدا ہوئے جس سے دماغ کا ارتقاء ہوتا گیا۔یہاں تک کہ جب خود شعوری کی صفات کو حیوان کے دماغ میں ایک مادی مقام پوری طرح سے میسر آ گیا تو خود شعوری اپنے آپ میں آ گئی۔ ارتقاء کے اس نقطہ پر ایک طرف جبلتیں تکمیل کو پہنچیں اور دوسری طرف سے حیوان کادماغ مکمل ہوا۔ اس نقطہ پرحضرت انسان کا ظہور ہوا اور خود شعوری کو ایک ابتدائی آزادی اور خودشناسی حاصل ہوگئی۔

 

خود شعوری دماغ سے پیدا نہیں ہوئی

بعض حکماء نے غلطی سے یہ سمجھا ہے کہ خود شعوری مادہ کی پیداوار ہے اور دماغ پر موقوف ہے اور اس کا ثبوت یہ دیا جاتا ہے کہ جب دماغ کو کوئی چوٹ یا ضرر پہنچے تو خود شعوری اپنا کام ٹھیک طرح سے نہیں کرسکتی۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ دماغ خود شعوری نے اپنے لیے ایک منفذ یا معبر(Passage)کے طو رپر پید اکیا ہے ۔ جب یہ منفذ یا معبر پوری مقدار کو پہنچ گیا تو خود شعوری خودشناس اور خود شعور ہو گئی۔ اگر خود شعوری کو دماغ پر موقوف سمجھاجائے تو حافظہ اور لاشعور ایسے نفسیاتی مظاہر کی کوئی تشریح ممکن نہیں خود شعوری نہایت سرعت کے ساتھ اپنی ارتقائی منازل کو طے کرتی ہوئی ایک ابتداء سے ایک انتہا کی طرف جا رہی ہے۔ اسے ایک ایسی ندی کی طرح سمجھئے جو نہایت تیزی سے بہہ رہی ہو ۔ حیوان کا دماغ اس ندی کا راستہ ہے۔ ہم کسی ندی کے راستہ کو اُس کا عین نہیں سمجھ سکتے۔ اگرچہ دونوں کا تعلق ظاہر ہے۔

 

ندی اور اُس کے راستہ کی مثال

اگر ندی کے راستہ میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو جائے تو ندی کے بہاؤ میں فرق آنا ضروری ہے ۔ بے شک اگر دماغ کو ایک خفیف سا ضرر بھی پہنچ جائے تو خود شعوری کے وظائف میں خلل پڑ جاتا ہے لیکن اس کی وجہ یہ نہیں کہ خود شعوری دماغ کی پیداوار ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسی حالت میں خود شعوری کی ندی پوری آزادی سے نہیں بہہ سکتی اور راستہ تنگ ہونے کی وجہ سے اس کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک نیم مجنون یا احمق کا جذبۂ خود شعوری (Urge of self-consciousness) پوری طرح سے اپنا اظہار نہیں پا سکتا کیونکہ اس کا دماغ پوری طرح سے ترقی یافتہ نہیں ہوتا۔ندی کا پانی ندی کے راستہ کی پیداوار نہیں بلکہ اپنی علیحدہ ہستی رکھتا ہے اور اپنے راستہ کو پیدا کرتا ہے۔ اور اس مثال میں بھی ندی یعنی خود شعوری نہ صرف اپنے راستہ یعنی دماغ سے الگ اپنا وجود رکھتی ہے بلکہ اُسی نے اپنے بہاؤ کے ایک طویل تدریجی عمل سے اس راستہ کو اپنی ضروریات کے مطابق بنایا اور درست کیا ہے۔ یہی تدریجی عمل ہے جسے ہم ارتقائے  انواع کا نام دیتے ہیں۔

 

ارتقاء میں جدوجہد کا مقام

اس میں شک نہیں کہ ارتقائے حیوانات نے جو جو سمتیں اختیار کیں اُن میں حیوان کی اپنی جدوجہد کا بھی دخل ہے لیکن حیوان کی جدوجہد اس کی اصلی وجہ نہیں تھی۔ اصلی وجہ خود شعوری کی یہ ضرورت تھی کہ وہ اپنے آپ کا یعنی اپنی ممکنات اور صفات کا اظہار کرے۔ اُس نے حیوان کی جدوجہد کو اس اظہار کے لیے ایک ممدومعاون سبب کی حیثیت سے خود پیدا کیا۔ لیکن جہاں جہاں حیوان کی جدوجہد اس کی معاونت نہ کر سکتی تھی وہ ارتقاء کو آگے نہیں لے جا سکی۔ لامارک(Lamarck)کا یہ نقطۂ نظر کہ ارتقاء کا سبب حیوان کی جدوجہد ہے اگرچہ ڈارون کے موقف سے زیادہ صحیح ہے لیکن ساری حقیقت کوبیان نہیںکرتا۔

 

دھکیلنے والی قوت

حیوانات کے ارتقاء میں خود شعوری کی محبت ایک دھکیلنے والی قوت کا کام دیتی رہی ہے۔ حیوان کی جدوجہد جس حد تک کہ شعور اس کے اندر متمکن ہو جاتا تھا اور وہ ذی شعور ہو جاتا تھا‘ اس قوت کو زیادہ سے زیادہ بروئے کار لاتی تھی اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ شعور حیوان کے اندر اپنے تمکن اور اپنے مستقر و مقام کو زیادہ وسعت دے لیتا تھا اور حیوان کے جسم میں زیادہ ظہور پالیتا تھا۔ خود شعوری کا خاصہ ہے کہ جب اس کے راستہ میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو جائے اور اس کی ممکنات اس راستہ سے ظہور نہ پا سکتی ہوں تو وہ ایک بہتی ہوئی ندی کی طرح اپنی قوت کو اور بھی جمع کر کے اسے توڑ کر آگے بڑھ جاتی ہے۔

 

رکاوٹوں کی اہمیت

گویا رکاوٹ اسے اور بھی طاقت کے ساتھ عمل اور جدوجہد پر آمادہ کرتی ہے۔ اور اس طرح سے اس کی قوتوں کو آشکار اور نمودار کرتی ہے ۔ حیوانات کے حالات کے اختلافات اور لہٰذا ان کی جدوجہد کی نوعیت کے اختلافات ہی کی وجہ سے خود شعوری کے ارتقا کے مختلف راستوں پر قدم رکھا اور ان پر جہاں تک ممکن تھا‘ یعنی جب تک حیوان کی جدوجہد اس کی ممکنات کی ممدومعاون بنی رہی‘ آگے بڑھتی گئی۔ خود شعوری اپنی تخلیق میں اپنی ممکنات کا اظہار جس سمت میں ممکن ہو آزادانہ طور پر کرتی ہے اور یہ اظہار اُسی سمت میں ہوتا ہے جس سمت میں جاندارجدوجہد کر رہا ہو۔

 

رحمت کا بہانہ

جاندار کی جدوجہد خود شعوری کی رحمت اور ربوبیت کے لیے ایک بہانہ بنتی ہے جس سمت میں کوئی جاندار جدوجہد کر کے ترقی کرنا چاہے خود شعوری اسے اس کی صلاحیتوں کے مطابق ترقی کا موقعہ دیتی ہے۔ یہاں تک کہ جب اُس کی صلاحیتیں ختم ہو جاتی ہیں تو اس کی ترقی رک جاتی ہے۔

 

سعی ٔ  مشکور

خود شعوری ہر جاندار کی سعی عمل کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ اس کا پورا صلہ اسے دیتی ہے اور اس کی بناء پر اسے بڑھنے اور پھولنے کا موقع دیتی ہے لیکن اس کا کیا علاج کہ بعض وقت اس کی سعی ٔ‘عمل اسے دور تک لے جانے سے قاصر رہ جاتی ہے۔ خود شعوری کی اس عالمگیر شکر گزاری‘ حوصلہ افزائی اور ربوبیت اور رحمت سے بعض ایسی انواع حیوانات میں وجود میں آتی اور بڑھتی اور ترقی کرتی ہیں جن میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ ارتقاء کی حرکت کو متواتر جاری رکھ سکیں اور اُن کا ارتقاء ایک مقام پر جا کر ٹھہر جاتاہے۔

 

انتخاب و اختیار

لہٰذا خود شعوری کی ربوبیت اور تخلیق کے عمل میں اختیار اور انتخاب کا ایک پہلو خود بخود نمودار ہو جاتا ہے اور زندگی کا وہ حصہ جو ارتقاء کو جاری رکھنے کی صلاحیتیں رکھتا ہے خود بخود ممتاز ہو جاتا ہے گویاخود شعوری اپنی تمام گوناگوں مخلوقات میں سے صرف ایک کو چن لیتی ہے جس میں ترقی کرنے کی صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں اور جس کے ذریعہ سے اس کی صفات اور ممکنات کسی ایک جگہ ٹھہرنے کے بغیر متواتر آشکار ہوسکتی ہیں اور پھر اس مخلوق کو پروان چڑھاتی ہے اور ارتقاء کی منزلوںپر آگے لے جاتی ہے۔

 

انتخاب کی مثالیں

مثلاً خود شعوری نے لاکھوں نظام ہائے شمسی پید اکیے اور بعد میں صرف ایک کو چن لیا تاکہ اس کے اندر حضرتِ انسان کو ظہور میں لائے۔ اس کے بعد نئے نظام ہائے شمسی کا ظہور ختم ہو گیا۔ اس نے کروڑوں حیوانات کو پیدا کیا اور اُن میں سے ایک کو چن لیا جس میں صلاحیت تھی کہ نفسیاتی مرحلہ میں ارتقاء کو جاری رکھ سکے۔ یہ حیوان انسان تھا۔ لہٰذا انسان کے ظہور کے بعد نئے حیوانات کا ظہور منقطع ہو گیاہے۔ اسی طرح سے خود شعوری نے لاکھوںانبیاء پیدا کیے اور پھر ان میں سے ایک کو چن لیا جس کی تعلیم نوعِ بشر کی ارتقائی ضروریات کے لیے تاقیامت کفایت کرتی تھی اور اس پر نبوت کو ختم کر دیا۔ اسی طرح سے کئی قومیں پیدا کرنے کے بعد وہ صرف ایک قوم کو چنے گی جو اپنے آدرش اور اصولِ عمل کی وجہ سے اپنی خود شعوری کو ارتقاء کے نقطۂ کمال پر پہنچائے گی۔ یہ قوم وہی ہو گی جو خاتم الانبیاء کے آدرش اور اصول اخلاق کو اپنائے گی۔

 

امحاء اور اثباتِ زندگی

مخلوقات کا وہ حصہ جو ترقی سے محروم رہ جاتا ہے خود شعوری کے انتخاب سے نوازا نہیں جاتا۔ لہٰذا خود شعوری اسے چھوڑ دیتی ہے کہ یا وہ مٹ جائے اور یا مخلوقات کے اُس حصہ کے ماتحت اس کی خدمت اور اعانت کے لیے موجود رہے جو انتخاب اور اختیار سے نوازا گیا ہو۔ یہی مطلب ہے قرآن کی ان آیات کا:

 

{وَرَبُّکَ یَخْلُقُ مَا یَشَائُ وَیَخْتَارُ} (القصص:۶۸)

 

’’اور تیرا پرودگار جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور پھر جو چاہتا ہے چن لیتا ہے‘‘۔

 

{یَمْحُوا اللّٰہُ مَا یَشَائُ وَیُثْبِتُ وَعِنْدَہٗ اُمُّ الْکِتٰبِ} (الرعد:۳۹)

 

’’اور خدا جس چیز کو چاہتا ہے مٹاتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے قائم رکھتا ہے اور مقاصد تخلیق کا اصل نوشتہ اس کے پاس موجود ہے۔‘‘

 

کون سی ممکناتِ تخلیق اس کے مقاصد کے موافق ہیں اور کون سی غیر موافق۔ خود شعوری اس بات کا فیصلہ عمل تخلیق کے دوران میں کرتی ہے۔ خود شعوری اپنی فطرت کا یہ قانون ماضی میں انواعِ حیوانات کے ارتقاء پر برت چکی ہے اور اب اسے انسانی جماعتوں پر برت رہی ہے۔ خود شعوری کا یہ طریق کار انوکھا نہیں۔کیونکہ نفس انسانی میں جو معرفتِ حق کے لیے ہمارے پاس ایک کلید کے طور ہے۔ اس کی مثال موجود ہے ۔

 

نفس انسانی کی مثال

ہم بھی جب کوئی کام کرنا چاہتے ہیں تو اس کی مختلف صورتوں پر غور و فکر کرتے ہیں پھر اپنے تصور میں انہیں مکمل کرکے ان کے سارے پہلوؤں کو سامنے لاتے ہیں۔ اور پھر اُن میں سے اُس صورت کو چن لیتے ہیں جو ہمارے نزدیک سب سے زیادہ ہمارے مقاصد کی مؤید ہو۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہم کام کی بعض صورتوں کو ذہن میںلا کر ترک کر دیتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ انہیں معرضِ وجود میں لا کر ترک کرتا ہے کیونکہ خدا کے لیے عمل کی کسی صورت کو ذہن میں لانا ہی اسے پیداکردینا ہے۔

 

بعض لوگ ارتقاء کے دوران میں حیوانات کی بہت سی انواع کے مٹ جانے یا انسانی مرحلۂ ارتقاء میں بہت سی تہذیبوں اور قوموں کے تباہ ہوجانے کو قدرت کی سنگ دلی پر یا اس کے فقدان مدعا پر محمول کرتے ہیں۔ لیکن دراصل یہاں تخریب تخلیق کی ضروریات کے ماتحت عمل میں آتی ہے۔ اگر تخریب نہ ہو تو تخلیق بھی ممکن نہ ہو۔ چونکہ تخلیق نہایت ہی قیمتی ہے وہ ضرورت سے زیادہ تخریب کی تلافی کر دیتی ہے۔

 

مقصد کائنات سے تعاون اور ترقی

زندگی نے جہاں جہاں ارتقاء کیا وہ مزاحمت کے باوجود بلکہ مزاحمت کی وجہ سے ممکن ہوا جہاں مزاحمت پیدا ہوئی حیوان نے اسے توڑنے کی کوشش کی اور اس کوشش سے خود شعوری کی ممکنات کو اور آشکار کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حیوان ارتقاء کی راہ پر ایک قدم اور آگے بڑھ گیا۔ لیکن مزاحمت کو توڑنے کی کوشش صرف اسی صورت میں ارتقاء کا باعث ہوتی ہے جب وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر مقصد کائنات کے ساتھ ہم آہنگ ہوتی ہے۔ جب کوئی نوعِ حیوانات ایک ایسی سمت میں ترقی نہیں کر سکتی جو خود شعوری کے مقاصد کے مطابق ہو‘ دوسرے الفاظ میں جب وہ صحیح سمت میں ترقی نہیں کر سکتی توخواہ اپنی زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے وہ کوشش اور جدوجہد بدستور کرتی رہے لیکن اس کی ترقی ختم ہو جاتی ہے اور چونکہ ارتقاء کے لیے اس کی ضرورت باقی نہیں رہتی وہ رفتہ رفتہ مٹ جاتی ہے۔ اس طرح سے بہت سی انواع حیوانات جو وجود میں آئیں راہی ٔ ملک عدم ہو گئیں۔

 

ارتقاء کے حاصلات ارتقاء کے وسائل بنتے ہیں

جس حد تک کہ خود شعوری ارتقاء کے کسی خاص نقطہ پر اپنے آپ کو مادہ کے اندر زندہ حیوانات کے شعوریا ان جبلتوں کی صورت میں نمودار نہ کر سکی ہو وہ ارتقاء کے عمل کو جاری رکھنے کے لیے اپنی ہی قوت اور قدرت پر انحصار کرتی ہے اور جس حد تک کہ وہ اپنے آپ کو مادہ کے اندر زندہ حیوانات کے شعور یا اُن کی جبلتوں کی صورت میں نمودار کر سکی ہو وہ ان حیوانات کے شعور کو یعنی جبلتوں کے ماتحت ان کی جدوجہد کو اپنے مقاصد کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے کام میں لاتی ہے اور جس حد تک جاندار اپنی شعوری جدوجہد سے ان مقاصد کی مدد کرتا ہے وہ ترقی کرتا ہے اور خود شعوری کی ممکنات کو ظہور میں لاتا ہے اور اس کی مخفی قوتوں کو اپنے آپ میں نمودار کر تا ہے۔

 

حیوان اور انسان کا بنیادی امتیاز

حیوان اور انسان میں جس قدر امتیازات ہیں اُن کی وجہ یہ ہے کہ انسان خود شعور ہے اور حیوان خود شعور نہیں۔ حیوان فقط سوچتا‘ جانتا اور محسوس کرتا ہے لیکن انسان جب ایسا کرتا ہے تو چونکہ وہ خود شعور ہے وہ جانتا بھی ہے کہ وہ ایسا کر رہا ہے‘ اسی کی وجہ سے انسا ن کے اندر حسن کی کشش ہے اسی کی وجہ سے انسان آدرش سے محبت کرتا ہے اور جبلتوں کی مخالفت کر کے عزم اور ارادہ کا اظہار کرتا ہے۔ حیوان جبلتوں کے ماتحت کام کرتا ہے اور ایک نیم شعوری حالت میں رہتا ہے ۔ ہر جبلت اسے ایک خاص قسم کے فعل پر مجبور کرتی ہے اور حیوان کی فطرت میں کوئی چیز نہیں جس سے وہ جبلتوں کے جبر کی مخالفت کر سکے ۔ گو بعض وقت وہ ایک طاقتور جبلت کے لیے دوسری جبلت کی مخالفت کرتا ہے۔ لیکن چونکہ انسان میں خود شعوری آزاد ہو گئی ہے وہ آزادانہ طور پر اپنے آدرش سے محبت کرتی ہے اور اس آدرش کی خاطر جبلتوں کے جبر کی پرواہ نہیں کرتی۔

 

جذبۂ خود شعوری کی حکمرانی

خود شعوری کا جذبۂ حسن جو آدرش کی محبت کی صورت اختیار کرتا ہے اس قدر طاقتور ہوتا ہے کہ آخر کار انسان کی کوئی جبلتی خواہش اپنے علیحدہ حیاتیاتی دباؤ کے باوجود اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ جبلتیں جذبۂ خود شعوری پر حکمران نہیں بلکہ جذبۂ خود شعوری جبلتوں پر حکمران ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جذبۂ خود شعوری جبلتوں سے پیدا نہیں ہوا بلکہ جذبۂ خود شعوری نے اپنی اغراض کے لیے جبلتوں کو پیدا کیا ہے۔ ضروری تھا کہ جب انسان میں پہنچ کر خود شعوری آزاد ہوتی تو پھر بھی جبلتوں کو اپنی اغراض کے لیے کام میں لاتی اور اُن پر حکمران ہوتی۔ چنانچہ صورت حال یہی ہے کہ ہر جبلتی خواہش صرف اُسی حد تک اپنا اظہار پاتی ہے جس حد تک کہ آدرش کی محبت چاہتی ہو۔ یہی سبب  ہے کہ قرآن جبلتوں کے علیحدہ حیاتیاتی دباؤ کے باوجود ان کو انسان کے اعمال کی قوتِ محرکہ قرار نہیں دیتا اور صرف جذبۂ حسن کو اس کے اعمال کا سرچشمہ سمجھتا ہے۔

 

