ڈاکٹر محمد رفیع الدّین (مرحوم)
شخصیت …… فکر
ایک جائزہ
پروفیسر محمد عارف خان
ڈاکٹر محمد رفیع الدین ان نابغہ روزگار ہستیوں میں سے ہیں، جنہوں نے علم و فکر کی دنیا میں ایک ممتاز مقام حاصل کیا ہے۔ علامہ محمد اقبال کے بعد علم و فکر کے افق پر جن چند افراد کا نام نمایاں ہے، ڈاکٹر صاحب ان میں سرفہرست ہیں۔ برصغیر پاک و ہند کی ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ کی جدوجہد میں ڈاکٹر صاحب کا شمار اہم ترین مفکرین میں ہوتا ہے۔
حالاتِ زندگی
ڈاکٹر محمد رفیع الدین (۱) ۱۹۰۴ء میں ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم یہیں حاصل کی۔ ایف ایس سی نان میڈیکل میں، بی۔ اے فارسی میں آنرز اور ۱۹۲۴ء میں ایم اے عربی میں کیا۔ ۱۹۲۷ء سے ۱۹۳۲ء تک سری پر تاپ کالج سری نگر میں عربی اور فارسی کے پروفیسر رہے۔ پرنس آف ویلز کالج جموں میں بھی ۱۲ سال تک تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہے۔ اس دوران (۱۹۴۲ء) میں انگریزی کتاب ‘‘آئیڈیالوجی آف دی فیوچر’’ لکھی۔ ڈاکٹر صاحب کا ڈاکٹریٹ کا موضوع بھی یہی تھا۔ ۱۹۴۵ء سے ۱۹۴۷ء تک ڈاکٹر صاحب سری کرن سنگھ جی انٹر کالج میرپور جموں کشمیر کے پرنسپل رہے۔ تقسیم ہند کے ہنگاموں کی وجہ سے گورنمنٹ انٹرمیڈیٹ کالج میرپور بند ہو گیا تو ڈاکٹر صاحب لاہور منتقل ہو گئے۔ یہیں سے پاکستان کے حلقہ علم و ادب میں ان کا سفر شروع ہوتا ہے۔ ۱۹۴۸ء تا ۱۹۵۳ء لاہور میں محکمہ اسلامک ری کنسٹرکشن و انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک کلچر میں ریسرچ آفیسر رہے۔ ۱۹۵۳ء سے ۱۹۶۵ء تک اقبال اکیڈمی کراچی کے ڈائریکٹر رہے۔ ۱۹۶۵ء میں ‘‘فرسٹ پرنسپلز آف ایجوکیشن’’ پر مقالہ پیش کر کے ڈاکٹر آف لٹریچر کا اعزاز حاصل کیا۔ ۱۹۶۶ء سے ۱۹۶۹ء تک ‘‘ڈائریکٹر آل پاکستان اسلامک ایجوکیشن کانگرس لاہور’’ کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ ۱۹۶۹ء میں ۶۵ برس کی عمر میں کراچی میں ٹریفک کے ایک حادثے میں داعی اجل کو لبیک کیا۔ اور سیالکوٹ میں دفن کیے گئے۔
ڈاکٹر صاحب درویش مزاج انسان تھے۔ طبیعت میں سوز و گداز تھا۔ ذکر خدا پر بہت زور دیتے تھے۔ سلسلہ طریقت میں مفتی محمد حسنؒ سے بیعت تھے۔ اپنی اصلاح و روحانی ترقی کے لیے اپنے مرشد سے باقاعدہ ہدایات لیا کرتے تھے۔ خود فرمایا کرتے کہ ذکر کی برکت سے بہت اچھے اچھے خیالات خود بخود سوجھتے ہیں اور معمولی سی کوشش سے علمی حقائق منکشف ہو جاتے ہیں اور انسان کے لیے تھوڑا سا مطالعہ بھی کفایت کر جاتا ہے۔
مفتی محمد حسنؒ اگر ڈاکٹر صاحب کے روحانی مرشد تھے تو علامہ اقبال ان کے فکری رہبر تھے۔ ڈاکٹر صاحب علامہ اقبال سے بے حد متاثر تھے۔ ان کی زندگی کے آخری دنوں کے ایک قریبی ساتھی مظفر حسین لکھتے ہیں: ‘‘علامہ اقبال کا ان سے بڑھ کر شیدائی میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ فکر اقبال ان کے رگ و ریشے میں سما گیا تھا۔ ’’(۲(
مقام اقبال پر اپنی شہرہ آفاق کتاب ‘‘حکمت اقبال’’ میں رقمطراز ہیں:
’’وہ خاتم الانبیاء جنہوں نے نوع انسانی کو حقیقت کائنات کا کامل تصور عطا کیا ہے، جناب محمد مصطفیﷺ ہیں۔ وہ فلسفی جس نے علمی حقائق کی ترقیوں کے اس دور میں سب سے پہلے اپنے فلسفہ کی بنیاد نبوت کاملہ کے عطا کیے ہوئے کامل تصور حقیقت پر رکھی، اقبال ہے۔ اور وہ فلسفہ جو اس دور کے علمی حقائق کو نبوت کے عطا کردہ کامل تصوّرِ حقیقت کی بنیادوں کو منظم کرتا ہے، فلسفہ خودی ہے۔‘‘ (۳(
اسی کتاب میں دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’اقبال آئندہ کی مستقل عالمگیر ریاست کا وہ ذہنی اور نظریاتی بادشاہ ہے، جس کی بادشاہت کو زوال نہیں۔ ایک معمولی آدمی کے لیے جو رسول نہیں، بلکہ رسولﷺ کا ایک ادنیٰ غلام ہے، عظمت کا یہ مقام اس قدر بلند ہے کہ اس سے بلند تر مقام ذہن میں نہیں آ سکتا ۔‘‘
دائرہ ہائے تحریر و تصنیف:
ڈاکٹر صاحب نے کئی موضوعات پر قلم اٹھایا۔ بنیادی طور پر ان کی فکر و تحریر کا محور دورِ جدید میں اسلام کی تعبیر و تشریح کے حوالے سے درپیش مشکلات کا تدارک تھا۔ وہ ایک سائنسی فارمولے کی دریافت کے آرزومند تھے، جو ہر دور کے تقاضوں کے مطابق اسلام کی تعبیر و تشریح کرنے میں ممدّو معاون ثابت ہو۔ اسلام کی تائید و حمایت اور باطل کی تردید ان کا موضوع رہا ہے۔ اسلامی عقائد و افکار کا فلسفیانہ محاذ پر دفاع، نظریہ توحید کو افکار و علوم کی بنیاد قرار دینے، فکر اقبال کی ترقی و ترویج، قرآنی علوم و تعلیمات کا جدید علوم سے موازانہ، باطل علوم کی تردید اور سچے علوم کی تصدیق ان کے دائرہ ہائے تحریر ہیں۔ ان کی تصانیف میں (۱) آئیڈیالوجی آف دی فیوچر، (۲) قرآن اور علم جدید (۳) اور ‘‘حکمت اقبال’’ اہم کتابیں ہیں۔ ان کتب کے بارے میں دیباچہ حکمت قرآن میں وہ خود رقمطراز ہیں:
’’جو احباب اقبال کے فلسفہ خودی کا یا اسلام کا مطالعہ ایک خالص اور منظم فلسفہ یا سائنس کے طور پر کرنا چاہتے ہیں، وہ میری کتاب ‘‘آئیڈیالوجی آف دی فیوچر’’ کا مطالعہ مفید پائیں گے۔ اور جو فلسفہ خودی کا مطالعہ اسلام کے ایک فلسفہ کے طور پر کرنا چاہتے ہیں، وہ میری کتاب ‘‘قرآن اور علم جدید’’ کا مطالعہ دلچسپی کا باعث پائیں گے۔ اور جو فلسفہ خودی کا مطالعہ اقبال کے حوالوں کی روشنی میں اقبال کے فلسفہ کے طور پر کرنا چاہتے ہیں، وہ زیر نظر کتاب ‘‘حکمت اقبال’’ کا مطالعہ مدعا کے مطابق پائیں گے۔‘‘
اس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کی اردو میں لکھی گئی کتب میں (۴) پاکستان کا مستقبل (۵) روح اسلام (۶) اسلامی نظریہ تعلیم (۷) اسلام اور سائنس ۔ اہم کتب ہیں ، جبکہ انگریزی زبان میں لکھی گئی اہم کتب درج ذیل ہیں:
۸۔ Manifesto of Islam
۹۔ Frist Principles of Education
۱۰۔ Fallacy of Marxism
۱۱۔ The meaning and Purpose of Islamic Research
۱۲۔ Potencial Contribution of Islam to World Peace
ذیل میں مختلف عنوانات کے تحت ڈاکٹر موصوف کے فکری رجحانات کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اسلام کی تعبیر و تشریح کا مسئلہ:
اسلام کی تعبیر و تشریح کا مسئلہ کیا ہے؟ ہر دور کے تقاضوں کے مطابق کیا اسلام کی تعبیر و تشریح ممکن ہے؟ قرآن کیا اس کی اجازت دیتا ہے؟ اگر اجازت دیتا ہے تو اس کی حدودِ کار کیا ہے؟ اگر اجازت نہیں دیتا تو اسلام ایک قابل عمل نظریہ حیات کی صورت میں قیامت تک کے لیے زندہ کیسے رہے گا؟ حکماء کے نزدیک یہ انتہائی اہم اور حساس موضوع ہے۔ حکماء کے نزدیک اس کا ٹھیک ٹھیک تعین نہ ہونے کی بنا پر امت مسلمہ ایک طویل عرصے سے انتہائی بے بسی میں اپنی بقا کی جدّوجہد کر رہی ہے۔ جدید سائنسی اور فلسفیانہ نظریات کے مقابلے میں امت مسلمہ شکست سے دوچار ہو چکی ہے۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین نے اس موضوع کا اسلامی نقطہ نظر سے جائزہ لے کر نہ صرف اس پر سیر حاصل بحث کی ہے، بلکہ اسلام میں جدید سائنسی فلسفیانہ نظریات کا مقام متعین کرنے کی ایک زبردست کوشش کی ہے۔ اس موضوع کی مناسبت سے ڈاکٹر صاحب کا نقطہ نظریوں بیان کیا جا سکتا ہے۔
۱۔ اسلام میں ارتقاء کا مقام:
اسلام میں تعبیر و تشریح کا مسئلہ کائنات کے نظریہ ارتقاء سے منسلک ہے۔ اگر اسلام میں نظریہ ارتقاء درست ہے تو پھر بدلتے دور کے تقاضوں کے مطابق تعبیر و تشریح لازمی امر ہے۔ مسلم حکماء میں نظریہ ارتقاء کی مختلف تاویلیں کی جاتی ہیں۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین نے اس عنوان پر قرآن اور جدید حکماء کے نظریات و خیالات پر بحث کی ہے۔ انہوں نے نظریہ ارتقاء کے حق میں پر زور دلائل دیتے ہیں۔ قرآنی نظریہ ارتقاء بیان کرنے سے قبل معروف مغربی مفکر ڈاروِن (۴) کا نظریہ ارتقاء، میگڈوگل (۵) کا نظریہ جبریت، فرائڈ اور ایڈلر (۶) کا نظریہ شعور، کارل مارکس کا نظریہ اشتراکیت ،(۷) میکیاولی (۸) کا نظریہ وطنیت بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ برگساں (۹) کے نظریہ ارتقاء پر بھی بحث کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے نزدیک نظریہ ارتقاء درست ہے۔ انہوں نے ڈارون کے نظریہ حقیقت ارتقاء کو قرآن کے مطابق درست قرار دیا ہے، البتہ اس کے نظریہ سبب ارتقاء کو خلاف قرآن قرار دیا ہے۔ (۱۰) نظریہ ارتقاء کے تین مرحلے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
