قرآن اور علمِ جدید (یونی کوڈ فارمیٹ)
حقیقت ِ ارتقاء
ایک مسلّمہ علمی حقیقت
جہاں تک نظریہ کے حصہ اوّل یعنی محض ارتقاء کا تعلق ہے وہ دنیا کے علمی مسلّمات میں شمار ہوتا ہے اور آج حکماء میں سے بمشکل کوئی شخص ایسا ہو گا جو اس سے اتفاق نہ رکھتا ہو اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈارون کے زمانہ سے لے کر اب تک اس کے خلاف ایک بھی بات معلوم نہیں ہو سکی بلکہ اس کے برعکس بے شمار دلیلیں اور شہادتیں اس کے حق میں پیدا ہوئی ہیں۔ یہ شہادتیں اور دلیلیں بالخصوص معدومیات نسبتی عضویات اور جنینیات سے تعلق رکھتی ہیں۔
مشاہدہ کی تائید
اپنے حق میں ٹھوس علمی دلائل و براہین رکھنے کے علاوہ ارتقاء کا تصور ایک سیدھی سی بات ہے جو ہمارے مشاہدہ کے عین مطابق ہے آج بھی ہماری آنکھوں کے سامنے ہر چیز میں ارتقاء ہو رہاہے کوئی چیز یکایک وجود میں نہیں آتی اور ہر چیز بتدریج پیدا ہوتی ہے۔ لہٰذا تعجب کیا ہے کہ جو چیزیں اس وقت موجود ہیں وہ بھی ماضی کے ادوار میں ایک ارتقائی اور تدریجی عمل سے وجود میں آئی ہوں اور پھر یہ تصور ہمارے اس مسلّمہ سے بھی مطابقت رکھتا ہے کہ قدرت کے اندر ایک قانونِ تسلسل کام کر رہا ہے۔ قدرت کے عمل میں کہیں کوئی خلانہیں کوئی چیز اچانک یا بغیر سبب کے وجود میں نہیں آتی۔ ہر چیز کی موجودہ حالت ایک پہلی حالت کا نتیجہ ہے اور وہ پہلی حالت کسی اور حالت کا نتیجہ تھی۔ یہاں تک کہ ہم کائنات کی ابتداء پر جا پہنچتے ہیں۔ ڈارون کے نظریے کے اس حصہ نے کوئی نئی بات پیش نہیں کی بلکہ لوگوں کے مشاہدہ کے نتائج کو عقلی سہارا دیا ہے اور ان کو ذرا اور وسعت دے دی ہے اور لوگوں کی توجہ کو زیادہ شدت کے ساتھ حقیقت ِ ارتقاء کے عقیدہ کی طرف مبذول کر دیا ہے۔
عالمگیر قبولیت
یہی سبب ہے کہ اس عقیدہ کو ایک عالمگیر قبولیت حاصل ہو گئی ہے۔ ڈارون کے اس نظریہ کا ایک اثر یہ ہوا کہ اب حکماء عام طور پر سمجھنے لگے ہیں کہ ارتقاء فقط انواعِ حیوانات کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ حیوانات کے وجود میں آنے سے پہلے کی مادی کائنات بھی جو اس قابل تھی کہ اس میں زندگی نمودار ہو سکے ایک ارتقائی عمل سے اپنی ترقی یافتہ حالت کو پہنچی تھی۔
مادی ارتقاء
چنانچہ انہوں نے اراضیات ‘ فلکیات‘ کیمیا اور طبعیات کے حقائق کی روشنی میںابتدائے کائنات سے لے کر پہلے زندہ حیوان کے نمودار ہونے تک کائنات کے مادی ایک تصور قائم کیا ہے جو حیاتیاتی دورِ ارتقاء کے بارہ میں ڈارون کے تصور سے بھی زیادہ مدلل ہے۔
سالمات اور عناصر
مختصر طو رپر ان سائنس دانوں کا خیال یہ ہے کہ سب سے پہلے برقی قوت کی لہریں ایک خاص قسم کی روشنی کی صورت میں تھیں‘ جنہیں کائناتی شعاعیں کہا جاتا ہے ۔ اس روشنی کی لہریں فضا میں پھیلی ہوئی تھیں اور خود بخود متحرک تھیں۔یہ ایک ہم رنگ اور یکساں قسم کا مادہ تھا جس سے بعد میں تمام کائنات کا ظہور ہوا۔ پھر ان لہروں میں جابجا گرہیں بن گئیں جو مثبت اور منفی قسم کے برقی احاد کی صورت میں تھیں اور جنہیں ہم الیکٹران اور پروٹان کہتے ہیں۔ پھر یہ برقی احاد اپنی باہمی کشش سے ایک دوسرے کے ساتھ مل گئے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے چھوٹے چھوٹے گروہ بن گئے‘ جنہیں ہم سالمات کہتے ہیں۔ سالمات اپنے الیکٹرانوں اور پروٹانوں کی ترتیب اور تعداد کے لحاظ سے چورانوے مختلف قسموں میں بٹ گئے۔ ہر نمونہ کے سالمات آپس میں مل کر کیمیاوی عناصر کے ذرات بن گئے۔ بعض کیمیاوی ذرات میں سالمات کی تعداد کم ہے اور بعض میں کئی سو تک ہے۔
دھوئیں کا بادل
شروع میں مادہ کے ذرات دھوئیں یا گیس کے ایک بہت بڑے گھومتے ہوئے بادل کی طرح تھے۔ یہ بادل اتنا بڑا تھا کہ اس کی اندرونی کششِ ثقل اسے سالم نہیں رکھ سکتی تھی لہٰذا وہ مختلف ٹکڑوں میں ‘جنہیں بنولی کہا جاتا ہے ‘بٹ گیا۔ہر بنولا یا گیس کا بادل اپنے محور کے گرد گھوم رہا تھا اور اتنا بڑا تھا کہ اس کی کشش ثقل اس کے اجزاء کوبکھرنے نہیں دیتی تھی کیونکہ اگر اس کا حجم کم ہوتا تو کشش ثقل کی قلت کی وجہ سے اس کے اجزاء بکھر جاتے اور اگر زیادہ ہوتا تو خود بخود تقسیم ہو کر چھوٹے بنولی میں بٹ جاتا۔ ان بادلوں کے اجزاء آپس میں اس طرح سے جڑے ہوئے نہیں تھے جس طرح سے ایک سیال یا ٹھوس جسم کے اندر ہوتے ہیں بلکہ وہ فقط ایک دھوئیں کی شکل میں تھے اور ایک دوسرے سے الگ تھلگ تھے لیکن بادل کی مجموعی کشش ثقل کی وجہ سے اس کے اندر رہتے تھے۔ سائنس دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ یہ زمانہ ‘جب کائنات دھوئیں کے بادلوں کی صورت میں تھی‘ آج سے دو ملین ملین سال پہلے کا ہے۔
ستاروں کا ظہور
ابتداء میں ہر بنولا کی شکل گول تھی اور اس کی محوری حرکت کی رفتار نہایت کم تھی تاہم اس کے اندر اجزائے مادہ ایک بلند درجہ حرارت کی وجہ سے نہایت زور کے ساتھ ایک غیر منظم حرکت کر رہے تھے۔ اور ان سے روشنی اور حرارت نکل کر فضا میں پھیل رہی تھی اس کا مطلب یہ نہیں کہ حرارت کے اس انتشار سے وہ ٹھنڈے ہو رہے تھے بلکہ اس کے برعکس اس انتشارِ نور کے باوجود ان کا درجہ حرارت بڑھتا جاتا تھا کیونکہ ان کے اندرونی اجزاء ایک دوسرے کے قریب ہوتے جاتے تھے اور لہٰذا وہ سکڑتے جاتے تھے اور ان کی گردش کی رفتار بڑھتی جاتی تھی۔ رفتہ رفتہ گردش کی تیزی کی وجہ سے ان سے خطِ استوا کے قریب مادہ باہر نکلنے لگا اور ٹوٹ ٹوٹ کر ستاروں کی شکل اختیار کرنے لگا۔ ہر ستارہ نے اپنی الگ زندگی اختیار کر لی۔ اس طرح ہر بنولا نے ستاروں کا ایک سلسلہ پیدا کیا۔ ہمارا سورج اس بنولا سے نکلا ہے جسے اب کہکشاں کا نام دیا گیا ہے بعض ستاروں سے افشائے نور کی وجہ یہ ہے کہ ان کے اندر سالمات کثرت سے ٹوٹ کر فنا ہوتے ہیں اور اس عمل سے شدید حرارت پیدا ہوتی ہے جس کا بیشتر حصہ فضا میں بکھر جاتا ہے۔
نظامِ شمسی
کسی وقت سورج کے پاس سے ایک اور بڑے ستارے کا گزر ہوا اور اس کی کششِ ثقل کے اثر سے اس میں سے مادہ کے بڑے بڑے گیند ٹوٹ کر الگ ہو گئے اور سیارے بن گئے۔ ان سیاروں میں سے بعض اتنے چھوٹے تھے کہ وہ آسانی سے ٹھنڈے ہو گئے۔ ان کے مادی اجزاء ایک دوسرے سے مل کر پہلے ایک سیال بنے اور بعد میں ٹھوس ہو تے گئے۔ ان چھوٹے ٹھنڈا ہونے والے سیاروں میں ایک زمین ہے بڑے ستارے جو ابھی گیس کی حالت میں ہوتے ہیں اکثر ٹوٹ کر دو بن جاتے ہیں لیکن بعض وقت ایک چھوٹا ستارہ بھی سیال حالت میں پہنچ جاتا ہے اور اپنے ایک ٹکڑے کو الگ کر دیتا ہے اور پھر یہ ٹکڑا ایک چاند کی صورت میں ستارے کے گرد گھومنے لگتا ہے ۔ ہماری زمین کا چاند اسی طرح اس سے الگ ہوا ہے۔
زمین کا ارتقاء
آج سے قریباً پانچ چھ ارب سال پہلے زمین ایک گیس کی صورت میں تھی۔پھر سیال ہوئی اور پھر اوپر سے ٹھوس ہو گئی۔ اس کے ٹھوس اور ٹھنڈا ہونے کے دو نتائج بیک وقت رونما ہوئے ایک تو یہ کہ زمین سخت ہو کر اس قابل ہو گئی کہ ایک مناسب دور میں اس پر حیوانات اپنا مستقر و مقام بنا سکیں اور دوسرے یہ کہ اس پر نشیب و فراز پیدا ہوگئے جنہیں ہم پہاڑ‘ جھیلیں اوروادیاں کہتے ہیں۔
پہلے پہل زمین بالکل خشک تھی اور اس پر جھیلوں‘ سمندروں اور دریاؤں کا نام و نشان نہیں تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین پر حرارت اس قدر زیادہ تھی کہ اس کے بخارات آبی شکل میں آنے نہیں پاتے تھے۔ بعد میں جب وہ کچھ ٹھنڈی ہوئی تو قطراتِ آبی‘ پانی کی صورت میں زمین پر برسنے لگے لیکن برستے ہی بخارات میں تبدیل ہوجاتے تھے۔
دریا اور سمندر
مدت کے بعد زمین کی حرارت اس قدر کم ہو گئی کہ اس پر پانی جمع ہونے لگا اور سمندر اور جھیلیں پیدا ہو گئیں۔ سمندر کے کنارے کیچڑتھا جو کبھی سوکھ کر کھنکھنہ ہو جاتا تھا اورکبھی پھر سمندر کے مد و جزر سے تر ہو جاتا تھا اور پھر مدت تک تررہنے کی وجہ سے اس میں خمیر پیدا ہوجاتا تھا۔ اس کیچڑ میں زندگی کے اوّلین آثار نمودار ہوئے جن کی ترقی سے بعد میں حیوانات کی مختلف انواع وجود میں آئیں۔ ان میں سے ایک نوع جو سب سے زیادہ ترقی یافتہ ہے وہ حضرتِ انسان ہے۔ زندگی کے ظہور کی ترتیب میں سب سے پہلے نباتات آتی ہے۔ اس کے بعد مچھلیاں اور سمندر ی جانور اور پھر پرندے اور زمین پر چلنے والے حیوانات۔
نفسیاتی ارتقاء
اسی طرح سے ڈارون کے نظریہ کے اثر سے اب حکماء یہ سمجھنے لگے ہیں کہ انسان کے ظہور کے بعد بھی ارتقاء جاری ہے اور وہ متفق ہیں کہ یہ ارتقاء حیاتیاتی نوعیت کا نہیں یعنی اب انسان سے نئی انواع حیوانات وجود میں نہیں آئیں گی بلکہ اس ارتقاء کی نوعیت نفسیاتی ہے۔ یعنی نوعِ بشر کی تاریخ اس کا راستہ ہے اور اس کی وجہ سے انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کامل سے کامل تر ہوجائے گی۔ اس عقیدہ پر حکماء کے اتفاق کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جب سے انسان نے ہوش سنبھالا ہے اس کی ترقی جس راستہ پر جاری ہے وہ اس کی ذہنی یا نفسیاتی ترقی کا راستہ ہے۔ لہٰذا اب ہم اپنی حیاتیاتی تکمیل کا تصور نہیں کرتے بلکہ نفسیاتی تکمیل کا تصور کرتے ہیں اور اپنی ساری جدوجہد کو اسی تکمیل پر مرکوز کیے ہوئے ہیں۔
تاریخ کے نظریات
حکماء نے نفسیات‘ تاریخ اور اجتماعیات کے حقائق کی روشنی میں انسان کے نفسیاتی ارتقاء کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ اس سلسلہ میں جو نظریات اب تک وجود میں آئے ہیں ان میں کارل مارکس‘ ٹائن بی اور سپنگلر کے نظریات زیادہ مشہور ہیں۔ ان میں سے کارل مارکس کا نظریہ بنیادی طور پر غلط ہے اور دوسرے دونوں نظریات ناقص‘ ناتمام اور الجھے ہوئے ہیں۔ ان نظریات کے علاوہ ایک صحیح قرآنی نظریۂ تاریخ بھی ہے جو ابھی تک ایک منظم اور مرتب صورت میں دنیا کے سامنے نہیں آیا۔ گو اس کا خاکہ اس کتاب میں دیا گیا ہے۔
اگرچہ حکماء اب تک تاریخ کا کوئی ایسا نظریہ پیش نہیں کر سکے جس پر سب کااتفاق ہو۔ تاہم وہ اس بات پر متفق ہیںکہ تاریخ کا راستہ ایک خاص منزل کی طرف جاتا ہے اور تاریخ کا عمل ایک ارتقائی عمل ہے۔
ارتقاء کے تین مراحل
اس طرح سے کائنات کے ارتقاء کے تین تین مرحلے ہو جاتے ہیں:
اوّل: کائنات کی ابتدائی حالت سے لے کر اس حالت تک جب وہ اس قابل ہوئی کہ اس میں زندگی کا ظہور ہو سکے۔
دوم: پہلے زندہ حیوان کے ظہور سے لے کر نسلِ انسانی کے ظہور تک۔
سوم: انسان کے ظہور سے لے کر انسان کی نفسیاتی تکمیل تک یہ مرحلہ اس وقت تک جاری ہے۔
ارتقاء اور قرآن
اب دیکھنا یہ ہے کہ عالمی ارتقاء کا نظریہ جس کا ایک حصہ ڈارون کا نظریہ ہے اور جس کی طرف ڈارون کا نظریہ راہنمائی کرتا ہے صحیح ہے یا غلط۔ یعنی روح قرآن کے مطابق ہے یا غیر مطابق۔ اگر وہ صحیح اور قرآنی تصور ہے تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ کائنات ایک ابتدائی حالت سے ترقی کرتی ہوئی چلی آتی ہے۔
اگر ارتقاء ایک حقیقت ہو
نوعِ انسانی ایک نوعِ حیوانات کی اولاد ہے جو اپنے جسم‘ دماغ اور نظامِ عصبی کی ساخت میں انسان سے کمتر درجہ کی تھی اور پھر یہ نوعِ حیوانات اس سے بھی کمتر درجہ کی ایک نوع سے پیدا ہوئی تھی۔ وعلیٰ ھذا القیاس۔
یہاں تک کہ ہم اس ایک خلیہ کے حیوان کی نوع تک پہنچ جاتے ہیں جو سب سے پہلے ظہور میں آیا تھا۔ اگر یہ تصور صحیح ہے تو ہمارے لیے ضروری ہو گا کہ ہم اسے اپنائیں اور اُس کی روشنی میں قرآن کے مطالب اور مقاصد کو سمجھیں اور اسے قرآنی تصورات کی تشریح اور تفسیر اور غیر قرآنی تصورات کی تردید اور ابطال کے لیے کام میں لائیں۔
اس کے برعکس اگر تدریجی ارتقاء کا تصور غلط ہے تو ہمیں ان لوگوں کے خیالات کے ساتھ متفق ہونا پڑے گا جو سمجھتے ہیں کہ کائنات کا ظہور ایک تدریجی ترتیب سے نہیں ہوا اور بالخصوص موجودہ نسل انسانی ایک ایسے فرد کی اولاد ہے جو جسمانی لحاظ سے بالکل ہماری طرح تھا اور اپنی بیوی کے سمیت جنت سے نازل ہوا تھا یا جیسا کہ بعض لوگوں نے خیال کیا ہے کہ اس کا مٹی کا بت بنا کر اسے پھونک سے یکایک زندہ کر دیا گیا تھا اور پھر اس کے بعد کوئی فرد‘ انسانی قدرت نے اس طریق سے پیدا نہیں کیا بلکہ ہر فرد توالد و تناسل کے ذریعے سے پیدا ہوتا رہا ہے۔
اگر ارتقاء ایک حقیقت نہ ہو
ایسی صورت میں تدریجی ارتقاء کے تصور کو علمی اور عقلی براہین سے غلط ثابت کرنے کی بہت بڑی ذمہ داری ہمارے کندھوں پر عائد ہو گی۔ محض اس کے غلط ہونے کا ادعا ہمارے تبلیغی مقاصد کے لیے کافی نہ ہو گا کیونکہ دنیا ہمارے دعوے کی بنا پر کسی ایسے تصور کو غلط ماننے کے لیے تیار نہیں ہو سکتی جو علمی تحقیق سے پے در پے صحیح ثابت ہو چکا ہو اور اگر ہم علمی دلائل اور عقلی براہین کے بغیر اپنے دعوے پر اصرار کریں گے تو ہم دنیا کے ذہین تعلیم یافتہ طبقہ کو اسلام سے بیزار کریں گے اور انہیں اسلام سے اور پیچھے ہٹائیں گے لہٰذا ہمارا فرض ہو گا کہ اس کے خلاف علمی اور عقلی دلائل بہم پہنچانے کی پوری پوری کوشش کریں اور اگر تدریجی ارتقاء کا تصور فی الواقع غلط ہو گا تو خواہ دنیا اسے صحیح مان رہی ہو‘ ضروری بات ہے کہ بالآخر ہم اپنی کوششوں سے اس کے خلاف عقلی دلائل اور علمی براہین پیدا کرنے میں کامیاب بھی ہو جائیں۔
قرآن کی تائید
لیکن حقیقت ِ ارتقاء کا تصور دنیا کے علمی مسلمات میں ہی داخل نہیں بلکہ قرآن پر غور و فکر کرنے کے بعد ہم نہایت آسانی کے ساتھ اس نتیجہ پر پہنچ جاتے ہیں کہ یہ تصور روحِ قرآن کے بھی عین مطابق ہے اور صحیح ہے اور اس تصور کے بارے میں قرآن کا موقف بالکل وہی ہے جو حکماء نے اختیار کر رکھا ہے یعنی ارتقاء کائنات کے حیاتیاتی مرحلہ کا ارتقاء یا اس کے کسی ایک مرحلہ کا ارتقاء نہیں بلکہ کائنات کا مجموعی ارتقاء ہے جس میں ہر چیز اپنی بساط کے مطابق ارتقاء کر کے اپنا حصہ لیتی ہے۔
قرآن میں پہلے انسان کے یکایک پیدا ہوجانے کا کوئی ذکر نہیں اور اس کے برعکس انسانی نسل کے تدریجی ظہور کے متعلق اس میں حسب ذیل شواہد موجود ہیں:
(ا) رَبٌّ (خدا) کی صفات میں سے ایک صفت ہے اور قرآن کی پہلی ہی سورۃ کے ابتداء میں اس کا ذکر اس طرح سے ہے:
{اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ} (الفاتحۃ:۱)
’’سب تعریف اللہ کے لیے ہو جو اہل عالم کا رب ہے‘‘۔
محاسن معنوی کی اصل صفت ربوبیت ہے
جہاں یہ بتایا گیا ہے کہ ربوبیت خدا کی وہ صفت ہے جو انسان کو خدا کی تعریف پر مائل کرتی ہے یعنی خدا کی تمام صفات جو اسمائِ حسنیٰ یا قابل تعریف نام ہیں‘ خدا کی صفتِ ربوبیت کی تفسیر ہیں۔ ربوبیت کے ذریعہ سے خدا کی تمام صفات کا ظہور ہوتا ہے اور خدا کی کوئی صفت ایسی نہیں جو ربوبیت کے مقاصد سے الگ ظہور پائے۔