نصب العین بدلتا ہے شکست نہیں کھاتا

اس میں شک نہیں کہ کبھی کبھی ہمیں ایسا بھی نظرآتا ہے کہ ایک جبلتی خواہش نے آدرش کی محبت کو شکست دے دی ہے اور انسان نے آدرش کے تقاضوں کو نظرانداز کر کے اپنی کسی جبلت کو مطمئن کر لیا ہے۔ لیکن دراصل ایسی صورتوں میں ہوتا یہ ہے کہ انسان کا نصب العین ہی بدل جاتا ہے۔ جبلت بذاتِ خود جذبۂ حسن کے مقابلہ میں کمزور ہے۔ لیکن انسان کا جذبۂ حسن اکثر بہک جاتا ہے اور کبھی کبھی حرص و ہوا کو یا جبلتی خواہش کی لذت کو ہی اپنا آدرش سمجھ لیتا ہے۔

ایک فرد کو یہ صورت بالعموم اس وقت پیش آتی ہے جب وہ اپنے نصب العین کی محبت کی نشوونما سے غافل رہا ہو اور اس کی محبت ترقی کر کے کمال پر نہ پہنچی ہو۔ ایسی صورت میں یہ ہوتا ہے کہ جذبۂ حسن جبلتی خواہش کے ساتھ مل کر اسے بہت طاقتور بنا دیتا ہے اور ہم غلطی سے سمجھنے لگتے ہیں کہ جبلتی خواہش اس قدر قوی ہے کہ اس نے آدرش کو شکست دے دی ہے۔ حالانکہ دراصل یہاں ایک آدرش دوسرے آدرش کو شکست دیتاہے۔

 

ایک واضح ثبوت

افسوس ہے کہ حکمائے نفسیات نے اب تک اس حقیقت کی طرف توجہ نہیں دی اور نہ اس کے بیش بہا متضمنات کو سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ صرف انسان ہی ایک ایسا حیوان ہے جس میں جبلت کی قوت یا حد سے زیادہ قوی ہو جاتی ہے یا حد سے زیادہ کمزور ہوجاتی ہے۔

کبھی ہم کھانے پینے‘ انتقام لینے‘ دوسروں پر تفوق حاصل کرنے‘ جنسی لذتوں سے محظوظ ہونے اور اپنی اسی قسم کی دوسری جبلتی خواہشات کی پیروی کرنے میں حیوان سے بھی بہت آگے نکل جاتے ہیں اور کبھی ہم کھانے پینے سے انکار کر دیتے ہیں‘ دوسروں کی بالادستیوں کو معاف کر دیتے ہیں‘ دوسروں سے انکسار کے ساتھ پیش آتے ہیں اور جنسی خواہشات سے احتراز کرتے ہیں اور بعض وقت تو ہم اپنے جبلتی تقاضوں کو یہاں تک نظر انداز کر دیتے ہیں کہ قیامِ حیات کا مقصد بھی ہماری نظروں سے اوجھل ہو جاتاہے اور ہم بخوشی اپنی جان کو قربان کرنے کے لیے آمادہ ہو جاتے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ جبلت کا دباؤ انسان کے اعمال کا محرک نہیں اور اس کے اعمال کا محرک دراصل وہ جذبہ ہے جو کبھی جبلت کو حد سے زیادہ اہمیت دے دیتا ہے او ر کبھی اسے بالکل ہی غیر اہم بنا دیتا ہے۔ یہی جذبہ ہے جسے ہم قرآن کی راہنمائی میں جذبۂ حسن قرار دے رہے ہیں اور جو آدرش کی محبت کی صورت اختیار کرتا ہے۔ یہ جذبہ جب جبلت کی تائید کرتا ہے تو وہ ضرورت سے زیادہ طاقتور ہوجاتی ہے اور جب مخالفت کرتا ہے تو جبلت کا فعل رک جاتاہے۔

 

انسان حیوان کی سطح پر

جو شخص اپنی جبلتی خواہشات کو حد سے زیادہ اہمیت دیتا ہے وہ اپنے جذبۂ حسن کو جو انسان ہونے کی حیثیت سے اسے بطورایک قابلِ فخر امتیاز کے دیا گیا تھا اپنی حیوانی جبلتوں کے لیے وقف کر دیتا ہے اور حیوانات کی سطح پر آ جاتا ہے۔ گویا یہ جذبہ اُسے دیا ہی نہیں گیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ وہ حیوانات سے بھی بدتر ہو جاتا ہے کیونکہ وہ جسم کے حیاتیاتی تقاضوں کو ان کی لذت کی خاطر (جو اُن میں اس لیے رکھی گئی تھی کہ اس کی وجہ سے انسان قیامِ حیات کے فرائض سے غافل نہ ہونے پائے) غلط طور پر استعمال کرتا ہے اور حیوان کبھی ایسا نہیں کرتا۔ یہی سبب ہے کہ قرآن نے ایسے لوگوں کے لیے ارشاد فرمایا ہے:

 

{اُولٰٓـئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ}  (الاعراف:۱۷۰)

 

’’یہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ اُن سے بھی بدتر۔‘‘

 

جبلت کی خدائی

اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے قرآن کا ارشاد ہے کہ انہوں نے اپنی خواہش کو خدا بنا لیا ہے:

 

{اَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـهَهٗ هَوٰىهُ} (الفرقان:۴۳)

 

’’(اے پیغمبرؐ) کیا تو نے اس شخص پر غور کیا جس نے اپنی خواہش کو خدا بنا لیا ہے‘‘۔

 

جذبۂ حسن تمام کائنات میں سے صرف انسان کو دیا گیا ہے۔ اور انسان کائنات کے ارتقاء کا حاصل ہے اور اس کا ارتقائی مقام کائنات کی تمام چیزوں سے بلند تر ہے۔

 

انسان کا ظلم اور جہل

یہ جذبہ گویا ایک ایسی استعداد ہے جو ایک امانت کے طور پر انسان کو دی گئی ہے اور انسان مکلف بنایا گیا ہے کہ اسے ٹھیک طرح سے کام میں لائے۔ جب کبھی انسان معبود حقیقی کو ترک کر کے اور معبودوں کو اختیار کرتا ہے وہ ظلم اور جہل کی دو کمزوریوں کا اظہار کرتا ہے۔ ظلم تو اس لیے کہ اس نے اس جذبہ کو غلط طور پر استعمال کیاہے۔ حکماء نے ظلم کی تعریف اس طرح سے کی ہے :

 

الظلم وضع الشیٔ فی غیر محلہ

’’ظلم یہ ہے کہ ایک چیز کو اُس کے اصل مقام سے ہٹادیا جائے‘‘۔

 

اور جہل اس لیے کہ اس نے نہیں جانا کہ اس کا یہ جذبہ کیا چاہتا ہے اور کس محبوب سے مطمئن ہو سکتا ہے۔ قرآن نے ذیل کی آیت میں جس امانت کا ذکر کیا ہے وہ یہی جذبۂ حسن یا جذبۂ آدرش ہے:

 

{اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَہَا وَاَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْاِنْسَانُ ط اِنَّــہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًا(۷۲)} (الاحزاب)

 

’’ہم نے امانت کو آسمانوں‘  زمینوں اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے اسے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا انسان ظالم اور جاہل ہے۔‘‘

 

منزل کی دوری

جسد انسانی میں جلوہ گر ہو کر خود شعوری آزاد اور خود شعور تو ہوئی ہے لیکن اپنی آزادی اور خود شعوری کی انتہا پر نہیں پہنچی البتہ وہ اپنی اس آزادی کو اور آزاد ہونے کے لیے اور اپنی خود شعوری کو اور خود شعور ہونے کے لیے کام میں لا سکتی ہے۔ جبلتوں کی بندش سے آزاد ہو کر اسے صرف کسی محبوب کی جدائی کا احساس ہوا ہے جو اپنے آپ کو صرف اس قدر جاننے لگی ہے کہ وہ کسی ایسی چیز سے بچھڑی ہوئی ہے جو نہایت ہی عمدہ اور اعلیٰ ہے لیکن اکثر صورتوں میں وہ یہ نہیں جانتی کہ وہ چیز کیا ہے یا اگر بعض صورتوں میں جانتی ہے تو اس چیز کے حسن کا پورا پورا احساس نہیں رکھتی۔ جب تک خود شعوری کا یہ احساس بیدار نہیں ہوتا اور بیدار ہونے کے بعد اپنی پوری شدت اورقوت کو نہیں پہنچتا خود شعوری برابر ایسی رکاوٹوں سے گھری رہے گی جو اسے پوری طرح سے خودشناس ہونے  نہیں دیں گی‘ اس وقت تک نہ تو وہ پوری طرح سے آزاد ہو گی اور نہ پوری طرح سے خود شعور۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ سارے ارتقاء کا مقصد یہ ہے کہ خود شعوری اپنے مبداء کو پہنچے۔ ماضی کا ارتقاء اسے اپنے مبداء کے قریب لاتا رہا ہے اور مستقبل کا ارتقاء بھی اُسے اس کے قریب لاتا رہے گا۔ اس کا مبداء اس کا منتہا بھی ہے۔ خود شعوری اپنے مبداء کو اس وقت پہنچے گی جب وہ تمام مادی پردوں کو اتار کر پوری طرح سے اپنے آپ میں آ جائے گی اور اپنے اخلاق میں اپنے مبداء سے متخلق ہو جائے گی۔ خود شعوری کے اس مقام کا ذکر اس حدیث میں ہے جو صفحہ ۲۵۸ پر درج کی گئی ہے اور جو ان الفاظ سے شروع ہوتی ہے ۔ انا عند ظن عبدی بی۔

 

ارتقاء کا ذریعہ

اب سوال یہ ہے کہ خود شعوری اس کمال کو کیونکر پہنچے گی؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ آدرش کی محبت کے جذبہ کا زیادہ سے زیادہ اور بہتر سے بہتر اظہار کرنے سے۔ کیونکہ زندگی ہمیشہ اپنی آشکار قوتوں کے استعمال ہی سے اپنی مخفی قوتوں کو بروئے کار لاتی ہے ۔ آدرش کی محبت کا جذبہ درحقیقت کائناتی خود شعوری کا جذبۂ حسن ہے۔ یہی مادی دنیا میں مادی قوانین کی صورت میں اور حیوانات کی دنیا میں جبلتوں کی صورت میں ظاہر ہوا تھا۔ جوں جوں مادہ اپنے مادی قوانین کے دباؤ کے مطابق عمل کرتا گیا‘ مادی قوانین بھی ترقی کرتے گئے اور وہ خود بھی ترقی کرتا گیا۔ یہاں تک کہ اپنے کمال کو پہنچ گیا‘ جہاں اس میں سے حیوانی زندگی کا ظہور ہوا‘ اسی طرح سے  جوں جوں حیوان جبلتوں کے دباؤ کے مطابق عمل کرتا گیا اور اُن کا اظہار کرتا گیا‘ جبلتیں ترقی کرتی گئیں اور وہ خود بھی ترقی کرتا گیا‘ یہاں تک کہ اپنے کمال کو پہنچ گیا جہاں اُس میں سے انسان اور اس کے جذبۂ حسن کا ظہور ہوا جو آدرش اور اس کے اصول عمل کی محبت کی صورت اختیار کرتا ہے۔ اب جوں جوں انسان اس جذبہ کااظہار کرے گا اور اس کے دباؤ کے مطابق عمل کرے گا‘ اس  کاآدرش ترقی کر کے اپنے کمال کو پہنچے گا اس کے اصول عمل بھی اعلیٰ اور ارفع ہوتے جائیں گے اور انسان کی خود شعوری بھی ارتقاء کر کے اپنے کمال کو پہنچے گی۔

 

طَوعًا و کرہًا کا مطلب

جذبۂ حسن کی تشفی سے انسان کی خودشعوری کا ارتقاء دو طریق سے ہوتا ہے۔ ایک غیر شعوری طریق پر( unconsciously)جب انسان بے اختیار اور بے ارادہ ارتقاء کی راہ پر چلتا ہے کیونکہ انسان اپنے غیر شعوری افعال میں اپنے اختیار کو غلط طور پر استعمال کرتا ہے‘ پھر قدرت اُس کے ساتھ سختی کا برتاؤ کرتی ہے اور اسے ہانک کر اور گھیر کر صحیح راستہ کی  طرف لاتی ہے۔ ارتقاء کے اس طریق کو قرآن کی اصطلاح میں کرھًا کہا گیا ہے۔ دوسرے طریق شعور پر(consciously)جب انسان اپنی آزادی کو ٹھیک طرح سے کام میں لاتا ہے اوراپنے اختیار اور ارادہ سے ارتقاء کی منزلوں کی طرف آگے بڑھتا ہے‘ قرآن کی زبان میں اسے طوعًا کہا گیا ہے۔

 

دین اللہ سے گریز ممکن نہیں

ہر حالت میں انسان کے لیے گنجائش نہیں کہ ارتقاء کی اس راہ کو چھوڑ کر جو خدا نے مقرر کی ہے اور جو دین اللہ ہے‘ اِدھر یا اُدھر چلا جائے ۔ نوعِ بشر آخر کار اسی راہ کی طرف لوٹنے پر مجبور ہے۔ چنانچہ قرآن نے بالوضاحت ارشاد فرمایا ہے:

 

{اَفَغَیْرَ دِینِ اللّٰہِ یَبْغُوْنَ وَلَہٗ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّکَرْہًا وَّاِلَیْہِ یُرْجَعُوْنَ (۸۳) } (آل عمران)

 

’’کیا یہ لوگ اللہ کے دین کو (جو اُن کے جذبۂ حسن کی تکمیل کا شعوری طریق بتاتا ہے) چھوڑ کرکوئی اور دین تلاش کرتے ہیں حالانکہ (وہ اس دین سے)بھاگ نہیں سکتے۔ کائنات کی ہر چیز اللہ کی مطیع فرمان ہے۔ خواہ شعوری طور پر ہو یا غیر شعوری طور پر‘ نوعِ بشر ارتقاء کر کے بالآخر اسی کی طرف لوٹنے والی ہے (یہ وہ منزل ہے جس سے گریز نہیں)‘‘۔

 

آخر کار کائنات (یعنی انسان) کا ارتقاء شعوری او ر طوعی ارتقاء ہو گاکیونکہ آخر کار انسان کی خود شعوری اپنے آپ سے یعنی اپنی فطر ت سے آگاہ ہو کر اختیار اور ارادہ سے اپنی منزل مقصود کی طرف آگے بڑھے گی۔ چنانچہ قرآن کا ارشاد ہے:

 

{فَقَالَ لَھَا وَلِلْاِرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا اَوْ کَرْھًا قَالَتَا اَتَیْنَا طَائِعِیْنَ (۱۱)}

(حٰم السجدۃ)

 

’’ہم نے کائنات (زمین و آسمان) کو کہا کہ ہماری طرف آتے جاؤ۔ خواہ ارادہ اور اختیار سے اور خواہ بے اختیار۔ اُس نے کہا میں اختیار اور ارادہ سے آتی ہوں۔‘‘

 

ارتقائے کرھی کا راستہ

جب تک انسان کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس کا جذبۂ حسن درحقیقت کیا چاہتا ہے‘ کس آدرش سے مطمئن ہوتا ہے۔ اس کی خود شعوی کاارتقاء غیر شعوری طور پر ہوتا ہے۔ وہ ارتقاء کے راستہ پر چلتا نہیں بلکہ  باکراہ اس پر گھسیٹا جاتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ایک کافر بھی ذہنی طور پر جانتا ہے او ر اس کے حافظہ کے اندر یہ بات محفوظ ہوتی ہے کہ اس دنیا میں بعض لوگ ایسے ہیں جو خدا کو کائنات کا خالق مانتے ہیں اور اس کی طرف عمدہ اور قابل تعریف صفات بدرجۂ کمال منسوب کرتے ہیں۔ لیکن خدا کو ایک آدرش بنانے کے لیے یہ بات کفایت نہیں کرتی۔ ایک آدرش ایک تصور حسن ہے اور حسن کو جاننے کے معنی یہ ہیں کہ ہم خود اس کا ذاتی طور پر احساس کریں‘ نہ یہ کہ ہم جانیں کہ کوئی شخص اس کا ذاتی احساس کرتا ہے جس کا ہمیں براہِ راست کوئی علم نہیں ہو سکتا۔ جب تک کوئی شخص خدا کے اوصاف میں سے ایک یا چند اوصاف کے حسن کا ذاتی طور پر احساس نہ کرے‘ وہ خدا پر ایمان نہیں لا سکتا اس کی محبت کو اپنے دل میں جگہ نہیں د ے سکتا اور اسے اپنا تصور حسن یا اپنا آدرش نہیں بناسکتا۔

 

آدرش سے گریز ممکن نہیں

ایسی صورت میں بظاہر یہ خطرہ ہوتا ہے کہ اس کا جذبۂ حسن اظہار پانے سے رک جائے گا۔ لیکن بالعموم ایسا نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کا جذبۂ حسن ایک تیز رفتار ندی کی طرح ہے جسے روکنا ممکن نہیں۔ اگر وہ رک جائے تو جس طرح ندی کا پانی اپنی رکاوٹ کے سامنے ٹھہر کر فراہم ہونے لگتا ہے اور پھر آخر کار اپنے راستہ سے ہٹ کر بہنے لگتا ہے۔ اسی طرح سے اس کی رکی ہوئی قوت ایک ذہنی مرض کی حالت پیدا کرتی ہے جسے زمانۂ حال کے ماہرین نفسیات انسداد(Repression)کا نام دیتے ہیں۔ اسی طرح انسداد سے پریشانی‘ جنون‘ ہسٹیریا اور تمام ذہنی امراض پیدا ہوتے ہیں۔ چونکہ انسداد کی کیفیت ایک فرد کے لیے حد درجہ ناگوار ہوتی ہے لہٰذا وہ اس سے محفوظ رہنے کے لیے فوراً کسی تصور کو اپنا آدرش بنا کر اپنے جذبۂ حسن کا اظہار کرتا ہے۔ یعنی اپنے معلوم تصورات میں سے کسی نہ کسی تصور کی طرف حسن و کمال منسوب کر دیتا ہے اور اس کا یہ منسوب کرنا محض ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ایک فرضی کارروائی کی صورت میں نہیں ہوتا بلکہ اپنے جذبۂ حسن کے شدید دباؤ کی وجہ سے اسے پورا یقین ہوتا ہے کہ اس تصور میں فی الواقع حسن و کمال کی تمام صفات موجود ہیں گویا جذبۂ حسن کی ندی کا پانی رکاوٹ کی وجہ سے قدرتی طور پر اپنے راستہ سے ہٹ کر بہنے لگتا ہے۔ اس زمانہ کے ماہرین نفسیات نے انسداد(Repression)کے مظہر Phenomenonکو تسلیم کیا ہے لیکن افسوس ہے کہ انہوں نے اس کی علت کو نہیں سمجھا اور لہٰذا وہ اس کا مکمل اور مستقل علاج بھی پیدا نہیں کر سکے۔

 