۱۔ کائنات کی ابتدائی حالت سے لے کر اس حالت تک جب وہ اس قابل ہوئی کہ اس میں زندگی کا ظہور ہو سکے۔
۲۔ پہلے زندہ حیوان کے ظہور سے لے کر نسل انسانی کے ظہور تک۔
۳۔ انسان کے ظہور سے لے کر انسان کی نفسیاتی تکمیل تک۔ یہ مرحلہ اس وقت جاری ہے۔ (۱۱)
قرآنی نظریہ ارتقاء بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ‘‘حقیقتِ ارتقاء دنیا کے علمی مسلّمات میں سے ہے اور قرآن اس کی مخالفت نہیں کرتا بلکہ تائید کرتا ہے’’۔(۱۲) اسلام کے قوانین و اصولوں کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں : ‘‘کہ ایک حصہ ابدی اور کلی قوانین پر مشتمل انسان کی عملی زندگی کی تشکیل پر حاوی ہے۔ یہ حصہ غیر مبتدل قوانین پر مشتمل ہے۔ دوسرا حصہ اسلام کے معاشرے کے حالات کے مطابق ہمیشہ بدلتا رہتا ہے’’۔(۱۳) زندگی کے اس حصے میں تغیر ارتقاء پذیر رہتا ہے۔ اس تغیر کا تقاضا ہے کہ اسلام کے اس ضمن میں اصول و قواعد کی تعبیر و تشریح ہوتی رہے، تاکہ زندگی کسی ایک مقام پر رک نہ جائے۔ ڈاکٹر صاحب کے نزدیک اللہ تعالیٰ کا منشا یہ نہیں کہ زندگی ایک ہی مقام پر جدّوجہد کرتی رہے، بلکہ اس کا منشا یہ ہے کہ زندگی جدّوجہد کر کے بلند سطح پر قدم رکھے۔ پھر اس بلند سطح پر جم کر اگلی بلند سطح پر قدم رکھنے کی جدوجہد کرے۔ نظریہ ارتقاء کے لیے قرآن حکیم سے انہوں نے ۳۰ دلائل قائم کیے۔ انہیں یوں بیان کیا جا سکتا ہے:
۱۔ مقام ربوبیت نظریہ ارتقاء کی بنیاد ہے۔ الحمدللہ رب العلمین (سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو اہل عالم کا رب ہے) ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں ‘‘کہ ربوبیت کے معنی ہیں کسی چیز کو ادنیٰ حالت سے ترقی دے کر اعلیٰ حالت تک پہچانا۔ اور ارتقاء کے معنی کیا ہیں۔ یہی کہ کوئی چیز ادنیٰ حالت سے ترقی کر کے اعلیٰ حالت تک پہنچے’’۔ گویا خدا کی ربوبیت کا نتیجہ ارتقاء ہے۔ ارتقاء کے ذریعہ سے ہی خدا کی تمام صفات کا ظہور ہوتا ہے اور خدا کی کوئی صفت ایسی نہیں جو ارتقاء کے مقاصد سے الگ ظہور پائے۔ (۱۴)
۲۔ ھوالذی انشاکم من الارض (اللہ وہ ذات پاک ہے، جس نے تمہاری نسل کو زمین سے پیدا کیا ہے) زمین سے پیدائش کو ڈاکٹر صاحب نے نباتات کے رنگ میں قیاس کیا ہے۔ اور اس کی تائید میں یہ آیت بیان کی ہے۔
مالکم لا ترجون للہ وقارا 1 وقد خلقکم اطوارا1 (نوح: ۱۳۔۱۴) واللہ انبتکم من الارض نباتا1 (نوح: ۱۷)
ترجمہ (تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ سے وقار کے آرزومند نہیں ہوتے؟ اور یقیناً اس نے تمہیں مختلف مراحل سے گزار کر پیدا کیا ہے۔ اور اس نے تمہاری نسل کو زمین سے اگایا ہے جیسے کہ اور چیزیں زمین سے اگتی ہیں۔) (۱۵)
۳۔ تیسری دلیل کو ڈاکٹر صاحب نے یوں بیان کیا: ‘‘نسل انسانی ہمارے سامنے موجود ہے۔ خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ ہم نے نسل انسانی کو نیست سے ہست کیا ہے۔ ایک دن نسل انسانی نیست و نابود ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ ہم اسے دوبارہ زندہ کریں گے۔ (۱۶) گویا یہ سارا عمل ان کے نزدیک ایک تدریج و ارتقاء سے تعلق رکھتا ہے۔
۴۔ کائنات کی تخلیق بھی یکایک نہیں ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب نے اس ذیل میں یہ آیت بیان کی: ھو الذی خلق السموات و الارض و ما بینھما فی ستۃ ایام (الحدید:۴) (اللہ وہ پاک ذات ہے، جس نے کائنات کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔) (۱۷(
۵۔ کائنات کی ارتقائی حالت کا بیان کیا ہے۔ کائنات دھوئیں کے ایک بادل سے آگے بڑھی۔ اور چاند و سورج الگ ہوئے۔ زمین پر سمندروں کے پانی میں تمام انواع حیوانات کی زندگی کا آغاز ہوا۔ اس کی تائید میں وہ آیت قرآنی پیش کرتے ہیں:
اولم یر الذین کفروا ان السموات والارض کانتا رتقا ففتقنھما و جعلنا من الماء کل شیء حی (الانبیاء: ۳۰( (کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں کہ زمین اور آسمان طے ہوئے تھے اور ہم ان کو ایک دوسرے سے الگ کیا اور پانی سے ہر جاندارکو زندہ کیا۔) (۱۸)
۶، ۷۔ ڈاکٹر صاحب کا نقطہ نظر یہ ہے کہ قرآن کے ارشاد کے مطابق زندگی کا آغاز سمندروں کے ساحل پر کیچڑ میں ہوا اور اس کی تخلیق کئی مدارج سے گزری تھی اور اس پر وقت صرف ہوا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآنی وضاحت کے مطابق مٹی یا کیچڑ سے تخلیق بشر کی ابتداء ہوئی ہے اور پھر اس کا جسم توالد اور تناسل کے ذریعے سے تدریجاً ترقی پا کر مکمل ہوا ہے۔ (۱۹)
۸۔ آٹھویں دلیل میں وہ قرآن کی آیت ولقد خلقنا الانسان من سللۃ من طین1 (المومنون:۱۲) (بے شک ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا) بیان کرتے ہوئے اسے ارتقاء اور اس کی حیاتیاتی نشوونما پر منطبق کرتے ہیں۔(۲۰)
سورۃ النساء کی آیت نمبر 1 سے تخلیق زوج کو ارتقاء کے مرحلے سے منسلک کیا ہے۔ کیونکہ بصورت دیگر خدا تعالیٰ حضرت آدم کے ساتھ ہی حوا (علیہما السلام) کو پیدا کرنے پر قادر تھا۔ (۲۱)
۱۰۔ اقرا باسم ربک الذی خلق 1خلق الانسان من علق1 (العلق: ۱۔۲) (اس خدا کے نام سے پڑھ، جس نے انسان کو ایک لوتھڑے سے پیدا کیا) ڈاکٹر صاحب کے نزدیک جسم انسانی کے ارتقاء کی یہ ایک ابتدائی حالت ہے۔ ان کے نزدیک اس آیت کے مضمون کا اطلاق جس طرح ایک فرد انسانی کی تخلیق پر ہوتا ہے، اسی طرح سے نسل انسانی کے ارتقاء پر بھی ہوتا ہے۔ (۲۲)
ڈاکٹر صاحب نے مادی اور حیاتیاتی مرحلوں میں کائنات کے ارتقاء کو قرآن حکیم سے دس دلائل کے ذریعے حقیقت ارتقاء کائنات قرار دیا ہے۔ اس کے بعد قرآن سے یہی نفسیاتی ارتقاء(۲۳) کو ثابت کیا ہے۔ آیت قرآنی: الیوم اکملتُ لکم دینکم و اتممتُ علیکم نعمتی (المائدہ:۳) (آج میں نے تمہارا دین تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت پوری کر دی ہے) سے یہ ثابت کیا ہے کہ ہدایت الٰہی نے بھی ارتقائی منازل طے کی ہیں۔ پیغمبرانہ بعثت کو ارتقاء کا حصہ قرار دیتے ہوئے پیغمبرانہ تعلیمات اور پیغام کو بھی ارتقاء و تدریج کے اصولوں کے مطابق بیان کرتے ہیں۔ پیغمبر اسلامﷺ کے پیغام نبوت کو چار ادوار کے تحت بیان کرتے ہیں:
پہلا دور (۲۴) جس میں ایمان لانے والوں کی تعداد ایک آدمی سے ارتقاء پذیر ہو کر ایک مؤثر گروہ کی صورت اختیار کر گئی۔
دوسرا دور جب پیغمبرانہ نظریات کے مقابلے میں دوسرے نظریات کا غلبہ ہونے لگا اور پیغمبرانہ نظریات کا حسن ماند پڑنے لگا۔
تیسرا دور جب نئے گروہ کی شمولیت سے مخالفتِ پیغمبرانہ نظریات پر غلبہ حاصل کیا۔
چوتھا دور جس میں پیغمبرانہ نظریات نے دنیا کے مخالفانہ نظریات پر غلبہ حاصل کرنے کے بعد اخوت انسانی کی بنیاد پر اتحاد انسانی کی بنیاد رکھی۔
نفسیاتی ارتقاء کو قرآن سے ثابت کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے مختلف اعتراضات (۲۵) جو اسلامی حلقوں سے وارد ہوئے ہیں، کا جواب دیا۔ اس کے علاوہ نظریہ ارتقاء پر اپنی کتاب ‘‘آئیڈیالوجی آف دی فیوچر’’ کے دو ابواب، باب نمبر ۲ اور باب نمبر ۱۲ میں سیر حاصل بحث کی ہے۔
اسلام میں فکر و تدبر کا مقام:
ڈاکٹر محمد رفیع الدین نے نظریہ ارتقاء کو قرآنی دلائل سے ثابت کرنے کے بعد دوسری اصولی بات پر بحث کی ہے کہ اسلام میں فکر و فلسفے کا کیا مقام ہے؟ کیونکہ ارتقاء کی منازل فکر و تدبر کی مرہونِ منّت ہیں۔ اسلام میں اس موضوع پر بھی دو آراء رہی ہیں۔ بعض علماء کے نزدیک عقل و فلسفے کا دین میں کوئی مقام نہیں۔ جبکہ بعض کے نزدیک دین کو عام لوگوں تک لانے اور دوسرے مذاہب و ادیان کی خامیاں، ان پر برتری اور فوقیت کے لیے فکر و فلسفے سے کام لینے میں حرج نہیں ہے؟ ڈاکٹر صاحب ان حکماء و مفکرین میں شامل ہیں، جو فکر و تدبر کے ہتھیاروں کو پوری طرح حرکت میں لانے کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک امت مسلمہ کی موجودہ زبوں حالی کا بنیادی سبب فکر و تدبر کے ہتھیاروں کا استعمال نہ کرنا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’صرف اسلام ہی ایک ایسا نظریہ حیات ہے جو اس قابل ہے کہ انسان اور کائنات کی ایک عقلی، علمی اور سائنسی تشریح کی صورت اختیار کر سکے۔ لیکن اب تک ہم نے کون سا کام کیا ہے، جس سے یہ ثابت ہو جائے کہ ہمارا یہ عقیدہ فی الحقیقت درست ہے’’۔ (۲۶)