ربوبیت عین ارتقاء ہے
ربوبیت کے معنی کیا ہیں۔ کسی چیز کو ادنیٰ حالت سے ترقی دے کر اعلیٰ حالت تک پہنچانا اور ارتقاء کے معنی کیا ہیں۔ یہی کہ کوئی چیز ادنیٰ حالت سے ترقی کر کے اعلیٰ حالت تک پہنچے گویا خدا کی ربوبیت کا نتیجہ ارتقاء ہے۔ ارتقاء کے ذریعہ سے ہی خدا کی تمام صفات کا ظہور ہوتا ہے۔ اور خدا کی کوئی صفت ایسی نہیں جو ارتقاء کے مقاصد سے الگ ظہور پائے۔ قرآن اللہ تعالیٰ کی خالقیت کی طرف توجہ دلانے کے لیے اس کی ربوبیت کی مثالیں پیش کرتا ہے:
{یٰٓـاَیـُّـھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّـکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ}
(البقرۃ:۲۱)
’’اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا اور تم سے پہلے تمہارے باپ دادا کو پیدا کیا‘‘۔
{وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ طِیْنٍ (۱۲) ثُمَّ جَعَلْنٰہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ (۱۳) ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًاق ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَط فَتَبٰـرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ {(۱۴) } (المؤمنون)
’’ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا پھر ہم نے اسے ایک نطفہ کی صورت میں ٹھہرا دیا پھر ہم نے نطفہ کو ایک جونک بنا دیا اور جونک کو گوشت کا ایک لوتھڑا اور گوشت کے لوتھڑے سے ہڈیاں بنا دیں اور ہڈیوں پر گوشت چڑھایا۔ پھر ہم نے اسے ایک اور زندگی دے دی۔ بابرکت ہے اللہ جو سب پیدا کرنے والوں سے بہتر پیدا کرنے والا ہے۔‘‘
ربوبیت عین تخلیق ہے
دوسری آیت میں بالخصوص یہ بات غور کے قابل ہے کہ خداوند تعالیٰ تخلیق کے ہر مرحلہ کو بھی ‘جو تربیت سے حاصل ہوتا ہے‘ تخلیق ہی کہتا ہے۔گویا تخلیق اور تربیت ایک ہی چیز کے دو نام ہیں ۔ ماں کے رحم میں وہ جنین کی تربیت کا ذکر کرتا ہے۔ لیکن جب وہ تربیت مکمل ہو جاتی ہے تو اسے ’’خلق‘‘ اور ’’احسن تخلیق‘‘ کا نام دیتاہے۔
{ہَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّہْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَّذْکُوْرًا (۱)
اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ ق نَّـبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنٰــہُ سَمِیْعًام بَصِیْرًا(۲)}(الدھر)
’’کیا انسان پر کوئی وقت ایسا بھی تھا جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہیں تھا۔ ہم نے انسان کو ایک ٹپکنے والے قطرئہ آب سے پیدا کیا تاکہ ہم اسے آزمائیں ۔ پس ہم نے اسے سننے اور دیکھنے کی توفیق دی۔‘‘
معرفتِ حق کا دفتر
ربوبیت کو خالقیت کے نشان کے طور پر پیش کرنے کی وجہ یہ ہے کہ خالقیت اور ربوبیت ایک دوسری کے ساتھ ساتھ رہتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی خالقیت اس کی ربوبیت کی صورت اختیار کرتی ہے اور ربوبیت خالقیت میں ظاہر ہوتی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی خالقیت بغیر ربوبیت کے ہوتی تو ہمارے لیے خدا کو پہچاننا ممکن نہ ہوتا۔کیونکہ ایسی صورت میں اس کی محبت‘ عدل‘ رحمت‘ محافظت‘ قہر‘ غرضیکہ کسی صفت جلال یا جمال کا اظہار نہ ہوتا کیونکہ یہ تمام صفات ربوبیت کو چاہتی ہیں یا ربوبیت ان صفات کے اظہار کا عملی نتیجہ ہوتی ہے اور یا پھر یہ صفات اپنا اظہار پا نہیں سکتیں۔
ربوبیت کی ہمہ گیری
اب اس بات پر غور کیجیے کہ خدا کی ربوبیت کائنات کی ہر چیز پر حاوی ہے۔ خدا ہر چیز کو ایک ادنیٰ حالت سے ترقی دے کر ایک ایسی حالت تک پہنچاتا ہے جو اس کی حالتِ کمال ہوتی ہے:
{اَللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ وَّھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ وَّکِیْل} (الزمر:۶۲)
’’اللہ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور ہر چیز پر کارساز ہے۔‘‘
ظاہر ہے کہ ہر چیز کی کارسازی سے مراد اس کی تربیت ہے۔ گویا کائنات کی ہر چیز خواہ بے جان ہو یا جاندار خدا کی تربیت سے حصہ لیتی ہے۔
ادعیہ ماثورہ میں سے ایک دعا ان الفاظ سے شروع ہوتی ہے:
رب کل شیء وملیکہ
’’اے خدا ہر چیز کی تربیت کرنے والے اور اس کے مالک‘‘۔
مشاہدہ کی تائید
اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا کسی چیز کو خواہ وہ ہمارے نزدیک بے جان ہو یا جاندار یکایک مکمل صورت میں پیدا نہیں کرتا بلکہ ہر چیز کو نامکمل حالتوں کے ایک سلسلہ سے گزار کر بتدریج مکمل کرتا ہے اسی لیے وہ ہر چیز کا رَبّ اور کارساز کہلاتا ہے اور ہمارا مشاہدہ جہاں تک کام کرتا ہے اس کی تصدیق کرتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ایک چیز کی موجودگی یکایک ہمارے علم میں آجائے اور ہم غلطی سے یہ سمجھنے لگیں کہ وہ چیز خود یکایک وجود میں آ گئی ہے۔ لیکن جب ہم ایسے واقعات پر پورا غور کرتے ہیں تو ہمیشہ واضح ہوجاتا ہے کہ وہ چیز یکایک نہیں بلکہ بتدریج وجود میں آئی تھی۔
تدریج سنت اللہ ہے
خداوند تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ اگر وہ چاہے تو ایک انسان یاایک درخت کو فوراً مکمل حالت میں نیست سے ہست کر سکتا ہے۔ لیکن وہ ایسا نہیں کرتا کیونکہ ایسا کرنے سے اس کی ربوبیت کا تقاضا پورا نہیں ہوتا وہ ایک خورد بینی کِرم سے بتدریج ایک مکمل جسم انسانی کی تعمیر کرتا ہے۔ اور یہ خود بینی کِرم بھی جو جسم انسانی میں مادئہ تولید کے اندر موجود ہوتا ہے یکایک پیدا نہیں ہوتا بلکہ اس کی پیدائش بھی ایک تدریجی عمل سے ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ایک چھوٹے سے بیج کو ارتقاء کی ہزاروں منزلوں سے گزار کر ایک عظیم الشان درخت بناتا ہے اور یہ بیج بھی شاخِ درخت پر فی الفور نمودارنہیں ہوتا بلکہ اپنی ایک تاریخ رکھتا ہے۔
حال اورماضی کا فرق
یہی حال دنیا کی ہر چیز کا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ بعض چیزوں کا ارتقاء ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہاہے اور بعض چیزوں کا ارتقاء مثلاً نظامِ شمسی یا انواعِ حیوانات کا ارتقاء یا ایک پتھر یا چٹان یا کان یا پانی کے ایک قطرہ کا ارتقاء ہمارے وجود میں آنے سے پہلے ہی مکمل ہو چکا ہے۔ اگر ایک خورد بینی کِرم سے ایک مکمل جسم انسانی کا ظہور یاایک چھوٹے سے بیج سے ایک عظیم الشان درخت کا ظہور ہمارے چشم دید واقعات نہ ہوں تو یہ بھی اس قدر حیرت انگیز ہیں کہ ہم نظامِ شمسی یا انواعِ حیوانات کے ارتقاء ہی کی طرح انہیں باور کرنے میں دقّت محسوس کریں۔ جب قرآن کی تعلیم کے مطابق کائنات کے اندر کوئی چیز تربیت کے بغیر وجود میں نہیں آتی تو کیونکر مانا جا سکتا ہے کہ حیوانات کی ہر نسل یا اس حیوان کی نسل جسے انسان کہا جاتا ہے ہمیشہ سے ایک ہی حالت میں تھی۔
نسل انسانی مستثنیٰ نہیں
اور اس سے پہلے ایک ادنیٰ نسل یا اس کی ایک ادنیٰ حالت موجود نہیں تھی یاکیونکر جانا جا سکتا ہے کہ ہر نوعِ حیوانی کا پہلا فرد یا نوعِ انسانی کا پہلا فرد مکمل صورت میں یکایک پیدا ہو گیا تھا اور اس کے جسم کی ادنیٰ یا ناقص حالتیں پہلے موجود نہیں تھیں اس قسم کا عقیدہ اللہ تعالیٰ کی فطرت سے مطابقت نہیں رکھتا۔
ایک اعتراض
ممکن ہے اس کے جواب میں یہ کہا جائے کہ خدا کی قدرت محدود نہیں اور خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے لہٰذا گو اللہ تعالیٰ بعض چیزوں کی تخلیق میں تدریج اور تربیت سے کام لیتا ہے۔ لیکن ہمیں کوئی چیز یہ باور کرنے سے نہیں روکتی کہ وہ تدریج اور تربیت کے بغیر بھی تخلیق کر سکتا ہے اور کرتا ہے‘ لیکن یہ خیال درست نہیں۔اوپر کی آیات میں کُلِّ شَیْء کے الفاظ اس کے خلاف دلالت کرتے ہیں۔
قدرت مطلقہ کے معنی
دوسرے گو بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے لیکن اس کی قدرت خود اپنے قوانین کی نفی نہیں کرتی اور قوانین وہی ہیں جو اس کی صفات جمال و جلال سے پیدا ہوتے ہیں۔ اگر خدا کی قدرت خود اس کی صفات کے منافی ہو گی تو وہ اپنے کمال پر نہ ہو گی اور ایک قادرِ مطلق خدا کی قدرت نہ ہو گی۔ خداوند تعالیٰ کوئی ایسی بات نہیں کرتا اور اس طریق سے نہیں کرتا جو اس کی شان کے شایاں نہ ہو۔
صفت جمال کی باہمی مطابقت
دوسرے الفاظ میں خداوند تعالیٰ کی کوئی صفت اس طرح سے ظہور نہیں پاتی کہ اس سے اس کی دوسری صفات کا نقص یا ترک یا تعطل لازم آئے۔ بلکہ اس کی ہر صفت کا اظہار اس کی تمام دوسری صفات کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے اور اس کے اظہار میں ا س کی تمام دوسری صفات اظہار پاتی ہیں۔ خدا کی قدرت کاملہ وہی ہے جو اس کی تمام صفات کی آئینہ دار ہو۔
تخلیق اور ربوبیت لازم و ملزوم ہیں
لہٰذا کبھی ایسا نہیں ہو سکتا کہ خدا کی تخلیق اس کی ربوبیت سے عاری ہو یا اس کی ربوبیت تخلیق کے بغیر ظہور میں آئے۔ تخلیق اور تربیت ایک ہی چیز کے دو نام ہیں جب تخلیق کی تدریجی تکمیل کا ذکر ہوتا ہے تو تربیت کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے اور جب تربیت کے نتیجہ کا ذکر ہوتا ہے تو تخلیق کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے اور کبھی ایسا نہیں ہوسکتا کہ خدا کی تخلیق اور تربیت کے اندر اس کی جملہ صفات جمال و جلال ظہور نہ پائیں۔ کائنات خدا کی تخلیق ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس میں خدا کی تمام صفات کا جلوہ اور ظہور موجود ہے اور یہی سبب ہے کہ کائنات کا مطالعہ انسان کو خدا کی معرفت کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔
{یَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ} (آل عمران:۱۹۱)
’’وہ لوگ جو کائنات کی مخلوقات پر غور کرتے ہیں‘‘
قدرتِ کاملہ کا نشان
خدا کی قدرت کاملہ کا ثبوت یہ نہیں کہ وہ کسی چیز کو ایک شعبدہ باز کی طرح فوراً مکمل صورت میں عدم سے وجود میں لائے بلکہ یہ ہے کہ وہ جس چیز کو پیدا کرے اسے ایک ناقابل ذکر حالت سے ترقی دے کر کمال پر پہنچائے اور قرآن خدا کی قدرتِ کاملہ کے ثبوت میں اس کی فطرت کو مؤخر الذکر صورت میں پیش کرتا ہے۔ دم بدم ترقی اور تربیت پانے والی چیز کی ہر نئی حالت جو پہلی حالت سے بہتر اور بلند تر ہوتی ہے پہلے موجود نہیں ہوتی اور عدم سے وجود میں آتی ہے اور خدا کی بدیع آفرینی اور ربوبیت دونوں کا ثبوت بہم پہنچاتی ہے۔
انسان کی مثال
چونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر بھی اپنی صفات کا پرتو رکھا ہے۔ لہٰذا انسان کی تخلیق میں بھی تدریج اور تربیت کے اوصاف ہوتے ہیں اور وہ بھی اپنی تربیت میں اپنی تمام صفات جلال و جمال کا اظہار کرتا ہے۔
(۲) قرآن کا ارشاد ہے:
{ھُوَ اَنْشَاَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ} (ھود:۶۱)
’’اللہ وہ ذات پاک ہے جس نے تمہاری نسل کو زمین سے پیدا کیا ہے‘‘۔
نسل انسانی کی نشوونما
اس آیت سے یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ انسان کا زمین سے پیدا ہونا اسی طرح سے تھا جس طرح نباتات کا زمین سے اگنا۔ اگلی آیت میں اس مطلب کو اور بھی واضح کر دیا گیا ہے:
{ مَا لَـکُمْ لَا تَرْجُوْنَ لِلّٰہِ وَقَارًا (۱۳) وَقَدْ خَلَقَکُمْ اَطْوَارًا(۱۴) … وَاللّٰہُ اَنْبَتَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَـبَاتًا (۱۷)} (نوح:۱۳‘۱۴ اور ۱۷)
’’تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ سے وقار کے آرزو مند نہیں ہوتے اور یقینا اس نے تمہیں مختلف مراحل سے گزار کر پیدا کیاہے … اور اس نے تمہاری نسل کو زمین سے اگایا ہے جیسے کہ اور چیزیں زمین سے اگتی ہیں‘‘۔
ظاہر ہے کہ ان آیات کا مضمون نسل انسانی کے ارتقاء کے تصور کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے اور انسان اوّل کے یکایک پیدا ہونے یا کہیں سے زمین پر نازل ہونے کی نفی کرتا ہے۔
دونوں آیات میں لفظ کُمْ سے ساری نسل انسانی مراد ہے اور اسی کے لیے مختلف مراحل (اطوارا) میں سے گزرنے اور پیدا ہونے اور بڑھنے (نشو) اور اگنے (انبت) کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔
درخت سے مشابہت
خدا کے نزدیک انسان کی پیدائش ایک تدریجی و حیاتیاتی عمل ہے جو ایک درخت کی نشوونما سے مشابہت رکھتا ہے۔ درخت پہلے ایک بیج کی صورت میں ہوتا ہے جو نمدار مٹی میں پھوٹ کر ایک پودا بنتا ہے اور پھر پودے کی حالتیں ترقی کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ ایک مکمل درخت بن جاتا ہے۔ اسی طرح سے نسل انسانی ایک خلیہ کے حیوان سے جسے امیبا کہا جاتا ہے اورجو سمندروں کے کنارے کیچڑ میں پیدا ہوا تھا ‘شروع ہوئی تھی۔ امیبا میں بدنی تغیرات ہوتے رہے جس سے حیوانات کی بہتر اور بلند تر نسلیں وجود میں آتی رہیں ۔ یہ عمل کروڑہا برس تک جاری رہا یہاں تک کہ بالآخر نسل انسانی کا ظہور ہوا۔
شجر حیات کی مرکزی شاخ
نسل انسانی کی صورت میں درخت کی تشبیہہ کو زیادہ صحت کے ساتھ سمجھنے کے لیے ہمیں یہ بات نگاہ میں رکھنی پڑتی ہے کہ امیبا سے جو شجرِ زندگی پھوٹا اس کی مختلف شاخیں ہو گئیں۔ ہر شاخ اپنی ترقی کے ایک خاص نکتہ پر جا کر رک گئی۔ لیکن صرف ایک شاخ برابر ترقی کرتی رہی ۔ اس شاخ کی انتہا پر جسم انسانی نمودار ہوا۔ اس شاخ پر جسم انسانی سے پہلے حیوانات کی جس قدر انواع وجود میں آئیں۔ ان کے اجسام جسم انسانی کی سابقہ صورتیں تھیں جو پے در پے بہتر سے بہتر ہوتی رہیں اور جسم انسانی کی آخری ساخت اورشکل کے قریب آتی رہیں۔ یہاں تک کہ اس کی آخری شکل یعنی مکمل جسم انسانی وجود میں آ گیا۔
(۳) نسل انسانی ہمارے سامنے موجود ہے۔
ممترین کی کم فہمی
خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ ہم نے نسلِ انسانی کو نیست سے ہست کیا ہے۔ ایک دن نسلِ انسانی نیست و نابود ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ ہم اسے دوبارہ زندہ کریں گے۔ ممترین کو یہ دونوں باتیں سمجھ میں نہیں آتیں۔ نہ یہ کہ خدا نے نسلِ انسانی کو کیونکر نیست سے ہست کیا ہے اگر نسل انسانی ایک باپ کی اولاد ہے تو پہلا انسان کہاں سے آیا؟ اور نہ یہ کہ جب نسل انسانی کا نام و نشان مٹ جائے گا تو وہ پھر کس طرح سے زندہ ہو جائے گی۔
خدا کی راہنمائی
ان دونوں ذہنی مشکلات پر عبور پانے کے لیے اللہ تعالیٰ انسان کی مدد کرتا ہے اور اسے ایک مثال سے سمجھاتا ہے کہ تمہاری نسل کی تخلیق اور تمہاری نسل کا نشور بالکل اسی طرح سے ہے جیسے فردِ انسانی کا وجود میں آنا:
{مَا خَلْقُکُمْ وَلَا بَعْثُکُمْ اِلاَّ کَنَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ} (لقمٰن:۲۸)
’’تمہاری نسل کی تخلیق اور بعثت کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہ ایک فرد انسان کا پیداہونا۔‘‘
ظاہر ہے اس آیت میں دونوں دفعہ لفظ کُمْ سے مراد نسل انسانی ہے جسے یہ لفظ نفس واحدہ سے ممتاز کرتاہے۔ پہلے تخلیق نوع کو لیجیے۔
نوعِ انسانی کی تخلیق انسان کی نظروں کے سامنے نہیں ہوئی۔ لیکن ایک فرد انسانی کی تخلیق اس کی نظروں کے سامنے ہوتی ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ اوّل الذکرکو جو تمہیں معلوم نہیں ثانی الذکر پر جو تمہیں معلوم ہے قیاس کرو۔ اب غور کیجیے کہ ایک فرد انسانی کی تخلیق کیونکر ہوتی ہے؟
فردِ انسانی کی مثال
ہم جانتے ہیں کہ ایک فرد انسانی ماں کے پیٹ میں ایک خورد بینی کِرم سے نشوونما پاتا ہے اور یہ خورد بینی کِرم مرد کے مادئہ تولید کے اندر پیدا ہوتا ہے۔ مادئہ تولید جسم کے خون سے بنتا ہے اور خون جگر کے کیموس سے پیدا ہوتا ہے اور کیموس کی پہلی حالت کیلوس ہے جو معدہ میں غذا سے بنتا ہے اور غذا آخر کار ان نباتات سے بنتی ہے جو زمین سے اُگتی ہیں اور نباتات مٹی کے کیمیاوی اجزاء کے جذب کرنے سے نشوونما پاتی ہیں۔ یہ کیمیاوی اجزاء عناصر سے بنتے ہیں اور عناصر کے سالمات مثبت اور منفی برقی لہروں کی ان چھوٹی چھوٹی گٹھڑیوں سے بنتے ہیں جن کو پروٹان اور الیکٹران کہتے ہیں۔
پھر ماں کے پیٹ میں وہ خورد کِرم ‘ جو فرد انسانی کے بیج کی حیثیت رکھتا ہے ‘ مختلف حالتوں سے گزرتا ہے۔یہاں تک کہ ایک شیر خوار بچہ کی صورت میں تولد ہوتا ہے۔ پھر وہ مزید نشوونما پاتا ہے یہاں تک کہ جوان ہو کر اس کا بدنی ارتقاء مکمل ہو جاتا ہے۔ پھر قدرت اس کی بدنی قوتوں کو نصب العین کی جستجو کے لیے کام میں لاتی ہے اور وہ قوتیں اس کے ذہنی یا نفسیاتی ارتقاء کا سبب بنتی ہیں۔
نسلِ انسانی پر اطلاق
اگر پوری نسل انسانی کی تخلیق بھی اسی طرح سے ہوئی ہے جیسا کہ قرآن کا دعویٰ ہے کہ ہوئی ہے تو پھر لازماً پہلا انسان بھی جس سے نوعِ انسانی کا آغاز ہوا تھا ایک تدریجی ارتقائی عمل سے وجود میں آیا تھا۔یہی وہ نتیجہ ہے جس پر ڈارون مشاہدات کی بنا پر پہنچا ہے اور دوسرے ماہرین حیاتیات نے اس کی تائید کی ہے۔ ان لوگوں کا نتیجہ ایک طرف قرآن کی صداقت کی ایک نئی عقلی دلیل مہیا کرتا ہے اور دوسری طرف قرآن سے اپنی تائید اور توثیق حاصل کرتا ہے۔
فرد میں نوع کی تاریخ کا اعادہ
نوعِ انسانی کا ارتقاء بھی برقی قوت کی لہروں سے شروع ہوتا ہے یہاں تک کہ نظامِ شمسی وجود میں آتا ہے۔ زمین ٹھنڈی ہوتی ہے ۔ اس میں سمندروں کے کنارے کیچڑ میں جسد انسانی کی بنیاد رکھی جاتی ہے جو پہلے صرف ایک خلیہ پر مشتمل ہوتا ہے جسے امیبا کہتے ہیں۔
قرآن کی تائید
اور سائنس دانوں کی یہ تحقیق قرآن کے اس دعویٰ کے ساتھ کہ نوعِ انسانی کی تخلیق فردِ واحد کی تخلیق کی طرح ہوئی ہے‘ حیرت انگیز مطابقت رکھتی ہے کہ ایک فردِ انسانی نوع کی کروڑہا سال کی تاریخ کو ایک مختصر عرصہ میں دہراتا ہے اور جسد انسانی امیبا سے لے کر مکمل ہونے تک یعنی پہلے انسان کے ظہور تک بالکل ان ہی حالتوں سے گزرا ہے جن حالتوں سے اپنی ماں کے پیٹ میں جنین گزرتا ہے یعنی ابتداء سے لے کر انتہا تک جنین کی مختلف حالتیں حیوانات کی ان انواع سے مشابہت رکھتی ہیں جو ماہرینِ حیاتیات کی تحقیق کے مطابق جسدِ انسانی کے ارتقاء کی سیڑھیاں ہیں۔
نوعِ بشر کا نشور
اب نوعِ انسانی کی بعثت یانشور کو لیجیے۔ قرآن سے ظاہر ہے کہ بعثت بعد الموت انسانی ایغو کی ایک ایسی حالت ہے جب ایغو پھر جسد عنصری میں آئے گا تاکہ اسی جسد میں جو اس کے لیے اکتساب عمل کا ایک وسیلہ تھا وہ اپنے اعمال کی جزا اور سزا پائے۔ چنانچہ ارشاد ہے:
{مِنْھَا خَلَقْنٰکُمْ وَفِیْھَا نُعِیْدُکُمْ وَمِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی} (طٰہٰ:۵۵)
’’ہم نے تمہیں زمین سے پیدا کیا ہم تمہیں زمین میں لوٹا دیں گے اور پھر اُسی سے دوبارہ زندہ کریں گے۔‘‘
بعث بعد الموت کو قرآن نشور یا خروج بھی کہتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ نوعِ انسانی کی بعثت کو بھی ایک فرد انسانی کی تخلیق پر قیاس کرنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بھی ایک تدریجی اور ارتقائی عمل کا نتیجہ ہو گی۔
روئیدگی کی مثال
نشور کے ارتقائی یا تدریجی پہلو کی طرف قرآن ان آیات میں اشارہ کرتا ہے:
{وَاللّٰہُ الَّذِیْ اَرْسَلَ الرِّیٰحَ فَتُثِیْرُ سَحَابًا فَسُقْنٰـہُ اِلٰی بَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَحْیَیْنَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا کَذٰلِکَ النُّشُوْرَ} (فاطر:۹)
’’خدا وہ ذات پاک ہے جو ہوائیں بھیجتا ہے اور وہ بادل اٹھا لاتی ہے اور ہم انہیں مردہ زمین کی طرف ہانکتے ہیں اور پھر ہم زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کرتے ہیں لوگوں کا نشور بھی اسی طرح سے رہے گا۔‘‘
پھر فرمایا ہے:
{وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَآئِ مَآئً مُّبَارَکًا فَاَنْبَتْنَا بِہٖ جَنّٰتٍ وَّحَبَّ الْحَصِیْدِ(۹) وَالنَّخْلَ بٰسِقٰتٍ لَّـھَا طَلْحٌ نَّضِیْدٌ(۱۰) رِّزْقًا لِّلْعِبَادِ وَاَحْیَیْنَا بِہٖ بَلْدَۃً مَّیْتًا کَذٰلِکَ الْخُرُوْجَ{(۱۱)
’’اور ہم نے آسمان سے برکت والا پانی اتارا۔ پھر ہم نے اس کے ساتھ باغ اگائے اور دانہ جو کاٹا جاتا ہے اور لمبی لمبی کھجوریں جن کا گابھر تربتر ہے بندوں کے لیے رزق ہے اور اس سے ہم مردہ بستی کو زندہ کرتے ہیں لوگوں کا جی اٹھنا اسی طرح سے ہو گا‘‘۔
ظاہر ہے کہ بارش سے اشجار و نباتات کا اگنا ایک تدریجی ارتقائی عمل ہے۔ لہٰذا نفس واحدہ کی تخلیق نوعِ انسانی کی تخلیق اور اس کے نشور دونوں کے لیے ایک بصیرت افروز مثال ہے اگرچہ یہ قرین قیاس ہے کہ نشور کا ارتقائی عمل تخلیق کے ارتقائی عمل کی نسبت زیادہ سریع الحرکت ہو گا۔ اور پھر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ وقت ایک اضافی چیز ہے۔ ایک ہی عرصہ وقت شعور کی مختلف سطحوں پر مختلف طوالت کا ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بعثت کے عرصہ میں وقت کا پیمانہ کوئی اور ہو!
مادی کائنات کا تدریجی ظہور
(۴)اگر کائنات کا تدریجی ارتقاء نہیں ہوا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کسی خاص وقت پر یکایک وجود میں آ گئی ہو گی۔ لیکن قرآن اس نقطۂ نظر کی تردید کرتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:
{اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَھُمَا فِیْ سِتّۃِ اَیَّامٍ}
(السجدۃ:۴)
’’اللہ وہ پاک ذات ہے جس نے کائنات کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔‘‘
ظاہر ہے کہ یہاں دن سے مراد وہ دن نہیں جو زمین کی گردش سے بنتا ہے یہاں دن سے مراد ایک دور ہے جو کروڑہا برس کا ہو سکتا ہے۔ اگلی آیت میں قرآن خود اس بات کی تصریح کرتا ہے کہ یوم کا لفظ ایک دور کے معنوں میں استعمال ہوا ہے:
{فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ اَلْفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ} (السجدۃ:۵)
’’ایک ایسے دن میں جس کی مقدار تمہارے حساب کے مطابق ایک ہزار سال تک ہوتی ہے۔‘‘
ادوارِ ارتقاء
پھر یہ بھی ظاہر ہے کہ یہاں ہزار سال کے الفاظ ایک ریاضیاتی اصطلاح کے طو رپر استعمال نہیں ہوئے بلکہ ایک محاورہ کے طو رپر استعمال ہوئے ہیں جن سے مراد ایک طویل مدت ہے۔ تخلیق کائنات کا وقت اس پیمانہ سے ناپا نہیں جا سکتا جو نظامِ شمسی کی تخلیق کے بعد ہم نے زمین کی گردش کی نسبت سے مقرر کیا ہے۔ وقت کی اضافی نوعیت قرآن کی اس آیت سے بھی ظاہر ہے:
{فَاَمَاتَہُ اللّٰہُ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعْثَہٗ قَالَ کَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ} (البقرۃ:۲۵۹)
’’اللہ نے اسے سو برس تک مار دیا۔ پھر اسے زندہ کیا (اور) پوچھا کتنا عرصہ رہے ہو اس نے کہا ایک دن یا اس کا کچھ حصہ‘‘۔
یہ بات غور کے قابل ہے کہ سائنس دانوں نے عقلی شہادتوں کی بنا پر کائنات کے ارتقاء کو چھ بڑے ادوار میں تقسیم کیا ہے۔
’تورات‘‘ میں جس کی تصدیق قرآن خود کرتا ہے:
{مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتٰبِ}(المائدۃ:۴۸)
’’قرآن پہلی کتابوں (تورات اور انجیل) کی تصدیق کرتا ہے۔‘‘
تورات کی تفصیلات
تورات جس کے لیے قرآن نے ’’نور‘‘ اور ہدایت کے الفاظ استعمال کیے ہیں‘ میں نہ صرف اس بات کا ذکر ہے کہ خدا نے زمین اور آسمان کو چھ دنوں میں پیدا کیا ہے بلکہ اس بات کی کچھ تفصیل بھی موجود ہے کہ ان چھ دنوں میں سے ہر ایک دن کے اندر خدا نے کیا کچھ پیدا کیا اور یہ بات عجیب نہیں کہ یہ تفصیل تخلیق کائنات کی اس عقلی تشریح سے ملتی جلتی ہے جو سائنس دانوں نے مختلف علوم کی روشنی میں تیار کی ہے۔ مثلاً خشک زمین اور سمندر کو بنانے کے بعد:
’’خدا نے کہا زمین گھاس اور بیج دار بوٹیوں کو اور پھل دار درختوں کو جو اپنی اپنی‘جنس کے موافق پھلیں اور جو زمین پر اپنے آپ ہی میں بیج رکھیں اگائے اور ایساہی ہوا‘‘۔
’’اور خدا نے کہا کہ پانی جان داروں کو کثرت سے پیدا کرے اور پرندے زمین کے اوپر فضا میں اڑیں… اور خدا نے ان کو یہ کہہ کر برکت دی کہ پھلو بڑھو اور ان سمندروں کے پانی کو بھر دو اور پرندے زمین پربہت بڑھ جائیں‘‘۔
’’اور خدا نے کہا کہ زمین جانداروں کو ان کی جنس کے موافق چوپائے اور رینگنے والے جاندار جنگلی جانور ان کی جنس کے موافق پیدا کرے ‘اور ایسا ہی ہوا‘‘۔
تخلیق کائنات کی اس تشریح سے نہ صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کائنات کی تخلیق پر وقت صرف ہوا بلکہ یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ واقعات ایک خاص ترتیب سے رونما ہوئے اور یہ ترتیب سائنس دانوں کے نتائج سے مطابقت رکھتی ہے۔
علمی اور الہامی تشریح کا فرق
تخلیق عالم کی اس الہامی تشریح اور سائنس دانوں کی علمی تشریح میں اگر بنیادی طور پر کوئی فرق ہے تو صرف یہ ہے کہ الہامی تشریح اس طرح سے کی گئی ہے گویا واقعات ایک دوسرے کے بعد جلد ی جلدی رونما ہوئے ہیں اور ہر واقعہ آنکھ جھپکنے میں ہو گیا ہے۔ لیکن یہاں وقت کی افاضیت کے علاوہ ہمیں یہ بات بھی نگاہ میں رکھنی چاہیے کہ الہامی کتابوں کا طرز بیان ڈرامائی ہوتا ہے۔ کیونکہ ان کو واقعات کی باریک تفصیلات سے سروکار نہیں ہوتا بلکہ ان کی مجموعی کیفیت اور ان کے معنی سے سروکارہوتا ہے۔
کائنات کی حالتیں
(۵ ) ارتقائے کائنات کے دوران میں کائنات کی بدلتی ہوئی حالتوں میں سے بعض کا ذکر قرآن میں صاف طو رپر موجود ہے۔ مثلاً سائنس دان کہتے ہیں کہ ایک وقت وہ تھا جب ساری کائنات دھوئیں کے ایک بہت بڑے بادل کی صورت میں تھی۔ زمین اور آسمان کے ستارے اور چاند اور سورج ایک دوسرے سے ممیز نہ تھے۔ خدا نے زمین کو آسمان سے الگ کیا اور اس کے بعد زمین پر سمندروں کے پانی میں تمام انواع حیوانات کی زندگی کا آغاز ہوا۔ قرآن میں ارتقائے کائنات کے اس مرحلہ کا ذکر اس طرح سے ہے:
{اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ } (الانبیاء:۳۰)
’’کیا ان لوگوں کو معلو م نہیں کہ زمین اور آسمان طے ہوئے تھے اور ہم نے ان کو ایک دوسرے سے الگ کیا اور پانی سے ہر جاندار کو زندہ کیا۔‘‘
پانی سے زندگی کا ظہور
پانی سے ہر چیز کی زندگی کا ذکر تخلیق کائنات کے سلسلہ میں ہوا ہے لہٰذا یہاں کائنات کی تخلیق کے اس خاص دور کی طرف اشارہ ہے جس میں زندگی پانی سے نمودار ہو کر متنوع اور منتشر ہو گئی۔ کنگسلے کہتا ہے:
’’سمندر کا پانی تمام جانداروں کی ماں ہے‘‘۔
پھر ارشاد ہے:
{وَکَانَ عَرْشُہٗ عَلَی الْمَائِ} (ھود:۷) ’’اور خدا کی حکومت پانی پر تھی‘‘۔
اس آیت میں بھی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا کی حکومت یعنی اس کی قدرت‘ خلاقیت‘ ربوبیت اور رحمت سب سے پہلے جس چیز کی طرف متوجہ ہوئی وہ سمندر کا پانی تھا۔
دھوئیں کا بادل
پھر قرآن میں اس بات کا ذکر صاف الفاظ میں ہے ایک وقت پر آسمان کے ستارے دھوئیں کے ایک مسلسل بادل کی شکل میں تھے اور دھوئیں کے بڑے بڑے بادل آسمان پر اب بھی موجود ہیں۔
{ثُمَّ اسْتَوٰی اِلَی السَّمَائِ وَھِیَ دُخَانٌ} (حٰمٓ السجدۃ:۱۱)
’’پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو ایک دھوئیں کی طرح تھا۔‘‘
سر آلیور لاج کائنات کے ارتقاء کی تشریح کرتے ہوئے لکھتا ہے:
’’مواد کے یہ طویل و عریض ٹکڑے ضخیم بادلوں یا گیس کے منطقوں کی صورت میں جمع ہو جاتے ہیں‘ جنہیں ہم اس وقت بنولوں کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ ان کو بجاطور پر گیس یا دھوئیں کہنا چاہیے کیونکہ دھوئیں یا گیس کی اصلیت یہ ہے کہ اس میں مادہ کے بکھرے ہوئے اجزاء ایک دوسرے سے الگ تھلگ ادھر ادھر حرکت کرتے رہتے ہیں‘‘۔
جسم انسانی کا مبداء سیاہ کیچڑ
(۶) قرآن کا ارشاد ہے کہ انسان کو خمیر والے سیاہ کیچڑ سے پیدا کیا گیا ہے اور اس سے علمی تحقیقات کے اس نتیجہ کی تائید ہوتی ہے جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے کہ زندگی کا آغاز سمندروں کے ساحل پر کیچڑ میں ہوا تھا۔ اور اس کی تخلیق کئی مدارج سے گزری تھی اور اس پر وقت صرف ہوا تھا:
{وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنِّىْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ (۲۸) فَاِذَا سَوَّيْتُهٗ وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِيْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِيْنَ (۲۹)} (الحجر)
’’جب خدا نے فرشتوں سے کہا کہ میں انسان کو سوکھی ہوئی سیاہ سڑی ہوئی مٹی سے پیدا کرنے والا ہوں ۔ جب میں اسے مکمل کر لوں اور اپنی روح اس میں پھونک دوں تو تم اس کے سامنے سجدے میں گر پڑنا‘‘۔
یہاں لفظ سَوَّیْـتُـہٗ (میں اسے مکمل کر لوں) خاص طور پر غور کے قابل ہے کیونکہ اس سے صاف ظاہر ہے کہ انسان کی تخلیق یکایک نہیں ہوئی بلکہ ادنیٰ حالتوں سے اعلیٰ حالتوں کی طرف ترقی کر کے ہوئی ہے۔
تسویہ اور ارتقاء
وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ کے معنی یہ ہیں کہ جب خدا کے تسویہ سے وہ اس حالت پر پہنچ جائے کہ اس میں خود شعوری کا وصف پیدا ہو جائے جو خدا اور انسان دونوں کا امتیازی وصف ہے۔ اسی خود شعوری کی وجہ سے انسان نیکی اور بدی میں تمیز کرتا ہے اور شرفِ انسانیت سے ممتاز ہے۔