معیارِ علم اور آدرش

وہ تصور جسے ایک انسان اپنے آدرش کے طور پر چنتا ہے اس کی نگاہوں میں اس کے تمام معلوم تصورات سے زیادہ حسین اور کامل الصفات ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ بات کہ کس تصور کو اپنا آدرش بنائے گا اس بات پر موقوف ہوتی ہے کہ اس کا علم کس معیار کا ہے اور اس کے علم کے دائرہ کے اندر کون کون سے تصورات موجود ہیں اور ان تصورات میں سے ہر ایک کے متعلق اس کے جذبات و احساسات کیا ہیں۔ چونکہ لوگوں کے علم کا معیار ایک نہیں ہوتا اس لیے ان کے آدرش مختلف ہوتے ہیں ۔ جب کسی شخص کے دائرہ علم میں کوئی ایسا تصور داخل ہو جائے جو صفات حسن و کمال میں اُس کے آدرش سے بہتر ہو یعنی جس کے بہترہونے کا وہ ذاتی احساس رکھتا ہو تو اسے اپنا پہلا آدرش ناقص نظر آنے لگتا ہے اور وہ اسے ترک کر کے اس نئے تصور کو اپنا آدرش بنا لیتا ہے۔

 

آدرشوں کا ارتقاء فرد میں

بچپن میں ایک فرد کا علم اس قدر محدود ہوتا ہے کہ وہ جبلتی خواہشات کی لذت کو ہی اپنا آدرش بنا لیتا ہے اور کھانے پینے کی لذیذ چیزوں سے الفت رکھتا ہے۔ یہی چیزیں اُس کے رنج اور راحت کا مرکز ہوتی ہیں اور اُس کے افعال اور اعمال کو پیدا کرتی ہیں ۔ پھر جب وہ ذرا ہوش سنبھالتا ہے تو وہ اپنے والدین کو اپنا آدرش بناتا ہے کیونکہ وہ اسے ہر قسم کی خوبیوں کا منبع نظر آتے ہیں۔ اس کے بعد اس پر ایک وقت ایسا آتا ہے جب وہ اپنے استادوں اور معلموں کو حسن و کمال کی انتہا سمجھنے لگتا ہے اور وہ اس کا آدرش بنتے ہیں۔ کچھ عرصہ کے بعد جب اس کا علم تجربہ اور عمراور ترقی کرجاتے ہیں تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ اُس کے استادوں کے اندر جس قدر خوبیاں موجود ہیں وہ حسن کے مجرد تصورات اور اوصاف کو اپنانے کی وجہ سے ہیں اور اس کے استاد بھی ان تصورات کو سراہتے ہیں اور پسند کرتے ہیں۔ لہٰذا اس کا آدرش نیکی ‘ سچائی‘ بھلائی‘ قوت‘ اثر ایسے مجرد اوصاف پر مشتمل ہوجاتا ہے پھر وہ دیکھتا رہتا ہے کہ کون سا تصور ایسا ہے جس میں یہ اوصاف بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ پہلے وہ ایک تصورکی طرف یہ اوصاف منسوب کرتا ہے اور اسے اپنا آدرش بناتا ہے لیکن اگر یہ آدرش صحیح نہ ہو تو تجربہ کے دوران میں اس کے نقائص اس پر آشکار ہو جاتے ہیں کیونکہ اس کا جذبۂ حسن جو اصل میں ہر آدرش کا معیار و محک ہے اس کے اوصاف و صفات کو پرکھتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اسے نظر آتا ہے کہ حسن کے اوصاف درحقیقت اس میں موجود نہیں۔ پھر وہ ایک اور آدرش کو اختیار کرتا ہے جس میں اس کے خیال میں پہلے آدرش کی خامیاں موجود نہیں ہوتیں۔ تاہم اگر یہ آدرش بھی غلط ہو تو کچھ عرصہ کے بعد اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ اُس کے اندر بعض اور خامیاں موجود ہیں جن کا علم اسے نہیں تھا۔ پھر وہ اس آدرش کو بھی ترک کر کے ایک اور آدرش کو اختیار کرتا ہے۔ وعلیٰ ہذا القیاس۔ تجربہ اور خطا (Trial and Error)کے اس طریق سے اس کا علم ترقی کرتا ہے اور اس کے آدرش مجموعی طور پر بہتر اور بلند تر ہوتے جاتے ہیں۔ گو یہ ضروری نہیں کہ ہر اگلا آدرش ہر حالت میں پہلے آدرش سے بہتر اور بلندتر ہو جب کوئی شخص ایک آدرش کو چھوڑ کر دوسرا آدرش اختیار کرتا ہے تو ایک آدرش کا معیار حسن میں بلند ہونا اور دوسرے کا گرنا بیک وقت عمل میں آتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تجربہ کے دوران میں پہلے آدرش کے نقائص عیاں ہو رہے ہوں تو نئے آدرش کی خوبیاں اس کے ساتھ ہی بیک وقت نمایاں ہونے لگتی ہیں اور جب کسی نئے آدرش کی خوبیاں نمایاں ہونے لگیں تو پہلے آدرش کے نقائص بھی اس کے ساتھ ہی آشکار ہونے لگتے ہیں۔

 

ہوبہوتصویر

ایک آدرش کی اہمیت یہ ہے وہ محض ایک ذہنی تصور ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے حسن اور قبح کے تمام عناصر اور اپنی تمام خوبیوں اور خامیوں کے سمیت انسان کی عملی بیرونی زندگی میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ ایک فرد یا جماعت کی خارجی زندگی کو دیکھ کر ہم اُس کے آدرش کی صفات کا ٹھیک ٹھیک اندازہ کر سکتے ہیں۔

فرد یا جماعت کی عملی زندگی اُس کے آدرش کی ایسی ہی ہوبہو تصویر ہوتی ہے جیسے کہ آئینے میں کسی چیز کا عکس ۔ جس حد تک کہ کوئی آدرش غلط ہو وہ اس حد تک غلط ‘ناتسلی بخش اور قابل نفرت حالات پیدا کر دیتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ کسی آدرش کے نقائص صرف اس وقت عیاں ہوتے ہیں جب وہ ہماری عملی زندگی کے اندرپوری طرح سے جلوہ گر ہوجاتا ہے اور ہم اس کے نقصانات کو برداشت کرنے لگ جاتے ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہ ایک مضمون جو ذہن میں ہو لکھنے سے زیادہ واضح ہو جاتا ہے اور پھر ہم اُس کے حسن و قبح پر آسانی سے نظر کر سکتے ہیں۔

جب تک آدرش کے نقص کا احساس انتہا پر نہ پہنچے ہم اس کو بدلنے کے لیے تیار نہیں ہوتے کیونکہ اس وقت تک ہماری قوتِ عمل اس غرض کے لیے پوری طرح سے مہیا نہیں ہوتی لیکن جب تک آدرش کے نقصانات انتہا پر نہ پہنچیں یہ احساس بھی انتہا کو نہیںپہنچتا۔ ان نقصانات سے بچنے کی صورت صرف یہ ہے کہ کوئی معلم نقطہ بحران سے پہلے ہی ہمیں کسی بہتر آدرش کے حسن سے آشنا کر دے۔

 

غیر شعوری احساسِ صفات

یہ درست ہے کہ بعض غلط آدرشوں کے ماننے والے زبانی اس بات کے مدعی نہیں ہوتے کہ ان کے آدرش کے اندر وہ صفات موجود ہیں جو خدا کو ماننے والا خدا کی طرف منسوب کرتا ہے لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ایک غلط آدرش کو ماننے والا اسے انتخاب کرتا ہے تو وہ اس میں تمام صفاتِ حسن کا احساس شعوری طور پر نہیں کرتا بلکہ ان میں سے صرف چند صفات کی موجودگی کا شعوری احساس کرتا ہے اور پھر اپنی جویائے حسن فطرت سے مجبور ہو کر اُس پر ایسا مر مٹتا ہے کہ باقی ماندہ صفات حسن کو غیر شعوری طور پر اس کی طرف منسوب کر کے ان کی موجودگی کا احساس کرنے لگتا ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس کے لیے اپنے غلط آدرش سے محبت کرنا اور اپنی زندگی اس کے لیے وقف کرنا ناممکن ہو جائے۔ مثلاً ایک سچا اور مخلص اشتراکی مادہ (Matter)کو اور ایک سچا مخلص وطن پرست اپنے وطن کو عملی طور پر خالق اور ربّ اور رحیم و کریم اور علیم و خبیر اور قدیر و عادل اور حی و قیوم مانتا ہے‘ گو وہ زبانی طور پر ان میں سے بعض صفات کو اپنے آدرش کی طرف منسوب نہ کر لے اور گو وہ یہ نہ جانتا ہو کہ وہ دل ہی دل میں اُس کی طرف یہ صفات منسوب کر رہا ہے ۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے ناقص آدرش کی خدمت اور اطاعت یعنی اس کی اُن صفات کی خدمت اوراطاعت جن کو وہ اس کی طرف شعوری طور پر منسوب کرتا ہے ایک ایسے طریق سے کرتا ہے جو ان صفات کے ماننے کے بغیر ممکن نہیں۔ جس حد تک اشتراکیت یا وطنیت کا ایک پرستار اپنے آدرش کے اندر یہ صفات نہیں مانتا اُس حد تک وہ ایک سچا اور مخلص اشتراکی یا وطن پرست نہیں ہو سکتا۔

 

شعوری اورغیر شعوری علم

شعوری اور لاشعوری علم کی تقسیم زمانۂ حال کی تحقیق کا نتیجہ ہے ۔ بظاہر یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ انسان کے علم کا کوئی حصہ ایسا بھی ہو جس سے وہ وقف نہ ہو لیکن اس کے باوجود نفس انسانی کے تجزیہ نے ثابت کر دیا ہے کہ انسان بعض وقت بلکہ اکثر اوقات ایسے احساسات کے ماتحت کام کرتا ہے جن سے وہ واقف نہیں ہوتا۔ یہ احساسات اسے ایک خاص طریق سے عمل کرنے پر مجبور کرتے رہتے ہیں ۔ لیکن شعوری طور پر وہ ان احساسات کی توجیہہ کسی اور طریق سے کرتا ہے کیونکہ اسے معلوم نہیں ہوتا کہ وہ ان کے اثر کے ماتحت ہے۔

 

غلط آدرش کی ایک خصوصیت

ہر غلط آدرش کو ماننے والا حسن حقیقی کی ایک صفت کو یا چند صفات کو حسن حقیقی کا کل یا عین سمجھ لیتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ غلط آدرش ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اور ہر آدرش کے اصولِ عمل یا قوانینِ اخلاق الگ ہوتے ہیں۔ غلط آدرشوں کے ماننے والوں کی مثال کہاوت کے ان اندھوں کی طرح ہے جن میں سے ہر ایک نے ہاتھی کے ایک عضو کو چھو کر اسے پورا ہاتھی فرض کر لیا تھا۔

 

فطرت کے ابدی تقاضے

مومن اور کافرمیں فرق یہ نہیں کہ کافر کے نزدیک خدا کا نام کچھ اور ہے اور مومن کے نزدیک کچھ اوریا کافر عبادت نہیں کرتا اور مومن عبادت کرتا ہے یا کافر اصولِ اخلاق کی پابندی نہیں اور مومن کرتا ہے۔ بلکہ دونوں کسی نہ کسی خدا کو مانتے ہیں دونوں اپنے خدا کی طرف صفاتِ حسن کو منسوب کرتے ہیں وہ صفات جن کی تمنا اُن کی فطرت میں رکھی گئی ہے ۔ دونوں اپنے اپنے خدا کی ایسی عبادت کرتے ہیں جن کا وہ تقاضا کرتا ہے اور دونوں اپنے اپنے خدا کے مقرر کیے ہوئے اصولِ اخلاق پر عمل کرتے ہیں کیونکہ یہ سب انسان کی فطرت کے ابدی تقاضے ہیں جن سے انحراف نہ ایک مومن کر سکتا ہے اور نہ ایک کافر۔

 

مومن اور کافر کا فرق

مومن اور کافر میں فرق یہ ہے کہ مومن اس بات کا شعوری احساس رکھتا ہے کہ اُس کے آدرش کے اندر حسن حقیقی کی تمام صفات بدرجۂ اتم موجود ہیں اور کافر اپنے آدرش کی طرف اکثر صفاتِ حسن کو غیر شعوری طو رپر منسوب کرتا ہے اور لہٰذا ان صفات کے تقاضوں کو نہیں سمجھتا اور ان کواپنی عملی شعوری زندگی میں نظرانداز کرتا ہے۔ اس کی عملی زندگی کی جدوجہد صرف ان صفاتِ حسن کے اظہار تک محدود رہتی ہے جو وہ اپنے آدرش کی طرف شعوری طور پر منسوب کرتا ہے۔ اگرچہ یہ صحیح ہے کہ اگر وہ اپنے آدرش کی طرف باقی صفاتِ حسن غیر شعوری طور پر منسوب نہ کرے تواس کی یہ جدوجہد بھی ممکن نہ ہو۔

 

غلط آدرش کے عملی نتائج

تاہم اس جدوجہد کا مدعا غیر شعوری طور پر منسوب کی ہوئی صفات کا اظہار نہیں ہوتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جن صفات کو وہ شعوری طور پر اپنے آدرش کی طرف منسوب کر رہا ہوتا ہے اُن کے تقاضوں کو بھی اپنی عملی زندگی میں کامیابی کے ساتھ جلوہ گر نہیں کر سکتا کیونکہ حسن کی کسی ایک صفت کا کامیاب اور مکمل اظہار دوسری صفاتِ حسن کے اظہار کے ساتھ ساتھ ہی ممکن ہو سکتا ہے اور اُن سے الگ ممکن نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا اس کا شعوری احساسِ صفات بھی غلط ہوتا ہے اور لاشعوری احساسِ صفات بھی یعنی اس کے آدرش میں نہ وہ صفات ہوتی ہیں جن کو وہ شعوری طور پر اس کی طرف منسوب کرتا ہے اور نہ وہ ہوتی ہیں جن کو وہ اس کی طرف غیر شعوری طور پر منسوب کرتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی ساری زندگی غلط ہو جاتی ہے اور وہ اس کے شدید نقصانات سے دوچار ہونے لگتا ہے۔ مثلاً اس کے اخلاق بگڑ جاتے ہیں۔ وہ قبائلی یا قومی جنگوں کے ایک غیر متناہی سلسلہ میں پھنس جاتا ہے بعض لوگ دولت یا اقتدار کی غیر مساوی تقسیم کی وجہ سے بھوک‘ ظلم یا ذلت کا شکار ہونے لگتے ہیں پھر اُسے سمجھ میں آتا ہے کہ وہ اس طرزِ زندگی کو جاری نہیںرکھ سکتا اور وہ ایک غلطی میںمبتلا تھا اور اس کا آدرش جس کو اُس نے کمالِ حسن سمجھا ہوا تھا دراصل ناقص تھا۔نہ صرف یہ کہ اُس میں بعض صفاتِ حسن جن سے وہ پہلے ناآشنا تھا موجود نہیں تھا بلکہ جن صفات کو وہ موجود سمجھتا تھا ۔

 

ایک سراب

وہ بھی ایک سراب سے زیادہ حقیقت نہ رکھتی تھیں اور دراصل اس کا آدرش حسن کی ہر صفت سے عاری تھا لہٰذا وہ اس آدرش کو چھوڑ کر ایک نیا آدرش اختیار کرتا ہے لیکن اگر یہ آدرش بھی صحیح نہ ہو تو اس کے اندرونی نقائص اس کی زندگی کو ایک اور غلط راستہ پر لے جاتے ہیں‘ یہاں تک کہ اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہلاک ہونے کے بغیر آگے نہیں جا سکتا اور وہ آدرش کو بدلنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے ۔ تجربہ اور خطا کے اس عمل سے نجات اس وقت ملتی ہے جب انسان صحیح آدرش کو اختیار کر لیتا ہے۔ یہ ارتقاء کا غیر شعوری طریق ہے جسے قرآن نے ارتقاء باکراہ کا نام دیا ہے۔

 

اب تک ہم نے فرض کر رکھا تھا کہ گویا ہر آدرش ایک فرد کا آدرش ہوتا ہے۔ لیکن دراصل ایک آدرش کو ماننے والے اشخاص اپنے آدرش کی محبت کی وجہ سے مل کر رہنے اور ایک جماعت بنانے کے لیے مجبور ہوتے ہیں ۔اس لیے آخرکار ہر آدرش ایک جماعت کا آدرش ہوتا ہے۔

 

جماعتی زندگی کی بنیاد

ہر انسانی جماعت ایک آدرش کے ماتحت وجود میں آتی ہے اور ہر آدرش لازماً ایک جماعت پیدا کرتا ہے لہٰذا نہ تو ہم جماعت سے الگ کسی آدرش کا تصور کر سکتے ہیں اور نہ ہی آدرش سے الگ کسی جماعت کا تصور کر سکتے ہیں۔ ہر جماعت اپنے آپ کو قائم رکھنے کے لیے خود بخود ایک تنظیم پیدا کرلیتی ہے اور ایک حکومت یا ریاست کی شکل میں آجاتی ہے۔ جب آدرش کی محبت ترقی کر جائے تو جماعت کی قوت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور جب کم ہو جائے تو اُسی نسبت سے جماعت کی قوت مضمحل ہو جاتی ہے۔ ایک منظم جماعت یا ریاست کی سرگرمیاں (مثلاً اُس کا نظامِ حکومت‘ نظامِ تعلیم‘ نظامِ قانون‘ نظامِ اقتصادیات و معاشیات ‘ رسوم و رواج‘ صلح اور جنگ کی حکمت عملی وغیرہ) تمام کی تمام آدرش کے ماتحت پیدا ہوتی ہیں اور اس کی وجہ بالکل ظاہر ہے کہ جس طرح سے ایک آدرش ایک فرد کے تمام اعمال کا سرچشمہ ہوتا ہے اُسی طرح سے وہ اس کے ماننے والے بہت سے افراد کی ایک متحد اور منظم جماعت کے تمام اعمال کا بھی سرچشمہ ہوتا ہے۔

 

آدرش کی مدتِ حیات

فرد کی عمر ختم ہو جاتی ہے لیکن جماعت باقی رہتی ہے ایک جماعت کے افراد اپنے آدرش کو اپنے آباء سے وراثتاً حاصل کرتے ہیں اس لیے ایک غلط آدرش کی زندگی بھی اکثر بہت لمبی ہوتی ہے افراد آتے اور جاتے رہتے ہیں لیکن جماعت آدرش کے ماتحت اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھتی ہے اور اس کی شان و شوکت میں اضافہ کرتی رہتی ہے ۔ وہ ایک نئی تہذیب اور نئی ثقافت کی داغ بیل ڈالتی ہے اور اسے کمال پر پہنچاتی ہے۔

 

عارضی ترقی اور آخری موت

تاہم ایک غلط آدرش کو ماننے والی قوم پر کبھی نہ کبھی ایسا وقت ضرور آتا ہے خواہ یہ وقت کئی صدیوں کے بعد آئے جب اس کی آنکھوں سے پردہ ہٹ جاتا ہے اور وہ اپنے آدرش کی خامیوں سے آگاہ ہو کر اُس سے الگ ہونے لگتی ہے۔کشفِ غطاء کے اس تاریخی عمل کے دوران میں اس کی قوتِ عمل میں کمی واقع ہوتی جاتی ہے اور اس پر انحطاط اور زوال آتا جاتا ہے‘ یہاں تک کہ وہ بالکل فنا ہو جاتی ہے ۔ غلط آدرشوں کے ماتحت عارضی طور پر ترقی کرنے والی قوموں کی آخری موت کے بارہ میں قرآن کا ارشاد ہے:

 

{لِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ فَاِذَا جَآئَ اَجَلُھُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَۃً وَّلاَ یَسْتَقْدِمُوْنَ(۳۴)} (الاعراف)

 