ڈاکٹر صاحب نے ان اعتراضات کو رد کیا ہے کہ دلائل اور براہین اس لیے بیکار ہیں کہ ان سے یقین پیدا نہیں ہوتا۔ وہ رقمطراز ہیں:
’’اگر انسان دلیل سے گمراہ ہو سکتا ہے تو دلیل سے ہدایت بھی پا سکتا ہے۔ اور یہاں صورت حال یہی ہے کہ لوگ حکمت مغرب کے دلائل ہی سے گمراہ ہوئے ہیں۔ لہٰذا وہ دلائل ہی سے ہدایت پائیں گے’’۔(۲۷)
ڈاکٹر صاحب اس دعوے کو پورے ایمان و یقین سے پیش کرتے ہیں کہ قرآن قیامت تک کے لیے حجت ہے۔ قرآن ہمیں قیامت تک کے لیے غلط فلسفیانہ تصورات کو فکر و تدبر اور دلیل و علم کی روشنی میں غلط ثابت کرنے کے لیے کفایت کرتا ہے۔ ان کے نزدیک ہم اگر قرآن سے غلط فلسفیانہ تصورات کے رد کے لیے علمی دلائل و براہین اخذ نہیں کر سکتے تو اس سے قرآن کے قیامت تک کے لیے حجت ہونے پر حرف آئے گا۔
یہاں وہ حقائق قرآن کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:
اول:(۲۸) وہ حقائق جن کا ذکر لفظاً قرآن کے اندر موجود ہے۔
دوم: وہ حقائق جو اوّل الذّکر حقائق سے یا منطقی استدلال سے اخذ کیے جائیں گے۔
سوم: وہ علمی حقائق (یعنی صحیح اور سچے علمی حقائق) جو انسان نے اپنی ذہنی کاوش و جستجو سے دریافت کیے ہوں۔
اس کے بعد ذہنی کاوش وعلم (۲۹) کے مختلف پہلوئوں کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ذہنی کاوش و علم کے بھی تین ہی پہلو حقیقت کائنات سے متعلق ہر شخص کے علم کی بنیاد ہیں۔ یعنی ایک یہ کہ مشاہدات کی بنا پر قوانین قدرت کا علم حاصل کرنا، دوم اس علم کی بنا پر قانون یا حقیقت کائنات کا وجدانی تصور قائم کرنا، اور تیسرے قوانین کائنات کے پورے سلسلے کے حلقوں کی ترتیب کے ساتھ اس تصور کے مطابق سمجھنا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے نزدیک سائنس دان (۳۰) وہ ہے جو پہلے کام کو دوسرے لوگوں کے لیے مہارت اور قابلیت سے انجام دیتا ہے۔ اور جو شخص دوسرے اور تیسرے کام کو دوسرے لوگوں کے لیے مہارت اور قابلیت سے انجام دیتا ہے، اسے حکیم یا فلسفی کہتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کے نزدیک تعلیم نبوت خود ایک فلسفہ ہے۔ اس کے (۳۱) دو حصے ہیں ۔ایک جو کائنات کے صحیح تصور اور کائنات کے ابدی قوانین پر مشتمل ہے، جسے نظریہ کہنا چاہیے۔ اور دوسرا سماج کے حالات کے مطابق اس نظریہ کے عملی اطلاق پر حاوی ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے نزدیک نبوت کے اندر ایک استدلال بالقوہ (۳۲) موجود ہے، جو حقائق قرآنیہ کی تفصیلات اور جزئیات کے علم کی ترقی سے آشکارا ہو رہا ہے۔ حقائق کا یہی عقلی تعلق یا استدلال ہے جو صحیح ہے۔ ‘‘والقرآن الحکیم’’ (قرآن کی قسم، جو حکمت کی کتاب ہے) یعنی حکیم (۳۳) خدا کے اسمائے حسنی ٰ میں سے ہے۔ فلسفی صداقت کی تلاش کرتا ہے، کیونکہ صداقت ہی علمی و عقلی لحاظ سے درست ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
علم ذہنی (۳۴) کو قرآن و حدیث سے ثابت کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب اس آیت کو بیان کرتے ہیں: والقلم و ما یسطرون (ہمیں قلم کی قسم ہے اور اس چیز کی جو لوگ تحریر میں لاتے ہیں۔) اور آنحضرتﷺ کے ایک ارشاد کے مطابق ‘‘دانائی کی بات مومن کی گمشدہ چیز ہے۔ پس جہاں اسے مل جائے، اس کا زیادہ حقدار وہی ہے’’۔(ترمذی شریف)