جسم انسانی کی ابتدا اور انتہا
(۷) قرآن صاف طور پرکہتا ہے کہ مٹی یا کیچڑ سے تخلیق بشر کی ابتدا ہوئی ہے اور پھر اس کا جسم توالد اور تناسل کے ذریعہ سے تدریجاً ترقی پا کر مکمل ہوا ہے مکمل ہونے پر اس میں اللہ نے اپنی روح پھونکی اور اسے دیکھنے‘ سننے یا سمجھنے سوچنے کی قوتیں دیں یعنی بدا خلق کے بعدا ور تسویہ اور نفخ روح سے پہلے انسان کی نسل توالد کے ذریعے سے جسمانی طور پر عروج پارہی تھی۔
{وَبَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِیْنٍ (۷) ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہٗ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ مَّــآئٍ مَّہِیْنٍ (۸) ثُمَّ سَوّٰىهُ وَنَفَخَ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِهٖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْـــِٕدَةَ ۭ } (السجدۃ:۷ تا ۹)
’’اور خدا نے انسان کی تخلیق مٹی سے شروع کی پھر اس کی نسل ذلیل پانی کے ایک خلاصہ سے جاری کی۔ پھر اسے مکمل کیا اور اس میں اپنی روح پھونکی اور (تکمیل اور نفخ روح کا نتیجہ یہ ہوا کہ) تمہیں دیکھنے سننے اور سوچنے سمجھنے (یعنی دیکھ اور سن سمجھ کر نیکی اور بدی میں تمیز کرنے) کی قوتیں حاصل ہو گئیں۔‘‘
مٹی کا جوہر
(۸) ایک اور جگہ قرآن میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا ہے:
{وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰــلَۃٍ مِّنْ طِیْنٍ} (المؤمنون:۱۲)
’’بے شک ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا ہے‘‘۔
بعض لوگوں نے سمجھا ہے کہ مٹی کے خلاصہ سے مراد وہی سوکھی سڑی سیاہ مٹی ہے جس کا ذکر قرآن کی اس آیت میں ہے:
{اِنِّیْ خَالِقٌ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ} (الحجر:۲۸)
’’میں انسان کو ایک سوکھی‘ سیاہ اور سڑی ہوئی مٹی سے پیدا کرنے والا ہوں۔‘‘
عناصر
لیکن ظاہر ہے کہ مٹی کا خلاصہ اور سیاہ سوکھی سڑی ہوئی مٹی دونوں چیزیں ایک نہیں ہو سکتیں۔ لہٰذا ان دونوں آیتوں کا مضمون ایک نہیں۔ مٹی کا خلاصہ لازماً ان تمام عناصر پر مشتمل ہوگا جو کائنات میں پائے جاتے ہیں۔ جن کی تعداد اس وقت تک کی تحقیقات کے مطابق چورانوے بتائی جاتی ہے ۔ جسم انسانی کے کیمیاوی تجزیہ سے اس بات کی شہادت ملتی ہے کہ انسان کے جسم میں ان عناصر میں سے ہر عنصر ایک مناسب مقدار میں موجود ہے۔ گو بعض عناصر اس قدر خفیف مقدار میں ہیں کہ ان کی موجودگی کا تحقق آسانی سے نہیں کیا جا سکتاجب ان عناصر میں سے کسی عنصر کی مقدار میں کمی واقع ہو جاتی ہے تو انسان کے جسمانی قویٰ ٹھیک طرح سے کام نہیں کرتے اور اس کی صحت میں نقص پیدا ہو جاتا ہے اس بات سے ضمناً یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ ان عناصر کی تخلیق کا مقصد یہی تھا کہ یہ عناصر بعد میں جسدِ انسانی کے اجزاء بنیں اور کائنات کا ہر مادی مرحلۂ ارتقاء جس کے نتیجہ کے طور پر یہ عناصر وجود میں آئے فقط انسان کی تخلیق ہی کی ایک تیاری تھی۔
جسم انسان کا ہیولیٰ
اب غور کیجیے کہ یہ مٹی کا خلاصہ یا نچوڑ انسان کے جسم میں کہاں سے آتا ہے ظاہر ہے کہ انسان کے جسم کے حیاتیاتی اعمال اس کو غذا کے ذریعہ سے مٹی میں سے اخذ کرتے ہیں۔ یہ اُسی صورت میں ممکن ہے جب یہ سمجھا جائے کہ انسان کا جسم ایک مسلسل حیاتیاتی نشوونما کا نتیجہ ہے جو کسی نہایت ہی ادنیٰ حالت سے شروع ہو ئی ہو گی۔ اس کے برعکس اگر یہ مانا جائے کہ خدا نے سوکھی سڑی سیاہ مٹی کا ایک بت بنا کر اس میں پھونکا تھا اور اس طرح بشر فی الفور وجود میں آ گیا تھاتو پھر وہ مٹی کے خلاصہ سے نہیں بنا بلکہ محض کیچڑ سے بنا ہے جو قرآن کی تصریح کے خلاف ہے۔
قرآن کی دوسری آیت جو اوپر نقل کی گئی ہے جسدِ انسانی کی ابتدا (بدا خلق) کا ذکر کرتی ہے اور پہلی آیت اس کے ارتقاء اور اس کی حیاتیاتی نشوونما پر روشنی ڈالتی ہے۔
تخلیق ازواج
(۹) قرآن میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو مرد کے پہلو سے پیدا کیا ہے:
{یٰٓــاَیـُّـہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّـکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّـفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالاً کَثِیْرًا وَّنِسَآئً ج} (النساء:۱)
’’اے لوگو ڈرو اپنے ربّ سے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور پھر اس سے تمہارا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں کی نسل سے بہت سے مرد اور عورتیں (پیدا کر) کے پھیلائے۔‘‘
یہ تصور بشر کی فوری تخلیق سے نہیں بلکہ تدریجی ارتقائی تخلیق سے مطابقت رکھتا ہے۔ اگر خدا نے آدم کا بت بنا کر اسے پھونک سے فی الفور زندہ کر دیا تھا تو وہ حوا کو بھی اس کے ساتھ ہی اسی طرح پیدا کر سکتا تھا۔ انسان جیسے ایک ترقی یافتہ جاندار کا کوئی ٹکڑا ایک مکمل جاندار نہیں ہو سکتا۔ مرد کے پہلو سے عورت کے پیدا ہونے کی حقیقت یہ ہے کہ جسدِ انسانی کی اوّلین صورت ایک جونک کی طرح ایک ہی خلیہ پر مشتمل تھی اور ایک خلیہ کے جان دار کے توالد کا طریق یہ ہے کہ وہ بڑھ کر خود بخود دو حصوں میں منقسم ہو جاتا ہے‘ جن میں سے ہر ایک حصہ ایک مکمل جاندار ہوتا ہے پھر بدنی ارتقاء کے اگلے مراحل پر ایک حصہ مادہ کے فرائض کے لیے اور دوسرا حصہ نر کے فرائض کے لیے موزوں بن جاتا ہے اور پھر جسمانی ارتقاء کی انتہا پر جب انسان کا ظہور ہوتا ہے تو اپنے اجداد کی طرح وہ بھی ازواج کی شکل میں ہوتا ہے۔
(۱۰) قرآن میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو گوشت کے لوتھڑے سے پیدا کیا ہے:
{اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ (۱) خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ (۲)} (العلق)
’’اس خدا کے نام سے پڑھ جس نے انسان کو ایک لوتھڑے سے پیدا کیا‘‘۔
خلق نسل انسانی کی ابتداء بھی ہے
جسم انسانی کے ارتقاء کی ابتداء ایک خلیہ کے جان دارامیبا سے ہوئی ہے جو ایک لوتھڑے سے مشابہ ہے۔ اس آیت کے مضمون کا اطلاق جس طرح ایک فرد انسانی کی تخلیق پر ہوتا ہے اسی طرح سے نسل انسانی کے ارتقاء پر بھی ہوتا ہے۔
نفسیاتی ارتقاء
یہاں تک تو قرآن کے ارشادات کا ذکر ہوا ہے جو مادی اور حیاتیاتی مرحلوں میں کائنات کے ارتقاء پر روشنی ڈالتے ہیں لیکن انسانی مرحلۂ ارتقاء کی تائید میں بھی قرآن کے ارشادات نہایت واضح ہیں:
{فَلَآ اُقْسِمُ بِالشَّفَقِ (۱۶) وَالَّــیْلِ وَمَا وَسَقَ (۱۷) وَالْقَمَرِ اِذَا اتَّسَقَ(۱۸) لَـتَرْکَبُنَّ طَـبَـقًا عَنْ طَبَقٍ (۱۹) فَمَا لَہُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ (۲۰)} (الانشقاق)
’’مجھے شفق کی قسم ہے اور رات کی اور ان چیزوں کی جو اس میں سمٹ آتی ہیں اور چاندکی جب کمال پر پہنچ جاتا ہے کہ تم سیڑھی پر چڑھتے جاؤ گے (یہاں تک کہ اپنے روحانی کمال کو پہنچو گے) پھر کیا ہوا ہے ان کو جو یقین نہیں لاتے‘‘۔
آیت کی تفسیر
شفق سورج کی روشنی کا بقیہ ہے جب یہ غائب ہونے لگتی ہے اور رات کی تاریکی چھانے لگتی ہے تو انسان اور حیوان سمٹ کر اپنے ٹھکانوں میں پہنچ جاتے ہیں۔پھر چاند کی روشنی شفق کی روشنی کی جگہ لیتی ہے تو وہ بھی ناتمام ہوتی ہے۔ تاہم چاند کے بڑھنے سے رفتہ رفتہ بڑھتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ چاند جب کامل ہو جاتا ہے تو دنیا بھر جگمگانے لگتی ہے۔ یہی حال انسان کا ہے کہ اس وقت وہ کفر کی تاریکی میں گھرا ہوا ہے اور اپنے کفر کی لائی ہوئی مصیبتوں سے پناہ تلاش کرتا رہتا ہے لیکن پناہ نہیں پاتا اور نہ جانتا ہے کہ یہ پناہ کہاں سے ملے گی۔
نوعِ بشر کے قلب میں اخلاق اور روحانیت کی دھندلی سی روشنی جو پہلے انبیاء کی تعلیم کے اثرات کا بقیہ ہے شفق کی طرح چمک رہی ہے پر اس دھندلکے میں اسے اپنی راہ نظر نہیں آتی لیکن رفتہ رفتہ انسان کے دل کی اس روشنی میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ کیونکہ انسان خدا کی ہدایت کے منشاء اور اپنی فطرت کے تقاضے کے قریب آتا جائے گا۔ یہاں تک کہ انسان اپنے روحانی کمال تک پہنچ جائے گا۔ انسان کے ارتقاء کا یہ راستہ اور اس کی آخری منزل مقدّرات میں سے ہیں جس طرح سے چاند کے لیے مقدر ہو چکا ہے کہ وہ رفتہ رفتہ ترقی کر کے اپنے کمال کو پہنچے اسی طرح اس راستہ یا منزل سے گریز ممکن نہیں اور انسان زود یا بدیر اس کی طرف آنے کے لیے مجبور ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ جو کچھ انسان نے کل بڑی مصیبتوں کے بعد کرنا ہے آج نہیں کر لیتا اور خدا کی اس ہدایت پر ایمان نہیں لاتا؟
غلبۂ اسلام اور ارتقاء
قرآن کی یہ پیش گوئی کہ حضورﷺ کا پیغامِ رسالت تمام ادیان پر غالب رہے گا انسان کے اخلاقی یا روحانی ارتقاء کے تصور کی تائید کرتی ہے:
{ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ(۹)} (الصف)
’’اللہ وہ ذات پاک ہے جس نے اپنے رسول(ﷺ) کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اُسے تمام ادیان پر غالب کر دے خواہ مشرکین ناپسند کریں‘‘۔
خدا کی ہدایت کا ارتقاء
نوعِ بشر کے تمدنی اور ذہنی ارتقاء کے ساتھ خدا کی ہدایت کا بھی ارتقاء ہوا ہے اور اس کا کمال حضورﷺ کی تعلیم ہے:
{اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَـکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ} (المائدۃ:۴)
’’آج میں نے تمہارا دین تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت پوری کر دی ہے‘‘۔
روحانی ارتقاء کی شہادتیں
اگر روحانی ارتقاء کا نظریہ صحیح نہ ہو تو پھر انبیاء کی بعثت اور خدا کی ہدایت کا نزول بے کار چیزیں ہو جاتی ہیں کیونکہ پھر کافر کا کفر سے ہٹنا اور ایمان کی طرف آنا اور مؤمن کا روحانی طور پر ترقی کرنا اور بلند تر درجات کا پانا اور خدا کے قریب تر ہونا ممکن نہیں ہو سکتا۔ لیکن خدا کہتا ہے کہ کفر اور ایمان دونوں کے درجات ہیں جن کے مقابل میں دوزخ اور جنت کے بھی درجات ہیں کافر ایمان کے قریب تر آ سکتا ہے اور مؤمن ایمان میں بلند تر ہو سکتا ہے:
{نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَائُ} (الانعام:۸۳)
’’ہم جس کے درجات چاہیں بلند کرتے ہیں‘‘۔
{وَلَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ} (یوسف:۵۶)
’’ اورمحسنین کا اجر ضائع نہیں کرتے‘‘۔
روحانی ارتقاء کی کوئی حد نہیں یہاں تک کہ حضورﷺ کا روحانی ارتقاء ہوتا رہا اور خدا نے وعدہ کیا کہ آپ کو اس کی بلند ترین منازل تک پہنچایا جائے گا۔
{عَسٰی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا} (بنی اسراء یل:۷۹٠)
’’عنقریب خدا تمہیں قابل ستائش مقام تک بلند کرے گا‘‘۔
روحانی ارتقاء موت کے بعدبھی جاری رہتا ہے ۔ جنت میں اہل جنت کی پکار ہو گی:
{رَبَّنَا اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا } (التحریم:۸)
’’اے خدا ہمارے نور کو مکمل کر دے۔‘‘
ہر اذان کے بعد ہم آج تک دعا مانگتے ہیں کہ اے خدا حضورﷺ کو مقامِ محمود عطا فرما جس کا تو نے وعدہ کیا ہے:
اَللّٰھُمَّ رَبَّ ھٰذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ وَالصَّلٰوۃِ الْقَائِمَۃِ اٰتِ مُحَمَّدَ نِ الْوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ وَابْعَثْہُ مَقَامًا مَّحْمُوْدَا نِ الَّذِیْ وَعَدْتَّہٗ اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادِ
’’اے خدا جو اس دعوت کاملہ اور صلوٰۃ قائمہ کا رب ہے۔ محمدﷺ کو وسیلہ اور فضیلت عطا فرما اور آپ کو اس مقامِ محمود تک بلند کر جس کا تو نے وعدہ کیا ہے تو وعدوں کے خلاف نہیں کرتا۔‘‘
سرگزشت تخلیق
قرآن میں ایک جگہ ساری کائنات کی تخلیق کا مسلسل قصہ اس طرح سے بیان کیا گیا ہے:
(۱) {اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ ط مَا لَـکُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلَا شَفِیْعٍ ط اَفَلَا تَتَذَکَّرُوْنَ(۴)} (السجدۃ)
’’اللہ وہ ذات ہے جس نے آسمان اور زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو چھ دن میں پیدا کیا ۔ پھر وہ کائنات کی حکومت کے تخت پر متمکن ہوا۔ اس کے سوائے تمہارا کوئی دوست یا شفاعت کنندہ نہیں کیا تم نصیحت نہیں پکڑتے۔‘‘
(۲) {یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآئِ اِلَی الْاَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَـیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ اَلْفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ ( ۵)} (السجدۃ)
’’وہ اپنے مخفی ذہنی امر کی تدبیر کرتے ہوئے اسے بلندی سے پستی کی طرف لاتا ہے اور پھر جب وہ تخلیق کی صورت میں عیاں ہوتا ہے تو اس کی صرف صعود کرتا ہے ایسے ادوار کے ذریعہ سے جن میں سے ہر دَور تمہاری گنتی کے مطابق ایک ہزار سال کا ہوتا ہے۔‘‘
(۳) {ذٰلِکَ عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ (۶)} (السجدۃ)
’’یہ ہے وہ خدا جو مخفی اور عیاں دونوں کو جانتا ہے غالب اور رحیم ہے‘‘۔
(۴) { (الَّذِیْ اَحْسَنَ کُلَّ شَیْئٍ خَلَقَہٗ وَبَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِیْنٍ (۷) } (السجدۃ)
’’وہ پاک ہے جس نے ہر چیز کو خوبصورتی سے پیدا کیا جس نے انسان کی تخلیق کا آغاز کیچڑ سے کیا‘‘۔
(۵) {ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہٗ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ مَّــآئٍ مَّہِیْنٍ (۸) ثُمَّ سَوّٹٰہُ وَنَفَخَ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِہٖ وَجَعَلَ لَـکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْئِدَۃَ ط قَلِیْلًا مَّا تَشْکُرُوْنَ (۹)} (السجدۃ)
’’پھر ایک ذلیل پانی کے نچوڑ سے اس کی نسل جاری کی۔ پھر اسے مکمل کیا۔ یہاں تک کہ اس میں اپنی روح پھونک دی اور تمہارے لیے کان آنکھیں اور دل جیسے اعضاء بنائے تم بہت کم شکر بجا لاتے ہو‘‘۔
ان میں سے بعض آیات کا ذکر اوپر آ چکا ہے جہاں یہاں یہ بتایا گیا تھا کہ کس طرح ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ کائنات کی تخلیق ایک تدریجی ارتقائی عمل سے ہوئی ہے۔
ارتقاء کی ایک اور دلیل
یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ کس طرح سے ان آیات میں سے بالخصوص دوسری آیت جو یُدَبِّرُ الْاَمْرَ سے شروع ہوتی ہے کائنات کی ارتقائی تخلیق پر دلالت کرتی ہے اور باقی آیات کی اس تفسیر کی تائید کرتی ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے۔
امر کے معنی
اس آیت کے سیاق و سباق سے ظاہر ہے کہ اس میں کائنات کی تخلیق کا ذکر ہے کیونکہ اس سے پہلی اور بعد کی آیات کا مضمون یہی ہے۔ امر کے معنی ہیں حکم‘ اور اس سے مراد ہے خدا کا کسی چیز کو پیدا کرنے کا ارادہ کر کے اسے حکم دینا کہ وہ پیدا ہو جائے اس کی تعریف اور تشریح قرآن میں دوسری جگہ اس طرح سے ہے:
{اِنَّمَا اَمْرُہٗ اِذَا اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّـقُوْلَ لَـہٗ کُنْ فَـیَکُوْنَ} (یٰسٓ:۸۲)
’’خدا کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کو پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کہتا ہے ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔‘‘
لیکن فَـیَکُوْن کا مطلب یہ نہیں کہ چیز فوراً وجود میں آجاتی ہے ۔ اس کا مطلب فقط یہ ہے کہ وہ وجو د میں آ جاتی ہے۔ لیکن قرآن کی دوسری آیات اور قدرت کے مشاہدات سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا وجود میں آنا بتدریج ہوتا ہے۔
تدبیر امر کے معنی
کیونکہ خدا کے امر کی ممکنات کا ظہور رفتہ رفتہ اپنے کمال کو پہنچتا ہے بالکل اسی طرح سے جس طرح ایک بیج رفتہ رفتہ اپنی ممکنات کا اظہار کرتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک کامل درخت بن جاتا ہے۔ گویا ارادہ اور امر کے بعد ایک تدبیر امر کا عمل ہوتا ہے جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ چیز کی ربوبیت کرتا ہے اور اسے تمام ارتقائی مدارج سے گزار کر اس کے کمال تک پہنچاتا ہے۔ اس عمل کے دوران میں اللہ تعالیٰ کی تمام صفات جلال و جمال اپنا ظہور پاتی ہیں۔ اس تدبیر امر کے دو حصے ہوتے ہیں۔ ایک ھبوط اور دوسرے صعود۔
تخلیق کی اصل محبت ہے
خالق کی تخلیق کا سبب یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک حسین و جمیل آدرش کے حسن و جمال کا احساس کرتا ہے اور اسے اس حسن و کمال کے ساتھ وجود میں لاناچاہتا ہے۔ یہ آدرش درحقیقت خالق کے اپنے ہی حسن و کمال کا عکس ہوتا ہے تاہم وہ اسے اپنے سے غیر تصور کر کے اس کی جستجو کرتا ہے۔ پہلے آدرش اپنے حسن و کمال کے ساتھ خالق کے ذہن میں مخفی ہوتا ہے ۔ اس کی محبت یا کشش اس کو اس کی تخلیق کرنے اور اس کو آشکار کرنے پر مائل کرتی ہے۔ لہٰذا وہ آدرش عیاں ہو کر تخلیق کے اندر جلوہ افروز ہوتا ہے۔ گویا پہلے غیب میں ہوتا ہے پھر شہادت میں آ جاتا ہے۔
ہبوط ابتدائے تخلیق ہے
لیکن جب خالق اس کو ظہور میں لانے کے لیے اس کی تخلیق کرتا ہے تو سب سے پہلے وہ اپنے آدرش حسن و کمال کے باوجود ایک نہایت ہی پست حالت میں جو بظاہر اس کے حسن و کمال سے کوئی نسبت نہیں رکھتی جلوہ گر ہوتا ہے۔ جیسے کہ مثلاً ایک خوبصورت پھول کا تصور پہلے ایک بدنما سے بیج کی صورت میں ظاہر ہو۔ یہ اس کا ہبوط ہے۔ گویا وہ حسن کی بلندی (سما) سے پستی (ارض) کی طرف پھینک دیا گیا ہے۔ عربی زبان میں’’سما‘‘ بلندی کو کہتے ہیں اور ’’ارض‘‘ پستی کو ۔ مثلاً قرآن میں ہے:
{وَلٰـکِنَّہٗ اَخْلَدَ اِلَی الْاَرْضِ} (الاعراف:۱۷۶) ’’وہ پستی کی طرف رہ گیا۔‘‘
صعود یا ارتقاء لازمۂ تخلیق ہے
تاہم اس ابتدائی حالت کے اندر اس کا حسن و کمال اس طرح سے مخفی ہوتا ہے جیسے کہ بیج کے اندر پھول‘ لہٰذا خالق کا تخلیقی عمل جسے اس آیت میں تدبیر کہا گیا ہے۔ ا س کی ممکنات کو پوری طرح جلوہ افروز کرنے کے لیے اس کی ربوبیت کرتا ہے اور اسے ارتقائی مدارج سے گزارتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خالق کے ذہنی تصور حسن و کمال یا آدرش کے قریب آ جاتا ہے یہ اس کا صعود یا عروج ہے اس ساری ارتقائی حرکت کو جو پستیوں میں آغاز کرتی ہے وجود میں لانے والی قوت وہی خالق کا ارادئہ تخلیق ہوتا ہے جس کے لیے آدرش کا حسن و کمال ایک معیار یا ایک منزل مقصود کا کام دیتا ہے۔ گویا تخلیق کی تربیت اور تدبیر اس کے معیارِ کمال کے تصور کے ذریعہ سے ہوتی ہے جو اس کے ارتقاء کا بلند ترین نقطہ یا اس کا آسمان ہے۔ لیکن تخلیق کا آغاز ایک پست حالت سے ہوتا ہے جو گویا اس کی زمین ہے۔ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآئِ اِلَی الْاَرْضِ کے معنی یہی ہیں۔ آدرش کے حسن و کمال کا احساس گویا مبداء تدبیر و تخلیق ہے اور یہ ارتقائی حرکت مخلوق کو پستی سے بلندی کی طرف لاتی ہے۔ یہاں تک کہ مخلوق حسن و کمال کے اس مقام کو پالیتی ہے‘جو خالق کے ذہنی آدرش کے بالکل مطابق ہوتا ہے تَعْرُجُ اِلَـیْہِ کے معنی یہی ہیں لیکن یہ عمل ایک طویل مدت چاہتا ہے {فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ اَلْفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ}
کائنات کا ہبوط اور صعود
اس آیت میں اس ہبوط اور صعود کا ذکر جو کائنات کی تخلیق کے دو قدم ہیں خدا کا آدرش جسے خدا تخلیق کے ذریعے سے ظہور میںلا رہا ہے انسانِ کامل ہے اور کائنات کی تخلیق جو اب بھی جاری ہے اسی آدرش کی جستجو ہے اور اس کی غرض انسانِ کامل کا ظہور ہے۔ ساری تخلیق اسی غرض کے ماتحت ہے۔
وحدتِ کائنات
خدا اس کائنات میں جو چیزیں پیدا کرتا ہے وہ علیحدہ علیحدہ نہیں ہیں بلکہ ایک ہے کائنات کی تخلیق کے لیے ایک ہی تخلیقی عمل کی کڑیاں ہیں۔ کائنات اس وقت مکمل ہو گی جب نوعِ بشر اپنے تمام مخفی کمالات کو پا لے گی۔ انسان کامل کے آدرش کو جب اللہ تعالیٰ نے تخلیق کی غرض سے ہبوط میں مبتلا کیا تو ابتدائی کائنات جو ظہور میں آئی وہ ایک برقی قوت کی صورت میں تھی۔ یہ گویا کامل نوعِ بشر کا بیج تھا‘ جو رفتہ رفتہ بڑھتا اور پھولتا رہا اور کروڑہا برس میں جسدِ انسانی تک پہنچا۔ اس کا ارتقاء ابھی جاری ہے کیونکہ ابھی انسان کے تمام ممکنات اور اس کے تمام کمالات کا ظہور نہیں ہوا۔
صعود کی مدت
ماہرین کی تحقیق کے مطابق ابتدائے آفرینش سے زندگی کے ظہور تک کی مدت تین چار ارب سال اور زندگی کے ظہور سے لے کر انسان کے ظہور تک قریباً دو ارب سال بتائی جاتی ہے۔ درحقیقت جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہے اس آیت میں الف سنۃ کے الفاظ کسی ریاضیاتی عدد کو ظاہر نہیں کرتے بلکہ ایک محاورہ کے طو رپر استعمال کیے گئے ہیں اور ان سے مراد ایک نہایت ہی طویل مدت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک اور جگہ اس مدت کی طوالت کا ذکر کرتے ہوئے اسے ایک ہزار سال کی بجائے پچاس ہزار سال بتایا گیا ہے:
{تَعْرُجُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوْحُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃٍ}
(المعارج:۴ )
’’اور اس کی طرف ملائکہ (وہ قوتیں جو قوانینِ قدرت کے عمل کو حرکت میں لانے کے لیے مامور ہیں) اور زندگی دونوں چیزیں ارتقاء کرتی ہیں ایسے ایک ایک دور میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہوتی ہے۔‘‘
عروج ملائکہ کا مطلب
ضمناً یہ آیت اوپر کی آیت کے ساتھ ہم معنی ہے اور اس کی مزید تشریح کرتی ہے۔ یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ کائنات کا ارتقاء قوانینِ قدرت کا ارتقاء ہے۔ یہاں ان قوانینِ قدرت کو ملائکہ کہا گیا ہے کیونکہ ان کے عمل پر ملائکہ مامور ہیں۔ جب زندگی بلند سطحوں کی طرف ارتقاء کرتی ہے تو وہ نئے قوانین کے عمل کی زد میں آ جاتی ہے اور پھر نئے بلند سطحوں کے ملائکہ اس پر مامور ہوتے ہیں۔ یہی فرشتوں کا عروج الی الحق ہے۔ مینہ برسانے والے ملائکہ اس وقت ظہور میں آئے جب زمین پر مینہ برسنے لگا اور موت لانے والے ملائکہ اس وقت ظہور میں آئے جب کائنات نے حیاتیاتی مرحلہ میں قدم رکھا۔ وعلی ہٰذا القیاس۔
عروج روح کا مطلب
اور یہاں روح سے مراد زندگی ہے جو جمادات‘ نباتات‘ حیوانات اور انسان میں موجود ہے اور رفتہ رفتہ ارتقائی مدارج طے کر کے آگے بڑھ رہی ہے ۔ یہی زندگی کا عروج الی الحق ہے۔
غیب اور شہادت اور غلبہ اوررحمت کے معانی
قرآن کی عادت ہے کہ اس کی آیات کے خواتیم آیات کے معانی پر روشنی ڈالتے ہیں۔ یہاں غیب (پوشیدہ) سے مراد خداکا ذہنی تصور کمال یا آدرش ہے اور شہادت (ظاہر)سے مراد ہے اس کا کوئی ظہور اور ارتقاء۔ عزیز (غالب) میں اشارہ ہے کہ خدا اپنے امر پر یا اپنے آدرشِ تخلیق کو ظہورمیں لانے پر قادر ہے اور قرآن کی ایک اور آیت میں ان معنوں کی تصدیق اس طرح سے موجود ہے:
{وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰی اَمْرِہٖ} (یوسف:۲۱) ’’خدا اپنے امر پر غالب ہے‘‘۔
رحیم (رحمت والا) کے لفظ میں یہ اشارہ ہے کہ اس کی تخلیق محبت‘ رحمت اور ربوبیت کے ذریعہ سے یعنی ایک ارتقائی عمل کے ذریعہ سے ہوتی ہے۔
اگلی تین آیات میں تفصیلی طور پر اس بات کا ذکر ہے کہ خدا کے آدرشِ تخلیق کا تدریجی ارتقائی ظہور اور اپنے مبداء کی طرف عروج جس پر اب تک کروڑہا برس صرف ہو چکے ہیں کن مدارج سے گزار ہے۔
مدارج ارتقاء کا ذکر
ان آیات سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ انسان کے تسویہ یا اس کی تکمیل سے بہت پہلے اس کی نسل ایک ادنیٰ اور غیر کامل صورت میں توالد اور تناسل کے ذریعے سے دنیا کے اندر قائم تھی اور رفتہ رفتہ ارتقاء کی منزلوں کی طرف آگے بڑھ رہی تھی۔
یہ تمام حقائق مل کر صرف یہی ثابت نہیں کرتے کہ قرآن نظریۂ ارتقاء کا مخالف نہیں بلکہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ قرآن ارتقاء کے نظریہ کی تعلیم دیتا ہے۔ تاہم بعض وقت ہم قرآن کی بعض آیات کی توجیہہ اس طرح سے کرتے ہیں کہ وہ تصورِ ارتقاء کے ساتھ متعارض ہو جاتی ہیں اور پھر ہم ان آیات کو نظریۂ ارتقاء کے خلاف اعتراضات کی صورت میں پیش کرتے ہیں۔ لہٰذا یہاں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آیا ان آیات میں فی الواقع کوئی چیز ایسی موجود ہے جو نظریۂ ارتقاء کے خلاف ہے یا نہیں؟
پہلا اعتراض
قرآن میں ہے:
{وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ اٰدَمَ}(بنی اسراء یل:۷۰)
’’ہم نے انسان کو معزز بنایا ہے‘‘۔
اگر ادنیٰ حیوانات‘ انسان کے آباؤ اجداد ہیں تو وہ اس سے افضل ٹھہرے یہ عقیدہ ذلت آمیز ہے اور انسان کی بزرگی اور عظمت کے منافی ہے کہ ہم یہ مانیں کہ اس کی نسل کمتر درجہ کے حیوانات کی اولاد ہے۔
جواب
قرآن کہیں یہ نہیں کہتا کہ شرفِ انسانی کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ انسان کا ماضی شاندار اور قابلِ احترام ہے۔ بلکہ وہ کہتا ہے کہ گو اس کا ماضی نہایت ہی حقیر اور ذلیل تھا۔ ہماری تربیت کی وجہ سے اس کی موجودہ حالت نہایت ہی اعلیٰ درجہ کی ہے۔ کیونکہ اس میں ہمارے اوصاف کی ایک جھلک پیدا ہو گئی ہے اور انسان کو چاہیے کہ اپنی اصل کو نہ بھولے اور ہماری قدرت‘ حکمت اور محبت اور رحمت کا اعتراف کرے اور ہمارا شکر بجا لائے کہ ہماری ربوبیت نے اسے کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ قرآن انسان کی خودپسندی پر ضربِ کاری لگاتا ہے اور اسے بتاتا ہے کہ ا س کے لیے اپنے آپ پر فخر کرنے اور خدا سے بغاوت کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ اس سلسلہ میں قرآن کے ارشادات حسبِ ذیل ہیں:
{ہَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّہْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَّذْکُوْرًا (۱) اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ ق نَّـبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنٰـہُ سَمِیْعًام بَصِیْرًا (۲)} (الدھر)
’’کیا انسان پر کوئی ایسا وقت بھی آیا ہے جب وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہیں تھا۔ ہم نے انسان کو ایک مخلوط ٹپکنے والے قطرہ سے پیدا کیا ہے تاکہ ہم اسے آزمائیں اور پھر ہم نے اسے سننے والا دیکھنے والا بنا دیا۔‘‘
{فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ (۵) خُلِقَ مِنْ مَّآئٍ دَافِقٍ (۶) یَّخْرُجُ مِنْم بَیْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَآئِبِ(۷)} (الطارق)
’’پس انسان دیکھے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے اسے گرے ہوئے پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو پیٹھ اور پسلیوں کے بیچ میں سے نکلتا ہے۔‘‘
{اَلَمْ یَکُ نُطْفَۃً مِّنْ مَّنِیٍّ یُّمْنٰی (۳۷) ثُمَّ کَانَ عَلَقَۃً فَخَلَقَ فَسَوّٰی (۳۸}
(القیامۃ )
’’کیا وہ منی کا ایک نطفہ نہیں تھا جو ڈالی جاتی ہے پھر وہ ایک لوتھڑا تھا۔ سو اسے پیدا کیا پھر مکمل کیا ۔‘‘
{قُتِلَ الْاِنْسَانُ مَا اَکْفَرَہٗ(۱۷) مِنْ اَیِّ شَیْء خَلَقَہٗ(۱۸) مِنْ نُطْفَۃٍ خَلَقَہٗ فَقَدَّرَہٗ(۱۹) ثُمَّ السَّبِیْلَ یَسَّرَہٗ(۲۰)} (عبس)
’’انسان ہلاک ہو کیسا ناشکرا ہے خدا نے اسے کس چیز سے پیدا کیا۔ وہ نطفہ سے اسے پیدا کرتا ہے۔ پھر اُسے طاقت دیتا ہے پھر اس کے لیے راستہ آسان کر دیتاہے‘‘۔
بلکہ ان آیات کے اندر یہ بات مضمر ہے کہ فردِ انسانی کی طرح نسلِ انسانی بھی ادنیٰ حالتوں سے ترقی کر کے موجودہ حالت تک پہنچی ہو گی کیونکہ اس مفروضہ کے بغیر ان آیات کے مضمون کا زور ٹوٹ جاتا ہے۔ پھر ایک فرد کہہ سکتا ہے کہ اگر میں ایک قطرئہ آب سے پیداہوا ہوں تو کیا ہوا۔ میرا باپ تو ایک عظیم الشان ہستی تھی جو بنی بنائی جنت سے نازل ہوئی تھی۔
فرد اور نسل کی مشابہت
جب ماں کے پیٹ میں ہر فردِ انسانی کی اشکال ایک جونک یا امیبا سے لے کر مختلف قسم کے ادنیٰ حیوانات سے مشابہ ہوتی ہیں اور ہم اسے ایک قدرتی چیز سمجھتے ہیں جس میں کوئی قباحت یا حرج نہیں تو پھر اگر علمی تحقیقات سے ثابت ہوجائے کہ نسلِ انسانی کی پہلی اشکال بھی بالکل ان ہی حیوانات کی اشکال تھیں جن میںسے نسلِ انسانی بالکل اسی ترتیب سے گزری ہے‘ جس ترتیب سے ایک فرد انسانی اب گزرتا ہے تو اس میں کیا قباحت اور کیا حرج ہے۔ اگر ایک فرد انسانی کی یہ سابقہ اشکال اس کی عزت اور شرف کے منافی نہیں تو نسلِ انسانی کی یہی سابقہ اشکال اس کی عزت کے منافی کیونکر ہو سکتی ہیں۔ ارتقائے انواع کا نظریہ پوری نسل انسانی کے لیے وہی بات کہتا ہے جو ایک فرد انسانی کی صورت میں ہمارے مشاہدہ میں آتی ہے۔ اگر مؤخر الذکر عجیب نہیں تو اوّل الذکر بھی عجیب نہیں ہو سکتی۔
دوسرا اعتراض
قرآن میں ہے:
{اِنَّمَا اَمْرُہٗ اِذَا اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّـقُوْلَ لَـہٗ کُنْ فَـیَکُوْنُ} (یٰسٓ:۸۲)