’’ہر قوم کے لیے ایک معیاد ہے جب اس کی معیاد آ جاتی ہے تو وہ ایک لمحہ کے لیے بھی آگے یا پیچھے نہیں ہو سکتی۔‘‘

 

ذہنی انقلاب

اگر ایک قوم انحطاط اور زوال کی راہ پر چل نکلی ہو اور چاہے کہ وہ پھر عروج کی طرف مائل ہوتو اُس کے لیے صرف ایک ہی طریق ہے کہ وہ اپنے غلط آدرش کو ترک کر کے صحیح آدرش کی طرف آئے۔ پھر ایسا ہو گا کہ زندہ اور قائم رہنے والے آدرش کے ساتھ وابستہ ہو کر وہ زندہ اور قائم رہے گی۔ جب تک قوم پر اس قسم کا ذہنی انقلاب نہ آئے اس کے خارجی حالات پر ہزار کوششوں کے باوجود بھی کوئی انقلاب پیدا نہیں کیا جا سکتا ہے:

 

{اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ}  (الرعد:۱۱)

 

’’خدا کسی قوم کے خارجی حالات کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنی ذہنی اور نفسی حالات کو نہ بدلیں۔‘‘

 

رائیگاں اعمال

لیکن جب ایک قوم اپنے آدرش کو بدلتی ہے تو اس قلبِ ذہنیت میں اپنے اُن افراد کو شامل نہیں کر سکتی جو غلط اعتقاد پر مر چکے ہیں اور خداوند تعالیٰ ایک ایسے آدرش کی جستجو کے لیے کوئی اجر مرتب نہیں کرتا جسے فرد اگر زیادہ علم یا واقفیت کا مالک ہوتا تو اسے خود بے ہودہ سمجھ کردنیا میں ہی ترک کر دیتا لہٰذا اس زندگی کے بعد اس کے اعمال اُس کے لیے کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کرتے۔

 

{مَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ اَعْمَالُهُمْ كَرَمَادِۨ اشْـتَدَّتْ بِهِ الرِّيْحُ فِيْ يَوْمٍ عَاصِفٍ   ۭ لَا يَقْدِرُوْنَ مِمَّا كَسَبُوْا عَلٰي شَيْءٍ  ط} (ابراھیم:۱۸)

 

’’کافروں کے اعمال راکھ کی طرح ہیں جس پر آندھی کے روز زور کی ہوا چلے وہ اپنے کمائے ہوئے اعمال میں سے کسی چیز پر قادر نہیں ہوتے۔‘‘

 

خطرناک دشمن

ہر وہ قوم جوایک غلط آدرش کو اختیار کرتی ہے ایک خطرناک دشمن کو اپنا معبود بناتی ہے صدیوں تک اس کی خدمت اور اطاعت کرتی ہے اور اس کے لیے بڑی بڑی مصیبتیں جھیلتی ہے اور بڑی بڑی قربانیاں کرتی ہے لیکن وہ دشمن اس کے اخلاق کو بگاڑتا ہے‘ اس کی زندگی کو کٹھن اور دشوار بناتا ہے‘ اسے جنگ و جدال اور قتل و غارت کی آگ میں دھکیلتا ہے اور بالآخر اس کی ہر چیز اس سے چھین کر اس سے الگ ہو جاتا ہے اور اسے موت کی نیند سونے کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ وہ قوم سنبھل کر پھر اٹھتی ہے اور پھر ایک ایسے ہی دشمن کو اپنا معبود بنا کر پوجنے لگتی ہے اور آخر کار اس کی بے وفائی سے بھی ایسا دکھ اٹھاتی ہے۔

 

راہِ بے منزل

غیر شعوری ارتقاء یا ارتقاء باکراہ کا یہ راستہ ‘جو تجربہ اور خطا کے عمل سے طے ہوتا ہے‘ نہایت ہی طویل‘ خطرناک ‘ تلخ اور صبر آزما ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ غلط آدرشوں کی تعداد کی کوئی حد معین نہیں کی جا سکتی۔ اور لہٰذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کوئی قوم صحیح‘ سچے اور پائیدار آدرش تک کب پہنچے گی بلکہ اس راہ سے ارتقاء کی رفتار اس قدر دھیمی ہے کہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ کبھی کوئی قوم تجربہ اور خطا سے اس قدر خود شعور ہو جائے کہ سچے اور کامل آدرش کو خود بخود پا لے۔ پھر چونکہ بہت سے غلط آدرش بیک وقت موجود ہو سکتے ہیں ‘ نوعِ انسانی گروہوں میں بٹ جاتی ہے اور چونکہ ہر آدرش کمالات کا ایک تصور ہوتا ہے اور اپنے کمالات کو ظہور میں لانا چاہتا ہے جو صرف دوسرے آدرشوں کی مکمل بربادی کے بعد ہی ممکن ہو سکتا ہے۔

 

خون ریزی

لہٰذا ہر آدرش دوسرے آدرشوں کا بالقوہ دشمن ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ایک ایسی جنگ میں مصروف رہتا ہے جو کبھی آشکار ہوتی ہے اور کبھی پنہاں لیکن جو ہمیشہ ہمیشہ جاری رہتی ہے۔ اس صورت حال کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قومیں ایک دوسرے کا خون بہاتی ہیں۔ عالمگیر جنگوں کا سلسلہ جو اس وقت شروع ہے اس کی بنیاد یہی حقیقت ہے۔ اس طرح سے ہر غلط آدرش نہ صرف اپنے اندرونی نقائص کے عمل کی وجہ سے بلکہ بیرونی دشمنوں کی ضربات کی وجہ سے شکستہ ہو جانے کے لیے مہیا ہوتا ہے۔

 

ہمت شکن مصیبتیں

لہٰذا اس سے پہلے کہ ایک قوم کو اپنے غلط آدرش کے نقائص معلوم ہوں اسے نہایت ہی تلخ تجربات اور خوفناک مصائب اور آلام میں سے گزرنا پڑتا ہے اور نئے آدرش کو اپنانے کے لیے توافق اور تطبیقadjustmentکے ایک تکلیف دہ عمل کو اختیار کرنا پڑتا ہے اور پھر ہو سکتا ہے کہ ایک قوم ان نقائص کو معلوم کرنے کے بعد بھی ایک غلط آدرش ہی کو اختیار کر لے اور یہ تمام تکالیف اور مصائب و آلام بے کار و بے سود ثابت ہوں۔

 

خدا کا مقصد

تجربہ اور خطا کے اس عمل کے اندر قدرت نے جو مصائب پنہاں رکھی ہیں ان کی غرض یہ نہیں کہ قومیں خود بخود صحیح آدرش کو معلوم کریں بلکہ یہ ہے کہ ارتقائے طوعی کے اس راستہ کی طرف جس کی راہنمائی قدرت نے خود کر دی ہے یعنی صحیح آدرش کی اس تعلیم کی طرف‘ جو قدرت نے نبوت کے ذریعہ سے خود بہم پہنچا دی ہے‘ توجہ کریں اور لوٹیں۔ تاہم جس طرح حیوانی مرحلہ ارتقاء میں خود شعوری ہر ایسے جاندار کو اپنی ربوبیت اور رحمت سے بہرہ ور کر کے بحد امکان پر وان چڑھاتی رہی ہے جو اپنی جدوجہد  سے زندہ رہنے اور ترقی کرنے کی خواہش کا عملی ثبوت بہم پہنچاتا رہا ہے۔ اسی طرح سے انسانی مرحلۂ ارتقاء میں خودشعوری ہر غلط آدرش کی پرستار جماعت کو بحد امکان ترقی کرنے اور بڑھنے اور پھولنے کا موقع دیتی ہے۔

 

غلط آدرش کی ربوبیت اور امانت

اور اس کی ترقی صرف اس وقت روکتی ہے جب یہ آشکار ہو جاتا ہے کہ اس کی سعی ٔ عمل اگرجاری رہے تو ارتقاء کے مقاصد کے لیے مفید اور مددگار نہیں ہو سکتی۔ ہر غلط آدرش جنم لیتا ہے‘ بڑھتا‘ پھولتا اور ترقی کرتا ہے یہاں تک کہ اپنے معراج کمال کو پہنچ جاتا ہے۔ لیکن اس کے بعد وہ انحطاط کی طرف مائل ہوتا ہے یہاں تک کہ مٹ جاتا ہے۔ لیکن صحیح آدرش اس قدرتی عمل کی زد میں نہیں آتا کیونکہ وہ ایسے تمام نفسیاتی عناصر سے پاک ہوتا ہے جو کسی آدرش کو اس قدرتی عمل کی زد میں لا کر مبتلائے انحطاط اور زوال کرتے ہیں۔ ضروری ہے کہ صحیح آدرش کو ماننے والی جماعت عروج و زوال کے معمولی تغیرات میں سے گزرتی ہوئی ‘رہتی دنیا تک سلامت رہے اور بالآخر اور مجموعی طور پر ارتقاء کی منزلوں کو یکے بعد دیگرے عبور کرتی چلی جائے۔

 

قوموں کی تقدیر

قرآن حکیم دنیا اور آخرت دونوں میں صحیح اور کامل آدرش کی پائیداری اور غلط اور ناقص آدرشوں کی ناپائیداری کو مختلف مقامات پر مختلف الفاظ میں بیان فرماتا ہے:

 

{اَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُهَا فِي السَّمَاۗءِ     (۲۴) تتُؤْتِيْٓ اُكُلَهَا كُلَّ حِيْنٍۢ بِاِذْنِ رَبِّهَا  ۭ وَيَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ    (۲۵) وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيْثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيْثَةِۨ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ  (۲۶) يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَةِ  ۚ وَيُضِلُّ اللّٰهُ الظّٰلِمِيْنَ  ڐ وَيَفْعَلُ اللّٰهُ مَا يَشَاۗءُ      ( ۲۷)} (ابراھیم)

 

’’کیا تو نے نہیں دیکھا کہ کس طرح سے اللہ نے ایک سچے آدرش کی مثال ایک پاکیزہ درخت سے دی ہے جس کی جڑیں مضبوط ہوں اور جس کی شاخیں آسمان سے باتیں کر رہی ہوں۔ جو خدا کے حکم سے ہر آن اپنا پھل لاتا رہے۔ خدا لوگوں کے لیے امثال بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت اندوز ہوں اور ایک غلط‘ ناپاک اور ناقص آدرش کی مثال ایک ضرر رساں درخت کی طرح ہے بے کار سمجھ کر زمین سے اکھاڑ دیا جاتا ہے اور جسے کوئی پائیداری حاصل نہیں ہوتی (حاصل یہ کہ) خدا مسلمانوں کو ان کے پائیدار آدرش کی وجہ سے دنیا اور آخرت دونوں میں پائیداری عطا کرتا ہے اور اپنے جذبۂ حسن کا ناجائز استعمال کرنے والوں کو غلط راہ پر لے جاتا ہے اور خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے‘‘۔

 

{ فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى ۤ لَا انْفِصَامَ لَهَا  ۭ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ    (۲۵۶)}  (البقرۃ)

 

’’جو غیر اللہ سے کفر کرتا ہے اور خدا پر ایمان لاتا ہے۔ اُس نے ایک مضبوط سہارے کو تھام لیا جو کبھی ٹوٹ نہیں سکتا اور اللہ سنتا بھی ہے اور جانتا بھی ہے۔‘‘

 

{مَثَلُ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْلِيَاۗءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوْتِ ښ اِتَّخَذَتْ بَيْتًا  ۭ وَاِنَّ اَوْهَنَ الْبُيُوْتِ لَبَيْتُ الْعَنْكَبُوْتِ  ۘ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ    (۴۱)} (العنکبوت)

 

’’ان لوگوں کی مثال جنہوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں سے محبت اور دوستی کے تعلقات قائم کیے ہیں اس مکڑی کی طرح ہے جس نے اپنے گھر بنایا بے شک گھروں میں سے کمزور ترین گھر مکڑی کا ہوتا ہے کاش کہ وہ جانیں۔‘‘

 

{مَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ اَعْمَالُهُمْ كَرَمَادِۨ اشْـتَدَّتْ بِهِ الرِّيْحُ فِيْ يَوْمٍ عَاصِفٍ   ۭ لَا يَقْدِرُوْنَ مِمَّا كَسَبُوْا عَلٰي شَيْءٍ  ط}(ابراھیم:۱۸)

 

’’کافروں کے اعمال راکھ کی طرح ہیں جس پر آندھی کے روز ہوا تیزی سے چلے وہ اپنے کیے میں سے کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتے۔‘‘

 

{لَهٗ دَعْوَةُ الْحَقِّ ۭ وَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ لَا يَسْتَجِيْبُوْنَ لَهُمْ بِشَيْءٍ اِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ اِلَى الْمَاۗءِ لِيَبْلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَالِغِهٖ  }  (الرعد:۱۴)

 

’’صحیح اور سچی پکار وہی ہے جو اُس کے لیے ہو جو اسے چھوڑ کر دوسروں کو پکارتے ہیں وہ دوسرے ان کی کوئی حاجت روائی نہیں کر سکتے اور اس کے سوائے اُن کی کوئی مثال نہیں دی جا سکتی کہ وہ اس شخص کی طرح ہیں جو اپنا ہاتھ پانی کی طرف بڑھاتا ہے تاکہ وہ اس کے منہ تک پہنچے لیکن وہ اس کی پہنچ سے باہر ہے۔‘‘

 

آدرشوں کا ارتقاء نوع میں

جس طرح سے ایک فرد کی زندگی میں آدرش ارتقاء کرتا ہے ‘ اسی طرح سے نوع کی زندگی میں بھی ارتقاء کرتا ہے بلکہ جس طرح سے ہر فرد انسانی کا جسمانی ارتقاء جنین کی ابتدائی شکل سے لے کر جوانی تک نوعِ بشر کے جسمانی ارتقاء کا اعادہ کرتا ہے اسی طرح سے فرد کا نفسیاتی ارتقاء (جودرحقیقت اُس کے آدرش کا ارتقاء ہے) نوعِ بشر کے نفسیاتی ارتقاء کا اعادہ کرتا ہے۔ ابتداء میں نوعِ بشر کی حالت وہی تھی جو ایک بچے کی ہوتی ہے کہ وہ جبلتی خواہشات کی لذت کو اپنا آدرش بناتا ہے ۔ اس کی زندگی اپنے آپ کے لیے ہوتی ہے۔ ابتداء میں ہر فرد انسانی کی خواہشات اپنی ذات کے لیے جبلتی لذائذ کے حصول تک محدود تھیں۔ پھر وہ اپنے باپ کو یا خاندان کے بڑے آدمی کو اور بعد میں اپنے قبیلہ کے سردار کو جو اُس کے والدین یا بزرگوں کی طرح تھا اپنا آدرش سمجھنے لگا۔ قبائل آپس میں لڑتے تھے اور خون ریزی ہوتی تھی لہٰذا اس آدرش کی خامیاں انسان پر آشکار ہوئیں اور اس نے سمجھا کہ تمام قبیلوں کو ایک قوم کی صورت میں ایک بادشاہ کے ماتحت متحد ہونا چاہیے۔ یہ اتحاد بھی ایک خاص جغرافیائی خطہ کے قبائل تک محدود تھا۔ رفتہ رفتہ بادشاہ کے ظلم اور نفس پرستی نے اس کی آنکھیں کھولیں تو اسے معلوم ہوا کہ کوئی آدرش اچھا نہیں جب تک کہ وہ ملک اور قوم کی سود و بہبود کا پہلو لیے ہوئے نہ ہو۔ اس طرح سے اس کا آدرش بادشاہ سے ہٹ کر ملک اور قوم کی طرف منتقل ہوا اور اسے وطنیت یا قومیت کہا گیا۔ پھر اس میں حریت‘ مساوات اور اخوت کی مجرد صفات (Abstract Qualities)شامل ہو گئیں اور اسے جمہوریت کا نام دیا گیا۔

 

آخری آدرش

آگے چل کر انسان کو معلوم ہوا کہ حریت ‘مساوات اور اخوت کے تقاضے سیاسی دائرہ کے باہر اقتصادی حالات پر بھی شامل ہوتے ہیں اور محض سیاست کا میدان ان کے کامل ظہور کے لیے مکتفی نہیں۔ لہٰذ ااُس نے اشتراکیت کو اپنا آدرش بنایا۔ اس سلسلہ میں انسان کا آخری قدم یہ ہو گا کہ وہ معلوم کرے گا کہ حریت‘ مساوات‘ اخوت‘ نیکی‘ عدل اور ایسی ہی دوسری صفات مجردہ جن کا وہ متمنی ہے‘ خدا کے آدرش کا جزو ہیں اور اس کے بغیر وہ انسان کی عملی زندگی میں ظہور نہیں پا سکتیں اور نوعِ بشر کا یہ قدم اسے اسلام کی آغوش میں لے آئے گا۔

 

ہر آدرش بالقوہ ایک فلسفہ ہوتاہے

چونکہ انسان کا آدرش اس کے تمام اعمال کی اصل ہوتا ہے اور خارج کی کائنات کے ساتھ اُس کے تمام تعلقات کی نگرانی کرتا ہے‘ لہٰذا وہ تمام سوالات کا جو اس کے دل میں اپنے آپ کے متعلق ‘دوسرے لوگوں کے متعلق‘ اور تمام کائنات کے متعلق پیدا ہوتے ہیں ‘ ایسا جواب مہیا کرتا ہے جو اسے پوری طرح سے مطمئن کر دیتا ہے (اور یہی سبب ہوتا ہے کہ آدرش سے اس کی محبت قائم رہتی ہے)خواہ یہ جواب یا اس کا کوئی پہلو دوسرے لوگوں کی نظروں میں کیسا ہی غلط‘ بے ہودہ یا مضحک ہو۔ لہٰذا ہر آدرش اپنے اردگردتصورات کا ایک نظام پیدا کر لیتا ہے اور اپنے چاہنے والوں کے لیے انسان اور کائنات کے ایک فلسفہ کی شکل میں آجاتا ہے۔ یہ فلسفہ یا نظامِ تصورات(Ideology) اتنا ہی صحیح یا غلط ‘ مکمل یا غیر مکمل منظم یاغیر منظم اور معقول یا نامعقول ہوتا ہے جتنا کہ اُس آدرش کو ماننے والوں کا علمی یا ذہنی معیار اجازت دیتا ہے۔

 

عقل کا مقام

پھر چونکہ انسان کی زندگی کے تمام افعال اس کے آدرش کی محبت سے پیدا ہوتے ہیں لہٰذا عقل اُس کی زندگی میں ایک ثانوی اہمیت رکھتی ہے اور آدرش کے ماتحت اُس کی خدمت اور اعانت کے لیے کام کرتی ہے۔ عقل ایک قوتِ ممیزہ ہے‘ قوتِ عمل نہیں۔ قوت عمل فقط آدرش یا محبت ہے۔ عقل آدرش کے مقاصد کی مدد کرتی ہے ان کی مخالفت نہیں کرتی۔ وہ کوشش کرتی ہے کہ آدرش کو جو کامیابیاں حاصل ہو چکی ہیں وہ برقرار رہیں اور جو ابھی حاصل نہیں ہوئیں وہ حاصل ہوتی رہیں۔

 