لیکن ڈاکٹر صاحب جہاں عقل و فلسفہ اور فکر و تدبر کو دین کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں، وہاں وہ اسے دین پر حاوی کر کے نہیں، بلکہ دین کے تابع قبول کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک دین کے وظائف کی تکمیل عقل و فلسفے اور فکر و تدبر کے بغیر ممکن نہیں۔ انہوں نے اس خدشے کو، کہ کہیں ہم علم جدید کی کسی غلط صداقت کو قرآن کی صداقت سمجھ کر غلط اقدام کے مرتکب نہ ہو جائیں، رد کیا ہے۔ ان کے نزدیک اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اس کام کو ہاتھ ہی نہ لگائیں۔ اس کا حل وہ یوں بیان کرتے ہیں:
’’اگر ہم قرآن کی روح کو اپنا راہ نما بنائیں گے تو ان (دونوں صورتوں) میں غلطی سے محفوظ رہیں گے۔ ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ علم جدید کی کوئی ایسی حقیقت جو عہدِ حاضر کے حکماء کے نزدیک علمی مسلّمات میں شمار ہوتی ہے اور جو فی الواقع روح قرآن کے مطابق ہے، تحقیقات سے غلط ثابت نہیں ہو سکتیں اور اس کے برعکس اسی قسم کی کوئی حقیقت جو آشکارا طور پر روح اسلامی کے منافی ہے، آخر کار تحقیقات سے صحیح ثابت نہیں ہو گی’’۔ (۳۵)
فکر و فلسفہ کی بنیادیں:
اسلام کی تعبیر و تشریح کے لیے دو بنیادی باتوں یعنی نظریہ ارتقاء اور اسلام میں فکر و تدبر کا مقام، کے تعین کے بعد اسلام میں داخلی طور پر بنیادی نصب العین کی تحقیق و جستجو کو اپنے غور و فکر کی بنیاد بناتے ہیں۔ وہ ایک ایسے مقصود کو نصب العین کے طور پر اپنانے اور ساری کائنات کو اسی مقصود کے حصول کے لیے حرکت کے قائل ہیں۔ وہ اس بات کو انسان کی قوّتِ محرکہ کے لیے ناگزیر سمجھتے ہیں کہ وہ ایک عظیم نصب العین کا سب سے پہلے تعین کرے۔ ڈاکٹر صاحب کے نزدیک وہ عظیم نصب العین توحید کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ اس ضمن میں سب سے پہلے انہوں نے ‘‘نصب العین’’ کو اپنے فلسفہ کی بنیاد ٹھہرایا اور اس پر اپنی ساری تصانیف میں بحث کی ہے۔ عظیم نصب العین کیا ہے؟ صحیح اور غلط نصب العین کا تعین کیسے ہو؟ ان کے نزدیک (۳۶) زندگی کی قوتیں سیماب کی طرح ہیں۔ اگر ان کی کوئی سمت متعین نہ ہو تو کبھی ایک طرف اور کبھی دوسری طرف لڑھک جاتی ہیں۔ نصب العین فرد کی زندگی کا مرکز ہے، جس کی طرف اس کی تمام قوتیں سمٹ کر آ جاتی ہیں۔ نصب العین کی محبت کے بغیر ہم اپنی کسی اندرونی یا بیرونی قوت کو استعمال میں نہیں لا سکتے۔ نصب العین ایک ایسی قوت ہے جس کے اثر سے ایک پوری قوم کے ہاتھ پاؤں متحرک ہو جاتے ہیں اور سینکڑوں نگاہیں بیک وقت اپنا زاویہ بدل لیتی ہیں۔ ہمارے چھوٹے چھوٹے مقاصد نصب العین کے ذیلی اور ضمنی مقاصد ہوتے ہیں جو اس کی اعانت کے لیے پیدا ہوتے ہیں اور ہم ان کو نصب العین کی محبت اور کشش ہی کی وجہ سے اہمیت دیتے اور حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گویا نصب العین کی محبت ہمارے تمام اعمال کی قوت محرکہ ہے۔
نصب العین کے تعین کی ضرورت واہمیت کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’جب سے انسان کو اپنے آپ کا شعور حاصل ہوا ہے، انسان ایک ایسے نصب العین کی جستجو میں مصروف ہے جس کے سامنے وہ مستقل طور پر اور اپنے دل کی پوری رغبت کے ساتھ اپنی والہانہ محبت اور خدمت اور اعانت اور ستائش اور پرستش کے نذرانے پیش کر سکے۔ یعنی ایک ایسا نصب العین جو حسن اور کمال کے بلند ترین اور دائمی اور ابدی اوصاف سے آراستہ ہو، تا کہ اس کی محبت، انحطاط اور زوال اور مایوسی کے حادثات سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ رہے’’۔ (۳۷(
ڈاکٹر صاحب نصب العین کے حسن و قبح کو پرکھنے کے لیے چند اصول متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کی عمومی و خصوصی صفات بیان کرتے ہیں۔
عمومی خصوصیات:
۱۔ جو ہر اُس نقص یا عیب سے پاک ہو، جس کا ہم انسان ہونے کی حیثیت سے تصور کر سکتے ہیں۔
۲۔ جس میں وہ تمام اوصاف بدرجہ کمال موجود ہوں، جن کو ہم اپنی فطرت کے تقاضوں کی بنا پر عمدہ اور حسین اور قابل ستائش اور لائق محبت سمجھتے ہیں۔
خصوصی صفات:
۱۔ نصب العین کا حسن غیر محدود اور لازوال ہو۔
۲۔ انسان خود زندہ ہے، اس لیے اس کا نصب العین بھی زندہ و محترک ہو۔
۳۔ نصب العین اور اس کا حسن ہمیشگی کی مکمل ضمانت سے ہو۔
۴۔ نصب العین ایسی قوت متحرکہ ہو، جو زندگی کے سہارے احساسات سے مزین ہو۔
۵۔ نصب العین صاحب قدرت و قوت ہو۔
۶۔ نصب العین کے اندر نیکی کے سارے اوصاف پوری طرح موجود ہوں۔
۷۔ نصب العین بے نظیر اور بے مثال ہو۔ اس کا ہمسر اور شریک نہ ہو۔
۸۔ نصب العین کائنات کی تخلیق کے مدعا کے مطابق ہو۔ (۳۸)
ڈاکٹر صاحب نصب العین کی تعریف، اس کی عمومی و خصوصی خصوصیات، اس کی ضرورت و اہمیت، غلط اور صحیح نصب العین کی بحث کے بعد اس عظیم نصب العین کا اعلان کرتے ہیں۔ یعنی عقیدہ ٔتوحید، خدا کی وحدانیت ویکتائیت۔ وہ لکھتے ہیں:
’’خالص اور کامل عقیدہ توحید کے اندر تمام انسانوں کے لیے بے حد کشش اور جاذبیت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عقیدہ کوئی خارجی چیز نہیں، بلکہ خدا کی محبت کے ایک مستقل اور طاقتور جذبہ کی صورت میں انسان کی فطرت کے اندر موجود ہے’’۔ (۳۹(
عقیدہ توحید کو اپنا نصب العین قرار نہ دینے سے مسلمان جس بے چارگی اور بے بسی سے دوچار ہیں، اس کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اس وقت دنیا بھر میں مسلمانوں کی بے چارگی اور بے بسی کا باعث یہ ہے کہ انہوں نے عقیدہ توحید کو مظاہر قدرت کے علم سے، جسے ان دنوں سائنس کا نام دیا جاتا ہے، الگ کر دیا ہے۔ اور اس طرح سے اپنے سب سے زیادہ طاقتور آلہ حرب و ضرب کو، جو انہیں امن و جنگ دونوں حالتوں میں کام دیتا ہے، کند اور بے کار کر دیا ہے۔ لہٰذا وہ دوسری قوموں کو عقیدہ توحید کی تبلیغ اور تعلیم سے مفتوح اور مغلوب کرنے سے عاجز ہیں۔ بلکہ اس عاجزی کی وجہ سے وہ دوسروں کے مفتوح اور مغلوب ہوتے چلے جاتے ہیں’’۔ (۴۰(
اسلام کی تعبیر و تشریح کے بنیادی اصول و شرائط:
ڈاکٹر صاحب نے انتہائی تدبر و کمال سے اسلام کی تعبیر و تشریح کو ناگزیر ثابت کیا ہے۔ ان کے نزدیک عقیدہ توحید بنیادی محور ہے۔ خدا کی محبت اور اس کی رضا مقصودِ انسانی ہے۔ اسے ہر دور میں حاصل کرنے کے لیے اس دور کے صحیح اور جائز طریقوں کو استعمال کرنے میں کوئی امر مانع نہیں۔ ضروری بات واضح اور صحیح نصب العین کا تعیّن ہے۔ چنانچہ اس مقصد کی خاطر انہوں نے ایک ایسے فارمولے یا قواعد کی تشکیل کی کوشش کی ہے جس کی روشنی میں آمدہ حالاتِ جدیدہ کو اسلام کے معیّن اصولوں کی روشنی میں تعبیرو تشریح کے عمل سے گزرا جائے۔ اس کے لیے انہوں نے دو باتوں کو بنیاد بنایا ہے۔ ایک صداقت اور دوسری برائی۔ ان کے نزدیک اس کائنات کا بنیادی کردار ‘‘انسان’’ ہے۔ مذاہب کا بنیادی مقصد اصلاح احوال ہے۔ تمام انبیاء و رسل سچائی کی تلقین و تبلیغ کرتے رہے اور برائیوں سے اجتناب برتنے کی تلقین کرتے رہے۔ اس لیے اس اصول کو اپنا کر:
’’صداقتیں جہاں کہیں اور جب کہیں جنم لیں، وہ قرآن کا معنوی حصّہ ہوں گی۔ برائیاں جب کہیں، جہاں کہیں جنم لیں گی، قرآن ان سے بے زار ہو گا۔‘‘(۴۱)
صداقتوں کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یہ علمی صداقت ایک خوفناک آلۂ حرب و ضرب ہے، جو یا دشمن ہمارے خلاف اپنے کام میں لائے گا اور یا ہم دشمن کے خلاف اپنے کام میں لائیں گے۔ ہمارے لیے پہلی صورت کا نتیجہ ہلاکت ہے اور دوسری صورت کا نتیجہ زندگی’’۔(۴۲)
اسلام کی تعبیر و تشریح ایسا عمل نہیں جسے ہر کوئی سر انجام دے سکے۔ ڈاکٹر صاحب اس کے لیے چند لوازم کا تعیّن کرتے ہیں، جو تعبیرو تشریح کے عمل میں شریک لوگوں میں پائے جانے ضروری ہیں۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:
‘‘اول (۴۳) وہ روح قرآن کے ساتھ پوری واقفیت پیدا کریں۔ دوم وہ مغرب کے غلط تصوّرات کے اصل ماخذ اور ان کے متبعین کے طرز خیال و عمل سے پوری واقفیت پیدا کریں۔ سوم وہ علم کے تمام شعبوں سے واقفیت پیدا کریں۔ چہارم اپنی قوم کے علاوہ دوسری اقوام کے فضلاء و حکماء کی تحقیقات کو ذہن میں رکھیں۔ پنجم، وہ علمی دنیا کے مسلمہ حقائق سے آغاز کر کے قرآنی حقائق کی طرف آئیں۔ ششم، کسی غلط تصوّر کی تردید کریں تو اس کی جگہ دوسرا تصوّر مہیا کریں۔ہفتم، فلسفیانہ خیالات میں تردید سے بچیں۔’’