’’جب خدا کسی چیز کو پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اُسے کُنْ کہتا ہے اور وہ ہو جاتی ہے۔‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات فوری طور پر لفظ کُن ‘ سے پیدا ہوئی ہے۔ تدریجاً پیدا نہیں ہوئی۔
جواب
اس آیت سے یہ قطعی طور پر ثابت نہیں ہوتا کہ کُن ‘کی تعمیل تدریجی ارتقاء سے نہیں ہو رہی بلکہ فوری طو رپر ہو گئی ہے۔ اس آیت کا مطلب تو فقط اتنا ہی ہے کہ کائنات خدا کے حکم سے وجود میں آئی ہے‘ آ رہی ہے اور آتی رہے گی۔ یعنی اس کے ارتقاء کے آغاز اور انجام کا سبب لفظ کُن ‘ ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ کُن کا لفظ خدا کے جس ارادہ کو ظاہر کرتا ہے ۔ اس کی ممکنات کا مکمل ظہور یکایک ہو گیاتھا۔
کُن کی ممکنات کا تدریجی ظہور
اگر ہم اس آیت سے فوری تخلیق کا نتیجہ اخذ کریں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جب سے کائنات وجود میں آئی ہے اس میں تغیر نہیں ہوا۔ اوپر بتایا گیا ہے کہ یہ مطلب قرآن کی دوسری آیات کے مخالف ہے اور پھر تغیر ہر روز ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے دنیا ہر روز‘ بلکہ ہر آن اور ہر لمحہ ایک حالت سے دوسری حالت میں داخل ہو رہی ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ جس حد تک ہمارے علم کی روشنی ماضی کے دھندلکے کو چیر کر دیکھ سکتی ہے۔ آج سے پہلے بھی تغیر ہر روز‘ ہر آن اور ہر لمحہ ہوتا رہا ہے اس سے ہم یہ ماننے پر مجبور ہوتے ہیں کہ زمانہ قبل از تاریخ میں بھی تغیر برابر جاری رہاہے اور دنیا کی ہر حالت سے پہلے ایک اور کمتر درجہ کی حالت موجود تھی۔ تخلیق کوئی ایسی چیز نہیں جو ماضی میں واقع ہوئی تھی اور اب موقوف ہو چکی ہے بلکہ یہ ایک مسلسل عمل ہے چنانچہ قرآن میں ہے:
{یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَا یَشَائُ} (فاطر:۱)
’’خدا اپنی تخلیق میں جن اشیاء کو چاہتا ہے بڑھاتا جاتا ہے‘‘۔
اور پھر ارشاد ہے:
{وَیَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ} (النحل:۸)
’’اور خدا وہ چیزیں پیدا کرتا ہے جو تم نہیں جانتے۔‘‘
ظاہر ہے کہ اگر تخلیق ہر آن نئی نہیں ہو رہی تو اس کا جاننا ممکن ہے لیکن اگر وہ ہر آن جاری ہے تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ اللہ تعالیٰ کی نو آفرینی آگے کس چیز کو پیدا کرے گی؟
تخلیق کے عمل کا تسلسل اس بات کے منافی نہیں کہ اس کا سبب قولکُن ‘ ہوخدا ایک درخت یا ایک انسان یا ایک حیوان کو بھی قول کُن ‘سے پیدا کرتا ہے۔لیکن ان میں سے ہر ایک چیز کی نشوونما ہوتی ہے۔ ہر چیز کُن ‘سے پیدا ہوتی ہے۔ لیکن ہر چیز ترقی کر کے مکمل ہوتی ہے۔ کوئی چیز یکایک وجود میں نہیں آتی۔ اگر کُن ‘کی تعمیل فوراً ہو جائے تو خدا کی صفت ربوبیت بلکہ اس کی صفات جلال و جمال میں سے کسی صفت کا ظہور ممکن نہ ہو۔
وقت کی اضافیت
اس کے علاوہ وقت کی اضافی حیثیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہم یہ باور کر سکتے ہیں۔ خدا کے نزدیک ازل سے ابد تک کی مدت ایک نفس سے زیادہ نہیں گوہمیں اس مدت کے اندر تخلیق کا عمل کروڑہا برس کے عرصہ میں پھیلا ہوا نظر آتا ہے۔
قصہ آدم:
تیسرا اعتراض
قرآن میں ہے:
{ وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَةً ۭ قَالُوْٓا اَتَجْعَلُ فِيْهَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاۗءَ ۚ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ۭ قَالَ اِنِّىْٓ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ) ۳۰ (وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَاۗءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَھُمْ عَلَي الْمَلٰۗىِٕكَةِ ۙ فَقَالَ اَنْۢبِــُٔـوْنِىْ بِاَسْمَاۗءِ ھٰٓؤُلَاۗءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ) ۳۱( قَالُوْا سُبْحٰــنَكَ لَاعِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ (۳۲) قَالَ يٰٓاٰدَمُ اَنْۢبِئْـھُمْ بِاَسْمَاۗىِٕهِمْ ۚ فَلَمَّآ اَنْۢبَاَھُمْ بِاَسْمَاۗىِٕهِمْ ۙ قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ اِنِّىْٓ
اَعْلَمُ غَيْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ (۳۳)}
(البقرۃ)
’’جب خدا نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک نائب بنانے والا ہوں‘ تو انہوں نے کہا کیا تو کسی ایسی ہستی کو وہاں نائب بنائے گا جو وہاں فساد کرے اور خون بہائے حالانکہ ہم تیری محمد و ثنا کرتے ہوئے تیری پاکیزگی اور قدوسی کا اقرار کرتے ہیں۔ خدا نے کہا جو کچھ میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے اور خدا نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھا دیے اور پھران کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ اگر تم سچے ہو تو ان اشیاء کے نام بتاؤ۔ انہوں نے کہا اے خدا تو پاک ہے ہمیں کوئی علم نہیں سوائے اس کے جو تو نے ہمیں دیا ہے تو جاننے والا حکمت والا ہے ۔ خد انے کہا اے آدم فرشتوں کو ان چیزوں کے نام بتاؤ جب اس نے ان کے نام بتا دیے تو خدا نے کہا۔ کیا میں نے تمہیں کہا نہیں تھا کہ میں زمینوں اور آسمانوں کی پوشیدہ باتیں جانتا ہوں اور جو کچھ تم ظاہر کرتے اور چھپاتے ہو وہ بھی جانتا ہوں‘‘۔
{وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیْ خَالِقٌ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ(۲۸) فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَـہٗ سٰجِدِیْنَ(۲۹) فَسَجَدَ الْمَلٰٓئِکَۃُ کُلُّھُمْ اَجْعَمُوْنَ(۳۰) اِلاَّ اِبْلِیْسَ اَبٰی اَنْ یَّـکُوْنَ مَعَ السّٰجِدِیْنَ(۳۱)}
’’جب تیرے پروردگار نے فرشتوں کو کہاکہ میں خمیر اٹھے ہوئے گارے سے جو سوکھ کر بجنے لگتا ہے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں تو جب ایسا ہو کہ میں اسے درست کردوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو اس کے سامنے سجدے میں گر جاؤ چنانچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ایک ابلیس نے سجدہ کرنے والوں میں شامل ہونے سے انکار کر دیا۔‘‘
{ وَقُلْنَا یٰٓــاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّـۃَ وَکُلاَ مِنْہَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَاص وَلاَ تَقْرَبَا ہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَـکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ (۳۵) فَاَزَلَّہُمَا الشَّیْطٰنُ عَنْہَا فَاَخْرَجَہُمَا مِمَّا کَانَا فِیْہِ ص وَقُلْنَا اہْبِطُوْا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ج وَلَـکُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍ (۳۶) فَتَلَقّٰی اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْہِ ط اِنَّــہٗ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ( ۳۷) قُلْنَا اہْبِطُوْا مِنْہَا جَمِیْعًا ج فَاِمَّا یَاْتِیَنَّـکُمْ مِّنِّیْ ہُدًی فَمَنْ تَبِعَ ہُدَایَ فَلاَخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ (۳۸)} (البقرۃ)
’’اور ہم نے کہا اے آدم تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اور مزے سے جس طرح چاہو کھاؤ لیکن اس درخت کے قریب نہ آؤ (اگر ایسا ہوا) تو تم حد سے تجاوز کر جاؤ گے پھر شیطان نے ان کو اس راستہ سے پھسلا دیا اور انہیں اس سکون کی زندگی سے نکال دیا اور ہم نے کہا۔ یہاں سے نکل جاؤ تم میں سے بعض بعض دوسروں کے دشمن ہو گئے اور تم کچھ عرصہ کے لیے زمین میں رہ کر فائدہ اٹھاؤ گے پھر آدم نے اپنے پروردگار سے بعض کلمات سیکھ لیے۔ پھر اللہ نے اس کی طرف رجوع کیا۔ وہ رجوع کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ ہم نے کہا یہاں سے سب کے سب نکل جاؤ پھر جب تمہارے پاس میری ہدایت پہنچے گی تو جو شخص میری ہدایت پر عمل کرے گا وہ خوف اور غم سے محفوظ رہے گا۔‘‘
{وَلَقَدْ خَلَقْنٰـکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰـکُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ ق فَسَجَدُوْآ اِلَّا اِبْلِیْسَ ط لَمْ یَکُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ (۱۱)} (الاعراف)
’’اور دیکھو ہم نے تمہیں پیدا کیا ۔ پھر تمہاری صورت کو بنایا۔ پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے جو جھکنے والوں میں سے نہیں تھا ۔‘‘
{ یٰٓــاَیـُّـہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّــکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالاً کَثِیْرًا وَّنِسَآئً ج} (النساء:۱)
’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور دونوں سے بہت مرد اور عورتیں پھیلا دیں۔‘‘
پھر فرمایا:
{وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ ۭ اَبٰى) ١١٦( فَقُلْنَا يٰٓاٰدَمُ اِنَّ ھٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَلِزَوْجِكَ فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقٰي )١١٧( اِنَّ لَكَ اَلَّا تَجُوْعَ فِيْهَا وَلَا تَعْرٰى) ١١٨ۙ(وَاَنَّكَ لَا تَظْمَؤُا فِيْهَا وَلَا تَضْحٰي )١١٩(فَوَسْوَسَ اِلَيْهِ الشَّيْطٰنُ قَالَ يٰٓاٰدَمُ هَلْ اَدُلُّكَ عَلٰي شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَّا يَبْلٰى) ١٢٠( فَاَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفٰنِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ وَعَصٰٓى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى) ١٢١(ډثُمَّ اجْتَبٰىهُ رَبُّهٗ فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدٰى )١٢٢(قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيْعًۢا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۚ فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّنِّيْ هُدًى ڏ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقٰي
(۱۲۳)} (طٰہٰ)
’’جب ہم نے فرشتوں کو کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوائے سب نے سجدہ کیا۔ اس نے سرکشی کی۔ ہم نے کہا اے آدم! یہ تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے تم دونوں کو جنت سے نکال نہ دے پھر تم بدبخت ہو جاؤ گے بے شک تم وہاں بھوکے اور ننگے نہیں ہوگے اور نہ ہی پیاس اور دھوپ کی تکلیف برداشت کرو گے۔ پھر شیطان نے اس کے دل میں وسوسہ ڈالا اور کہا اے آدم کیا میں تمہیں ہمیشگی کے درخت کا پتہ نہ بتاؤں اور ایسی بادشاہت کا جو کبھی کہنہ نہ ہو۔ پس ان دونوں نے اس کا پھل کھایا اور انہیں اپنے ستر نظر آئے۔ تب ان کی حالت ایسی ہو گئی کہ باغ کے پتے توڑنے لگے اور ان سے اپنا جسم ڈھانکنے لگے۔ غرضیکہ آدم اپنے پروردگار کے کہنے پر نہ چلا بس وہ بے راہ ہو گیا۔ لیکن پھر اس کے پروردگار نے اسے برگزیدہ کیا۔ اس کی توبہ قبول کی اور اسے راہنمائی بخشی۔ خدا نے کہا سب یہاں سے نکل جاؤ۔ تم میں سے بعض بعض دوسروں کے دشمن ہوں گے۔ اگر میری طرف سے تمہارے پاس کوئی پیامِ ہدایت آیا تو جو کوئی میری ہدایت پر چلے گا نہ گمراہ ہو گا اور نہ مصیبت اٹھائے گا‘‘۔
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا جسم تدریجی طور پر نہیں بلکہ فوری طور پر وجود میں آیا تھا۔
جواب
ان آیات کو ٹھیک طرح سے سمجھنے کے لیے بھی الہامی کتابوں کے اسلوب بیان پر غور کرنا چاہیے ۔ الہامی کتابوں کا مقصد آدرش کے انتخاب میں انسان کی ہدایت ہے یعنی وہ انسان کو یہ بتانا چاہتی ہیں کہ انسان کا معبود کون ہے؟ اس کی رضامندی حاصل کرنا اس کے لیے کیوں ضروری ہے اور اس کی رضامندی کن طریقوں سے حاصل ہو سکتی ہے؟
الہامی کتابوں کا طرزِ بیان
وہ حقائق کو اس طرح سے بیان کرتی ہیں کہ فلسفیانہ موشگافیوں اور تفصیلات اور جزئیات میں پڑنے کے بغیر ان کا تعلیمی پہلو یا سبق یا ان کا وہ مجموعی اثر یا مطلب جو انسان کی ہدایت سے تعلق رکھتا ہے پوری قوت سے نمایاں ہو جائے۔ لہٰذا الہامی کتابوں میں حقائق کو ایک قصہ کی شکل دی جاتی ہے اور ان کو ایک ڈرامائی طرز سے بیان کیا جاتا ہے۔ اس طرزِ بیان سے حقائق ایک تصویر کی طرح سامنے آجاتے ہیں اور کم از کم الفاظ میں بیان ہونے کے باوجود زیادہ مؤثر ہو جاتے ہیں۔ اس قصہ میں اگر واقعات کا ذکر آئے تو انہیں قصہ کے مرکزی مدعا کے ماتحت مجمل اور مخفف کر لیا جاتا ہے۔ اور ان کی طرف اشارات پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
پہلی مثال
مثلاً یہ بتانا مقصود تھا کہ اللہ تعالیٰ کہ خالقیت اور ربوبیت نے انسان کی فطرت کے اندر اس بات کی شہادت مضمر کر دی ہے کہ اللہ کے سوائے اس کا کوئی معبود نہیں۔ قیامت تک ہر فرد بشر جو پیدا ہو گا وہ اسی فطرت پر پید اہو گا انسان یہ نہ سمجھے اور نہ قیامت کے دن یہ عذر پیش کرے کہ خدا کی عباد ت کی تکلیف جو اسے دی جا رہی ہے‘ تکلیف مالا یطاق ہے بلکہ یہ تکلیف اس کی عین فطرت ہے ۔ ان حقائق کو قرآن میں ایک جگہ ایک قصہ کے پیرایہ میں یوں بیان کیا گیا ہے:
{ وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِيْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَاَشْهَدَهُمْ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ ۚ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۭ قَالُوْا بَلٰي ڔ شَهِدْنَا } (الاعراف:۱۷۲)
’’جب تیرے پروردگار نے بنی آدم کی اولاد کو ان کی پیٹھوں سے اکٹھا کر کے اپنے آپ پر گواہ بنایا اور پوچھا کہ کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں۔ تو سب نے کہا! ہاں ہم گواہ ہیں۔‘‘
ظاہر ہے کہ ایسا وعدہ جو خدا نے ہمیں بھلا دیا ہے ہمارے لیے باعث حجت نہیں ہو سکتا۔ لیکن ہماری فطرت کے اندر خدا کی عبادت کی خواہش کا وجود ہونا خدا کی ربوبیت کا ایک ایسا اقرار ہے جو انکار میںبدل نہیں سکتا۔
فطرتِ انسانی کے ابدی حقائق
یہ آیت کسی واقعہ کو بیان نہیں کرتی بلکہ ایک واقعہ کی شکل میں فطرتِ انسان کے ابدی اور ازلی حقائق کو بیان کرتی ہے خدا اور نسلِ انسانی کی یہ گفتگو ایسی نہیں جس کے الفاظ کہنے کے لیے زبانیں اور سننے کے لیے کان برتے گئے ہوں بلکہ یہ وہ گفتگو ہے جو ازل سے لے کر ابد تک حقائق کی زبان سے ادا ہوتی رہے گی۔ بہرحال اگر ہم اسے ایک واقعہ سمجھیں تو بجا ہے تاکہ اپنی فطرت کی آواز کو جوایک عہد کی حیثیت رکھتی ہے ‘اور اب بھی ہمارے دل کے اندر گونج رہی ہے‘ بغور سنیں اور اس پر عمل کریں۔ ان حقائق کو قرآن نے دوسرے مقامات پر اور طریقوں سے بیان کیا ہے۔ مثلاً:
{فَاَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا فِطْرَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ} (الروم:۳۰)
’’اے پیغمبر! دین پر یکسوئی سے قائم رہو یہ اللہ کی وہی فطرت ہے جس پر اس نے تمام انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی تخلیق میں تغیر نہیں ہوتا اور یہی قائم رہنے والا دین ہے۔‘‘
{وَفِیْ اَنْفُسِکُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ} (الذریت:۲۱)
’’اور خدا کی الوہیت کا اقرار تمہارے دل میں پوشیدہ ہے کیا تم نہیں سوچتے‘‘۔
{بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ(۱۴) وَّلَـوْ اَلْقٰی مَعَاذِیْرَہٗ(۱۵)} (القیامۃ)
’’بلکہ گمراہ انسانوں کے دل میں اس کے اپنی ہی خلاف ایک شہادت موجود ہے خواہ وہ عذر تراشتا رہے کہ نہیں۔‘‘
دوسری مثال
یا مثلاً یہ بتانا مقصود تھا کہ جمالِ حقیقی کی طلب اور محبت انسان کا ایک امتیازی ملکہ ہے جو مخلوقات میں سے کسی اور کو نہیں دیا گیا۔ اس سے انسان کو عظمت اور شرف حاصل ہے لیکن اس کے ساتھ بعض بڑی بڑی ذمہ داریاں وابستہ ہیں کیونکہ اس کا استعمال غلط بھی ہو سکتا ہے ۔ انسان کو چاہیے کہ اس ملکہ کو ایک مقدس امانت تصور کرے۔ اس کی قدر و قیمت کو سمجھے اور اسے ٹھیک طرح سے کام میں لائے اور نادانی (جہل) سے اس کا غلط استعمال (ظلم) نہ کرے یعنی اسے غلط معبودوں کی پرستش کے لیے صَرف نہ کرے۔
امانت کے معنی
اگر وہ اپنے امتیازی وصف کی ذمہ داریوں کا احساس نہ کرے گا تو وہ اس شرف اور عظمت کا مالک نہیںہو سکتا جو قدرت کی طرف سے اس وصف کے باعث اس کے حصہ میں آئی ہے اس مطلب کو ایک قصہ کے طور پر ذیل کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
{اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَہَا وَاَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْاِنْسَانُ ط اِنَّـہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًا (۷۲)} (الاحزاب)
’’ہم نے امانت کو‘ آسمانوں‘ زمینوں اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا۔ انہوں نے اسے اپنے ذمہ لینے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے لیکن انسان نے اسے اٹھا لیا بے شک وہ نادان اور ظالم ہے۔‘‘
غلط تفسیر
ظاہر ہے کہ اگر ہم اس قصہ کو لغوی طور پر ایک قصہ سمجھیں تو کئی مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ مثلاً مخلوقات میں سے کسی کی کیا حیثیت ہے کہ خدا اس کے اندر کوئی قوت یا صلاحیت پیدا کرنا چاہے یا اسے کوئی ملکہ عطا کرنا چاہے تو خدا اس سے پوچھے کہ اسے منظور ہے یا نہیں اور پھر وہ انکار کر دے اور پھر وہ ملکۂ خود شعوری جو خدا نے انسان کو دیا ہے جس کی وجہ سے انسان جمالِ حقیقی کا طالب ہوتا ہے ایسا ہے کہ مخلوقات میں سے جسے وہ مل جاتا وہی انسان بن جاتا ۔ اور پھر اس پر بھی یہی الزام ہوتا کہ اس نے جان بوجھ کر مصیبت مول لی ہے اور جہل اور ظلم اختیار کیا ہے اور جب تک انسان کو یہ ملکہ نہیں ملا تھا‘ انسان انسان ہی نہیں تھا لہٰذا خدا نے کس انسان کے سامنے یہ امانت پیش کی اور اس ملکہ کے بغیر اسے انسان کس اعتبار سے کہا گیا وغیرہ۔ لیکن شرفِ انسانی کے لوازمات کو ایک قصہ کے طور پر بیان کر کے ایسے الفاظ کو کام میں لانا ممکن ہوا ہے جن سے انسان بشدت محسوس کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ پر نازاں تو ہے کہ وہ اشرف المخلوقات ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ اس کا شرف کون سی صلاحیتوںپر موقوف ہے اور ان صلاحیتوں کو اسے کس طرح کام میں لانا چاہیے تاکہ فی الواقعہ اسے وہ عظمت حاصل ہو جو وہ اپنی طرف منسوب کرتا ہے۔
تیسری مثال
اسی طرح سے یہ بتانا مقصود تھا کہ سچے خدا کی عبادت رائیگاں نہیں جاتی لیکن جھوٹے خداؤں کی عبادت ‘جس کی طرف شیطان راہنمائی کرتا ہے ‘ رائیگاں جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سچے خدا میں وہ تمام اوصاف حسن و کمال موجود ہیں جن کی خواہش انسان کی فطرت میں رکھی گئی ہے اور جھوٹے خدا اس لیے جھوٹے ہیں کہ ان میں اوصاف حسن و کمال درحقیقت موجود نہیں ہوتے اور محض غلطی سے ان کی طرف منسوب کیے جاتے ہیں۔ لہٰذا سچے خدا کی عبادت وہ خودشناسی اور روحانی بصیرت اور اطمینانِ قلب پیدا کرتی ہے جو اہل جنت کے انعامات ہیں اور جھوٹے خداؤں کی عبادت ایسا کوئی نتیجہ پیدا نہیں کرتی بلکہ حسرت‘ یاس اور حرماں کا موجب ہوتی ہے۔ مؤمن اور کافر دونوں موت کے بعد اپنی اپنی عبادت کے نتائج دیکھ لیتے ہیں۔ ایک جنت میں اطمینان اور راحت کی زندگی بسر کرتا ہے اور دوسرا دوزخ میں یاس و حرماں کی مصیبتوں کو جھیلتا ہے۔
شیطان کا فریب
کافر دیکھ لیتا ہے کہ جن لوگوں کے کہے سے وہ گمراہ ہوا تھا اور شیطان کے فریب میں پھنسا تھا وہ اس کی کچھ مدد نہیں کر سکتے۔ بلکہ خود شیطان سمیت اپنی گمراہیوں کی وجہ سے دوزخ میں ہیں اور شیطان اور اس کے ساتھی خود کفر کو کفر سمجھتے ہیں اور اپنے کیے پر پچھتاتے ہیں۔ لہٰذا انسان کو سوچنا چاہیے کہ وہ شیطان کے پھندے میں کیوں پھنسے اور کیوں سچے خدا کوچھوڑ کر جھوٹے خداؤں کی عبادت کرے بالخصوص جبکہ شیطان اسے اپنی متابعت پر مجبور نہیں کر سکتا‘ بلکہ صرف سبز باغ دکھاتا ہے اور فریب دیتا ہے اور وہ خود اچھی یا بری راہ اختیار کرنے کے لیے آزاد ہے۔ ان حقائق کو ایک قصہ یا واقعہ کی صورت میں یوں بیان کیاگیا ہے:
وَقَالَ الشَّيْطٰنُ لَمَّا قُضِيَ الْاَمْرُ اِنَّ اللّٰهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُّكُمْ فَاَخْلَفْتُكُمْ ۭ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّآ اَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِيْ ۚ فَلَا تَلُوْمُوْنِيْ وَلُوْمُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭ مَآ اَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَآ اَنْتُمْ بِمُصْرِخِيَّ ۭ اِنِّىْ كَفَرْتُ بِمَآ اَشْرَكْتُمُوْنِ مِنْ قَبْلُ ۭ اِنَّ الظّٰلِمِيْنَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ { (۲۲)} (ابراھیم:۲۲)
’’جب معاملہ طے ہو گیا تو شیطان نے کہا بے شک اللہ نے تمہارے ساتھ سچاوعدہ کیا تھا اور میں نے بھی وعدہ کیا تھا لیکن میں نے تمہارے ساتھ وعدہ خلافی کی اور مجھے تم پر کوئی غلبہ حاصل نہیں تھا۔ سوائے اس بات کے کہ میں نے تمہیں دعوت دی تھی۔ بس تم نے میری دعوت قبول کر لی اب مجھے ملامت نہ کرو اور اپنے آپ کو ملامت کرو۔ میں تمہاری مدد نہیں کر سکتا اور نہ تم میری مدد کر سکتے ہو تم جو اس سے پہلے مجھے خدا کا شریک ٹھہراتے رہے ہو۔ میں انکار کرتا ہوں کہ میں خدا کا شریک ہوں بے شک اب ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘
بے نتیجہ اعمال
ان ہی حقائق کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں متعدد مقامات پر اور طرح سے بھی بیان فرمایا ہے: مثلاً:
{مَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ اَعْمَالُهُمْ كَرَمَادِۨ اشْـتَدَّتْ بِهِ الرِّيْحُ فِيْ يَوْمٍ عَاصِفٍ ۭ لَا يَقْدِرُوْنَ مِمَّا كَسَبُوْا عَلٰي شَيْءٍ } (ابراھیم:۱۸)
’’اور کفار کے اعمال راکھ کی طرح ہیں جس پر آندھی کے روز شدت کی ہوا چلے۔ وہ جوکچھ کماتے ہیں اس میں سے کسی چیز کو نہیں پاتے‘‘۔
چوتھی مثال
یا مثلاً یہ کہنا مقصود تھا کہ جب ہم کسی کام کو کرنا چاہیں تو اس پر پوری قدرت رکھتے ہیں اور ممکن نہیں کہ وہ انجام نہ پائے وہ ہو کر رہتا ہے اور اس میں کوئی حارج نہیں ہوتا ۔ چنانچہ زمین اور آسمان کی تخلیق بھی ہو کر رہی اور اس میں کوئی حارج نہ ہو سکا۔ اس مطلب کو ایک قصہ کے پیرایہ میں یوں اد اکیاگیا ہے:
{وَقَالَ لَھَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا اَوْ کَرْھًا قَالَـتَا اَتَیْنَا طَائِعِیْنَ}
(حٰمٓ السجدۃ:۱۱)
’’ہم نے زمین اور آسمان کو کہا کہ چاہو یا نہ چاہو آ جاؤ اور وہ کہنے لگے کہ ہم بخوشی آتے ہیں۔‘‘
ظاہر ہے کہ یہ گفتگو کوئی واقعہ نہیں بلکہ ایک حقیقت کا ڈرامائی اظہار ہے اسی حقیقت کو قرآن نے ایک دوسری طرز سے بھی بیان فرمایا ہے:
{وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰی اَمْرِہٖ وَلٰـکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ} (یوسف:۲۱)
’’اور اللہ اپنے کام پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘
عالمِ معنوی
اس قسم کے قصص کی کچھ اور مثالیں بھی قرآن کے اندر موجود ہیں۔ اگر ہم ان کو واقعات کہیں تو وہ عالمِ معنوی یا عالمِ مثال کے واقعات ہیں اور عالمِ مثال اس دنیا کا وہ مجمل ذہنی تصور جسے خدا نے بعد میں اس کائنات کی صورت میں مفصل طو رپر ظاہر کر دیا ہے۔
واقعات کی اصلیت
اسی طرح سے جب ہم قصۂ آدم ؑ پر غور کرتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ اس میں فرشتوں سے خدا کا کلام کرنا ایسا نہیں جیسا کہ ہمارا ایک دوسرے سے کلام کرنا ہے کہ ہم اپنے پھیپھڑوں حلق اور زبان سے الفاظ پر مشتمل ایک آواز پیدا کرتے ہیں جو فضا کی وساطت سے منتقل ہوتی ہے نہ فرشتوں کا سننا ہی ایسا ہے جیسا کہ ہمارا سننا کہ آواز کی لہریں ہمارے کان کے پردوں کو ٹکراتی ہیں اور اس کے مادی اثرات ہمارے بعض اعصاب کے ذریعے سے دماغ تک پہنچتے ہیں اور دماغ ہمارے شعور کو اطلاع دیتا ہے اور ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے کوئی آواز سنی ہے۔ پھر خدا کو اس بات کی حاجت نہیں کہ وہ فرشتوں سے اپنے عزائم اور مقاصد کے بارہ میں کوئی گفتگو یا مشورہ کرے اور نہ فرشتوں کا یہ مقام ہے کہ وہ خدا پر دبی زبان سے بھی اعتراضات کریں اور پھر اللہ تعالیٰ کو اس بات کی ضرورت نہیں کہ فرشتوں کو اپنے اعتراضات میں برسرغلط ثابت کرنے کے لیے ایک ایسے علم میں آدم کے ساتھ ان کے مقابلہ کا امتحان منعقد کرے جو فریقین کو اسی کی طرف سے عطا کیا گیا ہو پھر خدا کا آدم کو اسماء سکھانا ایسا نہیں جیسے کہ مکتب میں استاد طالب علم کو چیزوں کے نام سکھاتا ہے اور طالب علم انہیں حفظ کر لیتا ہے اور ایک فردِ واحد کے لیے اگر وہ ہماری طرح کا ہی ایک انسان ہو تو اعلیٰ درجہ کی ذہانت اور حافظہ کے باوجود بھی یہ ممکن نہیں کہ دنیا کی تمام چیزوں کے نام ازبر کرلے پھر اسماء فقط مادی اشیاء کے ہی نہیں ہوتے جن کی طرف ھٰؤُلَائِ کہہ کر اشارہ کیا جاسکتا ہے بلکہ تصورات مجردہ اور غیر مرئی اشیاء کے بھی ہوتے ہیں۔پھر اسماء مختلف زبانوں میں مختلف ہیں۔ خدا نے کس زبان میں آدم کو اسمائے اشیاء سکھائے اور فرشتوں کو کس زبان میں ان کا نام بتانے کا حکم دیا گیا۔ نہ فرشتوں کا سجدہ کرنا زمین پر سر ٹیکنے کے مترادف ہے اور نہ ابلیس کا انکار‘ سر ٹیکنے سے انکار ہے۔ پھر جنت‘ عالمِ حقیقی کی چیز ہے عالمِ مادی کی نہیں۔
تخلیق کائنات کا نقشہ
ان تمام باتوں سے صاف طو رپر یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تخلیق کائنات کی اسکیم کے بعض پہلوؤں کو جیسے کہ وہ فی الواقعہ کائنات کی تخلیق کے اندر نمودار ہونے والے تھے اور ہوئے ہیں ایک قصہ کی شکل میں بیان فرمایا ہے۔ یہ پہلو فطرتِ انسانی کے حقائق سے تعلق رکھتے ہیں۔ ’’آدم کا اسمائے اشیاء کا سیکھنا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں علم حقائق کے حصول کی استعداد رکھ دی ہے آدمؑ کا شجر ممنوعہ کا پھل کھانا انسان کے اپنے ارتقاء کے ایک مرحلہ پر خود شعور ہو جانا اور نیکی اور بدی کی تمیز کے قابل ہو جانا ہے۔ انجیل میں ہے کہ جس درخت کا پھل آدم ؑ اور حواؑ نے کھایا وہ نیکی اور بدی کا درخت تھا اور قرآن نے بالواسطہ اس کی تصدیق کی ہے۔ کیونکہ قرآن کے یہ الفاظ کہ ان کو محسوس ہوا کہ وہ ننگے ہیں اور ننگا رہنا بے حیائی اور بدی ہے‘ بتا رہے ہیں کہ اس درخت کا پھل کھانے سے ان میں نیکی اور بدی کا احساس پیدا ہوا‘ جو انسان کا امتیازی وصف ہے۔ اور حیوانات میں نہیں‘‘۔ وعلیٰ ہٰذاالقیاس۔
فطرتِ انسانی کے حقائق کا درس
قصۂ آدمؑ دراصل کوئی سلسلۂ واقعات نہیں بلکہ واقعات کی شکل میں فطرتِ انسانی کے حقائق کا ایک فصیح اور بلیغ درس ہے جس میں بعض واقعات کی طرف مجمل اشارات ہیں اگر ہم فطرتِ انسانی کی حقیقت اور اس کی تخلیق اور تعمیر کے ان حقائق کو جنہیں اللہ تعالیٰ نے قصۂ آدمؑ کی صورت میں بیان فرمایا ہے‘ ڈرامائی طرز بیان سے الگ کر کے اور زیادہ تفصیلات کے ساتھ بیان کریں تو ان کی صورت حسب ذیل ہو گی:
جسم انسانی کا آغاز
سمندروں کے کنارے خمیر والے (مَسْنُوْن)کیچڑ میں جو کبھی سوکھ کر کھنکھنہ (صَلْصَالٍ)ہو جاتا تھا اور بار بار سوکھنے اور تر ہونے سے سیاہ(حما) ہو گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جسم انسانی کی تعمیر کا آغاز کیا(بَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِیْنٍ)سب سے پہلے جسدِ انسانی ایک خلیہ کے جاندار امیبا کی صورت میں تھا جو ایک لوتھڑے کی طرح ہوتا ہے (خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ) اور پھر تدریجی طور پر اس لوتھڑے کا جسم ترقی کرنے لگا۔(اللّٰہُ اَنْبَتَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًا)
حواؑ کی تخلیق
امیبا کے توالد کا طریق یہ تھا کہ وہ بڑھ کر خود بخود دو حصوں میں بٹ جاتا تھا۔ اور ہر حصہ ایک الگ جاندار کی حیثیت سے بڑھنے لگتا تھا۔ شروع میں ہر جاندار ایک نر بھی تھا اور ایک مادہ بھی۔ پھر جاندار کے جسم کے ارتقائی تغیر و تبدل سے رفتہ رفتہ ایسا ہوا کہ اس سے الگ ہونے والے بعض اجسام مادہ اور بعض نر کے فرائض کے لیے موزوں ہو گئے۔ اس طرح سے جسم انسانی کی ابتدا کے تھوڑے ہی عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسان کی مادہ اس کے جسم سے الگ کر لی اور انسان کا جسم ایک جوڑے کی صورت میں پرورش پانے لگا۔ (خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا)
جسم انسانی کی تکمیل
اپنے ارتقاء کے دوران میں یہ جسم مختلف شکلوں کو اختیار کرتا رہا۔ یہاں تک کہ انسان کی شکل و صورت تک پہنچ گیا (ثُمَّ صَوَّرْنٰـکُمْ)نسل انسانی کی ہر شکل توالد اور تناسل کے ذریعہ سے برقرار رہتی تھی(بَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِیْنٍ ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہٗ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ مَّائٍ مَھِیْنٍ) یہاں تک کہ وہ اگلی شکل میں بدل جاتی تھی۔ اس عمل کا نتیجہ یہ ہوا کہ کروڑہا سال کے بعد آخر انسان کا مکمل جسم نمودار ہوا (ثُمَّ سَوّٰىهُ)