عشق صاحب ادراک ہے

آدرش حسن کا ایک تصور ہے جسے ہمارا وجدان قائم کرتا ہے عقل قائم نہیں کرتی۔ وجدان (Intuition)خود محبت یا جذبۂ حسن ہی ہے جبکہ وہ اپنی راہنمائی کے لیے تحصیلِ علم کا کام کر رہا ہو۔ محبت خود فیصلہ کرتی ہے کہ وہ کس تصور کی طرف رخ کرے۔ احساسِ حسن عقل کا کام نہیں۔ تصور حسن ایک وحدت یا ایک کل ہے جس کا احساس عقل کی دسترس سے باہر ہے۔ عقل ایک وحدت یا کل کو نہیں دیکھتی بلکہ اس کے اجزاء یا عناصر کو دیکھتی ہے۔ کل یا وحدت کو دیکھنا اور اس کے حسن یا قبح کو محسوس کرنا فقط وجدان کا کام ہے۔

 

عقل کی خدمت عشق

تاہم عقل اپنی قوت تجزیہ کی وجہ سے اس قابل ہوتی ہے کہ کسی وقت نئی وحدتوں کے اجزاء یا عناصر کے ساتھ جا ٹکرائے۔ لہٰذا یہ وجدان کو نئی وحدتوں کا احساس کرنے کے لیے اکساتی ہے گویا عقل دوطریقوں سے خود شعوری کی مدد کرتی ہے۔ ایک تو یہ کہ اسے بتاتی ہے کہ وہ اپنے موجودہ آدرش کی بہترین خدمت اور اعانت کس طریق سے کر سکتی ہے۔ دوسرے اگر ممکن ہوتو وہ اسے ایک نئے اور بہتر آدرش کے حسن کا احساس کرنے کے لیے اکساتی ہے۔ تاہم عقل محبت کے دائرئہ علم میں داخل نہیں ہو سکتی اور کسی تصور کے حسن کا مشاہدہ نہیں کر سکتی کیونکہ یہ کام جذبۂ حسن کا یا خود شعوری کا اپنا کام ہے ۔ چونکہ ہماری خود شعوری طلبِ جمال کا راستہ کسی قدر عقل کی مدد سے طے کرتی ہے لہٰذا جب خود شعوری اپنی منزل پر پہنچتی ہے یعنی جب کسی آدرش کو اپناتی ہے تو ہم فراموش کر جاتے ہیں کہ مدت ہوئی کہ عقل خود شعوری کو چھوڑ کر اس سے الگ ہو گئی تھی۔

 

اعمال کا سرچشمہ محبت ہے عقل نہیں

عقل کے اس قرآنی نظریہ کے مطابق (جو یقینا نفسیاتِ انسانی کے حقائق کے ساتھ دوسرے تمام نظریات سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے اور جو لہٰذا ان سے زیادہ مدلل اور یقین افروز ہے) اخلاق‘ سیاست‘ قانون‘ تعلیم اور فلسفہ عقل سے پیدا نہیں ہوتے بلکہ محبت سے پیدا ہوتے ہیں ۔ اصولِ اخلاق براہِ راست آدرش سے ماخوذ ہوتے ہیںاور ان کی نوعیت ہر آدرش کے لیے الگ ہوتی ہے۔ ہر آدرش کا پرستار جانتا ہے کہ اسے اپنے آدرش کے حاصل کرنے کے لیے بعض کاموں کو کرنا چاہیے اور بعض کو کرنا نہیں چاہیے اور وہ آدرش کی محبت کے اندرونی دباؤ کی وجہ سے اس ضابطۂ افعال پر عمل کرتا ہے۔

 

اخلاق

یہی وجہ ہے کہ اس دور میں دنیا کی مختلف ریاستیں انصاف‘ سچائی‘نیکی‘ اخلاق‘ تہذیب اور آزادی کی اصطلاحات کے معانی کے بارہ میں متفق نہیں ہو سکتیں۔ جب تک  قوموں کا آدرش ایک نہیں ہوتا وہ اخلاق کے متعلق ایک ہی نقطۂ نظر اختیار کرنے سے مجبور ہیں۔ صحیح آدرش یعنی خدا کے آدرش سے جو قوانین عمل یا اصولِ اخلاق پیدا ہوتے ہیں وہ صحیح ہیں اور باقی سب غلط ہیں کیونکہ وہ غلط آدرشوں سے پیدا ہوتے ہیں۔

 

سیاست

علم اخلاق(Ethics)کی طرح علم سیاست (Politics)بھی علم کا کوئی الگ شعبہ نہیں بلکہ ہمارے آدرشوں کا عکس ہے۔ ایک جماعت جو کسی آدرش کے ماتحت وجود میں آتی ہے اپنی اندرونی تنظیم کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی بلکہ وجود ہی میں نہیں آ سکتی۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہر جماعت اپنی ایک الگ حکومت رکھتی ہو ۔ اگر اس کی اپنی حکومت نہیں تو وہ اپنے آدرش کی خدمت نہیں کرتی بلکہ اس آدرش کی خدمت کرتی ہے جس کی نگرانی میں وہ زندگی بسر کر رہی ہے۔ آخر کار ہر جماعت اپنے آپ پر اپنی حکومت حاصل کرنے پر مجبور ہے۔ پھر ہر جماعت کی طرزِ حکومت اُس کے آدرش کے تقاضوں سے پیدا ہوتی ہے۔ ہر جماعت اپنا انتظام اُسی طرح سے کرتی ہے جس طرح سے اُس کا آدرش چاہتاہو۔

 

فلسفہ

اب فلسفہ کو لیجیے۔ ہر فلسفی اپنے استدلال کو حقیقت کائنات کے ایک وجدانی (Intuitional)تصور سے ‘جو اس کے آدرش سے ماخوذ ہوتا ہے ‘شروع کرتا ہے۔ فلسفی یہ سمجھتا ہے کہ وہ آزادانہ عقلی استدلال سے کام لے رہا ہے حالانکہ اس کا عقلی استدلال اس کی محبت کے ماتحت ہوتا ہے وہ آزاد نہیں ہوتا بلکہ متعصب اور جانب دار ہوتا ہے۔ اگر فلسفی کا آدرش صحیح ہو تو اس کا تعصب اور اُس کی جانب داری کے نتائج صحیح ہوتے ہیں اور اُن کی وجہ سے اس کا استدلال صحیح اور بے خطا رہتا ہے۔ کائنات کا صحیح وجدانی تصور صرف ایک نبی کا حصہ ہے یا اس شخص کا جو نبی کی اطاعت کر کے اسے نبی سے حاصل کرتا ہے۔

 

تعلیم

کسی جماعت کا نظامِ تعلیم بھی آدرش کے ماتحت پیدا ہوتا ہے ہر نظام کی غرض یہ ہوتی ہے کہ آدرش کی محبت کی حفاظت اور تربیت کی جائے اور متعلمین کو اس کی خدمت کے لیے ذہنی طور پر مستعد کیاجائے ۔ چنانچہ آدرش کا اثر درسی کتابوں کے مضامین میں استادوں کی ذہنیت میں اور اسکول اور کالج کی ساری فضا میں آشکار طور پر موجود ہوتا ہے۔ تعلیم آدرشوں کی خدمت گزار ہے اور جس آدرش کے لیے اسے موزوں بنا لیا جائے اُسی کی خدمت کرتی ہے۔

 

محبت صفات

انسان کا جذبۂ محبت نہ صرف خدا کے لیے ہے بلکہ اُس کی صفات کے لیے بھی ہے کیونکہ اس کی صفات حسین و جمیل ہیں۔ لہٰذا خواہ انسان کا آدرش صحیح ہو یا غلط وہ اپنے عمل میں ان اوصاف کے اظہار کے لیے ایک اندرونی دباؤ یا زور محسوس کرتا ہے لیکن اس اظہارِ حسن کے نتائج کو اپنے آدرش کی خدمت اور تقویت کے لیے کام میں لاتا ہے۔ لہٰذا ہر حالت میں اُن کا اظہار آدرش کی محبت کے ماتحت رہتا ہے ان صفات کا اظہار تین صورتیں اختیار کرتا ہے:

 

اوّل : عالمگیر اصول اخلاق کی پیروی

دوم: علم کی جستجو

سوم:  ہنر (آرٹ)

 

غلط اور صحیح اصول اخلاق

(۱)  جب کوئی شخص عالمگیر اصول اخلاق کے مطابق عمل کرتا ہے تو وہ دراصل اپنی زندگی کو خدا کی صفات جلال و جمال کے مطابق بناتا ہے اور اپنے عمل میں ان صفات کا اظہار کرتا ہے ۔ لیکن کوئی ایسا شخص اپنے عمل میں ان صفات کا اظہار کامیابی سے نہیں کر سکتا جس کا آدرش صحیح نہ ہو۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ ان صفات کی محبت صحیح آدرش کی محبت کا ایک جزو ہے۔ لہٰذا وہ صحیح آدرش کی محبت سے الگ ہو کر اپنا اظہار نہیں پا سکتی۔ جب انسان کا آدرش غلط ہوتا ہے تو اس کی غلط محبت ان صفات کی محبت کے ساتھ مزاحمت کرتی ہے اور اسے اپنا پورا اظہار کرنے نہیں دیتی۔ یہی وجہ ہے کہ غلط آدرش سے محبت کرنے والے کا اخلاقی فیصلہ(Moral Judgement) ہمیشہ غلط ہوتا ہے۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے کہ نیکی‘ عدل‘ انصاف‘ آزادی‘ مساوات وغیرہ اخلاقی اقدار کے اصلی اور صحیح تقاضے کیا ہیں۔ اگرچہ وہ ان اقدار کا نام لیتا ہے اور ان پر عمل کرنے کا مدعی ہوتا ہے لیکن درحقیقت وہ ان کے منشاء کو ذہنی طور پر سمجھتا ہے اور نہ عملی طور پر پورا کر سکتا ہے۔

 

ہرغلط آدرش کے اخلاقی اصول الگ ہوتے ہیں ۔ ہر غلط آدرش کے نزدیک نیکی‘ آزادی اور مساوات کے معنی الگ ہوتے ہیں۔ ایک غلط آدرش کا پرستار اپنی محبت سے مجبور ہو کر اپنے آدرش کی نیکی‘ آزادی اور مساوات کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے اور ان اقدار کے اصلی تقاضوں کو نظر انداز کرتا ہے۔ دو آدرشوں کے اخلاقی اصول بیک وقت ایک شخص کے عمل کوپیدا نہیں کر سکتے۔ جو شخص ایک غلط آدرش کے اخلاقی اصولوں کے مطابق عمل کر رہا ہو وہ ان اخلاقی اصولوں پر عمل نہیں کر سکتا جو صحیح آدرش سے ماخوذ ہیں جو حسن حقیقی کی صفات پر مبنی ہیں اور اخلاق کے عالمگیر اصول کہلاتے ہیں۔

 

تلاش صداقت میں تعصب

(۲)  علم کی جستجو صداقت کی جستجو ہے اور صداقت کی جستجو تلاشِ حق ہے جو خدا کے اسمائِ حسنیٰ میں سے ایک ہے ‘چونکہ صداقت کی محبت جذبۂ حسن کے ایک عنصر کے طورپر خود شعوری کی فطرت میں ہے ‘اس لیے انسان ایک اندرونی دباؤ یا کشش محسوس کرتا ہے کہ علم کی جستجو علم کی خاطر کرے۔ تاہم اس کا غلط آدرش اس کی جستجوئے صداقت کی نوعیت اور سمت اور اس کے نتائج میں فرق پیدا کرتا ہے۔ اگر اس کا آدرش صحیح ہو گا‘ تو اس کی جستجوئے علم صحیح خطوط پر ہو گی ۔کیونکہ آدرش کی محبت جو خود صحیح ہو گی اور حق و صداقت کی طالب ہو گی اس کے ساتھ مزاحمت نہیں کرے گی اور اسے غلط راستہ پر نہیں ڈالے گی بلکہ اس کی تائید اور اعانت کرے گی۔لیکن جب آدرش غلط ہو تو انسان اپنی علمی جستجو میں اس غیر شعوری خواہش کے ماتحت کام کرتا ہے کہ مبادا اُس کی جستجو کوئی ایسے نتائج پیدا کر دے جو اُس کے آدرش کے مخالف ہوں۔ لہٰذا وہ اپنی علمی تحقیق میں پوری دیانت اور امانت سے کام نہیں لیتا بلکہ دانستہ طور پر متعصب ہو جاتا ہے۔ یہ بات ریاضیاتی اور طبعیاتی علوم کے بارہ میں کم ‘حیاتیاتی علوم میں اُس سے زیادہ اور نفسیاتی اور انسانی علوم کے بارہ میں سب سے زیادہ صحیح ہے۔ چونکہ اس زمانہ میں علوم کی تحقیق کرنے والے وہی لوگ ہیں جو غلط آدرشوں کے پرستار ہیں لہٰذا فلسفہ‘ نفسیات‘ سیاست‘ تعلیم‘ اقتصادیات‘ اخلاق اور دوسرے انسانی اور اجتماعی علوم کی تحقیقات غلط راستہ پر جارہی ہے۔ ریاضیات جس میں (ایک حد تک طبعیات کو بھی شامل کر لینا چاہیے) چونکہ ایک قسم کا تکرار(Tautology) ہے۔ اس لیے اس کی تحقیق میں غلط آدرش کی محبت کی دخل اندازی کی زیادہ گنجائش نہیں۔ تاہم غلط آدرش کے پرستار اس قسم کے علوم کے نتائج کو غلط طور پر کام میں لاتے ہیں۔ ہیروشیما(Hiroshima)پر ایٹم بم کا استعمال ‘جو آئن سٹائن کی حکمیاتی اور ریاضیاتی نظریات کا نتیجہ ہے ‘ اس بات کی ایک مثال ہے۔

 

ہنر کا ماخذ

(۳)  ہنر کی جستجو خدا کی صفت خالقیت کا اظہار ہے۔خدا خالق ہے انسان بھی خالق بننا چاہتا ہے۔ خدا اپنی تخلیق میں حسن پیدا کرتا ہے اور اس کی تخلیق ایک واسطہ (Medium) میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ انسان بھی اپنی تخلیق میں حسن پیدا کرنا چاہتا ہے اور اس غرض کے لیے ایک واسطہ کو کام میں لاتا ہے اس قسم کی تخلیق کو جس میں ایک واسطہ سے ذریعہ سے حسن کا اظہار کیا گیا ہو اصطلاح میں ہنر یا فن(Art)کا نام دیا جاتا ہے جب اینٹ‘ پتھر‘ رنگ‘ جسم کی حرکات‘ آواز اور الفاظ انسان کو اظہارِ حسن کے لیے ایک واسطہ کاکام دیتے ہیں تو ہم ان کو بالترتیب تعمیر‘ بت سازی‘ مصوری‘ ناچ‘ گانا اور شاعری کے فنون کا نام دیتے ہیں ۔ طرزِ ندگی میں ‘بود و باش میں‘ اپنی مملوکہ اور مستعملہ اشیاء میں‘ اپنی گفتگو میں میل و ملاقات میں اور تمام جائز حرکات و سکنات میں حسن کا اظہار کرنا ہنر کی تمام اقسام میں سب سے زیادہ اہم ہے کیونکہ اس قسم کی حسن آفرینی آدرش کے حصول کے لیے انسان کی قوت اور طاقت میں اضافہ کرتی ہے۔

 

ہنر کا جواز

اور درحقیقت ہنر کا مقصد یہی ہے کہ انسان اسے آدرش کے بہتر اور آسان تر حصول کے لیے کام میں لائے۔ دولت مندوں کی دولت صنعت و حرفت کی روز افزوں وسعت اور تعلیم و تربیت بہم پہنچانے والوں کی کوشش زیادہ تر اسی قسم کی حسن آفرینی کے لیے صرف ہوتی ہے اسی ہنر کو قرآن نے زینت اور جمال کا نام دیا ہے۔

 

{خُذُوْ زِیْنَتَـکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ} (آل عمران:۳۱)

 

’’عبادت کے وقت بھی زینت کا لحاظ رکھو۔‘‘

 

پھر اس کے جواز کے متعلق ارشاد ہے:

 

{قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ} (الاعراف:۳۲)

 

’’کہو کون ہے جس نے اللہ کی زینت کو جو اس نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کی ہے حرام کیا ہے۔‘‘

 

{وَلَـکُمْ فِیْھَا جَمَالٌ حِیْنَ تُرِیْحُوْنَ وَحِیْنَ تَسْرَحُوْنَ(۶)} (النحل:۶)

 

’’اور ان کے صبح اور شام جانے اور آنے میں تمہارے لیے حسن کا اظہار ہے۔‘‘

 

قرآن کا ارشاد ہے کہ خداوند تعالیٰ کے علاوہ اور بھی خالق ہیں جو اس کے پیدا کیے ہوئے ہیں لیکن خدا کی تخلیق سب خالقوں سے زیادہ خوبصورت ہوتی ہے۔

 

{فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ(۱۴)}  (المؤمنون)

 

’’پس اللہ بابرکت ہے تمام خالقوں سے زیادہ خوبصورت تخلیق کرنے والا۔‘‘

 

ہنر کی ممنوعہ اقسام

تاہم ہنر کی بعض اقسام ایسی ہیں جن کا انہماک صحیح آدرش کے تقاضوں سے بآسانی مزاحم ہونے لگتا ہے مثلاً ناچ‘ گانا‘ بت سازی وغیرہ جن میں خطرہ ہے کہ جذبۂ حسن کا کچھ حصہ افراد کی محبت یا جبلتی لذتوں کے غلط راستہ کی طرف منتقل نہ ہو جائے۔ لہٰذا ان سے اجتناب خود شعوری کے ارتقاء کے مقاصد کے عین مطابق ہے۔

 

ارتقائے محبت کے اسباب

ہر آدرش کی محبت ترقی پذیر ہوتی ہے اور ترقی کر کے بالآخر ایسی قوت حاصل کر لیتی ہے کہ پھر کوئی اور تصور اُس کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور انسان کا ہر عمل کسی مزاحمت کے بغیر اس کے آدرش کی ضروریات کے مطابق سرزد ہونے لگتا ہے۔ ابتداء میں انسان کا آدرش بالعموم اس کے جذبۂ حسن کی تمام قوت کو کام میں لا سکتا ہے اور اس قوت کا کچھ حصہ دوسرے تصورات کی محبت میں بٹ جاتاہے۔ ایسی حالت میں آدرش کی محبت کمزور رہتی ہے اور جب کوئی جبلتی دباؤ آدرش کی مخالفت کر رہا ہو تو وہ اس دباؤ سے شکست کھا جاتی ہے اور انسان کا فعل آدرش کی محبت کی بجائے جبلتی دباؤ کے ماتحت سرزد ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں انسان کی محبت ایک آدرش سے ہٹ کر دوسرے تصور کی طرف جو اس صورت میں جبلتی خواہش کا تصور ہوتا ہے منتقل ہو جاتی ہے لیکن اگر آدرش کا ماننے والا آدرش کے ان محاسن پر ‘جو اس کے ذہن میںہوں‘ غور و فکر کرتا رہے اور نیز آدرش کے تقاضوں کے مطابق عمل کرتا رہے تو آدرش کی محبت ترقی کرتی ہے اور انسان کے جذبۂ حسن کی تمام قوت اس کے تصرف میں آجاتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کی محبت اتنی طاقتور ہو جاتی ہے کہ کوئی جبلتی خواہش اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی سچے آدرش کی صورت میں آدرش کے محاسن پر غور و فکر کرنے کو ذکر کہتے ہیں جس کی ایک مخصوص شکل نماز ہے:

 

{اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ}  (طٰہٰ:۱۴)

 

’’میرے ذکر کے لیے نماز قائم کر۔‘‘

 