اسلام کی تعبیرو تشریح کی بنیاد پر جو صداقتیں سامنے آئیں، لازم ہے کہ وہ کڑی شرائط پر پوری اترتی ہوں۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کے لیے چند اصول بیان کیے ہیں:
۱۔ ایسی تعبیر و تشریح جو کسی علمی صداقت سے متصادم نہ ہو، بلکہ ہر زمانہ میں تمام علمی صداقتوں کے ساتھ پوری طرح ہمنوا اور ہم آہنگ رہے اور جوں جوں نئی علمی صداقتیں منکشف ہوں، وہ اس کے اندر سماتی چلی جائیں۔
۲۔ جس کے تمام تصورات ایک دوسرے کے ساتھ عقلی ربط و ضبط رکھتے ہوں … یہ اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے، جب اس کے تمام تصورات قرآن کے مرکزی اور بنیادی تصور یعنی عقیدہ توحید کے ساتھ عقلی طور پر متعلق ہوں۔
۳۔ جو تمام باطل فلسفوں کی مؤثر تردید کرتی ہو۔
۴۔ جو کائنات کا ایک مکمل فلسفہ ہو …
۵۔ جو علمی تصوّرات کی خامیوں کو آشکارا کر کے انہیں پاکیزہ اور شستہ بناتی ہو۔
۶۔ جو ہمیں احکام دین کی حکمتوں اور علتوں کے پورے سلسلہ سے آگاہ کرتی ہو۔ اور ان حکمتوں اور علتوں کا ایسی تصور دیتی ہو، جس میں اندرونی طور پر کوئی تضاد نہ ہو۔(۴۴)
حوالہ جات
۱۔ ’’اسلامی تعلیم’’ آل پاکستان اسلامک ایجوکیشن کانگرس لاہور کا دوماہی مجلہ۔ جلد۲، شمارہ۶ ۔ نومبر، دسمبر ۱۹۷۳ء ۔مضمون نگار: چوہدری مظفر حسین۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین نمبر۔ ص۳
۲۔ ایضاً، ص ۱۲
۳۔ ایضاً، ص ۲۱
۴۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین ‘‘قرآن اور علم جدید ’’ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور طبع سوم ۱۹۵۹ء ص ۱۰۰
۵۔ ایضاً، ص ۱۸۱ ۔ اس کے علاوہ اسی موضوع پر ڈاکٹر صاحب کی انگریزی کتاب ‘‘آئیڈیالوجی آف دی فیوچر’’ ص ۱۹۱ پر بھی بحث کی گئی ہے۔
۶۔ ایضاً، ص ۲۸۳، ۳۳۸ ۔یہی بحث ‘‘آئیڈیالوجی آف دی فیوچر’’ ص ۱۷۵ پر ملاحظہ ہو
۷۔ ایضاً، ص ۳۵۳۔ ایضاً، ص ۳۱۳
۸۔ ایضاً، ص ۵۲۰
۹۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین ‘‘آئیڈیالوجی آف دی فیوچر’’ انگریزی ، دعوہ اکیڈمی، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد۔ نظر ثانی ایڈیشن ۱۹۹۰ء، ص ۱۹
۱۰۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین ‘‘قرآن اور علم جدید’’ ص ۱۰۳
۱۱۔ ایضاً، ص ۱۰۹
۱۲۔ ایضاً، ص ۱۱۰
۱۳۔ ایضاً، دیباچہ ص ف
۱۴۔ ایضاً، ص ۱۱۱
۱۵۔ ایضاً، ص۱۱۶
۱۶۔ ایضاً، ص۱۱۷
۱۷۔ ایضاً، ص۱۲۱
۱۸۔ ایضاً، ص۱۲۳
۱۹۔ ایضاً، ص۱۲۴، ۱۲۵
۲۰۔ ایضاً، ص۱۲۶
۲۱۔ ایضاً، ص۱۲۷
۲۲۔ ایضاً، ص۱۲۸
۲۳۔ ایضاً، ص۱۲۸
۲۴۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین ‘‘آئیڈیالوجی آف دی فیوچر’’ انگریزی، ص ۴۱۸
۲۵۔ ایضاً، ‘‘قرآن اور علم جدید‘‘، ص ۱۳۶
۲۶۔ ایضاً، ‘‘اسلامی تحقیق کا مفہوم، مدعا اور طریق کار’’ ص ۲۱
۲۷۔ ایضاً ‘‘قرآن اور علم جدید’’ ص ۴۷
۲۸۔ ایضاً، ص۴۸
۲۹۔ ایضاً، ص۶۲
۳۰۔ ایضاً، ص۶۳
۳۱۔ ایضاً، ص۶۹
۳۲۔ ایضاً، ص۷۵
۳۳۔ ایضاً، ‘‘اسلامی تحقیق کا مفہوم، مدعا اور طریق کار’’ ص ۴۴
۳۴۔ ایضاً ‘‘قرآن اور علم جدید’’ ص ۸۱
۳۵۔ ایضاً، ص ۸۴
۳۶۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین ‘‘حکمت اقبال’’ ترجمہ: ڈاکٹر ابصار احمد ‘‘حکمت قرآن’’ اگست ۱۹۸۸ء قسط ۱۳، ص ۴۶
۳۷۔ ایضاً، ‘‘منشور اسلام’’ ترجمہ: ڈاکٹر ابصار احمد ‘‘حکمت قرآن’’ قسط ۲۔ شمارہ مارچ ۱۹۸۷ء، ص ۴۱
۳۸۔ ایضاً، ص ۴۲، ۴۳
۳۹۔ مظفر حسین (مدیر) ‘‘اسلامی تعلیم’’ (رفیع الدین نمبر) شمارہ ۶، جلد۲، نومبر، دسمبر ۱۹۷۳ء، ص ۷ (یہ غیر مطبوعہ تحریر کی صورت میں اس رسالے میں دی گئی ہے)
۴۰۔ ایضاً، ص ۶
۴۱۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین ‘‘قرآن اور علم جدید’’ (دیباچہ ملاحظہ کیجیے) ص ب
۴۲۔ ایضاً، ص ۸۶
۴۳۔ ایضاً، ص۹۳
۴۴۔ ایضاً، (دیباچہ ملاحظہ کیجیے) ص ب
*****