خود شعوری کا ظہور
اس مکمل جسم کے اندر دماغ اور نظامِ عصبی کی ساخت نے یہاں تک ترقی کر لی تھی کہ اس میں وہ خاص وصف انسانی جو درحقیقت خدا کے اوصاف میں سے ایک ہے اور جو اسے حیوانات سے ممیز کرتا ہے یعنی خود شعوری کا ملکہ ظہور پذیر (۱)ہوا۔یہ بات علمی لحاظ سے قرینِ قیاس ہے کہ جسم اور دماغ کی تکمیل قدرت کی غیر معمولی تائید اور خرقِ عادات کے طور پر سب سے پہلے صرف ایک فردِ انسانی کو حاصل ہوئی ہو گی اور اس کے بعد اس کی اولاد نے اس ترقی یافتہ حالت کو اپنے باپ سے وراثتاً حاصل کیا ہو گا۔ (ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ)
نیکی اور بدی کی تمیز
اس ملکہ کے ظہور میں آنے سے پہلے انسان کے اندر جمال حقیقی کی طلب پیدا ہوئی اور وہ نیک و بد میں تمیز کرنے لگا اسے معلوم ہو گیا کہ وہ اپنی طاقتوں کا غلط استعمال کر سکتا ہے اور اس کے ہر کام میں اس کے سامنے دو راستے کھلتے ہیں جن میں ایک نیکی کی طرف جاتا ہے اور دوسرا بدی کی طرف۔ یہی سبب ہے کہ اسے ستر پوشی کی فکر ہوئی (فَبَدَتْ لَھُمَا سَوْاٰتُھُمَا) اور وہ پتوں سے اپنے آپ کو ڈھانپنے لگا۔(وَطَفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْھِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّۃ) تاریخ کے قیاس کے مطابق انسان کا پہلا لباس جب اس نے حیوانی درجہ میں سے انسانی درجہ میں قدم رکھا تھا ‘ درختوں کے پتوں ہی سے بنا تھا۔ جب انسان کے اندر خود شعوری پیدا ہوئی توا س کا ایک اور نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے اندر صفات جلال و جمال کی ایک جھلک پیدا ہوئی اور اس کی روح کو خدا کی روح سے ایک ادنیٰ سی مماثلت حاصل ہو گئی۔
نفخ روح کے معنی
خواہش جمال کے پیدا ہونے کا یہ قدرتی نتیجہ تھا کیونکہ جمال ہی جمال کو چاہتا ہے۔ یہی ہے خدا کا انسان کے اندر اپنی روح پھونکنا(فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ)جو اسے مسجودِ ملائک (فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْنَ)بناتا ہے اگر انسان کے اندر خدا کے جمال کا عکس نہ ہو تو وہ خدا کے جمال کا طالب بھی نہ ہو سکے۔
ذوقِ علم
طلبِ جمال کا تیسرا نتیجہ یہ ہواکہ اس میں علم کا ذوق پیدا ہو گیا اور وہ صداقت کی جستجو کرنے لگا ۔ کیونکہ درحقیقت نیکی اور صداقت جمال ہی کے دو پہلو ہیں(وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَائَ کُلَّھَا)
صفات جمال و جلال کی جھلک
جمالِ حقیقی کی خواہش انسان کو اکساتی ہے کہ وہ اس جمال کی جستجو کرے اور وہ اپنے عمل سے یہ جستجو کرتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے دل میںخدا کا جمال زیادہ سے زیادہ بساتا چلاجاتا ہے اس کی خود شعوری اور اس کے ساتھ اس کے نیک و بد کی تمیز کی استعداد ترقی کرتی ہے۔ یہاں تک کہ خدا کی صفات سے متصف اور اس کے اخلاق سے متخلق ہوجاتا ہے‘ پھر وہ اپنی طاقتوں کا غلط استعمال نہیں کرتا اور اس چیز کو پسند کرتا ہے جسے اس کا خدا پسند کرتا ہے اور اس چیز سے نفرت کرتا ہے جس سے اس کا خدا نفرت کرتا ہے۔ اس کا ہر کام خد ا کی مرضی کے عین مطابق ہوتا ہے ۔وہ دنیا کے اندر وہی کچھ کرتا ہے جو خدا کرنا چاہتا ہے۔اسی لیے وہ خدا کا نائب کہلاتا ہے (اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃٌ)
اختیارِ معصیت
نیابتِ الٰہی کے مقام کا پانا اگرچہ انسان کی فطرت کا تقاضا ہے اور ضرور ہے کہ انسان اسے ایک نہ ایک دن پائے۔ لیکن اس کا راستہ ایسا آسان نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی خود شعوری جہاں اسے آزاد کرتی ہے اور اختیار دیتی ہے کہ وہ چاہے تو نیکی اختیار کرے اور چاہے تو بدی۔ وہاں اس بات کا امکان پیدا کرتی ہے کہ وہ غلطی کرے اور بدی کو نیکی سمجھ کر اختیار کرے۔ جہاں اختیار ہو وہاں بہکنے اور غلطی کرنے کی استعداد کا ہونا بھی ضروری ہے۔ لہٰذا انسان غلطی کرتا ہے اور نیکی کی مختلف غلط توجیہات سے گروہو ں میں بٹ جاتا ہے۔
خونریزی کا سبب
ہر گروہ دوسرے گروہ کا دشمن ہوتا ہے (بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ) اور نیکی کے نام پر اسے نیست و نابود کرنا چاہتا ہے اس سے زمین پر بدامنی پیدا ہوتی ہے(یُفْسِدُ فِیْھَا) اور کشت و خون کا بازار گرم ہوتا ہے(وَیَسْفِکُ الدِّمَاء)
فرشتوں کی فطرت
ان حالات میں بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ نیابتِ الٰہی کے حق دار فرشتے تھے کیونکہ نیکی‘ امن اور عبادت ان کی سرشت میں ہیں وہ ہر وقت خدا کی تسبیح اور تقدیس بیان کرتے ہیں(نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ) خدا کے احکام جوں کے توں بجا لاتے ہیں اور اس کی اطاعت سے ایک لمحہ کے لیے بھی انحراف نہیں کرتے۔ لیکن یہ خیال قطعاً غلط ہے فرشتوں کی فطرت انہیں خدا کی نیابت کا اہل نہیں بناتی۔ فرشتے خدا کی تمام صفاتِ جلال و جمال کو اپنا نہیں سکتے۔ خدا کی فطرت کی طرح انسان کی فطرت محبت و نفرت کی رزم گاہ ہے۔ لیکن فرشتوں کی فطرت ایسی نہیں۔ وہ خدا کی صفات سے متصف اور اس کے اخلاق سے متخلق نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا وہ خدا کی نیابت نہیں کر سکتے۔ فرشتے عبادت کرتے ہیں لیکن علم اور اختیار دونوں کے بغیر وہ نیکی کی راہ پر چلتے اور بدی سے احتراز کرتے ہیں۔
فرشتوں کی معذوریاں
لیکن اس لیے نہیں کہ نیکی نیکی ہے اور بدی بدی ہے بلکہ اس لیے کہ نیکی سے احتراز کرنا اور بدی کی طرف جھکنا ان کے لیے ممکن ہی نہیں۔ باطل کو باطل جان کر اس سے نبرد آزما ہونا حق کی ایک خاص معرفت عطا کرتا ہے اور حق کی محبت کو ایک خاص پختگی‘ عمدگی اور رونق بخشتا ہے اور اسے ایک خاص مقام اور معیار پر پہنچاتا ہے‘ جو خدا کے نائب کا طغرائے امتیاز ہونا چاہیے۔ فرشتے محبت کے اس مقام سے آشنا نہیں کیونکہ جو اپنی فطرت سے پیدا ہونے والے ذاتی علم اور اختیار کی بنا پر حق و باطل کا امتیاز نہیں کر تے۔
محدود علم
ان میں سے ہر ایک کو صرف اتنا علم دیا جاتا ہے جتنا اس کے فرض کی ادائیگی کے لیے ضروری ہے (لَا عِلْمَ لَنَا اِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا)
فرشتوں کے فرائض
اور ان کا فرض کیا ہے یہ کہ وہ اس کائنات میں ‘جو خدا کے نائب انسان کی جولان گاہ عمل ہے‘ خدا کے قوانین کوجاری کریں تاکہ انسان ان سے فائدہ اٹھائے اور اپنے فرائض نیابت ادا کرے۔ جب سے انسان نے ہوش سنبھالا ہے فرشتے اپنے ان فرائض کی وجہ سے اس کے مقاصد کے ممد و معاون ہیں۔
انکار سجدہ کے معنی
گویا اس کی اطاعت بجا لاتے ہیں۔ اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہیں (فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْ لَہٗ سٰجِدِیْنَ) صرف ایک قوت ایسی ہے جو اس کے سامنے سجدہ ریز نہیںاور وہ بدی کی دلکشی ہے جس پر ابلیس مامور ہوا ہے۔
گناہ کا پہلا احساس
جب انسان کو گناہ کا سب سے پہلے احساس ہوا تو وہ اس بات کا اعلان تھا کہ اب انسان خود شعور ہو چکا ہے اور چونکہ گناہ ابلیس کی تدلیس کے بغیر ممکن نہیں لہٰذا سب سے پہلے ابلیس نے انسان کو اس بات سے واقف کیا کہ وہ خودشعور ہو چکا ہے۔ خود شعوری کا اظہار سب سے پہلے گناہ میں ہوتا ہے۔ نیکی میں نہیں ہوتا ہے۔ کائنات کی تمام قوتیں انسان کی خود شعوری کے مقاصدکی پابندی کرتی ہیں۔ لیکن ابلیس انسان کی خود شعوری کو بہکاتا ہے۔ نیکی اور بدی کا امتیاز خو دشعوری کے ابتدائی مراحل میں قابل اعتماد نہیں ہوتا اور انسان اکثر بدی کو نیکی سمجھ کر اختیار کر لیتا ہے۔ کیونکہ اختیار کے صحیح استعمال کے لیے ضروری ہے کہ انسان کی خود شعوری کافی حد تک ترقی کر چکی ہو۔
بدی کی پہچان نیکی کی پہچان ہے
جب انسان گناہ کا ارتکاب کر چکتا ہے پھر وہ اپنی خود شعوری کی وجہ سے جو نیک و بد کا معیار ہے ‘ گناہ کو گناہ سمجھتا ہے اور اس کے مقابل کی نیکی کو پہچانتا ہے۔ پھر اس کی فطرت کے اندر نیکی کے رجحانات اسے گناہ کے خلاف ابھارتے ہیں اور وہ گناہ کو چھوڑ کر نیکی کی طرف رجو ع کرتا ہے (فَتَلَقّٰی اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ) گناہ کی معرفت سے اسے نیکی کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ نیکی کو اپنا لیتا ہے اور خدا کی راہ کی ہدایت پاتا ہے(فَتَابَ عَلَیْہِ وَھَدٰی)جب تک گناہ کی پہچان نہ ہو‘ نیکی کی پہچان ممکن نہیں اور نیکی کی معرفت جمالِ حقیقی کی معرفت ہے جس سے انسان اوصاف جمال کا اکتساب کرتا ہے اور خدا کی نیابت کے مقام کے قریب آتا ہے گویا ابلیس کا وجود انسان کی رومانی ترقی اور ترفع کے لیے ضروری ہے۔
خود شعوری کے ظہور سے پہلے
جب تک انسان خود شعور نہیں ہوا تھا ۔ وہ اپنے جبلتی رجحانات کے مطابق زندگی بسر کرتا تھا۔ ان رجحانات کی مخالفت کرنا اس کے بس کی بات نہیں تھی لہٰذا وہ پوری طرح سے خدا کامطیع فرمان تھا ۔ اس کی جسمانی ضروریات کی تکمیل کا سامان فراوانی کے ساتھ اس کے گرد و پیش موجود تھا اور وہ آزادی کے ساتھ جہاں چاہتاتھا زمین پر چلتا پھرتا اور کھاتا پیتا تھا ( کُلَا مِنْھَا رَغَدًا حِیْثُ شِئْتُمَا ) ا س حالت میں نہ ارتکابِ معصیت کا کوئی امکان تھا اور نہ ہی اسے اس بات کی فکر تھی کہ وہ ننگا یا بھوکا ہے یا اسے پیاس یا دھوپ ستاتی ہے (اِنَّ لَکَ اَلاَّ تَجُوْعَ فِیْھَا وَلَا تَعْرٰی ) ( وَاَنَّکَ لَا تَظْمَئُوْ فِیْھَا وَلَا تَضْحٰی ) کیونکہ خود شعوری کے بغیر اور نیک اور بد اور حسن اور غیر حسن کی تمیز کے بغیر وہ اپنے حالات کو پوری طرح سازگار پاتا تھا اور ان کے ساتھ پوری طرح راضی اور مطمئن تھا۔ جب اس میں خود شعوری کا وصف پیدا ہو اتو اسے معلوم ہوا کہ بعض چیزیں اچھی ہیں اور بعض بُری۔
جنت سے اخراج کے معنی
پھر اچھی چیزوں کو زیادہ سے زیادہ مقدار میں حاصل کرنے کی خواہش نے اس کی پریشانیوں کا دروازہ کھول دیا۔ گویا اس کی خود شعوری نے جس کی وجہ سے شیطان اس کو پھسلانے میں کامیاب ہوا تھا اور جس کا اعلان گناہ کے سب سے پہلے احساس سے ہوا تھا۔ اسے جنت سے نکال دیا (فَاَزَلَّھُمَا الشَّیْطٰنُ عَنْھَا فَاَخْرَجَہُمَا مِمَّا کَانَا فِیْہِ… قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْھَا جَمِیْعًا)
طلب صداقت کی اہمیت
انسان بے شک غلطی کا ارتکاب کرتا ہے اور بدی کو نیکی سمجھ لیتا ہے۔ لیکن اس کی طلب جمال کا ایک پہلو ایسا ہے جو بالآخر غلطی کا ارتکاب اس کے لیے ناممکن بنا دیتا ہے اور یہ پہلو صداقت کی غیر محدود جستجو اور علم کابے پایاں ذوق ہے(عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَائَ کُلَّھَا )جو فرشتوں کو نہیں دیا گیا ( سُبْحٰنَکَ لَا عِلْمَ لَنَا اِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ ) جوں جوں انسان کا علم ترقی کرتا ہے۔ اس کی بدی اور نیکی کی معرفت بڑھتی جاتی ہے۔ آخر کار وہ دونوں کو ٹھیک طرح سے پہچان لیتا ہے اور اپنی فطرت کے تقاضا سے بدی کو ترک کرتا اور نیکی کو قبول کرتا ہے یہی سبب ہے کہ خدا کے نیک بندوں پر جن کی خود شعوری ترقی کر چکی ہو شیطان کا فریب اثر نہیں کرتا ( اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْھِمْ سُلْطَان ) خدا انسان کی ان صلاحیتوں سے واقف ہے ( قَالَ اَلَمْ اقُلْ لَّـکُمْ اِنِّیْ اَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا کُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ ) لہٰذا نبوت کے ذریعہ سے اس کے علم کی راہنمائی کرتا ہے۔
شیطان کی بے بسی
جو شخص نبوت کی تابعداری کرتا ہے وہ جہالت سے نجات پاتا ہے اور بدی سے محفوظ رہتا ہے۔ اس کی خود شعوری ترقی کرتی ہے یہاں تک کہ رفتہ رفتہ وہ اپنی استعداد کے مطابق صفات جمال سے آراستہ ہو جاتا ہے پھر وہ نیابتِ الٰہی کے مقام پر فائز ہوتا ہے۔ اس کے لیے خوف و حزن کے امکانات ختم ہو جاتے ہیں اور وہ پھر اپنے آباؤ اجداد کی کھوئی ہوئی جنت کو حاصل کر لیتا ہے ( اِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدٰیَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ )
عارضی رکاوٹ
غرض انسانی خود شعوری کے راستہ کی یہ رکاوٹ جو ابلیس کی نگرانی میں اس کے ساتھ ہی پیدا کر دی گئی تھی کہ انسان غلطی سے بدی کو نیکی سمجھ کر اختیار کر لیتا ہے ایک عارضی رکاوٹ ہے جو فرد کی خود شعوری کی ترقی کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے‘ فرد کے روحانی ارتقاء کے ایک بلند مقام پر شیطان اس کا مطیع و منقاد ہو جاتا ہے ۔ تاہم ساری نوعِ بشر کے لیے بالعموم یہ رکاوٹ اس وقت تک باقی رہے گی جب تک نسلِ انسانی ترقی کر کے اپنے کمال کو نہیں پہنچ جاتی اور جب کمال کوپہنچے گی تو ظاہر ہے کہ دنیا کی ارتقائی اور تخلیقی حرکت ختم ہو جائے گی۔
اَنْظِرْنِیْ کے معنی
گویا کائنات فنا سے دوچار ہوجائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نیکی کے راستہ میں شیطان کی رکاوٹ قیامت تک باقی رہے گی (قَالَ اَنْظِرْنِیْ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ۔ قَالَ اِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ)
شیطان کی ضرورت
تاہم یہ رکاوٹ بے سود نہیں کیونکہ اس کے بغیر انسان کی خود شعوری ترقی نہ کر سکتی اور انسان نیابتِ الٰہی کے مقام پر کبھی فائز نہ ہو سکتا۔ یہ رکاوٹ خود اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے تاکہ ہم اسے عبور کرنے کی جدوجہد کریں اور اس جدوجہد کی وجہ سے ہماری مخفی صلاحیتیں آشکار ہوں اور ہم ہر بار روحانیت کے ایک بلند تر مقام پر قدم رکھیں ( قَالَ فَبِمَا اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَھُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ )
یہ فطرت انسانی کے وہ حقائق ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ایک ڈرامائی طرز ِ بیان کے ساتھ قصۂ آدم میں مختصر طور پر بیان فرمایا ہے۔ ان حقائق میں اس طرزِ بیان میں کوئی چیز ایسی نہیں کہ جو حقیقت ارتقاء کے نظریہ کے خلاف جاتی ہوبلکہ ظاہر ہے کہ اس قصہ کو اگر ٹھیک طرح سے سمجھا جائے تو اس سے اس نظریہ کی تصدیق اور تائید ہوتی ہے۔