ارتقائے طوعی کا راستہ

اور آدرش کے تقاضوں کے مطابق عمل کرنے کو عمل صالح کہتے ہیں۔ ذکر اور عمل صالح دونوں خود شعوری کی محبت کو ترقی دینے اور اس کے جذبۂ حسن کی تشفی کرنے اور اس کی پوری قوت کو سچے آدرش کے زیرتصرف لانے میںایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور اس سے خود شعوری کا طوعی ارتقاء ہوتا ہے جو شخص ایک دفعہ سچے آدرش کے حسن کا احساس پیدا کرلیتا ہے یعنی خدا پر ایمان لے آتا ہے وہ شعوری یا طوعی ارتقاء کے راستہ پر پہلا قدم رکھتا ہے اس کے بعد اس کا احساسِ حسن خواہ وہ ابتدائی حالت میں ہو اور کمزور ہو دو طریقوں سے اپنا اظہار پاتا ہے۔ ایک تو وہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ پر غور و فکر کرتا ہے اور دوسرے وہ اسمائِ حسنیٰ کے تقاضوں یعنی عالمگیر اخلاقی اصولوں کے مطابق عمل کرتا ہے۔ محبت کے آغاز میں ان اصولوں کے مطابق عمل کرنا اس کے لیے مشکل ہوتا ہے کیونکہ جذبۂ حسن کی قوت جو انسان کے اعمال کا منبع ہے پوری طرح سے صحیح آدرش کے تصرف میں نہیں ہوتی اور اس کا کچھ حصہ دوسرے تصورات کے تصرف میں ہوتا ہے۔

 

راستہ کی مشکلات

لہٰذا اس کا عمل صحیح آدرش کے تقاضوں کے عین مطابق سرزد نہیں ہوتا بلکہ صحیح آدرش کی محبت کی کمی کی وجہ سے اُس کے لیے یہ سمجھنا بھی مشکل ہوتا ہے کہ عمل کے کسی خاص موقعہ پر یہ تقاضے کیا ہیں۔ ایسی حالت میں قدرتی طور پر وہ ان تقاضوں کو بجالانے میںغلطی کا ارتکاب کرتا ہے۔ لیکن جب ذکر کے ذریعہ سے وہ اسمائے حسنیٰ پر غور و فکر کرتا ہے تو اُس کے احساسِ حسن میں اُس کی محبت یا خود شناسی میں ترقی ہوتی ہے۔ پھر اس ترقی یافتہ محبت کی وجہ سے وہ اُن تقاضوں کو زیادہ صحت اور صفائی کے ساتھ سمجھتا اور زیادہ آسانی کے ساتھ اُن پر عمل کرتا ہے۔ اس عمل سے اُس کی محبت اظہار پا کر اور قوی ہو جاتی ہے اور اس کی خود شعوری ارتقاء کی ایک اور منزل طے کر لیتی ہے ۔ پھر جب وہ اپنی اس ترقی یافتہ محبت کے ساتھ اسمائے حسنیٰ پر غور فکر کرتا ہے تو یہ غور و فکر پہلے سے بھی زیادہ اچھے نتائج پیدا کرتا ہے کیونکہ اس کے دوران میں اس کی توجہ کو زیادہ تمرکز (Concentration)اور اس کے قلب کو زیادہ اطمینان اور سرور حاصل ہوتا ہے اور اس سے اس کی محبت اور گہری اور قوی ہوجاتی ہے۔

 

منزلِ کمال

پھر اس ترقی یافتہ محبت کی وجہ سے وہ اپنے عمل میں اپنی محبت کے تقاضوں کو اور بھی زیادہ صحت اورصفائی کے ساتھ سمجھتا اور زیادہ آسانی کے ساتھ بروئے کار لاتا ہے۔ اس طرح سے ذکر اور عمل صالح ایک دوسرے کی اعانت کرتے ہوئے‘ خود شعوری کی محبت کو کمال کے اس درجہ پر پہنچا دیتے ہیں جو اسے اپنی استعداد کے مطابق اپنی انفرادی حیثیت سے اس دنیا میں حاصل ہو سکتا ہے۔ یہاں پہنچ کر خود شعوری کو ایک انتہائی اطمینانِ قلب اور سرور حاصل ہوتا ہے جو اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ خود شعوری اپنی مراد کو پہنچ گئی ہے اور اسے یقین حاصل ہو گیا ہے کہ وہ اور اس کا خالق ایک دوسرے کے ساتھ پوری طرح سے رضامند ہیں:

 

{رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ} (البینۃ:۸)

 

’’اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں۔‘‘

 

تزکیہ‘ فوز اور فلاح کا مطلب

خود شعوری کا اپنے آپ کو پا لینا یہی ہے قرآن کی اصطلاح میں یہی انسان کا تزکیہ اور اس کی فوز یا فلاح ہے جو انسان کو نفس مطمئنہ کے درجہ پر پہنچاتی ہے اور اسے جنت کا حق دار بناتی ہے:

 

{قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا}  (الشمس:۹)

 

’’جس نے اپنی جان کو غلط محبتوں سے پاک کر لیا وہ کامیاب ہوا‘‘۔

 

{وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَـہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا}  (الاحزاب:۷۱)

 

’’اور جس شخص نے اللہ اور رسول کی اطاعت کی اُس نے بہت بڑی کامیابی حاصل کر لی۔‘‘

 

{یٰٓــاَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ (۲۷) ارْجِعِیْ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً (۲۸) فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ (۲۹) وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ (۳۰)}  (الفجر)

 

’’اے مطمئن جان اپنے ربّ کی طرف لوٹ جا تو اس سے راضی ہے اور وہ تجھ سے راضی ہے اور میرے بندوں میں شامل ہو اور میری جنت میں داخل ہوجا۔‘‘

 

جنت کی اصل

جنت میں بھی سب سے بڑی نعمت جو خودشعوری کو حاصل ہو گی وہ خدا کی رضامندی اور محبت ہی ہو گی:

 

{وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکْبَرُ}  (التوبۃ:۷۲)

 

’’جنت میں انہیں خدا کی رضامندی حاصل ہوگی اور یہ بہت بڑی چیز ہے ۔‘‘

 

{لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ(۴۱)}  (النحل)

 

’’کاش کہ وہ جانیں۔‘‘

 

خود شعوری کے ارتقاء کا یہ نقطۂ کمال اس جدوجہد کا نتیجہ ہوتا ہے جو وہ اپنی انفرادی تربیت اور ترقی کے لیے کرتی ہے اور اس غرض کے لیے دوسروں کی تربیت اور ترقی کی کوشش اُسے ایک ذریعہ کا کام دیتی ہے۔

 

دلداری اور ہمت افزائی

اس مقام پر پہنچ کر خود شعوری کو جو سرور اور اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے وہ درحقیقت اس محبت کی ترقی کے ساتھ ساتھ ترقی کرتا چلا آتا ہے اور طلبِ جمال کے راستہ پر خود شعوری کی دلداری کرتا ہے‘ اس کی ہمت بندھاتا ہے اور اسے آخری کامیابی تک پہنچنے کی امید دلاتا ہے۔ یہاں تک کہ جب اس کی محبت اپنے کمال کو پہنچتی ہے تو یہ سرور اور اطمینانِ قلب بھی اپنے کمال پر پہنچ جاتا ہے۔ اس مقام پر انسان معبود حقیقی کی طرف ایک شدید کشش کا جذبہ محسوس کرتا ہے جس پر اسے اختیار نہیں ہوتا اور اسے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اپنے آپ کو اس کی ذات کے اندر کھو دیا ہے ۔ لیکن وہ مردِ مومن جو معبود کی خدمت اور اطاعت کو محبت کا صحیح اور اصلی تقاضا سمجھتا ہو اور اس تقاضا کو پورا کرنے میں لذت محسوس کرتا ہو وہ اس حالت میں تادیر نہیں رہتا۔ وہ جانتا ہے کہ جب تک دنیا میں ایک شخص بھی ایسا باقی ہے جس کا رشتہ خالق کے ساتھ جڑا ہوا نہیں ‘ کائنات کے اندر اُس کے اور اس کے معبود کے مشترکہ مقاصد تشنۂ تکمیل ہیں۔ لہٰذااس کی محبت اسے مجبور کرتی ہے کہ اس حالت سے واپس آئے اور اپنی بے پناہ قوتِ عمل کو جو محبت کی شدت کی وجہ سے اسے اس مقام پر حاصل ہو جاتی ہے‘ اپنے معبود کے مقاصد کی پیش برد کے لیے واقف کر دے۔ لہٰذا وہ اپنی جدوجہد سے نوعِ بشر کے ارتقاء کی منزل کو قریب لاتا ہے اور وہ کام کرتا ہے جو اس کا خالق کر رہا ہے۔

 

نیابت الٰہی کے فرائض

وہ مقاصد ارتقاء کی تکمیل کے لیے اپنے خالق کے ساتھ تعاون کرتا ہے اور اس طرح سے نائب حق کے فرائض کو انجام دیتا ہے۔ اس مقام پر مومن کو صحیح آدرش کے قانونِ عمل یا عالمگیر اصولِ اخلاق پر عمل کرنے کے لیے کوئی ہمت آزما کوشش کرنا نہیں پڑتی بلکہ وہ ان پر ایک ایسی خواہش یا رغبت سے عمل کرتا ہے جسے وہ روک نہیں سکتا اور روکنا نہیںچاہتا۔ یہ وہی مقام ہے جس کا ذکر اوپر درج کی ہوئی ایک قدسی حدیث میں ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مومن کی محبت عبادت سے ترقی کرتی ہے یہاں تک کہ میں اُس کا ہاتھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں ہو جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ اُس کے کان ہو جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھیں ہو جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے۔

 

ارتقاء کی منزلِ مقصود

جب مومن کا عمل خدا کی مرضی کے عین مطابق ہوجاتا ہے تو اُس عمل سے اس کا جذبۂ حسن اور اظہار پاتا ہے اور اس کی خود شعوری اور ترقی کرتی ہے کیونکہ وہ ارتقاء کی منزلِ مقصود سے اور قریب ہو جاتی ہے اور ارتقاء کی منزل مقصود بعض افراد کا ارتقاء نہیں بلکہ پوری نوعِ بشر کا ارتقاء ہے اور کائنات اسی منزل کی طرف آگے بڑھ رہی ہے۔ جوں جوں مومن خالق سے تعاون کرتا ہے اور خالق کا کام کرتا ہے خود شعوری کی مخفی قوتیں اس کی تائید کرتی جاتی ہیں کیونکہ وہ پہلے ہی اس کام کے لیے وقف ہوتی ہیں:

 

{اِنْ تَنْصُرُ اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ}  (محمد:۷)

 

’’اگر تم خدا کی مدد کرو گے تو خدا تمہاری مدد کرے گا۔‘‘

 

مظہرِ نبوت

چونکہ انسان کی فطرت کے قرآنی نظریہ کے ضروری متضمنات کا بیان مظہر نبوت (جس میں ختم نبوت بھی شامل ہے) کی تشریح کے بغیر ناتمام رہ جاتا ہے اور نیز چونکہ میکڈوگل نے اپنے نظریۂ جبلت کے مطابق عزم کی تشریح کرتے ہوئے نبوت کا بھی ذکر کیا ہے لہٰذا یہاں کسی قدر تفصیل کے ساتھ مظہر نبوت‘ ختم نبوت اور نبی کے موقف اور مقام کی تشریح کی ضرورت ہے۔

 

ارتقاء کے راستہ کی ایک مشکل

عمل صالح خود شعوری کی محبت کی ترقی کے لیے ضروری شرط ہے لیکن عمل صالح کے لیے ایک ضروری شرط یہ ہے کہ خود شعوری کی محبت اس قدر ترقی کر گئی ہو کہ وہ صحیح آدرش کے عملی تقاضوں کو صحت اور صفائی کے ساتھ سمجھ سکے اور بآسانی یعنی مخالف خواہشات کی مزاحمت کے بغیر ان کو بروئے کار لا سکے۔ یہ صورتِ حال ارتقاء کے راستہ میں ایک مشکل پیداکر دیتی ہے اور جب تک یہ مشکل حل نہ ہو ارتقاء جاری نہیں رہ سکتا۔ کائنات کی خود شعوری اس مشکل کو حل کرنے اور بشر کی تخلیق اور تربیت کے عمل کو جاری رکھنے کے لیے انبیاء پیدا کرتی ہے۔ نبی وہ شخص ہوتا ہے جس کی خود شعوری قدرت کی خاص مہربانی سے یکایک نقطۂ کمال پر پہنچ جاتی ہے اور وہ کسی طویل جدوجہد کے بغیر صحیح آدرش کے عملی تقاضوں کو صحت اور صفائی سے سمجھنے لگتا ہے۔

 

مشکل کا حل

پھر دوسرے لوگ ان تقاضوں کو اس سے سمجھتے ہیں اور اُن پر عمل کرتے ہیں۔ نفسیاتی سطحِ ارتقاء کی اس مشکل کی مثال ارتقاء کی حیاتیاتی سطح پر بھی موجود ہے۔ مثلاً عمدہ جسمانی صحت کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کچھ عرصہ کے لیے بیماریوں سے محفوظ رہے۔ لیکن بیماریوں سے محفوظ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی صحت نہایت عمدہ ہو‘ تاکہ امراض کے جراثیم اس کے جسم میں نشوونما نہ پا سکیں۔ جس طرح سے حیاتیاتی سطح کی اس مشکل کا حل یہ ہے کہ انسان اچھی خوراک کو جس میں حیاتین (Vitamins)پوری تعداد اور پوری مقدار میں موجود ہوں اور جو جسم کی خاطر خواہ پرورش کر سکے‘ متواتر استعمال کرتا رہے اُسی طرح سے ارتقاء کی نفسیاتی مشکل کا علاج یہ ہے کہ ایک شخص نبی کے عطا کیے ہوئے علم سے اپنی محبت کی نشوونما کرے۔ نبی کا علم حسنِ حقیقی کی صفاتِ جمال و جلال کا علم ہوتا ہے جس میں خود شعوری کی وقتی ضرورت کے مطابق اس کی ترقی اور تربیت کا تمام ضروری سامان موجود ہوتا ہے اور خود شعوری کو ایک ایسی نفسیاتی غذا کا کام دیتا ہے جس میں تمام ضروری حیاتین موجود ہوں۔

 

روحانی غذا

جب کوئی شخص اپنی عملی زندگی کو درست کرنے کے لیے نبی کے علم سے متواتر مستفید ہو رہا ہو تو تمام غلط اور مخالف تصورات کی محبت سے جو بیماری کے جراثیم کی طرح ہوتے ہیں‘ محفوظ رہتا ہے اور اس کی سچی محبت ترقی کرتی ہے۔ نبی کے پیرو کا عمل صالح شروع میں تو نبی کے عمل کی نقل ہوتا ہے جس کی پابندی اس کے لیے مشکل ہوتی ہے۔ لیکن جب نبی کی اس قسم کی اطاعت سے اس کی محبت ترقی کرجاتی ہے تو وہ صحیح آدرش کے ان تقاضوں کو ‘جو اُس عمل کے پس منظر میں ہوتے ہیں‘ٹھیک طرح سے سمجھنے لگتا ہے پھر وہ آزادانہ طور پر اور دلی خواہش اور رغبت سے نبی کی اطاعت میں نیک عملی کی زندگی بسر کرنے لگتا ہے یہاں تک کہ اس کی خود شعوری محبت کے کمال پر پہنچ جاتی ہے۔

 

روحانی سطح کی رکاوٹیں

مظہر نبوت کا باعث کائناتی خود شعوری کا جذبۂ حسن ہے جو کائنات کو پے در پے منازل ارتقاء سے گزارنا چاہتا ہے اور گزار رہا ہے اور جس کی وجہ سے اس وقت نوعِ بشر کا ارتقاء صحیح آدرش کی سمت میں جاری ہے ۔ جب انسانوں کی کوئی جماعت اپنے غلط اعمالسے کائناتی خود شعوری کے جذبۂ حسن کو بری طرح سے نظرانداز کر رہی ہو‘ دوسرے الفاظ میں جب خود شعوری کی جستجوئے جمال کے راستہ میں شدید رکاوٹیں پیدا ہو گئی ہوں اور عمل ارتقاء کی رفتار حد درجہ سست ہو گئی ہو تو خود شعوری (اپنے اس وصف کی وجہ سے کہ جب اسے روکا جائے تو وہ زیادہ شدت اور زیادہ قوت کے ساتھ آگے بڑھتی ہے) فوری طور پر ایک قدم آگے اٹھاتی ہے اور اس کے نتیجہ کے طور پر ایک نبی کا ظہور ہوتا ہے۔ نبی یکایک خود شعوری کے ارتقاء کے انتہائی مدارج پر پہنچ جاتا ہے۔

 

وحی کی حقیقت

اور کائناتی خود شعوری اس کی خود شعوری پر ضرورت اور حالات کی وجہ سے یہاں تک حاوی ہو جاتی ہے کہ اس کے بیان یا کلام کے نفسیاتی اور جسمانی میکانیہ (Psycho-Physical Mechanism)کو اپنے تصرف میں لے لیتی ہے اور اس کے ذریعہ سے اپنے قوانین عمل کو یعنی اپنے آدرش یا صحیح آدرش کے تقاضوں کو انسانوں کی اس جماعت کے لیے بیان کرتی ہے۔ چونکہ کائنات کے ہر قانون کے عمل پر خدا کا ایک فرشتہ مقرر ہے ۔ ایک فرشتہ اُس قانون پر بھی مقرر ہے جس کی رو سے ایسے حالات میں ایک نبی کی خود شعوری خدا کے کلام کو قبول کرتی ہے اور اُسے جبرئیل کہا جاتاہے۔

 

مظہر نبوت کا باعث

ڈارون کے نظریہ پر بحث کرتے ہوئے ہم نے ڈی ورائی(De Vries)کے اس نتیجہ سے اتفاق کیا تھا کہ انواعِ حیوانات کے ارتقاء کا بڑا سبب تقلیبات (Mutations) یا فوری نوعیت تغیرات(Sudden Variations)ہیں خود شعوری کا یہی وصف جو حیاتیاتی مرحلۂ ارتقاء میں تقلیبات کا موجب ہوا تھا نفسیاتی مرحلہ ارتقاء میں ظہورِ انبیاء کا سبب ہوتا ہے۔

 

زندگی کی چھلانگیں

ہر بار جب حیوانی مرحلۂ ارتقاء میں زندگی کی حرکت سست ہو جاتی تھی تو زندگی ایک غیر معمولی جست لگاتی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ نوع کی نسل میں ایک بھاری جسمانی تبدیلی واقع ہو جاتی تھی اور ایک نئی نوع حیوانات جو پہلی نوع سے بہت مختلف اور بہت ترقی یافتہ ہوتی تھی ایک معجزہ کے طور پر فوراً وجود میں آجاتی تھی۔ انسانی مرحلۂ ارتقاء میں حرکت ارتقاء کے سست پڑ جانے کے وقت زندگی کی یہی غیر معمولی جستیں ایک معجزہ کے طور پر ایسے انسانوں کو پیدا کرتی رہی ہیں جن کی خود شعوری غیر معمولی حد تک ترقی یافتہ ہوتی تھی۔ پھر ہر بار جب ایک ایسا انسان وجود میں آتا تھا تو وہ ایک نئی نفسیاتی نوع کے طور پر اپنے پیروؤں کی ایک جماعت پیدا کردیتا تھا۔ لہٰذا ہم یہ باور کر سکتے ہیں کہ جس طرح سے حیوانی مرحلۂ ارتقاء میں پہلے کامل حیوان یعنی پہلے جسم انسانی کے وجود میں آنے کے بعد فوری نوعی تغیرات ختم ہو گئے تھے۔

 

کامل نبی کی تعریف

اسی طرح سے انسانی مرحلۂ ارتقاء کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے کامل نبی وہ ہوسکتا ہے جو محض زبانی جمع خرچ سے نہیں بلکہ اپنی عملی زندگی کی مثال سے بتائے کہ صحیح آدرش کے تقاضے زندگی کے تمام ضروری پہلوؤں پر کس طرح سے اثر انداز ہوتے ہیں اور مستقبل کا انسان کامل آدرش کے ماتحت اپنی زندگی کی تشکیل اور تعمیر فی الواقع کن خطوط پر کرے گا اور ضروری ہے کہ اس تشکیل اور تعمیر کا کوئی ضروری شعبہ ایسا نہ رہے جس کی مثال اس نبی کی عملی زندگی سے میسر نہ آتی ہو۔ ایسے نبی کی عملی زندگی فطرتِ انسانی کی تمام ممکنات کو پوری طرح سے ظہور میں لائے گی۔ ایسا نبی لازماً سلسلۂ انبیاء کی آخری کڑی ہو گا جس طرح سے حیوانی مرحلۂ ارتقاء میں حضرت انسان تقلیبات کا آخری مظہر تھا۔اسی طرح سے انسانی مرحلۂ ارتقاء میں یہ نبی خود شعوری کی فوری جستوں کا آخری مظہر ہو گا۔ وہ نبی ٔ کامل ہو گا اور خاتم الانبیاء بھی ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی ذات میں زندگی کو ایک مکمل کامیابی حاصل ہو جائے گی اور زندگی اپنی کوئی مکمل کامیابی ضائع نہیں کرتی بلکہ اسے قائم رکھتی ہے اور اس کی بنیادوں پر اور کامیابیوں کی تعمیر کرتی ہے۔

 

اختتامِ نبوت کا باعث

آخری نبی کے ظہور سے زندگی کو جو کامیابی حاصل ہوتی ہے وہ اس کے پیروؤں کی ایک جماعت کی شکل میں قیامت تک باقی رہتی ہے یہ جماعت اس کی تعلیم کو زندہ رکھتی ہے اور لہٰذا اس جماعت کے ہوتے ہوئے نفسیاتی مرحلۂ ارتقاء میں کائناتی خود شعوری کو کوئی ایسی مشکل یا رکاوٹ پیش نہیں آتی جس کی وجہ سے اس کے لیے ضروری ہو کہ وہ ایک اور فوری جست سے ایک اور نبی کو ظہور میں لائے۔ اگر بالفرض آخری اور کامل نبی کے ظہور کے بعد ایک اور نبی ظہور میں آ جائے تو زندگی یا کائناتی خود شعوری کو اس بات کی ضرورت نہیں ہو گی کہ انسانوں کے ایک راہنما کی حیثیت سے اسے ایسے مواقع بہم پہنچائے کہ وہ اپنی عملی زندگی کی مثال سے بتا سکے کہ فطرت انسانی کے تمام بنیادی اور ضروری تقاضوں کا صحیح اور کامل آدرش سے کیا تعلق ہے کیونکہ زندگی یہ مواقع ایک دفعہ ایک شخص کو پہلے بہم پہنچا چکی ہو گی اور اس کی عملی زندگی کی مثال کو قائم رکھنے کا اہتمام بھی کر چکی ہوگی۔لہٰذا انسانوں کے عملی راہنما کی حیثیت سے اس نبی کی تعلیم ناتمام‘ خام اور ادھوری رہے گی اور اس کے پیروؤں کی جماعت بھی اس قابل نہ ہو گی کہ تادیر دنیا میں قائم اور موجود رہے۔

 

قانون تکمیل کی ہمہ گیری

زندگی کی یہ کوشش کہ نبوت کو ایک اتمام اور تکمیل تک پہنچایا جائے ‘قدرت کا کوئی جداگانہ مظہر نہیں ‘جو صرف نبوت سے خاص ہو بلکہ یہ زندگی کی ایک عام خصوصیت کا نتیجہ ہے ۔زندگی اپنے ہر تخلیقی عمل کو ایک ابتداء سے شروع کر کے ایک اتمام اور تکمیل تک پہنچاتی ہے جب اس کی تخلیق کو ایک تکمیل حاصل ہو جاتی ہے تو عمل تخلیق کی شکل بدل جاتی ہے اور پھر وہ ایک نئی راہ پر چلتا ہے‘ تاکہ اگلا اختتام یا اگلا کمال حاصل کر ے پھر پہلا اتمام اس عمل کی ابتداء یا بنیاد کا کام دیتا ہے۔ یہ دوسرا عمل تخلیق بھی پہلے عمل تخلیق کی طرح رفتہ رفتہ ارتقائی مدارج سے گزرتا ہے۔ یہ بات نہایت اہم ہے کہ زندگی جب ایک دفعہ اپنی تخلیق کے کسی مرحلہ پر ایک اتمام یا تکمیل حاصل کر لیتی ہے تو پھر اسے ضائع نہیں کرتی بلکہ آئندہ کے ارتقاء کی بنیاد کے طور پر اسے قائم رکھتی اوریا کام میں لاتی ہے۔

 

فرد کی مثال

مثلاً انسانی جنین ماں کے رحم میں ایک حالت سے دوسری حالت تک ارتقاء کرتا جاتا ہے‘۔ یہاں تک کہ جب وہ ایک بچہ کی حیثیت سے تولد ہونے کے قابل ہوتا ہے تو اسے ایک تکمیل حاصل ہو جاتی ہے اگر بچہ کو تولد سے پہلے یہ تکمیل حاصل نہ ہو تو وہ تولد کے بعد زندہ نہیں رہ سکتا۔ دوسرے الفاظ میں قدرت صرف اس تکمیل کو ہی بچہ کے آئندہ ارتقاء کی بنیاد یا ابتدا بناتی ہے ۔ بچہ کا یہ ارتقاء اس کے تولد کے بعد فوراً شروع ہوتا ہے اور ایک ایسی شکل اختیار کرتا ہے جو اس کے پہلے ارتقاء سے مختلف ہوتی ہے۔ جنین کے جسم کو ماں کے جسم سے آنول نالی کے ذریعہ سے خون بہم پہنچایا جاتا ہے وہ مکمل طور پر ماں کا طفیلی (Parasite) ہوتا ہے۔ اس کی بقااور حیات کا دار و مدار کلیتاً ماں کی صحت پر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس بچہ اس تکمیل کی وجہ سے ‘جو اسے ماں کے رحم میں بحالتِ جنین حاصل ہوئی تھی‘ماں کے سہارے سے نسبتاً بے نیاز ہو کر بھی زندہ رہ سکتا ہے۔اس کے آلاتِ ہضم و تنفس اپنا عمل کرنے لگتے ہیں اور ان کا عمل اُس کی نشوونما کو ایک نئی شکل دیتا ہے۔ یہ عمل جاری رہتا ہے یہاں تک کہ فرد جو بچہ تھا اپنی جوانی یا اپنے جسمانی کمال کو پہنچ جاتا ہے یہ اُس کی دوسری تکمیل ہے جو پہلی تکمیل کی بنیادوں پر ظہور پذیر ہوئی ہے اور پھر یہ دوسری تکمیل اگلی تیسری نفسیاتی قسم کی تکمیل کی بنیاد بنتی ہے۔ اب عمل تخلیق حیاتیاتی نہیں رہتا بلکہ نفسیاتی بن جاتا ہے اور اس کے جاری رہنے سے فرد بالآخر اپنی خود شعوری کے ارتقاء کی انتہا پر پہنچ جاتا ہے۔

 

کائنات کی مثال

جب ہم فردِ انسانی کے ارتقاء سے کائنات کے ارتقاء کی طرف آئیں تو وہاں بھی یہی اصول کام کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ کائنات کو پہلی تکمیل اس وقت حاصل ہوئی جب ارتقاء کے عمل سے مادی قوانین اپنے کمال کو پہنچے اور اس قابل ہوئے کہ اُن کے عمل سے ایک زندہ خلیہ وجود میں آئے‘ قائم رہے اور نشوونما پائے۔ پہلی خلیہ کے وجود میں آنے کے بعد عمل ارتقاء مادی سے حیاتیاتی بن گیا اور یہ خلیہ جو کائنات کی پہلی تکمیل کا نتیجہ تھی‘ اس کی بنیاد قرار پائی۔ جب مکمل جسم انسانی ظہور میں آیا تو کائنات کو دوسری تکمیل حاصل ہوئی۔ انسان کے ظہور میں آنے کے بعد عمل تخلیق پھر بدل گیا اور اس نے دوسری تکمیل کو اپنا نقطۂ آغاز بنا کر نفسیاتی راستہ اختیار کیا جو بالآخر ایک کامل نبی کے ظہور پر ختم ہوا۔ اس تیسری تکمیل کے بعد چوتھی تکمیل ‘جس کے لیے ارتقاء کی قوتیں کام کر رہی ہیں‘ نوعِ بشر کا روحانی کمال ہو گا اور اس کی بنیاد تیسری تکمیل یعنی نبوتِ کاملہ ہو گی۔

 

تکمیل کی ماہیت

ہم دیکھتے ہیں کہ قدرت کے عمل تخلیق میں بہت سی تکمیلات ہوتی ہیں۔ ہر تکمیل زندگی کی تمام گزشتہ کامیابیوں کا نقطۂ کمال ہوتی ہے۔ وہ فقط ان کا مجموعہ نہیں ہوتی بلکہ ایک ناقابل تقسیم وحدت ہوتی ہے جس میں یہ کامیابیاں اپنی مکمل صورت میں جلوہ گر ہوتی ہیں۔ ہر تکمیل اگلی تکمیل کی بنیاد ہوتی ہے اور اس کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ آئندہ کاارتقاء صرف اس کی بنیادوں پر جاری رہ سکتا ہے۔ اس سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ نہ صرف یہ ضروری ہے کہ نبوت بالآخر ایک نبی کی ذات میں اپنے کمال پر پہنچے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ اس کامل نبی کا نظامِ تصورات اور اس کی عملی زندگی کی مثال بعد کے تمام ارتقاء کی بنیاد ہو یعنی اُس نبی کی ذات ارتقاء کے راستہ کی ایک ایسی منزل ہو جس سے ادھر اُدھر ہٹ کر آگے بڑھنا نوعِ بشر کے لیے ممکن نہ ہو۔

 

ختم نبوت ارتقاء کے لوازمات میں سے ہے

اگر آخر کار نبوت کسی ایک شخصیت پر ختم نہ ہو جائے تو ارتقاء جاری نہیں رہ سکتا۔ فرض کیجیے کہ ایک نبی کا تعلیم کیا ہوا نظامِ تصورات اس قدر کامل ہے کہ اس کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے کہ نوعِ بشر کو متحد کر سکے اور وہ فی الواقع نوعِ بشر کو متحدکر بھی دیتا ہے۔ پھر اگر انبیاء کا آنا ختم نہ ہو تو نئے نئے نظام ہائے تصورات ماننے والی نئی نئی جماعتیں نئے نئے اسماء اور القاب کے ساتھ وجود میں آتی رہیں گی ہر نبی جو آئے گا نوعِ بشر کے ایک حصہ کو کاٹ کر اپنے ساتھ شامل کرے گا۔ اور پھر دوسرا بھی ایسا ہی کرے گا اور تیسرا بھی۔ اس طرح سے زندگی انسان کی اس وحدت کو ‘جو وہ صدیوں کے ارتقائی عمل کے بعد قائم کرنے میں کامیاب ہوئی ہو گی‘ خود اپنے ہی ہاتھوں سے پارہ پارہ کردے گی اور اپنے جذبۂ حسن کے خلاف جو نوعِ انسانی کی وحدت چاہتا ہے اپنی کامیابیوں کو خود ہی برباد کر دے گی۔ ظاہر ہے کہ یہ نتیجہ درست نہیں لہٰذا ہم باور کرنے پر مجبور ہیں کہ ایک کامل نبی کا ظہور اور اُس پر نبوت کا اختتام اور انقطاع ارتقاء کے مقاصد کے لیے از حدضروری ہے۔

 

کائنات عین ذاتِ حق نہیں

آخر میں اس بات کی تصریح کر دینا بھی ضروری ہے کہ اس حقیقت کو کائنات کی خود شعوری انسان کی خود شعوری میں جلوہ گر ہوئی ہے اور ہو رہی ہے ۔ یہ عقیدہ لازم نہیں کہ کائنات یا انسان حق تعالیٰ کی ذات کا عین ہے نہ جزوی طور پر اور نہ کلی طور پر اور نہ ہی اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حق تعالیٰ کی ذات کا ارتقاء ہو رہا ہے۔ کائنات کیا ہے تخلیق میں خود شعوری عالم کے آدرش کا تدریجی ظہور ہے۔ اس کی حقیقت خود شعوری عالم کا آدرش ہے جو نہ اُس سے جدا ہے اور نہ اُس کا عین۔ چونکہ ہم اس طریق سے سوچنے کے عادی ہیں کہ یا کوئی چیز کسی دوسری چیز کا عین ہو گی اوریا اس سے جدا ہو گی لہٰذا ہم اس طرزِ خیال کو خود شعوری اور اس کی تخلیق پر بھی چسپاں کرتے ہیں۔

 

ذاتِ حق تغیر سے بالا ہے

لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہم اس طرزِ فکر کو خود شعوری اور اس کی تخلیق (جو اُس کے آدرش کے ابراز اور اظہار کا دوسرا نام ہے) کے باہمی تعلق کو سمجھنے کے لیے کام میں نہیں لا سکتے۔ خود شعوری کا آدرش اُس کا عین نہیں ہوتا لیکن اُس سے جدا بھی نہیں ہوتا۔ خود شعوری کا آدرش خود شعوری سے الگ کوئی وجود نہیں رکھتا ۔ لیکن خود شعوری اُسے اپنا غیر سمجھتی ہے اور یہ سمجھ کر ہی اس کا قرب ڈھونڈتی ہے اور اس کی جستجو اور تخلیق کرتی ہے۔ بعض لوگوں نے برگسان کے تتبع میں‘ جس نے حقیقت ابدی کو تغیر سے موسوم کیا ہے ‘یہ سمجھا ہے کہ نعوذ باللہ خدا بھی تغیر پذیر ہے۔ چنانچہ یہ لوگ قرآن کی اس آیت کو:

 

{کُلَّ یَوْم ھُوَ فِیْ شَاْن (۲۹)} (الرحمٰن)

 

’’وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔‘‘

 

اُس کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں لیکن دراصل تغیر یا ارتقاء خالق کا تغیر یا ارتقاء نہیں ہوتا بلکہ خالق کے آدرش کے ظہور یا اُس کی نمود کا تغیر یا ارتقاء ہوتا ہے اورآیت کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی تخلیق ہر روز ایک نئی شان میں ہوتی ہے۔

 

مصور اور تصویر کی مثال

خالق اور مخلوق کے باہمی تعلق کو بالوضاحت سمجھنے کے لیے ہمیں ایک انسانی مصور اور اس کی تصویر کے باہمی تعلق پر غورکرنا چاہیے کیونکہ نفس انسانی کے اوصاف کے اندر ہمیں خدا کے اوصاف کا سراغ ملتا ہے۔

 

نفس انسانی کلید معرفت حق تعالیٰ ہے

 

{وَفِیْ اَنْفُسِکُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ (۵۱)} (الذّٰریٰت)

 

’’اور تمہاری جانوں میں بھی خدا کی معرفت کے نشانات موجود ہیں کیا تم دیکھتے نہیں؟‘‘

 

اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا ہے:

 

{اِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ آدَمَ عَلٰی صُوْرَتِہٖ} (صحیح بخاری و مسلم)

 

’’بے شک اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا ہے۔‘‘

 

ظاہر ہے کہ یہاں صورت سے مراد جسمانی صورت نہیں بلکہ روحانی صورت ہے لہٰذا حدیث کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی فطرت خدا کی فطرت کا ایک نمونہ ہے۔ قرآن کی اس آیت میں بھی اسی مطلب کو بیان کیا گیا ہے:

 

{وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ}  (الحجر:۲۹)

 

’’اور میں اپنی روح اس میں پھونک دوں۔‘‘

 

اللہ تعالیٰ کائنات میں اپنی روح پھونکتا ہے تو وہ اس کی صفات کا مظہر ہوتی جاتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو ایک مصور بھی کہا ہے :

 

{وَصَوَّرَکُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَکُمْ}  (التغابن:۳)

 

’’وہ ذات پاک ہے جس نے تمہاری تصاویر کو خوبصورت بنایا۔‘‘

 

تصویر سے مراد فقط ظاہری شکل ہی نہیں بلکہ روحانی ساخت بھی ہے اور وہ انسان کی فطرت ہے جو سب انسانوں میں یکساں ہے اور جس کے متعلق ایک اور مقام پر یوں ارشاد فرمایا گیا ہے :

 

{لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ (۴)} (التین)

 

’’ہم نے انسان کو اچھی ساخت میں بنایا ہے۔‘‘

 

تخلیق جسے انسان کی صورت میں بعض وقت ہنر کا نام دیا جاتا ہے خود شعوری کا خاصہ ہے جو انسان اور خدا دونوں میں موجود ہے لیکن اللہ تعالیٰ احسنُ الخالقین یعنی تمام خالقوں میں سے بہترین خالق ہے۔

 

انسان کا ہنر (Art)خدا کی صفت خالقیت کا ایک عکس ہے اور اگر ہم انسانی ہنر کے نفسیات کا بغور مطالعہ کریں تو ہمیں خدا کی صفتِ خالقیت کی معرفت میں کسی قدر مدد ملتی ہے۔

 

آزادانہ عمل تخلیق کی شرط ہے

جب ایک بڑا ہنرکار (Artist) ایک تصویر بناتا ہے تو اس کے دل میں تصویر کا ہوبہو نقشہ موجود نہیں ہوتا۔ اگر وہ ایک مخصوص نقشہ کو ذہن میں لے کر اپنی تخلیق کی ابتدا کرے تو وہ ایک ہنرکار نہیں ہو گا بلکہ ایک نقال ہو گا۔ تخلیق ایک آزادانہ فعل ہے جس کا محرک حسن کی محبت کے سوائے اور کچھ نہیں ہوتا۔ ہنرکار کے دل میں یکایک کسی نامعلوم جذبۂ حسن کا شدید احساس اس طرح سے پیدا ہوتا ہے جیسے سمندر میں جوار بھاٹا اور پھر وہ اپنی تخلیق میں اس کا اظہار اور تحقق(Realization)کرنا چاہتا ہے۔ وہ کسی ایسی چیز کے حسن کو محسوس کرتا ہے جو اُس کے ذہن میں ہے۔

 

مصور کا ذہن تصویر کی اصل ہے

اور جو ابھی معرضِ وجود میں نہیں آئی لہٰذا وہ اسے معرضِ وجود میں لانا چاہتا ہے ۔ اس حسن کی محبت کے معنی یہ ہیں کہ وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ اُس سے جدا ہے۔ گویا وہ اُس سے الگ کوئی چیز ہے حالانکہ وہ اُسی کا ایک تصور ہے اور اُس سے الگ نہیں۔ تاہم محبت اور جدائی کا شدید احساس مصور کو تحریک کرتا ہے کہ وہ اس کی جستجو کرے اور اُس کے قریب پہنچے۔

 

تصویر کا ارتقاء

مصور اپنے تصورِ حسن کو اپنا نصب العین(Ideal)بناتا ہے اور اُس کی جستجو کرتا ہے۔ اُس کی جستجو ایک آغاز اور ایک انجام رکھتی ہے اور ایک ارتقائی تدریجی عمل کی صورت اختیار کرتی ہے۔ محبت کا اِمتدادیا اُبھار ‘جو حسن کی کشش کی وجہ سے جوار بھاٹا کی طرح اُس کی خود شعوری میں پیدا ہوتا ہے‘ایک زبردست رو(Curent)کی طرح بہہ نکلتا ہیجیسے کہ ایک فوارہ کا پانی اپنے اندرونی دباؤ سے خود بخود بہنے لگتا ہے(۱) اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مصور کا احساسِ محبت تصویر کی تدریجی تخلیق میں اپنی تشفی پانے لگتا ہے۔

 

مبداء کی طرف تصویر کا رجوع

جوں جوں تصویر تکمیل کے قریب یعنی ہنرکار کے اندرونی تصور حسن کے قریب پہنچتی جاتی ہے اس کا احساسِ حسن بھی اپنی تشفی کے کمال کو پہنچتا جاتا ہے ۔جب اس کا احساسِ حسن اپنا پورااظہار اور پورا اطمینان پا لیتا ہے تو تصویر اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے۔ اپنے ارتقاء کی ہر منزل پر وہ اسی حد تک مکمل ہوتی ہے جس حد تک کہ وہ مصور کے تصور حسن یا آدرش کے قریب ہوتی ہے۔ تصویر کے مدارجِ اظہار ہنرکار کی تخلیقی فعلیت کے مدارج ہوتے ہیں۔

 

تصویر کے ارتقاء کا باعث

جب خطوط اور نقوش صفحۂ قرطاس پر پھیلنے لگتے ہیں تو ہنرکار کاجذبۂ محبت یا احساسِ حسن انہیں زیادہ پیچیدہ اور زیادہ منظم کرتا جاتا ہے۔ خطوط اور نقوش مصور کے احساسِ حسن یا جذبۂ محبت کو منعکس کرتے ہیں۔ یہی جذبہ یا احساس انہیں پیدا کرتا ‘پھیلاتا‘ زیادہ منظم کرتا اور اپنے مقاصد کے مطابق انہیں ڈھالتا اور بناتا اور ارتقاء کے سارے مدارج سے گزار کر کمال تک پہنچاتا ہے۔ اس کے بغیر ان نقوش کا وجود ممکن نہیں ہوتا گویا مصور کا جذبہ یا احساس بعض ممکنات کا حامل ہے جو تصویر کے خطوط اور نقوش میں اپنا ظہور پاتی ہیں۔

 

نفرت ارتقاء کی ایک قوت ہے

جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے محبت کا دوسرا پہلو نفرت ہے۔ ہم جس چیز سے محبت کرتے ہیں اس کے نقیض سے نفرت کرتے ہیں ۔ لہٰذا مصور کی تخلیق میں محبت اور نفرت دونوں اپنا کام کرتے ہیں۔ مصور ان نقوش کو پسند کرتا ہے جو اس کے اندرونی تصور حسن سے مطابقت رکھتے ہیں اور ان نقوش کو ناپسند کرتا ہے جو اس سے مطابقت نہیں رکھتے۔ تاہم اس کے دل کی گہرائیوں سے پسندیدہ اور ناپسندیدہ دونوں قسم کے نقوش ابھرتے ہیں۔ لیکن مصور اپنے اختیار کو کام میں لاتا ہے اور پسندیدہ کو قبول کرتا اور ناپسندیدہ کو ردّ کرتا ہے۔ اس کی ساری تخلیقی فعلیت(Creative Activity) درحقیقت اسی اختیار کے استعمال کا نام ہے۔ ہر تخلیقی فعل کی اصل رد و قبول کا عمل ہوتا ہے ہر خالق پسندیدہ کو اختیار کرتا ہے اور ناپسندیدہ کو ردّ کرتا ہے اوراسی لیے وہ خالق کہلاتا ہے تخلیق خواہ انسان کی ہو یا خدا کی کسی محبوب کی تلاش کا نام ہے۔

 

ردّ و قبول کے بغیر تخلیق نہیں ہوتی

اگر مصور کوئی ایسے نقوش صفحۂ قرطاس پر ثبت کر دے  جو اس کے بہترین مقاصد سے مطابقت نہ رکھتے ہوں تو وہ اپنے تصور حسن کے معیار کے ساتھ پرکھ کر انہیں محو کر دیتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مصور ان تمام غلط نقوش کو جنہیں وہ خیال میں لاتا ہے صفحۂ قرطاس پر ثبت نہ کرے لیکن وہ اُس کے دل میں موجود ہوتے ہیں اور تخلیقی فعل کے وقت اس کے سامنے آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک فیصلہ کرتا ہے اور ایک انتخاب (Selection) کو کام میں لا کر اُن کو ردّ کرتا ہے اور اس کی جگہ دوسروں کو چنتا ہے۔ یہی وہ عمل ہے جس سے اُس کی تخلیقی فعلیت ممکن ہوتی ہے جب تک محبت اور نفرت اور جمال و جلال دونوں اپنا کام نہ کریں کوئی تخلیق اور کوئی ارتقاء ممکن نہیں ہوتا۔

 

مصور کا ضابطۂ اخلاق

اس تجزیہ سے معلوم ہوا کہ مصور اپنی تخلیق کے دوران میں ایک ضابطۂ اخلاق کی متابعت کرتا ہے جو اس کے جذبۂ حسن یا اُس کے آدرش سے پیدا ہوتا ہے ۔ یہی نہیں بلکہ وہ اس کے دوران میں اپنی تمام جمالی اور جلالی صفات کا اظہار کرتا ہے کیونکہ محبت کے اظہار سے خود شعوری کی تمام جمالی صفات کا اظہار اور نفرت کے اظہار سے اس کی تمام جلالی صفات کااظہار ہوتا ہے۔

 

خدا اور انسان کی تخلیق کا فرق

انسان کی تخلیق کی صورت میں تو یہ ممکن ہے کہ بعض خطوط و نقوش صفحۂ قرطاس پر نہ آئیں اور خیال میں پیدا ہونے کے بعد رد کردیے جائیں۔ لیکن خدا کی تخلیق کی صورت میں ایسا ہوتا ہے کہ تمام نقوش پسندیدہ ہوں یا ناپسندیدہ اور بالآخر خدا کے آدرش یعنی مقاصد ارتقاء کے لیے کارآمد ہوں یا بیکار منصۂ شہود پر جلوہ گر ہوتے ہیں کیونکہ خدا کا خیال کرنا ہی کسی چیز کو پیدا کرتا ہے لیکن کائنات کی تخلیق کے ناپسندیدہ نقوش قائم نہیں رہتے اور چونکہ وجود میں آنے کے بعد انہیں ارتقاء کے مقاصد کے لیے کام میں نہیں لایاجاتا اور اُن کے عوض میں دوسرے خطوط کو کام میں لایا جاتا ہے ۔ لہٰذا وہ رفتہ رفتہ مٹ جاتے ہیں یاکائنات کی تصویر کے پس منظر کے طور پر موجود رہتے ہیں۔

 

{یَمْحُوا اللّٰہُ مَا یَشَآئُ وَیُثْبِتُ} (الرعد:۳۹)

 

’’اللہ جس چیز کو چاہتا ہے مٹاتا ہے اور جسے چاہتا ہے قائم رکھتا ہے۔‘‘

 

اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ عمل ارتقاء میں ایک پہلو تخریب اور بربادی کا کیوں ہے۔ یہ پہلو درحقیقت کائنات کی تصویر کی تکمیل اور تعمیر کے لیے ضروری ہے اور اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے باغ کا مالی ان پودوں کو کاٹ دے جو باغ کی عام اسکیم کے مطابق نہ ہوں اور مفید مطلب پودوں کی نشوونما کے راستہ میں ایک غیر ضروری رکاوٹ بن جائیں۔

 

{وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيْثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيْثَةِۨ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ    (۲۶)}(ابراھیم)

 

’’ایک نابکار درخت کی طرح جو زمین سے اکھاڑ کر پھینک دیاجاتا ہے اور جسے کوئی پائیداری حاصل نہیں ہوتی۔‘‘

 

مصور کی صفات کا عکس

جوں جوں تصویر مصور کے آدرش کے قریب پہنچتی جاتی ہے وہ مصور کی شخصیت اور اُس کی صفات کو زیادہ سے زیادہ منعکس کرتی جاتی ہے۔ اگرچہ تصویر مصور سے الگ ہے لیکن ایک نقطۂ نظر سے وہ مصور سے الگ نہیں۔ کیونکہ وہ مصور کی شخصیت سے ‘جہاں وہ پہلے موجود ہے ‘نمودار ہو رہی ہے۔ مصور اسے اپنے اندر سے نمودار کر رہا ہے اور ہم مصور کو یعنی اس کی صفات اور اس کے کمالات کو تصویر کے اندر دیکھ سکتے ہیں۔مصور کی خود شعوری اپنے آدرش کو اپنا ہی ایک جزو سمجھتی ہے یہی سبب ہے کہ اُس سے جدائی محسوس کرتی ہے ‘اس کی کشش رکھتی ہے اور اس کے قریب آنا چاہتی ہے۔کشش کا مطلب خواہش تکمیل کے سوائے اور کیا ہے گویا مصور کی خود شعوری تصویر کی تخلیق کے عمل میں اپنے آپ کو ہی پیدا کرتی ہے ۔ اُس کی خود شعوری کا تخلیقی عمل ایک ایسے تیر کی طرح ہے جو کمان سے چھوٹا ہو لیکن پھر کمان ہی کی طرف واپس آ رہا ہو ۔ مصور کا آدرش ‘جس کا حصول تصویر کی تکمیل کی صورت اختیار کرتا ہے‘ بظاہرمصور سے باہر ہوتا ہے لیکن درحقیقت اس سے باہر نہیں ہوتا بلکہ اس کے اندر ہوتا ہے۔ تصویر اندر سے آتی ہے اور جوں جوں مصور کے اندرونی تصور حسن کے مطابق ہوتی جاتی ہے وہ اپنے منبع کی طرف لوٹتی جاتی ہے اور جس قدر اپنے منبع کے قریب ہوتی ہے ‘ اسی قدر اپنے خالق کے اوصاف سے حصہ لیتی ہے‘ اسی قدر کامل اور ترقی یافتہ ہوتی ہے اور ہنرکار کے اوصاف کا آئینہ بنتی جاتی ہے۔

 

تصویر کا عمل

اوپر میں نے عرض کیا تھا کہ مصور بعض نقوش کو ناپسند کرتا ہے اور بعض کو پسند کرتا ہے۔ لیکن ایک لمحہ کے لیے فرض کر لیجیے کہ تصویر زندہ ہے اور اسے کوئی دوسرا نہیں بنا رہا بلکہ وہ خود بخود بن رہی ہے ۔ ہمیں اس پر نقوش پیدا ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن مصور کا وجود‘ ا س کا جذبۂ حسن ‘ اس کا ہاتھ‘اس کا قلم اور قلم کی نوک ‘جو دراصل مل کر ان نقوش کو پیداکر رہے ہیں‘ ہماری نظروں سے اوجھل ہیں۔ پھر ہمیں نظر آئے گا کہ تصویر خود اپنے کمال کو پہنچنا چاہتی ہے اور اگرچہ کئی قسم کے نقوش صفحۂ قرطاس پر نمودار ہوتے ہیں۔ لیکن تصویر بعض نقوش سے نفرت کرتی ہے اور بعض سے کشش رکھتی ہے۔ وہ ان نقوش کو پسند کرتی اور جذب کرتی ہے جو اسے کمال پر پہنچائیں اور ان نقوش کو ناپسند کرتی اور دفع کرتی ہے جو اسے خراب کر دیں۔

 

تصویر کا جذبۂ حسن

تصویر کا یہ عمل ‘یہ رد و قبول‘ یہ جذبہ و دفع اور محبت و نفرت کے یہ جذبات اُس کی زندگی‘ آزادی اور خود شعوری کا پتہ دے رہے ہوں گے۔ ہم سمجھیں گے کہ تصویر بھی ایک جذبۂ حسن رکھتی ہے اور اس کی تسکین کے لیے بے تاب ہے اور اُس کی تشفی کے لیے محبت اور نفرت کے جذبات اور ان دونوں کے ماتحت اپنی تمام جمالی اور جلالی صفات کا اظہار کرتی ہے اور جوں جوں اپنے کمال کے قریب پہنچ رہی ہے ‘اُس میں زندگی‘ آزادی اور خود شعوری کے اوصاف ترقی کر رہے ہیں۔

 

تصویر کا آدرش

اب اگر ہمیں معلوم ہو جائے کہ درحقیقت تصویر کو بنانے والی شخصیت کوئی اور ہے توہمیں معلوم ہو جائے گا کہ وہی شخصیت تصویر کا آدرش ہے اور تصویر اسی کی جستجو کر رہی ہے اور جس قدر اس کی جستجو میں کامیاب ہوتی جاتی ہے اپنے کمال کے قریب پہنچتی جاتی ہے۔

 

تصویر کی خود شعوری

اور تصویر کی زندگی‘ آزادی اور خود شعوری کے اوصاف درحقیقت اسی شخصیت کی زندگی ‘آزادی اور خود شعوری سے ماخوذ ہیں۔ تصویر اور مصور میں کئی باتیں مشترک ہیں۔ دونوں کا آدرش ایک ہے اور وہ مصور کا تصورِ حسن یا آدرش ہے۔ دونوں کے قوانین عمل اور اصولِ اخلاق ایک ہیں ‘جس حد تک تصویر اپنا کمال چاہتی ہے ‘اُس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ مصور کے آدرش کو چاہے اور اس کے قوانین عمل یا اصولِ اخلاق پر چلے۔

 

تصویر مردہ نہیں

اب اس بات پر غور کیجیے کہ تصویر فی الواقع بے جان نہیں کیونکہ اصل تصویر مصور کی خود شعوری میں ہے جو زندگی ہے۔ یہی تصویر ہے جو اپنے آپ کو باہر لانا چاہتی ہے اور لا رہی ہے۔ وہ ہنر کار کی زندگی سے زندگی اور اس کی محبت سے محبت حاصل کرتی ہے۔ اس کے اندر بھی ایک جذبۂ حسن ہے جو مصور کے جذبۂ حسن سے ماخوذ ہے۔ وہ اس جذبۂ حسن کی وجہ سے ایک آدرش رکھتی ہے جو مصور کا آدرش ہوتا ہے وہ عمل کرتی ہے اور ایک ضابطۂ اخلاق پر چلتی ہے اور صفات جمال و جلال کا اظہار کرتی ہے۔

 

تصویر اور مصور کا باہمی تعاون

ردّ و قبول سے کام لے کر ارتقاء کی منزلیں طے کرتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو اپنے ہی سے پیدا کرتی ہے اور اس وقت اپنے کمال کو پہنچتی ہے جب ہنرکار کے تصور حسن کے عین مطابق ہو جاتی ہے ۔ تاہم تصویر کی زندگی کی حقیقت اور اس کی زندگی کی تمام تگ و دو کی حقیقت خود مصور ہی ہے۔

 

خدا اور انسان کا تعلق

انسان اور خدا کے باہمی تعلق کی صورت بھی ایسی ہی ہے جس طرح سے تصویر نہ مصور کا عین ہے اور نہ اُس سے الگ ہے اسی طرح سے کائنات (انسان) نہ خدا کا عین ہے اور نہ اس سے الگ ہے جس طرح تصویر کے ارتقاء کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ وہ مصور کے آدرش کے مطابق ہو جائے اس طرح سے انسان کے ارتقاء کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ وہ خدا کے آدرش کے مطابق ہو جائے۔ تصویر جب ارتقاء کرتی ہے تو مصور کی صفات سے زیادہ سے زیادہ حصہ لیتی ہے اور اس کی شخصیت کو زیادہ سے زیادہ منعکس کرتی ہے۔

 

تصویر کے اندر مصور کا نفخ روح

گویا تصویر کو ارتقاء کے مدارج سے گزارتے ہوئے مصور اپنی روح اس میں پھونکتا ہے۔ اسی طرح سے انسان جب ارتقاء کرتا ہے تو خدا کی صفات سے زیادہ سے زیادہ حصہ لیتا ہے اور اُس کی شخصیت کو اپنی ذات کے اندر زیادہ سے زیادہ منعکس کرتا ہے۔ انسان کو ارتقاء کے مدارج سے گزارتے ہوئے اللہ تعالیٰ اپنی روح انسان میں پھونکتا ہے:

 

{فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ } (الحجر:۲۹)

 

’’جب میں اسے مکمل کر لوں اور اپنی روح اُس میں پھونک دوں۔‘‘

 

انسان کے ارتقاء کی شرائط

خدا اور انسان کا آدرش ایک ہی ہے اور وہ انسان کامل ہے اور لہٰذا ان دونوں کا قانونِ عمل یا ضابطۂ اخلاق بھی ایک ہی ہے اور وہ انسان کامل کے نصب العین سے پیدا ہوتا ہے‘ تخلقوا باخلاق اللّٰہ کے معنی یہی ہیں۔ اگر ہم ارتقاء کے راستہ پر آگے بڑھنا چاہیں تو ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم خدا کے آدرش کو اپنا نصب العین بنائیں اور خدا کے قوانین عمل کے مطابق عمل کریں۔ جس طرح سے تصویر کا ارتقاء تصویر اور مصور دونوں کے لیے اپنے آپ کا تحقق(Self-realization)اور اپنے آپ کی جستجو ہے۔ اسی طرح سے کائنات کا ارتقاء انسان اور خدا دونوں کے لیے اپنے آپ کا تحقق اور اپنے آپ کی جستجو ہے۔ خدا کے تصور حسن نے کائنات کو پیدا کیا ہے‘ جس طرح مصور کا تصور حسن تصویر کو پیدا کرتا ہے ۔ انسان جو ارتقاء کی منزلیں طے کر رہا ہے‘ ایک معنی ہے جو کائنات کی خود شعوری کے اندر پوشیدہ ہے جس طرح سے ارتقاء کرتی ہوئی تصویر ایک معنی ہے جو مصور کی خود شعوری کے اندر پوشیدہ ہے ‘وہ تصویر جو خالق کے ذہن کے اندر ہے ابھی تخلیق کی صورت میں اپنے کمال کو نہیں پہنچی۔ جوں جوں ہم ارتقاء کر رہے ہیں ہم اس تکمیل میں خد ا سے تعاون کرنے کے لیے زیادہ مستعد ہوتے جا رہے ہیں۔ خالق کی تخلیقی فعلیت سے جو اس کے جذبۂ محبت کا تتبع کرتی ہے اور جذب اور دفع کی قوتوں میں ظاہر ہوتی ہے کائنات ایک مصور کے ہاتھوں سے ارتقاء کرنے والی تصویر کی طرح بتدریج ارتقاء کر رہی ہے اور ایک دن ارتقاء کے کمال پر پہنچے گی۔

 

قرآن اور علمِ جدید (یونی کوڈ فارمیٹ)